(Last Updated On: )
مومی آپ نے ڈیکوریشن ایملوئیز کو کال کر دی تھی نہ میں اب باہر سائکلنگ کے لیے جارہی ہوں”شام سات بجے کا وقت تھا “اوکے ڈئیر رات کو کیک پک کر لینا بیکری سے” مومی نے اسے ریمائنڈ کیا۔استنبول میں آج برف کے گولے عام دنوں سے زیادہ گر رہے تھے۔گزرتی شام کے شام کے ساتھ سردی بھی شدت اختیار کر رہی تھی۔ویدر فورکاسٹ کے مطابق آج ٹمپریچر کافی حد تک گر سکتا تھا۔ اسی لیے اسنے رات گیارہ بجے تک گھر پہنچنے کا ارادہ تھا۔
ڈور بیل بجتے ہی مومی نے دروازہ کھولا “ہاوس ڈیکوریٹرز آپ نے آج کی بکنگ کروائ تھی دو درمیانی عمر کے لڑکے اور ایک نوجوان لڑکا جن کے سر پر کیپس تھی اندر داخل۔ہوئے “آپ لوگ کام شروع کریں میں آپکو گھر دکھاتی ہوں یہ لاونج اور یہ لونگ روم یہاں گلٹری ربنز سیٹ کرنے ہیں اور کرٹینز پر بیلونز آئے گیں سلور اور پنک کا تھیم چاہیے۔اینٹرینس پر مجھے لائٹننگ چاہیے آئے وانٹ ایوری تھنگ ٹو بی پرفیکٹ آخر میری اکلوتی بیٹی کی برتھڈےI want to make it memorable” وہ فرط جذبات سے کہہ رہیں تھیں “we shall surely make it memorable for you mam” ان میں سے ایک نے مسکراتے ہوئے کہا اس مسکراہٹ میں جانے کیا تھا کہ وہ کچھ دیر کو اس نوجوان کو دیکھنے لگیں کہ وہ جلدی سے کام پر لگ گیا وہ خود بھی انہیں کام کرتا چھوڑ کر لونگ روم میں آگئیں ابھی انہیں بہت سے کام نمٹانے تھے۔۔۔۔
**********************
پارٹی اپنے عروج پر تھی ہر طرف سڈوڈنڈٹس کونسل کے میمبرز کو مبارک باد دے رہے تھے۔ سونگز اور سموک کے اس ماحول میں ہر طرف جشن کا اک سماں برپا تھا۔لیکن اس پر فسوں ماحول میں بھی اک اداسی سی اس پر چھائ ہوئ تھی۔ جانے کیوں اسے یوں محسوس ہورہا تھا کہ کوئ اس پر نظر رکھے ہوا تھا یا اسکے تعقب میں تھا۔ وہ دانیال کو عدنان اور اسکے گروپ کے متعلق انفارم کر چکی تھی کے ان کے ارادے ٹھیک نہیں تھے لیکن اسنے پوری بات اس پر کھولی نہ تھی کہ وہ اپنی ذات کو کسی کے بھی سامنے مجروع کرنے کے بلکل خلاف تھی۔ جیسے جیسے پارٹی اپنے اختتام پر پہنچ رہی اور سب جانے کے لیے نکل رہے تھے اس نے عائشہ اور سمن کو اب جانے کے لیے بلایا۔
سمن کو اسکا ڈرائیور لینے آچکا تھا اسی لیے اس کے ضد کرنے پر عائشہ بھی اسکے ساتھ چلی گئ۔وہ ڈگ بھرتے ہوئے گاڑی کے قریب پہنچنے ہی والی تھی جب اس کے پاوں کے بلکل قریب سے ایک بائک گزری “کہاں جا رہی ہیں مخترمہ آپ کا کچھ ادھار چکانا ہے وہ چکائے بغیر آپکو جانے نہیں دے سکتا میں”اک شاطرانا مسکراہٹ اس کے لبوں پر امڈ آئی۔ اک سرد لہر اسکے رگوں پیر میں دوڑ گئ۔۔۔۔
