وفا کا سامان آچکا تھا، ایک سائڈ پر ایان کی چیزیں سیٹ کیں اور دوسری جانب اپنی چیزیں جوڑ لیں۔
کام کرتے کرتے دو بج گیے، وفا نے گھڑی کی طرف دیکھا اور وضو کرنے چل دی۔
نماز پڑھ رہی تھی، جب دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔
وفا نے نماز مکمل کی اور دعا مانگ کر اٹھی تو ایان محویت سے اسے دیکھ رہا تھا۔
” آپ کب آئے۔؟”
وفا مسکرائی تھی۔
” جب تم اپنے رب سے ہمکلام تھی، مجھے تمہارا سکون عموماً الجھا دیتا تھا ووفا۔”
ایان مدھم لہجے میں بول رہا تھا۔
” آج سمجھ آیا، تم کیسے اتنی پرسکون رہ لیتی ہو۔”
ایان متاثر کن لہجے میں بولا۔
” اللہ تعالیٰ سے رابطے مضبوط ہوں تو سکون کبھی نہیں چھنتا، خواہ کیسی ہی پریشانی ہو۔”
سفا پرسکون لہجے میں بولی۔
” وفا تم ۔۔۔۔میں تمہیں کبھی سمجھ نہیں پاوں گا شاید۔”
ایان الجھ کر بولا تھا۔
وفا سینے پر ہاتھ باندھے مسکرا دی۔
” شکریہ میری زندگی میں آنے کے لیے۔”
ایان نے اسکے ہاتھ تھام کر گھمبیر لہجے میں کہا۔
” پہلے اللہ کا شکر ادا کر لیں، نماز کا وقت ابھی باقی ہے۔”
وفا نے مسکرا کے اسکی سیاہ آنکھوں میں جھانکا اور کمرے سے نکل گئی۔
ایان نے گہرا سانس خارج کیا اور الماری سے شلوار قمیض نکالی اور واش روم میں چلا گیا۔
چند ثانیے گزرے کہ وہ جائے نماز بچھا رہا تھا۔
اس نے اللہ کا شکر ادا کرنے سے ابتدا کر لی تھی، دائمی سکون پانے کے لیے اللہ سے رابطہ قائم کرنے کی شروعات کر لی تھی۔
وفا اسکے لیے کھانا بنا رہی تھی۔
لاونج میں ٹی وی دیکھتی رائنہ نے مڑ کر وفا کے شفاف چہرے کو دیکھا۔
وہ کھانا بنا کر کمرے میں آگئی، ایان دعا مانگ رہا تھا، اسکی سیاہ چمکتی آنکھیں بند تھیں۔
” یا اللہ انہیں نمسز سے محبت ہو جائے، کہ چاہ کر بھی نماز چھوڑ نا پائیں۔”
وفا نے دل سے دعا مانگی اور بیڈ پر بیٹھے اسکے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگی۔
ایان اٹھا تو وفا کھڑی ہو گئی۔
” کھانا لگادوں۔”
وفا نے پوچھا تو ایان نے سر اثبات میں ہلا دیا۔
وفا نے کھانا لگایا تو ایان مسکراتا ہوا آبیٹھا۔
رائنہ ایان کی تبدیلی پر حیران بھی تھی اور خوش بھی۔
انکی کلاس کا مسئلہ حل ہو گیا تھا، وفا نائک خاندان سے تعلق رکھتی تھی، جو کیلگری کے امراء میں سے تھے۔
کھانے سے فراغت پا کر ایان نے چائے کا حکم دیا اور کمرے میں چلا گیا۔
وفا چائے بنا کر پلٹی تو رائنہ نے اسے روکا۔
” ایان کافی پیتا ہے۔”
مسکرا کر وفا کو بتایا۔
” پر اب کافی چھوڑ چکے ہیں، چائے پیتے ہیں۔”
وفا نے انہیں بتایا تو رائنہ کے چہرے پر حیرانی کے تاثرات عود آئے۔
” اور کیا کیا چھوڑ چکا ہے۔”
رائنہ لک ہنس کر بولیں۔
” بے جا غصہ۔”
وفا بھی جواباً ہنسی اور چائے کمرے میں لے گئی۔
” تم کافی چھوڑ چکے ہو۔۔؟”
رائنہ نے استفسار کیا۔
” وفا کہتی ہے، کڑوایٹ انڈیلو گے تو کڑوا بولو گے، اس لیے میں نے کڑواہٹ چھوڑ دی۔”
ایان وفا کی سمت دیکھتا مسکرا کر بولا۔
