ستارہ کی آنکھ کھلی تو مسکان کو بیڈ پر نہ پا کر بوکھلا گئی۔ آس پاس نظر دوڑائی تو صوفے پر چادر میں ڈھکا اس کا سر نظر آیا۔ وہ خوف سے قدم قدم چلتی اس کے پاس آئی اور سامنے آکر اس کے آگے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی مسکان کے سرد ہاتھ تھام کر نرمی سے پوچھا۔
” تم ٹھیک تو ہو”
مسکان نے گیلی آنکھوں سے اس کی جانب دیکھا
“میں اب ٹھیک ہوں”
ستارہ:” تو یہاں کیا کر رہی ہو”
مسکان:” صبح ہوتے دیکھ رہی ہوں۔
ستارہ:” چلو دیکھ لیا نا اب آجاو سوجاو۔
مسکان خاموشی سے اس کے ساتھ اٹھی اور بیڈ پر لیٹ گئی ۔
# 6 مہینے بعد #
زندگی جس راہ پر گامزن تھی وہ بھی اسی لہر میں چل رہی تھی۔ اب اس کا معمول بن گیا تھا عبادت کی پابندی کرنا اور جو بھی ہو رہا ہو اسے اللہ کا فیصلہ سمجھ کر قبول کر لینا۔ اس کے دن کا آغاز فجر سے شروع ہوتا اور ایشاء کے ساتھ ڈھلتا۔ دن کی فرصت میں آڈیو تلاوت سنتی جس سے اسے سب سے زیادہ سکون حاصل ہوتا۔
وہ جینے کی جانب لوٹ آئی تھی کہ زندگی نے اس کے آگے ایک اور امتحان پیش کیا جو تھی زوہیب کی واپسی۔
*******************
# موجودہ دن #
ستارہ سے مسکان کی کہانی سن کر زوہیب کو چکر آنے لگے۔ پہلے مما کے جانے کا غم پھر 3 دن سے نہ کھانے کی کمزوری اور اب مسکان کا رنج۔ اسے اپنے پیر بے جان ہوتے محسوس ہوئے وہ لڑکھڑاتا ہوا گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور سر جھکائے اپنے آپ کو قابو کرنے لگا۔
ستارہ رخ موڑے گیلی آواز میں بول رہی تھی۔ اپنے پیچھے گرنے کی آواز پر موڑ کر دیکھا تو دیکھا زوہیب زمین پر ہاتھ جمائے ہوئے ہے اس کی طبعیت ناساز لگ رہی تھی۔ ستارہ جھٹ سے اس کے پاس آئی اور اسے سہارہ دے کر اٹھانے لگی۔
” میں نے کہا تھا نہ آپ نہیں سن پائے گئے ” زوہیب کی حالت دیکھ کر وہ پھر سے جذباتی ہوگئی۔
اسے صوفے پر بیٹھا کر ستارہ پانی لینے کچن میں چلی گئی۔
زوہیب لمبی سانس لیتا کھڑکی کے پاس آیا۔ اسے اچانک دم گھٹتا محسوس ہوا تو شرٹ کے بٹن کھول دیئے۔
مسکان کی آپ بیتی یاد کر کے اسے متلی ہونے لگی وہ واشروم بھاگا اور بیسن پر جھک گیا لیکن معدہ خالی ہونے کی وجہ سے الٹی نہ ہوئی۔
اس نے شاور کھولا اور کپڑوں سمیت ٹھنڈے بوچھاڑ کے نیچے کھڑا ہوگیا۔
کچھ اپنے آپے پر قابو پانے کے بعد وہ تیزی سے اپنے کمرے میں گیا اور کپڑے تبدیل کرنے لگا۔
خشک کپڑے پہن کر نیچے آیا اور ستارہ کو ایک کونے میں لے گیا۔
زوہیب:” مجھے مسکان سے ملنا ہے۔۔۔۔۔ کہاں ہے وہ” اس کے گیلے بالوں سے ابھی بھی پانی ٹپک رہا تھا۔
