شمس الحق تبریزی ازبسکہ درآمیزی
تبریز خراساں شد تا باد چنیں بادا
اردو ترجمہ: شمس الحق تبریزی نے سب کچھ خط ملط کر دیا۔ تبریز خراساں ہوگیا، جو ہوگیا سو ویسا ہی رہے۔
مطلع:
معشوق بساماں شد تا باد چنیں بادا
کفرش ہمہ ایماں شد تا باد چنیں بادا
اردو ترجمہ: محبوب کی رفاقت مل گئی جو ہوگیا سو ویسا ہی رہے۔ اس کا کفر ایمان میں بدل گیا، جو ہوا سو ویسا ہی رہے۔
مقطع:
خاموش کہ سر مستم بر بست کسی دستم
اندیشہ پریشاں شد تا باد چنیں بادا
اردو ترجمہ: چپ ہو جائو کہ مجھ پر کیف چھا رہا ہے اور میرے ہاتھ کسی سے بندھ گئے ہیں فکر اور سوچ پریشاں ہوگئی، جو ہوا سو ویسا ہی رہے۔
نوٹ: خاموشی کا حکم مطلعے میں آگیا ہے۔
مطلع:
چنیں شبہا شب قدر است مارا
ہلال دیگراں بدر است مارا
اردو ترجمہ: ایسی راتیں ہمارے لیے شبِ قدر ہیں، جو دوسروں کے لیے ہلال ہے وہ ہمارے لیے بدر ہے۔
مقطع:
ہمہ عالم بسان شمس تبریز
بزیرِ سایۂ چتر است مارا
اردو ترجمہ: سارا عالم شمس تبریز کی طرح، ہمارے آسمان کی چھت کے نیچے ہے۔
نوٹ: اس غزل میں ذکرِ شمس تبزیر مقطعے میں آگیا ہے۔
مطلع:
کرانی ندارد بیابانِ ما
قراری ندارد دل و جانِ ما
اردو ترجمہ: میرے بیابان کا کوئی کنارا نہیں، میری روح و دل کو قرار نہیں۔
مقطع:
صلاح الحق و دین نماید ترا
جمالِ شہنشاہ سلطانِ ما
اردو ترجمہ: یہ صورتِ حالات رموزِ الوہی کی مظہر ہے، اور ہمارے والی شاہِ شاہاں شہنشاہ کے جمال کی مرہونِ منت ہے۔
نوٹ: اس غزل میں ذکرِ شمس تبریز درپردہ ہے۔
مطلع:
ما را سفری فتاد بی ما
آنجا دلِ ما کشاد بی ما
اردو ترجمہ: مجھے میرے اپنے بنا سفر کی افتاد پڑی، وہاں مجھ بن میرا دل کھلا۔
مقطع:
مستیم ز جامِ شمس تبریز
جام می او مباد بی ما
اردو ترجمہ: میں شمس تبریز کے جام سے مست ہوں، اس کا جام میرے بنا نہ ہو۔
نوٹ: ’’بی ما‘‘ ردیف کی یہ پوری غزل راہِ سلوک کی منزلِ ’’فنا‘‘ سے عبارت ہے۔ ذکرِ شمس تبریز مقطعے میں موجود ہے۔
مطلع:
ہر نفس آوازِ عشق می رسد از چپ و راست
ما بفلک می رویم عزم تماشا کہ راست
اردو ترجمہ: ہر لحظہ عشق بائیں دائیں جوانب سے صدا دے رہا ہے، ہم فلک کی جانب جارہے ہیں تماشا دیکھنے کے ارادے سے۔
مطلع:
آن رہ کہ من آمدم کدامست
تا باز رَوَم کہ کار خامست
اردو ترجمہ: میں جس راہ سے آیا ہوں کون سی ہے، تاکہ میں اس پر لوٹ جائوں کہ کام برا ہے۔
مقطع:
ای مفخر دین شمس تبریز
جان و دلِ من ترا غلامست
اردو ترجمہ: اے دین کے فخر شمس تبریز، میری روح و دل تیرے غلام ہیں۔
