روتے روتے نہ جانے وہ کب بے ہوش ہو گی تھی۔۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے خود کو اپنے بیڈ پر لیٹا پایا۔۔ سارا گھر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔۔ شاید گھر میں بجلی نہیں تھی۔۔
حرمین۔۔ تمھیں ہوش آگیا۔۔ کیا ہوا کیا تھا تمھیں؟؟ میں نہا کر غسل خانے سے نکلی تو میں نے دیکھا کہ تم کمرے کے فرش پر بے ہوش پڑی ہو۔۔ شزا بہت گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی۔۔
حرمین جواب دو۔۔ میں تم سے کچھ پوچھ رہی ہوں۔۔ شزا اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اپنا سوال دوہرا رہی تھی۔۔۔ مگر اسکا وجود تو جیسے مردہ ہوچکا تھا۔۔ حرمین خدا کے لیے کچھ تو بولو۔۔ کوئی تو جواب دو۔۔ شزا کی پریشانی بڑھتی ہی جا رہی تھی۔۔
اپنے اندر تھوڑی ہمت پیدا کر کے وہ اٹھ کر بیٹھی۔۔ اسکی آنکھوں میں نمی تھی۔۔
حرمین۔۔ میری جان کچھ تو بولو نہ پلیز۔۔ شزا نے پیار سے اسکا منہ اپنی طرف کر کے کہا۔۔
اصفر۔۔۔ اصفر مجھے چھوڑ کر چلا گیا آپی۔۔۔ وہ بہت دور چلا گیا بہت دور۔۔ وہ شزا سے چمٹ کر رونے لگی۔۔
کیا۔۔۔ کیا مطلب۔۔یہ کیا بول رہی ہو تم۔۔ وہ اسکو خود سے الگ کر کے بولی۔۔۔
اسکی ڈیتھ ہوگی۔۔ وہ زارو قطار رو رہی تھی۔۔
کیا۔۔۔ کب کیسے۔۔ یہ بول کیا رہی ہو تم۔۔ شزا بے یقینی کی کیفیت میں تھی۔۔۔
کچھ دیر شزا کی گود میں سر رکھ کر رونے کہ بعد اسنے کہا۔۔
وہ کہتا تھا کہ میں نے اسکی زندگی جنت بنائ ہے۔۔ مجھ میں اسکو اپنی جنت دکھائ دیتی ہے، تو پھر وہ اس جنت کو چھوڑ کر اس جنت میں کیا کرنے چلا گیا آپی۔۔
سنبھالو خود کو حرمین۔۔ ہمت سے کام لو۔۔ وہ اسکو دلاسہ دے رہی تھی۔۔۔
آپکو ڈر تھا نہ کہ وہ مجھے دھوکا نہ دے دے۔۔ کاش کہ وہ مجھے دھوکا دے دیتا کم سے کم اس سے نفرت کا رشتہ ہی رکھ لیتی۔۔ مگر ایسے کیسے مجھے سکون ملے گا سارے رشتے ہی ختم ہو گے۔۔ وہ کانپتے لبوں سے بول رہی تھی۔۔
میں جانتی ہوں میری کوئی بھی بات تمھارے دل کو تسسلی نہیں بخش سکتی۔۔ میں امید کرتی ہوں کچھ دن میں تم بہتر ہوجاوگی۔۔ شزا نرمی سے اسکا ہاتھ تھامے اسے سمجھا رہی تھی۔۔
امی کہاں ہیں؟؟ اچانک اسے خیال آیا کہ گھر میں اسکے اور شزا کہ سوا کوئی ہے ہی نہیں۔۔
وہ امی کا فون آیا تھا۔۔ وہ نکلی تو مارکٹ کےلیے تھیں مگر وہاں کہ بجاے وہ نسرین خالہ کے گھر چلی گی ہیں۔۔ امی کہ پاس مزمل کی کال آی تھی کہ خالہ کی طبیعت بہت خراب ہے۔۔ شزا نے کہا۔۔
حرمین بلکل خاموش تھی۔۔
پلیز حرمین صبر رکھو میری جان۔۔ وہ پیار سے اسکے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔۔
صبر تو تب آے گا جب مجھے اس بات پر یقین ہوگا۔۔ میرا دل مانتا ہی نہیں ہے کہ یہ سچ ہے۔۔ وہ اپنے سامنے کی دیوار پر لٹکی پینٹنگ کو گھور رہی تھی۔۔
چلو لائٹ بھی آگی۔۔ میں تمھارے لیے چاے بنا کہ لاتی ہوں۔۔ کمرے میں پھیلتی روشنی کو دیکھ کر شزا نے کہا۔۔ ______________________
