شاہ روم سے باہر آیا ڈاکٹر کے الفاظ اب بھی اس کے کانوں میں گوج رہے تھے شاہ ہپستال سے باہر آیا اور بے بس ہو کر بینچ پر بیٹھ گیا میں فیل ہو گیا میں نے علی سے وعدہ کیا تھا کہ اس کی ایمان کا خیال رکھوں گا میں فیل ہو گیا ایمان نے مجھے کیوں نہیں بتایا شاہ کو اب غصہ ارہا تھا گڑیا کیا وہ ایمان کی بیماری کے بارے میں جانتی تھی یہ سوچتے ہوے ہی شاہ غصہ سے اندر چلا گیا
گڑیا جو ایمان کے روم کے باہر تھی کیونکہ ڈاکٹر نے ابھی اندر جانے سے منع کیا تھا شاہ اس کے پاس ایا بھائ ڈاکٹر نے کیا کہا ہے ایمان ٹھیک تو ہے گڑیا نے پریشان ہو کر پوچھا گڑیا ایمان ٹھیک ہے گڑیا ایک بات پوچھوں شاہ نے سوال کیا ھاں بھائ گڑیا نے جواب دیا
گڑیا ایمان کبھی کبار باہر اکیلی جاتی تھی شاہ نے پوچھا نہیں بھائ ایمان زیادہ تر میرے ساتھ ہی باہر جاتی گڑیا نے کہا
گڑیا سوچوں اور مجھے جھوٹ نہیں سنا شاہ نے غصہ سے کہا
گڑیا شاہ کو غصہ سے دیکھا کر پریشان ہو بھائ سب ٹھیک ھے
گڑیا جو پوچھا سے اس کا جواب دو شاہ نے کہا بھائ جہاں تک مجھے یاد ہے ایمان باہر زیادہ نہیں لیکن کبھی باہر اکیلی جاتی تھی گڑیا نے کچھ سوچ کر جواب دیا
اور تم نے کبھی اس سے پوچھا نہیں کہ وہ جاتی کہاں ہے شاہ نے پوچھا بھائ میں نے ایمان سے پوچھا تھا لیکن وہ ہمیشہ ٹال دیتی تھی گڑیا نے کہا
گڑیا وہ ڈاکٹر کے پاس جاتی تھی شاہ نے کہا اور غصہ سے باہر چلا گیا اور گڑیا شاہ کو دیکھتی رہے گئی اور رونے لگئ حمزہ اس کو روتا دیکھ کر اس کے پاس ایا گڑیا یار چپ ہو جاو ایمان ٹھیک ھے اب حمزہ نے کہا حمزہ کچھ دیر پہلے ایمان اور بھائ کتنے خوش تھے پتا نہیں کس کی نظر لگ گئی ہے گڑیا نے روتے ہوئے کہا
گڑیا میرے پاس ایک بنگالی بابا کا نمبر ہے کہوں تو دو کروے کہ وہ نظر اتارا دے گا حمزہ نے مسکراتے ہو کہا گڑیا اس کی بات سن کر حمزہ کی طرح دیکھا اور اس کے جوک پر اس کو گھورا اس کے گھورانے پر حمزہ نے قہقہا لگایا گڑیا نے اس کے بازوں پر مکار مارا میں پریشان ہو حمزہ اور تم مزک کر رہے ہو یار شکر ہے تم نے رونا تو بند کیا حمزہ نے کہا
اس کی بات پر گڑیا مسکرائ تم پاگل ہو گڑیا نے کہا تمہارا لیے حمزہ نے مسکراتے ہوے کہا اس کی بات پر گڑیا نے نفی میں سر ہلایا یعنی اس کا کچھ نہیں ہو سکتا
شاہ کچھ دیر بعد ایمان کے روم میں ایا جہاں وہ دوائی کے زیر اثر سو رہی تھی شاہ اس کے پاس ایا اور اس کے چہرہ کو چھوا
زندگی بے وفا ہے یہ مانا مگر راہ میں چھور
کر جاو گے تم مگر
چھین لاو گا میں آسمان سے تمہیں سونا
ہو گا دو دلوں کا نگر
چندا کچھ نہیں ہو گا تمہیں شاہ نے کہا اور اس کے ماتھے پر لب رکھے
