(Last Updated On: )
مان گیا میں تمہیں مرال کیا ایکٹنگ کرتی ہو شرمانے کی ماما کو بھی مطمئن کردیا واہ” وہ روم میں آکے بولا مرال ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے کے سامنے کھڑی جیولری اتار رہی تھی
” ویسے اچھی بات ہے اپنے شوہر کا پردہ رکھنا اچھی طرح آتا ہے تمہیں۔۔۔۔۔ ماما کے سامنے جرم کے کٹہرے میں کھڑا رہنا پڑتا اگر تم مجھے نا بچاتیں خیر تھینک فل تو میں اب بھی نہیں ہوں کیونکہ تھینک فل تمہیں میرا ہونا چاہیے اگر تم کچھ بھی الٹا سیدھا بولتیں ماما کے سامنے تو کھڑے کھڑے طلاق دے دیتا میں تمہیں” مرال طلاق کے نام پہ ایک دم پلٹی اور بے یقینی سے اسے دیکھنے لگی
” کیا دیکھ رہی ہو ہاں” وہ چلتا ہوا اس قریب آیا ” میں ایسا کر سکتا ہوں۔۔۔۔۔” وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا مرال کی آنکھیں بھیگنے لگیں کیا بس یہی اہمیت تھی اس کی۔۔۔۔۔ کیا سوچ کر آئی تھی وہ کہ مضبوط بنے گی روئے گی نہیں جبران کی سوچ بدل دے گی اس کے دل میں اپنی محبت ڈال دے گی اپنی خدمت اپنی محبت سے اسے جیت لے گی پر۔۔۔۔۔ سب الٹ ہو گیا تھا وہ اسء قطرہ قطرہ مار رہا تھا اور وہ قطرہ قطرہ مر رہی تھی وہ کہہ کر واشروم میں چلا گیا تھا پر وہ وہیں کھڑی تھی
” نہیں وہ ہار کیسے مان سکتی ہے۔۔۔۔۔وہ کیسے کمزور پڑ سکتی ہے وہ اس کا دل جیتنے آئی ہے وہ اس کی بن کے اسے اپنا بنانے آئی ہے نا تو پھر وہ کیوں کر مایوس ہو اللٰہ ہے نا اس کے ساتھ” اس نے آنسو پونچھے وہ اگلے دن کے لیے اب تیار تھی
ان کی شادی کو چوتھا دن تھا ولیمے کے بعد اس نے ضد کر کے کام میں ہاتھ لگا لیا تھا کہ فارغ بیٹھ کے بھی کیا کرتی جبران کے سر میں آج صبح سے بہت درد تھا ماما نے ڈاکٹر کو چیک اپ کرانے کا کہا بھی پر وہ نہ مانا مرال روم میں آئی تو جبران کو لیٹے پایا وہ کبھی دن میں اتنی دیر نہیں لیٹتا تھا پر آج تو صبح سے آنکھیں کیے لیٹا ہوا تھا وہ ڈرتے ڈرتے اس کے پاس آئی
” ججبران۔۔۔۔۔” ان تین دنوں میں وہ اس پہ کئی بار ہاتھ اٹھا چکا تھا کہ اب تو وہ اس کے سامنے آنے سے بھی ڈرتی تھی مرال نے اسے پکارا تو اس نے کوئی جواب نہ دیا
” جبران۔۔۔۔۔ سر میں زیادہ درد ہے” وہ پھر بولی جبران نے صرف سر ہلایا وہ اس کے پاس بیڈ کے سائیڈ پہ بیٹھی اور جبران نے کسی کے نرم ہاتھوں کا لمس اپنے ماتھے پہ محسوس کیا اور پٹ سے آنکھیں کھولیں مرال اس کے پاس بیٹھی اس کا سر دبا رہی تھی وہ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا وہ اس کے دیکھنے سے کنفیوز ہو رہی تھی چہرہ گلابی ہونے لگا تھا جبران نے پھر سے آنکھیں بند کرلیں سر کا درد ختم ہونے لگا کچھ دیر میں وہ سوگیا تھا
وہ سو کے اٹھا تو اس کا سر کا درد بالکل ختم تھا وہ اٹھ بیٹھا اتنے میں مرال چائے لے کر آئی