ہاتھ میں سلور کلر کا پستول پکڑے وہ کمرے میں بیڈ کہ پاس کھڑا تھا۔۔آنکھیں انگارا ہو رہی تھیں اور پورے بدن میں غصے کی لہر دوڑ رہی تھی۔۔
کچھ دیر تک ہاتھ میں پکڑی پستول کو دیکھنے کے بعد اسنے اپنے سامنے کی دیوار پر لگے شیشے پر پہلا فائر کیا۔۔
پھر بیڈ کے برابر میں موجود سائیڈ ٹیبل پر رکھے لیمپ پر دوسرا فائر کیا۔۔۔
اور تیسرا، چوتھا فائر اسنے پلٹ کر کمرے کی دیوار پر بڑے کانچ کے فریم میں لگی اپنی تصویر پر کیا۔۔
فائر کی آواز نیچے گارڈن اور کچن میں موجود ملازموں تک پہنچ چکی تھی اور وہ گھبراے ہوے تیزی سے سیڑھیاں چڑھتے ہوے کمرے کہ دروازے پر پہنچے۔۔۔
وہ ملازموں کو وہشیانہ انداز میں گھور رہا تھا۔۔ پورا کمرے کا فرش کانچ کہ ننھے ننھے ٹکروں سے پھیلا ہوا تھا۔۔
دفعہ ہوجاؤ یہاں سے تم لوگ اسی وقت۔۔ وہ ملازموں کو دیکھ کر مزید خفا ہوگیا۔۔
سنا نہیں تم لوگوں نے۔۔ I said Leave ایک زور دار آواز میں وہ دھاڑا۔۔
کچھ دیر پہلے کھڑے ملازم اب جا چکے تھے۔
________________________
تمھیں آگے بڑھنا چاہیے۔۔۔ کچھ ماہ میں تمھارا ریزلٹ آجاے گا۔۔ پھر تم آگے ایڈمیشن لے لینا۔۔مگر جب تک تم کوئی معمولی سی جاب کرلو۔۔ وہ چاے کا گھونٹ لیتے ہوے اس سے کہہ رہی تھی۔۔
مگر وہ اب بھی خاموشی سے کپ سے نکلتے دھویں کو دیکھ رہی تھی۔۔ وہ دونوں چھت کی طرف جانے والی سیڑھیوں پر بیٹھی تھیں۔۔
دیکھو حرمین تم جاب کروگی، اسٹڈی کروگی تو مصروف رہوگی اسکو بھولنے میں آسانی ہوگی تمھیں۔۔ شزا اسکی خاموشی کو توڑنا چاہتی تھی۔۔
مصروفیت دل سے کسی کی محبت نہیں نکال سکتی۔۔ وہ پہلے میری محبت تھا۔۔مگر اب میرا عشق بننے لگا ہے۔۔ جتنا روتی ہوں اتنی ہی اس سے محبت بڑھنے لگتی ہے۔۔
وہ کہتا تھا کہ وہ کبھی مجھ سے دور نہیں جاے گا۔۔
ہر شخص اپنے محبوب سے یہ خوبصورت جھوٹ ضرور بولتا ہے، جبکہ وہ جانتا ہے کہ ایک دن وہ سب کو تنہا کر جاے گا۔۔۔ وہ اپنی انگلیوں سے کپ کے کنارے کو چھوتے ہوے چاے سے نکلتے گرم دھویں کو انگلیوں پر محسوس کر رہی تھی۔۔
لیکن کسی کہ جانے سے زندگی نہیں رکتی انسان کو آگے بڑھنا ہی پڑتا ہے ورنہ لوگوں کے ہجوم میں وہ کچل جاتا ہے۔۔ ہو سکتا ہے اسی میں کوئی بھلای ہو۔۔ شز اسکی طرف دیکھتے ہوے کہہ رہی تھی۔۔
کسی کی موت سے میری کیا بھلائ ہوگی؟؟ حرمیں قدرے حیرانگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
جب کسی کو موت آتی ہے تو اسکے خواب،منصوبے،خواہشیں،کیریئر سب کو موت آجاتی ہے۔۔جبھی تو دوسرے شخص کو یہ دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ زندگی کتنی انمول ہے، اسکو ضائع نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ کبھی بھی موت اسکو ہم سے چھین سکتی ہے۔۔ وہ پلیٹ میں رکھے بسکٹ کو اب چاے میں ڈبو کے کھا رہی تھی۔۔
حرمین اسکی بات سن کر کہی کھوگئ تھی۔۔
