اللہ پاک مجھ سے محبت کرتا ہے تو مجھے اپنے پاس کیوں نہیں بلا لیتا آپی۔۔ حرمین کی آنکھوں میں نمی تھی۔۔
وہ دونوں صبح کی چاے چھت پر ٹہلتے ہوے پی رہی تھیں۔۔
حرمین ایسی باتیں نہیں کرو۔۔ شزا نے چاے کا کپ منڈیر پر رکھتے ہوے کہا۔۔
بچپن ذہنی ازیت میں گزرا اور اب جوانی بھی۔۔ شاید کبھی کبھی انسان کی ذندگی ختم ہوجاتی ہے مگر آزمائشیں ختم نہیں ہوتیں۔۔ وہ نا جانے کہاں گھوئ ہوئ تھی۔۔۔
حرمین بھول کیوں نہیں جاتی تم اپنے بچپن کو۔۔ شزا نے اسکے کندھے کو چھوکر کہا۔۔۔
بھول جاتی ہوں۔۔ مگر جب کوئی اپنا دکھ دیتا ہے نہ تو دکھ دینے والا ہر شخص یاد آتا ہے۔۔ اسکی ایک آنکھ سے آنسوں کی بوند ٹپکی۔۔۔
میں کسی ایسی جگہ جانا چاہتی ہوں جہاں انسان نامی کوئی جانور نہ ہو۔۔ بس میری ذات ہو اور میرا رب ہو۔۔ کچھ دیر رک کر وہ بولی۔۔۔
تم آج اپنی کلاس لینے ضرور جانا وہاں تمھیں سکون ملے گا۔۔ شزا نے اس سے کہا۔۔
مجھے آج ایک بات سمجھ آی ہے آپی کہ یہ زندگی ہماری ہے اس کو کسی ایک شخص کی ذات تک محدود نہیں رکھنا چاہیے۔۔ کیونکہ جب وہ شخص دور ہوجاتا ہے تو زندگی بھی ختم سی ہوجاتی ہے۔۔۔
وقت ہماری زندگی سے ان لوگوں کو نکال دیتا ہے جو زندہ تو ہوتے ہیں مگر ہم انکے لیے مر چکے ہوتے ہیں۔۔ اور تکلیف بھی انہیں لوگوں کہ جانے سے ہوتی ہے جو دنیا سے نہیں بس زندگی سے چلے جاتے ہیں۔۔ اسکے چہرے پر اداسی چھائی ہوئی تھی۔۔۔
لیکن وقت انہیں لوگوں کو زندگی سے نکالتا ہے۔۔ جنکی وجہ سے زندگی ایک جگہ رک جاتی ہے۔۔
کیونکہ زندگی چلنے کا نام ہے نہ۔۔ وہ رک نہیں سکتی۔۔۔ شزا نے کہا۔۔
محبت میں عاشق محبوب میں اپنی محبت کا عکس دیکھ رہا ہوتا ہے۔۔ اس لیے اسکو لگتا ہے کہ اسکا محبوب اسکا دیوانہ ہے۔۔ جبکہ وہ محبوب کی محبت کا اندازہ کر ہی نہیں سکتا وہ تو تمام عمر محبوب میں اپنی محبت کا عکس دیکھ کر خوش ہوتا رہتا ہے۔۔
اور ایک وقت آتا ہے جب وہ آئینہ وقت کی رفتار کی وجہ سے ٹوٹ جاتا ہے۔۔ تب ہمیں محبوب کی محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔۔۔ شزا مدھم آواز میں اسے سمجھا رہی تھی۔۔۔
ہاں آپی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔۔
میں اصفر میں اپنی محبت کا عکس دیکھ رہی تھی اسی لیے مجھے خوش فہمی تھی کہ وہ مجھ پر بہت اعتماد کرتا ہے۔۔ جبکہ وہ اعتماد تو میرا تھا جسکا عکس اس میں دکھائ پڑتا تھا۔۔
اور پھر جب وقت نے اس آئینے کو توڑا تو مجھے دکھائ دیا کہ اصفر کی محبت اس قدر کمزور تھی جو زرا سی غلط فہمی کی وجہ سے نفرت بن گئ۔۔۔