” چائے ” اس نے کپ اس کی طرف بڑھایا جبران نے کپ تھام لیا
” سر کا درد اب کیسا ہے” اس نے پوچھا
” ہمممم ٹھیک ہے” اس نے کہا اور چائے پینے لگا مرال روم سے چلی گئی
——
رات ک پھر جبران کو بہت تیز بخار ہو گیا تھا وامیٹ کر کر کے حالت خراب ہو گئی تھی اس کی۔۔۔۔۔ جب اس کی نیند پوری نہیں ہوتی تھی یا کھانا باہر سے کھاتا تھا تو اس کی حالت ایسی ہی ہو جاتی تھی اب تو بخار بھی تھا شاید سردی لگ گئی تھی مرال نیچے کارپیٹ پہ لیٹی سونے ہی لگی تھی کہ جبران کو واشروم آتے دیکھا اور تھوڑی دیر بعد اسے پھر ابکائیاں لیتے ہوئے واشروم کی طرف جاتے دیکھا مرال پریشان ہو اٹھی اور اس کو سہارا دے کر واشروم لے کے گئی اور پھر اسے لا کے بیڈ پہ لٹایا اسے بہت تیز بخار تھا مرال نے جلدی سے سائیڈ ڈرور سے ٹیبلٹس نکالی اور اسے پانی سے کھلائیں اور اس کے پاس ہی بیٹھ گئی جبران نے اس کے ہاتھ پکڑ لیے تھے کبھی اس کے ہاتھ اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھتا کبھی گردن پہ کبھی گالوں پہ مرال پریشان ہو گئی تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے رات کے دوبجے وہ کس کو مدد کے لیے بلائے لیکن آہستہ آہستہ ٹیبلٹ کا اثر ہونے لگا مرال اس کے پاس کراؤن سے ٹیک لگا کے بیٹھ گئی اور اس کے سر میں ہاتھ پھیرنے لگی بخار اترنے لگا تھا وہ پتا نہیں کتنی دیر تک اس کے سر میں ہاتھ پھیرتی رہی اور سوگئی صبح جبران کی آنکھ کھلی تو دیکھا مرال بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے سو رہی تھی اس کا ایک ہاتھ جبران کے سر میں تھا اور ایک ہاتھ جبران نے پکڑا ہوا تھا جبران کو سب یاد آگیا وہ بہت دیر تک۔سوتی ہوئی مرال کو دیکھتا رہا پھر اس نے جھٹکے سے اس کا ہاتھ چھوڑا اور اٹھا مرال کی بھی آنکھ کھل گئی
” اٹھ گئے آپ۔۔۔۔۔ اب طبیعت کیسی ہے آپ کی” وہ اس کے ماتھے کو چیک کرتے ہوئے بولی وہ ایسے بیہیو کررہی تھی جیسے وہ دونوں نارمل ہزبنڈ وائیف ہوں
” ٹھیک ہوں” کہہ کر وہ واشروم میں چلا گیا۔
——-
پچھلے دو دن سے مسلسل اس کی ایسے ہی طبیعت خراب تھی ڈاکٹرزنے بھی کہا کہ باہر کا کھانا کھانے کی وجہ سے اس کا پیٹ خراب ہو گیا ہے اور بخار موسمی ہے شادی کے کھانے تو کھائے کھائے اس کے بعد سے وہ باہر ہی کھانا کھانے لگا تھا گھر پہ تو برائے نام ہی آتا سو نتیجہ اب سامنے تھا شادی کے چوتھے دن ہی بستر پہ تھا مرال اس کی بہت دیکھ بھال کر رہی تھی ڈاکٹر ہلکی پھلکی غذا اسے دینے کا کہا تھا سو مرال نے اس کے لیے کھچڑی بنائی تھی وامیٹ کر کر کے اس کی پسلیوں میں درد رہنے لگا تھا کمزوری حد سے زیادہ تھی مرال اتنی دیکھ بھال کرتی پر جبران اس کو یہ ہی کہتا کہ
