حماد زبیر، ندیم اور ارحم کے ساتھ بیٹھا پتے کھیل رہا تھا جب اس کے موبائل پر انعم کے نمبر سے کال آئی حماد نے بیزاری سے موبائل کو کان کے ساتھ لگایا اس کے ہیلو کہنے کی دیر تھی کہ دوسری طرف سے انعم بنا سانس لیے بولتی چلی گئی ہیلو! ہیلو! حماد میں گھر سے بھاگ آئی بھاگ آئی ہوں میں آج اس قید خانے سے جہاں مجھے زبردستی کسی ایسے انسان کے ساتھ باندھ رہے تھے جسے میں پسند نہیں کرتی میں صرف اور صرف تم سے پیار کرتی ہوں اب میں تمہیں ایڈریس سینڈ کرتی ہوں پلیز جلدی سے آجاؤں مجھے لینے یہ نا ہو میرے گھر والے مجھے ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہاں تک پہنچ جائے ٹھیک ہے جلدی پہنچو” دوسری طرف موجود حماد مسلسل کچھ بولنے کی کوشش کر رہا تھا جسے سنے بغیر وہ کال کاٹ چکی تھی میسج کے ذریعے اسے ایڈریس سینڈ کرنے کے بعد اب وہ اسی سنسان سڑک پر کھڑی اس کا انتظار کر رہی تھی۔ “کیا مصیبت ہے یار” حماد نے غصے سے پاس پڑی کرسی کو ٹھوکر ماری تھی ” کیوں کیا ہوا” ندیم نے حیرت سے پوچھا “یار اس یونیورسٹی والی لڑکی “انعم” کا فون تھا بیوقوف گھر سے بھاگ گئی ہے وہ بھی اپنی شادی کے دن میں تو سوچ رہا تھا کہ چلو اب اس بلا کی شادی ہو جائے گی تو میری جان چھوٹ جائے گی لیکن اس نے تو میری جان اور عذاب میں ڈال دی ” غصے کی شدت سے حماد کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا ندیم اور زبیر پریشانی سے اسکی بات سن رہے تھے جب ارحم نے بولنا شروع کیا “تو اس میں اتنا پریشان اور غصہ ہونے والی کیا بات ہے؟” ارحم نے پرسکون لہجے میں کہا ” دیکھو اب یہ تو اس لڑکی کی بیوقوفی ہے نا کہ وہ بھاگ آئی تم نے تو اسے ایسا کرنے کو نہیں بولا” “کیا کہنا چاہتے ہو صاف صاف بولو میرا دماغ مزید خراب نا کرو ” ارحم کی باتوں پہ وہ مزید غصے سے کھولتے ہوئے بولا ” دیکھو حماد میری بات سنو ایک لڑکی گھر سے بھاگ آئی ہے تمہارے لیے وہ بھی اتنی خوبصورت تو پھر بیوقوفی کیو کر رہے ہو میرے بھائی اس سے خفیہ نکاح کرو کسی کو پتا نہیں چلے گا اپنے گھر کے بجائے اسے فلیٹ میں رکھو اور بعد میں جب چاہے طلاق دے دینا” ارحم نے خباثت سے آنکھ مارتے ہوئے کہا “کیا دماغ خراب ہو چکا ہے کیا تمہارا اگر شادی یہ اس لڑکی سے کر لے گا تو پھر اس کی منگیتر منہا کاکیا ہو گا؟” ندیم کو ارحم کا مشورہ پسند نہیں آیا تھا جو وہ غصے سے بولا تھا “تم نے شاید غور سے سنا نہیں کہ میں نے کیا کہا میں نے کہا ہے کہ حماد اس سے خفیہ نکاح کرے گا اور وہ لڑکی رہے گی بھی فلیٹ میں تو پھر کسی کو کیا پتا چلے گا اور پھر جب حماد اپنی کزن منہا سے شادی کرنا چاہے تو اسے طلاق دے دیں کیسا؟” ارحم نے کرسی پہ بیٹھے سکون سے کہا ارحم کی بات سنتے ہی حماد کے لبوں پہ مسکراہٹ چھا گئی “آئیڈیا تو کچھ برا نہیں ہے” حماد نے کہا اور کرسی سے اٹھ گیا “اب تم لوگ جاؤ نکاح کا بندوبست کرو اس نے مجھے ایڈریس سینڈ کیا ہے میں اسے لینے جاتا ہوں میرے فلیٹ پہ ملو تم سب” کہتے ہوئے حماد گاڑی کی چابی اٹھاتا وہاں سے چلا گیا
