عائشہ پیچ وتاب کھاتیں، وہیں سے چلائی تھیں۔
شرافت۔۔۔۔۔!(ملازم)
جی بیگم صاحب۔۔۔۔
وہ دوڑا ہوا آیا تھا۔
میں لنچ پرلیٹ ہوجاؤں گی، بابا اٹھیں تو انھیں ناشتہ سرو کردینا۔
وہ کہتی ہوئی اٹھ گئی تھیں۔
*********
عشال؟
ضیاءالدین صاحب نے پشت سے اسے پکارا تھا۔ یہاں آئے کئی دن گزر چکے تھے۔۔۔اور آغاجان کو گزرے بھی، چنانچہ ضیاءالدین صاحب کے خیال میں اب وہ وقت آچکا تھا جب عشال سے اس کے مستقبل کے حوالے سے گفتگو کی جاسکتی تھی۔
وہ آفس کے بعد سیدھے اس کے پاس ہی آئے تھے اور اسے کاغذوں پر جھکا ہوا پایا تھا۔
۔۔۔۔ماموں جان! آپ؟ یہاں؟
ان کی پکار پر وہ اپنی جگہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
کیوں میں تمہارے پاس نہیں آسکتا؟
میرا یہ مطلب نہیں تھا۔۔۔۔آپ مجھے بلالیتے۔۔۔؟
عشال نے ان کے بیٹھنے کا انتظار کیا۔
مجھے تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں، تم مصروف تو نہیں؟
ضیاءالدین صاحب نے نشست سنبھالتے ہوئے کہا۔
عشال بھی ان کے پاس ہی بیٹھ گئی۔
کچھ خاص نہیں، آپ کہیں، کیا کہنا چاہتے ہیں؟
جانے اب کیا کہنا باقی رہ گیا تھا۔۔۔۔
عشال کے اندر اندیشے سر اٹھانے لگے تھے۔
تم نے اپنے مستقبل کے بارے میں کیا سوچا ہے؟ اب کیا کرنا ہے؟
عشال نے چونک کر سر اٹھایا۔۔جو سر جھکائے ہمہ تن گوش تھی۔
میں نے کیا سوچنا ہے؟ ماموں جان؟ میرے سامنے تو زندگی اب ایک بڑا سوالیہ نشان کے سوا کچھ نہیں۔۔۔!
وہ ہولے سے کہہ کر چپ ہوگئی۔
ہونم۔۔۔ممم۔۔!
ضیاءالدین صاحب نے گہراہنکارا بھرا۔
اگر زندگی تمہارے لیے سوالیہ نشان ہے، تو، سب کچھ مجھ پر چھوڑ دو! تم خوش رہو گی۔۔۔!
ضیاءالدین صاحب نے اس کے سر کو تھپتھپایا تھا۔
مجھے آپ پر پورا بھروسہ ہے، ماموں جان! لیکن پلیز شادی کے علاوہ جو بھی آپشن آپ میرے لیے منتخب کریں گے، مجھے قبول ہوگا۔
عشال نے واضح الفاظ میں انھیں باور کرایا۔
تم فکر مت کرو، تمہارے ماموں جان کے لیے تمہاری خوشیاں ہرچیز پر مقدم ہیں۔ اتنا کہہ کر وہ اٹھنے کو تھے کہ،
ماموں جان مجھے بھی آپ سے ایک بات کرنی تھی۔!
ہاں کہو!
وہ اسے سننے کے لیے رک گئے۔
میں۔۔۔۔میں جاب کرنا چاہتی ہوں!
بے اختیار انھوں نے عشال کا چہرہ دیکھا تھا۔
***********
ہرگز نہیں۔۔۔،اور اب تم اس بارے میں مزید کوئی بات نہیں کروگی!
سطوت آراء اپنی کہہ کر کچن کی طرف چل دی تھیں۔
کیوں ماما؟ آخر اس میں حرج ہی کیا ہے؟
آبریش لہجے میں احتجاجی رنگ لیے ان کے پیچھے چلی آئی تھی اور اب دہلیز پر ہی کھڑی ہوگئی تھی۔
حرج ہے۔۔۔اور یہ حرج ہے کہ مین تمہیں اس کافرانہ مشغلے کی اجازت نہیں دے سکتی!
