اس طرح
“وہ گھر کوتمھارے رہنے لائق ہو، دیکھ لینا میں بہت جلد تمھیں ان سنگدل لوگوں کی قید سے نکال لاوں گا۔”
“اس کو تو اگر میں یہ کہتا کہ بھاگ جاو یا کوٹ میرج کرلو۔”
اچانک اتنی دیر میں میرے منہ سے چیخ نکلی تھی، ریحان بھای نے اٹھا کر مجھے زور سے لات ماری تھی۔ اور میرا سر میز کے نوکیلےکونے سے ٹکرایا تھا، خون کا دوارہ نکلا تھا، اتنا زیادہ خون دیکھ کر بھی دونوں نہیں روکے تھے۔ بند ہوتی آنکھوں سے میں نے کسی کی آواز سنی تھی شاید نجمہ بھابھی کی جو انہیں روک رہی تھیں۔
ہوش آیا تو میں اپنے کمرے میں تھی، میرے جسم کا جوڑ جوڑ دکھ رہاتھا، سر میں درد کے مارے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ پورا جسم پٹیوں میں جکڑا ہوا تھا۔ مگر اس تکلیف سے زیادہ شدید وہ درد اور تکلیف تھی جو میری روح جھیل رہی تھی، اور اس سب سے بڑھ کر آبی کا خوف، بھائیوں کو خوف شاید اب وہ مجھے قتل کر دیں گے۔ ہوسکتا ہے زہر دے دیں، سوتے میں گلا دبا دیں۔ دونوں بھابھیاں میرے پاس بیٹھیں تھیں شاید ڈاکٹر کو بھی انہوں نے ہی بلوایا تھا۔
ڈر کے مارے آنکھوں سے آنسوں بھی نہیں نکل رہے تھے۔ وہ دونوں مجھ سے جس جس طرح کے سوال کر رہی تھیں، انہوں نے چند گھنٹوں میں مجھے پندرہ سے نکال کر پچیسویں سال میں پہنچا دیا تھا۔
” پتہ نہیں کب سے ملاقاتیں چل رہی ہیں میں سیدھی سادھی گھیریلو عورت، مجھے کیا پتہ کہ مصباح کے گھر جانے کے بہانے کہا جایا جاتا ہے۔ اور آج تو حد ہی ہوگئ مجھے سوتا دیکھ کر مجھے بتائے بغیر ہی اس سے ملنے چوری چھپے گھر سے نکل گئ۔ وہ تو شکر ہوا ماسی نے کام کرتے ہوئے اس کی باتیں سن لی تھیں۔ اس نے مجھے بتایا، میں نے گھبرا کر فورا ریحان کو فون کیا۔ بس نجمہ! اس واقعہ کا کسی سے ذکر مت کرنا۔ اپنا تو منہ کالا کر کے آئ ہے کم ازک۔ بھائ بےچارے تو سر اٹھا کر دنیا۔ کا سامناکر سکیں۔ اگر کسی کو بھنک بھی پڑ گئ اس بات کی تو ہم توکسی کو منہ دکھانے کے لائق بھی نہیں رہیں گے۔”
وہ آنکھوں میں آنسوں لیے نجمہ بھابھی کو سمجھا رہی تھیں ۔ میں خاموشی سے خود پر لگنے والا ہر الزام سن رہی تھی۔ کھڑکی کے پاس سے گزرتے آبی کو دیکھ کر مجھے مزید ذلت کا احساس ہوا تھا۔ انہوں نے بھی سیما بھابھی کی ساری باتیں سن لیں تھیں، مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں اپنی صفائ میں ایک لفظ بھی بولوں، آبی اور دونوں بھای میری شکل تک دیکھنے کے روادار نہ تھے۔ میں نے شدت سے خدا سے اپنے لیے موت مانگی تھی، نجمہ بھابھی اور سیما بھابھی کھانا یا دوا دینے میرے پاس آتیں اور پھر جس جس طرح کے سوال کرتیں وہ مجھے ذلت کے اندھیرے غار میں دکھیل دیتے۔
