’’چلیں جو ہونا تھا ہو گیا، آپ کو کون سی رشتوں کی کمی ہے۔ ماشاء اللہ کھاتے پیتے لوگ ہیں، دولت کی کمی نہیں۔ بھائی صاحب کا اپنا کاروبار ہے۔ خاور میں کون سی کمی ہے۔ کہیں اور دیکھ لیں۔ ’’امی جی کا وہی طنزیہ انداز تھا جو نصرت بیگم کے لیے ان کا ہو جاتا تھا۔
’’ہاں اس لیے تو آج آئی ہوں۔‘‘ انہوں نے کہا تو امی جی کے ماتھے کے بل گہرے ہو گئے جبکہ مریم ماں کے تیور دیکھ رہی تھی۔
’’میں سمجھی نہیں۔‘‘
’’میں فوزیہ کے لیے آئی ہوں۔ خاور گھر کا بچہ ہے آپ کا دیکھا بھالا ہے، اِدھر اُدھر بھی تو دیکھ رہی ہیں، خاور کے بارے میں بھی سوچ لیں۔‘‘ مریم نے دیکھا امی کے چہرے کی سرخی بڑھی تھی۔
’’فوزیہ کے لیے تو میں پچھلے تین سالوں سے اِدھر اُدھر دیکھ رہی ہوں، خاور کی منگنی تو صرف سال کا عرصہ ہوا ہے۔ پہلے خیال نہ آیا؟‘‘ نصرت بیگم ٹھٹکیں، تو مریم کا سانس اٹکا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’آپ ہم غریبوں کے گھر کیوں دیکھ رہی ہیں رشتہ، کہیں اور دیکھ لیں۔ ویسے بھی میں تو خود فوزیہ کو کسی چھوٹے موٹے گھر میں نہیں دینے لگی۔ تین سال سے دیکھ رہی ہوں رشتہ ماشاء اللہ سے اب ہمارے خود پہلے والے حالات نہیں رہے۔ پہلے ان کا باپ تنہا کمانے والا اور اتنے لوگ کھانے والے مگر جب سے عبید نے باہر جا کر کمانا شروع کیا ہے، حالات بہت بہتر ہو گئے ہیں۔ میں نے اگر چھوٹے موٹے لوگوں میں رشتہ کرنا ہوتا تو بہت پہلے فوزیہ کے فرض سے نبٹ چکی ہوتی، لوگوں کی خواہش ہوتی ہے دولت مند بہو ہو، تو میری بھی خواہش ہے کہ دولت مند سسرال ہو بیٹی کا۔ نوکر چاکر ہوں، گاڑی ہو، اچھا کاروبار یا ملازمت ہو۔‘‘ امی کہہ رہی تھیں اور مریم حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ ان تین سالوں سے امی جی یہیں کام تو کر رہی تھیں صرف امیر کبیر دولت مند گھر میں ہی رشتہ دیکھنے جاتی تھیں یا بات چلاتی تھیں تو کیا وہ کسی کمپلیکس کا شکار تھیں۔
’’تم انکار کر رہی ہو؟‘‘ نصرت بیگم کی گھمنڈی، مغرور فطرت بھرپور انگڑائی لے کر بیدار ہوئی، ایک دم غصے سے کہا۔
’’جو مرضی سمجھ لو۔‘‘ امی جی کا انداز بڑا عجیب سا تھا۔ مریم کا حلق تک خشک ہو گیا۔ اس نے اور صبا نے اتنی محنت کی تھی اس سارے مسئلے کے حل کے لیے اور اب۔
’’امی جی…‘‘ وہ آہستگی سے بولی مگر وہ متوجہ ہی نہ ہوئیں۔
’’دیکھو میں بچوں کی خواہش پر یہاں چلی آئی، تم یہ نہ سمجھو کہ میں مجبور ہوں یا بے بس ہوں۔ میرے بیٹے کو رشتوں کی کمی تو نہیں۔‘‘ نصرت بیگم فوراً اپنے اصل مزاج میں لوٹ گئی تھیں غصہ تو انہیں ویسے بھی بڑا آتا تھا۔