“امی ان انعم کمرے میں نہیں ہے” نوشین کو اپنے کان کے قریب احسن کی آواز سنائی دی جھٹکے سے انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں احسن کھڑا تھا اس کا چہرہ ہلدی مائل ذرد ہو چکا تھا کیونکہ اب کچھ ہی دیر میں نکاح شروع ہونے والا تھا۔ چند منٹوں میں ہی عبید صاحب سمیت سب انعم کے کمرے میں موجود تھے جب عبید صاحب نے خونخوار نظروں سے سائرہ اور احسن کی طرف دیکھا تھا “کہا تھا نا میں نے اس کے ساتھ رہنا لیکن……… مزید ان سے بولا نا گیا اور وہ بیڈ پہ گرنے کے انداز میں بیٹھ گئے “کیا اس نے ایک بار بھی میرے بارے میں نہیں سوچا کیا اسنے یہ نہیں سوچا ہوگا کہ اس کے ایسا کرنے سے اس کے باپ پہ کیا گزرے گی میری عزت خاک میں مل جائے گی وہ تو میری لاڈلی بیٹی تھی کیا بیٹیاں ایسے ہی نا محرم کے دو دن کی عشق میں مبتلا ہو کہ اپنے ماں باپ کی عزت کو خاک میں ملا دیتی ہے اگر “ہاں” تو پھر اس سے اچھا ہوتا میری کوئی بیٹی نا ہوتی” بولتے ہوئے عبید صاحب کی آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی صورت میں بہہ رہے تھے نوشین بیگم، گڑیا اور احسن بھی خاموش آنسو بہا رہے تھے گڑیا اور احسن نے زندگی میں پہلی بار اپنے باپ کو روتے دیکھا تھا “اب میں کیا منہ دکھاؤں گا توقیر کو سبحان کو کیا جواب دوں گا میں سب کو باہر سب مہمان آچکے ہیں کیا ہو گا اب” عبید صاحب نے دونوں ہاتھوں سے سر تھامتے ہوئے کہا تھا ” سب خیریت ہے کیا ہوا آپ سب لوگ یہاں ہے اور انعم کدھر ہے بھئی جلدی کریں باہر نکاح کا انتظار ہو رہا ہے” کمرے میں داخل ہوتے ہوئے توقیر ماموں بے تحاشا خوشی سے بولے تھے مگر اندر موجود افراد کے چہروں پہ موجود آنسوؤں کے مٹے مٹے نشانوں نے ان کو چونکنے پہ مجبور کر دیا ” کیا ہوا سب خیریت ہے عبید انکل؟” سبحان نے پوچھا تھا جو توقیر ماموں کے پیچھے ہی کمرے میں داخل ہوا تھا دونوں اب سوالی نظروں سے سب کے گم سم چہروں کی طرف دیکھ رہے تھے عبید صاحب جھکی ہوئی نظروں سے سب بتاتے چلے گئے تھے آخر میں انہوں نے سبحان کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ دئیے تھے “سبحان بیٹا توقیر دونوں مجھے معاف کر دو میں تم دونوں کا گناہ گار ہوں ہاتھ جوڑ کر تم دونوں سے معافی مانگتا ہوں” روتے ہوئے وہ توقیر ماموں اور سبحان سے ایک ایسے گناہ کی معافی مانگ رہے تھے جو انہوں نے کیا ہی نہیں تھا وہ ایک باپ تھے اور ان کی غلطی صرف اتنی تھی کہ انہوں نے اپنی بیٹی کا بھلا سوچا تھا اس کو غلط انسان سے بچانے کیلئے ایک اچھے انسان کے ساتھ اسکا رشتہ طے کر دیا تھا لیکن اس اچھائی کا ان کو کیا صلہ دیا اس بیٹی نے اپنے باپ کی عزت کو ہی خاک میں ملا دیا “انکل پلیز کیا کر رہے ہیں آپ” سبحان نے ان کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے