“مس نینسی فرنینڈس!”
“یس؟”
وہ درمیانے درجے کا ہوٹل تھا۔ جس کے ڈائننگ ہال میں وہ اس وقت بیٹھی تھی۔ معزز دکھائی دینے والا سوٹیڈ بوٹیڈ شخص اس سے مخاطب تھا۔ اور نینسی بظاہر بے پروائی اور عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتی دکھائی دے رہی تھی۔
“تمہیں ہماری مدد کی ضرورت ہے۔”
“اوکے! لیکن میں ایسا نہیں سمجھتی!”
نینسی نے نظریں اطراف میں گھمائیں۔
“تمہیں سمجھنا چاہیے! کیونکہ تم اس ملک کے قانون سے ناواقف ہو۔ اور بدقسمتی سے تم اپنا واحد اثاثہ(کافی شاپ) بھی بیچ چکی ہو۔ تم اپنی ساری کشتیاں جلا کر یہاں آئی ہو۔ اس اجنبی ملک میں تم بالکل بےیارومددگار ہو۔ اگر ہمارے ساتھ ڈیل کرلو تو۔ تمہارے قانونی مسائل ہم حل کرسکتے ہیں۔”
“بدلے میں تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟”
نینسی نے طنز بھری نظروں سے اسے دیکھا۔
“جسٹ آ فیور!”
کہہ کر جواب طلب نظروں سے نینسی کو دیکھا۔
نینسی نے تھوڑی دیر سوچا اور بولی۔
“کیسا فیور؟”
“تم متفق ہو تو ڈیل آگے بڑھاتے ہیں۔”
وہ سینے پر ہاتھ لپیٹ کر بولا۔
نینسی نے دل ہی دل میں اپنے اخراجات کا اور ضرورت کا حساب لگایا۔ فوری طور پر اسے ایک بھاری اماؤنٹ کی اشد ضرورت تھی۔ اور پھر ایب کو برباد کرنے کے لیے وہ کوئی بھی ڈیل کرنے کو تیار تھی۔
“اوکے! ڈن!”
نینسی نے ٹیبل پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔
____________________________________
“ہر مسئلے کا حل نکاح نہیں ہے۔ میں تمہیں اس کا مشورہ نہیں دوں گا۔ لیکن تم یہ سمجھ نہ سمجھنا کہ مجھے اس پرکوئی اعتراض ہے۔ آبریش مجے اپنے بچوں کی طرح ہی عزیز ہے۔ میں صرف تمہاری تسلی کے لیے کہہ رہا ہوں۔ ابشام زبیر کو میں سنبھال لوں گا۔”
ضیاءالدین صاحب اور شہیر پریشان چہرے لیے مرتضی صاحب کے روبرو تھے۔ زعیم نے جب گھر میں قدم رکھا تو انھیں ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے دیکھ چکا تھا۔ اور ان کی بات سنے بغیر بھی وہ جانتا تھا کہ آبریش کو ڈسکس کیا جارہا ہے۔ گذشتہ دوپہر وہ اپنے دوستوں کو ٹریٹ دینے اس ریستورنٹ میں داخل ہوا تھا۔ سیلف سروس کی وجہ سے وہ آرڈر کی ٹرے لے کر پلٹ رہا تھا جب اس نے آبریش کو خود سے دگنی عمر کے شخص کے ساتھ دیکھا تھا۔ اور وہ دور سے بھی اس کے چہرے پر بکھرے رنگوں کو دیکھ کر اندازہ لگا سکتا تھا کہ آبریش کے لیے وہ شخص کیا ہوسکتا ہے؟”
ایک لمحہ کو اس کاجی چاہا شہیر کو کال کرے اور بتائے کہ محترمہ کالج ٹائمنگ میں انکل کے ساتھ ڈیٹ اڑا رہی ہیں۔ لیکن اس کے ازلی دل نے اسے روک دیا۔ کچھ بھی تھا۔ وہ آبریش کا تماشہ بنتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔
وہ چپ چاپ دل پربوجھ لیے اپنے کمرے میں چلا آیا۔ آج سے پہلے جسم وجاں پر ایسی تھکن سوار نہیں ہوئی تھی۔ آج شدت سے وہ دشمن جاں یاد آئی تھی۔اسے وہ منظر بھلائے نہیں بھولتا تھا۔
“تم کب آئے؟”
ضیاءالدین صاحب اور شہیر کے جانے کے بعد مرتضی صاحب زعیم کے پاس آئے تھے۔ اور اسے اسقدر خاموش پاکر انھیں حیرت ہوئی تھی۔
“تھوڑی دیر پہلے۔ جب آپ خالوجان اور شہیر بھائی کے ڈاتھ مصروف تھے۔”
اس نے ٹو دا پوائنٹ جواب دیا۔ اور مرتضی صاحب کو ایک اور جھٹکا لگا۔
“تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟”
زعیم نے توجہ سے ان کی طرف دیکھا۔
“میں کیا بیمار لگ رہا ہوں؟”
اس نے مسکینیت سے پوچھا۔
“کچھ ڈل لگ رہے ہو۔ بتاؤ کیا مسئلہ ہے؟”
مرتضی صاحب نے مسئلہ بھی یوں پوچھا گویا رپوٹ لے رہے ہوں۔”
“نوپرابلم سر! آپ بتائیں آج یہاں کیسے؟”
زعیم نے موضوع بدلنا چاہا۔
“آبریش سے کل نکاح ہے تمہارا۔ خود ذہنی طور پرتیار کرلو۔”
وہ کہہ کر جانے لگے۔
“ڈیڈ!”