صبح ایمان کی آنکھ کھولی کو خود کو ہپستال میں دیکھا کر پریشان ہوئی پھر کل جو ہوا سب یاد ایا اور گہرا سانس لیا اس ہی وقت گڑیا روم میں آئ ایمان تم ٹھیک گڑیا نے پوچھا ھاں میں ٹھیک ہو اور گڑیا سے باتے کرنے لگئ
گڑیا شاہ کہاں ھے ایمان نے پوچھا بھائ باہر۔ ہے گڑیا نے جواب دیا
ایک ھفتہ بعد
ایمان اور شاہ کی اس دوران بہت کم بات ہوئی ایمان کو پتا چلا گیا تھا کہ شاہ اس سے ناراض ہے
ایمان اپنے روم میں تھی کچھ سوچ کر مسکرائ اور شاہ کے روم میں آئ شاہ کو سوتے دیکھ۔ کر ایمان کی مسکراہٹ اور گہری ہو شاہ شاہ ایمان نے شاہ کو پکارا
شاہ جو سو رہا تھا ایمان کی آواز سن کر اٹھا اور اس کو اپنے روم میں دیکھا کر پریشان ہوا ایمان۔ تم ٹھیک طعبیت ٹھیک ھے تمہاری چلو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہے شاہ نے پریشان ہو کر کہا
اس کی بات پر ایمان مسکرائ شاہ میں ٹھیک ہو اور بیڈ پر بیٹھ گئی شاہ مجھے بات کرنی ہے شاہ نے ٹائم دیکھا تو ۱ بجا تھا بولو ایمان شاہ مجھے رخصتی کے بارے میں بات کرنی ہے اب شادی ہو جانی چاھے ایمان نے مسکراتے ہوے کہا
شاہ نے اس کی بات پر ایمان کو گھورا ایمان یہ بات کرنے تم ادھی رات یہ بات کرنے ائی ہو شاہ کو اس کی ذاہنی حالت پر شک ہو
اور شاہ میں نے کہنا تھا کہ آپ آج اچھے لگ رہے تھے ایمان نے مسکراہٹ دابتے ہوے کہا
ایمان تم جاو ہم صبح بات کرے گئے شاہ نے غصہ ضبط کرتے ہوے کہا اور لیٹ گیا ایمان شاہ کی شکل دیکھ کر مسکرائ اور کہا شاہ
اب شاہ سے برداشت نہیں ہوا کیونکہ شاہ اب جان گیا تھا کہ ایمان بس اس کو تنگ کر رہی تھی
ایمان کیا مسائل ہے شاہ نے غصہ سے پوچھا
شاہ غصہ کرے شکوہ کرے لیکن آپ خاموش نہیں ہو ایمان نے کہا
شاہ اس کی بات سن کر چپ ہو گیا۔
شاہ کو چپ دیکھ کر ایمان پھر بولی شاہ پلیز کچھ بولے کیا کیا کہوں میں کیا اور کیوں ہوں تمہاری زندگی میں ایمان بتاوں مجھے میں ایک ہفتہ سے سوچ سوچ کر پاگل ہو گیا ہو کہ میں نے کیا غلطی کی تھی میں نے سب کیا ایمان تمہیں خوش کرنے کے لیا تمہارا اعمتاد اور بھروسہ جیتنے کے لیا لیکن پھر بھی میں فیل ہو گیا میں فیل ہو گیا میری محبت ہادی گئی ایمان میں نے جہاں سے شروع کیا تھا پھر وہاہی موجود ہوں ایمان تم نے مجھے بہت ہڑٹ کیا ہے شاہ نے جیتنی اونچی آواز سے بات۔ کر رہا تھا آخری میں اتنا ہی بے بس ہوا
ایمان کو اس کی بات سن کر کچھ ہوا اور اس نے اپنے دل پر ھاتھ رکھ کر شاہ کے پاس آئ شاہ آپ کی کوئی غلطی نہیں ہے ساری غلطی میری ہے آپ تو میرے سب کچھ ہے آپ مجھے زندگی کی طرف لے آئے شاہ آپ نے مجھے محبت دی غزت دی لیکن شاہ یقین کرے میں نے سب کچھ آپ کو بتانا چاھتی تھی اور ایک بارا ہمت بھی کی لیکن
