*”___ﻣﺴﺌﻠﮧ ‘ ﺳﺎﺭﺍ ‘ ﺍُﺱ ﺳﮑﻮﻥ ﮐﺎ ﮨﮯ*
*ﺟﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﻣِﻠﺘﺎ ﮨﮯ۔۔*
تیمور دیوار سے ٹیک لگائے سامنے آئی سی یو کے دروازے پہ نظریں جمائے کھڑا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ تین گھنٹے ہو چکے تھے نور آپریشن تھیٹر میں تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ان تین گھنٹوں میں تیمور نے ایک پل کے لئے بھی نگاہ دروازے سے نہیں ہٹائی۔
تبریز مسلسل روتی زاشہ کو سمبھالنے میں لگا ہوا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
کئی بار تیمور کے پاس بھی آیا ۔ ۔ ۔ ۔ مگر وہ وہاں سے ہٹنے کو تیار ہی نہیں تھا۔
خون سے لتھڑی نیم مردہ حالت میں نور کو لے کر وہ جب ہوسپٹل پہنچا تھا تو نور سے زیادہ اسکی اپنی حالت قابل رحم لگ رہی تھی آنکھوں میں وحشت ہی وحشت چھائی ہوئی تھی۔
اسے پولیس یونیفارم میں دیکھ کر ڈاکٹرز فوراْ حرکت میں آئے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نبیل نے نور کے سر پہ لوہے کے راڈ سے وار کیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ اسکےدماغ پہ گہری چوٹ آئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نبیل نے اسکے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی تھی ۔ ۔ ۔ ۔
ایک تو ذہنی دباؤ دوسرا سر پہ لگنے والی چوٹ ۔ ۔ ۔ ۔
اسکی کنڈیشن کافی سیریس تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آپریشن تھیٹر کی ریڈ لائٹ آف ہوئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ڈاکٹر جیسے ہی باہر آیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیمور تیر کی تیزی سے اسکی طرف بڑھا۔
” وہ کیسی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ میں دیکھ لوں اسے ۔ ۔ ۔ ۔ چپ کیوں کھڑے ہیں آپ بتائیے نور کیسی ہے ۔ ۔ ”
اس نے ایک ہی سانس میں کئی سوال پوچھ ڈالے ۔ ۔ ۔ ۔
ڈاکٹر بھی اسکی حالت دیکھ کر گھبرا گیا۔
جبھی تبریز نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اسے ریلیکس رہںنے کا اشارہ کیا۔
” دیکھئے آفیسر میں آپ سے کچھ چھپانا نہیں چاہتا ۔ ۔ ۔ ۔
پیشینٹ کی حالت بہت نازک ہے دماغ پہ گہری چوٹ آئی ہے ۔ ۔ ۔ ھم نے بلیڈنگ تو روک دی ہے مگر وہ ابھی بھی خطرے میں ہیں ۔ ۔ ۔
انکے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی گئی ہے انکی عزت تو محفوظ رہی ہے مگر اس واقعے کی وجہ سے انکا نروس سسٹم متاثر ہوا ہے اگر انھیں کل صبح تک ہوش نہ آیا تو وہ قومہ میں بھی جا سکتی ہیں۔”
ڈاکٹر کی بات سن کر تیمور لڑکھڑا گیا تھا ۔ ۔
زا شہ نے بھی تکلیف سے نکلنے والی چیخ کو روکنے کے لئے منہ پہ ہاتھ رکھا۔
ایسے میں تبریز نے ہی حواس بحال رکھے ہوئے تھے۔
” کیا ھم ان سے مل سکتے ہیں ”
” نہیں ابھی انھیں ڈسٹرب کرنا ٹھیک نہیں ہو گا آپ انکو دیکھ سکتے ہیں لیکن بات نہیں کر سکتے ”