کہا تھا “اس سب میں آپ کی کوئی غلطی نہیں ہے آپ کو کسی سے بھی معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اچھا ہوا کہ میری شادی انعم سے نہیں ہوئی اللہ نے مجھے اس سے محفوظ رکھا ورنہ جو لڑکی اپنے ماں باپ کی عزت کا پاس نا رکھ سکی وہ میری عزت کیا کرتی اس لیے آپ کو شرمندہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے” سبحان نے بہت احترام کے ساتھ انکے آنسو پونچھتے ہوئے کہا تھا “سبحان بیٹا میری ایک درخواست ہے تم سے کیا تمہیں میں جو کہوں گا تم مانو گے” عبید صاحب نے پرامید نظروں سے سبحان کو دیکھتے ہوئے کہا تھا “انکل آپ درخواست نہیں حکم کریں” سبحان نے کہا ” بیٹا تم میری گڑیا سے شادی کر لو” عبید صاحب نے گویا دھماکہ کیا تھا گڑیا نے حیران نظروں سے عبید صاحب کو دیکھا تھا “انکل یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں سائرہ مجھ سے اتنی چھوٹی ہے میں کیسے اس سے شادی کر سکتاہوں؟ ” سبحان نے پریشان لہجے میں جواب دیا ” سبحان بیٹا یہ انکار کی کوئی وجہ نا ہوئی اگر سچ میں بات صرف عمر کی ہے تو حضرت عائشہ ؓ بھی ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ سے چھوٹی تھی ہمارے نبی حضرت محمدﷺ کی حیات مبارکہ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے انہوں نے ہمارے لیے ایک مثال چھوڑی ہےکیا تم اب بھی انکار کرو گے” عبید صاحب نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا “بیٹا عبید بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں ہم اب باہر سب کوکیا جواب دیں گے تم مان جاؤ گڑیا سے شادی کے لیے” توقیر ماموں نے بھی عبید صاحب کی سائیڈ لیتے ہوئے کہا “ٹھیک ہے لیکن پہلے آپ سائرہ سے پوچھے اگر وہ راضی ہے تو پھر مجھے کوئی اعتراض نہیں” کہتے ہی سبحان کمرے سے باہر چلا گیا عبید صاحب دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے سائرہ تک آئے تھے ” گڑیا بیٹا بولو تم راضی ہو کیا اس رشتے کے لیے اپنی رائے دینے سے پہلے میری ایک بات سن لو بیٹا کہ ماں باپ اپنے بچوں کے لیے کبھی برا نہیں سوچتے مجھے پورا یقین ہے کہ تم سبحان کے ساتھ بہت خوش رہو گی وہ بہت اچھا لڑکا ہے میری ایک بیٹی تو میرے عزت کی دھجیا اڑا چکی ہے اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے” نم آنکھوں سے کہتے ہوئے وہ واپس پلٹنے لگے تھے جب گڑیا نے ان کا دایا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں سے تھامتے ہوئے لبوں سے لگایا تھا “مجھے پتا ہے بابا آپ نے میرے لیے جو سوچا ہے وہ بہترین ہو گا مجھے آپ کا فیصلہ دل و جان سے منظور ہے” گڑیا نے کہا۔