اسے اپنے پیچھے بھی کچھ بائکس کی آواز آ رہی تھی۔”سو مائے ڈئیر لیڈی بتائیے آپ کی کیسے تواضع کی جائے”۔ موٹر بائکس کی آواز مزید قریب آنے لگی۔”لگتا ہے آپکو شرافت کی زبان سمجھ آتی ہی نہیں ہے۔میں گارڈ کو انفارم کرتی ہو”اسنے موبائل پر نمبر ملاتے ہوئے کہا ہی تھا کہ پیچھے سے بائک پر آتے لڑکے نے اسکے ہاتھ سے موبائل چھین لیا”آرے اسکی کیا ضرورت ہے میں نہیں چاہتا تھا کہ آپ کے ساتھ گزرنے والے وقت میں کوئ ہمیں ڈسٹرب کرے اسی لیے انہیں بھیجنا پڑا”وہ جانتی تھی عدنان اور اس کے گروپ کے اثرورسوخ۔ اہ خوف سا اس میں پیدا ہوا۔”بوئیز تم لوگ جاو انہیں میں دیکھ لوں گا”۔
بائک پر سوار وہ تینوں لڑکے اسکے اشارے پر وہاں سے نکل گئے۔ سنسان پارکنگ ایریا میں اب صرف وہ اور عدنان رہ گئے تھے۔”سو سویٹ ہارٹ اپنا کچھ قیمتی ہمیں بھی عنایت فرمائیں”اب وہ بائیک سے اتر کر اسکے قریب آنے لگا۔اسنے exit گیٹ سے وہاں سے نکلنا چاہا مگر وہ بند تھا یہ بھی ان تینوں کی سازش تھی۔آنسو امڈ امڈ کر چہرے کو بھگونے لگے جب وہ اس سے دور بھاگی۔”جسٹ سٹے اوے فروم می”وہ چلائ مگر وہاں سننے والا تو کوئ نہ تھا۔”اک تو آپ خود اتنی دلکش ہیں کہ نگاہیں بھٹک جاتی ہیں اور پھر چاہتی ہیں کہ کوئ آپ کی قربت کو بھی نہ ترسے”اس نےاسکی آستینوں سے جھلکتے ہوئے دودھیا بازووں کو دیکھتے ہوئے خمار آلود لہجے میں کہا۔
وہ اب اک بند گلی کے موڑ پر پہنچ چکی تھی۔ جہاں سے ہر راہ مقفل تھا۔ وہ اب ڈگ بھرتا ہوا اس کے قریب آرہا تھا۔ دونوں بازووں کو اپنے گرد لپیٹے وہ بلکل سہمی سی کھڑی تھی۔وہ اس کے بلکل قریب پہنچنے والا ہی تھا کہ کسی نے پیچھے سے اسکے سر پر شدید حملہ کیا۔وہ اسے گھسیٹتا ہوا باہر لے گیا۔حور کچھ لمحے تو سانس لینا ہی بھول گئ اسے زندگی میں میں پہلی اپنے سامنے چلتے منظر پر حیرت ہوئ تھی۔
اس نے عدنان پر کئ ضربیں لگائ جس کے باعث کچھ لمحے کو اسکا سر چکرا گیا اور وہ زمین پر جا گرا۔”حور گاڑی میں بیٹھو”عرشمان نے سختی سے کہا”عرشمان تم تم۔۔یہاں”اسے اب تک یقین نہیں آرہا تھا۔”حور آئے سیڈ جسٹ سٹ انٹو دا کا”اس پر اسکی آواز میں پہلے سے زیادہ سختی تھی۔وہ کانپتے وجود کے ساتھ چلتے ہوئے کار میں بیٹھی۔وہ واپسی کے لیے مڑا ہی تھا کہ عدنان نے جیب سے چاکو نکالا اور عرشمان کے پاوں کے گرد پھیرا۔
اک دبی دبی سی شیخ اسنے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ کر اسے باہر آنے سے روکا۔عرشمان نے اسے گریبان سے پکڑ کر اسکا سر دیوار پر دے مارا عدنان اپنے حواس بہال نہ رکھ سکا اور زخمی قدموں سے چلتا ہوا کار کی ڈرائونگ سیٹ پر بیٹھا۔”عرشمان میری بات تو سنو”اسنے روندھی ہوئ آواز میں کہا۔”I dont want to hear even a single word of you..you understand”اسنے تلخ لہجے میں کہا تو چپ ہو گئ۔گاڑی بہت تیز رفتار سے اپنی منزل پر رواں تھی۔