” اتنی ذلت، میرے اللہ اتنی ذلت، بس تو مجھے اپنے پاس بلالے۔ مجھے میری امی کے پاس بھیج دے۔”
میں سارا دن بستر میں منہ چھپائے روتی رہتی تھی۔
مجھے احساس تھا کہ میں کیا کرنے والی تھی، دن، ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں تبدیل ہورہے تھے۔ میرا میٹرک کا رزلٹ آگیا تھا جس میں، میں بمشکل ڈی گریڈ لے کر پاس ہو پائی تھی۔ سارا دم کمرے میں پڑی رہتی تھی ، کوئ مجھ سے بات کرنا، میرے پاس آنا پسند نہیں کرتا تھا۔ رزلٹ والا اخبار بھی حنا نے مجھے لا کر دیکھایا تھا۔ رزلٹ دیکھ کر میں زاروقطار رونے لگی تھی ، آج رزلٹ دیکھ کر آبی مجھے ڈانٹے گے نہیں۔آبی کی وہ ڈانٹ جس سے میں چڑا کرتی تھی آج اس کئ خواہش مند تھی۔
“آبی پلیز مجھے ڈانٹیں، ماریں ، گالیاں دیں مگر اس طرح نظر انداز تو نہ کریں۔”
وقت نے اتنے سے دنوں میں مجھے جو سمجھ داری دی تھی۔ اس کی بدولت میں بہت کچھ سمجھ گئ تھی یہی کہ اپنے تیئں میں سیما بھابھی کی آنکھوں میں دھول جھونک کر رمیز سے فون پر باتیں کیا کرتی تھی مگر وہ شروع وقت سے اس بات سے آگاہ تھیں۔سب کچھ جانتی تھیں، مگر انہوں پھر بھی نے مجھے روکا نہیں تھا۔
میں نے مصباح کے گھر سے جرنل لانے کا بہانا کیا انہوں نے بغیر کسی حیل و حجت کے اجازت دے دی۔ میں نا تجربہ کاری کے ہاتھوں کچھ سمجھ نہ سکی، پھر اس عوز انہوں نے ساری باتیں سن لی تھیں۔ انہیں پتا چل چکا تھا کہ میں اس کے گھر جانے والی ہوں, مگر انہوں نے کچھ ظاہر نہیں کیا۔ اور انہوں نے بڑے آرام سے اجازت دے دی تھی, میں سمجھ ہی نہیں پائ تھی کہ وہ میرے ساتھ کیا کرنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے ریحان بھای فرمان بھائ اور آبی سب کو خود فون کرکے بلایاتھا۔
وقت کی اس دلدل سے اب میں کیونکر نکل پاؤں گئ۔ میں اتنی نیک عورت کئ بیٹی حس کی ساری زندگی محرم اور نا محرم کے چاروں میں گزر گئ جو اتنی عفت ماب اور حیا دار تھی کہ گھر میں بھی شاذو نادر ہی ڈوپٹہ اس کے سر سے ہٹتا ہوگا اور کیا کرنے چلی تھی میں۔ کیا ماں کے دودھ میں تاثیر نہیں تھی یا میں ہئ اپنے خمیر میں بے غیرتی لگی کر پیدا ہوی تھی۔ مجھے خود سے نفرت ہوگی تھی بے اندازہ اور بے تحاشا نفرت ۔ میرا دل چاہتا میں خود کشی کر کے اس زندگی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر ڈول۔