’’ہاں میں نے کون سا دعوت دی تھی۔ کہیں بھی جا کر دیکھ لو میری فوزیہ بھی ہیرا ہے۔ ابھی تک میں نے صرف اسی لیے لٹکا رکھا تھا کہ مجھے تم لوگوں سے بہتر کوئی جواب نہیں مل رہا تھا۔ یہ جو بینک منیجر کا رشتہ آیا تھا یہ لوگ ہر لحاظ سے بہتر ہیں۔ چند دنوں میں ادھر فائنل کرنے والی ہوں۔‘‘ مریم نے خاصا اُلجھ کر ماں کا چہرہ دیکھا۔
میں نے تو سنا تھا کہ انہوں نے مریم کے لیے کہا تھا اور تم نے انکار کر دیا تھا۔ نصرت بیگم بھی حیران ہوئی تھیں۔
’’مگر اب ان لوگوں کا ارادہ بدل گیا ہے۔‘‘ امی جی کا اطمینان قابل دید تھا۔
’’مگر امی جی…‘‘ اب بولنا ناگزیر ہو گیا تھا مگر امی جی نے ہاتھ اُٹھا کر روک دیا۔
’’تم جائو… کتنی بار منع کیا ہے کہ بڑوں کی باتوں میں مت اُلجھا کرو۔ تمہارے مطلب کی کوئی بات نہیں جائو یہاں سے۔‘‘ انہوں نے بڑے غصے سے ٹوک دیا تو اس نے لب بھینچ لیے۔
’’تو تم صاف انکار کر رہی ہو؟‘‘ نصرت بیگم اُٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔
امی جی کا انداز ہنوز وہی تھا۔ انہیں نصرت بیگم کو اس میدان میں شکست دے کر عجیب سی خوشی ہو رہی تھی۔
’’ہاں… صاف اور واضح انکار، میں فوزیہ کو کہیں بھی بیاہوں مگر تمہیں بیٹی نہیں ہوں گی۔‘‘ مریم کو لگا انہوں نے نجانے کس ذلت کا بدلہ لیا ہے، مارے ہتک و ذلت کے نصرت آنٹی کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔
’’بہت پچھتائو گی میں نے تو سوچا تھا کہ چلو خیر سے گھر کی بچی ہے، سلجھی اور سمجھدار ہے مگر اندازہ نہیں تھا کہ ماں کے مزاج ہی نہیں مل رہے۔‘‘ وہ غم و غصے سے کہہ کر فوراً کمرے سے نکل گئی تھیں اور مریم بنا بنایا کھیل مکمل طور پر بگڑا دیکھ کر حیرت سے گنگ رہ گئی تھی۔
’’امی جی! آپ نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ غم و غصے سے پوچھ رہی تھی۔ امی جی کی آنکھوں میں سال پہلے کا ایک منظر پوری آب و تاب سے جگمگا اُٹھا۔
وہ کسی کام سے نصرت کے ہاں آئی تھیں، خاور عبید کا ہم عمر اُن کو شروع سے ہی بہت پسند تھا، وہ ماں تھیں خاور کی اپنے گھر مسلسل آمد اور فوزیہ میں دلچسپی دیکھ کر چونک گئی تھیں مگر فوزیہ کے نارمل پُرسکون انداز دیکھ کر مطمئن ہو گئی تھیں۔
اچھے اور خوشحال گھرانے میں بیٹی بیاہنا ہر ماں کی خواہش ہے انہیں بھی خاور اس لحاظ سے موزوں لگا مگر ایک دن سنا کہ نصرت اپنی بھانجی لانا چاہتی ہیں۔ اس دن یونہی کسی کام سے ادھر آئی تھیں اور خاور کے کمرے میں اس کی ماں اور باپ کے علاوہ خاور کے بولنے کی بھی آوازیں آ رہی تھیں، صبا حسب عادت ان کے ہاں تھی۔