بہت ہی سیکھنے کا بخار چڑھ رہا ہے تو کوکنگ سیکھ لو۔۔۔تمہارا ٹائم بھی استعمال ہوجائے گا اور کچھ کام بھی آئے گا۔
سطوت آراء رات کاکھانا چڑھانے کے لیے برتن نکالنے لگیں۔
بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں خالہ جان!
زعیم نے ابھی ابھی لاؤنج میں قدم رکھا تھا، اور گفتگو کا کچھ حصہ ہی سن پایا تھا ویسے بھی آبریش کی مخالفت کے لیے پوری بات سننا ضروری بھی نہیں تھا۔
ارے بیٹا تم کب آئے؟
سطوت آراء کچن سے ہی پکاری تھیں۔
بس ابھی جب آپ بات کررہی تھیں۔
زعیم نے کن اکھیوں سے آبریش کی طرف دیکھا تھا۔
آبریش نے منہ پھلایا تھا اور زعیم کو قطعی نظرانداز کر کے سطوت آراء سے مخاطب ہوئی۔
یہ کیا بات ہوئی ماما؟ فائن آرٹ اور کفر کا بھلا کیا تعلق؟
بڑا گہرا تعلق ہے۔۔۔۔خالہ جان! اللہ معاف کرے، آرٹ کے نام پر کیا کیا خرافات بنائی جاتی ہیں، آپ تو سوچ بھی نہیں سکتیں،
ایک بار پھر زعیم نے مداخلت ضروری سمجھی تھی۔
تم۔۔۔۔۔۔!
آبریش دانت بھینچتی زعیم کی طرف مڑی تھی۔
تم اپنی چونچ بند رکھو!
آبریش۔۔۔۔!
سطوت آراء نے آبریش کو تنبیہہ کی۔
ماما! میں نے فائن آرٹ میں ایڈمیشن لینا ہے تو بس لینا ہے۔
وہ ضدی انداز میں کہتی واپس مڑگئی تھی۔ اور اس کے سلکی بال دوپٹے میں سے جھلک دکھلاگئے تھے۔
بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں خالہ جان!
سنو! پڑھائی پر توجہ دو، اور گھرداری سیکھو۔۔۔
زعیم نے پیچھے سے ہانک لگائی تھی۔
وہ پیر پٹختی رکی نہیں تھی۔
زعیم ہنسی دباتا ڈائننگ ٹیبل کی کرسی گھسیٹتا بیٹھ گیا تھا۔
خیر سے آئے بیٹا؟
سطوت آراء نے پیاز پلیٹ میں رکھا اور زعیم کے پاس ہی دوسری کرسی پر بیٹھ گئیں۔ اور پیاز کاٹنے لگیں۔
بس خالہ ایسے ہی، بہت دن ہوگئے تھے،آپ کی طرف چکر نہیں لگا تھا تو سوچا خیر خیریت ہی معلوم کرلوں، ویسے عشال آپا نطر نہیں آرہیں۔۔۔؟ کہاں ہیں؟
اس نے نظریں متلاشی انداز میں گھمائیں۔
بیٹا وہ تو زیادہ تر اپنے کمرے میں ہی رہتی ہے۔۔۔نہ کسی سے ملنا۔۔۔ نہ آنا جانا، بہت بدل گئی ہے وہ تو! لگتا ہی نہیں یہ پہلے والی عشال ہے۔
سطوت آراء کے لہجے میں تأسف ابھر آیا۔
چلیں میں دیکھتا ہوں!
کہہ کر وہ اٹھ گیا تھا۔۔
*********
ٹرائے ٹو انڈراسٹینڈ۔۔۔عائشہ!
میں یہاں کتنی ٹینشن میں ہوں اور تمہارے آرگیو ختم ہی نہیں ہورہے!
