منان اور پارس ان سے کچھ فاصلے پر کھڑے آپس میں راز و نیاز کر رہے تھے ۔۔۔۔۔
جبکہ وہ سب بہن بھائی حیرت اور دلچسپی سے ایئرپورٹ کا جائزہ لے رہے تھے ۔۔
جب انائوسمنٹ ہوئی تھی جسے سن کر وہ دونوں ان کہ قریب چلے آئے تھے ۔۔۔۔
“اچھا بھئی اللہ کی امان میں دیا ۔۔۔ میرے لیئے بھی دعا کرنا ۔۔۔۔۔!”
تینوں بھائیوں کے سروں پر باری باری ہاتھ مار کر وہ مسکرا کر بولا تھا ۔۔ لیکن اس کی پیاری سی مسکراہٹ میں اداسی بھی تھی ۔۔۔۔!
“سر ہلاتے وہ سب منان کے ساتھ بڑھنے لگے تھے جب فہیم رک کر پلٹا تھا ۔۔۔ اداس سا پارس ہی نہیں باقی سب بھی حیران رہ گئے تھے جب فہیم پارس سے لپٹ گیا تھا ۔۔۔۔۔ وہ معاملات کی گہرائی میں نہیں جاتا تھا ۔۔ وہ بس اتنا جانتا تھا پارس کے ساتھ گزرنے والا وہ وقت اس کی زندگی کا بہترین وقت تھا ۔۔۔۔!!!
اس کی پشت تھپتھپا کر اس نے جھک کر فہیم کے سر پر پیار بھی کیا تھا ۔۔۔
“ڈرامہ باز نہ ہو تو ۔۔!”
میشا سوچ کر رہ گئی ۔۔۔۔
“آپ کب تک آئیں گے پارس بھائی ۔۔۔۔؟؟”
ہونٹ لٹکا کر علیشہ نے پوچھا تھا ۔۔۔
“ارے بھئی ابھی تو تم لوگ ہی نہیں گئے اور مجھ سے پوچھ رہے ہو ۔۔۔۔۔؟؟؟
اچھا سنو ۔۔۔!! جتنی زیادہ دعائیں کروگے اتنی جلدی آئوں گا میں ۔۔۔۔۔!”
ہنس کر کہتے ہوئے اس نے ایک التجائیا نظر میشا پر ڈالی تھی ۔۔۔
“تم دعا ضرور کرنا ۔۔۔۔!!”
“شکل تو یوں بنا رہا ہے جیسے ہمارے جاتے کے ساتھ ہی مرجائے گا ۔۔۔۔”
تلخی سے سوچتے سوچتے میشا کا دل کانپ اٹھا تھا ۔۔۔
“میں واقعی بہت سنگدل ہوچکی ہوں ۔۔۔۔!”
“اچھا بھئی اب چلو بھی ۔۔۔۔”
اپنے شانوں سے نیچے آتے بال جھٹک کر منان نے سب پر ایک مشترکہ گھوری ڈالی تھی ۔۔۔۔ پھر پارس کے ساتھ کافی دیر تک بغل گیر رہ کر کر نم آنکھیں لیئے چل پڑا تھا ۔۔۔۔۔!!
اپنی موت کےے ڈرامے کے دوران وہ صرف گھر میں قید رہا تھا اور اپنے بظاہری حلیہ میں کافی تبدیلیاں لا چکا تھا ۔۔۔
بال بڑھا کر سنہرے کر لیئے تھے اور ہلکی ہلکی داڑھی مونچھیں بھی رکھ لی تھیں ۔۔۔۔ وہ بھی سنہری ہی تھیں جو اس کے دمکتے ہوئے رنگ پر بہت بھلی لگ رہی تھیں ۔۔۔۔ کوئی اجنبی اس سے ملتا تو اسے غیرملکی ہی سمجھتا ۔۔
ایک اچٹتی نظر اس پر ڈال کر ساشہ نے ردا کو اپنی گود میں اٹھا لیا تھا ۔۔۔۔
آگے بڑھتے بڑھتے میشا کو اپنی پشت پر اس کی نظروں کی تپش محسوس ہوتی رہی تھی ۔۔۔۔ لیکن ہاں ۔۔۔!! وہ واقعی پتھردل ہوگئی تھی ۔۔ ایک نظر بھی اس پر ڈالے بغیر وہ آگے بڑھتی ہی چلی گئی تھی اور پیچھے پارس کو گم صم چھوڑ گئی تھی ۔۔۔۔۔
وہ لوگ نظروں سے اوجھل ہوچکے تھے لیکن وہ پھر بھی اس راہ کو تکتا رہا تھا۔۔۔۔
قریب سے گزرتا کوئی شخص اس سے ٹکرایا تو وہ جیسے ہوش کی دنیا میں واپس آیا ۔۔
“میرا خیال ہے میں اس کی بےاعتنائی کا حقدار ہوں ۔۔ لیکن مجھ سے اس کی بےاعتنائی برداشت بھی نہیں ہورہی ۔۔۔!”