پھر ایک رات نجانے رات کا کون سا پہر تھا میرے کمرے میں گلابوں کئ اور کافور کئ ملی جلی سی مہک محسوس ہوئی۔ کوئ میرے سرہانے بیٹھ گیا اور میرے ماتھے پر بڑی نرمی اور محبت سے ہاتھ رکھا۔ وہ کتنا مانوس س لمس تھا میں نے ہڑبڑ لر آنکھیں کھول دی تھیں۔
“امی! میں بے اخیتار اٹھ کر بیٹھ گئ تھی۔
زوبی!! اپنی امی کے گلے نہیں لگوگی, امی سے پیار نہیں کرواوگی ۔ انہوں نے بانہیں پھیلائی تھیں اور میں بالکل بچین کی طرح ان کے سنیے میں منہ چھیا کر ڈھاڑیں مار مار کر رونے لگی تھی۔
امی مجھے اپنے ساتھ لے چلیں ۔ کوئی مجھ سے بات نہیں کرتا سب مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ مجھ سے غلطی ہوگی ہے بہت بڑی غلطی اور ابی تو میری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے۔۔ بے ربط جملے میرے منہ سے نکل رہے تھے وہ پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھیں۔
” تم اپنے ابی سے معافی مانگ لو۔ انہوں نے اپنے مخصوص نرم ملائم لہجے میں کہا تھا۔
وہ کبھی بھی مجھے معاف نہیں کریں گے۔ کیا آپ ابی کو جانتی نہیں ہیں وہ تو بغیر قصورکے سزا دیا کرتے ہیں جبکہ اب کئ بار تو واقعی میرا قصور ہے۔ میں عورت ہوئے ان کئ بات کی نفی کر رہی تھی۔۔
زوبی میری بات سنو ۔۔ “انہوں نے مجھے خود سے الگ کرتے ہوے پہلی بار سخت لہجہ اختیار کیا تھا۔ میں دھندلی نگاہوں سے ان کی طرف دیکھنے کئ کوشش کرنے لگی۔
“تم بیٹی ہو نا, ماہ طلعت کی بیٹی ۔ تمہیں خود کو ثابت کرنا ہوگا کہ تم ماہ طلعت کی بیٹی ہو۔ اتنی ہی اچھی اتنی ہی نیک اور اتنی ایثار پیشہ ۔ نیک اولاد صدقہ جاریہ ہوتی ہے اور تمہیں ایسی ہی بیٹی بن کر دکھانا ہے تمہیں سب کو برا دینا ہے کہ تم ایک شریف ماں کی شریف بیٹی ہو۔
وہ اپنے ہاتھوں سے میرے آنسو صاف کرتے ہوے حکمیہ انداز میں بول رہی تھیں۔ اور میں بس ان کا چمکتا نورانی چہرہ تکے جارہی تھی۔
َاب زندگی میں کبھی ڈگمگانا نہیں ہے کبھی راہ سے نہیں بھٹکنا نہیں ہے تمہیں ایسا بننا ہے زوبی کہ میں تم پر فخر کر سکوں تم اپنی امی کا مان رکھوگی نہ؟؟وہ سوالیہ نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھیں
” ماں۔ “میرے جسم کے روئیں روئیں سے صدا بلند ہوی تھی۔
میں نے اپنی بیماری کے سخت ترین دنوں میں اکثر خدا سے ایک ہی دعا مانگی تھی جو میرے ساتھ ہوا وہ میری بیٹی کے ساتھ نہ ہو۔ اس کی زندگی میں ایسا شخص آئے جو اس سے محبت نہیں کرے اور اس کی عزت بھی کرتا ہو اور ایسا شخص تمہاری زندگی میں ضرور آئے گا یہ راہ میں آئےپتھر تمہیں ان سے ٹھوکر نہیں کھانی خود کو بچا کر سنبھال کر اس کے لئے رکھنا ہے۔ تم دیکھنا وہ ضرور آئے گا۔ ”