ڈاکٹر کہہ کر آگے بڑھ گیا۔
تیمور شیشے کے دروازے کے سامنے جا کھڑا ہوا ۔ ۔ ۔ ۔
سامنے اس کی زندگی موت کی طرف بڑھ رہی تھی اور وہ بے بسی سے کھڑا دیکھ رہا تھا۔
پٹیوں اور مشینوں میں جکڑا نور کا وجود تیمور کو اذیت سے دوچار کر رہا تھا۔
اسے زندگی سے بھرپور ہر سو خوشیوں کے رنگ بھکیرتی ہنستی مسکراتی نور یاد آئی ۔ ۔ ۔ ۔
دو آنسو اسکی آنکھوں سے نکل کر داڑھی میں جذب ہو گئے۔
” نفیس پھر آپ نے کیا سوچا ہے نور کے بارے میں ۔ ۔ ۔
مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اس کے ساتھ زبردستی نہیں کرنی چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بچی ہے اگر نبیل سے شادی نہیں کرنا چاہتی تو آپ اسے فورس مت کریں۔”
مسز کرمانی بیڈ پہ بیٹھتی ہوئی بولیں ۔ ۔ ۔ لہجے میں مصنوعی فکرمندی تھی جسے نفیس صاحب نہیں سمجھ سکے اور سادگی سے مسکرائے۔
” ارے بیگم آپ خود کو اس فکر میں ہلکان مت کریں میں جانتا ہوں کہ نور آپ کو بہت عزیز ہے مگر جتنی وہ خودسر ہو گئی ہے اسکی شادی کرنا ضروری ہو گیا ہے اور نبیل بہت اچھا لڑکا ہے وہ نور کو ہینڈل کر لے گا”
مسز کرمانی کے چہرے پہ شاطرانہ چمک پیدا ہوئی تھی۔
تبھی دروازے پہ دستک ہوئی۔
نفیس صاحب نے اٹھ کر دیکھا تو باہر ملازم کھڑا انکو پولیس کے آنے کی اطلاع دے رہا تھا۔
نفیس صاحب حیران ہوتے ہوئے لاؤنج میں چلے آئے جہاں تبریز کھڑا تھا۔
” ہیلو مسٹر نفیس کرمانی ۔ ۔ ۔ ۔ مائی سیلف ایس پی تبریز لاشاری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معذرت چاہتا ہوں کہ آپ کو اس وقت تکلیف دی مگر بات ھی کچھ ایسی تھی کہ آنا پڑا۔”
” جی ایس پی صاحب کہیے میں سن رہا ہوں ”
نفیس صاحب بولے تب تک مسز کرمانی بھی وہاں آ چکی تھیں۔
” آپ کی بیٹی کہان ہے اس وقت مسٹر کرمانی ”
تبریز نے پوچھا۔
” یہ کیسا سوال ہے میری بیٹی سے آپ کا کیا لینا دینا آپ کیوں اس کا پوچھ رہے ہیں ”
وہ بھڑک کر بولے۔
” نفیس صاحب غصہ نہ کریں اپنی بیٹی کو بلائیں کہاں ہے وہ ”
رات کے اس وقت وہ اپنے کمرے میں ہو گی اور کہاں ہو گی ”
نفیس صاحب طیش سے بولے۔
” مسٹر نفیس کس قدر لاپرواہ باپ ہیں آپ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آپ کو یہ ھی نہیں پتہ کہ آپ کی بیٹی کہاں اور کس حال میں ہے ”
تبریز کو جیسے ان کی بے خبری پر افسوس ہوا۔
” کیا مطلب ہے آپ کی اس بات کا ”
نفیس صاحب گھبرا کر بولے ۔ ۔ ۔ ۔ گھبرا تو انکی بیوی بھی گئی تھی۔
” مطلب یہ سر کہ آپ کی بیٹی اس وقت ہوسپٹل میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے ”
تبریز نے جیسے دھماکہ کیا۔
نفیس صاحب بیٹھے سے اٹھ گئے۔
” بیگم آپ نے تو کہا تھا کہ نور اپنے روم میں ہے ”
نفیس صاحب کی بات سن کر مسز کرمانی سخت پریشان ہوئیں۔
” یہ آپ کو کیا بتائیں گی میں بتاتا ہوں آپ کو سچ۔”
اس کے بعد تبریز نے انھیں ساری بات بتا دی جسے سن کر نفیس صاحب ڈھے سے گئے۔