ستارہ:” زوہیب وہ نہیں مانے گی۔” وہ مسکان کے لیے فکر مند ہو رہی تھی۔
زوہیب:” پلیز ستارہ۔۔۔۔ میں اسے سنبھال لوں گا بس ایک دفعہ اس سے ملاقات کروا دو پلیز۔۔۔” وہ اس سے منت سماجت کرنے لگا۔
ستارہ نے جھجکتے ہوئے ہامی بھری اور اسے ساتھ لے گئی۔
**************
کومل ابھی ابھی ماہی کو سلا کر کمرے سے باہر نکلی تھی۔ مسکان نے اس کے جاتے ساتھ لائٹ بند کر دی اور بیڈ کے پاس زمین پر بیٹھ کر سر گھٹنوں میں چھپا دیا۔
کچھ دیر بعد لائٹ آن ہوئی تو اس نے بھیگی آواز میں اضطراب سے ستارہ کو جھڑکا۔
” لائٹ بند کر دو ستارہ”۔ اس نے سر اٹھائے بغیر کہا۔
جب پھر بھی لائٹ آن رہی تو اس نے بیچینی سے سر اٹھا کر دیکھا ستارہ کے ساتھ زوہیب بھی کھڑا تھا۔ اس نے گھبرا کر رخ موڑ لیا۔
ستارہ” زوہیب کو تم سے بات کرنی ہے” اس نے دھیمے لہجے میں کہا۔
مسکان:” مجھے کسی سے بات نہیں کرنی” اس نے سپاٹ انداز میں جواب دیا۔
ستارہ:” آئ ایم سوری مسکان میں نے زوہیب کو سب سچ بتا دیا ہے۔” اس نے نادم ہو کر کہا۔ مسکان نے اس بات پر ستارہ کو افسوس بھرے غصے سے گھورا اور واپس منہ پھیر لیا۔
زوہیب نے ستارہ کی طرف رخ موڑا۔
“تم جاو میں اسے سنبھال لوں گا” اس نے ہاتھ اٹھا کر سرگوشی کی۔
ستارہ:” لیکن اگر وہ۔۔۔۔”
زوہیب:” کچھ نہیں ہوگا بھروسہ کرو۔”
ستارہ واپس پلٹ گئی۔ اسے لگا اسے باہر جاتا دیکھ کر مسکان گھبرا جائے گی واویلا کرے گی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا وہ اب بھی سنجیدگی سے رخ موڑے بیٹھی تھی۔
زوہیب دروازہ بند کر کے آیا اور اس کے ساتھ زمین پر بیٹھ گیا۔ اسے ساتھ بیٹھے محسوس کر کے مسکان تھوڑا دور کھسکی تو زوہیب بھی ساتھ کھسکا۔
مسکان نے آنکھیں بند کر لی۔ زوہیب نے ایک لمبی آہ بھری اور اور بولنا شروع کیا۔
” آنکھیں بند کر لینے سے حقیقت بدل تو نہیں جاتی” وہ اب مسکان کے بجھے بجھے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔
” تم انتی کمزور تو نہیں تھی مسکان”
مسکان خاموشی سے سر جھکائے اسے سنتی گئی۔
“جو ہوا اس میں تمہارا کیا قصور۔۔۔۔۔ تم اس سب کو خود پر سوار کیوں کر رہی ہو تمہیں تو ڈٹ کر دنیا کے سامنے آنا چاہئے”
مسکان کا دل بھر آنے لگا۔
زوہیب نے رخ موڑ کر ایک لمبی سانس لی اور ڈھیر سارے آنسو اپنے اندر اتارے۔ وہ یہاں مسکان کو ہمت دلانے آیا تھا خود کمزور پڑھنے نہیں۔
” یہ دنیا بہت ظالم ہے۔۔۔۔ جنتا جھکو گی یہ اور جھکائے گی۔۔۔۔۔ اور تمہیں اب جھکنا نہیں ہے آگے آنا ہے” اس نے دیکھا مسکان اب بھی اپنی اندرونی کیفیت جھنجلا رہی تھی۔