وہ شزا کے بازوؤں کو پکڑ کر اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہہ رہی تھی۔۔۔
تو پھر اب اداس نہیں ہو۔۔ اگر اللہ نے چاہا تو وہ خود آجاے گا اپنی غلطی کا اعتراف کرنے۔۔ شزا نے مسکرا کر کہا۔۔۔
_______________________
کلاس میں بیٹھی وہ لیکچر شروع ہونے کا انتظار کرنے لگی۔۔۔ کلاس میں ہر طرف اسٹوڈینٹ باتوں میں مصروف تھے۔۔۔۔
اسلام و علیکم ۔۔
کیسے ہیں آپ سب۔۔ سر شفقت علی نے کلاس میں داخل ہوتے ہوے کہا۔۔۔
انکے آتے ہی ہر طرف خاموشی چھا گئ۔۔ کچھ دیر کی معمولی گفتگو کے بعد انہوں نے آج کا ٹاپک شروع کیا۔۔۔
ہاں جی آج کا ٹاپک ہے ” روحانی نماز”۔۔۔۔
نماز ایک مسلمان کی نظر میں صرف فرض عبادت ہوتی ہے۔۔ لیکن اگر اسکے علم میں یہ بات آجاے کہ نماز کیا ہوتی ہے۔۔ تو شاید وہ کبھی سجدہ نہ چھوڑے۔۔۔
ایک مسلمان کی نماز دوزخ کی آگ سے بچنے کے لیے ہوتی ہے۔۔ جبکہ ایک مومن کی نماز معراج ہوتی ہے۔۔۔
مسلمان نیکیوں کا ڈھیر جمع کرنے کے لیے نماز پڑھتا ہے اور دیگر فرائض سر انجام دیتا ہے۔۔ جبکہ مومن کی تمنا صرف دیدارِ الٰہی ہوتی ہے اس لیے اسکی نماز معراج ہوتی ہے۔۔۔
اور یہی جنت کا آخری مقام بتایا جاتا ہے۔۔۔
جب کوئی شخص اپنے مجازی محبوب کے مقابل بیٹھتا ہے۔۔ تو دھڑکنیں رقص کرنے لگتی ہیں۔۔ وقت ساکت ہوجاتا ہے۔۔زبان مفلوج ہوجاتی ہے ایک سرور ایک سکون کی کیفیت ہوتی ہے۔۔ اور نگاہیں محبوب کے چہرے سے ہٹتی نہیں ہیں۔۔ یہ عشق کی معراج ہے۔۔
مگر کہاں عشقِ مجازی اور کہاں عشقِ حقیقی۔۔۔
مومن کے دل میں صرف اللہ ہوتا ہے۔۔ اسکا محبوب اسکا عشق صرف اللہ ہوتا ہے۔۔
جب وہ نماز میں سجدہ کرتا ہے تو اسکو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ رب العالمین کے سامنے جھکا ہے۔۔ اس وقت اسکا رب اسکی طرف متوجہ ہے اور وہ اس وقت اس رب کے دربار میں سجدہ کر رہا ہے۔۔ جب مومن کو اپنا مقام حاصل ہوجاتا ہے اور اسکا قیام روح میں ہوجاتا ہے۔۔۔ تو سجدہ صرف اسکا وجود ہی نہیں بلکہ اسکی روح کر رہی ہوتی ہے۔۔ بندے کے پاس کچھ نہیں رہتا سواے عشقِ حقیقی کہ۔۔ اسکا وجود اس خوف سے کانپ رہا ہوتا ہے کہ وہ بادشاہوں کے بادشاہ کے دربار میں کھڑا ہے۔۔ اسکا ہر عمل من جانب اللہ ہوتا ہے۔۔ وہ کسی سے محبت رکھتا ہے تو اللہ کے لیے اور دشمنی رکھتا ہے تو اللہ کہ لیے۔۔
موجودہ مسلمان نماز کو ایک مجبوری سمجھتے ہیں۔۔ جبکہ مومن تو نماز میں سلام بھی مجبوراً پھیرتا ہے۔۔۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیںں پانچ وقت معراج نصیب ہوتی ہے۔۔۔
سر شفقت علی کے پورے لیکچر کے درمیان کسی شاگرد نے کوئی سوال نہیں کیا۔۔۔ البتہ حرمین پر اس لیکچر کا بہت اثر ہوا۔۔۔