” ارے یہ جھوٹ بول رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ مکار شخص الزام لگا رہا ہے نبیل پہ ضرور نور کی کوئی سازش ہے اس میں ”
مسز کرمانی چلائیں۔
” دو ہاتھ پڑتے ہی نبیل نے سب اگل دیا ہے مسز کرمانی ”
تبریز نے جیسے ان کے ہوش اڑائے تھے۔
تبھی ایک کانسٹیبل زخمی نبیل کو کھینچ کر اندر لایا۔
نبیل نے نفیس صاحب کو سب سچ بتا دیا کہ کیسے اس کی خالہ نے اسے لالچ دیا اور آج بھی نور کے پیچھے انہوں نے ھی بھیجا تھا مجھے۔
” امید ہے اب آپ کی تسلی ہو گئی ہو گی یہ ہوسپٹل کہ ایڈریسس ہے آپ چلے جائیں نور کے پاس اسے آپ کی ضرورت ہے ”
تبریز نفیس صاحب کا شانہ تھپتھپاتے ہوئے باہر نکل آیا۔
اب اسکا ارادہ نبیل کو تھانے چھوڑ کر ہوسپٹل جانے کا تھا۔
” نفیس میری بات سنیں ۔ ۔ ۔ ۔ مم ۔ ۔ میں ”
” شٹ اپ ۔ ۔ ۔ جسٹ شٹ اپ ۔ ۔ ۔ ۔ تم انتہائی گھٹیا عورت ہو میں تمھیں کیا سمجھا اور تم کیا نکلی ۔ ۔ ۔ ۔
تف ہے مجھ پہ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے اپنے خون سے زیادہ تم پہ اعتبار کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ”
نفیس صاحب غصے سے بولے۔
” نہیں میں آپ کو سمجھاتی ہوں میں ۔ ۔ ۔ ”
” مجھے کچھ نہیں سننا اپنا سامان سمیٹو اور دفع ہو جاؤ میرے گھر سے تمھیں طلاق کے پپرز مل جائیں گے ”
نفیس صاحب غصے سے بول کر وہاں سے چلے گئے۔
” نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں ۔ ۔ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا ۔ ۔ ۔
زاشہ اس باکس تک پہنچ گئی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ جلد ہی وہ اسے کھول بھی لے گی ۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہ ہر راز جان جائے گی ۔ ۔ ۔ ۔
مجھے واپس جانا ہو گا اگر وہ باکس وقت سے پہلے کھل گیا تو سب برباد ہو جائے گا ۔ ۔ ۔
میرا سارا کھیل بگڑ جائے ۔ ۔ ۔ گا میں یہ نہیں ہونے دوں گا۔ ”
زرداب کمرے میں چکراتے ہوئے پریشانی سے بڑبڑا رہا تھا۔
” اوہ گاڈ سکندر ۔ ۔ ۔ ۔ تم آخر کیوں مر گئے میرا کام پورا ہونے سے پہلے ”
شدید پریشانی کے زیراثر اب وہ اول فول سوچ رہا تھا۔
زرداب کے لاکر کے ساتھ ایک میوٹ الارم فکس تھا جیسے ہی اسے کوئی کھولتا تو زرداب کی رسٹ واچ بلنک کر کے اسے انفارم کر دیتی بدقسمتی سے دو دن سے اس نے واچ نہیں پہنی تھی اور آج جب واچ دیکھی تو اسے فوراْ پتہ چل گیا۔
تبھی اس نے فون سے کال ملائی۔
” آج شام کی سیٹ بک کرواؤ میری پاکستان کے لئے ”
کھردرے لہجے میں وہ کسی کو آرڈر کر رہا تھا۔
” آئی ڈونٹ کیئر ۔ ۔ ۔ مجھے پاکستان کی سب سے پہلی فلائٹ میں بکنگ چاہے ۔ ۔ دیٹس اٹ ”
وہ غصے سے بول کر کال کٹ کر گیا۔
” ہممممم ۔ ۔ ۔ مادام زاشہ بی ریڈی ٹو فیس می ”
بولتے ہوئے اس کے خوبرو چہرے کے تاثرات نہایت سرد تھے۔
اسکی آنکھوں کا عجب رنگ ھے جھیلوں جیسا
خاص جرگوں میں قبائل کی ،،دلیلوں،، جیسا ۔ ۔ ۔ ۔ !!