ڈھیلے ڈھالے قدم اس نے واپسی کی راہ پر موڑ لیئے ۔۔۔
“ایک بار مسکرا کر ہی دیکھ لیتی ۔۔۔۔۔ !!!”
یہ شکوہ بار بار اس کے لبوں پر مچل رہا تھا ۔۔۔۔ میشا کا آخری بار مڑ کر نہ دیکھنا اس کا دل بری طرح توڑ گیا تھا ۔۔۔۔۔!
*****************
کھڑکی میں کھڑی وریشہ کو بےوجہ مسکراتے دیکھ کر علیشہ حیران سی ہوکر اس کے پہلو میں جا کھڑی ہوئی ۔۔۔۔
“کیوں مسکرایا جا رہا ہے ۔۔۔۔۔؟”
“علیشہ علیشہ علیشہ ۔۔۔۔!!!”
“ہاں ہاں ہاں ۔۔۔۔؟؟؟”
وریشہ نے اسے پکڑ کر ہلا ڈالا تھا ۔۔
علیشہ کو اس کی حالت دیکھ کر ہنسی آگئی تھی ۔۔۔!
“تمہیں یقین آرہا ہے ۔۔۔۔؟؟ ہم ترکی میں ہیں ۔۔۔!! یا اللہ ۔۔!! ترکی میں ۔۔۔۔۔۔ مجھے۔۔۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔۔ مطلب یقین ہی نہیں آرہا ۔۔۔۔ یا اللہ ۔۔ ترکی ۔۔۔!!
میں نے تو کبھی یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ ہم اپنے شہر کے علاوہ بھی کوئی شہر دیکھ پائیں گے ۔۔۔ مگر ہم ترکی دیکھ رہے ہیں ۔۔۔ ہم خوبصورت ممالک میں سب سے خوبصورت ترکی میں موجود ہیں ۔۔۔ !
وہ دیکھو گولڈن گولڈن بالوں والے گورے گورے بچے ۔۔!!”
بھینچی آواز میں خوشی سے چیخ چیخ کر کہتی وہ یکدم ان بچوں کی طرف متوجہ ہوئی تھی جو فٹبال کھیلنے میں مگن تھے ۔۔۔۔
“یہ تو پاگل ہی ہوگئی یے بلکل ۔۔۔۔ ایک مہینہ ہوگیا ہیں یہاں آئے ۔۔ یہ ابھی تک یقین ہی نہیں کر پائی ہے ۔۔!
روز صبح اٹھ کر پوچھتی ہے ہم ترکی میں ہی ہیں نا ۔۔۔۔۔”
ردا کے بالوں کی چوٹی بناتے ہوئے میشا نے سب کو بتایا تھا ۔۔۔۔
سب کی ہنسی بےساختہ تھی جس نے وریشہ کو ہرگز غصہ نہیں دلایا تھا ۔۔۔۔۔ پورے بتیس دانت نکالے وہ خود بھی ایک ایک پل کو جینا چاہتی تھی ۔۔
منان کا ترکی میں آنا جانا لگا رہتا تھا ۔۔ وہ یہاں زبان سے کافی حد تک واقف تھا جس کی وجہ سے انہیں کوئی خاص مسئلہ نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔ علاقے میں ایک چھوٹا سا ہوٹل ان کی آمدنی کا زریعہ تھا جس سے فلحال کوئی خاص آمدنی حاصل نہیں ہورہی تھی ۔۔ یعنی مالی مسائل یہاں بھی منہ کھولے کھڑے تھے ۔۔ لیکن وہ سب پرسکون تھے اور پرامید بھی ۔۔! انہیں یوں لگ رہا تھا انہیں نئی زندگیاں ملی ہوں ۔۔۔۔!
