"تالش کون ہے آپ میں سے ”
دمل اور تالش ویٹنگ چیئر پر بیٹھے پریشانی سے دروازہ دیکھ رہے تھے جب ڈاکٹر نے آکر پوچھا
مہر پریئر روم میں تھی
"جی میں ہوں ایوری تھنگ از اوکے؟؟”
پوچھتے ہوئے کھڑا ہوگیا
"آپکی وائف ہیں عندلیب ابراہیم ”
سوال کے جواب میں محض سر ہلا سکا
"وہ بہت زیادہ پینک کر رہیں ہے ایک مرتبہ مل لیں افسوس سے کہتی آگے کی طرف بڑھ گئی
آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا اندر کی طرف گیا یہاں وہ بیڈ پر غیر آرام دہ حالت میں لیٹی دروازہ کو ہی دیکھ رہی تھی ابھی آپریشن میں کُچھ وقت تھا کیوں کہ بیہوشی کی وجہ سے بی پے لوء ہوچکا تھا اور ڈاکٹر کا کہنا تھا جب تک بلیڈ پریشر اپنی سطح پر نہیں آتا تب تک آپریشن کا رسک نہیں لے سکتے
دو نرس اُسکے پاس دوسری طرف۔ کھڑی تھیں جو تالش کو دیکھ کر باہر چلیں گیں
"دیب کیا ہوا ہے رو کیوں رہی ہو”
فکر مندی سے آکر اُسکا ہاتھ پکڑا اور اُسکے سر پر شفقت بھرے لمس چھوڑے
بیشک ایسے ٹائم پر ایک لڑکی کو اُسکی ماں کی ضرورت ہوتی ہے ایک بڑی بہن کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اُسکے پاس نہیں تھا کُچھ بھی
"تالش اُسکا فون آیا تھا وہ آپ کو مار دے گا۔۔۔۔۔پلیز آپ سمجھنے کی کوشش کریں”
اُسکے ہاتھ پر دوسرا ہاتھ رکھتی ہوئی نم آواز میں بولی جبکہ انکھوں سے آنسو متواتر بہہ رہے تھے
"کون ”
اُسکے بال ماتھے سے ہٹاتا ہُوا بولا
"ر۔۔۔۔۔۔۔رض۔۔۔۔۔۔۔رضوان طاہر ”
ڈرتے ہوئے بولی
"دیب تم کیوں پاگلوں والی باتیں کر رہی ہو کُچھ نہیں کہا کسی نے اور کیوں لگتا ہے تمھیں کوئی آرام سے آئے گا اور مجھے مار دے بچے کو مار دے گا یہ عام زندگی ہے کوئی فلم یہ ڈراما نہیں چل رہا جو ایسی باتیں کر رہی ہو ”
آواز نہ چاہتے ہوئے بھی سخت ہوگئی
"تالش سچ میں”
روتے ہوئے بولی تو تالش نے بے بسی سے دیکھا
"دیکھو اب تم سکون سے رہو کوئی ٹنشن نہیں لینی میں دیکھ لونگا جو ہوگا ”
کہتے ہیں پیچھے کی طرف دیکھا تو ڈاکٹر اب اندر آچکی تھی
"مسٹر باہر جائیں ٹائم ہوچکا ہے”
اپنے پروفشنل انداز میں بولتی ہوئی ہاتھ میں پکڑا ہوا انجکشن دیکھنے لگی
"نہیں میں یہی رہو گا آپ لوگ اپنا کام سٹارٹ کریں”
بولتے ہوئے چیئر کا رُخ دیب کے چہرے کی طرف کیا یہاں بلکل مخلف سمیت میں ڈاکٹر کھڑی تھی اورپھر اُسکا ہاتھ پکڑ کر بلکل بے نیاز ہوکر بیٹھ گیا
ڈاکٹر نے ایمپریس ہونے والے انداز میں انداز میں اُس چھوٹی عمر کے لڑکے کو دیکھا جو اپنی بیوی کے لیے کافی پروگریسیو تھا
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°
گاڑی پتھریلے راستوں سے ہوتی ہوئی تیز رفتار سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی جس کے پیچھے اور آگے ایک ایک گاڑی اُسی سپیڈ سے جارہیں تھیں
مایا کے ہاتھ پاؤں یہاں تک تک آنکھوں پر بھی پٹی باندھ رکھی تھی اُنکو چند گھنٹوں میں معلوم پڑھ گیا تھا کے وہ کوئی عام سی کمزور جسم یہ جذبوں والی لڑکی نہیں بلکہ کافی ٹری کھیر تو تھی
جبکہ کے نور کے ہاتھ بھی حفاظتی تدبیر کے تحت بندھ رکھے تھے
آنے سے پہلے بہت مشکل سے مایا اُسے دودھ پلانے میں کامیاب ہوئی تھی کیونکہ وہ اپنے فیڈر کے علاوہ کسی چیز میں دودھ نہیں پیتی تھی لیکن بھوک کے زور کی وجہ سے اپنا ایک اصول توڑنا پڑا