صبح فجر کی اذان کے ساتھ ہی نور کے وجود میں جنبش ہوئی تھی تیمور جو رات سے پلکیں جھپکائے بنا اسے دیکھ رہا تھا لپک کے ڈاکٹر کو بلانے دوڑا۔
” اب ان کی حالت خطرے سے باہر ہے کچھ دیر تک انہیں مکمل ہوش آ جائے گا پھر انہیں روم میں شفٹ کر دیں گے تو آپ لوگ مل لیجئے گا ”
ڈاکٹر کی آواز نے سب کے مردہ وجود میں جیسے روح پھونک دی تھی زاشہ فوراْ سے فوزیہ بیگم کو فون کرنے بھاگی تاکہ انھیں نور کی خیریت کی اطلاع دے سکے۔
نفیس صاحب کے وجود میں بھی جیسے توانائی سی بھر گئی تھی وہ رات سے جیسے سولی پہ ٹنگے تھے۔
تبریز نے آگے بڑھ کر تیمور کو گلے لگایا جو خوشی اور بے یقینی سے سٹل کھڑا تھا۔
” تیمور بھائی نور اب ٹھیک ہے آپ انکل کو ریسٹ روم لے جائیں اور فریش ہو جائیں میں نے ماما کو اطلاع کر دی ہے وہ یہاں آنا چاہتی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
میں اور تبریز جا کر انھیں لے آتے ہیں۔”
زاشہ دونوں سے مخاطب ہوئی۔
” زرش ٹھیک کہہ رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب فکر کی کوئی بات نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔
تم انکل کو امپریس کرو اب آخر کو تمہارے ہونے والے سسر جی ہیں ۔ ۔ ”
تبریز نے ہلکے پھلکے لہجے میں کہا تھا۔اس کی بات سن کر تیمور صرف مسکرا دیا۔
” کوئی خاص خبر فیصل ۔ ۔ ”
ایئر پورٹ سے نکل کر گاڑی میں بیٹھتے زرداب نے سوال کیا۔
فیصل سکندر کا خاص آدمی تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سکندر کے بعد اب وہ سائے کی طرح زرداب کے ساتھ تھا۔
” نہیں سر سب کچھ پرفیکٹ ہے ۔ ۔ ۔ سارا کام ٹھیک چل رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مادام نے دو بار میٹنگ بھی کی ہے ”
اسکا تفصیلی جواب سن کر زرداب نے سر ہلا دیا تھا۔
وہ لندن سے پہلی فلائٹ میں ابھی ابھی پاکستان پہنچا تھا۔
عین روانگی کے وقت ڈیول کو جب اسکی واپسی کا معلوم ہوا تو اس نے زرداب کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی مگر اس بار اسے ہار ماننی ہی پڑی تھی۔
گاڑی آ کر محل کے شاندار پورچ میں رکی فیصل نے لپک کے گاڑی کا دروازہ کھولا۔
مین ایریا سے گزر کر زرداب رہائشی حصے میں پہنچا ۔ ۔ ۔ ۔
فیصل پیچھے ہی رک گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
محل کے اس حصے میں کسی مرد ملازم کو آنے کی اجازت نہیں تھی ۔ ۔ ۔ ۔
وجہ تھی زاشہ ۔ ۔ ۔ ۔ زاشہ کا چہرہ سکندر کے علاوہ کبھی کسی نے نہیں دیکھا تھا اس معاملے میں زرداب انتہائی محتاط تھا۔