*******************
استنبول پر آج کی رات کچھ لوگوں پر بہت بھاری اتری تھی۔ جس کا اندازہ کچھی گھنٹوں میں ہوگیا تھا۔ مومی لونگ روم کی سیٹنگ اور باقی ارینجمنٹس دیکھ رہی تھی۔ انھوں نے نیبرز میں سے بھی صرف اپنی ایک دوست کو بلایا تھا۔ نئے کرٹنز اور کوشن کورز ابھی ڈالنے تھے ۔وہ اپنے روم سے سب کورز اختیاط سے اٹھاتے ہوئے لونگ روم میں لے آئے۔ الکٹرک ہیٹر کمرے میں گرماہٹ پیدا کیے ہوئے تھا۔
ڈیکوریٹرز باہر گھر کو سجانے میں مصروف تھے لیکن کچھ تو ایسا تھا جو کھٹک رہا تھا۔ ان تینوں میں سے ایک نوجوان لڑکا زینے چڑھتا ہوا اوپر آیا۔ اپنا سامان ایک سائیڈ پر رکھا۔ وہ پورے گھر کا جائزہ لے چکا تھا۔ ایک بڑے کمرے کے ساتھ ہی گھر کا مین سوئچ بورڈ تھا اس لڑکے نے جلد ہی اپنے بیگ سکروز اور دیگر آلات نکالے۔ سوئچ بورڈ کھولتے ہی اسنے پورے گھر کی وائرنگ کا جائزہ لیا۔اور جلد ہی اپنے کام پر لگ گیا۔کچھ وائرز کٹ کرکے انہیں آپس میں بدل کر۔ اسنے مسکراتے ہوئے مین سوئچ بورڈ بند کیا۔اور جیب سے موبائل نکالا”ڈیڈ کام ہو چکا بس آپ اگلے آدھے گھنٹے تک انکل کے ساتھ آجئیے گا۔۔۔جی بلکل کوئ ثبوت نہیں چھوڑا سب کچھ ایک حادثے کا منظر ہی پیش کرے گا”کہنے کے ساتھ ہی وہ کال کٹ کرکے نیچے آیا اور ان دونوں کو اشارہ کیا۔”میم ہمیں اس ڈور پر بیلونز لگانے ہیں جس کے لیے ڈور کلوز کرنا ضروری ہے”اسنے اجازت طلب کی”اوکے” کہنے کے ساتھ ہی اس نے لونگ روم کو مقفل کر دیا
وہ تینوں خاموشی سے کوٹیج سے باہر نکل گئے۔اندر کام کرتی مومی کو یہ معلوم نہ تھا کہ خدا نے اسکے مقدر میں کوئ اور ہی آزمائش لکھی تھی۔ کام کرتے ہوئے انہیں کمرے میں الکٹرک ہیٹر کی بڑھتی ہوئ حدت محسوس ہوئ لیکن جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا انہیں مزید گرمائش محسوس ہونے لگیں انہوں نے ہیٹر بند کرنے کی کوشش کی مگر اسکا ٹمپریچر اوپر ہی بڑھتا گیا۔انہیں اچانک گھٹن محسوس ہونے لگی۔وہ لونگ روم کے سوئچ بورڈ کی طرف جا ہی رہیں تھی کہ انہیں اس میں سے آگ کی لپٹیں نکلتی محسوس ہوئ جو کہ اب قریب کرٹنز کو بھی جلانے لگیں ہر طرف آگ کا سماں اچانک ہی پورے گھر کی لائٹس آف ہو گئیں ۔آگ تیزی سے پھیلتی جارہی تھی۔