شاہ جو اس کی بات سن رہا تھا بولا لیکن کیا ایمان
شاہ میں ھاری گئی میری ہمیت توٹڑ گئی میرے الفاظ ختم ہو گیا کہاں سے شروع کرو کیا بتاو ہر وقت یہ ہی سوچتی رہتی اور پھر یہ بیماری ٹھیک ہو گی شاہ لیکن اس دن بھائ مجھے نہیں پتا تھا کہ وہ گھر آئے گئے اور پھر سے مجھے ایٹک ہو۔ گیا پلیز شاہ معاف کر دے میں آپ کو ہڑٹ نہیں کرنا چاہتی تھی بلکہ میں تو آپ سے مح ابھی وہ اس بات کو مکمل کرنے والی تھی کہ اچانک یاد وہ کیا بولنے والی ہے تو وہ شرمندہ ہو گئی جیسے اپنی محبت کا اظہارا کر کے کوئی غلطی کر رہی ہے
اس نے بات بدلی وہ میں آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہو ایمان نے کہا شاہ اس کی ادھری بات پر مسکراہٹ دابتے ہو بولا کیا ایمان
ایمان نے گہرا سانس لیا شاہ آپ کو میں آج اپنا کے بارے میں ماضی بتانے لگئ ہو لیکن میں ابھی اتی ہو ایمان نے کہا اور کمرے سے باہر چلی گئی شاہ اس کی بات پر پریشان ہوا اوووو تو میں کامیاب ہو گیا
شاہ نے اس لیے ایمان کو اتنا سب کچھ کہا تھا کہ وہ اپنی پریشانی اس سے شئیر کرے وہ بات جو ایمان کو ہر وقت پریشان کرتی ہے
کچھ ٹائم۔ بعد ایمان اور گڑیا شاہ۔ کے روم میں آئ شاہ گڑیا کو دیکھا کر حیران ہوا شاہ میں نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ جب بھی ہمت ہوئی ہو آپ دونوں کو اپنے ماضی کے بارے میں باتوے گئی ایمان نے کہا اور دوائی گڑیا کو دی یہ کیا ہے ایمان گڑیا نے دوائی دیکھ کر پوچھا
گڑیا میں جو بتانے والی ہو اس کے بعد نہ مجھے نیند آگئی اور نہ ہی آپ۔ دونوں کو اس لیے یہ دوائی میں نے کھالی ہے آپ دونوں بھی کھالے ایمان نے کہا
اس کی بات پر دونوں پریشان ہوئے اور گڑیا نے دوائی کھالی شاہ آپ ایمان کی بات پوری ہونے سے پہلے شاہ بولا نہیں ایمان تم کہوں میں سن رہا ہوں
ایمان نے گہرا سانس لیا اور اپنے ماضی کی باتے بتانے لگئ
اس کی بات سن کر شاہ پریشان ہوا اور گڑیا رونے لگئ شاہ میں نے دو لوگوں سے محبت کی ھے ایک بابا اور دوسرا بھائ لیکن ان دونوں نے میری زندگی بابرد کی ہے وہ رات اب بھی مجھے بھولتی نہیں ہے شاہ وہ عمر بھائ کا روپ میری روح کانپ جاتی ہے ایمان نے کہا اور رونے لگئ شاہ میری زندگی ختم ہو گئی تھی لیکن ایک شخص جو مجھے زندگی کی طرف لایا وہ علی تھا لیکن وہ بھی چلے گئے میری زندگی میں پھر اندھیر ہو گیا
اور بھائ وہ آج بھی مجھے سے معافی مانگتے ہے لیکن شاہ یہ میرے بس میں نہیں ہے لیکن وہ مجھے اسلام آباد لے جانا چاھتے ہے شاہ مجھے ان کی باتوں سے ڈدر لگتا ہے مجھے بھائ سے ڈدر لگتا ہے
