اللہ تو نے جس طرح میرا دل بدل دیا اسی طرح میری ماں کا دل بھی بدل دے یااللہ میں جانتی ہوں میں نےزندگی کا ایک لمبا حصہ گناہوں کی دلدل میں گزارا ہے اللہ میں آپکی اس بات پر بے حد شکر گزار ہوں کہ آپ نےمجھے موت سے پہلے ہدایت دے دی اللہ میری ماں کو بھی معاف کردے اللہ مین جانتی وہ گناہگار ہے تیری ۔میرے باپ کی۔ اللہ میرے باپ کے دل میں اسکے لیے نرمی پیدا فرما۔وہ دعا مانگ کر اٹھی اور جاہ نماز فولڈ کر کے گیلری میں آگئی اورباہر کا خوبصورت نظارہ دیکھنے لگی۔
آج وہ لوگ واپس جارہے تھے ۔۔
آنے والے وقت مہں کیا ہونے واکا تھا وہ نہیں جانتی تھی۔ لیکن اب اسکا دل مطمئن ہوچکا تھا۔
اس وقت وہ چھت پر کپڑے ڈال کر آئی تھی کہ دروازے کی بیل بجی وہ بڑبڑاتے کوئے دروازے کی جانب بڑھی۔
جیسے ہی دروازہ کھولا سامنے تابش آفندی تھا ساتھ ایک عمر رسیدہ خاتون تھیں۔
اس نے جلدی سے دوپٹہ سر پر ڈالا اور سلام کیا اور انکو اندر آنے کا راستہ دیا۔
اس وقت وہ انکے ہمراہ ڈرائینگ روم میں بیٹھی ہوئی تھی جب فردوس بیگم نے بات شروع کی۔
“دیکھیں ہم بغیر کوئی دوسری بات کیے اصل مدعے پر آتے ہیں ہمیں آپکی بیٹی پسند آئی ہے اور ہم اپنے بیٹے لے لیے اسکا رشتہ مانگنے آئے ہیں”
ہمیں جہیز میں کچھ نہیں سوائے اچھی تربیت کے ماشاءاللّٰه سے وہ آپکی بیٹی میں ہے”
فائزہ بیگم حیرانگی سے انکو دیکھ رہی تھیں
“میں اسکے ابا سے بات کرونگی”وہ رسانیت سے بولیں
جیسا آپکو ٹھیک لگے لیکن جواب ہاں میں ہونا چاہیے ۔
فردوس بیگم بولیں۔
فائزہ بیگم کو یہ لوگ بہت بھلے معلوم ہوئے۔
انہوں نے بہترین طریوپے سے انکی خاطر مدارت کی۔
اس وقت وہ لان میں اکیلے بیٹھے دھوپ سینک رہی تھی اور اردگرد کا جائزہ لے رہی تھی ۔
جب دائمہ اسکے پاس آکر بیٹھی ۔
کیا کررہی ہو؟انہوں نے محبت سے پوچھا۔
کچھ نہیں۔اس نے سرد لہجے میں کہا۔
کنزہ کا سن کر بہت افسوس ہوا کوئی بیماری تھی اسے کیا؟ انہوں نے پوچھا درحقیقت وہ اس سے بات کرنے کا موقع تلاش کررہی تھیں ۔
انہیں ٹی بی تھی۔وہ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولی۔
مگر ٹی بی کا تو علاج ممکن ہے۔دائمہ حیرانگی سے بولیں۔
جی لیکن ہمارے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ انکا اچھے ہاسپٹل سے علاج کرواسکتے ۔وہ سرجھکا کر بولی۔
ہممممم۔وہ بولیں۔
میں اندر جاؤں۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
دائمہ نے مسکرا کر اسے دیکھا۔
جیسے ہی وہ گھر کے اندرونی حصے میں داخل ہونے لگی۔
ایک کار گھر میں داخل ہوئی۔
جس میں سے فریال نکلی اور اس سے لپٹی اسکے پیچھے ہی زہرام تھا۔
