رات کا آخری پہر تھا۔
۔وفا کی آنکھ کھٹکے کی آواز پر کھلی۔
وہ سٹالر لیتی آنکھیں مسلتی باہر نکلی اور ایان کے کمرے کا دروازہ کھولا۔
ایان چھڑی کے سہارے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا، دروازہ کھلنے کی آواز پر رک کر اسے دیکھا اور دوبارہ اپنی کوشش میں سرگرداں ہوگیا۔
وفا نے آگے بڑھ کر اسے سہارا دینا چاہا، ایان نے سختی سے ہاتھ جھٹک دیا۔
وفا کا منہ کھل گیا، بھنویں سکیڑے ایان کے خفا چہرے کو دیکھ رہی تھی۔
”مسٹر ملک۔۔۔۔۔آپ کو چوٹ لگ جاٸے گی۔“
وفا نرمی سے بولتی سہارا دینے لگی۔
” تمہیں فرق نہیں پڑنا چاہیے۔“
ایان اسکے ہاتھ ہٹاتا اٹھ ہی گیا تھا۔
درد کی شدید لہر نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، ضد آڑے آ گٸ تھی۔
وہ آہستگی سے چلنے لگا تھا، وفا اسکے غصے پر حیران تھی۔
” فرق پڑا ہے تو رک گٸ ہوں آپ کے لیے۔“
وفا نے اسکا بازو تھام کر اپنے کندھے پر رکھا اور اس کے قدم کے ساتھ قدم ملانے لگی ، ایان کارخ بالکونی کی طرف تھا، وفا نے کھڑکی کھولی اور اسے باہر لے آٸی۔
ایان نے رخ موڑ کر اسے دیکھا تھا، مسکراہٹ اسکےلبوں کو چھو گٸ تھی۔
رات نے اپنی سیاہی ہر شے پر چھڑک رہی تھی، نیلگوں آسمان بھی سیاہی میں ڈوبا ہوا لگ رہا تھا، جس کی سیاہ چادر پر ستارے جگمگا رہے ہوں، پر بادلوں نے عموماً ستاروں کو ڈھانپ رکھا تھا۔
” زندگی فقط ایک بار ملتی ہے وفا، اسے جینا سیکھو۔“
ایان ٹیرس پر رک کر بولا تھا۔
” جینے کے لیے وجہ چاہیے ہوتی ہے مسٹر ملک۔“
وفا نے خود کو آزاد کیا اور ایان کو کرسی کھینچ کر دی۔
فضا میں کافی خنکی تھی۔
” میں تمہیں ہر وجہ دینے کے لیے تیار ہوں۔“
ایان سنجیدہ لگ رہا تھا۔
” مسٹر ملک، زندگی کےفیصلے جذبات میں آکر نہیں کیے جاتے، آپ میری سفید سیاہ زندگی میں صرف اسلیے رنگ بھرنا چاہتے ہیں، کہ مجھے ان رنگوں سے آشنا کر سکیں۔“
وفا اسکے سامنے بیٹھ گٸ تھی۔
دو بجے کا وقت تھا، وہ نیند کے آغوش سے چپکے سے نکل کر ایک دوسرے کے سامنے آبیٹھےتھے۔
” مجھے ترحم بھری خوشیاں نہیں چاہیے مسٹر ملک۔“
وفا نے سر جھکاٸے کہا۔
ایان نے گہراسانس خارج کیا۔
” اور اگر میں کہوں کہ مجھے تم سے محبت ہے۔“
ایان نے اسکی بھوری آنکھوں میں جھانکا، بالکونی کے اوپر لگے بلب کی روشنی اسکے چہرے کو روشن کیے ہوٸے تھی، وفا نے یکلخت کو پلکوں کی گھنی باڑ اٹھاٸی، روشن بھوری آنکھوں میں کوٸی تاثر نہیں تھا۔
” میں کہوں گی، اچھا مذاق ہے۔“
وفا سادگی سے بولی تھی، اور رخ موڑ کے نیچے دیکھنے لگی، اکا دکا اپارٹمنٹ کی لاٸٹیں جل رہیں تھیں۔
اسکے بھورے بال ہوا کے دوش پر اڑ کے اسکے چہرے کو ڈھانپ رہے تھے، ایان محویت سے اسے تک رہا تھا، وہ نظروں کا ہٹانا نہیں چاہتا تھا۔
” تمہیں لگتا ہے،ایان ملک سنجیدہ لمحوں کو مذاق کی نظر کر سکتا ہے۔“
ایان کی نظریں ہنوز اسکے چہرے پر تھیں۔
” لیکن آپ کی ضد کو دیکھ میں اتنا تو کہہ سکتی ہوں، آپ اپنی زندگی جزبات کی نظر کر رہے ہیں۔“