ایمان نے کہا اور اپنے سر سے دوپٹہ اتار اور اس کی گردن کے نیچے ایک زخم تھا اس نے گردن سے اپنی شرٹ نیچے کی
شاہ یہ بھائ کا دیے ہوا ایک زخم ہے جو مجھے ان کا وہ روپ یاد کروتا ہے میں کبھی معاف نہیں کر سکتی کبھی نہیں شاہ جلدی ایمان کے پاس ایا اور دوپٹہ اس کے سر پر دیا بس چندا بس اب نہیں رونا میں تمہارے ساتھ ہو شاہ نے ایمان کو سینے سے لگیا اور گرفت مبضوظ کر دی
ھاں ایمان ھم سب تمہارے ساتھ ہے گڑیا نے کہا اور ایمان اور شاہ کے پاس ائی شاہ نے گڑیا کو بھی اپنے ساتھ لگیا وہ بھی رورہی تھی
کچھ ٹائم بعد شاہ نے محصوص کیا کہ دونوں ھی سو گئی ہے شاہ نے اپنے روم کے بیڈ پر لیٹ دیے اور خود روم سے باہر نکل کیا
عمر غصہ سے شاہ نے دیوار پر مکار مارا تم نے میری چندا کے ساتھ انتا سب کیا بہت بڑی غلطی کی ہے عمر بہت بڑی
اتنا سب کچھ کرنے کہ بعد بھی تم میرے گھر آئے اور ایمان کو فون کرتے ہو شاہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ عمر اس کے سامنے ہوتا تو شاہ اس کا قتل کر دیتا
صبح ایمان کی آنکھ کھولی تو خود کو شاہ کے روم میں دیکھ کر پریشان ہوئی لیکن پھر رات جو کچھ ہوا یاد ایا اور گہرا سانس لیا
اس ہی وقت گڑیا روم میں آئ اور ایمان کو جاگتا دیکھ کر پھر سے رونے لگئ گڑیا کو روتے دیکھ کر ایمان پریشان ہو گئی گڑیا میری جان کیا ہوا ہے ایمان نے پوچھا ایمان تمہارے ساتھ اتنا سب کچھ ہو گیا ہے اور میں کچھ نہیں کر سکتی گڑیا نے روتے ہوئے کہا گڑیا میں ٹھیک ہو اور یار ایسی باتے کر کے تو مجھے دکھ دے رہی ہو ایمان نے کہا نہیں ایمان میں تمہیں ھرٹ نہیں کرنا چاہتی تھی سوری گڑیا نے شرمندہ ہو کر کہا گڑیا تمہیں پتا ہے تم روتی ہوے بہت بری لگتی ہو اور حمزہ اس طرح دیکھا گا تو تم سے شادی نہیں کرے گا ایمان نے شرارت سے کہا
کیوں شادی نہیں کرے گا وہ مجھے سے محبت کرتا ہے اور میں بھی گڑیا جلدی میں بول گئی
اووووو تم نے تو کہا تھا تم اس سے محبت نہیں کرتی آخری دل کی بات زبان پر ائی ایمان نے گڑیا کو تنگ کرتے ہوے کہا گڑیا اس کی بات پر شرما گئی اہم ہم ہم کوئی شرما رہا ہے ایمان نے کہا
گڑیا نے ایمان کو گھورا ایمان زدر نیچے چلو کیونکہ اب تمہیں شرمنے کے دن ہے گڑیا نے کہا
کیا مطلب ایمان نے پوچھا تمہاری شادی ہے وہ بھی ایک ہفتہ بعد گڑیا نے مزہ سے کہا کیا شادی کیوں ایمان شادی کا سن کر پریشان ہوئی۔
ایمان فریش ہو کر نیچے آئ تو نانو نے اپنے پاس بلایا ایمان میں بہت خوش ہو کہ تم نے اور شاہ نے رخصتی کا فصیلہ کیا ہے اللہ میرے بچوں کو خوش رکھے نانو نے ایمان کے سر پر بوسہ دیتے ہو کہا اور مامی نے بھی بہت ساری دعوں دی ایمان ان کی باتوں سے پریشان ہوئی