” جیسے تم نے مجھے چھوڑنے کی ہمت کی ویسے ہی اس سب سے لڑنے کی ہمت کرو۔”
مسکان کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔
” تمہیں پتہ ہے مجھے کل تک تم سے بہت شکایتیں تھی بہت سے سوال تھے۔۔۔۔۔۔۔ پر اب۔۔۔۔۔ اب صرف ایک شکایت ہے۔۔۔” اس نے شفقت سے مسکان کا ہاتھ تھامنا چاہا لیکن اس نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا۔ اس نے گلا صاف کیا اور پھر گویا ہوا۔
” تم نے سب اکیلے کیوں گزارا اپنے آپ پر۔۔۔۔ کیا مجھ پر اتنا بھی یقین نہیں تھا۔۔۔۔۔ ایک دفعہ شیئر کر کے تو دیکھتی۔۔۔۔ مانا میں بہت دور تھا تمہارے لیے کچھ کر نہیں سکتا تھا لیکن۔۔۔۔۔ تمہارے دکھ تو بانٹ سکتا تھا۔۔۔۔ کم از کم یہ یقین دہانی کروا سکتا تھا کہ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں”
مسکان نے کچھ ہمت کر کے آنسو صاف کئے اور کپکپاتی زبان سے کہا۔
” آپ واپس چلے جاو زوہیب یہاں اب کچھ نہیں بچا۔۔۔۔ بھول جاو مجھے۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔ میں اب آپ کے۔۔۔۔ قابل نہیں رہی۔۔۔”
زوہیب:” ششششش۔۔۔۔۔۔ دوبارہ ایسا کبھی مت کہنا” زوہیب نے اپنے مخصوص انداز میں اس کے کان میں سرگوشی کی۔
مسکان کو 14 ماہ پہلے کا زوہیب یاد آیا اور پھر جذباتی ہوگئی۔ زوہیب اب بھی اس کے کان کے پاس سرگوشی میں اپنے جذبات بیان کر رہا تھا۔
” تمہیں کیا لگتا ہے میں نے صرف تمہارے جسم سے محبت کی صرف تمہاری خوبصورتی کو چاہا۔۔۔۔ نہیں مسکان مجھے تمہاری ذات سے عشق ہے۔۔۔۔۔ مجھے تمہارے دل سے محبت ہے۔۔۔۔۔ تمہارے روح کو چاہا ہے جو آج بھی شفاف ہے۔۔۔۔۔ اس پر کوئی داغ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ تم میرے لئے آج بھی وہی مسکان ہو جو پہلے دن تھی۔۔۔۔۔ میری مسکان۔۔۔۔”
اس نے مسکان کو سر تا پیر دیکھا۔
” ہاں بس۔۔۔۔۔ تھوڑی کمزور ہو گئی ہو۔۔۔۔ پر فکر مت کرو اب میں واپس آگیا ہوں نا تمہیں پھر سے ہنستا مسکراتا صحت مند مسکان بنا دوں گا” اس نے شرارتی انداز میں کہا۔
یہ سن کر وہ ہنسنے لگی اور ہنستے ہنستے پھر سے رونے لگی اور روتے روتے اس نے زوہیب کے کندھے پر سر رکھ لیا۔ زوہیب بھی جذباتی ہوا اور اس کے گرد بازو مائل کئے۔
“آج جتنا رونا ہے رو لو اپنا دل ہلکا کر لو۔۔۔۔۔ آج کے بعد میں تمہارے آنسو نہیں دیکھنا چاہتا۔۔۔۔ آج کے بعد تم کبھی نہیں رو گی۔” اس نے مسکان کو چپ نہیں کروایا بلکہ اسے رونے دیا دل کے درد کو باہر نکالنے دیا۔