سب سے پہلے اس نے اسٹڈی میں جا کر لاکر چیک کیا وہاں سے باکس غائب تھا۔
ایک پراسرار مسکراہٹ نے اسکے لبوں کو چھوا۔
تھوڑی دیر بعد اسکا رخ زاشہ کے کمرے کی طرف تھا۔
اس وقت وہ گھریلو سادہ حلیے میں تھا اس کے باوجود اسکی شخصیت کا سحر کم نہیں ہوا تھا۔
دروازے کے سامنے رک کر اس نے دھیرے سے دروازہ دھکیلا تو وہ پورا کھل گیا۔
اسے زاشہ کمرے میں کہیں نظر نہیں آئی باتھ روم اور ٹیرس بھی خالی تھے۔
ایک دم سے اسکا ماتھا ٹھنکا وہ جب سے آیا تھا یہاں خاموشی تھی بوا بھی کہیں دکھائی نہیں دیں۔
تھوڑی دیر بعد وہ گھر کے ملازموں پہ چیخ رہا تھا لیکن سب حیران تھے کہ آخر بوا اور زاشہ گئیں کہاں ۔ ۔ ۔ ۔ !!
زرداب احساس شکست سے جیسے پاگل ہو رہا تھا اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ زاشہ یہاں سے نکل گئی ہے۔
” فیصل ۔ ۔ ۔ ۔ ”
” حکم سر ”
فیصل اسکی دہاڑ پہ فوراْ حاضر ہوا۔
” مجھے ایک ہفتے کے اندر اندر مادام زاشہ سفید محل میں چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔
سمجھ رہے ہو نا تم میری بات ۔ ۔ ۔ ”
زرداب نے سرخ نگاہوں سے گھورتے ہوئے اسے حکم جاری کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لہجہ انتہائی ٹھنڈا تھا۔
فیصل سر جھکا کر وہاں سے نکل گیا۔
زرداب مٹھیاں بھینچے ضبط کے کڑے مراحل سے گزر رہا تھا وہ ابھی تک بے یقین تھا۔
تھوڑی دیر بعد اس کے غصے کی شدت سے محل کے درودیوار ہل رہے تھے۔
” ابھی تک پریشان ہو ۔ ۔ ”
تبریز گم سم بیٹھی زاشہ کے پاس آتے ہوئے بولا۔
” نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ بس دل ابھی تک ڈرا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
نور کو ایسی حالت میں دیکھ کر میرا دل بند ہونے کو تھا”
وہ تبریز کے شانے پہ سر رکھتے ہوئے بولی۔
” ایسی باتیں مت کرو میری جان ۔ ۔
اب سب کچھ ٹھیک ہے ”
تبریز نے اس کو حصار میں لیتے ہوئے اسکی پیشانی کو ہولے سے اپنے لبوں سے چھوا۔
” میرے خیال سے تم گھر پہ ریسٹ کرو میں ماما کو ہوسپٹل لے جاتا ہوں تم شام میں چلی جانا ”
تبریز اسکے گال کو پیار سے سہلاتے ہوئے بولا۔
” نہیں میں بھی چلتی ہوں ”
زاشہ نے اٹھنا چاہا لیکن تبریز نے اسے روک دیا۔
” نو مور آرگیومنٹ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کہا نا تم ریسٹ کرو میں شام میں خود لے جاؤں گا اپنی جان کو مگر ابھی آرام کرو بس ”
وہ اسے بیڈ پہ لٹا کر اس پہ بلینکٹ ڈالتا ہوا بولا۔
زاشہ نے آنکھیں بند کر لیں پوری رات جاگنے اور رونے کی وجہ سے اسکا سر بھاری ہو رہا تھا۔
