بس پاپا میں نکل ہی رہا ہوں۔۔
وہ ایک ہاتھ سے سوٹکیس میں کپڑے ڈال رہا تھا جبکہ اسکا دوسرا ہاتھ کان سے لگا تھا۔۔
بیٹا جلدی کرلو 4 بجے آدھے گھنٹے میں فلائٹ نکلے گی تمھیں جب تک ائیرپورٹ بھی پہنچنا ہے۔۔
دوسری جانب سے مسٹر اشرف کی آواز آئی۔۔
آپ فکر نہیں کریں پاپا میں ٹائم پر پہنچ جاؤں گا۔۔
وہ سوٹکیس بند کرنے میں مصروف تھا۔۔
زمان بیٹا یہ تمھارا والٹ اور ضروری پیپرز ہیں۔۔
اسکے کمرے میں داخل ہونے والی صوفیا نے کہا۔۔
وہ لائن کاٹنے کے بعد موبائل جیب میں رکھ رہا تھا۔۔
اچھا امّی اب مجھے نکلنا ہوگا ورنہ پھر سے پاپا کی کال آجائے گی۔۔ اسنے ان سے کہا۔۔
ٹھیک ہے بیٹا سنبھل کر جانا اور جاتے ہی مجھے کال لازمی کرنا۔۔
وہ فکر مند سی ہونے لگیں آخر انکا بیٹا شہر سے نہیں ملک سے ہی دور جارہا تھا۔۔
امّی آپ بلکل فکر نہیں کریں اپنا اور پاپا کا بہت خیال رکھئیے گا۔۔
اسنے انکے گال کو چھوکر کہا تو وہ مسکرانے لگیں۔۔
وہ کمرے سے رخصت ہوکر نیچے اپنی گاڑی کی جانب آیا لیکن گاڑی کے دروازے کی طرف بڑھتے بڑھتے قدم جم گئے،
دل ایک دم زور سے دھڑکا دل کےدھڑکنے کے ساتھ ازلفہ کا چہرہ آنکھوں کے گرد گھومنے لگا، اس سے رہا نہ گیا وہ ایک بار پھر ازلفہ کے گھر کی طرف بڑھنے لگا۔
پہلی دستک ہوتے ہی دروازہ کھول دیا گیا ایسا لگا کہ مانو ازلفہ کو یہ الہام ہوگیا ہو کہ زمان دستک دینے والا ہے وہ سامنے رونی سی صورت لیے کھڑی اسکا منہ دیکھ رہی تھی جبکہ آج اسکا چہرہ بھی اترا ہوا تھا وہ دونوں اپنے نازک ہونٹوں سے کچھ کہہ نہیں پارہے تھے مگر آنکھیں بہت سے پیغام دے رہی تھیں دونوں محبت کے مارے گھر کی دہلیز پر کھڑے ایک دوجے کا منہ تک رہے تھے بہت سے شکوے شکایت اور التجائیں تھیں جو ازلفہ کی آنکھیں اس کی آنکھوں سے کر رہی تھیں۔۔
جبکہ زمان کی نگاہوں میں بےبسی اور مجبوری کے آثار صاف نظر آرہے تھے۔۔
ایک آنسوں اسکی آنکھوں کے پیالے سے فرار ہوکر اسکے نرم و نازک گالوں پر پسلنے لگا زمان کی نگاہوں سے آنسوں کی یہ گستاخی برداشت نہیں ہوئ اسنے اپنے انگلی کے پوروے سے اس آنسوں کو فنا کیا۔۔
اسکی انگلی کے لمس کے احساس سے دو چار آنسوں اور فرار ہوگئے۔۔
مت جاؤ۔۔ وہ کانپتے لبوں سے بمشکل بول سکی۔۔
مت روکو ورنہ جانا مشکل ہوجائے گا۔۔ وہ نظریں جھکاکر بولا۔۔
میں تمھارے بغیر اتنا وقت کیسے گزاروں گی۔۔ وہ تڑپ کر بولی۔۔
تم ایک فوجی کی بیوی ہو ازلفہ تمھیں ہر طرح کے حالات کے لیے تیار رہنا ہوگا، میں تمھارا ہوکر بھی تم سے زیادہ اپنے ملک کا ہوں۔۔
اسکے الفاظ ازلفہ کے سینے میں چبھنے لگے ایک عورت دنیا میں سب سے زیادہ حتیٰ کہ اپنی اولاد سے بھی زیادہ محبت اپنے شوہر سے کرتی ہے وقت آنے پر وہ اپنے جگر کے ٹکرے جیسی اولاد کسی اور کی جھولی میں تو ڈال سکتی ہے مگر اپنے شوہر کو دنیا کی کسی بھی شئے کہ ساتھ بانٹ نہیں سکتی لیکن فوجی وہ واحد شخص ہوتا ہے جسکی بیوی کو دل پتھر سا بنانا پڑتا ہے کیونکہ ایک سپاہی اپنی جان ہتیلی پر رکھ کر زندگی گزارتا ہے نہ جانے کب وہ اپنے ملک کے لیے قربان ہوجائے اور اپنے پیچھے اپنا خاندان چھوڑ جائے۔۔۔