کیا ہوا؟؟ کہاں گم ہوگئ؟؟ شزا نے چاے کا گھونٹ لیتے ہوے کہا۔۔۔
تو پھر زندگی کو کسی ایسے کام میں صَرف کرنا چاہیے کہ جب موت آے تو کوئی مقصد ادھورا نا رہے۔۔ہمارا مقصد ہمارے بعد کسی اور کا مقصد بن جاے۔۔۔ حرمین نے اس سے کہا۔۔
ایسا کونسا کام ہوسکتا ہے؟؟ شزا اس کی بات نہیں سمجھی۔۔
وہ جواب دینے کہ بجاے اسے دیکھتی رہی۔۔۔
مجھے ایک بہت اچھی کمپنی میں جاب مل گئ ہے، تنخواہ بھی بہت اچھی ہے، کل سے بلایا ہے ان لوگوں نے۔۔ اشفاق صاحب نے کھانے کی میز پر بیٹھے سب ہی گھروالوں سے کہا۔۔
اللہ کا کرم ہے بہت احسان ہے اسکا۔۔ فاطمہ دونوں ہاتھ اوپر اٹھاے رب کا شکر ادا کرنے لگیں۔۔
لیکن ابو آپ نے یہ بات ہمیں صبح کیوں نہیں بتائ۔۔ شزا نے کھانے کا لقمہ لیتے ہوے کہا۔۔
بھئ ایک یہی تو وقت ہے کھانے کا جب سارے گھر والے ایک ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں اس لیے میں نے سوچا، رات کے کھانے پر ہی بتاؤں گا سب کو۔۔ اشفاق صاحب کے چہرے سے خوشی پھوٹ رہی تھی۔۔
چلیں بس اللہ کا شکر ادا کریں وہی مشکلیں آسان کرنے والا ہے۔۔ فاطمہ نے کہا۔۔
بھئ شکریہ تو مبین کا بھی ادا کرنا چاہیے اسی نے تو اپنے کسی جاننے والے کی مدد سے یہ جاب دلوائ ہے مجھے۔۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ کل مبین اور اسکی فیملی کو کھانے کی دعوت دےدو اس بہانے گھر میں کچھ رونق بھی لگ جاے گی۔۔ اشفاق صاحب کھانے سے ہاتھ روک کر سب سے کہنے لگے۔۔
حرمین جو کافی دیر سے خاموشی سے کھانا کھا رہی تھی اسکے ہاتھ سے چمچہ چھوٹ کہ پلیٹ میں جا گرا۔۔
سب کی نظریں اس کے چہرے پر جم گئ۔۔
وہ۔۔ میرا پیٹ بھر گیا۔۔ میں۔۔ اپنے کمرے میں جا رہی ہوں آرام کرنے۔۔ وہ اپنی گھبراہٹ کو چھپاے کمرے کی طرف جانے لگی۔۔
اسکو کیا ہوا؟؟ اشفاق صاحب نے پوچھا۔۔
ابو کچھ نہیں بس ہلکہ سا بخار ہے اسکو اس لیے۔۔ شزا بات سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
کمرے کا دروازہ اور لائٹ بند کر کے وہ اپنے بیڈ پر جا بیٹھی۔۔
چھوڑیں۔۔۔۔ چھوڑیں مجھے۔۔۔۔۔
اگر کسی کو بتایا تو چھت سے نیچے پھیک دونگا۔۔۔
ایک جھماکے سے اسکو بچپن کا وہ واقعہ یاد آیا۔۔۔ بڑی بڑی سرخ آنکھیں اور وہ وہشیانہ چہرہ بار بار اسکے دماغ میں گردش کرنے لگا۔۔
ایک زور دار چیخ مار کہ اسنے بیڈ پر رکھا تکیا سامنے دیوار کی طرف پھینکا۔۔
کیوں۔۔۔ کیوں یاد آتا ہے وہ منحوس وقت مجھے۔۔ بھول کیوں نہیں جاتی میں سب کچھ۔۔ وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھامے کہہ رہی تھی۔۔
یا اللہ کیا میں اتنی بری ہوں کہ میری خوشیوں کا ہر سامان مجھ سے تو نے چھین لیا۔۔ ایک ہی تو وجہ تھی خوشی کی اس سے بھی مجھے محروم کردیا گیا۔۔ اس شخص کو مجھ سے دور کردیا میرا عشق ہے۔۔۔ وہ غم کی حالت میں رب سے شکوا کر رہی تھی۔۔