وہ لوگ کسی بحث میں اُلجھے ہوئے تھے ان کا ارادہ واپس پلٹنے کا تھا مگر نصرت بیگم کی اونچی آواز میں لیا گیا فوزیہ کا نام سن کر وہ ٹھٹک گئی تھیں۔
’’فوزیہ کا اب دوبارہ نام مت لینا، ایسا نہیں ہونے والا۔‘‘
’’آپ اسے سمجھا لیں کرشمہ کے علاوہ میں کسی اور لڑکی کو بہو بنا کر نہیں لانے والی۔ آپ ایک لاحاصل بحث مت کریں۔‘‘ آواز اتنی اونچی ضرور تھی کہ وہ صاف سن سکیں۔
’’اور فوزیہ کو بہو بنانا، میں مرکز بھی نہیں سوچ سکتی۔‘‘ یہ ان کا مخصوص مغرور انداز تھا۔
’’کیوں آخر کیا حرج ہے؟ کیا کمی ہے فوزیہ میں؟ پڑھی لکھی ہے، خوبصورت اور سلیقہ مند ہے اور سب سے بڑھ کر میرے مزاج سے میچ کرتی ہے۔‘‘ یہ خاور تھا۔
’’بحث مت کرو خاور! ایک کم حیثیت لڑکی کو میں اپنے گھر کبھی نہیں لانے والی۔ کرشمہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہے، آپا اور بھائی صاحب کی ساری جائیداد دولت کی تنہا وارث جبکہ یہ فوزیہ اپنے ساتھ کیا لائے گی، چند جوڑے کچھ زیور اور وہی مخصوص جہیز میں نے کاٹھ کباڑ سے گھر نہیں بھرنا اور اپنے سے کم تر لوگوں میں سے لڑکی لانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کسی اور کے متعلق کہتے تو میں شاید سوچتی بھی۔‘‘ امی جی نے اس دن نصرت بیگم کے منہ سے اپنے خاندان، حیثیت کے متعلق سنا تھا، پہلی بار ان کے اندر بیٹیوں کی ماں نہ ہونے کا بوجھ بڑھا اور پھر یہ بوجھ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہی چلا گیا۔
’’نصرت! حرج تک کوئی نہیں، خاور ایک جائز بات کہہ رہی ہے، ہمیں تو اپنے بیٹے کی خوشی عزیز ہے نا۔‘‘ بھائی صاحب اپنی بیگم کو سمجھا رہے تھے۔
’’آپ بھی اس کی باتوں میں آ گئے، میں صاف کہہ رہی ہوں فوزیہ، آمنہ تو کیا میں نبیلہ کی کسی لڑکے کے لیے ہامی نہیں بھروں گی۔ اگر میری مرضی کے بغیر خود کچھ کرنا چاہتا ہے تو کر لے اور نبیلہ کی لڑکیوں کو بھی میرا گھر ملا تھا آگ لگانے کے لیے۔ میرا جی چاہ رہا ہے کہ ابھی جائوں اور جا کر نبیلہ اور اس کی بیٹیوں کی اچھی طرح خبر لوں۔‘‘ یہ اگلے الفاظ تھے، جنہوں نے ان کے دل سے خاور کے لیے تمام احساسات ختم کر ڈالے تھے۔
’’امی! مجھے دولت و جائیداد سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں رہی کبھی۔ ہمارے گھر میں کیا کمی ہے، ہر چیز میسر ہے۔ اس کے باوجود مزید کی طلب یہ تو سراسر لالچ ہوا۔‘‘ خاور بھی غصے سے کہہ رہا تھا، نجانے نصرت بیگم نے جواب میں کیا کہا تھا وہ سنے بغیر پلٹ آئی تھیں۔
