اب کہ لاؤنج میں رمشہ دادی کے ساتھ لگی بیٹھی تھی اور لالہ رُخ اسکے بالکل مقابل۔۔ ٹانگ پر ٹانگ چڑھاۓ۔۔ سپاٹ اور سرد چہرہ لیۓ۔۔
“یہ لڑکا کب سے تنگ کررہا ہے تمہیں رمشہ۔۔؟”
اسکی بے لچک سی آواز پر رمشہ نے رو رو کر ہلکان ہوتی نگاہیں اٹھائ تھیں۔ پھر گیلی سانس اندر کو کھینچ کر کہنے لگی۔
“پ۔۔ پہلے بھی ایک دفعہ وہ مجھے ایسے ہی ہراساں کر کے گۓ تھے۔۔ کچن میں ہی۔۔”
اسکا سانس بے تحاشہ چڑھا ہوا تھا اور خوف سے آواز تک لرز رہی تھی۔ لالہ رُخ کی سرد نگاہیں اسکا سانس خشک کیۓ دے رہی تھیں۔ اس نے کبھی رُخ کو اتنا سنجیدہ اور سپاٹ نہیں دیکھا تھا۔
“کیا کہہ رہا تھا پہلے یہ تم سے۔۔؟ اور ابھی کیا بکواس کی ہے اس نے۔۔؟”
دادی بھی اب کہ سوالیہ نگاہوں سے رمشہ کا فق چہرہ تک رہی تھیں۔ اس نے پہلے حلق میں جمع ہوتیں بہت سی گرہیں نگلیں اور پھر بے حد ہلکی سی آواز میں کہنے لگی۔
“وہ۔۔ وہ پہلے بھی یہی کہہ رہے تھے کہ میں ارسل بھائ سے کہوں کہ وہ آپکو۔۔ آپکو چھوڑ دیں اور زرتاج سے شادی کرلیں۔ وہ مجھے دھمکا کر گیا تھا کہ اگر میں نے ایسا نہ کیا تو وہ مجھے۔۔ مجھے خراب کردے گا۔۔ وہ مجھے خاندان بھر میں بدنام کردے گا۔۔ وہ مجھے کہیں کا نہیں چھوڑے گا۔۔ ”
اسکی یہ بات سنتے ہی رُخ کا چہرہ سرخ ہوا تھا۔ اس نے ضبط سے گہرا سانس لیتے ہوۓ جیسے بہت سا ابلتا طیش دبایا تھا۔ دادی اب پھر سے رمشہ کو ساتھ لگاتیں بہت بے چین سی نظر آرہی تھیں۔ اسکی باتیں سننے کے بعد جیسے وہ بھی خوفزدہ ہوئ تھیں۔ پھر حیران ہو کر کہنے لگیں۔۔
“ذرا شرم نہیں آئ ان بے غیرت لوگوں کو اپنی ہی خالہ کے گھر میں نقب لگاتے ہوۓ۔ خدایا۔۔ ہم تو کبھی شک بھی نہیں کرسکتے تھے ان پر۔۔ کیسا وقت وارد ہوچلا ہے اللہ۔۔ اور یہ زرتاج۔۔ یہ لڑکی تو مجھے شروع سے ہی ایک آنکھ نہیں بھائ۔۔”
اگلے چند پل کوئ کچھ نہ بولا۔ لاؤنج میں محض رمشہ کی دبی دبی سی سسکیاں وقفے وقفے سے سنائ دے رہی تھیں۔ پھر اگلے ہی پل رُخ گہرا سانس لیتی آگے کو جھکی۔ ہتھیلیاں باہم ملا کر، کہنیاں گھٹنوں پر جمالیں۔ سیاہ ارتکاز اٹھا کر رمشہ کی آنکھوں میں دیکھا۔
“میری بات اب دھیان سے سنو رمشہ۔۔”
اس نے کبھی کسی کی اس قدر سرد آواز نہیں سنی تھی۔ اسے رُخ سے ایک پل کو خوف آیا تھا۔
“صبح تم اپنے وقت پر ہی کالج جاؤگی۔ رامو کاکا کے ساتھ جا کر انہی کے ساتھ واپس آؤگی۔ کالج کے بعد کہیں بھی باہر نکلنے کی ضرورت نہیں تمہیں۔ آنٹی، شیر بابا یا پھر ارسل کو بتا کر پریشان کرنے کا بھی کوئ فائدہ نہیں۔ اسی لیۓ اس مسئلے سے میں خود نپٹ لونگی۔۔ وہ اب تمہیں تنگ نہیں کرے گا اور اگر کرے گا تو وہ اپنی قبر خود تیار کرے گا۔۔ باقی۔۔”
وہ اٹھ کھڑی ہوئ تھی۔ رمشہ اور دادی نے ایک ساتھ ہی سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔
“ڈرنے کی کوئ ضرورت نہیں کسی سے بھی۔ آرام کرو تم۔۔ آج دادی کے ساتھ انکے کمرے میں سوجاؤ، اکیلے نہیں سونا۔۔ صبح سب ٹھیک ٹھاک اٹھیں گے۔۔ کچھ نہیں ہوا اوکے۔۔؟”
اسکا گرمجوش سا والہانہ پن اس پل بالکل مفقود تھا۔ وہ سنجیدہ سی مختصر بات کر کے آگے بڑھی تو رمشہ نے بے اختیار دادی کی جانب خائف نگاہوں سے دیکھا۔
“دادی۔۔ بھابھی مجھ سے ناراض ہیں کیا۔۔!”
