وقت کا کارواں تیزی سے گزر رہا ہے ماہ و سال برق رفتاری سے گزر رہے ہیں۔ انسان مشینی ہوگیا ہے اور اسے احساس ہی نہیں کہ وہ بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے میں داخل ہوکر دنیا سے گزر جاتا ہے۔ قرب قیامت زمانے کے بارے میں کہا گیا کہ وقت کی بے برکتی ہوگی۔لیکن اللہ کے نیک بندے اسی تیز رفتاری سے گزرتے وقت میں بہت سے اچھے کام کرجاتے ہیں۔ میں نے اپنی پہلی کتاب قوس قزح میں ایک مضمون آج لکھا جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ انسان کی زندگی میں کل کبھی نہیں آتا۔ وہ آج ہوجاتا ہے اس لیے ہمارے زندگی میں آنے والے آج کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں مختصر مدتی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔رات سونے سے پہلے دن کا احتساب کریں کہ آج کا دن میں نے کیسے گزارا جو کام کرنے تھیں وہ کیے یا نہیں اگر نہیں کیے تو آنے والے آج کے دن کیسے کرے گا۔ آنے والے آج کی منصوبہ بندی اور وسائل اختیار کرتے ہوئے اس دن کو بہتر گزارنا ہی زندگی کی کامیابی ہے۔ میرا بھی زندگی کا یہی معمول رہا کہ ٹارگٹ کی تکمیل کی جائے بچپن میں اچھی تعلیم کا حصول امتحانات میں شرکت اور کامیابی گھر کے کاموں کی تکمیل اور اب ملازمت کے دوران زندگی میں جو بھی تقاضے آتے ہیں ان کی تکمیل کو میں فوقیت دیتا ہوں۔چونکہ ہمیشہ سے دوسروں کی مدد کا جذبہ رہا خاص طور سے تعلیم اور اردو زبان کے حوالے سے اکثر دوست احباب تقاضے کرتے ہیں کبھی کسی کتاب کی فرمائیش تو کبھی کسی مضمون کی فرمائش اس کی تکمیل کرتا رہتا ہوں۔ریسرچ گائیڈ ہونے کے ناطے اسکالرس کی رہنماء انہیں مقالہ لکھنے کی رہبری کرنا اور مقالے کی تصحیح کرنا یہ بھی کرتا رہتا ہوں۔ اردو اور کمپیوٹر سے واقفیت کی بنا اب بہت سی جامعات اور کالجوں کی جانب سے رازداری کا کام دیا جاتا ہے جنہیں وقت پر مکمل کرکے روانہ کردیتا ہوں۔ پرچوں کی آن لائن جانچ بھی ایک اہم مرحلہ ہے جس میں اکثر اردو کے اساتذہ پیچھے رہتے ہیں۔ اردو کی خدمت سمجھ کر میں یہ کام بھی بروقت انجام دیتا رہتا ہوں۔کالج میں پرنسپل کے عہدے پر فائز رہ کر جو بھی ٹارگٹ کے کام آتے ہیں انہیں کالج کے اساتذہ اور عملے کی مدد سے وقت پر انجام دیتا ہوں اس سے ایک طمانیت رہتی ہے کہ ہم کسی سے پیچھے نہیں۔ لوگوں کی مدد کے حوالے سے ایک اہم کام گزیٹیڈ عہدیدار کی دستخط ہے چونکہ والدین کی دعا اور اللہ کے فضل سے ابتدائی ملازمت سے ہی گزیٹیڈ عہدے پر فائز ہوں اس لیے جب کبھی کوئی دستخط کے لیے رجوع ہوتا ہے تو میں اللہ کے بھروسے دستخط کردیتا ہوں کہ ہماری مدد سے کسی کا کام بن جائے شادی مبارک کی درخواستیں ہوں کہ آدھارکارڈ یا کوئی اور سند کے حصول کی درخواستیں ہمیشہ اپنا اسٹامپ ساتھ رکھتا ہوں اور جہاں کہیں ضرورت پڑے یہ خدمت انجام دیتا ہوں زندگی نے یہ سبق پڑھایا کہ اگر آپ کسی کی مدد کروگے تو اللہ آپ کی مدد کرے گا۔یہ جذبہ اور اس پر عملی مشق کا مشاہدہ ہے کہ زندگی میں پہلے تو مشکلات کم آتی ہیں اگر آتی بھی ہیں تو اللہ ان مشکلوں کا حل فوری نکال دیتا ہے۔