تمہیں اندازہ ہے؟ میں کس طرح یہاں رہ رہا ہوں؟ مجھے تم بس اتنا بتاؤ میری کچھ ہیلپ کروگی یا نہیں؟
زبیرعثمانی کا بلڈ پریشر ان کے قابو میں نہیں تھا۔ان کی خصوصی درخواست پر اس ملاقات کی اجازت مل پائی تھی۔۔لیکن!
ہاہ!
جوابا عائشہ نے تھکن زدہ آہ بھری۔
تمہارے لیے میں جو کچھ کرسکتی تھی،آل ریڈی کرچکی ہوں،میری پوزیشن بھی تم سے مختلف نہیں ہے زبیر!
میرے نام پر تم جتنے گل کھلاتے رہے ہو ناں وہ اس وقت تم سے زیادہ میرے گلے آئے ہوئے ہیں، بلکہ مجھے لگتا ہے، وہ دن دور نہیں جب میں بھی تمہارے ساتھ ہی یہیں ہوں گی۔
تم مجھے انکار کررہی ہو؟
زبیر عثمانی نے دانت کچکچائے۔
سوری! تم نے میرے لیے کوئی آپشن چھوڑا ہی نہیں! لیکن پھر بھی میں جو کررہی ہوں ناں اسے ہی بہت سمجھو۔۔۔اوکے؟
اور اٹھ کھڑی ہوئیں۔
عائشہ تم۔۔۔۔!
زبیرعثمانی نے چند الفاظ نوک زبان پر آنے سے روکے۔
گہری سانس خارج کی اور بولے۔
عائشہ پلیز۔۔۔۔! سمجھنے کی کوشش کرو! تم میرا غصہ سہہ نہیں سکو گی۔
میں اب بھی اس پوزیشن میں ہوں کہ تمہیں تہس نہس کردوں۔
زبیر عثمانی کا لہجہ اور آواز دبی ہوئی تھی لیکن زبان انگارے چبارہی تھی۔
تو کردو۔۔۔۔! مجھے خوشی ہوگی یہ دیکھ کر کہ تم اب بھی کسی قابل ہو!
اتنا کہہ کر عائشہ عثمانی اپنی شیفون کی ساڑھی سنبھالتی، زبیر عثمانی کو کلستا چھوڑگیئیں۔
***********
ڈرائیور! مرتضی صاحب کی طرف چلو!
عائشہ نے اپنے ڈرائیور کو حکم جاری کیا تھا۔
یہ کیا کہہ رہی ہو؟ تمہیں جاب کی قطعا ضرورت نہیں! عشال کی بات پر ضیاءالدین صاحب کے قدم زنجیر ہوگئے تھے۔
مجھے زندگی میں کچھ تو کرنا ہے ناں ماموں جان؟ تو پھر جاب کیوں نہیں؟
عشال نے نظر اٹھا کر ملتجی لہجے میں سوال کیا تھا۔
ہاں تو ٹھیک ہے، اپنے لیے کوئی اور مصروفیت ڈھونڈ لو، ضروری تونہیں کہ جاب ہی کی جائے؟
ضیاءالدین صاحب کو یہ بات بالکل ہضم نہیں ہورہی تھی۔ ان کے خاندان میں تعلیم کا رواج تو تھا لیکن جاب کسی لڑکی نے نہیں کی تھی۔
ہوسکتی ہے،لیکن میں آغاجان کی طرح علم سے تعلق قائم رکھنا چاہتی ہوں،
عشال کی بات پر وہ چند لمحے کے لیے خاموش ہوگئے۔۔۔۔اور پھر،
ٹھیک ہے میں کچھ سوچتا ہوں، لیکن۔۔۔ تمہارے لیے جاب میں خود دیکھوں گا، انٹرویو کے لیے تم دربدر گھومو مجھے پسند نہیں!
جیسے آپ کہیں۔
عشال نے فی الحال خاموشی اختیار کرلی کہ ان کے لہجے میں نیم رصامندی تو تھی!