اسے رُخ کے ایسے رویے پر یقین نہیں آرہا تھا۔ دادی نے مسکرا کر اسکے چمکتے بھورے بالوں پر ہاتھ پھیرا تھا۔ پھر بہت آہستگی سے بولیں۔
“وہ رُخ ہے ناں رمشہ۔۔ اسے سمجھنا تھوڑا سا مشکل ہے۔۔ وہ بیک وقت ابھی بہت سی باتوں پر غصہ ہے۔۔ بہت سی باتوں پر دکھی ہے۔۔ اور بہت سی باتوں کو وہ ابھی درست نتائج کے ساتھ سمجھ نہیں پارہی۔ جب وہ ان سب کے ساتھ اپنا معاملہ درست کرلے گی تب ضرور تم سے بات کرے گی وہ۔۔ ابھی اگر اس نے تم سے مزید کوئ بات کی تو بچے۔۔ وہ اپنے الفاظ سے زخمی کردے گی تمہیں۔۔”
دادی کی وضاحت پر اس نے سرخ سی حیران آنکھیں پھیلائ تھیں۔۔
“میں نے کچھ نہیں کیا ہے دادی۔۔ میرا کوئ قصور نہیں اس سب میں۔۔”
“مجھے پتا ہے میری جان۔۔”
انہوں نے نرمی سے کہہ کر، ایک بار پھر اسے خود میں بھینچا تھا۔
“لیکن یہ جو فائٹر لوگ ہوتے ہیں ناں۔۔ انکا غصہ الگ قسم کا ہوتا ہے۔ یہ اپنے ہاتھ استعمال کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔۔ یہ جواب اکثر اپنی جسمانی تکنیک اور طاقت سے دیا کرتے ہیں۔۔ ایسے لوگ ظلم برداشت نہیں کرتے اور ظلم پر خاموش رہنے والوں کو تو ہرگز بھی قبول نہیں کرتے۔۔ وہ جانتی ہے کہ اگر تم سے ابھی بات کرے گی تو تمہیں تکلیف پہنچادے گی۔۔ اسی لیۓ ابھی وہ اٹھ کر چلی گئ ہے۔ اس میں جو غصہ طاقت کی صورت ابل رہا ہے کہیں وہ تم پر نہ اتر جاۓ۔۔ اسی لیے اس نے تم سے مزید کوئ بات نہیں کی۔۔”
دادی نے بہت سہولت کے ساتھ کہہ کر اسکی پریشانی دور کردی تھی۔ اس نے بہت اداس ہو کر زینوں کی جانب دیکھا تھا جہاں سے رُخ ابھی ابھی گزر کے اوپر کی جانب بڑھی تھی۔
“مجھے ڈر لگ رہا ہے دادی۔۔ مجھے بھابھی سے ڈر لگ رہا ہے۔۔”
وہ چند لمحے تو خاموش رہیں لیکن پھر انکی ہولے سے ابھرتی آواز نے اسے اگلی ہی ساعت میں برف کردیا تھا۔۔
“وہ خطرناک ہے رمشہ۔۔ اس سے ڈرنا ہی چاہیۓ۔۔”
انہیں آج۔۔ اس پل۔۔ اسی گھڑی۔۔ اندازہ ہوا تھا کہ وہ لڑکی کتنی مضبوط اور سرد تھی۔ ظالم کے لیۓ کس قدر کاٹ دار اور بے رحم تھی۔۔ وہ لڑکی۔۔ جو ہر لمحہ قلقاریاں بھرتی تھی۔۔ جو ہر لمحہ گزرتی زندگی کو اپنی پوری شادابی کے ساتھ بسر کرنا جانتی تھی۔۔ وہ لڑکی جو رنگوں اور پھولوں کی رسیا تھی۔۔ ہاں وہی لڑکی۔۔ اپنی ذات کے اندر کھبے رنگوں کی رنگینی میں۔۔ کہیں بہت گہرائ تک زخمی تھی۔۔ اسے اندر کہیں ایسا زخم لگا تھا کہ جسکی نمائش بھی حرام تھی اس معاشرے میں۔۔ ہاں کہیں۔۔ اندر وہ لڑکی ایسی ہی تھی۔۔ عام لڑکیوں جیسی۔۔
لاؤنج میں اب انکی بہت مدھم سی سرگوشی گونج رہی تھی۔ ان میں سمٹی رمشہ کا خوف آہستہ آہستہ زائل ہونے لگا تھا۔ ایسا خوف۔۔ جو پچھلے کئ دنوں سے اسے جماۓ ہوۓ تھا۔۔ اس وقت۔۔ دادی کی نرم گرم سی آغوش میں پانی بن کر بہنے لگا۔ کچھ خوف ہوتے ہیں کہ جن کو محض نرمی زائل کرسکتی ہے۔۔ اور کچھ خوف کا علاج محض سختی ہوا کرتی ہے۔۔ اسی سختی نے لالہ رُخ کے خوف کو اسکے اندر سے اکھاڑ پھینکا تھا۔ اور شاید۔۔ اسی سختی نے۔۔ اسے تھوڑا سا۔۔ بہت تھوڑا سا۔۔ کرخت کردیا تھا۔۔!
