صبح معمول سے لیٹ اٹھا تھا ۔ویسے بھی آج سنڈی تھا ۔اور سنڈے کو وہ ہاسپٹل نہیں جاتا تھا۔فریش ہو کے باہر نکلا ۔
“اسلام علیکم ۔”اسنےسلام کیا۔
“وعلیکم سلام ۔آج بہت لیٹ آنکھ کھولی۔خیریت تو ہے میں صبح سے دو دفعہ تمہارے کمرے کا چکر لگا آئی ہوں ۔”شائستہ بیگم فکرمند سے بولی۔
“کچھ نہیں ماما ۔پتہ نہیں چلا نماز بھی رہ گئی۔”وہ سستی سے بولا ۔
“بیٹے رات کو تمیں ماموں کی طرف آنا چاہیے تھا ۔سب پوچھ رہے تھے۔حیدربھی آیا ہوا ہے لندن سے۔”شائستہ بیگم بولیں ۔
“بس کچھ مصروف تھا اور دل بھی نہیں تھا چاہ رہا۔ماما ناشتہ دیں بہت بھوک لگ رہی۔”رومان بولا تھا۔
ہنسی کی آواز پہ رومان نے نظر اٹھا کے دیکھا تو نظر پلٹنا بھول گیا ۔حیا سامنے بیٹھی نیہا کی کسی بات پہ ہنس رہی تھی ۔گلابی گالوں پہ آتے بالوں کو کانوں میں اڑاتے ہوئے وہ بے حال ہو رہی تھی۔آج سے پہلے کبھی اسے ان چیزوں پہ توجہ نہ دی تھی۔
رومان ایک جھٹکے سے اٹھا۔اسے لگا حیا اسکے حال پہ ہنس رہی ہوں جیسے۔
“ماما میرا ناشتے روم میں ہی بھیج دیں ۔”وہ اونچی آواز میں بولتا بولتااپنےکمرے میں چلا گیا۔
کمرے میں آ ئےابھی دس منٹ ہی ہوئے ہو گئے کہ اسکا سیل پہ کال آنے لگ گئی۔نمبر چیک کیا تو ڈاکٹر شہریار کا تھا ۔دونوں کلاس فیلو تھے۔
“جی ڈاکٹر صاحب کیا حالات ہیں ۔”اسنے ابھی سیل کان کو ہی لگایا تھا کہ دوسری طرف سے آواز آ گئی۔
“حالات کو کیا ہونا ہے تمہارے سامنے ہاسپٹل ہوتا ہو۔”رومان بولا ۔
“میں نوٹس کر رہا ہوں تمہارا دھیان بھی جناب ہاسپٹل میں۔”وہ آگے سے بولا۔
“اس بات سے مطلب۔کیا ہوا میرے دھیان کو ۔”رومان نے ناسمجھی سے پوچھا۔
“یہ دھیان آج کل کہی اور ہی ہے۔”وہ اسکا دوست تھا اچھی طرح جانتا تھا ایک عرصے سے ساتھ تھے دونوں۔
“تم بس تکے ہی مارتے رہنا گھامڑ کہی کا۔”رومان نے اسکی بے تکی سی بات پہ منہ بنایا۔
“بے تکی نہیں جانب۔ہاسپٹل میں بھی میں بات کرنا چاہ رہا تھا مگر لارڈ صاحب فورا چلے گئے کل بھی رات میں آپ غائب تھے اور جو شکل کے حالات ہیں وہ الگ۔”اسنے اپنا تجزیہ بتایا ۔
“آف اف تو سارا ٹائم مجھ پہ نظر رکھتے ہو بے شرم انسان ۔اور ایسا کچھ بھی نہیں۔”رومان نے جلدی سے بتایا ۔
“اچھا مجھے تو معاملہ ہی الٹ لگ رہا ہے”وہ کہاں ماننے والا تھا
“اچھا نجومی صاحب بتائے اپ ۔”رومان نے ہنس کے پوچھا ۔
“عشق کا۔کہی پیار تو نہیں ہو گیا ۔ہے ناں ڈاکٹر صاحب ۔”شہریار نے استفسار کیا۔