زعیم نے پیچھے سے فورا آواز دی۔
“میں یہ نکاح نہیں کرنا چاہتا۔”
ان کے واپس مڑتے ہی وہ تیزی سے بولا۔
مگر مرتضی صاحب کے اطمینان میں کوئی فرق نہیں آیا۔
“میں نے تم سے پوچھا نہیں ہے۔ بتارہا ہوں۔ کچھ شاپنگ کرنا چاہو تو کرلینا۔ میں کریڈٹ کارڈ دے دوں گا۔”
اسکے بعد وہ ٹھہرے نہیں۔ اور زعیم بیڈ کو ٹھوکر مار کر رہ گیا۔ مگر جب چوٹ خود کو ہی لگی تو سسکاری بھر کر پیر پکڑ لیا۔
“یعنی طے ہے کہ چوٹ ہر طرف سے مجھے ہی سہنی ہے۔”
وہ خود کلامی کرکے رہ گیا۔
__________________________________
“تم؟ تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں قدم رکھنے کی۔”
وہ ہاتھ میں پھولوں کا بکے لیے نک سک سے تیار ایک بار پھر شہیر کے سامنے کھڑا تھا۔
“بیٹھ کر بات کریں؟”
شامی نے تہذیب کا مظاہرہ کرتے ہوئے پھول شہیر کی طرف بڑھائے۔
“دفع ہوجاؤ یہاں سے۔۔۔۔ابھی اور اسی وقت! ورنہ میں تمہیں دھکے دے کر بھی نکال سکتا ہوں۔”
شہیر نے قہربرساتی نظروں سے اسے دیکھا۔ مگر آفرین تھی اس شخص کی ڈھٹائی پر۔ جو ذرہ برابر اس پر اثر ہوا ہو۔
“چلا جاؤں گا۔ لیکن ایسے نہیں۔ جس کام سے آیا ہوں۔ وہ کرکے ہی جاؤں گا۔ انکل آنٹی کو بلاؤ مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔”
شامی اطمینان سے صوفے پر براجمان ہوگیا۔
“شہیر! کام ڈاؤن مجھے بات کرنے دو۔”
اس سے پہلے کہ شہیر شامی پر پل پڑتا۔ ضیغم نے مداخلت کرکے اسے روکا تھا۔
“آپ کس کی اجازت سے تشریف لائے ہیں مسٹر؟”
شامی نے ایک نگاہ غلط انداز سے ضیغم کو نوازا۔
“میری! میں نے بلایا ہے۔ اے۔زی کو۔”
آبریش شہیر کی پشت سے بول اٹھی۔
“تم اندر جاؤ! ہم ہیں یہاں بات کرنے کے لیے۔”
شہیر نے سخت لہجے میں آبریش کو متنبہہ کیا۔
“نہیں! آپ لوگ بات نہیں جھگڑا کررہے ہیں۔ ایک بار خاموشی سے ہماری بات سنیں تو سہی۔ ہم کیا چاہتے ہیں؟”
آبریش باز نہیں آئی تھی۔
“آبریش میں نے کہا یہاں سے جاؤ!”
شہیر نے غصیلی نظروں سے آبریش کو دیکھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ آبریش کو اس شخص کی نظروں سے دور کردے۔ لیکن وہ ڈھیٹ بنی کھڑی رہی۔
“کیوں جاؤں میں یہاں سے؟ فیصلہ میری زندگی کا ہورہا ہے۔ تو میری مرضی سے ہونا چاہیے۔ میں صاف صاف بتارہی ہوں بھائی! مجھے اے۔زی کے علاوہ کسی سےشادی نہیں کرنی۔۔۔۔!”
“آبریش۔۔۔۔”
شہیر غضبناک ہوکر آبریش کی طرف بڑھا مگر ایک بار پھر ضیغم آڑے آگیا۔
“کیا کررہے ہو؟ ریلیکس! قابو رکھو خود پر۔”
آبریش ٹس سے مس نہیں ہوئی تھی۔
“تم جاؤ آبریش ہم ہیں یہاں بات کرنے کے لیے۔ تم یہاں سے جاؤ! ورنہ بات بننے کے بجائے مزید بگڑے گی۔”
آبریش کو ضیغم کی بات سمجھ آگئی۔ مگر جانے سے پہلے اسے مخاطب کرکے کہ گئی۔
“ٹھیک ہے ضیغم بھائی! میں جارہی ہوں۔ لیکن میرا فیصلہ اٹل ہے۔”
“اور آپ۔۔۔۔ مسٹر ابشام زبیر!”
آبریش کےجانے کے بعد ضیغم شامی سے مخاطب ہوا۔
“آپ کو ہم سے بات کرنی تھی تو وقت لینا چاہیے تھا۔اس طرح ایک لڑکی کے کندھے پر ہتھیار رکھ کر چلانا کوئی مردانگی نہیں ہے۔”
ضیغم کا لہجہ معتدل تھا لیکن لفظ کاٹدار تھے۔ شامی پہلو بدل کر رہ گیا۔
“معافی چاہتا ہوں!”
شامی جھک کر بولا۔
“ویل۔۔۔۔ میں نہ آتا تو آپ لوگوں کو آنا پڑتا۔ میری تلاش میں۔ میں نے سوچا آپ لوگوں کو کیا پریشان کرنا۔۔۔۔۔۔سو خود ہی چلا آیا۔ ایکچولی! آبریش نکاح کرنا چاہتی ہے۔ اور میں یہ نیک کام اآپ سب کی موجودگی میں کرنا چاہتا ہوں۔”
شامی کا انداز صاف سلگادینے والا تھا۔ شہیر ایک بار پھر اپنا آپا کھونے لگا۔ مگر ضیغم نے اسے روک لیا۔
“ہمیں اس نکاح میں کوئی دلچسپی نہیں۔ بہتر ہے آپ یہاں سے تشریف لے جائیں۔”
ضیغم نے تحمل سے لیکن کڑے لہجے میں اسے باہر کا راستہ دکھایا۔
“یہ بات آپ کس حیثیت سے کہہ رہے ہیں؟ آبریش آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔”
“اس کے ولی کی حیثیت سے!”
جواب پشت سے ضیاءالدین صاحب نے دیا تھا۔ کمرے میں موجود سبھی نفوس نے چونک کر انھیں دیکھا۔
” تم نہیں جانتے لڑکے۔ لیکن آبریش ابھی قانونا اور شرعا خود مختار نہیں ہے کہ اپنے فیصلے خود کرتی پھرے۔ اگر دو منٹ کے اندر تم یہاں سے چلتے پھرتے نہ نظر آئے تو میں پولیس کو کال کردوں گا کہ تم یہاں زبردستی گھس آئے ہو اور افراد خانہ کو ہراساں کررہے ہو۔”
ضیاءالدین صاحب کی بات بالکل دوٹوک تھی۔ شامی کو اٹھتے ہی بنی۔
“اوکے سر! میں تو آپ کی عزت کی خاطر یہاں آیا تھا کہ شاید معاملات بات چیت سے حل ہوجائیں۔ لیکن آپ ایسا نہیں چاہتے تو ایز یو وش! اب نتائج کا ذمہ دار کم از کم میں نہیں ہوں۔ بائے!”