انہوں نے لونگ روم کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر وہ مقفل رہا۔انہوں نے اپنے ذہن پر زور دیا وہ مسکراہٹ۔۔۔اس لڑکے کی مسکراہٹ بلکل وجاہت جیسی تھی۔۔۔انس وجاہت میرے خدا!!!!! انہوں نے اسے آخری بار سات سال کی عمر میں دیکھا تھا وجاہت کی پارٹی میں جب جوسیف اور وہ سات برس کا تھا۔ انہیں شکلیں کبھی نہیں بھولتی تھی۔”جوسیف”وہ خلق کے بل چلائ تھیں مگر یہاں سننے والا کون تھا۔آگ ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لینے لگی۔
کرسٹی کا دل بہت بے چین ہورہا تھا سو وہ جلد سے جلد کیک پک کرکے گھر پہنچی اس نے کافی بار بیل دی وہ تو اسکے پاس کیز تھی سو اسنے جلد ہی ڈور کھول لیا۔ اور اندر کا منظر دیکھ کر اس کا سر چکرانے لگا۔اندھیرے میں ڈوبا کوٹیج آگ کی لپٹوں میں جھلس رہا تھا وہ پورے کوٹیج میں چلانے لگی “مومی” ہاتھ میں پکڑا کیک زمین بوس ہوچکا تھا۔ شعلے گر گر کر اردگرد پھیل رہے تھے۔ اسے لونگ روم میں اک سایہ سا محسوس ہوا۔ “مومی”وہ پھر چلائ مگر کوئ جواب وسول نہ ہوا وہ باقی سب کمروں مین انہیں تلاش کر چکی تھی بس لونگ روم کا دروازہ ہی جام تھا
۔وہ ہچکیوں اور سسکیوں سمیت رونے لگی۔ آگ اب پورے گھر میں پھیلنے لگی تھی مگر اسے کسی کی پروانہیں تھی اس نے تین چار بار دروزے کو کھولنے کی کوشش کیا اور بلاخر وہ کھل ہی گیا آگ سے بچتے ہوئے وہ مومی کے قریب پہنچی جو بری طرح جھلس چکی تھی “کرسٹی یہاں سے چلی جاو وہ تمہیں بھی ختم کر دے گے۔ ان کا پورا جسم خون آلود تھا۔ وہ اپنی آخری سانسوں میں کہہ رہیں تھی”انہوں نے اپنے غلط عزائم کے باعث مجھے نہیں چھوڑا وہ تمہیں بھی نہیں چھوڑیں گے”وہ دم توڑ گئ۔ آج کی رات اسکی تباہی کی رات تھی وہ دیوانوں کی طرح چیخنے لگی۔
“بلکل ٹھیک کہا تمہاری مومی نے کہ وہ تمہیں نہیں چھوڑیں گے”وہ ہال سے چلتا ہوا لونگ روم میں اینٹر ہوا “تم انس تم”وہ بدحواس ہونے لگی”تم نے مجھ سے میری محبت چھیں لی تم نے مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا وہ اسکا گریبان پکڑتی ہوئ جنونی ہونے لگی”تمہاری موم آسانی سے وہ سب ہمارے حوالے کر ہی نہیں رہیں تھی تو یہ سب کرنا پڑا۔اب کے انس نہیں اندر داخل ہوتے ہوئے دو حویلے بولے تھے ڈیڈی اور وجاہت انکل”پراوڈ آف یو سن ” اب کریسٹین کی سمجھ میں سب آگیا تھا۔
انس نے اس سے ایک بار پوچھا تھا کہ اسنے استنبول سے کیا سیکھا ہے تب اسکے پاس کوئ جواب نہین تھا مگر اس آگ اور برف کی رات مین اسنے خود کو مضبوط کرنا سیکھا تھا جو چیز اسکی مومی نے کسی کے حوال کی تو وہ کیسے کر سکتی تھی۔۔۔۔۔۔