اور پھر کچھ ہی دیر میں نکاح ہوا تھا نکاح کے بعد جب سائرہ کو سبحان کےساتھ سٹیج پر بٹھایا گیا تو ہر طرف سے آوازیں آنے لگی تھی “ارے یہ کیا یہ سٹیج پہ جو لڑکی ہے یہ تو عبید صاحب کی چھوٹی بیٹی ہے نا جس کا نام “سائرہ” ہے” نوشین بیگم کو دو عورتوں کی گفتگو سنائی دی تھی “ہاں ہاں وہی ہے یہ کیا کر رہی ہے سٹیج پہ سبحان کے ساتھ آج شادی تو انعم کی تھی نا” دوسری عورت نے جواب دیا “ہاں بہن میں بھی یہی سوچ رہی ہوں کل مہندی میں بھی انعم ہی تھی لیکن آج سائرہ یہ کیا بات ہوئی؟ ” اسی پہلی عورت نے جواب دیا “آج تو انعم نظر بھی نہیں آئی اور یہ لوگ بھی کافی دیر سے بند کمرے میں مذاکرات کر رہے تھے پتا نہیں کیا بات ہے” اس عورت نے کہا ” مجھے تو لگتا ہے انعم بھاگ گئی ہے دیکھا نہیں تھا کل بھی مہندی کے فنکشن میں منہ لٹکا کے بیٹھی ہوئی تھی جیسے کسی نے زبردستی بٹھایا ہو مجھے اسی وقت پتا چل گیا تھا کہ دال میں کچھ کالا ہے ” اس دوسری عورت نے اپنا اندازہ لگایا نوشین بیگم اپنے آنسو ضبط کرتی لوگوں کے سوالوں سے بچنے کے لیے سٹیج کی طرف بڑھ گئی
“آپ مجھے کہاں لے کہ جا رہے ہیں” انعم نے حماد سے پوچھا جو کافی دیر سے ڈرائیونگ کر رہا تھا ” میں تمہیں ہمارے گھر لے کہ جا رہا ہوں وہاں ہمارا نکاح ہوگا اور پھر ہم وہی رہیں گے” حماد نے خباثت سے مسکراتے ہوئے کہا تھا” آپ نے اپنے پیرنٹس کو راضی کر لیا ہے کیا وہ مان گئے ہیں؟ انعم نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا تھا ” نہیں ابھی نہیں مانے وہ لوگ لیکن تم فکر مت کرو وہ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں جلد ہی مان جائیں گے” حماد نے مسکراتے ہوئے انعم کو تسلی دی تھی جب وہ لوگ فلیٹ پہنچے تو وہاں حماد کے دوست پہلے سے ہی موجود تھے نکاح کا انتظام ہو چکا تھا جس سرخ جوڑے میں انعم سبحان کے لیے تیار ہوئی تھی اسی سرخ جوڑے میں اس کا نکاح حماد سے ہوا تھا۔
“احسن بیٹا تم فیکٹری سے ذرا جلدی آجایا کرو” نوشین بیگم نے احسن سے کہا “وہ تو ٹھیک ہے امی لیکن کیا ہوا آپ کی طبعیت تو ٹھیک ہے” “ہاں میری فکر نا کرو میں ٹھیک ہوں” نوشین بیگم نے اداسی سے جواب دیا “پھر آپ اتنی اداس کیوں ہے؟ کیا بات ہے آپ مجھے بتائے امی” احسن بضد تھا جاننے کیلئے “کل محلے کی کچھ عورتیں آئی تھی انعم کی باتیں کر رہی تھی وہ کہہ رہی تھی کہ…….. ” ” امی بس کر دے پلیز بھول جائے اسے اس نے ہماری عزت خاک میں ملاتے ہوئے ایک بار بھی آپ کے بارے میں یا ابو کہ بارے میں سوچا جو آپ ہر وقت اسی کو سوچتی رہتی ہیں ہمارے لیے وہ مر چکی ہے اس بات کو آپ ذہن نشین کر لے آپ کی صرف ایک ہی بیٹی ہے میری صرف ایک ہی بہن ہے اور وہ گڑیا ہے صرف اور صرف گڑیا میں جا رہا ہوں آپ اپنا خیال رکھئیے گا اور مت سوچے اس کے بارے میں اللہ حافظ: ماں کا سر چومتے ہوئے احسن وہاں سے چلا گیا تھا “کیسے مر گئی میری بیٹی کیسے بھول جاؤں اپنی بیٹی کو نو ماہ جسے میں نے اپنی کوکھ میں رکھا ان ہاتھوں سے جسے پالا پوسا اس بیٹی کو میں کیسے بھول جاؤں پتا نہیں کیسی ہو گی میری انعم وہ لڑکا اچھا ہو گا یا نہیں جسں کے لیے وہ گھر سے بھاگ گئی” نوشین بیگم روزانہ کی طرح