سپاہی ہونا جتنا قابلِ فخر ہے اتنا ہی سپاہی کی بیوی ہونا بھی قابلِ فخر ہے کیونکہ بہت بڑا دل ہوتا ہے اس عورت کہ پاس جو ایک سپاہی کی بیوی ہوتی ہے۔۔
ازلفہ بھی اس بڑے دل کے ساتھ اپنے آنسوؤں کو پوچھ کر مسکرانے لگی۔۔
یہ وعدہ ہے میرا آپ سے مسٹر زمان سکندر آپکی ازلفہ آپ سے زیادہ بہادر اور ہمت والی بن کر دکھائے گی۔۔
اسکی خوداعتمادی دیکھ کر زمان کی پریشانی ایک پل میں ہوا ہوگئی۔۔
وہ اسکے گال کو پیار سے چھوکر مڑ گیا، وہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھ رہا تھا جبکہ وہ چہرے پر مسکراہٹ لیے اسے دیکھتی رہ گئی۔۔
_____________________________________
ملک صاحب آج جلسے میں جو خطاب آپکو عوام اور میڈیا کے سامنے کرنا ہے اسکےلیے میں نے اسپیچ تیار کرلی ہے آپ ایک دفعہ دیکھ لیں۔۔
لاؤنج میں بیٹھے جمال سیٹھی جو کہ شاہ زیب ملک کی پارٹی کے سینیئر کارکن تھے، نے ایک کاپی ان کی طرف بڑھائی جسے کھول کر شاہ زیب ملک اسپیچ کا جائزہ لینے لگے۔۔
ہمممم۔۔ یہ لو شانی ایک بار تم بھی اسے اچھی طرح پڑھ لو۔۔
انہوں نے یہ کاپی اپنے سیکریٹری کی طرف بڑھائ جو انکے برابر والے صوفے پر بیٹھا تھا۔۔
ابھی وہ کسی اور بات کی طرف رخ کر ہی رہے تھے کہ اوپر سے دھڑ دھڑ سیڑھیاں اترتا ہوے زلان کے طرف انکی نگاہ گئ۔۔
کہاں جا رہے ہو تم برخوردار۔۔ شاہ زیب ملک نے اسکو جاتا دیکھا تو پوچھنے لگے۔۔
میں زرا ضروری کام سے جارہا ہوں ڈیڈ۔۔ اسنے کہا۔۔
کونسا کام؟؟ انہوں نے پوچھا تو اسنے ایک گہری سانس لی۔۔
کام ختم ہونے کے بعد میں سب سے پہلے آپکو ہی بتاؤں گا۔۔
ابھی مجھے زرا دیر ہورہی ہے۔۔ وہ دوٹوک جواب دیتا ہوا نکل گیا جبکہ وہ اصل حقیقت بھانپ چکے تھے آخر تھے تو وہ اس کے باپ ہی۔۔
_____________________________________
ڈور بیل پر انگلی رکھ کر کوئ بھول چکا تھا۔۔
ڈور بیل کی مستقل بجنےکی آواز سے ازلفہ کا دل دھل گیا۔۔
وہ ایک دم سے چونک کر نیند سے جاگی اسکے کمرے میں مکمل تاریکی چھائ ہوئ تھی آج شام سے ہی اسکا سر بھاری ہونے لگا تو دوائ کھا کر وہ لیٹ گئ تھی مگر اس بے ہنگم ڈوربیل کی آواز نے اسکی نیند اڑادی ڈور بیل پر رکھا ہوا ہاتھ اب تک نہ ہٹا تھا آج گھر کا ملازم بھی چھٹی پر تھا۔۔
اسنے بمشکل آنکھوں کو کھول کر گھڑی کی طرف نظر دوڑائ جو رات کے آٹھ بجا رہی تھی ۔۔
ابھی وہ اس خیال میں ہی الجھی ہوئی تھی کہ اس وقت دروازے پر کون قیامت بن پر آیا ہے کہ دماغ میں ماضی کا وہ زوردار جھٹکا چکر لگا کر گیا جو آج صبح اسکو ملا تھا،
اور اسے یک دم زلان ملک کا خیال آیا۔۔