رائنہ ایان کے چہرے پر محبت اور سکون کے رنگ دیکھ کر مسکرا دی۔
” اللہ تم دونوں کو خوش رکھے۔”
رائنہ وفا اور ایان کی سمت دیکھتی کمرے سے چلی گئیں۔
” کڑواہٹ چھوڑی یے تو پوری طرح چھوڑیں۔”
وفا اسکے پاس بیٹھ کر اپنا کپ تھام گئی۔
” ت
پھر تم میں اور دوسروں میں فرق ختم ہو جائے گا، نرمی صرف تمہارے لیے ہے۔”
ایان نے صاف گوئی سے کہا۔
” آپ میری زندگی کا بہترین فیصلہ ثابت ہو رہے ہیں۔”
وفا نظریں جھکائے بولی تھی۔
” تم بھی، میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا، تم ڈرامہ کوئین کی بیٹی نکلو گی۔”
ایان شرارتی مسکراہٹ لیے بولا۔
وفا نے خفگی سے بھنویں سکیڑیں تو ایان ہنس دیا۔
باتیں کرتے کرتے وقت بیتنے کا احساس ہی نا ہوا، عصر کی نماز ساتھ میں ادا کی اور باہر نکل آئے۔
لاونج میں عنائیہ کتابیں پھیلائےبیٹھی تھی، اکاش ملک نیوز چینل دیکھ رہے تھے، رائنہ کچن میں رات کے کھانے کی تیاری کر رہیں تھیں۔
وفا کچن کی طرف آگئی۔
ایان اکاش ملک کے پاس بیٹھ گیا۔
باہر گاڑیاں رکنے کی آواز آئی، عنائیہ نے گردن موڑ کر باہر دیکھا اور اپنی کتابوں کا پھیلاوا سمیٹا۔
” وفا کی مام آ رہیں ہیں۔”
عنائیہ کتابیں سمیٹے اندر چلی گئی۔
وفا اور رائنہ ساریہ کو دیکھ چکیں تھیں۔
ساریہ نے اندر آتے ہوئے سلام کیا۔
” بیٹھیے پلیز۔”
ایان سنجیدگی سے بولا اور وفا کی سمت دیکھا، اسسٹنٹ جولی گفٹ پیک تھامے ساریہ کے پاس کھڑی ہو گئی۔
” وفا ادھر آو۔”
ایان تحکم سے بولا۔
وفا ربوٹ کی طرح چلتی ہوئی آ کر بیٹھ گئی۔
” کیسی ہے اب میری بیٹی۔”
ساریہ نائک محبت سے بولی۔
“ٹھیک ہوں۔”
وفا نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
ساریہ نے سر اثبات میں ہلا دیا۔
رائنہ ملک چائے ٹیبل پر رکھے سرو کرنے لگیں۔
” تکلف کی کیا ضرورت تھی۔”
ساریہ آہستگی سے بولی، ایان بغور ساریہ کو دیکھ رہا تھا، یہ وہ ساریہ نہیں تھی، جسے ایان جانتا تھا۔
” کیوں نہیں۔”
رائنہ نے مسکرا کر چائے تھمائی اور پلٹ گئیں۔
” یہ میری طرف سے چھوٹا سا گفٹ ہے۔”
ساریہ جولی کو گفٹ ٹیبل پر رکھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولی۔
وفا نے حیرانگی سے اسے دیکھا، جس کی آنکھوں میں ممتا تھی، محبت تھی۔
چائے ختم کی اور ساریہ نائک اٹھ گئی، وفا بھی کھڑی ہو گئی۔
ساریہ نے اسے گلے لگایا اور اسکا گال تھتھپاتی پلٹ گئیں، وفا کو وہ چند لمحے گھنی چھاوں کی مانند لگے تھے۔
ساریہ نائیک کی بھینی بھینی خوشبو اسکے نتھنو میں بس گضی تھی۔
وفا گفٹ کی طرف متوجہ ہوئی اور اسکی پیکنگ کھولنے لگی،
انتہائی خوبصورت کیس میں ایک فائل رکھی ہوئی تھی۔
وفا نے حیرت سے ایان کی سمت دیکھا اور فائل نکال کر کھولی۔
” یہ تو پیپرز لگ رہے ہیں۔”
وفا نے کہا تو ایان نے فائل تھام کر دیکھی۔
” نائک سافٹ وئیر کمپنی تمہارے نام کردی ہے۔”
ایان ششدر و ساکت سا بولا۔
اکاش ملک نے حیرت سے انہیں دیکھا۔
ایان نے فائل ان کی طرف بڑھا دی۔