اور آنکھوں پر گلاسز چڑھاتا وہاں سے نکل گیا۔
“آپ کو درمیان میں آنے کی ضرورت نہیں تھی بابا! میں نمٹ لیتا اس سے۔”
شہیر نے تلخی کو حلق سے اتارتے کہا۔
“تم جس طرح اس سے نمٹ رہے تھے۔ دیکھا ہے میں نے۔ ایسے لوگوں سے جوش سے نہیں حکمت عملی سے نمٹا جاتا ہے۔ خیر! جو ہوا اسے جانے دو۔ باقی کے معاملات دیکھو۔ کوئی بدمزگی نہیں ہونی چاہیے۔”
ضیاءالدین صاحب نے کہا اور ضیغم سے مخاطب ہوئے۔
“ضیغم میاں! تم بھی جاؤ۔ شہیر نے خواہ مخواہ تمہیں پریشانی میں ڈال دیا۔”
“ایسی بات نہیں ہے چچاجان! یہ میری گھر ہے۔”
ضیاءالدین صاحب سطوت آراء کی طرف چل دیے۔
“آپ لوگ کچھ بھی کرلیں۔ میری مرضی کے بغیر میری زندگی کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔ میں یہ نکاح کبھی نہیں کروں گی۔”
سطوت أراء آبریش کے کمرے میں اس کی طبیعت درست کرنے کی غرض سے آئی تھیں۔ لیکن اس کا احتجاج عروج پر تھا۔
“تمہیں کوئی شرم و حیا ہے کہ نہیں؟ چپ چاپ تیار ہوجاؤ۔ مجھے سختی پر مت مجبور کرو آبریش!”
سطوت آراء شدید غم وغصہ کا شکار تھیں۔ عشال نے آگے بڑھ کر مداخلت کی۔
“پلیز ماما جان! آپ جائیں میں سمجھاتی ہوں اسے۔ پلیز میں آپ سے منت کرتی ہوں۔”
عشال نے انھیں سمجھا بجھا کر آبریش پر ہاتھ اٹھھانے سے روک دیا۔
“ٹھیک ہے۔ میں جارہی ہوں۔ لیکن اچھی طرح سمجھادو اسے۔ اگر اس لڑکی نے ہماری عزت کو تماشہ بنانے کی کوشش کی تو سب سے پہلے میں زمین میں گاڑ دوں گی اسے۔”
وہ کہہ کر کمرے میں نکاح کا جوڑا چھوڑ کر نکل گئیں۔ پہلے پہل شہیر کے آبریش پر ہاتھ اٹھانے کا انھیں بھی بہت دکھ ہوا تھا۔ مگر آبریش کے تیور دیکھ کر ان کے خاندانی جلال کو بھی جوش آگیا تھا۔
“آبریش میری جان! ہم سب تمہارے دشمن نہیں ہیں۔ پلیز ہماری بات مان جاؤ!”
عشال نے اس کے آگے بس ہاتھ نہیں جوڑے تھے۔ باقی کسر کوئی نہیں چھوڑی تھی۔ لیکن وہ آبریش تھی۔ اپنے نام کی ایک۔
“دشمنی اور کسے کہتے ہیں آپی! کیا خوب محبت جتارہے ہیں آپ لوگ! کسی بوجھ کی طرح سر سے اتار کر پھینک رہے ہیں۔ اور آپ کہہ رہی ہیں۔ میں آپ کی بات مان لوں؟ کیوں۔۔۔۔مانوں میں آپ کی بات؟ یہ میری زندگی ہے۔ اسے اپنی مرضی سے گزارنے کا حق ہے مجھے۔”
وہ سر جھٹک کر بولی تھی۔ عشال نے ایک نظر اسے دیکھا۔ سر سے پاؤں تک ایک عجیب تناؤ تھا اسکے رویں رویں پر۔ عشال کو اسے دیکھ کر ہی اندازہ ہورہا تھا۔ وہ ہٹ دھرمی کی کس نہج پر ہے۔ عشال نے ٹھنڈی سانس بھری اور اس کے قریب بیٹھ کر نرمی سےبولی۔
“تم جانتی ہو۔۔۔۔؟ میں نے اس شخص کے ساتھ پوری دو راتیں گزاری ہیں۔ اور وہ وقت آج بھی سوچوں تو میری روح تھرا اٹھتی ہے۔ میں تمہیں کیسے بتاؤں وہ شخص نہ تمہارے قابل ہے نہ تمہاری محبت کے۔۔۔۔۔! پلیز لوٹ آؤ آبریش!”
عشال نے بڑی امید سے اس کی طرف دیکھا۔ جانے عشال کے چہرے پر ایسا کیا تھا کہ آبریش دم بخود اسے دیکھے گئی۔
“ایک بات بتائیں؟ اس نے آپ کے ساتھ کوئی زیادتی کی؟”
عشال نے آبریش کی آنکھوں میں جھانکا۔
“اس سے بڑی زیادتی کیا ہوگی؟ اس نے میری پاکیزگی کو دنیا کی نظر میں سوال بنادیا۔”
“اور؟”
آبریش نے استفسار کیا۔
“اور؟ میرے لفظ ہزیمت کے اس احساس کو بیان کرنے سے قاصر ہیں جو میں نے ان چند گھنوں کی قید میں اٹھائی۔ تم مجھے چھوڑو۔ کیسا تم ایسا شخص ڈیزرو کرتی ہو؟ جس کے کردار پر کئی سیاہ دھبے ہوں؟ مت منتخب کرو اس آگ کو اپنے لیے۔”
عشال نے ایک بار پھر نرمی سے اسے سمجھانا چاہا۔
“توبہ تو اللہ بھی معاف کردیتا ہے آپی! پھر آپ اسے معاف نہیں کرسکتیں؟ وہ شرمندہ ہے اپنی پچھلی زندگی پر۔ پھر میں کیسے اسے جینے کا ایک چانس نہ دوں؟ میں نے بھی اسے ٹھکرا دیا تو وہ اس دلدل سے کبھی نہیں نکل سکے گا۔ مجھے ایک زندگی بچالینے دیں آپی! پلیز؟”
آبریش اس کی گود میں سر رکھ کر رودی۔ عشال کے لیے اسے روتے دیکھنا بہت مشکل تھا۔
آہستہ سے اس کےبالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔
“تمہارے لیے یہ چند روزہ رفاقت اتنی اہم ہوچکی ہے کہ ہم سب کی محبتیں داؤ پر لگانے کو تیار ہو۔ لیکن وہ لوگ کیا کریں؟ جنھوں نے تمہیں پیدائش سے آج دن تک ان ہاتھوں میں سنبھالا ہے۔ تمہاری ایک مسکراہٹ پر ہمیشہ اپنا آپ قربان کیا ہے۔ جنھیں تمہاری ایک خراش تک گوارا نہیں۔ وہ تمہیں جہنم میں کیسے جھونک دیں؟ آبریش! خدارا سمجھ جاؤ!”