واٹ آ پلیزینٹ سپرائز مجھے تمہیں یہاں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ۔وہ اسکے ساتھ گلے لگتے ہوئے بولی۔
اچانک مشعل کی نظر زہرام پر ہڑی جو اس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا اس نے نظروں کا رخ پھیر لیا۔
وہ بھی اسکے سائیڈ سے ہوکر گھر کے اندر داخل ہوگیا۔
اسکے اس طرح جانے ہر اسکے دل میں ایک ٹھیس اٹھی۔
وہ تھکا ہارا گھر میں داخل ہوا اور اپنے کمرے کی حانب بڑھ گیا۔کمرا اس وقت اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا شام کا وقت تھا اس وجہ سے کھڑکیوں سے ہلکی ہلکی روشنی تھی اس نے کمرے کی لائٹ جلانے کا کشت نہیں کیا اور ایسے ہی بیڈ پر لیٹ گیا۔
کچھ ہی دیر میں اس نے محسوس کیا کہ بیڈ پر کچھ ہل رہا ہے مگر رافع نے اسے اپنا وہم سمجھا۔
“میاؤں” جیسے ہی یہ آواز اس نے کانوں میں پڑی وہ کرنٹ کھا کر سیدھا ہوا اور کمرے کی لائٹس جلائیں اور بستر سے کمبل ہٹا کر دیکھا تو اسکی نظر حیرت سے پھیل گئیں۔
ایک سفید رنگ کی بلی جس کے جسم پر برااون دھبے تھے مزے سے اسکے کمبل پر سوئی ہوئی تھی۔
رافع کو معلوم تھا یہ کس کی حرکت ہے اس نے شافع کو آواز ۔
“شافع” “شافع” وہ غصے سے آواز دے رہا تھا۔
شافع اسکی آواز سن کر وہ کمرے میں بھاگا ہوا آیا ۔
“کیا ہوا” اس نے پوچھا۔
یہ کیا ہے؟؟اس نے بیڈ کی طرف اشارہ کیا۔
رافع کچھ خیال کرو تم نے اس معصوم سے کمبل ہٹایا۔وہ بلی کے گرد کمبل لپیٹتے ہوئے بولا جیسے کوئی نومولود بچہ۔
رافع حیرانگی سے اسے دیکھ رہا تھا جس نے اسکا کمبل اس بلی کے نام کردیا تھا۔
شافع یہ کیا کررہے ہو۔اس نے حیرانگی سے پوچھا۔
بھائی یہ بلی باہر گلی میں تھی اسکو چوٹ لگی تھی تو میں اسے لے آیا۔ وہ بتاتے ہوئے بولا
یہ اکیلی تھی۔رافع نے بغیر سوچے سمجھے پوچھ لیا۔
نہیں اسکے بچے بھی تھے وہ دیکھو صوفے پر سورہے ہیں۔شافع نے معصومیت سے بتایا۔
رافع کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں
شافع میں کہا سوؤنگا آج؟؟اس نے ہوچھا۔
مہمان خانے میں ایک ہی رات کی بات ہے۔وہ بے نیازی سے بولا۔
رافع نفی میں سر ہلا کر رہ گیا
اس وقت کچن میں رات کے کھانے کی تیاریاں زور وشور سے چل رہیں تھیں ۔
نشا سب کچھ تیار ہوگیا ۔عجوہ بیگم نے پوچھا ۔
جی بھابھی سب تیار ہے بس میٹھا رہ گیا ہے آج گاجر کا حلوہ بنانا ہے گاجر کٹ چکی ہے بس اب وہ تیار کرنے لگی ہوں وہ جواب دیتے ہوئے بولی۔
ہمممم۔
“کیا میں آجاؤں” مشعل نے کچن میں جھانکتے ہوئے کہا۔
آجاؤ میری حان تمہیں اجازت کی کیا ضرورت تمہارا ہی گھر ہے ۔عجوہ بیگم محبت سے بولیں۔
میں اندر بور ہورہی تھی تو سوچا ادھر آجاؤں۔ اس نے وجہ بتائی۔
ہاں تو آجاؤ ۔نشا بیگم بولیں۔
میں کچھ مدد کردوں آپکی۔اس نے پوچھا ۔