آج بھی سوچنا شروع کر چکی تھی احسن اور عبید صاحب کے جانے کے بعد نوشین بیگم یہی کرتی تھی وہ بس ہر وقت کبھی گڑیا کے بارے میں سوچتی تو کبھی انعم کے بارے میں گڑیا کی طرف سے وہ مکمل مطمئن تھی کیونکہ گڑیا سے ان کی بات ہو چکی تھی وہ بہت خوش تھی لیکن نوشین بیگم کو انعم کا دکھ اندر ہی اندر کھا رہا تھا ہر وقت سوچنے اور ٹینشن کی وجہ سے ان کی صحت تیزی سے گرنے لگی تھی اور ایک ہفتے میں ہی وہ کمزور ہو کر بلکل ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئی تھی
احسن گلی سے گزر رہا تھا جب محلے کہ دو آدمیوں نے اسے روک کر پوچھا “ارے احسن بیٹا یہ تو بتاؤ تمہاری بہن کا کچھ پتہ چلا کہ وہ کس کے ساتھ بھاگی ہے؟ کہاں ہے؟ ” ارے نہیں بھائی کہاں پتہ چلا ہو گا بدکردار لڑکی اپنے گھر والوں کی عزت خاک میں ملا کر بھاگ گئی” دوسرے آدمی نے جواب دیا ” آپ اپنے کام سے کام رکھیں تو زیادہ بہتر ہے اور دوسروں کی بہن بیٹیوں کا پوچھنے کہ بجائے اپنی بیٹیوں پہ نظر رکھیں” خونخوار نظروں سے دیکھتے ہوئے احسن نے کہا اور وہاں سے چلا گیا اور یہ روز ہی ہوتا کبھی محلے کی عورتیں زخموں پر نمک چھڑکنے پہنچ جاتی تو کبھی مرد گلی میں روک کر انعم کے بارے میں سوال پوچھتے تنگ آکر عبید صاحب نے وہاں سے چلے جانے کا سوچا اور چند دنوں میں ہی وہ اس گھر کو تالا لگاتے وہاں سے چلے گئے
انعم کی شادی کو پندرہ دن ہو چکے تھے وہ دن بھر گھر میں ہی رہتی حماد صبح جاتا اور رات کو واپس لوٹتا رات دیر تک وہ انعم کی جھوٹی محبت اور اسکی تعریفوں میں زمین آسمان و کے قلابے ملا دیتا جس پہ انعم ہواؤں میں اڑھتی وہ ان دنوں اپنے ماں باپ کو بھول ہی گئی تھی سارا سارا دن بس وہ حماد کے خیالوں میں ہی کھوئی رہتی لیکن آج اس نے سوچ لیا تھا کہ “میں کب تک حماد کے ساتھ ایسے قیدیوں والی زندگی بسر کروں گی آج میں حماد سے بات کر کہ ہی رہوں گی کہ وہ کب اپنے ماں باپ کو راضی کر کہ مجھے اپنے گھر لے کر جائیں گا”
رات کو حماد کے آتے ہی اس نے پوچھا “حماد آپ کب اپنے پیرنٹس کو منائیں گے؟ کب آپ مجھےاپنے گھر لے کر جائیں گے؟ اتنے دن ہو گئے میں آخر کب تک اس گھر میں قید رہوں گی؟” بولتے بولتے آخر میں وہ رو پڑی تھی حماد نے بیزاری سے اسکے آنسوؤں کو دیکھا تھا وہ پہلے ہی سارا دن دوستوں کے ساتھ آوارہ گردیاں کرتے تھک گیا تھا اور اوپر سے انعم کے سوالات وہ جی بھر کے بیزار ہوا تھا “کر لوں گا بات ” لاپرواہی سے کہتا وہ فریش ہونے کے لیے باتھ روم چلا گیا جبکہ پیچھے انعم حیران رہ گئی تھی کیونکہ آج حمادکا لہجہ بہت بدلا ہوا تھا تھوڑی دیر بعد جب وہ واپس آیا تو انعم اسی پوزیشن میں بیٹھی ہوئی تھی ” آج کھانا ملے گا یا بس صرف آنسو بہانے کا ہی ارادہ ہے” حماد نے چبھتے ہوئے لہجے میں پوچھا ” پہلے آپ مجھے جواب دیں آپ کب اپنے گھر والوں سے بات کریں گے” وہ ڈٹ کر حماد کے سامنے کھڑی ہوکر پوچھنے لگی “نہیں کروں گا