عشال کے لفظ بھیگ گئے۔ آبریش کے دل کو کچھ ہوا۔ مگر اگلے لمحے اس نے خود پر بےحسی طاری کرلی۔
“ٹھیک ہے۔ آپ میری بات سمجھنے کو تیار نہیں ہیں تو مجھ سے بھی کوئی امید مت رکھیں۔”
نروٹھے پن سے کہہ کر وہ باتھ روم میں بند ہوگئی۔عشال ناکام و نامراد واپس لوٹ آئی۔
___________________________________
“ہم ریلشن شپ میں تھے۔ لیکن شادی کی کوئی بات ہمارے درمیان کبھی نہیں ہوئی تھی۔ مگر ایب اکثر کہتا تھا۔ ہم زندگی ساتھ گزاریں گے۔ ہمارے درمیان طے تھا کہ ایک دوسرے کو چیٹ نہیں کریں گے۔ مگر وہ پھر بھی مجھے مسلسل چیٹ کررہا تھا۔ اپنی گمنام محبوبہ کی تصویر سے وہ عشق کرتا تھا۔ اس کی وجہ سے ایب نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا۔ مجھ پر جھوٹا الزام لگا کر میرے ہی ملک میں مجھے جیل بھجوادیا۔ اور خود یہاں آگیا۔ جیل میں مجھے پتہ چلا میں ایکسپیکٹ کررہی ہوں۔ تب میں سب کچھ بھول کر اس کے پاس گئی۔ لیکن وہ ایشیاء کے دورے پر نکل چکا تھا۔ میں نے اس کے سارے کانٹیکٹ ٹرائی کیے وہ کہیں نہیں ملا۔ بڑی مشکل سے سوشل میڈیا کی ایک خبر کے ذریعے مجھے پتہ چلا وہ پاکستان میں ہے۔ مجھے اپنا کافی شاپ بیچنا پڑا۔ اور یہاں میں نے اسے ایک اور لڑکی کے ساتھ دیکھا۔ ایب جیسے مرد محبت کے قابل نہیں ہوتے۔ یہ صرف بھنورے ہوتے ہیں۔ اب میرے دل میں اس کے لیے صرف انتقام ہے اور کچھ نہیں۔”
نینسی اپنے سامنے بیٹھے اسی سوٹیڈ بوٹیڈ شخص کو اپنی کہانی سنارہی تھی۔ جسے وہ بہت دلچسپی سے سن رہا تھا۔
“ٹھیک ہے۔ تم اس سے جیسے چاہو انتقام لے سکتی ہو۔ اس معاملے میں ہم انٹرفیئر نہیں کریں گے۔ ہمیں صرف اتنا سا فیور چاہیے۔ تم ایک بار یہ ساری کہانی اس لڑکی کو سنادو۔ ساتھ اپنی اور ابشام زبیر کی پکس بھی اسے دکھاؤ۔ دوسری اور اہم بات۔۔۔۔اس ملک میں ریلیشن شپ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اپنے بچہ کی کسٹڈی یا اس کے اخراجات کا کلیم کرنے کا تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہاں! تم اپنی ایمبیسی کو انوالو کرکے دھوکہ دہی کا مقدمہ کرو تو شاید تمہیں فائدہ ہوسکے۔ہم تمہاری اتنی مدد کرسکتے ہیں کہ تم سے جو ڈیل ہوئی ہے اس کے مطابق دس لاکھ کی رقم یہ رہی۔”
نینسی نے کیش لے کر پرس میں رکھتے ہوئے کہا۔
“یہ میری ضرورت سے بہت کم ہیں۔”
وہ شخص مینیو میں لنچ کا بل رکھتے ہوئے بولا۔
“ایک فون کال کے لیے یہ بہت زیادہ ہے۔ پھر بھی تمہاری رہائش کا سارابل ہم اٹھارہے ہیں۔ اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔”
اور نینسی کے سامنے سے اٹھ گیا۔ نینسی منہ بنا کر رہ گئی۔
“ناٹ بیڈ!”
وہ رقم کو چھو کر بدمزگی سے بولی۔
اپنی کار میں بیٹھنے کے بعد اس شخص نے مرتضی صاحب کا نمبر پنچ کیا اور سیل کان سے لگا لیا۔
“سر اس عورت سے بات ہوگئی ہے۔ اس کے پاس ایمبیسی کو انوالو کرنے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں ہے۔”
“ٹھیک ہے۔ تم فی الحال اسی پر نظر رکھو۔ کوئی بھی گڑبڑ محسوس کرو۔ مجھے انفارم کردینا۔ اگر وہ ابشام زبیر سے ملتی ہے تو اس کی ساری ڈٹیلز کاریکارڈ مجھے بھیجتے رہنا۔ ایک ایک چیز ہمارے سامنے ہونی چاہیے۔”
“اوکے سر!”
اس کے بعد رابطہ منقطع ہوگیا۔ اب اسے ایک مبر کا انتظام کرنا تھا۔
___________________________________
اگرچہ گھر میں گہما گہمی تھی۔ لیکن خوشی کسی ایک چہرے پر بھی نہیں تھی۔ دولہا سمیت سب ایک تناو کا شکار تھے۔ اگرچہ ابھی مولوی کو نہیں بلایا گیا تھا۔ مگر سب نکاح کے لیے ہی موجود تھے۔ زعیم سادہ سے سوٹ میں ملبوس ناخوش دکھائی دے رہا تھا۔ روایتی قسم کی چھڑچھاڑ بھی مفقود تھی۔ وہ لاونج میں بیٹھے بیٹھے بیزار ہوکر کچن کی طرف چلا آیا۔ پانی حلق سے اتارتے ہوئے اس نے دور سے ایک نظر سب پر ڈالی۔ ہر چہرہ سنجیدہ اور پریشان!
“یہ ہے میری شادی۔۔۔۔۔؟ تف ہے ایسے نکاح پر!”