جہاں تک اپنی ذات کا معاملہ ہے۔ دسویں جماعت کے بعد سے میں نے پینٹ شرٹ پہننا چھوڑ دیا اور کرتا پاجامہ ٹوپی اور اب صدری میرے لباس کا حصہ ہے۔ اور اس سے ہی میری شناخت ہے۔ اکثر لوگ میرے لباس کو دیکھ کر پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کسی مدرسے کے مولوی ہیں تو میں اپنی جیب میں لگے گرین پن کو دکھا کر کہتا ہوں کہ سرکاری افسر ہوں اور گزیٹیڈ عہدے پر فائزہ ہوں۔یہ اللہ کا احسان ہے۔ اللہ نے والدین کے زمانے میں اور اب اپنی ملازمت کے زمانے میںکبھی محتاج نہیں رکھا۔زندگی کی جتنی ضروریات ہوتی ہیں ان کی تکمیل کا سامان اللہ کر ہی دیتا ہے۔ اس لیے کبھی پریشانی نہیں رہی۔ تربیت بھی یہی تھی کہ جتنی چادر اتنا پیر پھیلائو اس لیے زندگی میں اسراف کم ہی رہا۔لباس اور اچھے کھانوں اور فیشن کے معاملے میں زیادہ شوق نہیں رہے سادگی میںبھلائی ہے اس کی عملی مشق زندگی بھر جاری رہی۔ والد صاحب سگریٹ پیا کرتے تھے وظیفہ کے بعد جب انہیں فالج کا اٹیک ہوا تو انہوں نے سگریٹ ترک کی لیکن مجھے اور بڑے بھائی کو یہ سبق ملا کہ کبھی سگریٹ کی عادت نہیں پڑی حالانکہ خاندان کے بچے سگریٹ پیا کرتے تھے۔ سگریٹ کے علاوہ گٹھکا پان اس کی بھی عادت یا لت نہیں پڑی۔ جب کہ آج کے بچے شیشہ یعنی حقہ پینا برا نہیں سمجھتے۔اللہ نے جو پھل اور نعمتیں دیں وہ کھاتے رہے۔ عمر کی چالیس دہائی دیکھنے کے بعد نظام آباد میں ۲۰۱۳ء کی بات ہے مرض ضیابطیس شوگر سے واسطہ پڑا۔ ابتداء میں جب شوگر کی تشخیص ہوئی تو ہیبت ہوئی کہ زندگی شوگر کے ساتھ کیسے گزرے گی لیکن آج شوگر ہوئے پندرہ برس ہوگئے اس مرض کے ساتھ زندگی جاری ہے۔شوگر اصل میں مرض نہیں بلکہ زندگی میں کھانے پینے کی عادات اور کام کرنے کی عادات کو قابو میں رکھنے کا نام ہے۔ میٹھی چائے اور میٹھے سے پرہیز کریں اور دوا وقت پر لیں تو شوگر قابو میں رہتی ہے لیکن شوگر بڑھ جائے تو انسان کمزور ہوجاتا ہے اور اس کے کام کرنے کے جذبات میں کمی واقع ہوتی ہے۔ دیگر امراض سے اللہ نے محفوظ رکھا یہ بڑی بات ہے انسان کی گاڑی اس کی دوسری شریک حیات ہوتی ہے۔ ابتدائی دور میں بھائی صاحب کی لونا کئی سال چلانے کے بعد شادی کے بعد میں نے بجاج چیتک خریدی تھی یہ چیتک ناگر کرنول‘سنگاریڈی‘نظام آباد اور حیدرآباد میں چلتی رہی اور زندگی کے سفر میں ہم سفر رہی۔ ایک مرتبہ شدید بارش میں جب گاڑی ڈوب گئی اور اس کی سروسنگ برابر نہیں ہوسکی تو کم داموں میں یہ چیتک ایک میکانک کو دے دی اس طرح اس چیتک پر بیس سال کا سفر اختتام پذیر ہوا اب حیدرآباد میں اولا اوبیر سرویس ہے فون پر گاڑی بک کریں تو اپنی مرضی کی گاڑی آجاتی ہے اس لیے اب میرے استعمال میں کوئی گاڑی نہیں بچوں کے پاس گاڑیاں ہیں ان کے ساتھ یا کرایہ کی گاڑی پر حیدرآباد میں سفر ہوتا ہے۔ ملازمت کے مقام پر روزانہ بس سے ہی سفر ہوتا ہے۔ اب زندگی اس قدر محدود ہوگئی ہے کہ رشتے داریاں بھی فون پر محدود ہوگئی ہیں۔ شادی بیاہ کے موقع پر خاندان والوں سے ملاقات ہوجاتی ہے ورنہ واٹس اپ گروپوں میں چوبیس گھنٹے خاندان والوں اور دوست احباب سے پل پل کی خبریں اور تصاویر شئر ہوتی رہتی ہیں اس طرح دور رہ کر بھی پاس ہونے کا احساس رہتا ہے۔بیوی کو شکایت ہے کہ میں گھر پر کم توجہ دیتا ہوں اور تصنیف و تالیف پر زیادہ ۔ اب مذہبی رجحان کے ساتھ زیادہ سیر و تفریح کے لیے جا تو نہیں سکتے اللہ نے جو صلاحیت دی ہے اسے لوگوں کے لیے استعمال کرنے ہے بچے گھر کی دیکھ بھال کر ہی لیتے ہیں۔ مذہبی اور سماجی زندگی کے ساتھ سیاست پر بھی بات ہوجائے تومیں اپنے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ میںسوشلسٹ نظریات کا حامی ہوں انسانیت کی قدر سب سے بڑا مذہب ہے۔ انسان انسان کے خون کا پیاسا ہوگیا جب کہ ہمیں مذہب دیکھے بغیر انسان کی مدد کی تعلیم دی گئی ہے۔ آج کی سیاست دولت اور طاقت کی سیاست ہوگئی ہے اب ووٹ کی بھی اہمیت نہیں رہ گئی ہے اس لیے میرا نظریہ ہے کہ جمہوریت کے بجائے ایسا نظام ہو جس میں حقیقی انسانوں کی شراکت ہو اور لوگوں کے دکھ درد کو دور کرنے کی کوشش ہو۔ آج ہم سیاست دانوں اور حکومت کی مدد کی پرواہ کیے بغیر آپسی بھائے چارے سے بھی ایک دوسرے کی مدد کرسکتے ہیں۔ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے یہاں کی اقلیت دنیا کی اکثریت ہے۔ ہندوستان کو اقبال نے گلستان قرار دیا تھا کیوں کہ یہاں کئی مذاہب اور تہذیبوں کے لوگ مل جل کر رہتے آئے ہیں اور آج بھی ہندوستان دنیا بھر میں ایک مثالی ملک ہے۔
زندگی کے بارے میں میرا نقطہ نظر یہی ہے کہ اللہ کی اطاعت کے ساتھ ایک دوسرے کی مدد کے ساتھ زندگی گزاری جائے۔ اس کائنات کی وسعت اور عظمت او ر دنیا کی زندگی کے سامنے انسان کی اپنی زندگی سمندر کے ایک قطرے اور پانی کے ایک بلبلے سے کچھ کم نہیں انسان کی زندگی میں ملنے والا وقت چند لمحوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں اس لیے انسان اس پل دوپل کی زندگانی کی قدرکرے اور ایسا کچھ کام کرجائے کہ رہتی انسانیت اسے اس کے کارناموں کے سبب یاد کرتی رہے۔یہی میرا بھی پیغام زندگانی ہے۔بہ قول اقبال ؎
دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہوجائے
ہرجگہ میرے چمکنے سے اجالا ہوجائے
٭٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...