وہ تیزی سے ہڑبڑا کر اپنا دوپٹہ ڈھوڈنے لگی جو اسے بیڈ کی دوسری طرف سے ملا دوپٹہ شانوں پر ڈال کر وہ تقریباً بھاگتی ہوئ کمرے سے نکلنے لگی جب تک وہ بھاگتی ہوئ سیڑھیوں کے پاس پہنچی امسہ دروازے کو کھولنے کے لیے اسکے پاس آچکی تھیں۔۔
ممّا رک جائیں دروازہ مت کھولیے گا۔۔ اسنے وہیں اپنی جگہ سیڑھیوں پر کھڑے کھڑے زوردار آواز لگائی۔۔
جس سے امسہ چونک گئیں۔۔ وہ تیزی سے سیڑھیاں پھیلانگ کر نیچے اتری اور انکا ہاتھ پکڑ کر انہیں دروازے سے دور لے گئ۔۔
کیا ہوگیا ہے ازلفہ تم اتنی گھبرائ ہوئ کیوں ہو؟؟
امسہ نے اسکے چہرے کا بغور جائزہ لیتے ہوئے کہا۔۔
ممّا دروازے پر زلان ملک ہے۔۔
اسکے منہ سے یہ بات سن کر وہ ہکابکا رہ گئیں۔۔
میں نے آپکو صبح بتایا تھا نہ سب کچھ اسی سلسلے میں آیا ہے وہ یہاں۔۔
اسکی باتیں سن کر وہ مزید پریشانی میں مبتلا ہوگئیں۔۔
اب کیا کریں ہم ازلفہ؟؟ انہوں نے پوچھا۔۔
کرنا کیا ہے ممّا ہم دروازہ ہی نہیں کھولیں گے بجانے دیں اسکو جتنا بجانا ہے۔۔ وہ نفرت سے دروازے کے طرف دیکھتی ہوئ بولی۔۔
لیکن اگر اس نے کوئ ایسا ویسا قدم اْٹھا لیا تو؟ ان کو خدشہ ہوا۔۔
کرنے دیں اسکو جو کرنا ہے ممّا جب تک آپکی بیٹی زندہ ہے آپکو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔
اسنے انکو حوصلہ دیا۔۔
وہ کچھ نہیں بولیں بس ڈوربیل کی آواز کو محسوس کررہی تھیں جو انکے زہن میں چبھ رہی تھی۔۔
دروازے کے باہر کھڑے زلان ملک کی آنکھیں غصے سے سرخ ہوچکی تھیں اسنے زندگی میں پہلی دفعہ یہ وقت دیکھا تھا کہ جب وہ بے بس ہوا ہو مگر اس بدتمیزی کا بدلہ تو اسے لینا ہی تھا اسنے اپنی پستول نکالی اور ڈور بیل پر نشانہ باندھ کر ٹریگر چلا دیا ایک زور دار فائر کی آواز گونجی جس نے گھر کے اندر بیٹھی ازلفہ اور امسہ کو بری طرح ہلا دیا۔۔
ان کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں نمودار ہونے لگیں۔۔
کچھ دیر میں گاڑی کے اسٹارٹ ہونے کی آواز آئی اور فرّاٹے مارتی ہوئی گاڑی اپنے سفر پر نکل گئ۔۔
گاڑی کے جانے کی آواز اس بات کا ثبوت تھی کہ زلان ملک الٹے قدموں لوٹ چکا ہے مگر اس فائر کی آواز نے ان دونوں کے دماغوں کو سن کردیا تھا۔۔
_____________________________________
اسنے بئیر کی بوتل پوری قوت کے ساتھ لاؤنج کے فلور پر ماری جو چورا چورا ہوگئ اسکی آنکھیں انگارہ ہورہی تھیں جبکہ وہ خود نشے میں ڈگمگا رہا تھا۔۔
ایک دوسری بوتل منہ سے لگائے وہ لاؤنج سے باہر نکلتا ہوا سوئیمنگ پول کی طرف آیا وہ آج ضرورت سے زیادہ ڈرنک کرچکا تھا اور ساتھ ہی اسنے اب تک چھ بئیر سے بھری ہوئی بوتلیں بھی توڑ دی تھیں۔۔
وہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ منہ سے بوتل لگائے ہوئے سوئیمنگ پول کے کنارے پر بیٹھ گیا۔۔
شاہ زیب ملک گھر میں موجود نہیں تھے مگر وہ اپنے ایک خاص آدمی منہاج کو چھوڑ کر گئے تھے۔۔