ایک نیا جوش و ولولہ تھا سب کے اندر ۔۔۔
یہ علاقہ ترکی کا ایک پسماندہ علاوہ تھا لیکن ان سب کے لیئے کسی ماڈرن علاقے سے کم نہیں تھا ۔۔
وریشہ تو سارا دن کھڑکی میں ٹنگی باہر کے عام سے نظاروں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی رہتی ۔۔
آسمان بھی وہی تھا ۔۔۔۔ روڈ پر گڑھے بھی بنے تھے ۔۔
پھر بھی وہ ان چیزوں کو بڑے اشتیاق سے دیکھا کرتی تھی ۔۔۔!
“ساشہ میشا ۔۔!! چلو ہوٹل چلنا ہے ۔۔۔!”
اپنے بالوں کو پونی میں جکڑتے ہوئے منان بولا تھا ۔۔۔
گھر کے دو حصے تھے جو آگے پیچھے بنے تھے ۔۔ منان کا بسیرا گھر کے پچھلی طرف تھا جہاں تینوں بھائیوں کا بھی بیشتر وقت گزرتا تھا ۔۔۔! اس کا اس طرف آنا جانا صرف ضرورت کے وقت ہوتا تھا ۔۔ سارا دن تو یوں بھی گھر سے باہر ہی گزرتا تھا ۔۔۔۔۔
اپنے لمبے بالوں کے وہ ایک سے ایک اسٹائل بناتا تھا کیا ہی کوئی لڑکی بناتی ہوگی ۔۔۔
اور یہ اسٹائل اس پر جچتے بھی بہت تھے ۔۔۔۔۔!!
بغور اسے دیکھ کر ساشہ نے دل میں اعتراف کیا تھا ۔۔۔
دوسری طرف منان اس کی نظریں محسوس کرکے چونک کر مڑا تھا لیکن تب تک ساشہ نے نظریں پھیر لی تھیں ۔۔ شانے اچکا کر وہ گھر سے باہر نکل گیا تھا ۔۔۔
*******************
“کسی سے زیادہ گھلنا ملنا نہیں ۔۔۔۔!”
گھر سے نکلتے کے ساتھ ہی منان کے منہ سے یہ جملہ نکلتا تھا ۔۔۔
“یہاں بھی جب “ڈھکے چھپے” ہی رہنا ہے تو فائدہ ۔۔۔؟؟؟”
میشا بھی منہ پھلا کر ہر بار یہی شکوہ کرتی تھی جسے منان ان سنا کر دیتا تھا ۔۔۔۔
میشا ہوٹل میں داخل ہوچکی تھی جبکہ ساشہ بہت سست رفتار سے چلی جا رہی تھی جب کسی سے بری طرح ٹکرا گئی تھی ۔۔
چکراتے سر کو سنبھال کر اس نے سامنے کھڑے قبول صورت سفید چٹے شخص کو دیکھا تھا ۔۔۔۔
اس کی بےاعتمادی کا اب بھی وہی عالم تھا جو پل میں وہ پسینہ پسینہ ہوگئی تھی ۔۔ اس کے سامنے کھڑا وہ ترک شخص اپنی زبان میں کچھ بولا تھا جو ہونق سی ساشہ کے سر سے گزر گیا تھا ۔۔۔
سامنے کھڑا شخص اس کے اڑے اڑے رنگ کو دیکھ کر حیران ہوا پھر سر سے پیر تک اس کا سرسری جائزہ لیا ۔۔۔
لمبی سی سیاہ سکرٹ پر سیاہ سویٹر تھا اور سیاہ اسکارف اس نے جس طرح لپیٹا تھا ۔۔ یہ انداز ترک لڑکیوں کا ہی تھا لیکن اس کا شہدرنگ چہرہ اور تیکھے نقوش اسے مسمرائز کرگئے تھے ۔۔۔
بغور یہ سارا معاملہ ملاحظہ کرتا منان ساشہ کے پہلو میں آکھڑا ہوا تھا جس پر وہ شخص بھی ہوش میں آیا تھا ۔۔۔۔۔
“آپ پاکستان سے ہیں شائد ۔۔؟”
ٹوٹی پھوٹی انگلش میں اس نے بمشکل پوچھا تھا ۔۔ ساشہ غور کرتی تو اس کی بات سمجھ سکتی تھی لیکن اس وقت اس کی بےاعتمادی عروج پر تھی ۔۔۔
“جی ہاں ۔۔”
ایک نظر ساشہ پر ڈال کر منان نے چبا چبا کر جواب دیا تھا ۔۔۔
اس شخص نے بظاہر مسکرا کر لیکن ناپسند نظروں سے منان کو دیکھا تھا ۔۔ اور منان سے اس کی نیلی آنکھوں کی ناگواری مخفی نہیں رہی تھی ۔۔۔۔ اس کی اپنی کشادہ پیشانی بھی سلوٹوں سے پر تھی ۔۔!