اچانک ایک چہرہ اسکی آنکھوں کے سامنے آگیا تھا۔رومان چند لمحے کچھ بول بھی نہ سکا ۔کیا یہ سچ ہے۔
“میں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں۔”اسنے اس بات سے جان چھوڑنا ہی بہتر سمجھا ۔
“سنو۔دیکھو یار کچھ چیزوں کا اعتراف کر لینے سے زندگی آسان اور خوبصورت ہو جاتی ہے۔اور ان میں ہار جیت نہیں ہوتی ۔یہ تو زندگی کا احساس ہوتے ہیں ۔
سوچ اور کنفس کروں ۔بیسٹ آف لک۔”ساتھ ہی شہریار نے کال بند کر دی تھی۔
کیا واقعی ہی۔رومان گم صم بیٹھا تھا۔مخلص دوستوں کو واقعی ہی ہمارے چہروں سے پتہ چل جاتا ہے ہم کیا چاہ رہے ہیں ۔رومان کو ایکدم اپنا آپ ہلکا محسوس ہونے لگا ۔عجیب سی الجھن تھی پچھلے دنوں سے۔
“ظالماں شادی کی بریانی کھلا دے۔”میسج بپ پہ رومان نے میسج چیک کیا تو شہریار کا تھا ۔وہ کھلکھلا کے ہنس پڑا۔
“شہریار مرو گے میرے ہاتھوں تم۔”رپلائی کیا رومان نے
اور کمرے سے باہر آگیا۔اس جگہ دیکھا جہاں وہ کچھ ٹائم پہلےبیٹھی تھی اب وہ جگہ خالی تھی۔
“ماما میں کسی کام سے جا رہا ہوں ۔”وہ اپنا والٹ اور گاڑی کی چابی پکڑے باہر نکلتا گیا ۔
“بہت عجیب ہے یہ لڑکا ۔کل بھی نہیں تھا گیا ۔آج بھی بہانہ بنا کے نکل گیا ہے کیا کروں میں اس لڑکے کا۔”شائستہ ے اپنے موڈی بیٹے کو باہر نکلتے دیکھ کے پوچھا۔
احسن صاحب نے اسے کال کر کے گھر بلایا تھا ۔اور شادی میں آنے کا حکم دیا تھا ۔انکی حکم عدولی وہ کر نہیں سکتا تھا۔
“جی بابا میں چلا جاؤں گا رات میں ہی جانا ہے ناں۔”وہ بے دلی سے کہتا ہوا اٹھ کے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
ڈاکٹر صاحب بری طرح ڈاکیومنٹری میں کھوئے ہوئے تھے ٹی وی لاونج کا فون چنگھاڑ رومان نے ناگواری سے اٹھ کے کال ریسیو کی۔
“کدھر ہو تم آئے نہیں ابھی تک ۔”باپ کی آواز سن کے یاد آیا اسنے تو شادی پہ جانا تھا ۔اسنے سر پہ ہاتھ پھیرا۔
“جی بابا میں بس آ رہا ہوں۔”وہ سرد آہ خارج کرتا باہر کو نکل گیا۔
یہاں خوب ہنگامہ تھا ۔خوب ہلچل تھی۔لوگ خوش گیپیوں میں مشغول تھے۔دلہا دلہن سٹیج پے براجمان تھے۔رومان بھی اپنے سب کزنز سے ملنے لگ گیا۔
آنکھیں کسی کو ڈھونڈ رہی تھیں ۔وہ ایک بار حیا کو دیکھنا چاہ رہا تھا۔وہ بے چین سا ہو گیا۔
“مجھے اب چلنا چاہیے ۔”وہ خود سے بچنے کو بولا۔پھر واپسی کے لیے قدم بڑھائے تو نظر واپس آنے سے انکاری تھی۔پنک فراک میں وہ میچنگ جیولری اور ہلکے سے میک اپ میں وہ سامنے کھڑی تھی۔اسے یکدم لگا کہ روشنیاں مزید جگمگا اٹھیں ہیں۔معصوم اور بلا کی حسین لگ رہی تھی وہ۔