مایا ساتھ ہونے کی وجہ سے خود کو پتہ نہیں کتنا زیادہ محفوظ محسوس کر رہی تھی باہر بھاگتے درختوں اور پہاڑوں کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کر رہی تھی لیکن جیسے جیسے سفر ختم ہو رہا تھا مایا کے دل کو کچھ ہورہا تھا
خود سے ساتھ جو مرضی ہوجائے لیکن ایک بچی کی زندگی خراب نہیں کے سکتی تھی
اُنکو کی آنکھوں میں ہوس دیکھ کر جو نور کے لیے دل دھڑک رہا تھا اُسکا کوئی حساب نہیں تھا یہی صورت حال اُسے آج سے چھ سال پہلے برداشت کرنی پڑی تھی
ماضی
ماضی کے ورق گردانتے ہوئے اُسکی زندگی کہ سیاہ ترین دن اُسکے سامنے آیا جب ایک نازک مزاج معصوم اور کلاس کی ٹوپر ہوا کرتی تھی
زندگی ایک حسین سفر تھی بے شک ایک امیر زادی نہیں تھی لیکن مطمئن تھی اپنی زندگی سے ایک سانحے سے ابھی نکلی ہی تھی جب زندگی دوسرا امتحان لانے کے لئے کھڑی تھی
"اور اللہ جسے پسند فرماتا ہے اُسے امتحانات میں ڈالے رکھتا ہے”
بس میں چلتے ہوئے سپیکر میں مدھم سی آواز اُبری
جب اچانک اُسی بس کے ڈرائیوروں نے ایک نامعلوم جگہ پر بس روک دی
اُنکا آج سٹڈی ٹور تھے ہسٹری میں گریجویٹ کر رہی تھی اور اُسی سلسلے میں ٹریپ ہڑپہ جارہا تھا
اونچی نیچی کھائی نما جگہ تھی
تو اچانک ایک سمل پوری گاڑی میں پھیل گئی جب ہوش آیا تو کسی کمرے میں بند پایا جہاں اُسکی جان سے عزیز دوست لوٹی ہوئی حالت میں زمین پر نیم برہنہ جسم کے ساتھ بے ہوش پڑی تھی لیکن یہ اُسکی غلط فہمی تھی کیوں کے زندگی اہم موڑ کاٹ چُکی تھی ہولے سے اپنی ہمت جمع کرکے اپنی نازک جان سنبھالتے اُس تک گئی اپنا دوپٹہ اُسکے برہنہ جسم پر ڈال دیا اور نیچے کی طرف جُھکی
"ع…….عائشہ ”
بے جان سے لبوں سے نام بھی ادہ نہیں ہورہا تھا
اُسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لینا چاہا تو وہ لڑکھ کر نیچے جاگرا
"مام”
نور کی چیخ سے پسینے سے شرابو جسم میں سنسنی ڈوری منہ پر ٹیپ انکھوں پر پٹی اور ہاتھ بندھے ہوئے کیسے محسوس کرتی کیا ہُوا تھا
چھ سال سے اللّٰہ سے دوری اختیار کر رکھی تھی کیسے مانگ لیتی اپنے لیے رحم
بندھ انکھوں کے سامنے کبھی نور کا پری چہرہ آتا تو کبھی عائشہ کا بے جان وجود سارا جسم کانپ رہا تھا لیکن رو نہیں رہی آنکھوں سے ایک قطرہ نہیں گرا تھا
اچانک سے ہرچل محسوس ہوئی گولیوں کی آواز اچانک کانوں کو پھاڑ لگیں دل جیسے پھٹنے کو تھا ایک مرتبہ پھر نور کی چیخ اُسکی سماعتوں میں پڑی
"میں کیسے گنہگار ہوگئی ”
خود با خود خیال ذہن میں آیا اور آنکھوں سے رم جم شروع ہوگئی
اچانک اپنی گردن میں کچھ ڈھنستا ہُوا محسوس ہوا
گولی تھی پہچان گئی تھی
دل کی دھڑکنیں بند ہورہیں تھی ایک پچھتاوا باقی رہ گیا تھا ایک بچی کی گنہگار ہوگئی تھی
آہستہ سے زندگی کے لمحے کم پڑھ گے اور دُنیا کی رونقیں پیچھے کہیں گم ہوگئی اور وہ وہیں سیٹ پر بندھے خون میں نہا گئی
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
"مبارک ہو مسٹر تالش آپ کے ہاں ایک صحت مند مند بچے نے جنم لیا ہے ”
ڈاکٹر نے کہتے ہوۓ چہرے پر مصنوئی مسکراہٹ سجائی اور ہاتھ میں پکڑا ہوا ننھا وجود اُسکی طرف بڑھایا
آپریشن میں کچھ کریٹیکل کنڈیشن کی وجہ سے تالش کو کمرے سے باہر نکال دیا تھا
"اور میری دیب”