آنکھ کھلی تو امی میرے پاس سے جاچکی تھی مگر ان کی آواز وہ میٹھا شہد آگیں لہجہ وہ پیار بھرا لمس وہ سب میرے پاس چھوڑ گئ تھیں ۔ اچانک مجھے کیا ہوا تھا میں بستر سے اٹھ گئ تھی۔ اپنے کمرے سے نکلی تو مجھے خود نہیں معلوم تھا میں کہاں جا رہی ہوں ۔ چند لمحوں دور خود کو ابی کے کمرے میں پایا تھا۔
ابی مجھے معاف کر دیں پلیز مجھے معاف کر دیں ۔ ابی میں بھٹک گئ تھی مجھ سے غلطی ہوگی ۔ مگر آپ مجھے معاف کر دیں۔ میں وعدہ کرتی ہوں آیندہ زندگی بھر آپ کو کبھی ناراض نہیں کروں گی ایسا کچھ نہیں کروں گئ جس سے
167 آپ کو تکلیف ہو۔“ میں آبی کے پاٶں پکڑ کر چیخ چخ کر روتے ہوۓ بول رہی تھی وہ نیند سے بیدار ہوۓ تھے، تکیے سے سر ذا سا اونچا کر کے وہ مجھے خاموشی سے دیکھ رہے تھے وہ اپنے پاٶں کھینچ کر ہٹانے لگے تو میں ان کے پاٶں پر سر رکھ کر روئی تھی۔ ”آبی میرا یقین کریں میں نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے میں اپنی مری ہوٸ ماں کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ میں نے کوٸی گناہ نہیں کیا آپ کا دامن داغ دار نہیں کیا۔“ وہ کچھ نہیں بولے تھے بہت دیر تک رونے کے بعد میں خود ہی چپ ہوگٸ تھی۔ ”صبح ہونے میں تھوڑی سی دیر رہ گٸ ہے جاٶ جا کر سو جاٶں۔“ وہ مجھ پر نظر ڈالے بغیر دیوار پرنظر مرکوز کیۓ عجیب سے لہجے میں بولے تھے۔ ”آپ کے کہنے پر گٸ تھی میں آبی کے پاس آپ سے کہا تھا نا، وہ کبھی بھی مجھے معاف نہیں کریں گے اور کیوں کریں گے وہ مجھے معاف، زندگی میں پہلی دفعہ تو وہ مجھ سے کسی جاٸز بات پر ناراض ہوۓ ہیں۔“ میں خود کو بمشکل گھسیٹ کر اپنے کمرے تک لاٸی تھی اور آتےہی بیڈ کے اس جگہ جہاں ابھی ابھی امی بیٹھ کر گٸ تھیں، ہاتھ پھیرتے ہوۓ بڑبڑاٸی تھی لہجہ میں شکوہ تھا، نا امیدی تھی اور گہری مایوسی بھی۔ اگلی روز میں نے کمرے مں لیٹے آبی ریحان بھاٸی اور فرمان بھاٸی کے لڑنے کی آوازیں سنی تھیں۔ پتہ نہیں وہ لوگ کس بات پر جھگڑ رہے تھے مگر آوازیں بہت بلند تھیں۔ آبی کی آواز ان دونوں کے مقابلے ہلکی تھی شاید وہ لوگ لاٶنج میں تھے۔ ”آپ اس بے غیرت کو پھر آزمانے جا رہے ہیں، انسان وہ جو ٹھوکر کھا کر سنبھل جاۓ مگر آپ اس پر اعتبار کرنے کو تیار ہیں۔“ فرمان بھاٸ چیخے تھے۔ ”ہمیں اسے ایک موقعہ دینا چاہیے فرمان“ آبی کی دھیمی سی آواز آٸی تھی۔ ”آپ موقعہ کی بات کر رہے ہیں میرا بس چلے تو میں اس کی لاش کے اتنے ٹکڑے کروں کہ کوٸ پہچان نہ سکے۔ آپ اسی لڑکے سے یا کسی کے بھی ساتھ دو بول پڑھوا کر اسے یہاں سے دفعہ کریں۔ سچ کہتا ہوں آبی ! اس کی شکل دیکھوں تو خون کھولنے لگتا ہے۔ صرف آپ ہی کی وجہ سے وہ زندہ سلامت یہاں موجود ہے۔“ وقفہ وقفہ سے ایسے جملے میری سماعتوں سے ٹکرا رہے تھے۔ ”میں فیصلہ کر چکا ہوں ریحان اب تم لوگ راضی ہو یا نہیں۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔“ یہ آخری جملہ تھا جو آبی نے اس رات بولا تھا۔ ان کی اس بات کے جواب میں شدید طیش کے عالم میں ریحان بھاٸ نے فوراً کہا تھا۔ ”ٹھیک ہے پھر میں یہ گھر چھوڑ دوں گا۔ میں اپنے بیوی بچوں کو لے کر کل ہی یہاں سے چلا جاٶں گا ۔“ آبی نے انھیں روکنےیاسمجھانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ میں اپنے کمرے میں ساکت پڑی تھی۔ مجھے پتہ تھا آبی بیٹوں اور خاص طور پر ریحان بھاٸ کو کتنا چاہیتے ہیں۔ سیما بھابھی اور ان کے بچوں میں آبی کی جان ہے، مگر جب گزرتے کٸ دنوں میں بھی وہ لوگ کہیں نہیں گۓ تو میں نے سکون کا سانس لیا تھا۔ مجھے لگا تھا کہ شاید آبی نے انہیں منالیا ہے اور جانے سے روک دیا ہے مگر یہ بات بہت سالوں بعد میری سمجھ میں آٸی تھی کہ آبی نے انھیں روکنے یا منانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ریحان بھاٸ تو سخت ترین غصہ کی حالت میں گھر چھوڑنے پر تلے ہوۓ تھے مگر سیما بھابھی نے انہیں سمجھا بجھا کر ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔ ریحان بھاٸی ان ہی کے دماغ سے سوچتے تھے، ان ہی کی زبان بولتے تھے، پتہ نہیں سیما بھابھی نے ان پر ایسا کیا جادو کیا ہوا تھا۔ وہ آنکھیں بند کرکے جو کچھ وہ کہتیں وہ کیۓ جاتے اور سیما بھابھی بہرحال اتنی عقل مند تو تھیں کہ آبی کی دولت جاٸیداد میں سے اپنا اور اپنے بچوں کا حق محض کسی خودساختہ انا، ضد اور غیرت کے نام پر قربان نہ کرنے دیتیں۔ آبی نے میرا کاج می داخلہ کروا دیا تھا، بات وات انہوں نے مجھ سے کوٸی خاص نہیں کی تھی، بس فارم لا کر دے دیا پھر خود ساتھ لے جا کر ایڈمیشن سے متعلق تمام کارواٸی نبٹا دی، آبی کو بہت شوق تھا کہ ان کا کوٸ بچہ ڈاکٹر بنے،
اسی لیے انہوں نے انٹر میں فرمان بھایٸ کو پری میڈیکل گروپ میں ایڈمیشن دلوایا تھا مگر ان کو پڑھاٸی میں دلچسپی ہی نہیں تھی۔ میں نے خود سے عہد کر لیا تھا کہ مجھے آبی کی نظر میں سرخرو ہونا ہے۔ امی سے کیا وعدہ نبھانا ہے او یہی سوچ مجھے پتی میڈیکل کی طرف لے گٸ تھی۔ پھر میں جو کتابوں، پڑھاٸی اور اسکول کے نام پر بےزار رہا کرتی تھی، ایک دم بدل گٸ۔ پڑھاٸی پڑھاٸی بس پڑھاٸی میری زندگی کا محور بس اس کے علاوہ کچھ تھا ہی نہیں۔ کالج میں میں نے کسی سے بھی دوستی کرنے کی کوشش نہیں کی تھی، گھر پر ابھی بھی کوٸی مجھ سے بات نہیں کرتا تھا۔ بھائیوں کے سامنے جانے سے تو میں گرز کرتی تھی۔ مجھے ان کی اپنی سمت اٹھتی لال انگارہ آنکھیں دہلا یا کرتی تھیں۔ ان کی انکھوں میں مجھے دیکھ کر خون اتر ایا کرتا تھا۔ سیما بھابھی او نجمہ بھابھی ضرورتاً بات کرتیں تھیں اور آبی کبھی کبھار کمرے میں آکر ”کچھ چاہیے تو نہیں؟“ ” پڑھاٸی کیسی جا رہی ہے؟“ قسم کے سوالات کر کے دو چار منٹ میں ہی چلے جایا کرتے تھے۔ اب آ بی کے پیسے دینے پر سیما بھابھی میرے لیے جیسے بھی کپڑے لاتیں ، مجھ ان میں کوٸی عیب نظر نہیں آتا تھا۔ وہ لوگ اپنے اپنے بچوں کو لے کر گھومنے جاتےہیں یا ٹی وی دیکھ رہے ہیں مجھے اس سے بھی کوٸی فرق نہیں پڑتا تھا۔ میرے لیے تو زندگی کا مقصد صرف پڑھاٸی تھی۔ ”تم ماطلعت کی بیٹی ہو تمھیں ایسا بننا ہے زوبی میں تم پر فخر کر سکوں۔“ یہ جملے مجھے مسلسل اور پہیم جدوجہد پر اکساتے رہتے تھے۔ ہر رات میں پڑھتے پڑھتے ہی رإٹینگ ٹیبل پر سر رکھ کر سوجایا کرتی تھی۔ بستر پر باقاعدہ سونے کے ارادے سے لیٹنا بھی بھول گٸ تھی۔ دنیا میں کیا ہورہا ہے، لوگ کا کہہ رہےہیں،کون کیا کر رہا ہے، کون کیا کہہ رہا ہے، میں نہیں جانتی تھی۔ جس روز میرے انٹر کا رزلٹ آیا اور میں ٨٤% لے کر پاس ہو گٸ تو بے اختیار میں نے امی کی تصویر کی طرف دیکھا تھا مجھے ایسا لگا تھا جیسے ان کے سنجیدہ چہرے پر مسکراہٹ پھیل گٸ تھی۔ میرے کچھ کہے بغیر آبی نے میڈیکل کالج میں ایڈمیشن کے لیے فارم لا دیا تھا۔ ان کے دو ٹوک انداز کے سامنے کوٸ بھی نہیں ٹِک سکتا تھا، تو ریحان بھاٸ اور فرمان بھاٸ تھوڑا بہت کہہ سن کر چپ ہو گۓ تھے۔ ان دونوں کا خیال تھا کہ میری شادی کر دینی چاہیے میں قابل بھروسہ نہیں ہوں۔ کو ایجوکیشن میں پڑھ کر میں کیا گل کھلاٶں گی۔ میں نے کالج جانا شروع کر دیا سر سے لے کر پاٶں تک چادر لپیٹ کر، کالج کے مقابلے میں میڈیکل کالج میں بہت گھما گھمی اور متحرک زندگی تھی مگر میں انداز یہاں بھی ویسا ہی تھا۔ پڑھاٸ کے حوالے سے میری دو چار لڑکیوں سے بات چیت تھی، وہ بھی اس لیے کہ مختلف اسإیمنٹ اور پریکٹیکلز کے لیے گروپس میں کام کرنا پڑتا تھا۔ مگر اس میں دوستی کا رنگ شامل نہیں تھا، اکثریت کے نزدیک میں ایک مغرور لڑکی تھی، لڑکوں سے تو ضرورتاً بھی بات چیت نہیں تھی۔ لڑکے تو لڑکے، لڑکیاں بھی میری غیر موجودگی میں مجھ پر کمنٹس دیا کرتی تھیں، پیٹھ پیچھے میرا مزاق اڑایا جاتا، اپنے اس رویے کے سبب اکثر مں نقصان اٹھایا کرتی تھی۔ لڑکے او لڑکیاں گروپس میں کمبإن اسٹڈیز کیا کرتے تھے اور میں اپنی ڈیرھ اینٹ کی مسجد بناۓ سب سے الگ تھلگ امتحان کی تیاری کرتی۔ اکثر تھیوری او وإیٕوا میں میرے نمبر دوسروں کے مقابلے میں کم اسی لیے ہوتے تھے کہ میں لیکچرز، بکس اور نوٹس پر اکتفا کرتی تھی۔ جبکہ سب ساتھ بیٹھ کر ڈسکس کر کے تیاری کیا کرتے تھے او ڈسکشن میں ہی ان کا کانسپٹ کلیر ہو جایا کرتا تھا۔ اس سب کے باوجود جب میں حنا یا مہرین کے منہ سے یہ جملہ سنتی ” زوبی پھپھو ! امی نے آپ سے بات کرتے ہوٕے دیکھ لیا تو بہت ناراض ہوں گی۔ وہ سونے لیٹ جائیں پھر میں آپ کے پاس آٶں گی۔“ تو بہت ضبط کرنے کے باوجود میری آنکھیں چھلک پڑیں تھیں۔ فرخ اور ارسلان مجھ سے پڑھاٸیی میں جب چاہے مدد لینے آجایا کرتے تھے اور میں خوشی خوشی ان کی مدد کر دیا کرتی تھی مگر حنا اور مہرین پر ان کی ماٶں کی طرف سے سخت ترین پابندی تھی
__________
ایک دو بار کمرے میں آکر حنا کو ڈانٹتے ہوئے وہاں سے اٹھاتے ہوئے سیما بھابھی نے بڑی بے چار گی سے مجھ سے کہا تھا۔” مجھے تو کوئ اعتراض نہیں مگر ریحان ناراض ہوتے ہیں۔” اور ایک دو مرتبہ کے بعد ہی میں سمجھ بھی گئ تھی۔ مگر وہ دونوں سیما بھابھی اور نجمی بھابھی کی نظروں سے بچ کر آہی جایا کرتی تھیں۔
آبی کا شروع سے ہی سب پر ایسا رعب و دبدبہ رہا تھا کہ پوتےپوتیاں بھی ان سے سنبھل کر اور محتاط ہوکر بات کیا کرتے تھے۔ حلانکہ اب آبی کو غصہ نہیں آتا تھا۔انہوں نے بات بات پر چیخنا چلانا بند کر دیا تھا اور اب تو شوروم بھی بس تھوڑی دیر کے لیئے جاتے تھے۔ ان کا زیادہ وقت عبادت کرتے یا اسٹڈی میں کتابیں پڑھتے گزرتا تھا۔ مجھے پتہ تھا آبی کی خاموشی کا سبب میں ہوں میں نے ان کا اٹھا ہوا سر جھکا دیا ہے وہ وقت سے پہلے بوڑھے اور اتنے نڈھال میری وجہ سے ہو گئے ہیں۔ مگر یہ سب جاننے کے باوجود میں کچھ نہیں کر سکتی تھی ہمیشہ ان سے اتنے فاصلے پر رہی تھی کہ اب ان کہ ہاں جاتے جھجک ہوتی تھی۔ میرا دل چاہتا میں آبی کی خوب خدمت کروں، ان کے جوتے خود پالش کروں، بلکل امی کی طرح ، ان کے کپڑے اور کھانے پینے کاخیال رکھوں، ان سے پوچھوں کہ آپ نے کھانا پینا کیوں اتنا کم کر دیا ہے۔ب جب میں انہیں آدھی پون روٹی کھا کر اٹھتا دیکھتی ہو تو میرا دل روپڑتا ہے۔