ریش ڈرائیو کرتے ہوئے اسنے کار اسکے اپارٹمنٹ کے باہر کھڑی کی۔وہ تمام راستہ خاموش رہی تھی۔اسکا موڈ اب بھی بہال نہیں ہوا تھا۔ وہ کار سے اتر کر اسکی طرف آئ اور دروازہ کھولا۔”تم میرے ساتھ اوپر چلو درشمان تمہارا پاوں زخمی ہے”اسنے اسکی بات کا جواب نہیں دیا اور کار سٹارٹ کرنے لگا اسی وقت حور نے جھک کر کار کی کیز نکالیں تو وہ خشمگیں نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔”اب چلو بھی”حور نے التجا کرتے ہوئے اسکی جانب ہاتھ بڑہایا جسے وہ نظرانداز کرتا تن فن کرتے ہوئے اوپر جانے لگا۔حور نے اتنے میں ہی شکر کیا کہ اسنے اسکی بات مان لی۔
وہ اسکے پیچھے ہی اپارٹمنٹ میں داخل ہوئ اسکے پاوں کے گرد زخم اب بھی تازہ تھا۔ وہ میڈیسن بوکس لے کر آئ اور اسکے قریب ہی دو ذانوں زمین پر کارپیٹ پر بیٹھ گئ۔وہ صوفے پر بیٹھ چکا تھا مگر اب بھی اکھڑا اکھڑا سا تھا۔اسنے لیسز کھولے ہی تھے کہ اسے منہ کرکے وہ خود شوز اتارنے لگا۔اسنے پائیوڈون سے زخم کے اردگرد کی سطح صاف کی اور اب اس پر صفائ سے بینڈیج باندھنے لگی۔ اس تمام عمل کے وہ اسے دیکھتا رہا۔مگر بولا کچھ نہیں۔
جونہی اسنے اپنا کام مکمل کیا وہ اس کے پاس سے اٹھ کر واش بیسن کی طرف چل دیا۔وہ باہر آیا تو وہ حور کو کافی فریش لگا بالوں اور بازووں پر اب بھی نمی باقی تھی وہ شاید کچھ تلاش کر رہا تھا۔”کچھ چاہیے؟”حور نے استفسار کیا۔”جائے نماز چاہیے” عرشمان نے مختصر جواب دیا۔وہ لاونج میں الماری سے جائے نماز نکال کر لائ اور اسے تھما دی
جائے نماز بچھا کر وہ نیت کرتے ہوئے مہویت سے نماز ادا کرنے لگا
۔وہ کچن میں اسکے لیے دودھ گرم کرنے لگی اور ساتھ ساتھ اسے بھی دیکھ رہی تھی جو اب رکوع سے سجدے میں جا رہا تھا۔اسکی عبادت میں اک کشش تھی کہ قریب بیٹھ کر وہ اسے خاموش مگر مطمئن نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی دعا مانگنے کے بعد وہ اسکی طرف متوجہ ہوا۔ “ایسے کیاں دیکھ رہی ہو”اسنے حور کے قریب بیٹھتے ہوئے نرمی سے کہا
“اب خفا نہیں ہو مجھ سے”اسنے رخ موڑتے ہوئے کہا”نہیں”اسنے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا”کیونکہ مجھے اپنے خدا پر یقین ہے اسکے ہر معاملے میں کوئ مصلحت ضرور ہوتی ہے”اسنے اسے سمجھاتے ہوئے کہا”تمہیں خدا سے اتنی محبت ہے”حور نے دلچسپی سے پوچھا”اس سے بھی کہی زیادہ”عرشمان نے مسکراتے ہوئے کہا اسکی آنکھوں میں اک خوبصورت سی چمک تھی جس سے نظریں چرا گئ۔