ضیاءالدین صاحب اس کے سر کو شفقت سے تھپتھپا کر لوٹ گئے۔
***********
مسزعثمانی میری آپ سے اپائٹمنٹ تو نہیں تھی لیکن آپ اتنا انسسٹ کرکے یہاں تک آئی ہیں تو بتائیے کیا کہنا ہے آپ کو؟
مرتضی سلیمان کے لب ولہجے میں وہی روکھاپن تھا جس کی عائشہ کو توقع تھی۔
ہلکی سی کھنکھار سے گلہ صاف کیا اور مرتضی صاحب سے مخاطب ہوئیں۔
میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لونگی مرتضی صاحب!
آپ سے بس اتنی گزارش تھی کہ زبیر کے کیس میں کچھ گنجائش نہیں نکل سکتی؟
مرتضی سلیمان کے چہرے پر طنزیہ سی مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔
اگر آپ کسی ڈیل کی امید لے کر حاضر ہوئی ہیں، تو آئی ایم سوری۔۔۔! آپ صرف اپنا وقت برباد کریں گی!
اگلے ہی پل ان کا چہرہ سنجیدہ ہوچکا تھا۔
عائشہ دل ہی دل میں جزبز ہوئیں۔۔۔مگر بہت ہمت کرکے دوبارہ بولیں،
دیکھیے آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی، کہ معاملہ صرف آفیشل نہیں ہے۔ تو کیوں نہ مل بیٹھ کر اس کا کوئی حل نکال لیتے ہیں۔۔۔عدالت جانے سے کسی کوکچھ حاصل نہیں ہوگا۔
کیا کہتے ہیں آپ؟
عائشہ نے ہوشیاری سے بال مرتضی صاحب کے کورٹ میں پھینکی۔
مرتضی سلیمان اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
افسوس آپ کے اندازے آج بھی میرے بارے میں غلط ہی ہیں،
میری طرف سے یہ میٹنگ ختم ہوچکی ہے! ایکسکیوز می!
اور کوٹ کا بٹن بند کرتے ہوئے عائشہ عثمانی کو ڈرائنگ روم میں تنہا چھوڑ گئے۔
عائشہ حیرت واستعجاب کی تصویر بنی انھیں چست قدم اٹھاتا دیکھتی رہ گئی تھیں۔
زبیر عثمانی تمہیں اللہ سمجھے!
عائشہ کے دل سے آہ نکلی تھی۔
***********
یہ کیوں آئی تھیں یہاں؟
نورین نے ابھی ہی مسزعثمانی کو باہر کی طرف جاتے دیکھا تھا۔ وہ ایزی سے حلیے میں، لاؤنج کی آخری سیڑھی پر کھڑی تھی اور چہرے کے ساتھ ساتھ لہجے میں بھی ناگواری تھی۔
مرتضی صاحب نے ایک نگاہ اپنی پشت کی طرف ڈالی اور دوسری نورین پر۔۔۔،
تمہارا آج کیا پروگرام ہے؟ ڈئیر ڈاٹر!
نورین کا سوال جیسے سنا ہی نہیں تھا۔
لیکن نورین جانتی تھی کہ وہ ناصرف سب سن چکے ہیں بلکہ کھلے بندوں اسے ٹال بھی رہے ہیں۔ مگر وہ بھی انھی کی بیٹی تھی۔
اب کیا چاہتی ہیں یہ خاتون ہم سے؟ سب برباد کرنے کے بعد اب کیا رہ گیا ہے ہمارے پاس؟ ان کے لیے!
اس کاغصہ ایک دم ہی عود کرآیا تھا۔
Leave her۔۔۔۔and forget!
تم نے آج ناشتہ کیوں نہیں کیا؟
وہ ایک بار پھر سابقہ موضوع پر آگئے تھے۔
میں تھوڑی دیر میں عشال کی طرف جاؤنگی اور لنچ پر انتظار مت کیجیے گا!
اتنا کہہ کر وہ بھی پلٹ گئی۔اگروہ اس کی بات کا جواب نہیں دے سکتے تھے تو مزید وقت وہ بھی ضائع نہیں کرسکتی تھی۔
وقت ہمیشہ مسٹر عثمانی کا ہی نہیں رہے گا۔
مرتضی صاحب مسکرادیے تھے۔
***********
اس نے سوٹ کیس کھولا تھا، ایک بار پھر۔۔۔۔! اور جوپہلی چیز اس کے سامنے آئی تھی،وہ کاغذات کا پلندہ تھا۔
عشال نے آہستگی سے فائل کور ہٹایا اور سیاہ روشنائی سے لکھے آغاسمیع الدین فیروز کے لفظ جگمگا اٹھے۔۔۔۔۔
اس نے نزاکت سے ان لفظوں پر ہاتھ پھیرا۔۔۔ اور ایک ایک لفظ کو محسوس کرنے لگی۔۔۔۔۔!