” تم میری زندگی میں منحوسیت لے کر آئی ہو”
” اس گھر میں جب سے آئی ہو میں بیمار ہی ہوں” اس طرح کی بات کر کر کے اسے ہرٹ کرتا
رات کو بھی وہ بستر پہ لیٹا ہوا تھا کہ مرال اس کے لیے کھچڑی لے آئی
” اٹھ جائیں جبران کھانا کھا لیں ” وہ بولی
” کھالوں گا رکھ دو تم” مرال نے خاموشی سے ٹرے سائیڈ ٹیبل پہ رکھ دی جبران اٹھ بیٹھا
” یکککھھھھھ۔۔۔۔۔ کھچڑی لے جاؤ اسے نہیں کھانی”
” ڈاکٹر نے یہ ہی دینے کا کہا ہے آپ کو”
” چپ۔۔۔۔۔ کتنی بار منع کروں میرے سامنے زبان مت چلایا کرو۔۔۔۔۔ اٹھاؤ اسے اور لے جاؤ” اس نے خاموشی سے ٹرے اٹھائی کہ دروازہ نوک ہوا اور ماما اندر آئیں
” یہ کہاں لے کر جا رہی ہو رکھو اسے مرال۔۔۔۔۔پتا تھا مجھے یہ نہیں کھائے گا تبھی خود آئی ہوں کھلانے لاؤ مجھے دو” انہوں نے کھچڑی اس کے ہاتھ سے لی
” ماما میں نہیں کھاؤں گا” جبران چڑ کر بولا
” میں نے کچھ مہیں سننا منہ کھولو” وہ اسے کھچڑی کھلانے لگیں
” کھاؤ اسے تمہاری بیگم نے بنائی ہے یہ ےمہیں ضرور پسند آئے گی ٹیسٹ تو کرو” وہ بولیں تو جبران نے نا چاہتے ہوئے بھی ایک نوالہ لیا کھچڑی واقعی مزے کی تھی
” کیسی لگی؟؟؟” ماما مسکرا کے بولیں
” ٹھیک ہے بس” وہ صرف اتنا بولا مرال کے لیے اتنا بھی بہت تھا۔
——-
مرال کے گھر والے بھی جبران کو پوچھنے آئے تھے رافعہ نے انہیں کھانے پہ روک لیا تھا کہ سمدھی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ دیورانی جیٹھانی بھی تو ہیں نا تو یہ رشتہ کیوں آڑ بن رہا تھا دو بھابیوں کی محبتوں میں
رات کو سارا کام سمیٹ کے وہ اپنے روم میں آئی واشروم سے فارغ ہو کے وہ اپنا بستر بچھا رہی تھی کہ جبران ایک دم اٹھ بیٹھا اسے متلی ہو رہی تھی وہ اس کی طرف آئی
” کیا ہوا جبران ” وہ پریشانی سے بولی وہ کچھ نہ بولا وہ جبران کی کمر سہلانے لگی ” جبران ٹھیک تو ہیں آپ” جبران کو ایک دم زور سے ابکائی آئی مرال کو سمجھ نہ آئی اور اس نے اپنے ہاتھ آگے کردیے جبران تھم سا گیا اور اس کے چہرے کو دیکھنے لگا
کیسی لڑکی تھی یہ۔۔۔۔۔ وہ سوچ کر رہ گیا اور اس کے چہرے سے نظریں ہٹائیں اور لیٹ گیا مرال بھی اٹھنے لگی تو وہ بولا
” تمہیں گھن نہیں آتی اگر میں تمہرے ہاتھ پہ وامیٹ کردیتا تو”
” تو کیا ہوا شوہر ہیں آپ میرے تنا تو فرض ہے میرا کہ آپ کا دھیان رکھوں”
” دھیان رکھنے کا مطلب اس کی وامیٹ بھی ہاتھ میں لے لو یککھھ مرال۔۔۔۔۔ تم جیسی لڑکیاں ایسی ہی ہوتی ہیں شوہر منہ لگائے نا لگائے پر چپکنا ضرور ہے”
” تو کیا شوہر بیمار ہوں تو کیا ان کو اٹھا کے پھینک دیں ” وہ بولی انداز سادہ سا تھا پر ایک دم جبران کو غصہ آگیا
” یو جسٹ شٹ اپ اوکے تم سے ذرا سی بات کیا کرلو سر پہ ہی چڑھ جاتی ہو زیادہ مت بولا کرو سمجھیں اتنا بولو جتنا میں اجازت دیا کروں” وہ خاموش ہو گئی اور اپنے بستر کی طرف جانے لگی