چند دن وہ پریشان رہی تھیں اور پھر ایک دن انہوں نے فوزیہ کو بٹھا کر اس کے دل کی بات جاننا چاہی تھی۔ فوزیہ خاور کے جذبات و احساسات سے قطعی لاعلم تھی ان کے سامنے تو اس نے لاعلمی کا ہی اظہار کیا تھا اور پھر انہیں تو شاید ضد سی ہو گئی تھی لاشعوری طور پر وہ فوزیہ کے لیے صرف وہی رشتہ دیکھنے پر تیار ہوتی تھیں جو نصرت جیسے لوگوں کی مالی حیثیت سے بلند ہو۔ ان کے دل میں یہ خیال ضد پکڑ چکا تھا کہ وہ فوزیہ کو ایک بہت اچھے اور امیر گھرانے میں بیاہیں گی تاکہ نصرت بیگم کے سامنے گردن اکڑا کر چل سکیں مگر وقت نے گویا اُلٹی چال چل دی تھی۔ وہی نصرت بیگم جو فوزیہ سے انکار کے بعد اب اپنی بھانجی کی طرف سے ناامید ہو کر ان کے گھر آئی تھیں تو ان کو انکار کر کے وہ مطمئن تھیں کہ انہوں نے عرصہ پہلے کی جانے والی اپنی تذلیل کا بدلہ لے لیا ہے۔
مریم کا غم و غصے سے بُرا حال تھا۔ ابو جی اس کی پہلے ہی کافی سنتے تھے اس نے ان سے جا کر سب کہہ ڈالا۔ دوسری طرف نبیلہ بیگم کے انکار پر نصرت بیگم کی بھی انا بلند ہو چکی تھی وہ اب دوبارہ کسی بھی سلسلے میں اس گھر میں نہیں آنا چاہتی تھیں۔ صبا تمام صورتحال بگڑنے پر ازحد پریشان تھی۔ اس نے مریم کے مشورے پر خاور بھائی کو کال کر دی تھی۔ خاور تو اس سارے سلسلے سے ہی بے خبر تھا حتیٰ کہ کرشمہ سے رشتہ ختم ہو جانا ہی ایک شاکنگ نیوز تھی اوپر سے نصرت بیگم کا فوزیہ کا رشتہ لے کر جانا اور نبیلہ چچی کا انکار وہ اسی شام لوٹ آیا تھا۔
رات کے کھانے کے بعد امی ابو کے کمرے میں وہ چاروں موجود تھے۔ بحث وہی مسئلہ تھا۔
’’آپ لوگ مجبور مت کریں اب اس گھر میں دوبارہ نہیں جانے والی۔‘‘ امی اپنی تذلیل نہیں بھول رہی تھیں اور ابو جی کی عدالت میں مقدمہ تھا خاور نے بے چین ہو کر ابو جی کو دیکھا انہوں نے آنکھ کے اشارے سے چپ رہنے کو کہا۔ صبا مطمئن تھی اسے اُمید تھی کہ ابو جی امی کو منا کر ہی اب اُٹھیں گے۔
’’چلو تم نہ جانا میں جا کر بات کر لیتا ہوں، بھائی صاحب اور بھابی بیگم سے۔ بھئی ہمیں اپنے بچوں کی خوشی دیکھنی ہے۔ کرشمہ کے لیے تم نے زور دیا اور پھر منگنی کر دی میں نے خاموشی اختیار کی، اب تم نے خود ہی وہ رشتہ ختم کیا ہے تو دو تین بار تمہیں جا کر بات تو واضح کرنا چاہیے تھی نا۔ اس نے انکار کر دیا تو کیا غرض تو ہمیں ہے نا۔‘‘ ابو جی رسانیت سے کہہ رہے تھے۔
’’اس نے میری صاف بے عزتی کی ہے۔ میرے بیٹے کو رشتوں کی کمی نہیں ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک مل جائے گی۔ میں نہیں وہاں جا کر دوبارہ ناک رگڑنے والی، ہے کس بات کا غرور ہے اسے۔ میں بھی اب توزیہ سے بہتر لڑکی ڈھونڈ کر دکھائوں گی۔‘‘ ان کا وہی ہٹیلا انداز قائم تھا۔ ابو جی کے چہرے کے زاویے بگڑے۔