جو اس وقت زلان کو قابو کرنے کی کوشش کررہا تھا۔۔
اس نے ہمت کر کہ زلان کے کندھے کو چھوا جس پر زلان نے اسکا ہاتھ بری طرح جھڑک دیا۔۔
کیا ہوگیا ہے زلان بابا آپ اس قدر غصے میں کیوں ہیں؟؟
اسنے گٹھنوں کے بل بیٹھ کر اس سے پوچھا جس پر وہ اسکو گھورنے لگا۔۔
یہ سوئیمنگ پول کا پانی اتنا کم کیسے ہوا؟؟
زلان نے اسکو گھورتے ہوئے پوچھا تو اسکی نظریں بےاختیار سوئیمنگ پول پر پڑی پانی واقعی نا کے برابر تھا۔۔
زلان بابا سوئیمنگ پول کی صفائ کروانی ہے اس لیے پانی ختم کروایا ہے آپ فکر نہ کریں کل تک پانی بھر جائے گا۔۔ اسنے کہا۔۔
اسکی بات پر زلان نے اپنی نشے میں ڈوبی ہوئی آنکھیں سوئیمنگ پول کی طرف کیں۔۔
جتنا بھی شراب کا اسٹاک ہے اس گھر میں سب لے کر آؤ۔۔
اسنے منہاج کے منہ کے انتہائی قریب ہوکر کہا جس پر وہ اسکے منہ سے آنے والے بھبھکے کو محسوس کرکے سانس روکنے پر مجبور ہوگیا۔۔
جاؤ۔۔۔ اس بار زلان کی آواز نے اسکے کانوں کو سن کردیا وہ گھبراکر بھاگتا ہوا لاؤنج کی طرف جانے لگا۔۔
کیا سمجھتی ہے وہ۔۔۔۔
اسنے شیر کو للکارا ہے شیر کو۔۔
اسکو اسکی سزا ضرور ملے گی ضرور۔۔۔۔۔!
وہ نشے کی حالت میں خود کلامی کر رہا تھا۔۔
منہاج کچھ دیر میں ہی شراب کا ڈھیر لاکر اسکے سامنے رکھ چکا تھا جبکہ وہ ایک ایک کرکہ ساری بوتلوں کے ڈھکنوں کو کھول کر شراب سوئیمنگ پول میں انڈیل رہا تھا۔۔
یہ کیا کر رہے ہیں آپ زلان بابو؟؟ منہاج ہکابکا رہ گیا۔۔
مگر زلان نے کوئ جواب نہیں دیا وہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنا کام سرانجام دینے میں مصروف تھا۔۔
کچھ دیر میں اسنے آہستہ آہستہ ساری شراب اس پول میں انڈیل دی تھی۔۔
اب تماشہ شروع ہوگا، شروع ہوگا اب تماشہ ازلفہ بدر۔۔۔
وہ شیر کی طرح دھاڑ رہا تھا آج اسکا غصہ اسکا جنون بن چکا تھا جب زلان ملک کو غصہ آتا تھا تو سب اس سے پناہ مانگتے تھے وہ جانور کا روپ دھار لیتا تھا۔۔۔
میں تم دونوں ماں بیٹی کو ایسے نچاؤں گا کہ ساری دنیا تمھاری زلت کا تماشہ دیکھے گی۔۔
وہ چیخ چیخ کر بول رہا تھا۔۔
اسنے اپنی جینز کی جیب سے ماچس نکالای ور ایک تیلی جلا کر اس سوئیمنگ پول میں پھینگ دی جس نے پول میں جاتے ہی پورے پول کو آگ کی نظر کردیا۔۔
منہاج یہ نظارہ دیکھ کر سانس لینا ہی بھول چکا تھا جبکہ زلان ملک اس بھڑکتی ہوئی آگ کو دیکھ کر مسکرارہا تھا۔۔
آج کی رات کی تاریکی مزید گہری ہوگئی تھی ایک عجیب سا ویرانہ تھا اس گھر میں جس ویرانے سے خوف آتا تھا پول میں لگی آگ نے جلد ہی پورے گھر کو دھواں دھواں کر دیا تھا۔۔
جلاکر راکھ کردوں گا تمھارے گھر کو راکھ۔۔ ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
وہ پاگل، مجنون کی طرح منہ پھاڑ کر ہنس رہا تھا جبکہ پول پوری طرح آتش کدہ بن چکاتھا۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...