نوٹ: ذکر شمس تبریز مقطع میں آگیا ہے۔
مطلع:
ای دوست شکر بہتر یا آنکہ شکر سازد
خوبیِ قمر بہتر یا آنکہ قمر سازد
اردو ترجمہ: اے دوست شکر بہتر ہے یا شکر ساز، چاند کی خوب صورتی بہتر ہے یا چاند کا خالق۔
مقطع:
شمس الحق تبریزی صد گونہ کند دل را
گاہیش کند تیغی گاہیش سپر سازد
اردو ترجمہ: شمس الحق تبریزی دل کو سو سو تجربوں سے دوچار کرتاہے، کبھی تیغ چلاتا ہے اور کبھی سپر سازی کرتا ہے۔
نوٹ: ذکرِ شمس تبریز مقطعے میں آگیا ہے۔
مطلع:
ای قوم بہ حج رفتہ کجائید کجائید
معشوق ہمیں جاست بیائید بیائید
اردو ترجمہ: حج کے لیے جانے والی زائرین کی جماعت کہاں کہاں ہے، معشوق ہر جگہ ہے، آجائو آجائو۔
مقطع:
سلطانِ جہان مفخر تبریز نماید
اشکال عجایب کہ شما روح فزائید
اردو ترجمہ: دنیا کا سلطان فخرِ تبریز دکھاتا ہے، عجب اشکال کہ جن سے تمھاری روح کی افزائش کا باعث ہو۔
مطلع:
از بہرِ خدا عشق دگر یار مدارید
در مجلسِ جاناں بدگر کار مدارید
اردو ترجمہ: خدا کا واسطہ کسی دیگر محبوب کا عشق مت اختیار کرنا، محبوب کی بزم میں کسی اور کام میں نہ لگ جانا۔
مقطع:
چوں طلعتِ شمس الحق تبریز بدیدید
خود را نگران گل و گلزار مدارید
اردو ترجمہ: جب شمس الحق تبریزی کا چہرہ دیکھ لو، اپنے آپ کو گل و گلزار دیکھنے میں نہ لگانا۔ ذکرِ شمس تبریز ہے۔
مطلع:
ای منور از جمالت دیدئہ جانم چو شمع
ازدربختم در آ تا جان بر افشانم چو شمع
اردو ترجمہ: اے کہ تیرے حسن سے میری روح شمع کی مانند جل رہی ہے، میری تقدیر کے در سے آجا کہ میں جاں فشانی کروں مثلِ شمع۔
مقطع:
چند سوزی خویشتن را شمس تبریزی رخش
ماورای سوختن کاری نمی دانم چوں شمع
اردو ترجمہ: تب تک خود کو جلاتا رہوں جب تک شمس تبریز کا رُخ (روشن) سامنے ہے، شمع کی طرح میں جلنے کے ماسوا کوئی کام نہیں جانتا۔ ذکرِ شمس تبریز ہے۔
مطلع:
مردہ بدم ، زندہ شدم ، گریہ بدم ، خندہ شدم
دولت عشق آمدو من دولت پایندہ شدم
اردو ترجمہ: مردہ تھا، زندہ ہوا، گریاں تھا خندہ ہوا، عشق کی دولت ملی، میں ہمیشہ کے لیے دولت مند ہوگیا۔
مطلع:
چویکی ساغر درد می ز خم یار بر آرم
دو جہاں را و مہاں را ہمہ از کار بر آرم
اردو ترجمہ: جیسے ہی میں نے محبوب کے خم سے شراب کی تلچھٹ کا جام بھرا، دونوں جہانوں اور ان کے بڑوں کو بے کار بنا دیا۔
مقطع:
ہائے شمس الحق تبریز چنانم زفراقت
کہ ہیا ہوی خروش از سرِ بازار بر آرم
اردو ترجمہ: آہ اے شمس الحق تبریزی آپ کی جدائی میں میرا یہ حال ہوا، کہ میں بازار میں بھی ضبط نہ کر سکا اور آہ و بکا کرنے لگا۔