ایمان اپنے روم میں تھی کہ گڑیا روم میں آئ ایمان کیا ہوا کیوں پریشان ہو گڑیا صبح سے اس کو پریشان دیکھ کر آخر اب بولی گڑیا میری شاہ سے رخصتی کا بارے میں کوئی بات نہیں ہوی اور ایک ہفتہ میں شادی سب کیسے ہو گا ایمان نے کہا یار تیاری کی فکرا نہ کرو بھائ دیکھ لے گے اور جہاں تک مجھے پتا ہے بھائ نے تو ماما سے کہا ہے کہ رخصتی کا تم نے ان کو بولا ہے گڑیا اس کی بات پر پریشان ہو کر بولی یہی تو میں بھی اس بات پر پریشان ہو کہ شاہ نے ایسا کیوں کہا
اچھا پریشان نہیں ہو بھائ کو فون کر کے پوچھا لو گڑیا نے کہا ٹھیک ھے کرتی ہوں ایمان نے شاہ کو فون کیا شاہ نے کال پک نہیں کی
اسلام آباد
عمر اپنے آفس میں تھا اس دن عمر کو غصہ بہت ایا کہ ایمان نے شادی کر لی ہے لیکن پھر سوچا کہ وہ شاہ کے ساتھ بہت خوش تھی اس وجہ سے عمر چپ ہو گیا
عمر بس ایمان سے معافی مانگنا چاھتا تھا اس کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار تھا کیونکہ اگر ایمان وہ رات نہیں بھولی تھی تو عمر کو بھی ایمان کی چیخے اور ایمان کے الفاظ نہیں بھولے تھے عمر جانتا تھا کہ وہ ایمان سے رابطے میں رہے کر ہی اس سے معافی مانگ سکتا ہے
عمر کے پی آے نے اس کو بتایا کہ کوئی شاہ اس سے ملنے ایا ہے عمر نے گہرا سانس لیا ٹھیک ھے اندر انے دو
روم میں کچھ وقت کی خاموشی کو عمر نے توڑا چائے یا کافی عمر نے پوچھا تمہیں کیا لگتا ہے میں یہاں چائے پینے ایا ہوں شاہ نے سردہ لہجے میں کہا تم ایمان کو کیوں فون کرتے ہو کہ چاہتے ہو اب شاہ بولا
شاہ دیکھوں یہ میرا اور ایمان کا معاملہ ہے لیکن تم اب اس کے شوہر ہوں اس لیے تمہیں میں بتاتا ہو میں بس ایمان سے معافی مانگنا چاھتا ہو عمر نے جواب دیا
عمر تم اور میں جانتے ہے وہ کبھی معاف نہیں کرے گئی شاہ نے کہا نہیں وہ کر گئی بس میری ایمان مجھے سے ناراض ہے میں اس کو مانا لو گا عمر نے کہا
اس کی بات پر شاہ کو غصہ ایا جو کب سے ضبط کیا ہوے تھا شاہ عمر کے پاس ایا اور اس کے منہ پر مکار مارا آنئدہ اگر میں نے تمہارے منہ سے میری ایمان الفاظ سنا تو تمہارا منہ توڑا میں ایک منٹ نہیں لگوں گا شاہ نے اس کا کلر ٹھیک کرتے ہوے کہا
وہ اب اگر تم نے میری چندا کو فون کیا یا تمہاری وجہ سے اس کی طعبیت خراب ہوئی تو تمہیں جان سے مارا دو گیا شاہ نے خود کو نارمل کرتے ہو کہا
عمر اس کی بات اور حرکت پر پریشان ہوا