_______________________
وہ گھر آچکی تھی اور اپنا کمرہ بند کیے بیٹھی تھی۔۔۔
یا اللہ میں گناہوں کی کیچڑ اپنی جسم پر لگاے ہوے تیرے پاس رحم کی بھیک مانگنے آئ ہوں۔۔۔
یا اللہ میرے گناہوں کو معاف کردے بے شک تو بہت رحیم ہے معاف کرنے والا ہے۔۔۔
تو میرے دل کے اتنے قریب تھا اور میں تجھ سے غافل رہی۔۔
میرے اللہ مجھے غفلت کے اندھیروں سے نکالنے والی بھی تیری ہی ذات ہے۔۔۔ مجھے معاف کردے مجھ پر احسان کردے یا رب۔۔ مجھے معاف کردے اللہ معاف کردے۔۔
وہ دونوں ہاتھ پھیلاے اللہ کے حضور دعا کر رہی تھی۔۔۔
کافی دیر رو رو کر دعا کر نے کے بعد وہ سوچنے لگی۔۔
مجھے تو اللہ نے ماں باپ دیے بہن بھائی دیے۔۔ رہنے کے لیے گھر دیا بھلے یہ چھوٹا سا ہی سہی۔۔ کھانے کے لیے روٹی دی۔۔ پہننے کے لیے کپڑے دیے۔۔ پڑھنے کے لیے کتابیں دی۔۔ اور نا جانے کون کون سی وہ نعمتیں ہیں جنکہ مجھے معلوم بھی نہیں ہے۔۔
لوگوں کی نظر میں ہم مڈل کلاس لوگ ہیں۔۔ مگر آخرت میں جب اللہ اپنی دی گئ ہر نعمت کا مجھ سے حساب مانگے گا تو میں کسے دوں گی جب مجھے اس دنیا میں غریب ہونے کے باوجود بھی ہر چیز کا حساب دینا ہوگا تو وہ لوگ جن کے پاس اتنی مال و دولت ہے انکا حساب تو مجھ سے کئ گنا ذیادہ ہوگا۔۔
یا اللہ تیرا بہت کرم ہے کہ تونے مجھے اتنا نوازہ دنیا کی نظر میں یہ بھلے بہت کم ہومگر میرے کندھوں پر اسکا بوجھ بہت ذیادہ ہے۔۔
بے شک جس شخص کے پاس جتنی آسائشیں ہونگی اس سے آخرت میں اتنا ہی ذیادہ حساب لیا جاے گا۔۔
اس پر اسکی آسائشوں کا بوجھ بھی بہت ذیادہ ہوگا۔۔
حساب تو ضائع کی گئ پانی ایک ایک بوند کا بھی دینا ہوگا تو مال و دولت تو اسکے آگے بہت بڑی چیزیں ہیں۔۔۔
اسکے چہرے پر عجیب سہ خوف تھا۔۔ وہ اپنا محاسبہ کر رہی تھی۔۔
وقار بیٹا آٹھ مہینے ہوگے ہیں تمھاری صبا سے منگنی کو۔۔ تم نے کہا تھا کہ منگنی کے چھ مہینے کے بعد ہی تم شادی کرلوگے۔۔۔ شاہدہ کچھ ناراض لگ رہی تھیں۔۔
وہ اس وقت اس کے کمرے میں کھڑی تھیں جب وہ کہی باہر جانے کی تیاری میں مصروف تھا۔۔
امی میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا کے جب تک میں اصفر کو سچائ سے آگاہ نہیں کردیتا۔۔ تب تک میں صبا سے شادی نہیں کر سکتا۔۔
آپ نہیں جانتی کہ میں کس آگ میں جل رہا ہوں۔۔ یہ گناہ مجھے اندر ہی اندر کھاے جا رہا ہے امی۔۔۔ وہ شیشے کے سامنے پرفیوم لگاتا ہوا کہہ رہا تھا۔۔
ایک سال سے ڈھونڈ رہے ہو تم اسکو آج تک ملا وہ تمھیں؟؟
ساری زندگی نہ ملا وہ تو کیا ساری زندگی شادی نہیں کروگے۔۔۔ شاہدہ اب اونچی آواز میں بول رہی تھیں۔۔