اتنے مہینوں سے مسکان کو جس تحفظ کی تلاش تھی۔ جس دلاسے کی ضرورت تھی وہ زوہیب کے بانہوں کے حصار میں مل رہا تھا۔ اس کا سر بہت بھاری محسوس کر رہا تھا وہ اسی طرح زوہیب سے لپٹی کب سو گئی تھی اسے پتہ نہ چلا۔
جس وقت اس کی آنکھ کھلی کمرے میں پورا اندھیرا تھا وہ کومل کے بیڈ پر قمبل اوڑھے سو رہی تھی۔
اس نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے سوچا وہ تو زوہیب کے بانہوں میں لپٹی رو رہی تھی پھر سو کیسے گئی۔
” تو زوہیب نے مجھے اٹھا کر بیڈ پر لٹایا۔” وہ اسی طرح قمبل مظبوطی سے پکڑے سوچ رہی تھی۔
اسے زوہیب سے بنا بتائے رابطہ توڑنے پر افسوس ہوا۔
اس حادثے کے بعد مسکان کو ایک مظبوط سہارہ چاہیئے تھا جو اسے اس کھائی سے نکال سکے۔ وہ اپنے باپ اور بھائی میں وہ سہارہ تلاشتی رہی لیکن انہوں نے اپنے ساتھ اس کے بھی آنکھ کان اور زبان بند کر دیے تھے دنیا کے تبصروں کا مقابلہ کرنے کے بجائے اسے کمرے کی چار دیواری تک محدود کر دیا تھا۔
وہ اپنی آپ بیتی یاد کرتی اور زوہیب کی باتیں سوچتی زخمی کا مسکرائی۔
” اللہ نے اگر مجھے مشکل میں ڈالا تھا تو اس مشکل سے نکلنے کا ذریعہ پہلے ہی منتخب کر کے دیا تھا لیکن میں ہی نہیں سمجھ پائی”۔
کبھی کبھی ہم اپنی زندگی سے مایوس ہوجاتے ہے اور اللہ کی موجودہ نعمتوں سے بھی نا شکری کرنے لگ جاتے ہے۔ اس کا احساس ہمیں بہت دیر سے ہوتا ہے لیکن جو ہمارے نصیب میں ہو وہ جلد یا بہ دیر ہمیں ضرور مل کے رہتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ صرف صبر سے کام لینا چاہیے۔
******************
جس وقت وہ فریش ہو کر کمرے سے باہر آئی لاؤنج میں سب بیٹھے ہوئے نظر آئے۔ عرفان چائے پی رہا تھا اور زوہیب بچوں کی طرح کھانے پر جھکا ہوا تھا۔
وہ نیچے آئی تو عرفان جانے کے لیے کھڑا ہوگیا اور باقی سب بھی اسے رخصت کرنے ساتھ کھڑے ہوگئے۔
مسکان:” باقی سب چلے گئے” اس نے عرفان کو مخاطب کیا۔
عرفان:” ہاں میں بھی تمہارے لئے رک گیا تھا۔۔۔۔ تم اتنی دیر سو کیسے گئی تھی۔ ” اس نے حیرانی سے پوچھا۔
مسکان نے زوہیب کو دیکھا وہ ہلکا سا مسکرایا۔ شیو رکھنے سے اس کا ڈمپل اب واضح نظر نہیں آرہا تھا۔
مسکان:” پتہ نہیں شاید دوائیوں کا اثر تھا” اس نے وضاحت دی۔ انہوں نے رخصت لی اور اپنے گھر کے لئے روانہ ہوئے
**********************
زندگی کے حقائق کو تسلیم کرنا اپنے آپ میں بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ زوہیب نے اس وقت یہی کیا تھا سب کے تنقید کو بالائے طاق رکھ کر اس نے مسکان کی زندگی اور خوشحالی کو چنا تھا۔