سب کچھ تو ہوگیا ہے۔ کوئی کام نہیں ہے بس حلوہ بنانا ہے وہ میں بنالیتی ہوں تم رہنے دو۔نشا بیگم بولیں۔
تو میں بنادیتی ہوں بہت اچھا بناتی ہوں۔وہ معصومیت سے بولی۔
عجوہ بیگم کے اشارے پر نشا بیگم نے اسےراستہ دیا۔
سنیں مجھے بتائیں چیزیں کہاں ہے۔نشا بیگم نے مسکراتے ہوئے سارا سامان نکال کر رکھا۔
عجوہ بیگم اسے دیکھ رہی تھیں اور دل میں اسکی خوشی کی دعائیں کررہیں تھیں۔
ہلکی
اللہ تیری مصلحت کیا ہے۔یہ تو ہی جانتا ہے ہمارے حق میں کیا بہتر ہے یہ تجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔اللہ تو نے اسکو یہاں تک تو لے آیا بس اسکے دل میں نرمی بھی پیدا فرما۔زہرام بالکونی میں کھڑا پورے چاند کو دیکھتے ہوئے بولا ۔
اس وقت سب کھانے کے ٹیبل میں موجود تھے سب کو مشعل کے آنے کی خوشی بھی تھی اور خیرت بھی تھی۔
ہلکا پھلکا سلسلہ باتوں کا چل رہا تھا جب نشاط صاحب بولے۔
اممممم واہ بھائی آج تو حلوہ بہت زبردست بنا ہے بیگم کونسے یوٹیوب چینل سے دیکھا ہے”
انکی بات سن کر مشعل سر جھکا گئی۔
وہیں نشا بیگم کا چہرہ دھواں دھواں ہوا تھا۔
کیا مطلب میں اچھا کھانا نہیں پکاتی۔وہ مارے صدمے کے بولیں۔
انکی بات سن کر سب کا قہقہ بے ساختہ تھا۔
مذاق کررہا ہوں۔ویسے یہ تمہارے ہاتھ کا ذائقہ نہیں۔وہ بولے۔
یہ حلوہ میں نے نہیں مشعل نے بنایا ہے۔ وہ خوشی سے بتاتے ہوئے بولیں۔
انکی بات سن کر سب نے مشعل کی طرف دیکھا جو انجان بنی کھانا کھارہی تھی
ارے واہ!ہماری بیٹی کے ہاتھ میں تو بہت ذائقہ ہے ماشاءاللّٰه۔انہوں نے تعریف کی۔
مصطفی صاحب نے اپنی پلیٹ میں حلوہ لیا اور جیسے
پی انہوں نے ایک چمچ لی انہوں نے مشعل کی طرف دیکھا جو پہلے سے ہی انکو چوری دیکھ رہی تھی شاید وہ ان کا تبصرہ سننا چاہتی تھی۔
مگر وہ کچھ کہے بغیر دوبارہ سے کھانے مصروف ہوگئے۔
سب نے اسے بہت سراہا۔
مصطفی صاحب کی طرف سے کوئی جواب موصول نہ ہونے پر اسکا دل مایوس ہوگیا ۔
میرا ہوگیا ۔یہ کہہ کر وہ وہاں سے اٹھ گئی۔
اقتتدار صاحب نے مصطفی کو گھورا مگر وہ بے نیاز بنا رہا۔
بڑے صاب وہ قاسم کا فون آیا جی۔ادھر چھوٹے ملک سائیں کی طبیعت بگھڑ گئی ہے
بلارہا تھا وہ ادھر آپ سب کو۔
یہ کہہ کر ملازم چلا گیا۔
اس وقت وہ سب گھر سے نکل رہے تھے۔
بچے گھر ہی موجود تھے بڑے ہی جارہے تھے۔
سب باہر پورچ میں جاچکے تھے عجوہ بیگم بھی جلدی جلدی سب کھڑکیاں چیک کرتے ہوئے باہر کی طرف روانہ یوئیں تھیں۔
“بڑی امی” انکے کانوں میں ایک جانی پہچانی آواز پڑی۔
انہوں نے تصدیق کے لیے پیچھے دیکھا تو وہ سہمی ہوئی کھڑی تھی۔
انکو اپنی سماعت پر یقین نہیں آرہا تھا۔
“بڑی امی۔۔وہ یہ یخنی آپ انکو پلادیجیئے گا”