” میں اسکا کیا کروں گی۔؟’
وفا نے سر جھٹکا۔
ایان اور اکاش ملک نے بیک وقت اسے دیکھا اور پھر ایک دوسرے کو۔
” تمہیں شاید اس کمپنی کی قیمت کا اندازہ نہیں ہے وفا۔”
ایان اسکی طرف مڑآ تھا۔
” مجھے دولت کا لالچ نہیں ہے، مسٹر ملک۔”
وفا نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے ایان کو دیکھا۔
” تم اس وقت کیلگری کی دوسری بڑی امیر شخصیت ہو، نائک کمپنی سافٹ وئیرز کی دوسری بڑی کمپنی ہے۔”۔ایان نے اسے افایت بتائی۔
” جب دوبارہ آئی تو واپس کر دینا، ہم تمہیں فورس نہیں کر رہے، جو فیصلہ بہتر سمجھو۔”
ایان نے نرمی سے سمجھایا تو وفا اٹھ کر کچن میں چلی گئی، ایان کندھے اچکا کر رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساریہ نائک کو دل سے ایک بوجھ ہٹتا ہوا محسوس ہوا۔
اسکی کمپنی ہی اسکا کل سرمایہ تھی، جسے وہ آج دے آئی تھی۔
گاڑی پورچ میں رکی تو اندر آ گئی۔
رات پھیل چکی تھی۔
ساریہ نے پریس کانفرنس کل پر رکھی اور اندر آگئی۔
نائک پیلس میں ہمیشہ کی طرح گہرے سکوت کا راج تھا، ساریہ کمرے میں آ گئی۔
چینج کیا اور دراز سے نیند کی گولی لے کر سو گئی۔
شہروز نائک کمرے میں داخل ہوا تو ساریہ نائک سو چکی تھی۔
وہ اسے گھورتا ہوا راکنگ چئیر پر بیٹھ گیا۔
رات آہستہ آہستہ بیت رہی تھی، شہروز نائک اپنی جگہ پر آ کر سو گیا۔
رات گزری اور سورج اپنے گھر سے نکلنے لگا، ہر سو اسکی تیز بصارت کو چندھیا دینے والی روشنی پھیلی ہوئی تھی، آجکل کیلگری پر مطلع صاف تھا۔
بادل کئی دنوں سے چھٹیاں منا رہے تھے۔
ساریہ نائک کی نیند پوری ہوئی تو وہ اٹھ بیٹھی، دوسری طرف دیکھا تو شہروز نائک نہیں تھا، ساریہ نے گہرا سانس خارج کیا اور واش روم میں چلی گئی۔
تیاری پکڑی اور ناشتے کی ٹیبل پر آ بیٹھی، سب ناشتہ کر کے جا چکے تھے، میًڈ نے ناشتہ لگایا تو وہ ناشتے کی طرف متوجہ ہو گئی۔
دس بجے کے قریب پیلس سے نکلی اور ولی کو کال کر کے پریس کانفرنس ارینج کرنے کا کہا۔
آفس پہنچی تو پریس کانفرنس ریڈی تھی۔
ساریہ نائک نے سیٹ سنبھالی اور پریس کانفرنس ارینج کرنے کس مقصد بتا دیا۔
” میں یہ کمپنی اپنی بیٹی وفا ملک کے نام کر چکی ہوں، اب وہ ہی اس کمپنی کی اصل مالک اور اسکے پرافٹس کی حقدار ہے۔”
ساریہ نائک آدھے گھنٹے بعد آفس میں چلی آئی۔
اسکا فون بجنے لگا تھا۔
شہروز نائک کال کر رہا تھا، ساریہ نے فون سائلنٹ پر لگایا اور گلاس ونڈو سے باہر چمکتے دن کو دیکھا۔
آفس سے نکل کر ملک ہاوس آ گئی۔
” میں یہ گفٹ نہیں رکھ سکتی۔”
ساریہ اور وفا کمرے میں بیٹھیں تھیں۔
” ایان نے منع کیا ہے۔”
ساریہ نے پوچھا۔
” نہیں۔۔۔۔مجھے دولت کا لالچ نہیں ہے۔”
وفا نے ساریہ کی طرف دیکھا۔
ساریہ اٹھ کے اس کے پاس آ گئی۔
” میں اہنی غلطی کا ازالہ کرنا چاہتی ہوں۔”
وفا کا چہرہ ہاتھوں کے ہیالے میں بھرا۔
وفا کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
ساریہ نے اسے خود میں بھینچ لیا۔