***
آفس سے واپس لوٹتے وقت سنسان سڑک پر جیسے ہر ذی روح اپنا وجود کھو چکا تھا۔ اس نے دھواں دھواں ہوتی آنکھوں سے نظر آتے منظر کو جذب کرنے کی کوشش کی تھی۔ پھر گہرا سانس لے کر گاڑی کو یونہی یخ پڑتی، تارکول کی بے رحم سی سڑک پر بے ہنگم دوڑاتا رہا۔ دل جیسے ہر شے سے اچاٹ ہوتا جارہا تھا۔۔ بیزار۔۔ خالی سا۔۔
سامنے نظر آتی سیاہ سڑک کی سخت سی ساخت پر گاڑی دوڑاتے ہوۓ وہ خود کو بھی یہیں کہیں گم کردینا چاہتا تھا۔
اوپر کمرے کا دروازہ بند کر کے وہ چند ساعتیں گہرے گہرے سانس لیتی خود کو نارمل کرنے لگی تھی۔ اسکا سارا جسم لمحوں میں تپتے تانبے کی مانند سرخ ہوگیا تھا۔ گردن پر ابھرتی بہت سی پسینے کی بوندیں اسکے اندر مچی توڑ پھوڑ کا غماز تھیں۔ اس نے لمحے بھر کو آنکھیں بند کی تھیں۔۔
اسکول کے وسیع و عریض میدان میں چند لڑکیاں اس پر جھکیں اسکے چہرے پر اپنے جوتوں سے ضربیں لگارہی تھیں۔ تکلیف کی شدت سے اس نے آنکھیں میچ رکھی تھیں اور گٹھڑی کی صورت وہ مٹی مٹی سے میدان پر گری۔۔ بہت بے بس دکھ رہی تھی۔ ایک زوردار ضرب اسکے ہونٹ پر لگی تو خون کی ایک باریک دھار بہہ کر مٹی میں جذب ہوگئ۔
اس نے آنکھیں کھول دیں۔ اسکا سانس دھونکنی کی مانند چل رہا تھا۔ کچھ خوف ہوتے ہیں۔۔ جو انسان کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑا کرتے۔۔ اس روز میدان میں بے بسی سے پڑے رہنے کا خوف آج بھی کہیں اس کے اندر سانس لے رہا تھا۔ وہ مضبوط تھی۔۔ بہت دلیر اور دبنگ تھی۔ اب جب ظلم ہوتے اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھتی تھی تو اسکا جسم یونہی تپ کر بِھنّا جایا کرتا تھا۔ شاید وہ اس بچی کو اس ذلت سے بچا نہیں سکی تھی جو اس روز بہت بے بس سی میدان میں منہ کے بل گری ہوئ تھی۔۔ لیکن پھر اسکے بعد۔۔ وہ ہر ظلم کو روک لینا چاہتی تھی۔۔ وہ ہر ایک کو ایسی کسی بھی ذلت سے بچالینا چاہتی تھی۔۔ ہاں وہ ایسا ہی کرنا چاہتی تھی۔
ارسل نے گاڑی گھر کو جاتے راستے کی جانب موڑی اور پھر اداسی سے گہری ہوتی تاریکی میں خود بھی تاریکی کا ہی حصہ لگنے لگا۔ اسکی بھوری آنکھیں زخمی لگتی تھیں۔۔ زخمی اور خاموش۔۔ گہری اور بوجھل۔۔
رُخ نے آگے بڑھ کر ڈریسنگ روم کا دروازہ کھولا اور پھر خالی خالی نگاہوں سے خود کا عکس آئینے میں دیکھے گئ۔ اسکی آنکھوں میں ضبط کی سرخی ابھری تھی۔ بے اختیار اس نے اپنے نچلے ہونٹ کو چھوا۔۔ ٹھیک وہیں۔۔ جہاں اسے وہ ضرب لگی تھی۔۔ تکلیف آج بھی ہوتی تھی۔۔ زخم مندمل ہو کر بھی زخم ہی رہا کرتے تھے۔
ارسل نے خاموشی سے داخلی دروازہ کھولا اور پھر بنا چاپ پیدا کیۓ آگے بڑھ آیا۔ لیکن اسکا رُخ اوپر کو جاتے زینوں کی جانب نہیں تھا۔ اسکا رخ تو گھر کے عقب میں بنے اس کھوکھلے تہہ خانے کی جانب تھا کہ جس میں اس نے اپنے بچپن کا بہت سا حصہ گزارا تھا۔ س نے آگے بڑھ کر زینوں کے دوسری طرف قدم رکھا اور پھر تاریکی میں ڈوبے دروازے کو دھکیل کر اندر کی جانب بڑھ گیا۔
وہ اب چہرے پر پانی کے چھینٹے ماررہی تھی۔ پھر گیلا چہرہ اٹھا کر خود کو آئینے میں دیکھا۔۔ جُوڑے میں بندھے بال ہلکے سے ڈھلک کر گردن پر آگرے تھے اور پانی کی چند بوندیں بہہ کر اسکی ٹھوڑی سے لڑھک رہی تھیں۔
وہ اب سیاہ تہہ خانے کے زینوں پر دھیرے دھیرے قدم دھرتا اتررہا تھا۔ کوٹ اس نے باہر ہی صوفے پر ڈال دیا تھا اور ٹائ کی گرہ ڈھیلی ہو کر گردن کے ساتھ ہولے سے جھول رہی تھی۔ آہستینیں پیچھے کی جانب مڑی ہوئ تھیں اور بھوری آنکھیں اندھیرے میں بھی کسی کی آسودہ سی خوشبو محسوس کرتیں اگلے ہی پل بند ہوگئ تھیں۔۔ اس تاریک تہہ خانے میں بسی نازنین کی خوشبو۔۔ اسکے لمس اور اسکے محبت سے بھرپور تاثرات نے اسے آج بھی زندہ کر رکھا تھا۔۔ وہ جب بھی اداس ہوتا تھا۔۔ اسی تہہ خانے کا رُخ کیا کرتا تھا۔۔
لالہ رُخ نے خود کو وضو کے پانی سے بھگویا اور پھر آہستگی سے چلتی بیڈ کی جانب چلی آئ۔ شدید طیش کے وقت وضو کا بھگوتا پانی بہترین ہوا کرتا ہے۔ ایسا پانی جو انسانی وجود پر چڑھی کثافت اور گھٹن کی ہر گرہ کو خود کے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے۔ اس نے بھی اتنے عرصے کی محنت میں یہی سیکھا تھا۔۔ اب وہ بالوں کو جوڑے سے آزاد کرتی آہستہ سے اپنے بستر پر لیٹ رہی تھی۔ اسکی سیاہ جگمگاتی آنکھیں کھوکھلی سی دکھائ دیتی تھیں۔۔
“زخم کی تکلیف پر رونے میں قباحت نہیں رُخ۔ اپنی کم ہمتی پر رونے میں قباحت ہے! جو کم ہمتی اور بزدلی پر رودے وہ بھی بھلا کوئ انسان ہوا۔۔!”