“سنو” اس نے پکارا
“جی”
” سر میں ہاتھ پھیرو میرے نخرے مت دکھاؤ تم جیسی بیویوں پہ نخرے سوٹ نہیں کرتے ” وہ تیر برسانے سے باز نہیں آیا تھا وہ کچھ نہ بولی اور خاموشی سے اس کے سر میں ہاتھ پھیرنے لگی اور جبران کے بارے میں سوچنے لگی
——
جبران اب ٹھیک ہو چکا تھا اور آفس جانا بھی اسٹارٹ ہو گیا تھا سب کو گھر میں یہ تاثر دے رہا تھا کہ وہ بدل چکا ہے مرال کو بھی لگنے لگا تھا کہ اب وہ بدلنے لگا ہے اس کی محبت اثر دکھانے لگی ہے پر کسی کو بھی نہیں پتا تھا کہ وہ کیا سوچ بیٹھا تھا۔
وہ ابھی آفس سے پہنچا تھا مرال کچن میں تھی وہ وہیں چلا آیا
“میرے کپڑے نکال دو” وہ بولا تو مرال حیرانی سے ایک دم س کی طرف گھومی
” کیا؟؟؟” اس نے پھر پوچھا
” بہری ہو سنائی نہیں دیتا کپڑے نکال دو” وہ پھر بولا مرال مسکرائی
” آپ کو تو گوارا ہی نہیں تھ کہ میں آپ کے کام کروں پھر آج یہ انقلاب کیوں”
” کیوں جب میں بیمار تھا تب بھی تو تم ہی نکل رہی تھی نا کپڑے تو نکال دو”
” وہ تو تب کی بات تھی نا” مرال مسکرائی جبران کو چڑ ہو رہی تھی اس سے پر کچھ دن کے لیے سہی اچھا تو بننا تھا نا اسے پھر وہ جانے اس کا کام جانے
” زیادہ بولو مت جلدی کرو” کہہ کر وہ چلا گیا مرال آج بہت خوش تھی کہ جبران نے خود اسے اپنے کام کے لیے بولا تھا “یعنی کیا میری محبت رنگ لا رہی ہے” اس نے خود سے کہا اور مسکرا کے چل دی۔
——
آج تو ج ران نے حد ہی کردی تھی
” جاہل عورت” جبران نے کھینچ کے سب کے سامنے اسے تھپڑ مارا تھا ہوا یہ تھا کہ مرال سب کو چائے دے رہی تھی کہ جبران کو دیتے ہوئے سارہ سے بات کر رہی تھی اور غلطی سے کپ چھلک گیا اور تھوڑی سی چائے جبران کی شرٹ پہ گر گئی اور اس پہ جبران نے اسے تھپڑ مارا
” جبران یہ کیا کیا تم نے دماغ ٹھیک ہے تمہارا” ماما غصے سے بولیں ابتہاج صاحب نے مرال کو ایک دم گلے لگایا جو گال پہ ہاتھ رکھے حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھی
” بالکل ٹھیک کیا میں نے یہ اس قابل ہی نہیں ہے کہ جبران کی بیوی بنے” وہ بھی غصے سے بولا
” اور تم ذرا سی کوئی نرمی دکھائے فوراً آنسو ٹپکانے لگ جاتی ہو” وہ اب مرال کی طرف دیکھ کے بولا
” جبران ہوش کرو ہمت کیسی ہوئی تمہاری ایسی واہیات حرکت کرنے کی” بابا بھی غصے سے بولے
“واہیات۔۔۔۔۔ یہ اسی قابل ہے”
” چلے جاؤ جبران میری نظروں کے سامنے سے جاہل یہ نہیں تم ہو”
بابا زور سے چیخے تو وہ غصے سے اپنے کمرے چلا گیا آج ایک بار پھر مرال اسے ذہر لگی تھی اس کی وجہ سے اس کے ہی بابا نے اسے پہلی بار ڈانٹا پہلی بار اس کا ساتھ دینے کے بجائے مرال کا ساتھ دیا کمرے میں آکے وہ چیزیں توڑ پھوڑ رہا تھا غصے سے مٹھیاں بھینچ رہا تھا پر غصہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا
” بے فکر رہو مرال اپنے قول کا پکا
ہوں میں کہا تھا نا وہاں جا کے ماروں گا جہاں تمہیں پانی نہیں ملے گا دیکھنا تم زندگی بھر کا روگ نہ دیا تو نام بدل دینا میرا”
——
رات کے گیارہ بجے وہ روم میں آئی جبران گھر پہ نہیں تھا اس نے آ کے پھیلا کمرہ سمیٹا جبران کے حوالے سے دل میں ایک ڈر بھی تھا کمرہ سمیٹتے سمیٹتے ساڑھے گیارہ بج گئے تھے وہ بستر بچھا کے لیٹی ہی تھی کہ کمرے کا دروازہ کھلا اور جبران داخل ہوا ویسے وہ اگر کبھی لیٹ آتا تو مرال اسے کھانے کا پوچھتی تھی پر آج مرال نے ڈر سے اس سے کچھ نہ کہا اور جبران نے اسے اگنورنیس سمجھا اور آکے کھینچ کے اسے بستر سے اٹھایا
” اگنور کرو ھی تم مجھے اتنی ہمت کب آئی تم میں” کھینچ کے ایک تھپڑ اسے مارا
” اس وقت مجھے ایک تھپڑ نہیں تین لفظ بول کر تمہیں چلتا کردینا چاہیے تھا کیونکہ تم قابل نہیں میری محبت کے نا میری عزت کے اور نا میرے خلوص کے” اور ایک اور تھپڑ اسے مارا وہ بے تحاشا رورہی تھی
” دفع ہو جاؤ۔۔۔۔۔ نکلو یہاں سے” جبران نے اسے دکھا مارا وہ نیچے جا گری
” جبران۔۔۔۔۔ جبران نہیں جبران” وہ بول رہی تھی پر وہ سن کب رہا تھا
جبران نے آگے بڑھ کے اس کا بازو پکڑا اور کمرے کا دروازہ کھول کے باہر نکال دیا
“جبران ماما بابا کیا سوچیں گے۔۔۔۔۔ آپ پلیز جبران” وہ منت کررہی تھی
” سوچتے رہیں جو سوچنا ہے مجھے اب کسی کی پرواہ نہیں ہے” کہہ کر اس نے دروازہ بند کردیا۔
ساری رات وہ سردی میں لاؤنج میں بیٹھی روتی رہی اور وہیں سو گئی صبح ماما اٹھی تو اس کی حالت دیکھ کے چکرا گئیں
” مرال مرال بچہ” وہ جاگی تو رافعہ اس کے منہ پہ نشان دیکھ کر احساسِ ندامت میں گڑھ گئیں
” مجھے معاف کردو مرال معاف کردو مجھے۔۔۔۔۔ نہ میں تمہیں کہتی اور نا تمہاری یہ حالت ہوتی” وہ اسے گلے لگا کر رونے لگی وہ بھی رو رہی تھی
” نہیں ماما آ۔۔آپ کی کوئی غلطی نہیں ہے شاید مجب میں یا میری محبت میں کوئی کمی رہ گئی ہے جو۔۔۔۔۔” اس نے بات ادھوری چھوڑ دی اور رونے لگی
” نہیں میرا بچہ کمی تو میرے بیٹے میں ہے جو سمجھ نہیں رہا ہے جو صریح غلطی پر ہے” ماما روتے ہوئے بولیں اور مرال کو چپ کرانے لگیں اب دکھ ہو رہا تھا انہیں مرال کی شادی اپنے بیٹے سے کرا کے
——
صبح جبران سے کسی نے بھی بات نہ کی زیان سارہ اور نشاء کی نوک جھونک بھی بند تھی سب خاموشی سے بیٹھے ناشتہ کررہے تھے مرال رافعہ کے کمرے میں تھی اسے تیز بخار تھا رافعہ مرال کے پاس ہی تھیں
ناشتہ کر کے جبران نے مرال کو آواز دی تو بابا بولے
” مرال بیٹی کی طبیعت نہیں ٹھیک کسی اور کو کام بول دو جاؤ نشاء بھائی سے پوچھ لو کیا کام ہے” انہوں نے نشاء سے کہا