تبریز روم کی لائٹ آف کر کے چلا گیا۔
“”””””””””””””””””””””””””””””””
” کیسی ہو بیٹا ”
نفیس صاحب نور کے پاس بیٹھتے ہوئے بولے نور ان کو دیکھ کر آنکھیں موند گئی تھی ابھی کچھ دیر پہلے ہی اسے روم میں شفٹ کیا گیا تھا۔
” اپنے بابا سے اتنی ناراض ہو کہ آنکھیں ہی نہیں کھولنا چاہتی ۔ ۔ ”
ان کی آنسوؤں سے بھیگی آواز پہ نور نے تڑپ کے آنکھیں کھولیں۔
” اپنے بدنصیب باپ کو معاف کر دو بیٹا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں دنیا اور دولت کی ہوس میں اس قدر ڈوب گیا تھا کہ اپنی سب سے قیمتی دولت سے ہی لاپرواہ ہو گیا اسے دوسروں کے آسرے پہ چھوڑ دیا ”
روتے ہوئے بمشکل وہ بول پا رہے تھے۔
نور بلکل خاموش تھی۔
” اگر تمھیں کچھ ہو جاتا تو میں بھی مر جاتا میری واحد پونجی تم ہی ہو پلیز بیٹا اپنے بابا سے بدگمان مت ہونا ۔ ۔ ۔ ۔
بس ایک بار معاف کر دو ”
کہتے ہوئے انہوں نے آخر میں ہاتھ جوڑ دئیے۔
نور نے جلدی سے ان کے ہاتھ پکڑے ۔
” نہیں بابا ایسے مت کریں ۔ ۔ ۔ ۔ میں آپ سے ناراض نہیں ہوں ۔ ۔ ۔ ۔
میں آپ سے کبھی ناراض ہوئی ہی نہیں تو اب کیسے ہو سکتی ہوں ویسے بھی سارا قصور میرا ہے نہ میں اس ٹائم باہر جاتی اور نہ یہ سب ہوتا ”
وہ تکلیف سے بول رہی تھی۔
” نہیں بیٹا خود کو قصور وار مت ٹھراؤ ۔ ۔ ۔ ۔
بھول جاؤ سب اب تم بلکل ٹھیک ہو اب کوئی تمھیں کبھی تکلیف نہیں پہنچائے گا ۔ ۔ ۔
اس ذلیل نبیل کو تو میں چھوڑوں گا نہیں تم بس جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ ”
نفیس صاحب اس کی پیشانی چومتے ہوئے بولے۔
تبھی تبریز اور فوزیہ بیگم اندر آئے۔
نفیس صاحب دروازے کی طرف مڑے ۔ ۔ ۔
فوزیہ بیگم کو دیکھ کر انکی آنکھوں میں حیرت در آئی یہی حالت فوزیہ بیگم کی بھی تھی۔
” بھابھی آپ ۔ ۔ ۔ ۔ اتنے عرصے بعد ”
نفیس صاحب کے لہجے سے خوشی محسوس کرنا مشکل نہیں تھا۔
” نفیس بھائی ۔ ۔ ۔ کیسے ہیں آپ ؟
اچھا لگا آپ کو اتنے وقت کے بعد دیکھ کر ۔ ۔ ۔ ۔
اور نور آپ کی بچی ہے ۔ ۔ !! ”
فوزیہ بیگم بھی خوشگوار حیرت لئے بولیں جبکہ تبریز نور اور اندر آتا تیمور سب حیران تھے۔
” جی بھابھی نور میری بیٹی ہے ”
” یہ تبریز ہے ”
فوزیہ بیگم نے تعارف کروایا۔
” اس سے میں مل تو چکا ہوں مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ میرے دوست رضوان ( تبریز کے والد )کابیٹا ہے ”
نفیس صاحب تبریز کے گلے لگتے ہوئے بولے۔
” بیٹا یہ تمھارے پاپا کے بہت اچھے دوست تھے ”