” قرآن” یا” قران”،
قبل اس کے کہ ہم قرآن کے معنی ومفہوم پر بحث کریں، کچھ باتیں اس کے متعلق ہوجائیں کہ قرآن دراصل ہے کیا؟
دنیا میں کسی بھی چیز کے متعلق پہلا سوال ” کیا” پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد،” کیوں”، اور اس کے بعد،” کیسے” !
اور پھر ہر سوال کی نئی جہتیں پیدا ہوتی ہیں۔ جیسے کہ ڈاکٹر جب کسی بیماری کے متعلق تحقیقات کرتے ہیں تو سب سے پہلے اس کی علامات جمع کرتے ہیں اور پھر اس کی وجہ، یعنی کیا اور کیوں،اس کے بعد اس کے سد باب کی کوششوں کاآغاز ہوجاتا ہے۔۔۔یہ ” کیسے” کا مرحلہ ہوتا ہے، پھر جیسے جیسے تحقیق آگے بڑھتی جاتی ہے، سوال بڑھتے ہیں ساتھ ہی ان کے جوابات بھی حاصل ہوتے جاتے ہیں۔
ہم ابھی پہلے مرحلے “کیا” پر ہیں۔
تو جناب! بات ہورہی تھی قرآن کی، قرآن کیا ہے!
بلاشبہ “قرآن” ایک معجزہ ہے، لیکن اس سے پہلے یہ ایک کلام عظیم ہے۔۔۔، کیا یہ نوشتہء قانون ہے؟ جس کی روشنی میں جملہ امور سیاست ومملکت کے لیے اس سے رجوع کیا جانا چاییے۔۔۔؟
یاپھر یہ خانگی معاملات اور فردواحد کی جملہ حیات کا احاطہ کرنے والا کوئی کلیہ ہے؟
تو جناب مزید امثال سے اجتناب برتتے ہوئے عرض کروں گا کہ قرآن سیاست،معاملت ،اخلاقیات ومعاشرت انسانی زندگی کے جملہ امور کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔۔۔ اور یہ اپنے اندر دلائل، منطق اور روح و علم کاحامل ہے۔
اس کے کئی نام ہیں۔۔۔
جیسے کہ،قرآن،فرقان،کتاب مبین،تنزیل اورکلام وغیرہ!لیکن میرے نزدیک یہ “قرء” ہے، اس کے معنی ہیں پڑھی جانے والی کتاب۔۔۔۔!”
پڑھی جانے والی کتاب!