“پہلے کبھی آپ کو یہاں دیکھا نہیں ۔۔ پہلی بار آئی ہیں آپ شائد ۔۔۔۔؟؟؟”
ایک بار پھر گلابی انگلش جھڑی تھی ۔۔ منان نے جیب میں ہاتھ ڈال کر ہونٹ سکیڑے تھے اور ایک بار پھر خود ہی اس کی زبان میں جواب دیا تھا ۔۔
“جی بلکل صحیح۔۔۔!”
اسے ساشہ پر غصہ بھی آرہا تھا وہ جمی کھڑی کیوں تھی ۔۔؟ جاتی کیوں نہیں تھی ۔۔۔۔؟؟
“میرا گھر قریب ہی ہے ۔۔۔ آپ لوگ آئیں گے تو خوشی ہوگی ۔۔۔۔۔!”
بالآخر اس شخص نے رخ منان کی طرف موڑ کر مسنوعی گرم جوشی سے کہا تھا ۔۔۔
“انشااللہ ضرور ۔۔!”
منان کی طرف سے بھی کچھ زیادہ ہی مسنوعی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا گیا تھا ۔۔۔
“مجھے سلیم کہتے ہیں ۔۔۔”
“بہت خوشی ہوئی شہزادہ سلیم آپ سے مل کر لیکن افسوس یہ آپ کی انارکلی نہیں ہے ۔۔۔”
روانی میں اردو میں کہتا وہ خود ہی ہنس پڑا تھا ۔۔۔ ایک ترچھی گھوری ساشہ نے اس پر ڈالی تھی ۔۔
“معاف کیجیئے گا ۔۔ میرا مطلب تھا ۔۔۔۔۔ مجھے منان کہتے ہیں ۔۔۔!”
سلیم کے الجھ کر دیکھنے پر اس نے اپنا تعارف کروایا تھا ۔۔۔۔
لیکن جب سلیم صاحب نے ساشہ کی طرف ابرو سے اشارہ کرکے اس کے بارے میں جاننا چاہا تو منان نے اپنی آنھیں چندی مندی کر کے اسے گھورا تھا ۔۔ پھر چبا چبا کر مختصراً بولا ۔۔
“ساشہ ۔۔!”
“اوہ ۔۔۔۔ امید ہے پھر جلد ہی دوبارہ ملنا ہوگا ۔۔۔!”
“خدا نہ کرے ۔۔!”
دل میں بڑبڑا کر اس نے لب پھیلا لیئے تھے ۔۔۔۔
جاتے جاتے سلیم پھر ان کی طرف گھوما تھا ۔۔
“آپ بہت خوبصورت ہیں۔۔۔”
وہ اپنی زبان میں ساشہ سے کہہ کر تیزی سے آگے بڑھ گیا کیونکہ منان کے سرد پڑتے تاثرات وہ دیکھ چکا تھا ۔۔۔۔
سمجھی نہ سمجھی سے سر ہلا کر کچھ جھجھک کر ساشہ نے اپنی سوالیا نظریں منان کی طرف اٹھائی تھیں لیکن منان نے ترجمہ کیئے بغیر قدم ہوٹل کی طرف بڑھا دیئے تھے ۔۔۔
سر جھکائے ساشہ بھی چل پڑی تھی جب وہ اچانک رک کر پلٹا تھا ۔۔۔۔۔
اس کی طرف زرا سا جھک کر آہستگی سے بڑبڑایا تھا ۔۔
“تم بہت خوبصورت ہو ۔۔۔!”
