اس نے مجھے گھما کر رکھ دیا۔
“اب تمہاری سمجھ میں آ گیا ہو گا کہ میں ساری زندگی کوئی بھی تعلق، میرا مطلب ہے کہ رومانوی تعلق کیوں نہیں نبھا سکا۔”
اس نے اپنی طرف سے قصہ ختم کیا۔
ہم یہ دھواں دھار گفتگو پچھلے تین گھنٹے سے کر رہے تھے۔ اس کا خیال تھا مجھے سمجھا ہی ڈالے گا کہ اس کی زندگی ایسی کیوں تھی جیسی کہ تھی۔ اور یہ بھی کہ اس کی زندگی ایسی ہی کیوں گزری۔
ہم تین سال سے ساتھ تھے۔ کبھی یوں قریب آ جاتے کہ ہمارے بیچ سے ہوا بھی نہ گزر سکتی۔ یک جان و دو قالب سے بھی کہیں آگے۔ شاید یک جان و یک قالب۔ پھر کوئی چھوٹی سی بات ایسی نکل آتی کہ یا تو اسے چپ لگ جاتی یا مجھے۔ ہم میں سے ایک کچھوے کی طرح اپنی گردن انا کے سخت، بھدے اور ناقابل شکست خول میں گھسیڑ کر قلعہ بند ہو جاتا۔ دوسرا اپنی کوشش کی گدھ کی تیز چونچ بھی اس خول میں گھسیڑ کر اس کا نرم حصہ نہ ڈھونڈھ پاتا۔ اس سرد مہری اور نیمے دروں نیمے بروں کیفیت میں کئی دن گزر جاتے۔ پھر وقت کی حدت اور تنہائی کی گھٹن بیرونی قلعہ بندی میں دراڑ ڈالتی اور ذات کا گھوڑا گھمنڈ اور یکتائی کی خندق پھلانگ جاتا۔
مجھے بیو گی کی زندگی گزارتے پانچ سال ہو چکے تھے اگرچہ میری عمر صرف پینتیس سال تھی۔ اپنے دکھ کے دو سال گزار کر میں فطری زندگی کی طرف لوٹ رہی تھی کہ ہماری ملاقات ہو گئی۔ اس کمپنی میں دوسرے شہر تبادلے معمول نہیں تھے لیکن آسامی خالی ہونے پر یا کسی عہدیدار کی درخواست پر انتظامیہ زیادہ مزاحم بھی نہیں ہوتی تھی۔
میں عادتاً بڑی سنجیدہ اور ذمہ دار گردانی جاتی تھی لیکن خشک یا بدمزاج ہرگز نہیں۔ موسیقی، مصوری، فلم، آرٹ ادب مجھے بھاتے تھے۔ طبعاً کھلے دل اور کھلے ذہن کی تھی اور میرے ارد گرد کے لوگ مجھ سے ربط ضبط میں کوئی دقّت محسوس نہیں کرتے تھے۔ میری پہلی محبت، پہلا جنسی تجربہ، شادی یا ازدواجی زندگی کا تذکرہ یہاں بے محل ہو گا۔ اسی طرح اوائل عمر یا ازدواجی زندگی کی جنسی و نفسیاتی پیچیدگیوں یا اس جانکاہ حادثے کا ذکر کہ جس نے مجھے بیوی سے بیوہ بنا دیا یہاں بے جا ہو گا۔
یہ بتانا بہرحال ضروری ہے کہ میں عمر کے اس حصہ میں تھی جہاں فطری جنسی تقاضوں کا دریا کناروں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ جذبات شدت کی آخری حدوں کو چھوتے ہیں اور یہ مدوجزر ہر ماہ کئی کئی روپ دکھاتا اور پھر دہراتا ہے۔ شرجیل مجھ سے دو تین سال بڑا تھا اور عہدے میں تھوڑا سا سینئر۔
اس کے کراچی سے لاہور تبادلہ کی محرک اس کی اپنی خواہش سے زیادہ کمپنی کی انتظامی مجبوری تھی۔ بہرحال، حاصل قصہ یہ کہ وہ نہ صرف لاہور آ چکا تھا بلکہ اب اسے لاہور میں آئے تین سال اور میرے دل میں آئے اڑھائی سال ہو چکے تھے۔
آج ہم پھر وہ قضیہ لے کر بیٹھے تھے جس نے ہمارے تعلق کو نرالاہی رنگ ڈھنگ دے رکھا تھا۔
ہم دونوں نوعمر یا ناپختہ ذہن نہیں تھے پھر بھی ہم بہت ہی تیزی سے قریب آئے۔ قریب کیا آئے ایک دوسرے میں گر گئے۔ اور گرے بھی اتنی تیزی سے کہ کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہ ملا۔