عشال نے زیرلب بڑبڑایا۔
یہ آغاجان کے وہ لیکچرز تھے جنھیں وہ کتابی شکل دینا چاہتے تھے۔ وہ قرآن پر تحقیق کررہے تھے اور بہت سی خواہشوں کی طرح ان کی یہ خواہش بھی ادھوری ہی رہ گئی تھی۔ یہ ان کی فرسٹ رائٹنگ تھی۔۔۔اور جسے مکمل کرنا اب عشال کی زندگی کا واحد مقصد رہ گیا تھا۔۔۔
وہ اپنی ہی دنیا میں گم تھی کہ ایک بار اس کے دروازے پر دستک ہوئی تھی۔
***********
وہ عجلت میں قدم اٹھاتا ڈیپارٹمنٹ کی طرف رواں دواں تھا۔اس نے کار کو بھی عجلت آمیزی سے لاک کیا تھا۔ آج وہ لیٹ ہوگیا تھا۔ کچھ دن سے اسے مائیگرین کی شکایت ہورہی تھی آج بھی وہی بدنصیب دن تھا۔اسے کلاس مس ہوجانے کی فکر نہیں تھی، اس کا مسئلہ تو بس اتنا سا تھا کہ آج پھر لیٹ ہوجانے سے وہ عشال کو نہیں دیکھ سکے گا۔۔۔مگر قسمت کچھ اور طرح سے اس پر مہربان ہونا چاہتی تھی۔
رات دیر تک پروجیکٹ پرکام کرنے کی وجہ سے عشال لیٹ تھی نورین بھی آج اسے دغا دے گئی تھی۔ عین وقت پر محترمہ کی کال آئی تھی کہ طبیعت خراب ہے، میں نہیں جاؤں گی،واپسی پر مجھ سے مل کر جانا! اور جیسے وہ جانتی نہیں تھی کہ اس دعوت نامے کے پیچھے کیا غرض چھپی تھی۔ یقینی طور پہ اسے آج کے لیکچرز بھی مس نہیں کرنے تھے،جو عشال سے اس نے حاصل کرنے تھے۔
عشال اپنے ہی جھمیلوں میں الجھی ہوئی تھی کہ ڈیپارٹمنٹ کی طرف جانے والی سڑک کے منظر نے اسے ہلا کر رکھ دیا۔
شازمین کی کار بلاک سے ٹکراگئی تھی اور بری طرح مضروب ابشام۔۔۔ سڑک پر بکھرا پڑا تھا۔۔۔!
**********
بابا۔۔۔؟ آپ کا ناشتہ!
ابشام چھوٹا سا بیگ شانے پر لٹکائے تیزقدموں سے سیڑھیاں اتررہا تھا جب ملازم نے اسے یاد دلایا تھا۔
تم کرلو!
کہتا ہوا اپنی پشت پر اسے حیران پریشان چھوڑ کر پورچ کی طرف بڑھ گیا تھا۔ رات عشال کو سوچتے سوچتے گھڑیاں کب بیت گیئیں؟ اسے پتہ ہی نہیں چلا اور پھر جب آنکھ کھلی تو۔۔۔، اس کا سر پھوڑا بنا ہوا تھا۔
اب بھی اسے دیکھنے کی خواہش ہی تھی، جو وہ درد کی پرواہ کیے بنا ایک بار پھر تیار تھا۔
***********
ابشام کو لگا، آج صبح( دیدار) نہیں ہوگی لیکن، کار ریموٹ سے لاک کرکے جونہی وہ مڑا، اپنی فطری دلکشی لیے وہ چلی آرہی تھی ۔
اور جانے اس لمحے میں کیا تھا کہ اس کے قدم وہیں جم گئے،
سینے سے پروجیکٹ فائل لگائے، عشال کے قدم ڈیپارٹمنٹ کی ہی جانب تھے لیکن،نجانے کیسے کوئی چیز پیر میں چبھن کی وجہ بن گئی،شاید کوئی کنکر تھا، جو اس کے پمپی شوز میں اچک کر گھس گیا تھا، عشال نے وہیں ایک طرف ہوکر جوتا پیر سے نکالا اور اسے الٹ پلٹ کر جھاڑنے لگی، مگر اسے یہ خبر نہیں تھی کہ اس کی گلابی ایڑی نے کچھ فاصلے پر کھڑے ابشام زبیر کی ڈھڑکنیں تک ساکت کردی ہیں، وہ مبہوت سا اسے دیکھے گیا۔۔۔ تب ہی،شازمین کی گاڑی تیز رفتاری کے باعث ہچکولے کھاتی ہوئی آئی اور اس سے پہلے کہ شازمین ہارن بجاتی کار کے ٹائر چرچراتے ہوئے ابشام سے جاٹکرائے۔۔۔۔،
شازمین کی چیخ تو نکلی مگر وہ بروقت بریک نہ لگاسکی،
ادھر ابشام ہوش وخرد سے بیگانہ کھڑا تھا،وہ کہیں اور دیکھتا تو اسے شازمین کی بےقابو ہوتی کاردکھائی دیتی۔۔۔۔۔!
شازمین نے خوف کے مارے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیاتھا۔۔۔۔اور ابشام تک سب سے پہلے پہنچنے والی عشال تھی۔۔۔۔۔!