وہ تو کہہ کر ہوٹل میں داخل ہوگیا تھا لیکن ساشہ وہیں جمی کھڑی رہ گئی تھی ۔۔۔۔
)
وہ سمجھ نہیں پائی تھی منان نے ترجمہ کیا تھا یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
وہ بس جھرجھری لے کر رہ گئی تھی ۔۔!
*******************
ایئرپورٹ سے لوٹ کر وہ اپنے اصل کی طرف بڑھ گیا تھا ۔۔۔
وہی حالات ۔۔ وہی بےحسی ۔۔۔
اور نئی نئی سی بےکلی ۔۔۔۔۔!!
وہ اس بےکلی کی وجہ جاننے سے قاصر تھا ۔۔۔۔
یا شائد جان کر بھی انجان بن رہا تھا ۔۔۔!
پلاننگ کے مطابق اسے منان وغیرہ سے کوئی رابطہ نہیں کرنا تھا ۔۔۔
وہ کسی قسم کے شکوک و شبہات کی گنجائش نہیں چھوڑنا چاہتا تھا ۔۔۔۔ لیکن وہ نہیں جانتا تھا ہمدانی اس کی رگ رگ سے واقف تھا ۔۔ وہ لوگ جب جب ساتھ ہوتے وہ اس کی ایک ایک جنبش کو زیرک نگاہ سے دیکھتا تھا ۔۔۔۔!
اس وقت وہ ایک “سودا” طے کر کے گھر واپس لوٹا تھا ۔۔ خالی خالی نظروں سے وہ گھر کے در و دیوار کو تک رہا تھا ۔۔۔ کچھ وقت پہلے تک گھر کتنا بھرا پرا رہنے لگا تھا ۔۔
ہنسی قہقے نوک جھونک ۔۔۔۔
ناشتے کی ٹیبل پر تینوں بھائیوں کا پہلے پراٹھے کے لیئے لڑنا ۔۔!
ان بہنوں کی معمولی باتوں پر کچھ لمحوں کی جھڑپیں ۔۔
اور میشا کے دل جلے فقرے ۔۔ گھورتی ہوئی نگاہیں ۔۔ لیکن ساتھ ہی اس کے لیئے فکرمند بھی رہنا ۔۔۔۔
وہ کس شب گھر نہیں آیا ۔۔؟ کس دن کھانا نہیں کھایا ۔۔۔؟
ہلکی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر بکھری تھی ۔۔۔
بھیگی پلکوں کو اس نے انگوٹھوں سے مسلا تھا ۔۔۔۔
“میں کون ہوں ۔۔۔؟
کاش میں بھی ایک بھرپور گھر میں پلا بڑھا ہوتا ۔۔۔۔
آسائشات کے ڈھیر نہ ہوتے لیکن کھانے کے چند لقمے ہوتے جو حلال ہوتے ۔۔۔۔۔!!”
ایسے خیالات اسے تنہائی میں اکثر ستایا کرتے تھے ۔۔ لیکن جب سے دل کی حالت بدلی تھی ۔۔ یا بدلنے لگی تھی ۔۔!!
ذہنی طور پر وہ اور الجھ گیا تھا ۔۔۔
خود سے جنگ لڑتے لڑتے ۔۔۔ جواب مانگتے مانگتے وہ تھک گیا تھا جب ذہن کے پردے پر کئی بدعائیں دیتے روتے بلکتے چہرے آئے تھے ۔۔ طویل سانس خارج کرتا وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
ڈیڑھ گھنٹے کے طویل سفر کے بعد اس کی گاڑی اس بلند و بالا محل نما کوٹھی کے سامنے جا رکی تھی ۔۔!!
چوکیدار نے اسے پہچان کر کچھ پوچھے بغیر گیٹ کھول دیا تھا ۔۔۔۔
اندر بڑھتے ہوئے اسے اندازہ ہوا تھا ہمدانی گھر پر موجود نہیں تھا ۔۔۔
لائونج میں پہنچا تو سامنے ہی اسے وہ نیم عریاں لباس میں ملبوس ملازمہ کو کچھ ہدایات دیتی نظر آئی تھی ۔۔۔۔
وہی جو آج بھی اس کے نکاح میں تھی ۔۔۔!!!
“بینش۔۔!!”
*****************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...