وفا نے اسے چند ثانیے کو دیکھ اور اسکی نظروں کی تاب نہ لا سکی تو رخ موڑ لیا۔
” میں بے وقوف نہیں ہوں وفا ملک۔“
ایان نے ہنوز سنجیدگی سے کہا۔
” جب بھی فیصلہ لیتا ہوں، ہر پہلو پرغور کرتا ہوں، مجھے تم بہتر نہیں بہترین لگی ہو۔“
ایان نے ڈھکا چھپا سا اعتراف کیا تھا۔
وفا نے ایک نظر اس پر ڈالی تھی۔
” تمہیں تمہاری خوشی سے اپنانا چاہتا ہوں، جب اپنی منانے پر آگیا تو یقن مانو، تمہیں سوچنے کا بھی حق نہیں دوں گا۔“
ایان نارمل لہجے میں سختی سموٸے بولا تو وفا نےاسے دیکھا۔
” اگر تم اس رشتے کو بڑھانا نہیں چاہتی تو کیوں فکر کرتی ہو؟ میری، کیوں مانتی ہو میری؟“
ایان کا لہجہ تیز ہو گیا تھا۔
وفا نے اچنبھے سے اسے دیکھا۔
” مجھے نہیں لگتا، مجھے اس انسان کو تکلیف میں چھوڑنا چاہیے، جو مجھے تکلیف میں اکیلا نہیں چھوڑتا۔“
وفا نے کمزور سی دلیل دی تھی، ایان استہزایہ انداز میں ہنسا۔
” یہ بہانہ تمہارے ضمیر کو تھپک کر سلانے کو اچھا ہے وفا۔“
ایان نے اٹھنے کی کوشش کی اور ریلنگ کو پکڑ کر کھڑا ہو گیا۔
وفا نے اسے دیکھا اور چپ چاپ کھڑی ہو گٸ۔
” تم جانتی ہو، کیلگری میں حسن کی کمی نہیں ہے، نا میری کلاس میں کسی چیز کی کمی ہے، بس میں اپنے عہد کا پابند ہو گیا ہوں۔“
ایان نے سامنے دیکھتے ہوٸے ہا تھا۔
” آپ کے ضمیر کو سلانے کو دلیل اچھی ہے مسٹر ملک۔“
وفا اسی کے انداز میں بولی۔
ایان نے رخ موڑ کر اسے دیکھا۔
” آپ مجھے محض ایک عہدکے لیے اپنی زندگی میں جگہ دیناچاہتے ہیں۔“
وفا اسکے ساتھ آ کھڑی ہوٸی۔
” تو تمہیں کس مسند پر جگہ چاہیے۔؟“
ایان نے دلچسپی سے اسے دیکھا۔
” میں جہاں ہوں ٹھیک ہوں۔“
وفا نے سر جھٹکا اور نیچے دیکھا، ہوا اب بھی اسکے بھورے بالوں سے کھیل رہی تھی۔
ایان خاموش ہو گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساریہ ناٸک نے اپنا سافٹ وٸیر لانچ کر دیا تھا، جبکہ ایان نے ابھی تک لانچ نہیں کیا تھا۔
ولیم اس سے ملنے آیا تھا، اسے ساریہ ناٸک کے اقدامات سے آگاہ کر رہا تھا۔
ایان بغور سن رہا تھا
” آٸی ہیو ٹو سیل ماٸی سافٹ وٸیر آفٹر لانچنگ۔“
ایان کچھ سوچتے ہوٸے بولا تھا۔
” واٹ۔“
ولیم کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔
”ییس۔“
ایان آرام سے بولا تھا۔
” بٹ واٸے۔“
ولیم کو اسکی سمجھ نا آٸی۔
” ٹیل یو سون۔“
ایان نے مسکراہٹ لبوں پر سجاٸی۔
ولیم تھوڑی دیر بعد چلا گیاتو وفا کھانا لے کر اندر آٸی۔
” آپ سافٹ وٸیر بیچ دیں گے۔“
وفا نے سادگی سے پوچھا۔
” ہاں۔۔۔۔!!“
ایان بیٹھتے ہوٸے بولا تھا۔
” کیوں۔۔۔۔؟“
وفا نے کھانا سروکیا۔
” ڈریم پراجیکٹ کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے۔“
ایان نے کھانا کھاتے ہوٸے کہا تھا۔
وفا نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
” تم آج شفٹ ہو رہی ہو۔؟“
ایان نے پوچھا۔
” نہیں۔۔۔۔۔“
وفا نے کھانا کھاتے ہوٸے اسے نظر اٹھا کر دیکھا۔