وہ بڑبڑا کر گلاس رکھ کر جونہی مڑا۔ آبریش اس کے مقابل تھی۔ لان کے ملگجے سے سوٹ میں۔ یہ اور بات کہ اس کی تیکھی نظریں اس وقت بھی بہار لٹارہی تھیں۔
“تم کان کھول کر سن لو۔ تم دنیا کے آخری انسان بھی ہو تو میں تم سے شادی نہیں کروں گی۔ جاکر بتادو سب کو۔ اگر مجھے مجبور کیا تو میں نکاح کے وقت انکار کردوں گی۔”
وہ کہہکر مڑ گئی۔ زعیم کا دل جو اسے دیکھ کر تھوڑی دیر کے لیے شاد ہوا تھا۔ جلتے کوئلےکی مانند سلگ اٹھا۔
“فکر مت کرو۔ فی الحال میں دنیا کا آخری انسان نہیں ہوں۔ تمہارے “انکل موصوف” کا آپشن ہے۔ شوق پورا کرسکتی ہو۔”
زعیم کا یہ انداز اس کے لیے نیا تھا۔ وہ آنکھوں میں حیرت لیے مڑی۔ مگر وہ آبریش کو کراس کرتا ہوا باہر نکل گیا۔ پہلی بار آبریش نے کوئی چیز بری طرح مس کی تھی۔
زعیم منہ بسور پھر سے صوفے پر آبیٹھا۔ مرتضی صاحب فون کال سے فارغ ہوکر لاؤنج میں آئے تو زعیم اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ آہستہ سے ان کے پاس آکر کان میں بولا۔
“اگر اپنی اور میری عزت کی خیریت چاہتے ہیں تو پلیز یہ سب ڈرامہ روک دیں۔”
یہ سرگوشی نہیں تھی۔ لیکن مرتضی صاحب نے اسے کان سے مکھی کی طرح اڑایا تھا۔
“ڈونٹ وری! میں کلائمکس سنبھال لوں گا۔”
زعیم کلس کر رہ گیا۔ یعنی وہ اونٹ کے گلے میں بلی باندھنے سے باز نہیں آنے والے تھے۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا۔ مرتضی صاحب کے”میں سنبھال لوں گا” کا کیا مطلب ہوتا تھا؟
__________________________________
عشال فون چارجر سے اتارنے آئی تو اس کا سیل مسلسل بج رہا تھ۔ نمبر کوئی انجان تھا۔
“ہیلو!”
اس نے عجلت میں کہا۔
“آہ آٹھ سال! آٹھ سال مس کیا ہے تمہاری آواز کو۔ تمہاری خوشبو کو۔ تمہاری سانسوں کو۔ آج بھی تمہاری گرم سانسیں میرے چہرے پر مہکتی ہیں عشال! خدا کے لیے ایک بار ملنے آجاؤ۔”
عشال کا سارا خون سمٹ کر چہرے پر آگیا۔ دوسری طرف شامی تھا۔ وہ آنکھ بند کرکے کہہ سکتی تھی۔ اس کی آواز سے زیادہ اس کے لفظ اس کا تعارف کروارہے تھے۔
“تم گھٹیا انسان! کیا سوچ کر مجھے کال کی تم نے؟ میرا نمبر کہاں سے لیا؟”
غصے کے مارے عشال کی آواز پھٹ گئی۔
“آبریش کے سیل سے لیا ہے۔ تم سے بہت ضروری باتیں کرنی تھیں کچھ!”
شامی کے لہجے کی چاشنی میں کمی نہیں ہوئی تھی۔
“تم ہر بار میری سوچ سے زیادہ گھٹیاپن کا مظاہرہ کرکے خود کو قابل نفرت ثابت کرتے ہو۔ تمہیں شرم نہیں آئی؟ ایک چھوٹی سی لڑکی سے عشق لڑاتے ہوئے؟”
عشال کا بس نہیں چل رہا تھا۔ اس کا منہ نوچ لے۔
“عشق تو صرف تم سے کیا ہے۔ وہ تو تم تک پہنچنے کا ایک راستہ ہے۔ میری منزل تم ہو۔ اور منزل تک پہنچنے کے لیے راستہ تو صرف ایک واسطہ ہوتا ہے۔”
شامی نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔
“تم انتہائی گھٹیا شخص ہو۔ میں تم پر تھوکنا بھی اپنی توہین سمجھتی ہوں۔”
عشال نے نفرت ےسے کہا۔
“میں نے تمہارے منہ سے اپنی تعریفیں سننے کے لیے تمہیں یاد نہیں کیا۔ بہتر ہے مجھ سے مل لو۔ تمہارا فائدہ ہے۔ ورنہ اس بار تم لوگ لکیر پیٹنے کے قابل بھی نہیں رہو گے۔”
اس سے پہلے کہ عشال مزیداس کی عزت افزائی کرتی۔ شامی نے درمیان میں اسے ٹوکا۔
“آں۔۔۔آں۔۔! پہلے میری پوری بات سنو۔
اور جوابا آبریش کی کال ریکارڈنگ سنادی۔ عشال کا پورا وجود سن ہوگیا۔
“اب غور سے سنو! اگر تم نہ آئیں تو پھر آبریش آئے گی۔ تم سوچ بھی نہیں سکتیں۔ اس بار میں کیا کرنے والا ہوں؟ سووووؤ! نیچے جاؤ اس نکاح کو روکو۔ تمہارے خاندان کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔”
دوسری طرف رابطہ منقطع ہوا تھا یا نہیں؟ مگر عشال کے ہاتھ سے سیل چھوٹ کر قالین پر گرگیا تھا۔
اس کی دھڑکنیں کئی ہزار میل کی رفتار سے دوڑ پڑی تھیں۔ اس سے پہلے کہ وہ ڈھے جاتی۔ عشال نے آنکھوں کی نمی صاف کی اور تیزی سے سطوت آراء کے کمرے کا رخ کیا۔
“ماما جان! پلیز ایک منٹ میری بات سن لیں!”