مجھ میں اور طاقت اور ہمت نہیں ہے صبر کی اللہ پاک۔۔ پلیز مجھے نکال دیں آزمائشوں سے۔۔ میں اس قابل نہیں ہوں کہ تیری دی گئ آزمائشوں پر کھری اتروں۔۔ تو نے زندگی دی ہے اسکو جینے کی وجہ بھی پیدا کر دے میرے رب۔۔ یا پروردگار تو بہت رحم کرنے والا ہے مجھ پر رحم فرما۔۔
وہ اب فرش پر گھٹنوں کے بل بیٹھے دونوں ہاتھ پھیلاے اپنے رب سے رحم کی بھیک مانگ رہی تھی۔۔۔
______________________
کیا سوچ رہے ہو وقار بیٹا۔۔ شاہدہ بیگم نے چاے بناتے ہوے کہا۔۔ وہ کچن میں کھڑی تھیں جبکہ وقار لاؤنج میں صوفے پر دونوں ہاتھ سر کہ پیچھے کیے بیٹھا تھا۔۔
کچن کی کھڑکی سے دیکھتے ہوے وہ وقار سے مخاطب تھیں۔۔
سوچ رہا ہوں امی کہ اب میں شادی کرلوں۔۔ اسی پوزیشن میں بیٹھے ہوے اس نے کہا۔
یہ تو بہت اچھا خیال ہے۔۔ مگر کس سے کرنی ہے تمھیں شادی۔۔ صبا کہ لیے تو تم راضی نہیں ہو رہے ہو۔۔ وہ اب کپ میں چاے انڈیل رہی تھیں۔۔
حرمین سے۔۔۔۔۔
وقار نے سیدھا بیٹھتے ہوے کہا۔۔
کیا حرمین سے۔۔۔ مگر وہ راضی تو نہیں تھی۔۔ وہ لاؤنج میں چاے کی ٹرے پکڑے آرہی تھیں۔۔
راضی نہیں ہے تو راضی کرلوں گا میں اسکو امی۔۔ ویسے بھی اب تو اسکو میرے بارے میں سوچنا ہی پڑےگا۔۔ وہ چاے کا کپ اٹھاتے ہوے کہہ رہا تھا۔۔
لیکن وہ تو کسی اور کو پسند کرتی تھی نہ۔۔ شاہدہ بیگم نے سوالیہ نظروں سے اسکو دیکھا۔۔
وہ لڑکا سہی نہیں تھا امی۔۔ اسکو چھوڑ کر وہ ملک سے باہر چلا گیا۔۔ وہ چاے کا گھونٹ لینے لگا۔۔
دیکھ لو بیٹا۔۔ صرف تمھاری خوشی کی خاطر میں کچھ نہیں بولوگی مگر کل کو کوئی غلط بات نہیں ہونی چاہیے۔۔ وہ وقار کو دبے الفاظوں میں تنبیہ کر رہی تھیں۔۔
آپ بلکل فکر نہیں کریں امی جیسا آپ سوچ رہی ہیں ویسا کچھ نہیں ہوگا۔۔ وہ انکے ہاتھ ہر اپنا ہاتھ رکھ کر تسسلی دے رہا تھا۔۔
______________________
میں شفا کہ گھر جا رہی ہوں امی۔۔ حرمین ہاتھ میں پرس لیے فاطمہ کے سامنے کھڑی تھی۔۔
لیکن کیوں۔۔ آج تو دوپہر کہ کھانے پر تمھارے چاچو اور انکی فیملی آرہی ہے نہ۔۔ اتنے کام ہیں گھر میں اور تمھیں جانے کی پڑی ہے۔۔
بس بس آج نہیں جاو کہیں بھی۔ فاطمہ جو کاغذ پر سودا سلف لکھ رہی تھیں۔۔ حرمین کی بات پر رک کر کہنے لگیں۔۔
امی اسکی والدہ کی طبیعت بہت خراب ہے۔۔ وہ بیچاری بہت پریشان ہے۔۔ میرا فرض ہے نہ آنٹی کی عیادت کو جانا۔۔ وہ زد کر رہی تھی۔
نہیں میں تمھیں کہیں جانے کی اجازت نہیں دے سکتی۔۔ گھر میں بیٹھو بس۔۔ فاطمہ دوبارہ سودا سلف لکھنے میں مصروف ہوگئی۔۔
امی پلیز جانے دیں نہ۔۔ وہ کیا سوچے گی امی۔۔ میں پکہ جلدی آجاو گی۔۔ وہ مسلسل اپنی بات پر قائم تھی۔۔
اچھا ٹھیک ہے جاؤ۔۔ لیکن جلدی آجانا ذیادہ دیر بیٹھنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔
تھینک یو امی۔۔ آپ بہت اچھی ہیں۔۔ اجازت پا کر وہ خوشی سے نہال ہوگئی۔۔
خیال سے جانا اور دعا پڑھ کر نکلو۔۔ حرمین کو جاتا دیکھ وہ پیچھے سے اسکو ٹوکنے لگیں۔۔