” بہت ضدی ہو تم۔“
ایان نے برا سا منہ بنایا۔
” چلو باہر چلتے ہیں، تھوڑا چلوں گا تو ایکسرساٸز ہو جاٸے گی۔“
ایان برتن ساٸڈ پر کرتے ہوٸے بولا۔
وفا نے برتن سمیٹے اور کچن میں رکھ آٸی۔
ایان کو لیے اپارٹمنٹ سے نکل آٸی۔
اپارٹمنٹ ایریا میں وہ آہستگی سے روش پر چل رہے تھے۔
ایان اپنے بل پر چلنے کی پوری کوشش کررہا تھا۔
ایک گھنٹے کی مشقت کے بعد وہ تھک گیا تھا۔
” آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے مسٹر ملک۔“
وفا اسے سنگی بینچ پر بٹھاتے ہوٸے بولی۔
” مجھ پریہ دن بھی آنے تھے۔“
ایان کو کوفت ہوٸی تھی۔
وفا خاموش رہی، ایان نے پیشانی مسلتے ہوٸے اسے دیکھا۔
اپارٹمنٹ گیٹ سے عناٸیہ اندر داخل ہوٸی۔
انہیں دیکھ کر سیدھا انہی کی طرف چلی آٸی۔
” السلام وعلیکم۔“
عناٸیہ خوشگواریت سے بولی، وہ یونی سے چلی آٸی تھی۔
” وعلیکم السلام۔“
ایان نرمی سے بولا تھا۔
وفا اٹھ گٸ تھی۔
” آپ بیٹھیے پلیز۔۔۔۔“
عناٸیہ مسکرا کر بولی اور انکے ساتھ ہی بیٹھ گٸ۔
” ڈیڈ بہت خفا ہیں آپ سے۔“
عناٸیہ نے سنجیدگی سے ایان کو دیکھا، ج کے چہرے کے نشانات مدھم پڑ گٸے تھے۔
”آٸی ڈونٹ کٸیر۔“
ایان لاپرواہی سے بولا تھا۔
وفا خاموشی سے انہیں سن رہی تھی۔
” جس کے لیے سب کر رہا ہوں، اسے پرواہ ہی نہیں ہے۔“
ایان نے لاتعلق دکھتی وفا کےانداز پر چوٹ کی۔
وفا نے ہنوز لا تعلقی کا اظہار کیا۔
” اٹس امیزنگ، یو آر ان لو۔“
عناٸیہ نے ایان کو چھیڑا۔
ایان نے اسے گھوری سے نوازا تو عناٸیہ کھلکلا کر ہنس دی، وفا نے سر اٹھا کے اسکی زندگی سے بھرپور کلکاری کو دیکھا تھا۔
” بالاج اریسٹ ہو گیا ہے۔“
عناٸیہ نے کہا تو ایان نے سر اثبات میں ہلایا۔
کافی دیر گپ شپ لگانے کے بعد عناٸیہ چلی گٸ تھی، وفا اسے واپس اسکے کمرے میں لے آٸی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” میم یہ ساری انکی پرسنل انفو ہے۔“
عینا نے فاٸلز ٹیبل پر دھریں۔
” یو آر سوٕیٹ عینا۔“
باس کی مخروطی انگلیاں عینا کے رخسار کو چھو کر نکل گٸیں۔
عینا مسکرا کر رہ گٸ۔
” آٸی تھنک یو آر ان لو ود ایان ملک۔“
باس نے اسکے سر پر بم پھوڑا تھا۔
عینا فقط سر ہلا سکی۔
” ہی از دا کنگ آف ایٹیٹیوڈ۔“
باس نے فاٸل کھول کر گودمیں رکھ لیں۔
ہر صفحہ الٹ رہی تھی۔
” ایوری ورک یو میک فارمی، از جسٹ آ سیکرٹ، سو ڈونٹ اوپن یور ماٶتھ۔“
باس کے لہجے میں دھمکی بھی تھی، سختی کا عنصر بھی نمایاں تھا۔
عینا کے چہرے پر خوف کا سایہ لہرا گیا، اسے احساس ہونے لگا تھا، دوہری سیلری کے لالچ مں بری طرح پھس رہی ہے۔
”یی ۔۔۔ییس میم۔“
عینا نے گھبرا کر کہا۔
باس نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔
فاٸلیں کاپی کیں اور ساٸن کر کے اسے دے دیں۔
” پٹ اٹ آن اٹس پلیس۔“
باس نے حکم دیا تھا، عینا کا اوپر کا سانس اوپراور نیچے کا نیچے رہ گیا تھا۔