عمر نے گہرا سانس لیا شاہ دیکھوں میں جانتا ہو میں نے غلط کیا ایمان کے ساتھ لیکن مجھے اس سے معافی مانگنے کا حق نہیں چھینوں پلیز عمر نے بے بس ہو کر کہا
شاہ کو اس ڈھیٹ انسان پر غصہ ایا لیکن کچھ سوچ کر خود کو نارمل کیا عمر ڈاکٹر نے چندا کو ٹنشن لینے سے منع کیا ہے اور اگر ایمان کی طعبیت خراب ہوئی یا اس کو کچھ ہوا تو میں ساری دنیا کو آگ لگا دو گا تم اللہ سے دعا کرو کہ ایمان تمہیں معاف کر۔ دے شاہ نے کہا اور چلا گیا
عمر بے بس زمیں پر بیٹھ گیا
شاہ گھر 12 بجے ایا شاہ نے اپنے روم کا درواذ کھولا کو ایمان کو اپنے روم میں دیکھ کر مسکرایا اسلام و علیکم شاہ ایمان نے کہا شاہ نے سر ہلایا اور فریش ہونے چلا گیا ایمان اس کی حرکت پر تپ گئی
شاہ واپس ایا اور لیٹ گیا چندا صبح بات کرے گیا شاہ نے کہا
ایمان کو اس کی بات پر اور غصہ ایا شاہ یہ کون سا وقت ہے گھر انے کا اور کہاں تھے آپ میں سارا دن اپ کو فون کرتی رہی ہو اور آپ نے فون بھی نہیں اٹھایا
شاہ اس کی بات پر پریشان ہوا سوری ایمان میں نے فون نہیں دیکھا کوئی کام تھا کیا
شاہ آپ کہاں تھے ایمان نے پوچھا
آفس تھا یار شاہ نے جواب دیا جھوٹ آپ آفس نہیں تھے میں نے آفس فون کیا تھا آپ کہاں تھے شاہ ایمان نے پھر پوچھا ضروری کام سے گیا تھا شاہ نے لیٹے ہوے ہی جواب دیا
یہ ضروری کام اسلام آباد بھائ کے آفس میں تھا ایمان نے شاہ کو گھورتے ہوے کہا شاہ کو اس کی بات پر غصہ ایا عمر کی ہمت کیسے ہوئی اس نے تمہیں فون کیا شاہ نے پاس پرا گلاس غصہ سے دیوار پر مارا
ایمان شاہ کا یہ روپ دیکھ کر ڈدر گئی اور دو قدم پیچھے ہوئی
نہیں شاہ بھائ کا فون نہیں آیا شائد آپ بھول گیا ہے کہ وہ آفس میرے بابا کا ہے آج وہاں جو کچھ ہو مجھے پتا چل چوکا ہے ایمان نے فورا کہا
شاہ ایمان کو ڈدرتا دیکھ کر کچھ نارمل ہوا ہاں گیا تھا میں وہاں مجھے عمر سے بات کرنی تھی
لیکن شاہ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ بھائ کو کچھ نہیں کہوں گئے
ھاں تو میں نے بس بات کی ہے شاہ بولا
ٹھیک ھے لیکن آپ نے بھائ کو مارا کیوں ایمان نے پوچھا
ایمان دیکھوں نہ ہی میں علی ہو اور نہ ہی ملک انکل کہ مجھے جو بھی بہتر لگا میں نے کیا عمر نے بات ہی ایسی کی تھی مجھے غصہ اگیا
کیا بات کی بھائ نے ایمان نے پوچھا اس نے تمہیں میری ایمان کہا شاہ نے پھر غصہ سے خواب دیا
بس اتنی سے بات پر آپ نے بھائ کو مارا ایمان نے حیران ہو کر پوچھا
یہ اتنی سی بات نہیں ہے ایمان آج تک میں نے تمہیں میری ایمان نہیں کہا اس کی ہمت کیسے ہوئی
شاہ بھائ شروع سے ہی مجھے میری ایمان میری ایمان کہتے تھے اور بابا بھی میری ایمان کہتے تھے ٹھیک کیا آپ نے میں کیسی کی ایمان نہیں ہو ایمان نے کھور ہو انداز میں کہا اور آخر میں ایک آنسو ایمان کی آنکھ سے گرا