اسفند لالہ کی بہت عرصے پہلے کہی بات اسکی سماعت میں گھلی تھی۔ زخم زخم آنکھیں گلابی ہوگئیں۔۔ لیکن ان سے ضبط کا آنسو نہ ٹپکا۔۔ وہ مضبوط تھی۔۔ وہ نہیں روۓ گی۔۔ اس نے مٹھی بھینچ کر خود کو بکھرنے سے روکا تھا۔۔
ارسل اب دیوار کے ساتھ لگ کر خاموشی سے بیٹھا تھا۔ اسکی آنکھیں تاریکی میں گھور رہی تھیں۔ پھر اسکے رخسار پر ایک آنسو پھسلا۔۔ اگر جو وہ نازنین کو نہ کھوتا تو وہ بھی آج۔۔ شیر افگن۔۔ اسفند۔۔ فرقان۔۔ ہاں وہ بھی سب کی طرح مضبوط ہوتا۔۔ وہ بھی بے خوف اور نڈر ہوتا۔۔ لیکن وہ یہ سب نہیں تھا۔۔ اس نے ایک انسان کو کھونے کے بعد خود کے خوف میں پناہ لی تھی۔۔ اور جو اپنی ذات میں جڑ پکڑتے خوف میں پناہ لیتے ہیں وہ صدیوں تک اس قید سے رہائ حاصل نہیں کرسکتے۔
رُخ نے چونک کر آس پاس دیکھا تھا۔ ارسل۔۔ ارسل کو تو اب تک آجانا چاہیۓ تھا۔۔ وہ جلدی سے سیدھی ہو بیٹھی پھر چہرہ گھما کر گھڑی کی جانب نگاہ پھیری۔۔ رات کے ساڑھے دس بج رہے تھے لیکن سردیوں کی راتیں ہونے کے باعث یوں لگتا تھا گویا رات کا آخری پہر چل رہا ہو۔۔ اس نے بے ساختہ ہی اٹھ کر کمرے کا دروازہ کھولا اور پھر دوپٹے سے بے نیاز، کھلے بالوں کو ہاتھ سے سمیٹتی تیز تیز زینے اترنے لگی۔۔ اسکا دل اچانک ہی بہت گھبرانے لگ گیا تھا۔۔ ارسل۔۔ اسے اس سب میں وہ بالکل بھول گیا تھا۔ ابھی وہ داخلی دروازے کی جانب بڑھ رہی تھی کہ یکدم ٹھہر گئ۔۔ وہ زینوں کے اس پار سے بہت تھکا ماندہ سا آرہا تھا۔ اسے یوں دوپٹے کے بغیر۔۔ کھلے بالوں کے ساتھ کھڑا دیکھا تو چونک کر رک گیا۔۔
وہ دونوں ہی ایک دوسرے کو دیکھ کر ٹھہر گۓ تھے۔۔ رک گۓ تھے۔۔ روک لیۓ گۓ تھے۔۔ برف ہوتے ٹائلز پر کھڑے وہ دونوں اس سمے برف ہی کے مجسمے دکھ رہے تھے۔۔ یخ۔۔ نرم دھوپ کی تمازت سے پگھلنے کے لیۓ بے تاب۔۔! اس برف سی دنیا میں اپنے خوف میں سمٹ کر زندہ رہنے والے دو مجسمے۔۔ سانس لیتے۔۔ زندہ اور زخمی مجسمے۔۔ کیا کبھی تم نے ایسے مجسمے دیکھے ہیں۔۔؟
داخلی دروازہ کھلا ہونے کے باعث اک سرسراتا جھونکا اندر کو داخل ہوا اور رُخ کے بالوں کو اپنے ساتھ اڑا لے گیا۔۔ پلکوں کی باڑ پر آنسوؤں کے چند قطرے لیۓ اسکی سیاہ آنکھیں اتنی دور سے بھی جگمگارہی تھیں۔ ان آنکھوں کی جگمگاہٹ ہی نے ارسل کا دل لمحے بھر کے لیۓ جکڑ لیا تھا۔۔
خوف کے پل صراط پر ایک جانب وہ کھڑی تھی تو دوسری جانب ارسل۔۔ ایک رونا جانتا تھا تو دوسرا خود کے آنسوؤں کو مٹھی بھینچ کر ڈانٹنا جانتا تھا۔۔ ایک نے اپنے خوف کے آگے گھٹنے ٹیک دیۓ تھے اور دوسرے نے اسی خوف کو دھول بنا کر اڑا دیا تھا۔۔ فرق کہاں تھا بھلا۔۔! لیکن فرق تھا۔۔ فرق تو بہت تھا۔۔ لیکن فرق سے بھلا کیا فرق پڑتا تھا؟ قلب تو کبھی بھی پلٹ سکتا تھا۔۔ کسی بھی ساعت۔۔ کسی بھی لمحے اور ہر ماہ و سال کی قید سے آزاد ہو کر۔۔
وہ اگلے ہی پل دوڑتی ہوئ آئ اور بے اختیار اس کے گلے لگ گئ۔ وہ اپنی جگہ ہی ساکت ہوگیا تھا۔ آنکھیں حیرت سے پھیل کر باہر آنے کو تھیں اور سانس تک رک گیا تھا۔ وہ ایڑیاں اونچی کیۓ، آنکھیں موندے اس سے لگی رہی۔۔ اسکا دل بہت ڈر گیا تھا۔۔ اچانک ہی اسے دادی کی باتیں یاد آگئ تھیں۔۔ لیکن۔۔ پھر۔۔ اس نے آنکھیں کھول دیں۔۔ اگلے ہی پل وہ خود بھی اپنی بے ساختگی پر دنگ رہ گئ تھی۔۔ پھر ایک جھٹکے سے الگ ہوئ۔۔
وہ سانس تک روکے دیکھ رہا تھا اسے۔۔ جیسے اسے سمجھ نہ آرہا ہو کہ یہ تھوڑی دیر پہلے رُخ نے کیا تھا۔۔! وہ اب چھوٹے بچوں کی طرح منہ میں انگشتِ شہادت دباۓ اسے دیکھ رہی تھی۔۔
“یہ کیا تھا رُخ۔۔!”