فاٸل پکڑتی وہ نکل آٸی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح صادق کا روشن اجالا ہر شے سے سیاہی کو چنتا سفیدی میں بدلنے لگا تھا، کیلگری پر ایک نٸ روشن صبح کا آغاز ہوا تھا، وفا نے نماز ادا کی اور کچن میں چلی آٸی، ہیلپر گرل ابھی نہیں آٸی تھی، وفا نے ایان کے لیے جوس بنایا اور ڈش لیے اسکے کمرے میں آگٸ۔
وہ شاید ابھی تک نیند میں تھا۔
وفا اسے دیکھ کر مسکرا دی، بے خبری میں پرسکون لگ رہا تھا۔
نظروں کی تپشپر ایان کسمسایا تو وفا نے ہڑبڑا کر نظروں کا رخ بدل لیا۔
ایان نے مندی مندی آنکھوں سے اسے دیکھا اور مسکرا دیا۔
ایان کی صحت میں فرق پڑ رہا تھا، وہ تیزی سے ریکوور کررہا تھا۔
اب وہ بغیر سہارے کے اٹھ سکتا تھا۔
بالوں میں ہاتھ چلاتا وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔
” کیسی ہو۔؟“
ایان بیڈ کی پشت سے ٹیک لگاٸے نرمی سے بولا تھا، وفا اس شخص کے اندازو اطوار پر جتنا حیران ہوتی کم تھی، سخت مزاج سا ایان ملک نرمی میں کیسے بدلنے لگا تھا۔
وفا کے سہارے وہ فریش ہو کر آیا اور جوس سے لطف اندوز ہونے لگا۔
وفا باہر چلی آٸی۔
وہ آہستگی سے اٹھ کے ہال میں وفا کے پاس آ کر بیٹھ گیا، گویا اسکی چال میں لغزش واضح تھی۔
” آج چیک اپ کے لیے جانا ہے۔“
ایان نے اسے آگاہ کیا تھا، وفا نے سر اثبات میں ہلا دیا۔
ایان نے محویت سے اسے دیکھا۔
عناٸیہ کو کالر کے گاڑی لانے کا کہا اور ٹی وی آن کر لیا۔
دس بجے کے قریب عناٸیہ چلی آٸی اور وہ ہاسپٹل کے لیے نکل گٸے۔
ایان کے سارے ٹیسٹ کلیر تھے، اسکی میڈیسن چینج ہو گٸ تھی۔
تھو ڑی دیر بعد وہ ہاسپٹل سے نکل آٸے۔
بارہ بجے کے قریب عنائیہ انہیں واپس اپارٹمنٹ چھوڑ گئ۔
ایان آہستگی سے چلنے لگا تھا۔
” نیکسٹ ویک تک ہم جیمز کی طرف چلیں گے۔“
ایان اسے خاموش پا کر مخاطب کر گیا، وفا نے اسےایک نظر دیکھا اور سر اثبات میں ہلا دیا۔
ایان نے ٹی وی آن کر لیا۔
ادھر ادھر چینل گھمانےکے بعد وہ جا کر لیٹ گیا۔
ہیلپر گرل نے دوپہر کے لیے کھانا بنادیا تو وفا کھانا لیے ایان کے کمرے کی طرف بڑھ گٸ۔
ایک ہفتے کے بعد۔
ایک ہفتے کے بعد ایان اپنے پیروں پر چلنے لگا تھا۔
بلیک تھری پیس پہنے وہ آٸینے کے سامنے تیار ہو رہا تھا، پرفیوم سپرے کرکے اس نے جھک کے رسٹ واچ اٹھاٸی اور پہنتے ہوٸے پلٹا اور لیپ ٹاپ میں بیگ میں ڈال کر چند ضروری چیزیں لیں اور کمرے سے نکل آیا۔
وفا ٹیبل پر ناشتہ لگا چکی تھی۔
ایان نے مسکراتی نظر اس پر ڈالی اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
” آج میرے لیے بہت اہم دن ہے۔“
ایان ناشتہ نکالتے ہوٸے اسے بتانے لگا۔
” بیسٹ آف لک۔“
وفا نے مسکرا کر کہا تھا۔
” میرے لیے دعا کرو گی۔؟“
ایان رک کر اسے دیکھتے ہوٸے جانے کس احساس کے تحت بولا تھا۔
” آپ کو دعاٶں پر یقین ہے۔؟“
وفا اسے دیکھتے ہوٸے سوال کر گٸ۔
” پتہ نہیں۔“
ایان کندھے اچکا کر بولتا ناشتے کی طرف متوجہ ہوا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...