***********
دوپہر نے ابھی اپنا چہرہ دکھایا ہی تھا، مگر شافعہ برہان اپنی سوچوں میں گم تھیں،ان کا ذہن مسلسل گذشتہ دنوں ہونے والی تقریب میں ہی کھویا ہوا تھا، ارادی طور پر وہ عشال کو ہی سوچ رہی تھیں، اس کی چال ڈھال،اپیئرینس، گفتگو،اعتماد،شخصیت! ہرلحاظ سے انھیں اپنے ہونہار سپوت کے لیےوہ بہترین انتخاب لگ رہی تھی۔۔۔۔
پھر بھی وہ کسی نتیجے تک نہیں پہنچ پارہی تھیں،تو اس کی وجہ صارم برہان تھا۔۔۔۔،
ماما۔۔۔۔! کہاں ہیں یار؟ میری شرٹ کا بٹن۔۔۔۔! ( ٹوٹ گیا ہے)
وہ کہتے کہتے رک گیا تھا، شافعہ خاتون کی پوزیشن ہی ایسی تھی کہ وہ اچانک خاموش ہوگیا تھا۔
وہ بت بنی اپنے خیالوں میں اس قدر کھوئی ہوئی تھیں کہ انھیں صارم کے آنے اور پکار کی خبر ہی نہیں ہوئی تھی۔
وہ دھیرے سے ان کے پاس صوفے پر ٹک گیا اور ان کی نظروں کے تعاقب میں نگاہیں جما کر بولا۔۔۔۔
اچھا تو پھر کچھ ملا؟
تم۔۔۔۔؟ کب آئے؟
وہ چونک گیئیں۔ صارم بولا ہی اتنی اونچی آواز سے تھا کہ وہ تقریبا ہڑبڑا گئی تھیں۔
تب ہی آگیا تھا جب آپ خلائی مشن پر تھیں،
اور مسکرا دیا۔
شافعہ نے اس کے بازو پر ہلکی سی چپت لگائی۔۔۔۔
فضول باتیں مت کیاکرو۔۔۔۔بتاؤ کیا مسئلہ ہے؟
میرا مسئلہ چھوڑیں،آپ اتنی خاموش کیوں ہیں؟ کوئی پرابلم ہے کیا؟
مذاق سے ہٹ کر وہ اب ہلکے پھلکے انداز میں ان کی پریشانی جاننا چاہتا تھا۔
وہ پوری طرح صارم کی طرف متوجہ ہوئیں،
مسئلہ تو کوئی نہیں، بس میں تم سے ہی بات کرنا چاہ رہی تھی،اچھا ہوا تم نے خود ہی پوچھ لیا۔
بولیں میں سن رہا ہوں،
صارم انھیں الجھاہوا نہیں دیکھ سکتا تھا۔
اس دن ڈنر میں تم نے مسزضیاءالدین کی بیٹی کو دیکھا تھا؟
انھوں نے آغاز کیا۔
اور صارم کاچہرہ سوالیہ نشان بن گیا۔
کون مسزضیاءالدین؟
ارے وہ۔۔۔۔،ان کا نام سطوت آراء ہے، میں ان کی بیٹی عشال کی بات کررہی ہوں تم ملے تو تھے اس سے؟
صارم کی نظروں کے سامنے چھم سے کسی کی شبیہہ لہرائی تھی۔۔۔۔!