مطلع:
تلخی نکد شیریں ذقنم
خالی نکند از مے دہنم
اردو ترجمہ: میرا منہ تلخی (تلخیِ مے) محسوس نہیں کرتا، میں اپنے منہ کو شراب سے خالی نہیں رکھتا۔
مقطع:
تو مثلِ سما من مثلِ زمین
کز لطف تواست سرو و سمنم
اردو ترجمہ: تو آسمان کی مثل ہے، میں زمین کی مانند۔ میرے سر و اور میرے سمن تیری مہربانی سے ہیں۔
نوٹ: پوری غزل اور غزل کا ہر شعر صاف لگتا ہے، شمس تبریزی کے ذکر سے معمور ہے۔ اگرچہ نام نہیں لیا جارہا ہے۔
مطلع:
روز ہا فکر من اینست و ہمہ شب سخنم
کہ چرا غافل از احوالِ دل خویشتم
اردو ترجمہ: کتنے ہی دنوں اور راتوں میں اپنے آپ سے یہی باتیں کرتا ہوں کہ میں کیوں اپنے ہی دل سے خود آگاہ نہیں ہوں۔
مقطع:
ای نسیمِ سحری بوی و مالش من آر
تا من از شوق قفس را ہمہ درہم شکنم
اردو ترجمہ: اے صبح کی ہوا اس کے وصال کی خوش بو مجھ تک لے آ، تاکہ میں اس سے ملنے کے شوق میں قفس کو توڑ کر درہم کر دوں۔
مطلع:
من ایں ایوان نہ تو را نمیدانم نمیدانم
من ایں نقاش جادو را نمیدانم نمیدانم
اردو ترجمہ: میں اس ایوان کو نہیں جانتا، نہیں جانتا۔ میں جادو کے اس نقش گر کو نہیں جانتا، نہیں جانتا۔
مقطع:
بیا ای شمس تبریزی مکن سنگیں دلی بامن
کہ با تو سنگ و لولو را نمیدانم نمیدانم
اردو ترجمہ: اے شمس تبریزی آجائو مجھ سے سنگ دلی کا برتائو نہ کرو، کہ جب آپ ساتھ ہوں تو میں پتھر اور لولو میں فرق نہیں کرتا۔
مطلع:
امروز ہا ماخویش ز بیگانہ ندانیم
مستیم بدا سان کہ رہ خانہ ندانیم
اردو ترجمہ: ان دنوں ہم اپنے اور بیگانے کو نہیں پہچانتے، نشے میں مست ہیں کہ گھر کا راستہ نہیں جانتے۔
مقطع:
شمس الحق تبریز بدہ رطل پیالی
تا بارِ دگر جرعہ ز خمخانہ ندانیم
اردو ترجمہ: شمس الحق تبریزی ساغر کو گردش دیجیے، تاکہ دوسری مرتبہ خمخانہ سے گھونٹ نہ مانگوں۔
مطلع:
آن دلبر من آمد برمن
زندہ شد ازو بام و درِ من
اردو ترجمہ: میرا وہ دوست مجھ پاس آگیا، اس سے میرے بام و در زندہ ہوگئے۔
مقطع:
خامش کہ اگر خامش نکنی
در بیشہ فتد ایں آذرِ من
اردو ترجمہ: خاموش اگر چپ نہ ہو، میرا یہ بت گر جنگل کا ہو جائے گا۔
مطلع:
ای یارِ من ، ای یارِ من ، ای یارِبے زنہارِ من
ای ہجرِ تو دل سوزِ من ، ای لطفِ تو غم خوارِ من
اردو ترجمہ: اے مرے محبوب، اے مرے محبوب، اے مرے محبوبِ یقینی، اے تیری جدائی میرا دل جلاتی ہے تیری مہربانی میری غم خوار ہے۔
مقطع:
گر گنج خواہی سربنہِ ، ور عشق خواہی جاں بد ِہ
در صف در آ و پس مجِہ اے حیدرِ کرارِ من