” ایم سوری بیٹا، اہنی ضد اور انا میں اتنا آگے نکل گئی تھی، یہ بھی نا سوچا، میری بیٹی کو میری ضرورت ہے۔”
ساریہ نائک پچھتاوے سے گلوگیر لہجے میں بولی۔
وفا ساریہ کے آغوش میں چھپ گئی۔
” میں نے آپ کو دولت کے لیے نہیں، آپ کی محبت کے لیے ڈھونڈا ہے۔”
وفا روتے ہوئے بولی تھی۔
” اپنی ماں کو معاف کرسکتی ہو بیٹا۔”
ساریہ نے اسکے آگے ہاتھ جوڑے تھے۔
وفا نے ہاتھ نیچے کیے اور انکے کندھے پر سر رکھ لیا، ساریہ نے اسکے گرد بازو حائل کرتے ہوئے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔
” تم بلکل خیام جیسی ہو، ضدی۔”
ساریہ نے اسکے بال چہرے سے ہٹائے۔
وفا مسکرا دی۔
بہت دیر تک وہ وفا سے باتیں کرتی دہی۔
چار بجے کے قریب ایان آفس سے آیا تو ساریہ اور وفامسکرا کر باتیں کر رہیں تھیں۔
” لکنگ سویٹ۔”
ایان وفا کو مسکراتا دیکھ کر بولا تو وفا جھینپ گئی۔
” میری بیوی کی مسکراہٹ لوٹانے کے لیے شکریہ۔”
ایان ساریہ سے مخاطب تھا۔
ساریہ ایان کے نرم رویے پر حیران ہوئی تھی، کنگ آف اٹیٹیوڈ کا ایٹیٹیوڈ ناپید تھا۔
” میری بیٹی کو سنبھالنے کے لیے آپکا شکریہ۔”
ساریہ مسکرا کر وفا لو دیکھتی ہوئی بولی تھی۔
” یہ تو میرا فرض اور میری زمہ داری ہے۔”
ایان مسکرایا اور چینج کرنے چلا گیا۔
” اب میں چلتی ہوں۔”
ساریہ اٹھتے ہوِے بولی تو وفا نے بازو تھام لیا۔
” کھانا کھا کے جائے گا۔”
وفا نے کہا تو ساریہ نے ٹائم دیکھا۔
” اس وقت۔۔ ؟””
ساریہ نے حیرانگی سے کہا۔
” وہ جب آتے ہیں، ہم ساتھ مکں کھانا کھاتے ہیں۔”
وفا اٹھتے ہوئے بولی اور ساریہ کے ساتھ باہر آگئی۔
” کھانا بنا ہوا ہے، بس لگانا باقی ہے۔”
رائنہ بیگم مسکرا کر بولیں تو وفا نے انکے ساتھ مل کر کھانا لگا دیا۔
ایان چینج کر کے باہر نکلا تو وفا کی نظر اس پر ٹک سی گئی، آسمانی شلواز قمیض زیب تن کیے، وہ بہت پر وقار لگ رہا تھا۔
” ہینڈسم لگ رہا ہوں نا۔”
ایان شرارتی انداز میں سرگوشی کرتے ہوئے بولا۔
وفا سر جھکائے مسکرا دی، اسکے ڈمپل واضج ہو گیے۔
ایان نے نظر بھر کے اسے دیکھا اور کھانا کھانے میں مصروف ہو گیا۔
ساریہ نائک رائنہ اور وفا بھی بیٹھ گئیں۔
کھانا خوشگوار ماحول میں کھایا، ایان کی سنجیدگی کا خول چٹخ گیا تھا۔
ساریہ نائک کو آج پچیس سال بعد زندگی کا احساس ہوا، دل سے مسکرائیں تھیں۔
جن سے محبت ہوتی ہے، زندگی بھی انہی کے ساتھ سے محسوس ہوتی ہے۔
” صبح آفس جوائن کر لینا بیٹا۔”
ساریہ اسے ہدایت دیتیں اٹھ گئیں۔
” میں وہاں جا کر کیا کروں گی،؟
وفا ناسمجھی سے بولی۔
” صفائی کر دینا آفس کی۔”
ایان خفگی سے بولا تو وفا نے ناراض نظر اس پر ڈالی۔
” آپ خود ہی مینیج کریں تو اچھا ہے، اس سے یہ سب مینج نہیں ہوگا۔”
ایان ہاتھ صاف کرتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔
ساریہ نائک سر ہلاتی ہوئیں وفا کے گلے لگیں اور اللہ حافظ کرتی نکل گئیں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...