وہاں کچھ اور دیکھنے قابل تھا ہی کیا؟ صارم نے بڑی فرصت سے اسکارف میں لپٹی اس باوقار سی لڑکی کو دیکھا تھا،
وقار نے ہی اس سے متعارف کروایا تھا۔۔۔۔لیکن افسوس! رسمی سے تعارف کے علاوہ کوئی بات نہیں ہوسکی تھی، مگر صارم کو اس کا لیا دیا سا انداز بہت بھایا تھا۔۔۔۔اور اب شافعہ اس سے پوچھ رہی تھیں، کہ اسے دیکھا تھا یا نہیں؟
آپ سطوت آنٹی کی بات کررہی ہیں؟ جنھیں وقار ساتھ لایا تھا ناں؟
صارم نے نے یونہی انجان بن کرپوچھاتھا۔
جی کیاہواانھیں؟
اس نے مطلب کی بات پوچھی۔
ارے اللہ رکھے کچھ نہیں ہواانھیں، میں یہ پوچھ رہی تھی،ان کی بیٹی کیسی لگی تمہیں؟
شافعہ اب اصل موضوع پر آئی تھیں،
ہاں ٹھیک ہے، مگر وہ تو وقار کی دوست ہے ناں؟
اس نے یونہی بات بنائی۔ ماں کے سامنےوہ خود کو کمپوز ہی رکھنا چاہتا تھا۔
ارے۔۔۔دوستی کیسی؟ وہ تو وقار کی پڑھائی میں تھوڑی بہت مدد کروادیتی تھی۔۔۔تو بس بات چیت ہے ان کی۔۔۔۔!
شافعہ نے اپنی طرف سےصفائی پیش کی، لڑکوں سے دوستی گانٹھنے والی بےباک اور ماڈرن لڑکیوں کی طرف صارم برہان دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔
ٹھیک ہے، لیکن یہ آپ مجھے کیوں بتارہی ہیں؟
صارم نے پوچھا۔
مجھے وہ بچی بہت پسند آئی ہے، اگرتم ہاں کرو تو میں بات کروں ان لوگوں سے؟
بالآخر شافعہ نے اس کے دل کی بات کہہ ہی دی تھی۔
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں والدہ! جہاں آپ کہیں گی، سہرا باندھ کر چل پڑوں گا۔۔۔ جو میری والدہ کی مرضی، وہ میری مرضی۔۔۔خوش؟
اور بانہوں کا حصار شافعہ کے گرد باندھا۔
شافعہ کا ڈھیروں خون بڑھ گیا۔
اس کے سر کو پیار سے تھپکتی ہوئی بولیں۔
اچھی طرح جانتی ہوں میرا بیٹا میرا کتنا فرمانبردار ہے؟ پچھلے دوسال سے لڑکیاں دیکھ رہی ہوں۔۔۔آپ کے لیے، مگر صاحبزادے کے مزاج ملتے ہی نہیں، اب اتنی جلدی ہاں جو کی ہے ناں تو۔۔۔ضرور کوئی وجہ ہے،
اور مسکرادیں۔
اور صارم سر پر ہاتھ پھیر کررہ گیا۔۔۔
ابھی بات کرتی ہوں، مسزضیاءالدین سے۔۔۔۔!
اور موبائل ہاتھ میں لیے بیڈروم کی طرف بڑھ گیئیں۔۔۔۔
جبکہ صارم برہان کی آنکھوں میں تو وہ اسی رات سے بسیرا کیے ہوئے تھی۔
***********
اسپتال کے کاریڈور میں وہ چپ سادھے بیٹی تھی۔۔۔لیکن وہ اتنی پرسکون تھی نہیں،جتنی کہ نظر آرہی تھی۔۔۔۔،
ابشام کوزخمی ہوتے سب سے پہلے اسی نے دیکھا تھا، اور شازمین کے بعد اسی کی آواز سنی گئی تھی۔۔۔
ڈرائیور!۔۔۔۔ہیلپ۔۔۔۔!
اور ڈرائیور جو اسے چھوڑ کرواپسی کے لیے پر تول رہا تھا۔ عشال کی آواز کی سمت دوڑا چلا آیا تھا۔
پلیز مدد کریں۔۔۔۔۔،
ایمرجنسی میں اس کے منہ سے یہی الفاظ ادا ہوئے تھے۔۔۔،
اتنی دیر میں کئی اور لوگ بھی جائے حادثہ پر پہنچ گئے تھے۔۔۔تین چار لڑکوں کی مدد سے ابشام کو عشال کی گاڑی میں ڈالا گیا اور اسپتال منتقل کرنے تک وہ اس کے ساتھ ساتھ ہی تھی۔اس وقت وہ ایمرجنسی وارڈ میں تھا۔ جبکہ اسے تنہا چھوڑ کر جانے پر عشال خود کو آمادہ نہیں پارہی تھی۔
***********
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...