امی کوشش کرنے دیں مجھے ہو سکتا ہے وہ بہت جلد مل جاے مجھے۔۔ وقار کے لہجے میں ایک امید تھی۔۔
اگر وہ کچھ وقت میں تمھیں نا ملا نہ تو میں تمھاری ایک نہیں سنوں گی پھر۔۔ شاہدہ اسکو انگلی کے اشارے سے تنبیہ کر رہی تھیں۔۔
اچھا ٹھیک ہے جو آپ کہیں گی وہی کروں گا۔۔ فی الحال مجھے زرا کام سے جانا ہے میں نکلتا ہوں۔۔
وہ شاہدہ کے گال پر بوسہ دے کر وہاں سے نکل آیا۔۔
ابھی وہ اپنی بائیک اسٹارٹ کرکے محلے سے نکل ہی رہا تھا کہ اسکے سامنے سے آتی ہوئ ایک بلیک کلر کی کار سے باہر جھانکتے ہوے ایک لڑکے نے اسکو ہاتھ کے اشارے سے روکا۔۔
ارے فاروق تو۔۔ واہ بھئ نئ گاڑی لے لی تم نے تو۔۔ مٹھائ کہاں ہے۔۔
وقار نے بھی اپنی بائیک اسکی گاڑی کے پاس روکتے ہوے کہا۔۔۔۔
یار بس آج ہی لی ہے میرا ایک جاننے والا ہے اسکے شوروم سے۔۔ کیسی لگی؟؟ ہے نہ زبردست۔۔ کار کی ونڈو سے باہر جھانکتا ہوا وہ شخص بولا۔۔
وہ وقار کا دوست تھا۔۔
ہاں یار ہے تو زبردست۔۔۔ ویسے میں بھی گاڑی لینے کے چکر میں ہوں۔۔
تجھے تو پتہ ہے شادی ہونے والی ہے۔۔ اب شادی کہ بعد بیوی کو بائیک پر گھمانہ کہاں اچھا لگتا ہے۔۔ وقار ہستا ہوا کہہ رہا تھا۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔ یہ بات تو سہی ہے یار۔۔
تو پھر تم وہی سے لے لو نا گاڑی جہاں سے میں نے لی ہے۔۔
کہاں جگہ جگہ خوار ہوتے پھروگے۔۔ فاروق نے کہا۔۔
ہاں مشورہ تو اچھا ہے یار تیرا۔۔ وقار نے بھی اسکی بات سے اتفاق کیا۔۔
ہاں تو یہ لو۔۔۔ شوروم کا کارڈ۔۔
بہت اچھا بندہ ہے۔۔ جا کر دیکھلو ایک بار۔۔ فاروق نے شرٹ کی جب سے وزیٹنگ کارڈ نکال کر وقار کی طرف بڑھایا۔۔
تھینک یو یار۔۔
اچھا میں نکلتا ہوں۔۔ پھر ملاقات ہوگی۔۔۔ وقار کو کارڈ دے کر وہ شخص چلا گیا۔۔
اسکے جانے کے بعد جب وقار نے کارڈ پر نظر ڈالی تو یہ دیکھ کر اسکو حیرت کا ایک زوردار جھٹکا لگا کہ کارڈ پر اصفر احمد کا نام اور نمبر لکھا تھا۔۔
اور اسکے ٹھیک نیچے ابراہیم احمد کا نام اور نمبر لکھا تھا۔۔۔
کارڈ دیکھ کر وہ سمجھ چکا تھا کہ یہ شوروم اصفر کا ہے اس لیے پہلی فرصت میں وہ بائیک دوڑاتا ہوا وہاں پہنچا۔۔۔
__________________
ایک سال ہوگیا ہے اب تو۔۔۔
اس ایک سال میں کتنی بدل گئ ہے میری زندگی۔۔
وہ روحانی ریسرچ اکیڈمی کی عمارت کے نیچے سیڑھیوں پر بیٹھی گارڈن میں کھیلتے بچوں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
اب تو مجھے دنیا کا کوئی دکھ کوئی غم نہیں ہے۔۔ عشقِ حقیقی میں واقعی بہت سکون ہے۔۔