فوزیہ بیگم نے سب کی حیرت دور کی۔
” بھابھی مجھے معاف کر دیجئے گا رضوان کی ڈیتھ کے وقت میں باہر پھنس گیا تھا اور جب واپس آیا تو پتہ چلا کہ سسرال والوں نے آپ کو گھر سے نکال دیا ہے اس کے بعد بھی میں نے آپ کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی مگر ۔ ۔ ۔ ”
کوئی بات نہیں بھائی صاحب جو وقت گزر گیا اس پہ کیا پچھتانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہمارا آنے والا وقت اچھا ہو بس یہی دعا ہے ”
فوزیہ بیگم کا لہجہ نم تھا۔
” مجھے خوشی ہے کہ میری نور اپنوں کے پاس ہی رہی ہے آپ بیٹھیں میں ڈاکٹر سے بات کر کے آتا ہوں ”
نفیس صاحب بول کر باہر چلے گئے۔
زاشہ کی آنکھ جھٹکے سے کھلی اسکا سارا جسم پسینے سے شرابور تھا ۔ ۔ ۔
اس نے بہت برا خواب دیکھا تھا جیسے کوئی اسے تبریز سے دور لے جا رہا تھا۔
تبھی اسکو کرسٹل باکس کا خیال آیا۔
وہ احتیاط سے اس باکس کو اٹھا لائی۔
” آخر یہ کھلے گا کیسے ”
وہ بڑبڑاتی ہوئی باکس کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی۔
” پہلے تبریز کو فون کر لیتی ہوں پھر اس کو کھولوں گی”
باکس کو گود میں رکھ کر وہ فون تلاش کرنے لگی تبھی گود میں رکھے باکس میں وائبریشن ہوئی ۔ ۔
اس نے چونک کر دیکھا۔
اسکا بایاں ہاتھ سیدھا باکس پہ رکھا تھا دباؤ پڑنے کی وجہ سے اس پہ کچھ بلنک ہو رہا تھا زاشہ نے آہستہ سے دونوں ہاتھ اس پہ رکھے ۔ ۔ ۔
اسکا دل دھک دھک کر رہا تھا۔
دونوں ہاتھ رکھتے ہی باکس کی سطح پر ایک سکرین شو ہوئی اس پہ ایک ڈیجیٹل پزل شو ہو رہا تھا۔
مطلب یہ پزل سولو کر کے ہی باکس کھولا جا سکتا تھا۔
زاشہ سب کچھ بھلائے اب وہ پزل دیکھ رہی تھی جو آسان ہر گز بھی نہیں تھا۔
چار گھنٹوں کی سخت محنت کے بعد آخر زاشہ وہ پزل حل کر چکی تھی اس میں آغا زرداب اور آغا وجدان کی تصویر مکمل ہو چکی تھی کلک کی آواز کے ساتھ باکس کھل گیا۔
خوشی سے اس کا چہرہ تمتما رہا تھا۔
دھڑکتے دل سے اس نے باکس اوپن کیا۔
اندر ایک سرخ رنگ کی فائل تھی اور ساتھ ایک فلیش تھی جس کی ۔ ۔ ۔ کی چین پر ڈبل زیڈ لکھا تھا۔
فائل میں زرداب کے سارے کالے دھندوں کی تفصیل تھی۔
ابھی اسکا ارادہ فلیش چیک کرنے کا تھا جب تبریز کا فون آ گیا۔
اس نے بتایا کہ نور گھر آنے کی ضد کر رہی ہے تو ھم لوگ اسے ادھر ہی لے کر آ رہے ہیں تا کہ سب اسکا خیال رکھ سکیں تم روم تیار کر دو اس کے لئے۔
زاشہ فائل اور فلیش رکھ کر اٹھ گئی اسکا ارادہ بعد میں اسکو چیک کرنے کا تھا فلحال اسے خوشی تھی کہ ثبوت اس کے ہاتھ لگ چکے ہیں۔