پھر میری یہ خواہش کہ میں آبی کی خدمت کروں، قدرت نے بڑے تکلیف دہ انداز میں پوری کی تھی۔وہ آوروں سے گھر واپس آرہے تھے جب راستے میں ان کا گاڑی سے ایکسیڈینٹ ہو گیا۔ اس ایکسیڈینٹ کے نتیجے میں ان کا آدھا جسم ملفوج ہو گیا تھا۔ وہ قدم جن کی چاپ سن کر سہم کر ہم لوگ چھپ جایا کرتے تھے آج وہیل چیر پر تھے۔ ہر وقت ان کی خدمت کے لیئے ایک آدمی درکار تھا، وہ کوشش کرتے کہ وہیل چیر پر بیٹھے بیٹھے اپنا جتنا کام خود کر سکتے ہیں کرلیں۔ شروع شروع میں سب بڑی تند ہی سے ان کی خدمت اور تیمار داری میں لگے رہے۔ مگر آہستہ آہستہ سب بیزار ہونے لگے آبی وقت بے وقت آواز دیتے تو سیما بھابھی کو منہ بن جاتا، آبی کے سامنے تو وہ ہی چاپلوسانہ مسکراہٹ لی کر جاتی تھیں مگر میری نگاہوں سے ان کی ماہواری چھپ نہیں پاتی تھی۔
“بھابھی آپ رہنے دیں میں کرلوں گی۔”
میرا فائنل ایئر چل رہا تھا ، کبھی کالج کبھی ہاسپٹل مگر پڑھائ کے مشکل ترین دنوں میں بھی آبی کی طرف سے غافل نہیں ہوتی تھی۔ انھیں نوکروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کو میرا دل نہیں مانتا تھا۔ نوکر بھی تو اسی وقت خیال رکھتے ہیں جب گھر والے رکھیں۔
“آبی چلیں تھوڑی دیر لان میں چل کر موسم کا لطف اٹھاتے ہیں۔”
میں ہاسپٹل میں نائٹ ڈیوٹی کا سخت ترین شیڈول بھگتا کر گھر واپس آتی تو کمرے میں اکیلے لیٹے آبی سے مخاطب ہوتی۔
“تھکی ہوئی آئی ہو تھوڑی دیر آرام کرلو۔” وہ اب مجھ سے باتیں کرنے لگے تھے میں انہیں کالج اور ہاسپٹل کے قصے سناتی، وہ مجھے اپنی کسی نئ پڑھی کتاب سے اقتباس سناتے۔
“میں بلکل بھی تھکی ہوئی نہیں ہوں۔” میں مسکراتے ہوئے ان کی وہیل چیر دھکیلتی ہوئ لان میں لے آتی۔ لان میں موسم انجوائے کرتے میں ان سے بہت سی لایعنی باتیں کرتی۔
” یہ وائٹ لیلی کرنا خوبصورت لگ رہا ہے۔”
” مالی نے گیندے کے پھول اب تک کیوں نہیں لگائیں۔”
“کراچی میں تو دسمبر کے مہینے میں بھی پنکھے اور اے سی چلانے پڑتے ہیں۔”
ہم بہت دیر تک ایسی باتیں کرتے رہتے۔ میں ان کے لیے اپنے ہاتھوں سے کھانا بناتی۔ کئ بار میرے پکائے کھانے کی تعریف کرتے ہوئے آبی کہتے۔” زوبی تمھارے ہاتھوں میں اپنی ماں کا ذائقہ ہے۔”
میں تعجب سے دیکھتی، جس عورت سے وہ ساری زندگی شاکی رہے آج بہت شکستہ لہجہ میں اسی عورت کی تعریف کر رہے تھے۔ وہ اپنی کوئی بھی کیفیت مجھ سے شئیر نہیں کرتے تھے مگر مجھے پتا تھا۔ بیٹوں کا اجنبی انداز انہیں کتنا دکھ دیتا ہے۔ ریحان بھائ تو پھر بھی دن بھر میں ایک مرتبہ انہیں سلام کرنے اور خیریت پوچھنے ان کے کمرے میں آجاتےتھے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...