’’یعنی پہلے کی طرح تم اب پھر لوگوں کے گھر جا کر ان کی بچیوں میں خامیاں نکالا کرو گی۔‘‘
’’اپنے اکلوتے لائق فائق کے لیے اسی کے جوڑ کی لڑکی ڈھونڈوں گی، جو بھی دیکھے حیران ہو جائے ایسی ہی بہو لائوں گی۔‘‘ امی جی کی خواہ پھر اُبھر آئی تھی۔
’’مجھے یہ لگا تھا کہ شاید کرشمہ کے رشتے سے انکار کے بعد تم سنبھل گئی ہو گی۔ صد افسوس تمہاری ذہنی حالت کو پہلے سے بھی خراب ہے۔ بہت عرصہ میں خاموش رہ لیا۔ تم اکلوتے لائق فائق بیٹے کی ماں ہو اللہ کا شکر ادا کرو کہ کسی بدتمیز جاہل اور اپنی من مانی کرنے والے بیٹے کی ماں نہیں ہو، اس نے پہلی بار جب اپنی خواہش کا اظہار کیا تم نے اپنی خود پسندی میں انکار کر دیا، تمہارا بیٹا خاموش ہو گیا، کوئی ہوتا ایسا ویسا تو اپنی ضد پوری کرتا۔ ماں کے انکار کو ایک طرف کر کے خود شادی کر لیتا، اب بھی وہ صلح صفائی سے دوبارہ جانے کو کہہ رہا ہے، اگر تم چلو گی تو ٹھیک ورنہ میں صبا اور خاور ایک فیصلہ کر چکے ہیں، میں کل صبح جا کر بھائی صاحب سے بات کرنے والا ہوں، تمہاری ضد میں میں اپنے بیٹے کی خوشیاں نہیں قربان نہیں کرنے والا۔‘‘
’’اور… اور میری جو نبیلہ نے بے عزتی کی ہے انکار کر کے…؟‘‘ وہ شوہر کے دو ٹوک انکار پر صدمے سے بے حال ہو رہی تھیں۔
’’اور تم پچھلے کئی سالوں سے بھابی بیگم، ان کے بچوں کے ساتھ جو سلوک کرتی آ رہی ہو، شکر کرو بھابی بیگم نے صرف انکار کیا ہے وہ اگر اپنی ساری پچھلی بے عزتی کا بدلہ لینے لگتیں تو تم اپنے ساتھ ساتھ ہمیں بھی ذلیل کرواتیں۔‘‘ خاور نے حیرانی سے باپ کو دیکھا وہ انہیں جتنا لاعلم سمجھ رہا تھا، وہ اتنے ہی باخبر تھے۔
’’میں اب وہاں نہیں جانے والی۔‘‘ انہوں نے اب کے جھنجھلا کر انکار کیا تھا۔
’’سوچ تو تمہیں اپنے بیٹے کی خوشی سے بڑھ کر اگر اپنی انا عزیز ہے تو بے شک مت جائو۔ میں تو کل ہی جائوں گا۔‘‘
’’اور اگر اب پھر انکار ہوا تو؟‘‘ شوہر کا دو ٹوک انداز دیکھ کر ان میں بھی ذرا نرمی آئی۔
’’تو کیا حرج ہے۔ غرض ہمیں ہے اگر ہاں کروانے ہمیں بار بار جانا پڑے تو جائوں گا کیونکہ اس میں ہی میرے گھر اور میرے بیٹے کی خوشیوں کا سوال ہے۔‘‘ اب کے امی مکمل لاجواب ہو کر رہ گئی تھیں۔ صبا نے ایک گہرا سانس لے کر بھائی کو دیکھا خاور کے چہرے پر بھی ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔
ابو جی نے چچا سے بات کی تو انہوں نے بیگم سے بات کر کے جواب دینے کو کہا اور جب انہوں نے نبیلہ بیگم سے بات کی تو انہوں نے فوراً انکار کر دیا۔