” بیوی میری مرال ہے سو اس کا فرض بنتا ہے میرا کام کرنا۔۔۔۔۔ یٹھ جاؤ نشاء دیکھتا ہوں میں خود اس ڈرامے باز کو کام سے بچنے کے بہانے” وہ جانے لگا تو بابا بولے
” تم اپنے ہر کام کے لیے اس کے محتاج ہو گئے ہو جبران تمہیں پتا نہیں چل رہا پر پتا ہے تم اس کے عادی ہو گئے ہو اور عادتیں اتنی جلدی جان نہیں چھوڑتیں
اور جو تم اپنا تھرڈ کلاس آئیڈیل بنائے بیٹھے ہو نا وہ یہ سب بلکل نہیں کرے گا پچھتاؤ گے تم”
” ایسا وقت میں کبھی اپنے اوپر آنے ہی نہیں دوں گا” کہہ کر وہ جانے لگا اور پھر رکا
” بائے دا وے میں آپ لوگوں کو بتا دوں کہ آج کی فلائیٹ سے میں یو کے جا رہا ہوں واپس نہ آنے کے لیے” کہہ کر وہ چلا گیا سب شاکڈ اسے جاتا دیکھتے رہے
وہ چلتا ہوا مام کے روم میں آیا
” مرال اٹھو کپڑے نکالو میرے” وہ بیڈ کے پاس آکے بولا
” جبران اس کی طبیعت نہیں ٹھیک” “جانتا ہوں میں ڈرامے اس کے ڈرامے”
” اٹھو مرال” مرال نقاہت کے باوجود اٹھ بیٹھی
” بیٹا تم۔۔۔۔۔” ماما پریشانی سے بولیں
” ماما آتی ہوں میں” کہہ کر وہ اٹھی اور جبران کے پیچھے کمرے میں آگئی
جبران کے کپڑے نکال کے وہ جانے لگی تو وہ بولا
” میرا سامان بھی پیک کردو” وہ نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی
” کیا دیکھ رہی ہو۔۔۔۔۔ لو اجازت دی تمہیں دیکھ لو آج مجھے جی بھر کے پھر پتا نہیں کب دیکھو” وہ اس کے سامنے آکے کھڑا ہو گیا اور اسے دیکھنے لگا مرال کا چہرہ بخار کے باعث تپ رہا تھا اس کے ایسا بولنے سے مرال کو دھچکا لگا
” کک۔۔۔ کہاں کہاں جا رہے ہیں آپ” وہ اٹک کے بولی
” یہ پوچھنے والی تم کون ہوتی ہو” مرال نے سر جھکا دیا اور واعڈروب کی طرف بڑھی اور اپنا سامان پیک کرنے لگی
” یہ کیا کر رہی ہو؟؟؟” وہ اس کے ااس آکے بولا
” میں نے اپنا سامان پیک کرنے کو بولا ہے تمہارا نہیں”
” آپ میری وجہ سے جا رپے ہیں نا۔۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔۔ آپ نا جائیں میں چلی جاتی ہوں” مرال کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے
” اوہ شٹ اپ مرال یہ ڈرامے نہیں چلیں گے میرے ساتھ۔۔۔۔۔ ڈرامے بند کرو اور میرا سامان پیک کرو تم نے جانا ہوتا نا تو بہت پہلے جا چکی ہوتیں میرے جانے کی نوبت ہی نا آتی” وہ ناگواری سے بولا وہ رونے لگی اور جبران کو یہ چیز ہی تو سکون دیتی تھی اس کا رونا اس کی اذیت جبران کے سکون کا باعث ہوتی تھی جانا تو اس نے تھا ہی پر وہ اسے زندگی بھر کی ندامت دینا چاہتا تھا ساری زندگی کی اذیت دینا چاہتا تھا جس سے وہ کبھی نہ نکل سکے وہ جب جب اس کمرے میں اس گھر میں آئے اسے صرف یہ یاد آئے کہ جبران صرف اس کی وجہ سے گیا ہے وہ اسے کیسے سکون میں رہنے دیتا جس نے اس کا سکون تباہ کیا تھا