شاہ جو ایمان کو دیکھا رہا تھا ایمان کے پاس ایا تمہیں پتا ہے ایمان میں تمہیں میری ایمان کیوں نہیں کہاتا
ایمان نے نفی میں سر ہلایا کیونکہ تم بس علی کی ایمان ہو میں جب بھی علی سے بات کرتا یا جب بھی تمہاری بات ہوتی تو میں علی سے کہاتا تمہاری ایمان کا کیا حیال ہے تمہاری ایمان ایسے تمہاری ایمان ویسے
میری نظر میں تم آج بھی علی کی ایمان ہو اور میرے لیے میری چندا
شاہ نے بہت پیار سے چندا کہا ایمان اس کی بات پر مسکرائ اچھا تو آپ اس لیے مجھے چندا کہتے ہو ایمان نے کہا
سوری شاہ میں بھول گئی کہ آپ کو فون کیوں کر رہی تھی ایمان نے کہا
کیوں کر رہی تھی شاہ نے دوربار لیٹ کر پوچھا
آپ نے سب کو یہ کیوں کہا ہے کہ میں نے آپ کو رخصتی کا بولا ہے ایمان نے غصہ سے کہا
شاہ اس کی بات پر مسکرایا لو بھائ میری چندا کو تو بھولنے کی بھی بیماری ہے شاہ نے شرارت سے کہا
شاہ ایمان نے غصہ سے شاہ کو پکارا یاد کرو کل رات جب میں سو رہا تھا تم خود میرے پاس ائی تھی شادی کی بات کرنے شاہ نے مزہ سے کہا
اس کی بات سن کر ایمان نے کل رات کے بارے میں سوچا اور ایمان سر پر ھاتھ مارا
شاہ میں نے بس مزاق کیا تھا ایمان نے کہا بس آپ کو تنگ کیا تھا
شاہ اس کی بات پر مسکرایا لیکن میں نے مزاق نہیں کیا اب میری باری تمہیں تنگ کرنی کی
اور اس دن گڑیا کیا کہا رہی تھی کہ ادھی رات کو اپنے شوہر کو تنگ کیا کرو میں نے سوچا تمہارا تو پتہ نہیں لیکن میں تمہیں ضرور تنگ کرو گا شاہ نے معنی خیز بات کی
اس کی بات سن کر ایمان سرخ ہو گئی اور شرمندہ بھی
شاہ آپ دونوں بہن بھائ ہی بہت بے شرم ہو ایمان نے کہا اور دل میں گڑیا کو لقب سے نواز
ایمان نے کہا اور روم سے جانے لگئی تو شاہ نے اس کا ھاتھ پکرا اور اپنے اوپر گرا
ایمان اس کے لیے تیار نہیں تھی اور اب شاہ کی سانسے اپنے چہرہ پر محصوص کر رہی تھی
کیا کہ رہی تھی چندا تم اب بولو شاہ اس کی حالت سے محفوظ ہوتے بولا
اس کی بات پر ایمان نے غصہ سے شاہ کی طرف دیکھ شاہ آپ دونوں بہن بھائ بے شرم ہے ایمان نے کہا پلیز شاہ جانئیں دے
چندا ابھی میں نے بے شرمی دیکھی کہاں ہے شاہ نے اس کے ماتھے پر لب رکھتے ہوے کہا اور اب اس فوکس ہونٹوں پر تھا کہ ایمان نے اپنے ھاتھ اس کے ہونٹوں پر رکھے اور جلدی سے بولی شاہ پلیز جانئیں دے
شاہ اس کی حرکت پر مسکرایا ٹھیک ھے جاو لیکن پہلے مجھے بے شرم کہنے کی سزا تو دینے دو شاہ نے کہا اور اس کے لب قید کیا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...