عشال آندھی کی طرح ان پر نازل ہوئی اور انھیں اپنی جانب متوجہ کیا۔ سطوت آراء جو بے دلی سے کپڑے پریس کررہی تھیں۔ عشال کی اس طرح آمد پر دل تھام کر رہ گئیں۔
“الہی خیر! کیا ہوگیا عشال؟ سب خیریت تو ہے ناں؟”
“ماما جان! آپ کو مجھ پر بھروسہ ہے؟”
سطوت آراء اس کے سوال پر مزید حیران ہوئیں۔
“یہ کیا کہہ رہی ہو عشال؟ یہ سوال کرنے کا یہ کون سا موقع ہے؟ میرے دل کو ویسے ہی قرار نہیں۔”
وہ حد درجہ بیزار ہوئیں۔
“ماما جان پلیز! جواب دیں۔ آپ کا جواب میرے لیے اس وقت زندگی اور موت کا سوال ہے۔”
اس نے سطوت آراء کو بازوؤں سے تھام لیا۔
“تم کہنا کیا چاہتی ہو عشال؟”
انھوں نے اس کے ہوائیاں اڑتے چہرے کو تشویش سے دیکھا۔
” ماما جان! پلیز میرے سوال کا جواب دیجیے۔ کیا آپ کو مجھ پر بھروسہ ہے؟”
“ہاں! لیکن تم یہ کیوں پوچھ رہی ہو؟”
سطوت آراء نے الجھ کر کہا۔
“تو پھر اس نکاح کو روک لیجیے۔ کچھ بھی کرکے اس نکاح کو آج نہیں ہونا چاہیے۔”
عشال نے ان کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔
“کیا بکواس ہے یہ؟ کیوں روک دیں ہم یہ نکاح؟”
سطوت آراء نے بھڑک کر اسے خود سے دور کیا۔
“ماما جان آپ مجھے جو چاہے کہہ لیں۔ میں اسوقت وضاحت نہیں کرسکتی۔ لیکن یہ یقین رکھیں۔ میں اس گھر کی اور خاص طور سے آپ کی عزت پر آنچ نہیں آنے دے سکتی۔ مگر آپ کو مجھ پر بھروسہ کرنا ہوگا اور اس وقت اس نکاح کو روک دیں پلیز؟”
عشال نے ایک بار پھر ان کے سامنے ہاتھ جوڑے۔
“اچھا صلہ دے رہی ہو بی بی ہماری مشقتوں کا۔ تمہیں اولاد سے بڑھ چاہا ہے ہم نے۔ کیا اس دن کے لیے کہ میری بیٹی کا تماشہ بنارہی ہو؟”
سطوت آراء کی بدگمانی ایک مرتبہ پھر جاگ اٹھی تھی۔
“ایسا نہیں ہے۔ ماما جان! آپ کی عزت کی خاطر میں جان بھی دے سکتی ہوں۔ مگر اس وقت جو میں کہہ رہی ہوں۔ وہ مان لیجیے۔”
عشال نے ہمت نہیں چھوڑی تھی۔
“عشال!”
ضیاءالدین صاحب دروازے پر کھڑے تھے۔ عشال اور سطوت آراء کرنٹ کھا کر مڑیں۔
“کیا کہنا چاہتی ہو عشال؟”
“یہ کیا کہے گی۔ آپ کی بیٹی کا نصیب کھوٹا کررہی ہے۔ آپ کی چہیتی بھانجی۔”
جواب سطوت آراء کی طرف سے آیا تھا۔
“آپ خاموش رہیں سطوت! میں عشال سے سننا چاہتا ہوں۔ وہ کیا کہنا چاہتی ہے؟”
عشال ایک قدم بڑھ کر ضیاءالدین صاحب کے روبرو کھڑی ہوگئی اور اپنا مدعا تفصیل سے کہہ دیا۔
ضیاءالدین اس کی بات سن کر ایک لمحہ کو خاموش ہوگئے۔ اور پھر واپس لاؤنج کی طرف پلٹ گئے۔
__________________________________
اندھیرے سرنگوں تھے۔ کن من سی روشنیاں شام کو رونق بخش رہی تھیں۔ اسی وقت سفید ٹی شرٹ اور سرخ پینٹ پہنے ٹیکسی سے ایک لڑکی پرآمد ہوئی اور وسیع کمپاؤنڈ کی میں داخل ہوتی دکھائی دی۔ اس کے قدم سستی کا شکار دکھائی دیتے تھے۔ جیسے سوچ سوچ کر اٹھا رہی ہو۔
“ہیلو سر! لڑکی ابھی ابھی بلڈنگ کی طرف جاتی ہوئی دیکھی گئی ہے۔”
مخبر اپنی ذمہ داری خوبیسے نبھارہا تھا۔
“ٹھیک ہے۔ جو ہورہا ہے۔ ہونے دو۔لڑکی اگر کامیاب نہ ہوئی تو اس کا ادھورا کام مکمل کرنا تمہاری ذمہ داری ہے۔ لیکن۔۔۔۔ بہت ہوشیاری سے!”
ہدایات لے کر مخبر نے رابطہ ختم کردیا اور ٹارگٹ کو نظروں کے حصار میں لیے آگے بڑھ گیا۔
عشال نے بلاک اور فلیٹ نمبر چیک کیا اور بیل پر ہاتھ رکھ دیا۔دروازہ ایک ہلکی سی کلک کے ساتھ فورا ہی کھل گیا۔
“اوہ مائی گڈنیس! تمہیں اپنے سامنے دیکھ کر مجھے اپنی آنکھوں پر رشک ہورہا ہے۔ کتنا انتظار کیا ہے اس لمحے کا میں نے۔۔۔۔!”
وہ گال پر ہاتھ رکھے ایک ٹانگ پر وزن ڈالے آنکھوں میں حیرت سموئے اسے دیکھ رہا تھا۔
“کیوں بلایا ہے مجھے؟”
عشال نے سپاٹ لہجے میں اس کی طرف نظر اٹھائے بغیر کہا۔
“ساری باتیں کیا کھڑے کھڑے ہی کرو گی؟ اپنی مہمان نوازی کا تھوڑا سا موقع تو دو؟”
شامی نے لجاجت بھرے لہجے میں کہا۔عشال نے ایک کڑی نظر سے اسے نوازا اور بولی۔
“اس کی ضرورت نہیں۔ جو کہنا ہے یہیں کہو۔ میں اندر نہیں آسکتی!”