“مگر ایک شکایت ہے مجھے تم سے اگر وہ سب تم مجھے پہلے ہی کل رات فون پر بتا دیتی جب میں نے تمہیں کال کی تھی تو مجھے عائشہ سے کریدنا مت پرتا۔تمہیں ذرا بھی اندازہ ہے اگر میں وہاں نہ پہنچتا تو وہ ذلیل انسان کیا کر سکتا تھا یہ سوچتے ہی مجھے خوف آتا ہے اسی لیے اپنے خدا کے حضور شکرانے کے نفل ادا کیے کہ اسنے تمہاری خفاظت کی۔”وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگی وہ اسکی زندگی میں آنے والا پہلا مرد تھا جس نے اسکی خفاظت پر اس ہستی کے سامنے اپنا سر جھکایا اور اس پاک ذات کا شکر ادا کیا تھا۔
“مگر تم وہاں آئے کیوں عائشہ تو پہلے ہی جا چکی تھی”اسنے پوچھا۔”مجھے آنٹی نے عائشہ کو لینے بھیجا تھا مگر جب میں یونی پہنچ چکا تھا تو عائشہ نے کال کرکے بتایا کہ وہ سمن نے اسے ڈراپ کر دیا میں کار موڑنے ہی والا تھا کہ مجھے ویرانے میں ایک بائک نظر آئ تو میں اس طرف چلا آیا۔”تم یہ دودھ ختم کر لو”گلاس اسے تھماتے ہوئے حور نے کہا۔وہ پیتے ہی جانے کے لیے اٹھ گیا “اور تم کل ہماری طرف شفٹ ہو رہی ہو عائشہ نے تمہیں بتا دیا ہوگا” اسنے اسے انفارم کیا”اوکے اینڈ آئے ایم سوری ونس آگین” اسنے نرمی سے کہا۔”جسٹ ٹیک کئیر آف یور سیلف”اسنے مسکراتے ہوئے کہا۔
***************
باہر اب بھی موسم یخ بستہ سردی کی شدت میں کوئ کمی نہ آئ تھی۔ “چلو لڑکی ہمارے ساتھ زیادہ وقت نہیں ہمارے پاس کہ یوں ضائع کریں” میں کہیں نہیں جاوں گی سنا آپ لوگوں نے”وہ خلق کے بل چلائ تھی۔ایک زناٹے دار تھپر قریب کھڑے جوسیف نے اسے رسید کیا۔” اور چلتے ہوئے اسکے قریب آئے”بہت ماتم منا لیا تم نے اب سیدھی طرح چلو ہمارے ساتھ”انہوں نے اسے گردن سے پکڑتے ہوئے کہا”نہ چلوں تو کیا کر لیں گے مار ڈالے گے نہ مجھے بھی ڈیڈ تو مار دیں زندہ رہنے کو بچا ہی کیا ہے میرے پاس”وہ ہسٹیرک ہو رہی تھی”اتنی آسانی سے بھلا کیسے مار سکتے ابھی تو تم سے بہت کام لینے ہیں ہمیں”وجاہت نے اپنی مخصوص مسکراہٹ سے کہا۔
“تم لوگ جو مرضی کر لو وہ ڈاکیومنٹس میں تم لوگوں کے حوالے اپنی آخری سانس تک نہیں کروں گی”جسم سے جان آہستہ آہستہ نکلنے لگی”۔انس نے اسے بالوں سے دبوچا “یہ تو وقت بتائے گا کرسٹی”اسنے اپنی گرفت مزید سخت کرتے ہوئے کہا”چلو جانے کا وقت ہو چکا ہے”اسنے پھر دہرایا”کہا نا کہیں نہیں جاوں گی تم لوگوں کے عزائم کبھی پورے نہیں ہوگے” آگے بڑھتے جوسیف کو انس نے روکا اسے تو میں دیکھتا ہوں اور اسےبازووں سے پکڑ کر باہر کی جانب گھسیٹنے لگا اسکے ٹخنے اور کہنیاں زمین سے ڑگڑ کھانے لگی اس آتش فشاں میں اسے خون سے لبریز وجود نظر آیا جو اب اسکے لیے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔”مومی”اپنی رندھی ہوئ آواز میں وہ چلائ۔