اس نے بے یقینی سے کہا تو وہ دو قدم پیچھے ہٹی۔
“میں نے کچھ نہیں کیا ہے۔۔”
اسکی خوفزدہ سی آواز ابھری تھی۔ لالہ رُخ دی گریٹ۔۔ ڈر گئ تھیں۔۔ ہاں جی۔۔ وہی۔۔ ہماری جھانسی کی رانی۔۔ میمنے سے ڈر گئ تھی۔۔
“پھر یہ کیا تھا۔۔!”
ارسل کی حیرت سے پھیلی آنکھیں اب تک رخ پر جمی تھیں جو خود بھی تیزی سے پلکیں جھپکاتی خود کو کمپوز کررہی تھی۔
“سوری۔۔”
“اب یہ سوری کس لیۓ ہے۔۔؟”
وہ جیسے بیزار ہوا تھا۔
“میں نے بغیر اجازت کے۔۔ آ۔۔ آپکو۔۔”
اور اسکی اٹکتی زبان اگلے ہی پل رک سی گئ تھی۔ یاد آیا کہ وہ تو لالہ رُخ تھی۔۔ بیچاری سی صورت پر جھکے ابرو تن گۓ۔۔ چہرہ جو پریشان حال سا دکھتا تھا، اعتماد سے جگمگانے لگا۔۔ بال جو بکھر کر پشت پر گر رہے تھے اگلے ہی لمحے اس نے انگلیاں چلا کر اک ادا سے لہراۓ۔۔ ہاں جی۔۔ اب لگ رہی تھی وہ جھانسی کی رانی۔۔
“کیا کیا ہے میں نے۔۔! شوہر ہی ہیں ناں آپ میرے۔ اگر میں نے آپکو گلے لگالیا تو اس میں کیا ہوگیا۔ مجھے تو کوئ شرمندگی نہیں۔۔ آپکو کوئ مسئلہ ہے کیا۔۔ ؟”
اصولاً تو اسے شرمندہ ہونا چاہیۓ تھا لیکن ڈھٹائ زندہ باد۔۔!
“جی ہے مجھے مسئلہ۔۔ اور ٹھیک ٹھاک قسم کے تحفظات ہیں مجھے تو۔۔”
ارسل جل بھن ہی تو گیا تھا اسکے پینترا بدلنے پر۔ وہ دو قدم چل کر اسکے قریب آئ تو ارسل بے ساختہ ہی پیچھے کو ہوا۔ ایک ہاتھ حفاظتی طور پر سینے پر بھی رکھا تھا۔۔ محتاط سی آنکھیں رُخ پر ہی جمی تھیں۔۔
“ڈر گۓ کیا آپ۔۔؟”
شرارت سے چمکتی آنکھوں کے ساتھ سوال کیا تھا اس نے۔۔ وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔۔
“سدھر جائیں رُخ آپ۔ تھوڑی سی وہ ایک چیز ہوتی ہے شرم نام کی۔۔ لیکن آپکو کیا پتہ کہ وہ کیا ہوتی ہے۔۔”
اس نے آنکھیں اندر کو کر کے بڑے انداز سے خفا ہوتے ہوۓ کہا تھا۔ ساتھ ہی اسے گھور کر دیکھا۔۔ سر کو ہلکا سا جھٹکا بھی دیا۔۔ جیسے کہہ رہا ہو۔۔ “ہنہہ”
“میں نے اگر کوۓ بے شرمی والا کام کیا ہوتا تو میں شرمندہ بھی ضرور ہوتی لیکن میں نے ایسا کچھ نہیں کیا اسی لیۓ مجھے کوۓ شرمندگی نہیں۔۔ آپ تو بس ناولز کی ہیروئین کی طرح ہمیشہ مجھ سے ڈر کر پیچھے جاتے رہا کریں۔۔ اور یہ ہاتھ۔۔ ”
اس نے اسکے حفاظتی بندھ کی جانب تمسخرانہ سا اشارہ کیا تھا۔۔
“یہ ہاتھ کسی کام کا نہیں ہے آپکا۔۔ آپ میرے ہیں اور ہمیشہ میرے ہی رہیں گے۔۔ سنا آپ نے۔۔”
اس نے بھی آخر میں اسے گھور کر دیکھا تھا پھر گردن “ہنہہ” جھٹکتی زینے چڑھتی اوپر کی جانب بڑھ گئ۔ نیچھے ارسل نے دانت پیسے تھے۔۔
“میں آپکا نہیں ہوں۔۔ میں صرف میرا ہوں۔۔ سنا آپ نے۔۔”
آخر میں ایڑیوں کے بل اونچا ہو کر زور سے بولا تھا وہ۔۔ رُخ نے شانِ بے نیازی سے ہاتھ جھٹک کر اسکے خیالِ مبارک کو گویا رد کیا تھا۔ ارسل نے اس کے ایسے انداز پر کھولتے ہوۓ ماتھے پر ہتھیلی جمائ تھی۔۔ کیا کرے وہ اس لڑکی کا۔۔
اس نے کمرے میں آتے ہی دروازہ بند کیا اور پھر اس کے ساتھ لگی کھڑی رہی۔ چہرے پر چھائ ہٹ دھرمی اور بے نیازی لمحوں ہی میں عنقا ہوئ۔۔ لعنت۔۔ لعنت ۔۔ لعنت ہو لالہ رُخ۔۔ اس نے خود پر اس سمے بہت لعنتیں بھیجی تھیں۔ پھر سر دونوں ہاتھوں میں تھامتی بستر کی جانب چلی آئ۔ یہ کیا کردیا تھا اس نے۔۔ کیا “چیزی”حرکت تھی بھلا یہ۔۔!! اف اف اف۔۔ یعنی کے بس اف۔۔ وہ اب گداز سے تکیۓ پر مکے ماررہی تھی۔۔ ساتھ ساتھ لعنت کے چار حرف بھی خود پر بارہا بھیج چکی تھی۔ پھر بے دم سی آڑی ترچھی بستر پر دراز ہوگئ۔۔ ایسے کے ایک ٹانگ بیڈ سے نیچے لٹک رہی تھی اور دوسری اس نے موڑ رکھی تھی۔۔ بال بیڈ پر بکھرے ہوۓ تھے اور دوپٹہ ندارد۔۔ اسے اپنی بے ساختگی پر بہت غصہ آرہا تھا۔ لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔۔؟ جو ہونا تھا وہ تو ہو ہی چکا تھا۔