میں بھلے ابھی عشقِ حقیقی کے عروج پر نہیں پہنچی مگر میں اس میں کچھ آگے تو نکل ہی چکی ہوں۔۔۔ آج میری زندگی میں کتنا سکون ہے۔۔۔
جب بندے کو خدا ملتا ہے تو واقعی دنیا فانی ہوجاتی ہے۔۔ اسکے جسم میں سکون و اطمینان کی لہر دوڑ رہی تھی۔۔ وہ چہرے پر سجائ مسکراہٹ کے ساتھ وہاں کے ماحول کا لطف اٹھا رہی تھی۔۔۔
اس ایک سال میں اس نے وہاں کے فاؤنڈیشن کے لیے بہت سے پراجیکٹس پر کام کیا تھا۔۔
اس کے علاوہ وہ اپنی کلاسز کو پابندی سے اٹینڈ کرتی رہی تھی جس وجہ سے اس نے بہت کم وقت میں بہت کچھ سیکھ لیا تھا۔۔
_____________________
وقار کو شوروم میں دیکھ کر اصفر کو کچھ ذیادہ خوشی محسوس نہیں ہوئ۔۔ البتہ اسکو حرمین والا واقعہ یاد آگیا جس کو وہ ایک سال سے بھلانے کی کوشش میں لگا تھا۔۔
کہو وقار کیسے آنا ہوا۔۔ اصفر نے اس سے کہا۔۔
کتنی عجیب بات ہے اصفر ایک ہی شہر میں رہتے ہوے بھی میری تم سے ایک سال بعد ملاقات ہو رہی ہے۔۔۔ وقار نے مدھم آواز میں کہا۔۔
ہاں وہ اس لیے کیوں کہ میں یہاں ہوتا ہی نہیں ہوں۔۔ زیادہ وقت میں حیدرآباد میں ہوتا ہوں۔۔
وہاں بھی ایک شوروم ہے میرا بس اسی وجہ سے۔۔ اصفر نے اس کو بتایا۔۔
وہ اصفر مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔ وقار سیدھا مدعے پر آگیا۔۔
ہاں کہو۔۔۔
وقار کے منہ سے حرمین اور اس کے درمیان پیدا کی جانے والی غلط فہمی کا سننے کے بعد اصفر کا وجود ساکت ہوگیا۔۔
اسکو لگا جیسے اسکے جسم کا ہر اعضو مفلوج ہوچکا ہے۔۔
کچھ دیر بعد جب وہ اپنے حواسوں میں لوٹا تو اس نے ایک جھٹکے سے اپنے سامنے چئیر پر بیٹھے وقار کا گریبان جکڑلیا۔۔
میں نے تم سے کہا تھا کہ حرمین سے کہنا کہ اصفر اس سے نفرت کرتا ہے اور اب وہ ملک سے باہر چلا گیا ہے۔۔
تو تم نے اس سے میری موت کا جھوٹ کیوں بولا۔۔ اصفر اس پر دھاڑ رہا تھا۔۔
مجھے لگا کہ اگر میں اسکو تمھارے کہے ہوے جملے کہوں گا تو وہ مجھ پر یقین نہیں کریگی وہ تم سے رابطہ کرنے کے لیے کچھ بھی کرے گی۔۔
اس لیے میں نے اتنا بڑا جھوٹ بولا تاکہ اسکے پاس صبر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہے۔۔
اور وہ مجھ پر یقین بھی کرتی یہ سوچ کر کہ موت کا جھوٹ تو کوئی بول نہیں سکتا نہ۔۔ وقار نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوے کہا۔۔
اصفر اسکا گریبان چھوڑ کر واپس کرسی پر بیٹھ گیا۔۔
یہ مجھ سے کیا ہوگیا۔۔۔۔
کیا کردیا میں نے یہ۔۔۔
مجھے کچھ بھی کر کے حرمین نے ملنا ہوگا۔۔۔۔
وقار اب جا چکا تھا مگر اصفر ٹوٹے وجود کے ساتھ وہاں بیٹھے پچھتا رہا تھا۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...