وہ اسے بری طرح سے گھسیٹتے ہوئے باہر لے جارہا تھا اس نے مزاحمت کی کوشش کی مگر اب ہمت جواب دینے لگی تھی اسے اپنی آنکھیں بند ہوتی محسوس ہوئیں۔اسے استنبول سے انکرا لے جایا جا چکا تھا اور اس تمام سفر میں خواب آور ادویات کے زیر اثر رہی تھی۔”ہمیں صرف اسکی تب تک ضرورت ہے جبتک وہ پیپرز ہمارے حوالے نہیں کر دیتی اسکے بعد اسکی زندگی اختتام کو پہنچے گی۔
اسے انکرا کے ایک طےخانے میں پھینک دیا گیا تھا جہاں صرف ایک واٹر پول تھا۔ آنکھوں پر سیاح پٹی باندھ دی گئ تھی اور ہاتھ زنجیروں میں مقید تھے۔ “”Its the night to celebrate” وہ تینوں عمارت کے کیبن میں موجود اپنی جیت کا جشن منانے لگے۔مگر آج انکرا کی شام پر سوگواریت طاری تھی۔
آج کی صبح اس پر بہت تر و تازہ اتری تھی۔ فریش ہونے کے بعد اسنے اپنی پیکنگ شروع کر دی۔ اسے آج عائشہ کی طرف شفٹ ہونا تھا سو وہ جلد سے جلد یہ کام ختم کرنا چاہتی تھی۔ پیکنگ سے فارغ ہو کر اسنے عائشہ کو کال اور اپنے آنے کا بتایا”دیٹس گریٹ یار ہم بھی ابھی ماہین کو ائیر پورٹ سے لینے آئے ہیں گھنٹے بھر میں واپس پہنچ جائیں گے”عائشہ نے اسے انفارم کیا۔ لگ بھگ ایک گھنٹے میں فارغ ہو کر عائشہ کی طرف پہنچی۔ وہاں بہت چہل پہل تھی وہ گیٹ کروس کرتی اندر داخل ہوئ۔
لاونج میں سب موجود تھے عائشہ حنا ماہین اور دوسری جانب عرشمان ریحان اور ارسلان۔وہ سب سے ملنے کے بعد سامنے صوفے پر باجمان ہو گئ۔آمنہ آنٹی اسے بہت خوش اسلوبی سے پیش آئ۔ نیوی بلو لانگ شرٹ کے سفید پینٹ پہنے ایک ہاتھ میں بریسلیٹ اور سٹالر گلے کے گرد لیے سلور ہیلز میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی کہ نا چاہتے ہوئے بھی ہر بار نگاہ اسی کی طرف اٹھتی۔ لیکن وہ کسی اور کا جائزہ لے رہی تھی اسکی نگاہیں ریحان کی طرف تھی جو بلکل سنجیدہ طور پر ارسلان سے مہو گفتگو تھا۔حور کی میمقری اسے بتا رہی تھی کہ اس شخص کو اسنے کہیں دیکھا ہے اور یاد آنے پر اسے ایک خوشگوار احساس ہوا البتہ عرشمان کی نظروں میں اسنے ایک الگ سی الجھن دیکھی۔
شام کو وہ اور عائشہ لان میں جھولے پر آبیٹھی عائشہ جونہی اسکے قریب بیٹھی اسنے اسکے دونوں کندھوں کو زور سے دبوچا”حووری کیا کر رہی ہو چھوڑو مجھے درد ہو رہا ہے”اسنے ملتجی نگاہوں سے حور کو دیکھا”خیر چھوڑنے تو میں تمہیں نہیں والی یہ۔۔۔یہ۔۔اندر وہی تھے نہ جو اس تصویر میں موجود ہے جو تمہارے پاس ہے او گوٹ یعنی تم ریحان بھائ کو پسند کرتی ہو۔۔۔ ویسے ہیں کافی ڈیشنگ کپل اچھا لگے گا تمہارااور انکا”اسنے شرارت سے کہا تو عائشہ جھینپ سی گئ۔”