’’میں انکار کر چکی ہوں۔ وہ بات ختم، بار بار دہرانے کا فائدہ نہیں…‘‘ مریم ہمیشہ کی طرح اب بھی اس اہم موضوع پر موجود تھی، اس نے فوراً ابو جی کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
’’دیکھا ابو جی! امی نے پہلے بھی ایسے ہی انکار کیا تھا۔‘‘ امی نے گھور کر بیٹی کو دیکھا۔
’’تمہیں کتنی دفع کہا ہے کہ بڑوں کے معاملے میں مت دخل اندازی کیا کرو۔ جائو دفعہ ہو جائو یہاں سے۔‘‘
’’بُری بات ہے نبیلہ! جوان بیٹیوں کو ایسے نہیں جھڑکتے۔‘‘ ابو نے فوراً ٹوک دیا۔
’’شکر کرو ہمارے بچے بڑے سمجھدار ہیں۔ بڑے اگر غلط فیصلہ کر رہے ہوں اور بچے مشورہ دیں تو ان کی بات سننے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ مریم نے ایک دم گردن اکڑائی۔
’’تمہیں کس بات پر اعتراض ہے؟‘‘ ابو جی نے بڑے پُرسکون انداز میں پوچھا۔
امی جی نے ایک گہرا سانس لیا اور دل میں تکلیف دیتا راز اُگل ڈالا، ابو جی سکون سے سنتے رہے اور مریم خاموش رہی۔
’’ہوں تو یہ بات تھی۔‘‘ ساری بات سن کر وہ بولے۔
’’ہاں… اب نصرت کو جب اس کی بھانجی کی اصلیت واضح ہوئی ہے تو اسے میری فوزیہ نظر آ گئی۔ میں جذباتی ہو کر ہاں کہہ بھی دوں تو کیا گارنٹی ہے کہ وہ فوزیہ کو دل سے مان کر وہی اہمیت دے گی جو بہو کی حیثیت سے وہ حق رکھتی ہے۔ گلے میں پڑا ڈھول تو ہر کوئی بجاتا ہے، اگر وہ دل سے راضی ہوتی تو میرے انکار پر اُٹھ کر کیوں چل دیتی، بار بار آتی بات کرتی۔ میں ماں ہوں اور ہر ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد اپنے سسرال میں خوش اور عزت کی زندگی گزارے۔‘‘ امی جی نے دل کی بات کہی۔
’’دیکھو نبیلہ! یہ چھوٹی چھوٹی باتیں دل میں کدورت پیدا کرتی ہیں۔ خاور بہت اچھا اور سلجھا ہوا لڑکا ہے۔ صبا اور مریم میں، میں کوئی فرق نہیں سمجھتا اور سب سے بڑھ کر ہماری بیٹی ہماری آنکھوں کے سامنے ہو گی۔ فوزیہ گھر بنانے کا فن جانتی ہے، رہ گئیں نصرت بہن تو جب دونوں کو اکٹھے رہنے کا موقع ملے گا تو سب اعتراض ہوا ہو جائیں گے۔‘‘
اور نصرت کی وہ لمبے چوڑے جہیز، مال اسباب کی خواہش۔‘‘
’’خاور اور اس کے باپ نے کہہ دیا کہ انہیں جہیز کا لالچ نہیں ہے۔ وہ بغیر جہیز کے فوزیہ کو بیاہنا چاہتے ہیں مگر ہم بھی بیٹی والے ہیں کچھ دے دلا کر ہی رُخصت کریں گے۔ میرا خیال ہے اپنی بھانجی کی طرف سے انکار پر نصرت بہن کی سوچ کسی حد تک بدل گئی ہے، رہ گئی فطرت بدلنے کی بات تو وہ تو نہیں بدل سکتے، اب ایک بندے کی وجہ سے تم اتنا اچھا رشتہ ہاتھ سے جانے دو گی؟‘‘ ابو جی اب کے سوالیہ نظروں سے اپنی شریک حیات کو دیکھ رہے تھے اور امی جی کوئی جواب نہ پا کر بے بسی سے مسکرا دی تھیں۔