سفید گاڑی پھر اسی پرانے خستہ حال گھر کے باہر رکی خاموشی اس بات کو عیاں کررہی تھی کہ وہاں قیامت ہو کر گزرچکی ہے۔
آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے وہ اندر کی جانب بڑھ رہے اگلا ہر قدم پچھلے قدم سے بھاری ہوتا تھا۔
جیسے جیسے وہ قریب پہنچ رہے تھے لوگوں کا جھرمٹ ان پر واضح ہورہا تھا۔
عورتیں جو باتوں میں محو تھیں ان لوگوں کو گھر میں داخل ہوتا دیکھ کر پل بھر کے کیے خاموش ہوگئیں۔
“یہ لوگ کون ہیں”؟؟؟ایک نے دوسری سے ہوچھا۔
مینوں کی پتا” دوسری نے جواب دیا۔
بڑے امیر لگ رہے ہیں۔پہلی والی نے عجوہ بیگم کو ستائشی نگاہوں سے دیکھا۔
ہاں اتنی تو کنزہ اللہ والی تھی اسی کے جاننے والے ہونگے کوئی۔دوسری بولی۔
ملک فرحان سب کچھ سن رہے تھے اپنے آنسوؤں پر وہ قابو پاتے وہ آگے بڑھے گھر کا اندرونی حصہ ویران تھا۔
کنزہ کی میت کو شاید وہ لے جاچکے پوئے تھے۔
ہمیشہ یاد رکھنے کی کھائی تھی قسمیں جس نے پتا نہیں وہ بھول کیسے گیا میرے ساتھ رہنا تھا جس نے عمر بھر پتا نہیں وہ چھوڑ کیسے گیا جو وعدے کیے تھے اس نے پیار میں پتا نہیں وہ توڑ کیسے گیا
انھوں نے مٹھی بند کرلی انھوں نے پھر دیر کردی
مصطفی نہیں آیا تھا اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ سامنا کرسکے کسی کا۔
ماہنور انکو دیکھ کر کھڑی ہوگئی اور آگے بڑھ کر سلام کیا۔
وعلیکم السلام !جیتی رہو خوش رہو۔ملک فرحان اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے۔
انکل آنٹی کو وہ لوگ لے گئے ہیں مگر ۔۔آپ مشعل سے مل لیں۔ یہ کہتے ہوئے وہ کمرے کی جانب بڑھی جہاں مشعل موجود تھی۔
ہمت جمع کر کے وہ اندر داخل ہوئے۔
بکھرے بال کل رات والے کپڑے جو شکن آلود ہوچکے تھے سر گھٹنوں میں دیے وہ بیٹھی تھی۔
زہرام کا حوصلہ نہیں تھا کہ وہ اسکا سامنا کرے ۔
وہ وہاں کمرے سے باہر نکل پڑا۔
مشی دیکھو کون آیا ہے۔مانو نے اسے پیار سے ہلایا۔
***********************
اس وقت وہ کمرے میں بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے نیچے بیٹھے یوئے تھے ہاتھ میں ایک البم تھا جس میں انکی اور کنزہ کی کچھ پرانی اور خوشگوار یادیں تھیں۔
کوئی خاموش زخم لگتی ہے
زندگی ایک نظم لگتی ہے
بزمِ یاراں میں رہتا ہوں تنہا
اور تنہائی بزم لگتی ہے
اپنے سائے پہ پاؤں رکھتا ہوں
چھاؤں چھالوں کو نرم لگتی ہے
چاند کی نبض دیکھتا ہوں میں
رات کی سانس گرم لگتی ہے
یہ روایت کہ درد مہکے رہیں
دل کی دیرینہ رسم لگتی ہے
کیوں گئی تم ۔غلطی تمہاری نہیں ہماری تھی سزا تمہیں کیوں ملی گنہگار ہم تھے۔
وہ تصاویر پر ہاتھ ہھیرتے خیالات میں کنزہ سے مخاطب تھے۔