انہوں نے تو کبھی غور سے دیکھا تک نہیں مجھے اور تم کہاں پہنچ گئ ہو”عائشہ نے اداسی سے کہا “ڈونٹ وری دیکھے گے اور دیکھتے ہی رہ جائیں گے بس تم دیکھنا۔” اسنے مسکراتے ہوئے کہا”اگر تم نے کچھ الٹا سیدھا کیا نہ تو میں جان لے لوں گی تمہاری”عائشہ نے اسے وارن کرتے ہوئے کہا”تمہارے لیے تو جان بھی حظر ہے مگر رات ڈنر کے لیے ذرا ڈھنگ سے تیار ہونا پھر دیکھتے ہیں ریحان بھائ کیسے اپنے حوش برقرار رکھتے ہیں”حور نے اسے چھیرتے ہوئے کہا “میں کافی بنا کر لاتی ہوں”عائشہ نے فرار ہونے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔
***
جوسیف سٹیون سے شادی ان کی شادی زندگی کی سب سے بڑی غلطی واقع ہوئ تھی۔ادوہ کے فادر انکرا کے ایک بہت بڑے بزنیس مین تھے اور انٹرنیشنل لیول پر بھی اپنا سکہ جما چکے تھے۔ ادوہ انکی اکلوتی اولاد تھی جن کے انہیوں سب ناز اٹھائے تھے جس کے باعث وہ کافی ضدی ہو چکی تھی۔ جوسیف سے انکی پہلی ملاقات ایک مال میں ہوئ تھی جہاں وہ اپنی کمپنی کا ایک کنسائنمنٹ پاس کروانے آئے تھے۔ اک عجیب سا سحر تھا اسکی پرسنیلیٹی میں کہ وہ اس میں جکڑ کر رہ گئ۔ ادوہ کے ڈیڈ نے اسے جوسیف سے شادی نہ کرنے کے لیے بہت سمجھایا کیونکہ وہ دنیا دیکھ چکے تھے۔انہیں شروع سے ہی جوسیف میں کوئ ایسی چیذ نہ ملی جس سے وہ متاثر ہو سکتے۔ اسی عرصے میں انہوں نے شہر سے دور جو بہت بڑے پیمانے پر ایریا لیا تھا جہاں وہ فیکٹریز لگانا چاہتے تھے اسے ادوہ کے نام کر دیا
شادی کے تین سال بہت حسین گزرے لیکن جوں جوں وقت بیتتا جا رہا تھا اسکی شخصیت مسنح ہوتی جا رہی تھی جس میں مین رول وجاہت کا تھا جو اسکا دوست تھا۔وجاہت تین نائٹ کلبز کا اونر تھا تھا فطراتن ایک انتہائ چالباز انسان تھا۔ اس کی صحبت میں ہی جوسیف پر اک فتور سوار ہوگیا وہ راتوں رات امیر ہونا چاہتا تھا اور سب کو اپنی پیروں کی خاک سمجھنے لگا۔ادوہ سے شادی کا مقصد بھی وہ زمین حاصل کرنا تھا۔ اور یہ بات ادوہ کو بھی جلد سمجھ آچکی تھی۔ اسی دوران وجاہت نے گینگسٹرز کیڈنیپرز کے ساتھ مل کر ایک ایسا کام شروع کیا جسے اسے مزید فائدہ ہونے لگا
۔وہ ان لوگوں کو ایریا پرو وائڈ کرتا اور بدلے میں وہ لوگ اسے دولت سے مالا مال کرنے لگے اور مافیعیہ اور انڈر گراونڈ سمگلرز میں اس نے اپنے اثر و رسوخ قائم کر لیے کریسٹین کی پیدائش کے بعد بھی جوسیف ان کاموں سے باز نہ آیا اور اکثر گھر میں بڑھتے جھگڑے لڑائی تک پہنچ جاتے جس کے باعث جوسیف کر یسٹی پر ہاتھ اٹھانے سے بھی باز نہ آتا۔دولت کی ہوس نے اسکی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی۔ لیکن ادوہ نے ہار نہ مانی اور اس سے ڈائیورس لے کر دوسری شادی کرنے کے بعد استنبول شفٹ ہو گئ لیکن ان کی زندگی کا اختتام بہت جلد لکھا تھا۔
**