پگھلتی چاندنی میں یہ پہلی بے ساختگی تھی جو اس سے سرزد ہوئ تھی۔ ارسل نیچے صوفے پر گردن پیچھے کو کیۓ، آنکھیں موندے بیٹھا تھا۔۔ اور لالہ رُخ۔۔ وہ اب تک اپنے بازوؤں میں ارسل کا نرم گرم سا سراپا محسوس کررہی تھی۔۔ اس میں تو کوئ شک نہیں تھا کہ وہ دونوں ہی پاگل تھے۔۔ لیکن ایک بات بتاؤں۔۔ ان پاگلوں کو محبت ہونے لگی تھی۔۔ جو بنا چاپ پیدا کیۓ، انکے قلوب میں داخل ہورہی تھی۔۔ ہاں بالکل خاموشی سے۔۔ جس سے فی الحال۔۔ ہمارے دونوں لیونے (پاگل) بے خبر تھے۔۔
***
دوسری صبح اسفند اور فرقان، افغان کے ساتھ لاؤنج میں براجمان شادی کی تقریب کے بارے میں محوِ گفتگو تھے۔ اس زینے والے واقعے کے بعد اسفند نے دوبارہ رامین کو دیکھا ہی نہیں تھا۔۔ جانے کہاں تھی وہ۔۔ ساتھ ساتھ اب رامش اور جنید بھی لاؤنج ہی میں چلے آۓ تھے۔۔ کسی بات پر جھگڑ بھی رہے تھے شاید۔۔
“تم مجھے آئندہ اپنی شکل مت دکھانا جنید۔۔ زہر لگ ہے ہو تم مجھے اس وقت۔۔”
رامش کے دانت کچکچا کر کہنے پر فرقان اور افغان دونوں انکی جانب متوجہ ہوۓ تھے۔ اسفند البتہ اپنے فون پر جھکا کچھ ٹائپ کرنے میں مصروف تھا۔
“لیکن میری شکل تو تم دیکھ رہے ہو۔۔ نہیں۔۔؟”
جنید نے پورے دانتوں کی نمائش کی تھی۔۔ ساتھ ساتھ ابلتے رامش کو چھیڑا بھی۔۔
“ہوا کیا ہے بھئ۔۔؟ کس بات کا جھگڑا ہے۔۔؟ اور شکل کیوں نہیں دیکھنا چاہتے تم ہمارے جنید کی۔۔ ؟ اتنا تو پیارا ہے۔۔ ”
فرقان ہی نے مصالحت سے کہا تھا۔ رامش یکدم بدکا۔۔ پھر خفگی سے فرقان کو دیکھا۔۔
“اس نے میری کلاس فیلوز کے سامنے کہا کہ میں۔۔ مجھے گلابی رنگ پسند ہے اور یہ بھی کہ میں لڑکیوں کی طرح ڈرامے دیکھتا ہوں۔۔ یہ بھی کہ مجھے جنات سے ڈر لگتا ہے۔۔ اور میں خون نہیں دیکھ سکتا۔۔ جانتے بھی ہیں سب نے کتنا مزاق اڑایا میرا وہاں۔۔ سب تب سے مجھے “باجی رمشہ” کہہ کر چھیڑ رہے ہیں۔ اتنی بے عزتی ہوئ ہے میری۔۔”
“حالانکہ لالہ جو چیز ہے ہی نہیں اس کے بارے میں فکر مند ہونے کا کیا جواز۔۔؟”
جنید کی زبان ایک بار پھر سے چل پڑی تھی۔ رامش کا بس چلتا تو اس کا سر اب تک پھاڑ چکا ہوتا لیکن ہک ہاہ۔۔! اسفند لالہ ساتھ ہی بیٹھے تھے۔ انکی گھوری پر تو وہ ویسے ہی سہم جایا کرتا تھا۔
“تم منہ بند رکھو اپنا۔۔ میں بھی تمہاری کلاس فیلوز کو بتاؤنگا کہ تم۔۔ تم چھپ چھپ کر حجاب باندھنے والی وڈیوز دیکھتے ہو۔۔”
دھت تیری کی۔۔! جنید یکدم ہی سیدھا ہو بیٹھا تھا۔ لبوں پر چپکی مسکراہٹ لمحے ہی میں اڑنچھو ہوئ۔ فرقان لالہ کو بے اختیار ہی ہنسی آئ تھی۔ افغان نے البتہ گردن ہلائ تھی۔۔
“تم۔۔ وہ چند وڈیوز میں نے اپنی دوست کو سینڈ کی تھیں کیونکہ اسکا انٹرنیٹ ٹھیک سے کام نہیں کررہا تھا۔۔ اور تم۔۔ تم میرا موبائل کس سے پوچھ کر اٹھاتے ہو۔۔؟”
اب اکھڑا تھا جنید ہتھے سے۔۔ رامش کو اسے ایسے دیکھ کر بہت مزا آیا۔
“جیسے تم میرے بغیر پوچھے میری ہر چیز استعمال کرتے ہو۔۔ بالکل ویسے ہی۔۔”
“بھائ ہوں میں تمہارا۔۔!”