ہاتھ میں پکڑے ہوئے ننھے وجود کی طرف توجہ ہی نہیں گئی جبکہ پیچھے کھڑی مہر نے ڈاکٹر کے ہاتھ سے اُسے لے لیا جس کی آنکھیں بھی ابھی بند تھیں
"سوری مسٹر تالش ہماری پوری کوشش کے باوجود بھی ہم اُسے ہوش میں نہیں لا سکے نینٹی نائن پرسنٹ چنسیجز ہیں کے وہ کومہ میں کا چُکی ہیں کیوں کہ بلیڈ پریشر میں وین کو ایفیکٹ کر گیا ہے”
وہ کہہ رہی تھی جبکہ تالش کے چہرے کا سارا خون نوچھڑ گیا تھا آنکھوں سے آنسو کی لڑی ٹوٹ کر اُسکی ہلکی ہلکی داڑھی میں جذب ہوگئی
"وہ ٹھیک تھی جب میں باہر ائے تھا ”
ایک دم آپے سے باہر ہُوا تو دمل نے پیچھے سے اُسکے شانے پر ہاتھ رکھا
"جی بعد میں اچانک بی پی شوٹ کرگیا تھا …. پہلے بھی کہہ تھا کے وہ کمزور ہیں کُچھ بھی ہوسکتا ہے”
ڈاکٹر پیشہ ورانہ انداز میں کہہ کر آگے بڑھ گئی
"ٹھیک ہوجائیں گی بھابھی ؟؟”
دمل ڈاکٹر کے پیچھے گیا
"ہاں بھی اور نہیں بھی کم لوگوں کو بھی رکاور کرتے دیکھا ہے کوئی جھوٹی تسلی نہیں دینا چاہتی”
وہ افسوس سے کہتی اندر کیبن میں چلی گئی جبکہ دمل کی آنکھیں سُرخ ہوگئی پھر بھی ہمت کی ضرورت تھی اُسے
"ہوگیا کام؟؟؟ ”
اندر کیبن میں ماجود رخسار نے تیزی سے پوچھا
"مجھے ڈر ہے شک نہ ہوجائے”
اپنا پسینہ صاف کرتی ڈاکٹر عافیہ بولی
"نہیں ہوگیا بس تم ایکٹنگ دھیان دو”
اُجلت میں بولتی اپنے بیگ سے چیک نکالنے لگی
"میں بس بے ہوش رکھ سکتی ہوں لیکن جان سے نہیں ماروں گی یہ پہلے تہ ہُوا تھا”
وہ کانپتے ہاتھوں سے چیک پکڑ کر اپنے بیگ میں رکھتی ہوئی بولی
"بہت ڈھیٹ ہڈی ہے اتنے صدمے دیے ہیں لیکن مرنے کا نام ہی نہیں لیتی کمبخت ۔۔۔اوپر سے دوسرا بیٹا بھی ہاتھا لیا ہے”
کہتی پیچھے دروازہ سے باہر چلی گئی
"اللہ کہاں پھس گی میں ”
سر پر ہاتھ مارتی چیک نکال کر دیکھنے لگی جس پر پچیس لاکھ رقم درج تھی
ساری پریشانیاں ایک منٹ میں غائب ہوگئیں
پیسہ پھر غلط راستے پر قدم رکھنے پر آمادہ کر چُکا تھا
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
"گولیاں چلیں تھیں یہ بمب پھٹ گیا تھا جو تم لوگوں نے اُسے آسانی سے بھگنے دیا”
سارا آفس توڑ پھوڑ کا شکار ہوچکا تھا
"ایک لڑکی کیسے اتنے طاقتور چھکنچے سے نکل گئی ”
اُسکا بس نہیں چل تھا ساری دنیا تحس نہس کر دے
"میں بتا رہا ہوں یہ وہیں لڑکی تھی کتنی آسانی سے پاگل بنا گئی”
خود ہی چیزیں توڑ رہا تھا اور سارا سٹاف باہر سر جھکائے کھڑے تھے
کُچھ گھنٹے قبل
بازل کے موبائل پر الارم بجا جس پر فنگر پرنٹ ماجود تھا اور اوپر انگلش میں ایک لائن لکھی ہوئی تھی
"Anyone wants to touch diamond”
ایک بار پھر دھڑکنوں میں انتشار برپا ہُوا
مطلب کوئی اُسکی بیٹی کو ہاتھ لگانے کی کوشش کر رہا تھا
اُس ڈائمنڈ میں ماجود سینسر تب الرٹ کرتا تھا جب اُسکی چیپ میں ماجود فنگر پرنٹ کے علاوہ کوئی اور ٹچ کرتا تو
"گاڑی نکلو ”
کہتا اپنے کمرے کی طرف بھاگا اور پسٹل نکال کر اپنی پینٹ کی بونٹ میں رکھا ایک دو ضرورت کی اور چیزیں جو الماری سے نکال رہا تھا اور ہاتھ کانپ رہے تھے
زندگی اُسے دس سال پیچھے ایک مرتبہ پھر اندھیرے میں دکھلانا چاہتی تھی
ایک مرتبہ پھر بازل ابراہیم دُنیا کا کمزور ترین مرد بن رہا تھا
•°•°•°•°•°•°•°•°°•°•°•
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...