اس نے ایک ٹفن انکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا جسے انہوں نے خوشی تھام لی۔
وہ آج کتنا خوش ہوئی تھی جب اس نے انکو بڑی امی کہا تھا۔
وہ اسکا ماتھا چومتے ہوئے باہر نکلیں۔
خوشی سے انکی آنکھیں بھیگ گئیں بچپن سے ہی انکا انتظار رہا ہے کب وہ انھیں بڑی امی بولے۔
آج یہ خواہش بھی ہوری کردی تھی اس نے
انکی خوشی کا اندازہ انکی آنکھوں سے لگایا جاسکتا تھا۔
اسکو دلی طور پر ان سب سے مل کر خوشی ہورہی تھی اس نے سب میں گھلنا ملنا شروع کردیا جو بھی تھا وہ اسکے اپنے تھے۔
تمہیں کہا بھی تھا کہ ہمارے ساتھ آکر رہو یہاں اکیلے کیا کرو گے کیا حسلت بنا لی ہے تم نے وہ تو اچھا ہوا نہ
قاسم نے بتادیا ورنہ تم نے تو ہمیں کچھ سمجھا ہی نہیں تھی۔اقتتدار صاحب بھڑکے ہوئے تھے۔
ملک فرحان سر جھکا کر انکی باتیں سن رہے تھے۔
نشاط صاحب نے آگے بڑھ کر روکا اور عجوہ بیگم نے انھیں یخنی نکال کر دی۔
جسے پینے سے انھوں نے انکار کردیا۔
پی لو اسکو شرافت سے۔اقتتدار صاحب پھر بولے۔
نا چاہتے ہوئے انہوں نے ایک چمچ لیا تو وہ ٹھٹھک گئے۔
“کنزہ” اس میں میری کنزہ کے ہاتھ کا ذائقہ ہے ۔یہ کس نے بنایا۔بتاؤ مجھے یہ ذائقہ صرف اسی کے ہاتھ میں ہے۔وہ بول رہے تھے۔
مشعل نے بنائی ہے یہ یخنی۔عجوہ بیگم بولیں۔
مشعل کا نام سن کر وہ حیران ہوگئے تھے۔
مشعل !وہ کہاں سے آئی بھائی وہ آپکے گھر میں ہے کب سے اور مجھے کیوں نہیں بتایا وہ ۔
اسے لے کر کیوں نہیں آئے یہاں میرے پاس میں نے ملنا ہے اس سے۔ملک فرحان بول رہے تھے۔
ہاں وہ میرے ساتھ آئی تھی۔کنزہ سے وعدہ کیا تھا میں نے اسکا خیال رکھنے کا اور وہ بھی کنزہ کے وعدے کی وجہ سے ہی میرے ساتھ آئی ہے۔کنزہ اسکی ساری ذمہ داری مجھے دے کر گئی ہے۔ملک اقتتدار بول رہے تھے۔
تم تم کنزہ سے کب ملے۔حیرت سے ہوچھا گیا۔
جب وہ زندگی کے آخری لمحات ہسپتال میں گزار رہی تھی تب اس نے مجھے ملنے کے لیے بلایا تھا۔وہ آرام سے بولے۔
یہ وہاں کھڑے ہر شخص کے لیے ایک بریکنگ نیوز تھی
اس وقت وہ بالکونی میں کھڑا سوچوں میں گم تھا جب اس کے کانوں میں مشعل کی آواز آئی۔
“شموئل بھائی!”
اس نے مڑ کر دیکھا تو وہ ہاتھ میں کافی لیے کھڑی تھی۔
آو آو بیٹا۔وہ خوشدلی سے بولا۔
آپکی کافی۔کافی اسکی طرف بڑھاتے ہوئے بولی اور واپس پلٹی۔
رکو!شموئل نے کہا۔
اسکی آواز سن کر اسلے قدم منجمد ہوگئے۔
جی!اس نے پلٹ کر کہا۔
اگر کبھی بھی کوئی مسئلہ ہوا تو گھبرانا نہیں تمہارے سر پر ابھی اس بھائی کا ہاتھ ۔اس نے شفقت سے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے۔
اسکی بات سن کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔
۔