اردو ترجمہ: مال و دولت چاہتا ہے تو سر نہ دے اور اگر عشق چاہتا ہے جان دے، صف میں آ پیچھے نہ رہ اے میرے حیدرِ کرار۔
مطلع:
ای عاشقاں ای عاشقاں ، آںکس کہ بیند رُوی او
شوریدہ گردد عقل او ، آشفتہ گردد خوی او
اردو ترجمہ: اے عاشقو، اے عاشقو، جس نے اس کا چہرہ دیکھا۔ اس کی عقل شوریدہ ہوئی، اس کی خصلت پریشان ہوئی۔
مقطع:
شاہاں ہمہ مسکینِ او ، خوباں قراضہ چینِ او
شیراں زدہ دُم بر زمین پیشِ سگانِ کوی او
اردو ترجمہ: بادشاہ سب اس کے مسکین، حسین اس کے قرض خواہ۔ اس کی گلی کے کتوں کے آگے شیر دُم دبائے ہوتے ہیں۔
مطلع:
حیلت رہا کن عاشقا ، دیوانہ شو ، دیوانہ شو
وندر دلِ آتش در آ ، پروانہ شو ، پروانہ شو
اردو ترجمہ: حیلے بہانے چھوڑ اے عاشق، دیوانہ ہو دیوانہ ہو۔ آگ کے مرکز (دل) میں اتر، پروانہ ہو پروانہ ہو۔
مقطع:
اے شمس تبریزی بیا در جان جاں داری توجا
جاں را نوا بخشا شہا ، شاہانہ شو شاہانہ شو
اردو ترجمہ: اے شمس تبریزی آئیے میں اپنی روح میں آپ کو جگہ دوں، روح کو نوا بخش اے بادشاہ، شاہانہ ہو، شاہانہ ہو۔
مطلع:
من غلامِ قمرم غیر قمر ہیچ مگو
پیشِ من جز سخن شہد و شکر ہیچ مگو
اردو ترجمہ: میں اپنے چاند کا غلام ہوں چاند کے ماسوا کچھ نہ کہو۔ میرے آگے شہد و شکر کے ماسوا کچھ نہ کہو۔
مقطع:
غیر شمس الحق تبریز مبین مولا
مثلِ رخسار و ایں تو بہ نظر ہیچ مگو
اردو ترجمہ: شمس الحق تبریز کے سوا کوئی میرا آقا نہیں، اس نورِ نظر کے چہرے کے سوا کچھ نہ کہو۔
مطلع:
بوی مشکی در جہاں افگندہ ای
مشک را در لامکاں افگندہ ای
اردو ترجمہ: آپ نے مشک کی خوش بو دنیا میں دی۔ مشک کو لامکاں میں ڈال دیا۔
مقطع:
شمس تبریزی بیا کز لطف خود
سوز در دل عاشقاں افگندہ ای
اردو ترجمہ: شمس تبریز آئیے کہ اپنی مہربانی سے، آپ نے عاشقوں کو سوز عطا کیا۔
مطلع:
دلا چوں واقفِ اسرار گشتی
ز جملہ کار ہا بیکار گشتی
اردو ترجمہ: اے دل جب اسرار سے واقف ہوا، سارے کاموں سے بیکار ہوا۔
مقطع:
برو در کوئے شمس الدین تبریز
لبی گردِ جہاں بیکار گشتی
اردو ترجمہ: کوچۂ شمس تبریز میں جائو۔ دنیا کے اطراف بے کار چکر لگا لیے۔
مطلع:
اے دل ز جاں گزر کن تا جان جان بینی
بگزار ایں جہاں را تا آن جہان بینی
اردو ترجمہ: اے دل جان سے جا تاکہ تجھے جانِ جاں دکھائی دے۔ اس جہان کو چھوڑ تاکہ تجھے وہ جہان دکھائی دے۔
مقطع:
ہی ہای شمس تبریز خاموش باش ناطق
تا جانِ خویشتن را زاں شادمان بینی
اردو ترجمہ: شمس تبریز کا خیال کر اور اے بولنے والے چپ کر۔ تاکہ وہ تیری حالت کو خود دیکھے۔