عشال نے سخت لہجے میں اسے متنبہہ کیا۔
“یاااار؟ ایسی بھی کیا بے اعتباری؟ اعتبار نہ کرو۔ رحم ہی کرلو تھوڑا سا؟ آٹھ سال انتظار کیا ہے میں نے تمہارا! تمہاری ایک جھلک ایک آواز کو ترسا ہوں میں۔ قدرت سے مانگا ہے تمہیں۔ تم میرا دوسرا چانس ہو۔۔۔۔! جانتی ہو عشال؟ میں نے رات دن صرف تمہیں سوچا ہے۔ زندگی میں کئی چہرے آئے اور گئے لیکن میں نے ہر چہرے میں تمہیں تلاش کیا ہے۔ تم صرف میرا نصیب ہو۔ ورنہ اتنے سال۔۔۔۔اتنے سال تم نے تنہا نہ گزار دیے ہوتے۔ کوئی تو ہوتا تمہاری زندگی میں؟ ایم آئی رائٹ؟”
شامی نے اس کے نزدیک منہ لاکر کہا۔ عشال فورا ایک قدم پیچھے ہٹی۔
“نہیں ابشام زبیر! میں تمہاری محبت نہیں وہ ادھوری کسک ہوں جسے تم جیسا خواہشات کا مارا انسان حاصل نہیں کرسکا۔ تم ضد کو محبت کا نام دے رہے ہو۔ وہ تمہاری ناتمام خواہش تھی۔ جس نے تمہیں بےچین رکھا۔ میں کبھی تمہارا نصیب نہیں تھی۔ تم نے مجھے بدنامیوں کے اندھے کنویں میں دھکیل کر دنیا کے لیے ایک سوال بنا ڈالا۔ تمہیں اللہ نے دوسرا چانس دیا۔ کہ شاید تم توبہ کرو۔ شاید اپنی غلطیوں کو ٹھیک کرسکو۔ کیونکہ وہ اپنے کسی بندے کو مایوس نہیں کرتا۔ لیکن افسوس تم نے وہی کیا جو تم جیسے خواہش کے مارے نفس پرست سے توقع کی جاسکتی تھی۔”
عشال کے لفظ لفظ میں نفرت کی چنگاریاں تھیں۔ شامی لاجواب ہوا۔
“تم کچھ بھی کہو۔ تمہیں چھونے والا میں پہلا مرد تھا۔ چاہو تو آخری بھی ہوسکتا ہوں۔ کیا تمہیں اچھا لگے لگا؟ میرے بعد بھی کوئی تمہیں چھوئے؟”
شامی نے عشال کی زخم خوردہ آنکھوں میں جھانک کر کہا۔
“اور آبریش؟ محبت کے دعوے تو تم نے اس سے بھی کیے ہیں؟”
عشال نے سلگ کر کہا۔
شامی نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا۔
“کہاناں؟ محبت یا تمہارے لفظوں میں کسک۔۔۔ صرف تم ہو! میری ناتمام خواہش تم ہو۔ باقی سب تو کھیل تھا۔ کھیل ہے اور کھیل ہی رہے گا۔”
اتنا کہہ کر عشال کا گال چھونا چاہا۔ وہ ایکدم پیچھے ہٹی۔ اور تڑاخ سے شامی کے منہ پر طماچہ دے مارا۔ لمحہ بھر کو وہ کچھ نہ سمجھ سکا۔ لیکن جب ہوش آیا تو عشال کو شانوں سے دبوچ لیا۔
“ہر بار تمہیں یوں نہیں جانے دوں گا۔ عشا زبرجرد!”
اسی وقت عشال کے عقب سے آبریش نکلی تھی۔ اور شامی کے بازو عشال کے شانے سے جھٹک کر پرے دھکیلا اور بولی۔
“تم واقعی ایک گھٹیا شخص ہو۔ مجھے تم سے نہیں خود سے نفرت ہورہی ہے کہ تم جیسے شخص سے میں نے محبت کی۔ جو کسی کی بھی محبت کے قابل نہیں آئی ہیٹ یو!”
شامی کو ایک دم سانپ سونگھ گیا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ عشال اس کے ساتھ یہ کھیل کھیلے گی۔
“آبریش؟”
وہ فقط آبریش کا نام لے کر رہ گیا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے کبھی عشال کا چہرہ دیکھتا اور کبھی آبریش کا۔ عجب انداز سے بازی پلٹی تھی۔ کہ وہ ایک بار پھر خالی ہاتھ رہ گیا تھا۔
“آبریش۔۔۔۔میری بات!”
شامی نے اسے پشت سے پکارنا چاہا۔
“شٹ اپ! نام بھی مت لینا اپنی گندی زبان سے۔ میں تھوکتی ہوں تم پر اور تمہاری محبت پر! چلیں آپی!”
وہ عشال کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھی۔عشال نے مڑ کر شامی کی طرف دیکھا اور نفرت بھرے لہجے میں بولی۔
“کہا تھا ناں؟ میں عشال زبرجرد ہوں!”
اور آبریش کے ساتھ لفٹ میں داخل ہوگئی۔
شامی تھک کر خالی ہاتھ صوفے کے بازو پر ہی ٹک گیا۔ اس کے پاس شکست منانے کے لیے بہت وقت تھا۔
جس لفٹ کو عشال اور آبریش نے واپسی کے لیے منتخب کیا تھا۔ اسی لفٹ سے سرخ پینٹ والی لڑکی باہر نکلی تھی۔ اتفاق سے اس کی منزل بھی شامی کا فلیٹ ہی تھا۔ اسے بیل دینے کی ضرورت نہیں پڑی۔ دروازہ پہلے ہی کھلا تھا۔ وہ بے دھڑک اندر داخل ہوگئی۔
“نینسی؟”
اسے دیکھتے ہی شامی کے منہ سے برآمد ہوا۔ لیکن دوسرا لفظ برآمد ہونے سے پہلے وہ پہلو میں چھپائے پستول سے فائر کھول چکی تھی۔ شامی نے حیرت سے اپنے جسم سے بہتے خون کو دیکھا اور پھر نینسی کو۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
“تم نے میری محبت کو انسلٹ کیا۔” فائر!
تم نے میری سیلف ریسپیکٹ کو انسلٹ کیا”فائر!
“تمہیں میں کسی اور کے لیے کیوں زندہ چھوڑوں؟ تم میرے نہیں تو کسی کے بھی نہیں”فائر!
شامی کی حیران آنکھیں ساکت ہوچکی تھیں۔ نینسی کی گن میں گولیاں بھی ختم ہوچکی تھیں۔ اور نینسی۔۔۔؟ وہ بے دم ہوکر وہیں بیٹھ گئی تھی۔ بہت لمبی مسافت کاٹی تھی اس نے ایب کے پیچھے۔ اب وہ تھک چکی تھی۔
___________________________________
“تھینک گاڈ! عشال آپی! آپ کی وجہ سے بچ گیا میں؟ ورنہ تو مجھے بکرا بنانے کافل انتظام کرلیا تھا سب نے!”