آپا رشیدہ کی طرح ہاتھ جما کر جتایا تھا جنید نے اسے۔
“اچھا پھر میں کون ہوں تمہارا۔۔ آلو۔۔ یا پھر وہ کھڑکی کے پاس رکھا گملا۔۔؟ میں بھی تو بھائ ہی ہوں تمہارا۔۔!”
اسفند نے اب کہ کھولتے جنید اور سختی سے ابرو اکھٹے کیۓ رامش پر نگاہ ڈالی تھی۔ افغان اور فرقان البتہ ہنستے ہوۓ ان کی طوفانی نوک جھونک سن رہے تھے۔۔
“تو کیا غلط کہا ہے میں نے۔۔ ؟ کیا تمہیں گلابی رنگ نہیں پسند۔۔ ؟”
“ہاں تو گلابی رنگ پسند کرنے میں کوئ قباحت بھی نہیں جنید۔ رنگوں کے ساتھ تو کم از کم جنس کو جوڑنا چھوڑ دو۔۔”
فرقان نے اپنی ہنسی روک کر سہولت سے کہا تھا۔
“ٹھیک ہے پھر۔۔ اب تم مجھ سے میرا چارجر لے کر دکھانا موبائل کا۔۔”
رامش کی یہ دھمکی بہت زیادہ کارآمد تھی۔ کیونکہ جنید کے اپنے موبائل کا چارجر ٹوٹ چکا تھا اور اسکا موبائل محض رامش کے چارجر ہی سے چارج ہوتا تھا۔
“چاہیۓ بھی نہیں مجھے۔۔ ”
“اور مجھے وہ سارے پیسے بھی واپس دو جو تم نے مجھ سے ادھار لیۓ تھے۔ وہ سارے تحائف بھی جو میں نے تمہاری برتھ ڈے پر تمہیں دیۓ تھے۔۔ ابھی کہ ابھی مجھے سب کچھ واپس چاہیۓ۔۔”
جنید کو پسینہ ہی آگیا تھا۔ اب وہ یہ سب کہاں سے دیتا اسے۔ افغان کو درمیان میں آنا ہی پڑا۔۔
“بس ختم کرو اب۔۔ اور جنید تم آئندہ ایسی کوئ بات نہیں کروگے۔ رامش تم بھی کچھ نہیں کہوگے اس کی کلاس فیلوز کے سامنے۔۔”
لیکن وہ دونوں شروع ہوچکے تھے۔ رامش کو اب اس سے اپنی ہر چیز واپس چاہیۓ تھی مگر جنید کا یہی کہنا تھا کہ وہ تو اوپر نیچے سے کنگال ہی بیٹھا ہے۔ ابھی یہ چھوٹی سے جھڑپ تیسری جنگِ عظیم میں بدل جاتی کہ اسفند کی بہت ٹھنڈی سی آواز پر ان دونوں کی زبانوں کو بریک لگا تھا۔۔
“رامش اور جنید۔۔ اب میرے کانوں میں آواز نہیں آۓ تم دونوں کی۔۔”
اور واقعی ان دونوں کی سٹی ایک ساتھ ہی گم ہوئ تھی۔ اب وہ چہرہ پھیرے فرقان سے کچھ کہہ رہا تھا۔۔ کسی کو دعوت دینی تھی شاید۔۔ ایک تو اسکی جان پہچان اس قدر تھی کہ لوگ رہ رہ کر یاد آتے جارہے تھے۔ اسی لمحے فاطمہ کے ساتھ لاؤنج میں گل داخل ہوئ تو وہ سیدھا ہو بیٹھا۔
“لالہ رُخ کو بتایا تم نے اس رشتے کے بارے میں۔۔؟”
فاطمہ لاؤنج میں آ کر بیٹھیں تو افغان نے پوچھا۔ انہوں نے بے ساختہ ہی ماتھے پر ہاتھ مارا تھا۔۔
“ارے دیکھیں۔۔ اسے بتانا تو بھول ہی گئ۔۔ کل اسکی ساس بھی آئ تھیں لیکن انہیں بتانا مجھے مناسب نہ لگا۔ سوچا تھا رُخ کو بتادونگی وہ خود ہی اپنے طریقے سے آگاہ کردے گی۔۔”
رامش نے انہیں اور گل کو پانی لا کر تھمایا تو وہ پی کر کچھ پرسکون ہوئیں۔
“کوئ بات نہیں مامی۔۔ میں خود بتادیتا ہوں لالے کو فون کرکے۔۔”
وہ اٹھتے ہوۓ بولا تھا۔ اسے جانے کیوں سوچ کر ہی مزا آیا تھا کہ لالہ رُخ کا ردعمل کس طرح کا ہوگا۔ اسکی بات پر افغان اور فاطمہ نے بیک وقت سر ہلایا تو وہ باہر کی جانب بڑھ گیا۔ انیکسی کی اندر قدم رکھتے ہی وہ بری طرح چونکا تھا۔ اسکے سامنے ہی رامین کھڑی تھی۔۔ ساتھ ہی عافیہ بھی تھی۔۔ شاید وہ انیکسی کی صفائ کروارہی تھی جیسے ہر ہفتے کروایا کرتی تھی۔ اسے دیکھ کر پل بھر کو ٹھہری اور پھر ناک بھوں چڑھا کر ساتھ سے نکلتی آگے بڑھنے لگی تو وہ اسے بے ساختہ ہی پکار بیٹھا۔ ہاں ٹھیک ہے وہ بہت برا تھا لیکن پھر بھی رامین اسکی بات سن کر نظر انداز نہیں کرسکتی تھی۔۔ وہ اسفند تھا ناں۔۔ اسی لیۓ۔۔
***
“زخم کیسا ہے۔۔؟”