اپنے گھروالوں سے بات سنا تم نے نہیں کروں گا اور کیابات کروں میں اپنے ماں باپ سے کہ یہ آپ کی بہو ہے جو شادی کے دن اپنے گھر سے بھاگ گئی تھی یہ بتاؤں میں ان کو ہاں بتاؤ مجھے تمہارے بارے میں قابل عزت ہے کیا جو میں ان کو بتاؤں” حماد غصے میں بولتا چلا گیا تھا اور سب کچھ بول دینے کے بعد وہ گھر سے چلایا گیا تھا جبکہ انعم بے جان سی زمین پہ ڈھے گئی تھی یہ سب سننے کے بعد اسکے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہو چکی تھی ساری رات اس نے واہی زمین پہ پڑے روتے ہوئے گزار دی تھی حماد بھی ساری رات باہر ہی تھا وہ واپس گھر نہیں آیا۔
“کیا ہوا حماد یار اتنے غصے میں کیوں ہو؟” ارحم نے حماد سے پوچھا جو ابھی ابھی واپس آیا تھا اور شدید غصے میں تھا ” یار اس لڑکی نے دماغ خراب کر کہ رکھ دیا ہے ایک ہی بات کرتی ہے بس کب کریں گے اپنے گھر گھروالوں سے بات؟ تنگ آچکا ہوں میں اب اس سے اور وہاں نمرہ آنٹی (منہاکی مما) کی طبعیت خراب ہے وہ چاہتی ہے کہ جلد از جلد میری اور منہا کی شادی ہو جائے مما بھی یہی چاہتی ہے اب بتاؤ کیا کروں میں ” حماد نے غصیلے انداز میں بتایا “ارے یار میں نے پہلے بھی کہا تھا زیادہ ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ہے بس ایک کام کرو کسی بھی بات پہ لڑائی کرو اس سے اور طلاق دے کر گھر سے نکال دو” ارحم نے کہا ” اب بس یہی کرنا ہو گا ” حماد نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔
اگلے دن انعم کو لگا تھا کہ حماد اس سے اپنے کیے کی معافی مانگے گا اسے منائے گا لیکن حماد نے ایسا کچھ نہیں کیا ” ناشتہ دو جلدی” صبح آتے ہی فریش ہونے کے بعد اب اس نے انعم سے انتہائی روکھے لہجے میں کہا تھا انعم چپ چاپ ناشتہ بنانے چلی گئی اور کچھ ہی دیر میں وہ ناشتہ ٹرے میں سجائے لے آئی تھی ناشتے کی ٹرے اس کے سامنے رکھنے کے بعد وہ کمرے میں آگئی تھی کچھ ہی دیر گرزری ہوگی جب حماد شدید غصے کی حالت میں کمرے آیا تھا ہاتھ میں موجود ناشتے کی ٹرے کو اس نے انعم کے سامنے زمین پر پھینکا تھا انعم بلکل سہم گئی تھی “کیسا ناشتہ بنایا ہے تم نے ہاں تمہاری ماں نے تمہیں کچھ نہیں سکایا ” حماد غصے سے بولا ” سہی تو تھا ” انعم نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا ” اچھا تو کیا میں جھوٹ بول رہا ہوں بتاؤ مجھے جھوٹ بول رہا ہوں میں” کہتے ہی حماد نے انعم کے چہرے پر تھپڑ برسانے شروع کر دیے اور اس کے بعد یہ ایک معمول بن گیاتھا حماد ہر بات پہ انعم کو جانوروں کی طرح پیٹتا کبھی بدکردار کہتا اور کبھی اس کے ماں باپ کو گالیاں دیتا انعم سب برداشت کرتی کیونکہ اب اسکے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا ایک نا محرم کی محبت میں وہ ہر دروازہ خود پہ بند کر چکی تھی انعم نے اس ذلت بھری زندگی کا انتخاب اپنے لیے خود کیا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...