زعیم کی چہکار لوٹ چکی تھی۔ اور باقی چہروں کی مسکراہٹ بھی۔ سطوت آراء عشال کا چہرہ ہاتھوں میں لے کر بولیں۔
“احسان مند تو میں بھی ہوں۔ عشال کی! اس نے بہت بڑا رسک لیا۔ لیکن خاندان کی عزت کو بچالیا۔ میں تو بہت ڈر گئی تھی۔ بہت شکریہ بیٹا!”
سطوت آراء نے دل سے اسے گلے لگایا۔
“پلیز ماما جان! ایسا نہ کہیں۔ آبریش کے لیے میں کسی بھی حد تک جاسکتی تھی۔”
ضیاءالدین صاحب بولے۔
“خوفزدہ تومیں بھی بہت تھا۔ جب عشال نے اپنا منصوبہ ہمارے سامنے رکھا۔ مگر دل کو اطمینان تھا کہ لڑکیوں کے ساتھ ضیغم اور شہیر بھی تھے۔”
سطوت آراء نے مسکرا کر عشال کو دیکھا۔
“ارے بھئی ہماری بہادر بیٹی کہاں ہے؟ سنا ہے اس نابکار کی طبیعت خوب صاف کی ہے۔ آبریش نے؟”
ضیاءالدین صاحب نے آبریش کو تلاش کیا۔
“وہ کل سے کمرے میں بند ہے۔ کہتی ہے۔ بابا کا بہت دل دکھایا ہے۔ ان کا سامنا نہیں کرسکتی۔”
سطوت آراء نے ضیاءالدین صاحب کے گوش گزار کیا۔
“یہ کیا بات ہوئی؟ اپنی بہادر بیٹی کو ہم خود یہاں لےکر آتے ہیں۔”
وہ آبریش کے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔
“میرے لیے کیا حکم ہے؟”
زعیم نے سب کو مشترکہ طور پر مخاطب کیا۔
“عشال نے شرارت سے اسے دیکھا اور بولی۔
“تم اسٹینڈ بائے پر ہو۔ تاحکم ثانی! ویسے میں نے ماموں جان سے کہا تھا۔ ابھی یہ نکاح روک دیں بعد میں جب چاہیں کرسکتے ہیں۔”
“یعنی اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا؟”
وہ مصنوعی پریشانی چہرے پر طاری کرکے گویا ہوا تو سب ہی کے چہرے مسکرا اٹھے۔ آبریش نے اپنے کمرے سے جھانک کر اس مںظر کی خوبصورتی کو محسوس کیا۔ مگر اس میں ہمت نہیں تھی کہ سب سے معافی مانگ سکتی۔
ضیاءالدین صاحب کھنکھارے تو وہ شرمندہ سی صورت بنائے واپس پلٹ گئی۔
“انسان غلطی کرتا ہے تو اندھا ہوجاتا ہے۔ لیکن کمال یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے جب اس کی آنکھیں کھول دی جائیں تو حوصلہ سے اس کا سامنا کرلینا چاہیے۔ اگر ہم اعتماد سے دوسروں کا دل دکھا سکتے ہیں تو پورے اعتماد سے معافی سے معافی مانگنے کا حوصلہ بھی ہونا چاہیے۔ میری بچی! میں کبھی تم سے نہیں روٹھ سکتا۔ لیکن ایک بات کا یقین رکھنا میں شہیر تماری امی ہم سب تم سے بےپناہ پیار کرتے ہیں۔ تمہارے محرم رشتوں سے سچی محبت کسی کی نہیں ہوسکتی۔”
“بابا مجھے معاف کردیں؟”
وہ سسک کر ان کے سینے سے لگ گئی۔ ضیاءالدین صاحب نے اسے خود میں بھینچ لیا کہ اسے کھو کر دوبارہ پایا تھا۔ اور اپنا ظرف چھوٹا کرکے اسے دوبارہ نہیں کھو سکتے تھے۔ دنیا میں سب سے سچا رشتہ باپ کا بیٹی سے ہے۔ یا پھر ماں کا بیٹے سے۔ یہ دو محبتیں سمندروں کو مات کرتی ہیں۔
“ابشام زبیر کو کل رات اس کے فلیٹ میں کسی نے قتل کردیا۔ قاتل شاید کوئی لڑکی ہے۔”
مرتضی صاحب نے حاضرین کو تازہ ترین خبر پہنچائی۔ مگر کسی نے بھی کوئی ردعمل نہیں دیا۔ سب ہی کا دل دہل کر رہ گیا۔ عشال نے ٹھنڈی سانس بھری۔ بےشک اللہ بہترین انتقام لینے والا ہے۔ اس نے ابشام زبیر کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا تھا۔ اور اللہ نے بالآخر اس کی رسی کھینچ لی تھی۔
_________________________________
وہ جاءنماز پر جھکی ہوئی تھی۔ صبح کی نرم رو ہوائیں اس کی بالکونی سے ہوتی جالی کے سفید پردوں کو چھیڑتی ماحول میں گداز پیدا کررہی تھیں۔ عشال نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے۔ لبوں پر فقط کپکپاہٹ تھی۔ وہ اپنے اللہ سے روٹھی تھی۔ اور اب اسے منارہی تھی۔ بالآخر سجدے میں جھک گئی۔
“انسان کا سینہ رازوں کا امین ہے۔ اور اللہ تبارک تعالی اپنی مخلوق کے ہر رازنہاں سے واقف ہے۔ وہ کیا سوچتا ہے؟ کیا چاہتا ہے؟ حتی جو اس نے ابھی سوچنا ہے۔ وہ بھی اس ذات اعلی سے مخفی نہیں! ہم اس سے اپنی محبت چھپانے پر قادر ہیں نہ نفرت۔ وہ ہمیں ہم سے زیادہ جانتا ہے۔”
عشال ایک جھٹکے سے اٹھی۔ اسے اپنے گمشدہ لفظ مل گئے تھے۔ وہ لپک کر اپنی ٹیبل تک آئی اور آغاجان کے قلم کا ڈھکن اتارا۔ وہ ابھی خشک نہیں ہوا تھا۔ وہ ہر روز اس میں تازہ سیاہی بھرتی تھی۔ اور روٹھے لفظوں کو منانے کے جتن کرکرکے مایوس ہوکر رکھ دیتی تھی۔ لیکن آج لفظ اس پر مہربان ہوگئے تھے۔ کیونکہ اس نے اپنے قلب کا علاج تلاش کرلیا تھا۔ وہ جان گئی تھی کہ نامہربان لمحوں میں بھی اس صرف اس کا اللہ مہربان تھا۔
____________________________________
الحمدللہ رب العالمین!
ختم شد
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...