اس نے پلٹے بغیر ہی پوچھا تھا۔ رامین کی بھی پشت اسکی جانب تھی۔ دونوں کے چہرے مخالف سمت میں تھے۔ عافیہ ان دونوں کو پیچھے چھوڑے آگے بڑھ گئ تھی۔۔
“کونسا زخم۔۔؟”
اسکے سوال پر وہ حیران ہوا تھا۔ کتابیں پڑھنے والی لڑکیان آسان نہیں ہوا کرتیں۔۔ وہ بھی بڑی مشکل باتیں کرجایا کرتی تھی۔۔
“ہر وہ زخم جو تکلیف دیتا ہے۔۔”
“کیا کریں گے جان کر۔۔؟”
“مرہم رکھنے کا کچھ سامان کرونگا۔۔”
“ضرورت نہیں ہے۔”
“کیوں۔۔؟”
“زخموں کی عادت ہوجاۓ تو انکی تکلیف بھی زندگی کا حصہ لگنے لگتی ہے اسفندیار۔۔”
اور اسفندیار کو کبھی کسی لڑکی نے یوں لاجواب نہیں کیا تھا۔
“تم اب تک ناراض ہو مجھ سے۔۔؟”
“کیا مجھے نہیں ہونا چاہیۓ۔۔؟”
سوال پر سوال کررہی تھی۔۔ وہ سانولی سی لڑکی کمال کررہی تھی۔۔
“اپنے محسن سے کوئ ناراض ہوتا ہے بھلا۔۔”
“محسن کے احسان اور ظلم میں جب فرق کرنا ممکن نہ ہو تب میرے خیال سے ناراضگی بجا ہوتی ہے۔۔”
“میں نے کوئ ظلم نہیں کیا رامین۔ سوچ بھی نہیں سکتا میں ایسا۔۔”
“آپ نے یہ سب کرکے یہ جتایا ہے اسفند کے آپ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ اس سارے عرصے میں۔۔ میری بات کی کوئ اہمیت۔۔ کوئ حیثیت نہیں تھی۔۔ میں کچھ نہیں ہوں۔۔ میرا وجود بھلا آپ کے اٹل فیصلوں کے آگے کیا معنی رکھتا ہوگا۔۔!”
اسکی اس آخری بات نے اسفند کو تکلیف پہنچائ تھی۔ اس نے گہرا سانس لے کر اپنا سراپا اسکی جانب پھیرا تھا۔۔
“معافی طلب کرونگا تو کیا تب بھی معاف نہیں کروگی۔۔؟”
اور اب حیران ہو کر پلٹنے کی باری رامین کی تھی۔
“تمہیں بچانا چاہتا تھا میں اس آدمی سے۔ یقین کرو۔۔ اگر وہ قابل ہوتا تمہارے تو کبھی درمیان میں نہیں آتا میں۔۔ بلکہ ہر اس ہاتھ کو کاٹ کر پھینک دیتا جو تمہیں اس سے الگ کرنے کی کوشش کرتا۔۔”
وہ آنکھوں میں ڈھیروں آنسو لیۓ سنے گئ تھی اسے۔ اس پر یقین کرنے کو دل چاہتا تھا۔۔
“کچھ لوگ ہوتے ہیں اسفند۔۔ جو تکلیف سے کسی کو بچانا بھی چاہیں تب بھی تکلیف ہی پہنچا دیا کرتے ہیں۔۔ کیا آپکو اندازہ ہے کہ آپ ان لوگوں میں سے ہیں۔۔!”
وہ سوال نہیں تھا۔۔ اسکے اتنے واضح جملے پر وہ اداسی سے مسکرایا تھا۔۔
“میں جانتا ہوں۔ مجھ سے زیادہ مجھے کوئ نہیں جانتا ہوگا۔ اور اگر میں چھوٹی تکلیف دے کر کسی کو بڑی تکلیف سے بچالیتا ہوں تو ایسا کوئ گھاٹے کا سودا بھی نہیں کرتا میں۔۔”
اسے پتا تھا کہ وہ کیا ہے۔ بس یہ رامین کو ہی آج پتا چلا تھا۔ وہ چند لمحے خفگی سے اسے دیکھتی رہی اور پھر تھک کر بولی۔
“یہ پٹھانوں کا ظالم ہو کر بھی محسن ہونا ضروری ہوتا ہے کیا۔۔!”
وہ چند لمحے تو اسے لب کھولے دیکھتا رہا اور پھر ہنس پڑا۔ رامین بھی نم آنکھوں سے ہنس دی تھی۔
“میں اچھا والا پٹھان ہوں سچ میں۔۔”
“برے ہیں آپ۔۔ بہت برے ہیں۔۔”
“سچ ہے۔۔ بروں کے لیۓ بہت برا ہوں۔۔ تمہارے لیۓ اچھا بن جاؤنگا۔۔ ”
وہ آسودگی سے مسکرائ اور پھر جلدی سے پلٹ کر باہر کی جانب بڑھ گئ۔ اسے آن کی آن ہی میں بہت سی شرم نے گھیر لیا تھا۔ وہ بھی اسے جاتا دیکھتا رہا۔۔ پھر چونک کر اپنے بجتے فون کی جانب متوجہ ہوا۔۔ لالہ رُخ کالنگ لکھا آرہا تھا۔۔ اس نے مسکراتے ہوۓ فون کان سے لگایا تھا۔۔
“لالے میں رامین سے شادی کررہا ہوں۔”
دوسری جانب وہ بے یقینی سے چیخی تھی۔ اس نے فون بے ساختہ ہی کان سے دور ہٹایا۔۔ یہ رُخ بھی ناں۔۔ بس رُخ ہی تھی۔۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...