مسکان گھر پہنچ کر ستارہ کے پاس گئی۔
ستارہ کو لگا وہ زوہیب کو سچائی بتا دینے پر اسے ڈانٹے گی۔ لیکن مسکان نے اس کے بر عکس ستارہ کو گلے لگایا اور شکریہ ادا کیا۔
ستارہ اول تو متذبذب ہوئی لیکن پر اس نے بھی مسکان کو گلے لگا لیا۔ زندگی واپس اپنی پٹڑی پر چل پڑی تھی۔
لیکن جو اب تک پریشان تھے وہ حارث صاحب تھے۔ دن اور رات گرزنے نے ساتھ ان کی تشویش بھی بڑھتی جا رہی تھی وہ مسکان کے مستقبل کے لئے متفکر تھے اور جلد اسے بیاہ کر اس کو محفوظ کرنا چاہتے تھے۔
********************
ایک شام وہ چائے بنانے کچن میں آئی تو پورچ میں انجان کار دیکھی۔
مسکان:” امی یہ کار کس کی ہے” اس نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔
امی:” زوہیب کی ہے۔” امی نے مصروف انداز میں جواب دیا۔
مسکان کی حیرت سے آنکھیں پھیل گئی۔
“کیا زوہیب آیا ہوا ہے۔۔۔۔۔ کہاں ہے۔” اس نے کپ میں چائے انڈیلتے ہوئے کہا سرسری کا پوچھا۔
امی:” ہاں ثمرین کے گھر ہے۔۔۔۔ کہہ رہا تھا اپنی مما کو مس کر رہا تھا اور ثمرین کے پاس اسے مما والی فیلنگ آتی ہے۔”
وہ سوچتے ہوئے اپنے کمرے میں آگئی۔ صوفے پر بیٹھے چائے پیتے ہوئے بھی اس کا دھیان زوہیب کی طرف تھا۔
زوہیب جاتے ہوئے امی کے پاس بھی بیٹھا اور زور زور سے گفتگو کرنے لگا۔
مسکان سمجھ گئی وہ اسے اپنے آنے کا احساس کروانا چاہتا ہے لیکن وہ پھر بھی کمرے سے باہر نہیں آئی۔
*****************
زوہیب صرف مما کا بہانہ کر کے مسکان سے ملنے آیا تھا لیکن وہ اس سے ملنے نہیں آئی۔ زوہیب کا سارا وقت دھیان مسکان کے کمرے پر تھا۔ جاتے ہوئے وہ کار میں بیٹھتے ہوئے بھی مسکان کے کمرے کی کھڑکی کو دیکھتا رہا جہاں پردے برابر کئے ہوئے رکھے تھے۔
چند روز بعد زوہیب پھر آگیا تھا لیکن آج اس نے اس دن والی بے وقوفی نہیں کی۔ اس نے ستارہ سے مسکان کو کہلوایا۔
مسکان:” دماغ تو ٹھیک ہے تم دونوں کا میں ایسے سب گھر والوں کے سامنے کیسے ملوں۔ اور آج تو چاچو اور بابا بھی گھر پر ہے۔ ”
اس نے ستارہ کو جھڑکا اور زوہیب کے ایسے سوچ پر تعجب ہوا۔
وہ کسی بھی صورت نہیں مانی تو ستارہ واپس چلی گئی۔
ستارہ کے واپس جاتے ہی اس نے زوہیب کی کار سٹارٹ ہوتے ہوئے سنا۔
**************
زہرا آنٹی کے جانے کا سوگ کچھ کم ہوا تو ثمرین آنٹی نے کومل اور اس کے سسرال والوں کی دعوت کی تھی۔ باتوں باتوں میں زہرا آنٹی کو یاد کر کے سب آج بھی دکھی ہوجاتے۔
مسکان اس دن کمرے سے باہر آگئی تھی لیکن زوہیب کو نظرانداز کئے صرف ستارہ اور کومل کے ساتھ کام کرتی رہی۔ سب اس وقت کھا پی کر لاؤنج میں موجود تھے۔