میں ہمیشہ یہ سمجھتی تھی کہ محبت تو بس اِک خواب ہے۔ اِک خواب، جو چڑھتی جوانیوں کے جوار بھاٹا سے بھاپ کی مانند اٹھ کر کچے ذہنوں کو گرفت کرتا ہے۔ جو جبلی تقاضوں کا ایک ملفوف اور مستور تقاضا اور اظہار ہے۔ میرا خیال تھا کہ محبت، وقت اور واقعات اس بے سمت منہ زور دھارے کو ٹھہراؤ سکون اور سمت دیتے ہیں۔ مگر میرے ان خیالات اور اعتقادات نے خاک ہونا تھا۔ میری عقل نے عاجز آنا تھا اور میری سوچ نے اپنے عجز پر قانع ہونا تھا۔
رشتوں میں جسم کتنا ہے اور ذہن کتنا، دل کتنا ہے اور روح کتنی، اس طرف کبھی دھیان نہیں گیا تھا۔ شرجیل کے آنے، پھر اتنی تیزی سے میرے بہت قریب آنے اور پھر چمٹ کر رہ جانے نے عجب صورت پیدا کر دی تھی۔ ہم نہ ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتے تھے نہ ایک دوسرے کے بغیر۔ ہم خوب خوب لڑتے، بول چال بند ہو جاتی لیکن پھر اِک دوسرے کو ڈھونڈتے اور بات چیت شروع کرنے کے بہانے بناتے۔ ہر لڑائی کے بعد ہم اور زیادہ قریب آ جاتے اور اگلی بار اور بھی زیادہ شدید لڑائی کرتے۔
میں جنس کو ایک ہوّا بنائے بیٹھی تھی۔ شرجیل نے مجھے سکھایا کہ یہ ہوّا نہیں حقیقت ہے۔ خوف کھانے یا نفرت اور اجتناب کا منافقانہ ڈراما کرنے کی چیز نہیں۔ ماننے، تسلیم کرنے اور اہمیت دینے کی فطری چیز ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اخلاقی قدروں یا معاشرتی پابندیوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے تھے۔ بس اتنا تھا کہ ہمیں اپنی حدود کا پتا تھا۔ یہ ضرور ہوا کہ اس موضوع سے نہ ہم بدکتے نہ جھجھکتے یا خوف کھاتے۔ بس اسے بھی ایک مسلمہ حقیقت بلکہ خوب صورت حقیقت سمجھتے۔
اس کی پوری جمالیات اور حسیات کے ساتھ۔
بالآخر آج کی بحث بھی اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ کچھ میں قائل ہوئی اور کچھ وہ۔ کچھ میں نہ مانی اور کچھ وہ اڑا رہا۔ ہم اتنی لمبی بحث سے فارغ ہوئے اور اپنے اپنے ٹھکانوں کوچل دیے۔ ایک دوسرے کے بارے میں سوچتے ہوئے۔
ہمیں کل پھر ملنا ہے۔ میں اپنی تنہائیوں میں محسوس کرتی ہوں کہ میرے فطری تقاضوں کو کسی کی ضرورت ہے۔ وہ ‘کسی ‘ شرجیل سے بہتر کوئی نہیں ہو سکتا۔ اس کا خیال ہے کہ ایسا کوئی بھی تعلق ہمیں راس نہیں آئے گا اور ہم دوستی سے بھی جائیں گے۔ ہم دونوں درمیانہ طبقہ سے تعلق رکھنے کے باوجود اچھے اداروں سے پڑھے ہیں۔ شرجیل تو ایک آدھ ڈگری باہر سے بھی لاچکا ہے۔ ہم بہت مذہبی نہیں لیکن مذہب ہماری عائلی اور سماجی زندگی میں رچ بس کر لاشعوری طور پر کہیں نہ کہیں ہمیں اپنی گرفت میں ضرور لاتا ہے۔
میں سخت مخمصے میں ہوں۔ کیا مجھے شرجیل سے محبت ہو چکی ہے؟
میں اس سے یہ بات کروں گی تو اس کا قہقہہ فلک شگاف ہو گا۔
کل پھر اِک بحث ہو گی۔ کل پھر دلائل چلیں گے۔ بڑا شور شرابا ہو گا۔ کہیں ذاتیات بھی آ جائیں گی اور شاید اسی بنیاد پر لڑائی بھی ہو جائے۔
ہمیں ایسے ہی کرتے کراتے تین سال گزر چکے ہیں۔ زندگی تیزی سے گزرتی جا رہی ہے۔
خیر دیکھتے ہیں کل کیا ہوتا ہے!!
٭٭٭