صحیح کہا تھا ارحم نے میں نے حاصل تو کرلیا مگر نبھا نہ پایا۔اس وقت گھر بلکل خالی اور انسان تھا سب لوگ گئے تھے سوائے اسکت حوصلہ جو نہیں تھا۔
اس وقت وہ اس قبر پر بیٹھا ہوا تھا۔جس کی مٹی گیلی تھی۔
اس قبر پر تازے تازے پھول تھے ۔
کیسا سکہ چلاتا کے نہ وقت ۔۔۔۔
جانا تو میں نے تھا مگر چلی تم گئی ڈاکٹرز نے جواب مجھے دیا تھا اور قدرت تمہیں لے گئی ۔
ہم دونوں ہی کے ساتھ تو موت کھیل رہی ہے چھپن چھپائی کا۔
تمہیں جلدی ڈھونڈ لیا اور میں اسی انتظار میں رہا کہ وہ مجھے پہلے ڈھونڈے گی۔ارحم زخمی سا مسکرایا اور اٹھ کر فاتحہ ہڑھ کر وہاں سے چل پڑا ایک گمنام منزل کی جانب۔
اس نے سرخ ہوتی آنکھوں سے ملک فرحان کو دیکھا۔۔
ملک صاحب کیا دیکھنے آئے ہیں مرچکی ہے میری ماں۔۔۔نہیں!بلکہ آج میری ماں کا جسم خاک کے سپرد ہوا ہے مر تو ۔نہیں !وہ مری نہیں تھیں انہیں مارا تھا۔ہاں !مارا تھا آپ سب نے انکو اتنے سالوں سے تو وہ ایک بے حس جسم لے کر گھوم رہی تھیں مگر آج اس کو بھی دنیا سے آزادی مل گئی۔
انکی ہر خوشی احساس کا تو آپ لوگوں نے خود گلہ گھونٹا تھا۔
آپ تھے نہ۔آپ کو ذرا رحم نہ آیا اس پر ذرا سا بھی نہیں۔جب آپ انکی آخری آس کا درشتی سے قتل کیا تھا۔
وہ اونچا اونچا بول رہی تھی ۔
ملک فرحان کے دل پر ایک ایک لفظ ہتھوڑے کی طرح برس رہا تھ۔
وہ شرم سے سر جھکا گئے
چلے جائے یہاں سے جو بچی کچی عزت ہے مہربانی کر کے اسکا جنازہ مت نکالیں۔وہ انکے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی۔
وہ بہت کچھ کہنا چایتے تھے مگر آواز اور لب ساتھ دینے کے حامی نہیں تھے۔
ایسا لگ رہا تھا اکہ ابھی وہ زمین پر گرے گے اس سے پہلے کوئی ردعمل کرتے زہرام معاملے کے پیش نظر اندر آیا اور انہیں یہاں سے لے گیا۔
********************
مام ہم کب تک یہاں رہیں گے۔ چلیں واپس چلتے ہیں۔
مرال انکو سمجھاتے ہوئے بولی۔
نہیں میں کبھی نہیں جاؤنگی اس گھر جہاں میری عزت نہیں ۔وہ غصے سے بولیں۔۔۔
امی غلطی مگر آپکی تھی امی آپکو اگر ان سے محبت ہوتی تو آپ کبھی بھی یہ قدم نہ اٹھاتیں کبھی ایسا نہ کرتیں بلکہ آپ انکے لیے کچھ ایسا کرتیں جن سے ان دونوں کی خوشی ہوتی آپکی ضد تھے وہ محبت نہیں اور وہ محبت ہوتے تو کبھی ایسا نہیں کرتی آپ ۔۔
ہر کوئی زلیخا نہیں ہوتا کہ اسکو یوسف اور جوانی ملے۔وہ انکو سمجھاتے ہوئے بولی۔
اسکی بات سن کر وہ پچھتانے لگیں جو کچھ تھا سچ ہی تو تھا۔
**************************
رات کے پہر وہ اس بڑے سے گیٹ کے باہر کھڑی ہوئی ہنوز اسکے بند گیٹ کو گھور رہی تھی ۔