مسکان کام نپٹا کر واپس اپنے کمرے میں آگئی۔
وہ وضو کر کے واشروم سے باہر آئی کہ دروازے پر دستک سنی۔
اس نے ناب گھما کر لاک کھولا تو زوہیب ایک جھٹکے سے اندر آیا۔
اس نے ہڑبڑا کر آس پاس دیکھا۔
مسکان:” زوہیب۔۔۔۔ کیا کر رہے ہے آپ۔” اس نے اضطراب سے کہا۔
زوہیب:” کیسی ہو تم۔” اس نے پیار سے اس کے کندھوں کو تھام کر پوچھا۔
مسکان کا اضطراب کم ہونے لگا۔
” ٹھیک ہوں آپ کیسے ہو” اس نے نرمی سے پوچھا۔
زوہیب:” میں ٹھیک نہیں ہوں۔۔۔۔ تم نے رابطے کے سارے طریقے بند کر دیے ہے۔۔۔۔ سم بند ہے سوشل اکاونٹس بند ہے گھر بھی آوں تو تم ملتی نہیں ہو۔۔۔۔ تو آخر میں تم سے رابطہ کیسے کروں۔” اس نے جعلی مایوسی سے کہا۔
مسکان نے اپنے کندھے چڑائے اور رخ موڑ لیا۔
” میں اب کوئی رابطہ نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔۔ میں کسی بھی طرح کے افیئر میں نہیں رہنا چاہتی۔۔۔۔ میں لوگوں کو خود پر تبصرہ کرنے کا پھر سے موقع نہیں دینا چاہتی۔۔۔۔۔۔ پلیز زوہیب سمجھنے کی کوشش کرو میں بہت مشکل سے ان سب سے نکلی ہوں۔۔۔۔ دوبارہ نہیں نکل پاوں گی۔” اس نے مایوسی سے کہا۔
زوہیب اس کے پاس آیا اور اس کا رخ اپنی طرف موڑا اور اس کی آنکھوں میں دیکھ کر گویا ہوا۔
زوہیب:” بس اتنی سی بات ہے۔۔۔۔۔ اس کا بھی مستحکم حل ہے میرے پاس۔” اس نے خوش دلی سے مسکر کر کہا۔
مسکان:” کیا۔۔۔” اس نے آبرو اچکا کر حیرانی سے پوچھا۔
زوہیب:”بتاتا ہوں آو میرے ساتھ۔” اس نے مسکان کا ہاتھ پکڑ کر چلتے ہوئے کہا۔
مسکان کا دل ڈوبنے لگا وہ مسلسل زوہیب سے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتی رہی اور زوہیب مظبوطی سے اس کا ہاتھ پکڑے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
سیڑھیاں چڑھ کر وہ اوپر آیا تو اسے زبردستی مسکان کا ہاتھ پکڑے دیکھ کر سب کھڑے ہوگئے۔
مسکان سب کو اپنی طرف یوں متوجہ دیکھ کر متذبذب سی ہوگئی اور سر جھکا دیا۔
ڈیڈ:” یہ کیا حرکت ہے زوہیب۔” انہوں نے سنجیدگی سے کہا
زوہیب نے باری باری سب کو دیکھا اور لمبی سانس لے کر گویا ہوا۔
” میں مسکان سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ اگر کسی کو کوئی اعتراض ہے بھی تو۔۔۔۔ وہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔۔۔۔۔ میں اپنا فیصلہ کر چکا ہوں” اس نے بنا کسی تہمید باندھے سپاٹ انداز میں کہا۔
اس کی بات سن کر سب دنگ رہ گئے وہی مسکان بے یقینی سے زوہیب کو دیکھنے لگی۔
ڈیڈ:” تم ہوش میں تو ہو” انہوں نے بھی اسی سپاٹ انداز میں جواب دیا۔