” اب رو کیوں رہی ہو مرال خوشیاں مناؤ کہ اب تمہاری اذیت ختم ہو رہی ہے نا کوئی تمہیں کچھ بولے گا نا کوئی طنز کرے گا نہ کوئی تم پہ ہاتھ اٹھائے گا رہنا تم میرے کمرے میں خوشی سے گلے میں جبران کے نام کا ٹیگ ڈال کے۔۔۔۔۔ تم جیسی عورتیں ایسی ہی کرتی ہیں نا؟؟؟” مرال برستی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی اور وہ مسکرا رہا تھا
” اگر میں ان عورتوں میں شامل ہوں تو اس میں میرا کیا قصور جبران” پہلی بار اس کے منہ سے شکوہ نکلا تھا
” اگر میں ایسی ہوں تو اس میں میری غلطی کیا ہے بولیں۔۔۔۔۔ بہت بہت محبت کی ہے میں نے آپ سے جبران بہت” مرال بولتے بولتے اظہارِ محبت کر گئی تھی جبران اسے دیکھتا رہا اس کی بے بسی پہ ہنوز مسکراتا رہا
” مجھے پتا ہے آپ کو میری محبت سے کوئی سروکار نہیں میری محبت کی کوئی اہمیت نہیں آپ کے سامنے پر پلیز ایک بار ایک بار مم۔۔میری بات مان لیں ایک بار رک جائیں بدلے میں بھلے مجھے جتنا مار لیں ڈانٹ لیں پر پلیز۔۔۔۔۔” وہ اس کے قدموں میں بیٹھ گئی ” اچھا میں۔۔ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلی جاؤں گی ہاں میں۔۔ میں کبھی اپنی شکل بھی نہیں دکھاؤں گی آپ کو پلیز رک جائیں” وہ رو رہی تھی گڑگڑارہی تھی کہ وہ بولا
” اٹھو” وہ روتی رہی
” اٹھو” اب کے وہ چیخ کے بولا وہ کھڑی ہو گئی
” پیکنگ کرو میری” کہہ کر باہر چلا گیا وہ وہیں بیٹھ کے رونے لگی۔
جاتے ہوئے اس نے کسی کی نا سنی تھی کسی کا گڑگڑانا رونا پیٹنا کچھ اس نے نا سنا مرال کے گھر والوں نے بھی بہت روکا پر تب بھی اس نے نظرانداز کردیا پورچ کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے ایک نظر پیچھے دیکھا سب تھے مرال کے علاوہ۔۔۔۔۔ دل کو کچھ ہوا اور پھر پورچ میں پہنچ کے گاڑی نکالی اور گھر کے اندر سے سامان اٹھانے لگا کہ مرال بھاگتی ہوئی اس کے پاس آئی جبران نے دیکھا اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں ایک تو بخار اور دوسرا رونے کی وجہ سے اس کی آنکھیں بہت ریڈ ہو رہی تھیں اس کی نظر اس کے گال پہ گئی جہاں تھپڑوں کے نشان تھے
” جبران ایک۔۔ ایک حق یوز کرسکتی ہوں اپنا” اس نے ناسمجھی سے سر ہاں میں ہلایا مرال آگے بڑھی اور اس کے سینے سے جا لگی اور رونے لگی اردگرد کا خیال کیے بغیر کہ سب گھر والے کھڑے تھے وہاں
جبران حیرت زدہ اسے دیکھ رہا تھا اس وقت اس کی ہارٹ بیٹ پتا نہیں کیوں اتنی تیز ہو گئی تھی اسے خود معلوم نہ تھا مرال کے آنسو اس کی شرٹ بھگو رہے تھے پتا نہیں جبران کو لگ رہا تھا کہ یہ آنسو اس کے دل پہ گر رہے ہیں اور اس کی شرٹ کو مرال نے مٹھیوں میں جکڑ رکھا تھا جیسے چھوڑنا نہ چاہتی ہو اور پھر جبران نے اپنے دونوں بازو اس کے گرد حمائل کردیے۔