ہنسی کی آواز سے اسکا ارتکاز ٹوٹا۔
حیدر کی کسی بات پہ حیا ہنس رہی تھی اور رومان کو اپنا آپ جلتا محسوس ہوا۔
“مجھ سے تو سیدھے منہ بات نہیں کرتی اور یہاں دیکھو ذرا دانت ہی نہیں اندر جا رہے میڈم کے۔”اسنے جل کے سوچا۔
“بھاڑ میں جاؤ میں کیوں خوار ہو رہا ہو۔لیکن ۔”وہ بولا تھا۔
عجیب جنگ چھڑی ہوئی تھی ۔وہ واپس کرسی پہ بیٹھ گیا ۔اچانک سے وہ جھٹکے سے اٹھا۔
“نیہا،حیا چلیں کافی ٹائم ہو گیا ہے۔”وہ ان کے سر پہ کھڑا پوچھ رہا تھا۔
“ڈاکٹر صاحب اتنی بھی کیا جلدی ابھی تو فنکشن چل رہا ہے۔تم سے تو ٹھیک سے بات بھی نہیں ہوئی۔”حیدر بولا۔مگر رومان کہاں روکنے والا تھا۔
“نہیں پھر کبھی بات ہو گئی ۔کافی رات ہوگئی ہے۔”رومان نے حیدر صاحب سے کہا ۔
“ابھی تھوڑی دیر روک جاتے ہیں ناں۔”حیا نے ڈرتے ڈرتے کہا ۔کیونکہ ابھی تو مزہ آنا شروع ہوا تھا۔
“حیا میں نے کیا ناں کافی ٹائم ہو گیا ہے ہمیں چلنا چاہیے ۔”رومان نے حیدر کا خیال کرتے ہوئے نرمی سے کہا ورنہ غصہ تو بہت آیا تھا۔
“او کے پھر ملاقات ہو گئی۔”وہ حیدر سے بول کے آگے بڑھا ۔حیا بھی نیہا کے پاس آگئی جو سب کزنز سے خُداحافِظ کہہ رہی تھی۔
“تم دونوں چل کے گاڑی میں بیٹھوں میں آتا ہوں۔”رومان ان دونوں کو کہتا آگے بڑھ گیا۔
“ماما میں نیہا اور حیا کو لے کے جا رہا ہوں ۔”وہ شائستہ بیگم سے بولا۔
“اتنی بھی کیا جلدی ہے تمہیں۔”وہ بولیں تھیں۔
“چلو ٹھیک ہے تم لوگ نکلوں ہم بھی تھوڑی دیر تک نکلتے ہیں۔”احسن نے اپنے بیٹے کے چہرے پہ اکتاہٹ دیکھ کے جلدی سے بولا۔
“او۔کے بابا۔”وہ کہتا آگے بڑھ گیا ۔
صرف چند لمحوں میں یہ ادراک ہوا تھا اسے کہ اسکو محبت کو گئی ہے اور یہ احساس بہت ہی خوش کن تھا۔
“حیا مجھے آئس کریم کھانی ہے اور تم بھائی سے کہو گی۔”نہیا نے عجیب سی فرمائش کی حیا سے۔
“میں کہوں وہ بھی اس ہلاکو سے۔نہ بابا وہ تو مجھے آنکھوں سے ہی نگل جائیں گے ۔”اسنے خوفناک خاکا کھینچا۔
“ٹھیک ہے تم میری اتنی سی بات نہیں مان سکتی ۔”نیہا نے منہ پھولا لیا ۔مجبوراً حیا کو ماننا پڑا۔
“اب مگرمچھ کے آنسو مت بہانا آئی سمجھ کہہ دوں گی۔”اسنے اب تنبیہہ کی۔
“ٹھیک ہے ڈئیر ۔”نیہا اب کے خوشدلی سے بولی۔
تبھی پارکنگ میں رومان آیا اور انکو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔حیا کو وہ گاڑی کے مرر سے باآسانی دیکھ سکتا تھا۔