زوہیب:” میں بلکل اپنے ہوش و حواس میں یہ کہہ رہا ہوں۔” اس نے سنجیدہ تاثرات بنائے کہا۔
بابا تنے ہوئے اعصاب سے قدم قدم زوہیب کے پاس آئے۔
انہیں قریب آتا دیکھ کر زوہیب نے مسکان کا ہاتھ چھوڑ دیا اور وہ دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔
بابا:” تم جانتے بھی ہو تم کیا کہہ رہے ہو۔۔۔۔ میری بیٹی کے ساتھ۔۔۔۔۔۔”
زوہیب:” آپ کی بیٹی کے ساتھ جو بھی ہوا میں سب جانتا ہوں” ان نے نرم لہجے میں کہا۔
بابا:” اس کے باوجود بھی تم اس سے شادی کرنا چاہتے ہو۔ ” انہوں نے حیرت سے پوچھا۔
زوہیب:” جی بلکل” اس نے اعتمادی سے کہا۔
ڈیڈ کے آبرو تن گئے۔
بابا:” دیکھو بیٹا شادی صرف دو انسانوں کا نہیں دو فیملیز کا بھی رشتہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔ کیا تمہارے گھر والے اس رشتے سے راضی ہے۔”
بابا کے سوال پر زوہیب نے نظریں گھما کر اپنی فیملی کو دیکھا جو شش و پنچ کھڑے تھے۔
” میری بیٹی مجھ پر بوجھ نہیں ہے۔۔۔۔ ہاں میں یہ ضرور چاہتا ہوں کہ اس کی شادی ہوجائے گھر گھرہستی بس جائے۔۔۔۔ لیکن ایک بیٹی کی زندگی سنوارنے کے لئے میں دوسری بیٹی کی شادی شدہ زندگی میں خلل نہیں ڈال سکتا۔” انہوں نے کونے میں کھڑی کومل کی طرف اشارہ کیا جو ماہی کو گود میں اٹھائے خاموش کھڑی تھی۔
“جب تک تمہاری فیملی راضی نہیں ہوجاتی میں تمہارا یہ پروپوزل منظور نہیں کر سکتا۔” انہوں نے سنجیدگی سے سمجھایا۔
اس سے پہلے زوہیب کچھ اور کہتا ڈیڈ شکیل چاچو اور باقی سب سے الوداع کرتے باہر نکل گئے۔ عثمان اور کومل بھی ان کے پیچے ہو لیئے۔
زوہیب نے بے بسی سے مسکان کو دیکھا اور آنکھوں کے اشارے سے “سب ٹھیک ہوجائے گا” ادا کرتے وہاں سے چلا گیا۔
مسکان اپنے کمرے میں آئی اور کانوں میں ہینڈفری لگا کر تلاوت سننے لگی۔ اس وقت وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی وہ اپنے در پیش مسائل سے دور ہو کر سکون چاہتی تھی۔
بس یہ بات صاف ہوگئی تھی وہ زوہیب کی صاف گوئی کی دیوانی تو تھی ہی آج اس کی ہمت پر بھی فدا ہوگئی تھی۔
اسے زوہیب پر اور بھی زیادہ پیار آرہا تھا۔ اتنا سب ہونے کے باوجود بھی وہ اس کے لئے کھڑا ہوا وہ اسے اپنانا چاہتا ہے یہ دیکھ کر زوہیب مسکان کے لیے بہت معتبر ہوگیا تھا۔
دل ہی دل میں وہ زوہیب سے شادی ہوجانے کی دعا بھی کرتی رہی کیوں وہ سمجھ گئی تھی اگر کوئی اس کا بہادری سے ساتھ دے سکے گا تو وہ زوہیب ہی ہے
************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...