جہاں نا آنے کی قسم اس نے کھائی تھی آج وہ اپنی ماں سے کیے وعدے کی پاسداری کے لیے اس نے ہر قسم توڑ دی اور آج وہ اس دہلیز کو پار کرگئی۔۔۔
آج یہ دہلیز سرشار ہوگئی تھی۔
اقتتدار صاحب اسے اپنے ساتھ لے کر اندر آئے وہ اردگرد نظر دوڑا رہا تھ۔
گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اقتتدار صاحب دائیں جانب بنے گیسٹ روم میں اسے لے گئے اور آج رات یہاں گزارنے کا کہا جس پر اس نے حامی بھرلی۔
***************
معمول کے مطابق چہل پہل عام تھی سب لوگ اپنے کام پر روانہ یوچکے تھے سوائے مصطفی صاحب کے اس وقت صبح کے گیارہ بج رہے تھے جب وہ ناشتے کے ٹیبل پر آئے عین اسی وقت اقتتدار صاحب بھی آگئے عجوہ بیگم اور نشا بیگم جو کچن کے کاموں میں محو تھیں انہیں دیکھ کر حیران رہ گئیں۔
عجوہ بیگم نے یوچھا
بابا!آپ کب آئے؟؟ ناشتہ لگاؤں آپکے لیے بھی؟انہوں نے یوچھا۔
انہوں نے ایک نظر دیکھا اور اثبات میں سر ہلایا۔
عجوہ بیگم پلٹی مگر انکی آواز پر دوبارہ مڑیں۔
فریال کے ساتھ جو کمرہ خالی ہے اسے تیار کرادو۔ملک اقتتدار بولے۔
جی بابا۔کوئی مہمان آرہا ہے لیکن انکے لیے تو مہمان خانہ ہے نہ؟انھوں نے کہا۔
وہ مہمان نہیں ہے اس گھر کا فرد ہے۔وہ بولے اور سنجیدگی سے کہتے اٹھے اور مہمان خانے کی طرف بڑھ گئے ۔
عجوہ بیگم انہیں نا سمجھی سے دیکھنے لگی۔
کچھ دیر بعد وہ اپنے ساتھ مشعل کو لے کر آئے۔
مصطفی صاحب کی پشت تھی۔اس وجہ سے وہ دیکھ نہ پائے تھے اسے۔
عحوہ بیگم کے چہرے پر حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات ابھرے۔
مشعل۔انھوں نے ہکارا۔
مصطفی صاحب نے انہیں ایسے دیکھا جیسے سننے میں ان سے کوئی غلطی ہوگئی ہو۔
انہوں نے پیچھےمڑکر دیکھا تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے انکی آنکھیں بلر ہوگئیں خوشی سے۔
مشعل نے انکو نظر انداز کیا وہ آ کر اقتتدار صاحب کے برابر بیٹھ گئی۔
نشا بہو ہماری بیٹی کے کیے ناشتہ لاؤ۔ انہوں نےنشا بیگم کو کہا ۔
نشا بیگم جو بت بنی تھی انکی آواز سن کر جلدی سے ناشتہ لے کر پہنچیں ۔
آج وہ پہلی باراسے دیکھ رہی تھیں اور بہت خوشی محسوس کررہیں تھیں۔
مصطفی صاحب کی نظریں اسکے معصوم چہرے پر تھیں۔
بیٹا شروع کرو ناشتہ۔اقتتدار صاحب پیار سے بولے۔
وہ انکی طرف دیکھ کر بولی۔
“بھوک نہیں مجھے” لہجہ سرد تھا۔
میرا پیارا بچہ تمہاری ماں سے آخری وعدہ کیا تھا میں نے ۔وہ اسے یاد دلاتے ہوئے
اس کے ان طرح کہنے ہر اس نے ناشتہ شروع کیا۔
مصطفی صاحب کا پیٹ تو اسکو ناشتہ کرتے دیکھ کر ہی بڑھ گیا تھا۔
اس وقت انکے دل میں شدت سے یہ خواہش اٹھی کاش وہ انہیں ایک بار بابا کہہ کر پکارے ۔