“وہ رومان بھائی۔وہ نہیا۔میرا مطلب کہ ہمیں۔”اسکو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔وہ اس سے کبھی مخاطب نہین ہوتی تھی۔رومان کی باتوں کا جواب بھی ہوں ہاں میں دیتے تھی اور اب فرمائش کروں ۔اسے بہت عجیب محسوس ہو رہا تھا۔اس وقت وہ رومان کے دل کے تار چھیڑ رہی تھی۔
“تم لفظوں کو چکنا چور نہ کروں ۔سیدھے سے بولو۔”رومان مسکراہٹ دباتے بولا۔
“نن۔نہیں وہ نہیا۔”کیا مصیبت ہے ۔اسے اب غصہ آیا۔
“ہمیں آئس کریم کھانی ہے رومان بھائی اور یہ بدبو سارا راستہ ایسے ہی گزار دے گی۔”نیہا نے قدرے غصے میں کہا۔
“اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے حد کرتی ہو تم بھی۔”وہ بولا تھا۔
“آف یہ خشک مزاج اور یہ نوازشیں ۔”حیا نے حیرت سے سوچا۔
“نہیا تم خود کہہ دیتی۔ناحق حیا کی انرجی ویسٹ کروائی۔”وہ اب مذاق اڑا رہا تھا۔
“جی بلکل بھائی جان میں تو اس لیے اسے بولا تھا کا یہ آپ سے بولتے وقت کیسی لگتی ہے۔”نیہا شرارت سے بولی۔اور رومان کا قہقہ پڑا تھا۔
حیا نے نیہا کو گھورا تھا۔
حیا کے ساتھ رومان کا رویہ اچھا تھا مگر حیا کا رویہ اسے سختی پہ مجبور کرتا تھا۔
آیس کریم کھا کر جب وہ باہر نکلے تو رومان کا فون بجا تھا۔وہ “ایکسیوزمی”بولتے دوسری طرف چلا گیا اور حیا ادھر ادھر دیکھنے میں مگن ہو گئی ہر طرف گہما گہمی تھی۔
“حیا میں دو منٹ میں آئی اپنی فرینڈ سے مل کے وہ دیکھو وہ ادھر رہی۔”نہیا جلدی سے اپنی دوست کو ملنے چلی گئی۔حیا آوازیں دیتی رہ گئی ۔
دس منٹ گزرگئے نہ نیہا آئی اور نہ رومان
“نیہا اس طرف ہئ گئی تھی میں دیکھتی ہوں اسے۔”وہ خود سے بولتی اس طرف چل دی۔لیکن نیہا کہی بھی نہ تھی وہاں ۔
رومان بھائی بھی پتہ نہیں کدھر رہ گئے ہیں” وہ دائیں جانب چل دی جہاں نیہا تھی ہر طرف لوگوں کا انبار تھا۔حیا کی گھبراہٹ ایکدم خوف میں بدل گئی تھی کیوں کہ نیہا وہاں نہیں تھی۔۔۔۔ اس طرف ہی تو آئ ۔تھی میں کیا کروں اللہ تعالٰی مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے حیا جس طرف بھی نظر یں دوڑاتی ہر طرف اجنبی لوگ نظر آ رہے تھے _۔۔ عجیب وحشت ہونے لگی تھی۔ حیا کے بالکل سامنے اوباش لڑکوں کا ایک گروپ کھڑا تھا جو آنے جانے والوں پر کمنٹس پاس کر رہے تھے۔ حیا کی تو جان ہی نکل گئ تھی۔ اسکا دل کر رہا تھا کہ وہ زور زور سے رؤے۔