وہ آنکھوں میں خوف و حراس لیے فارس کی شرٹ کو مضبوطی سے تھامے کھڑی تھی۔
جبکہ فارس کی نظریں سامنے کھڑے نشے میں دھت ابرار پرتھیں۔
اسے ساری صورت حال سمجھنے میں دیر نہ لگی۔
ابرار دھیرے دھیرے چلتا انکے پاس آیا۔
جان۔۔۔۔ کیوں۔۔ بھاگ رہی ہو۔۔ مجھ سے دور۔۔۔؟؟ آنا تو ایک دن تمہیں۔۔میرے پاس ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔
چٹاخ۔۔۔۔۔!! ابھی وہ بات مکمل کرتا کہ فارس کا غصے میں اس پےہاتھ اٹھا۔
اسکو لگے تھپڑ نے اسے ہوش کی دنیا میں لا دھکیلا۔
اورمنہ پے ہاتھ رکھے وہ حیران ہوتا فارس کو دیکھنے لگا۔
فارس کی موجودگی کو تو نشے کی حالت میں جان ہی نہ پایا۔
ایک لفظ ۔۔۔ اگر اور اپنے منہ سے نکا لا تو گدی سے زبان کھینچ لوں گا۔
فارس بے انتہا غصے میں تھا۔ جبکہ عین کی پکڑ اسکی شرٹ پے اور مضبوط ہوگٸ تھی۔ اسکی آنکھوں سے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے۔
یہ۔۔۔ خود ۔۔ آتی ہے۔ میرے۔۔۔ پاس۔۔۔۔!!
نشے میں ہی جھولتے ابرار نے اپنے آپ کو بے قصور ثابت کیا۔
اسکی اس بات پے جہاں فارس کی نظریں اس پری پیکر چہرے پے اٹھیں وہی عین نے فارس کو دیکھتے نفی میں سر ہلایا۔
وہ بہت سخت ڈری ہوٸی تھی۔
زبان نے تو ساتھ نہ دیا کہ اپنے لیے کچھ بول ہی سکے۔
فارس نے ابرار کو ایک مکا اور جڑ دیا۔
اب کی بار اسکے منہ سے خون نکلا۔
اور وہ دانت پیستا فارس کو دیکھنے لگا۔
ایک منٹ میں۔۔ یہاں سے دفع ہو جاٶ۔۔۔۔ فارس نے غصہ ضبط کرتے ابرار کووارن کیا۔ تو وہ موقع غنیمت پاتے وہاں سے فوراً نکلا۔
عین ابھی بھی ویسے ہی کھڑی تھی۔
فارس نے اسکے ہاتھوں سے اپنی شرٹ چھڑاٸی۔ اور اس کے ہاتھوں کو زور سے جھٹکا۔ کہ وہ پھر سے سہم گٸ۔
کیا۔۔۔ کرنے آٸی تھی اس وقت۔۔۔ رات کو یہاں۔۔۔؟؟
فارس کی لال انگارہ آنکھوں سے اسکی رہی سہی ہمت بھی جواب دینے لگی۔
جواب دو۔۔۔۔!! ایک بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔ وہ سسک ہی اٹھی۔
پپپپااا۔۔۔۔نننی۔۔۔! بمشکل حلق سے آواز بر آمد ہوٸی۔
فارس کی نظر ٹوٹے ہوٸے جگ پے پڑی تو لب بھینچے۔
ایک رات پانی نہ پیتی۔۔ تو مرنہ جاتی۔۔۔ جاٶ۔۔ روم میں۔۔۔!
فارس نے خود پے قابو کرتے عین کو دروازے کی طرف دھکا دیا۔ تو وہ لڑکھڑاتی ہوٸی زمین بوس ہوٸی۔ لیکن پلٹ کر دیکھنے کی غلطی نہ کی۔ اور بمشکل اٹھتی دروازے کی جانب بڑھی۔
فارس جو کانچ اٹھا رہا تھا۔اسکی نظر اسکے پاٶں پے گٸ۔ اور اس خون پے جو اسکے پاٶں سے بہہ رہا تھا۔
رکو۔۔۔!! آواز دے کے بے اختیار ہی روکا۔
وہ وہیں رک گٸ۔ دل تھامے ہاتھ کی پشت سے اپنے گال پے آۓ آنسو صاف کیے۔
فارس نے کانچ ڈسٹ بین میں ڈالا۔اور اسکی جانب بڑھا۔
بیٹھو یہاں۔۔۔ !! اب کی بار لہجہ تھوڑا نرم تھا۔
ایک لمحے کی دیری کیے بنا عین فوراً پاس رکھی چیٸر پے بیٹھ گٸ۔
فارس نے کچن کے ایک دو۔۔ کبرڈز کھول کے دیکھیں۔ تو اسے فرسٹ ایڈ باکس مل گیا۔
اور عین کے پاس آیا۔
گھٹنوں کے بل بیٹھ اس نے اسکا پاٶں چیک کرنا چاہا۔ جو لرزے جا رہا تھا۔
فارس نے محسوس کیا وہ مکمل لرز رہی تھی۔
کیا کہہ رہا تھا وہ۔۔۔؟؟
فارس نے کانچ دیکھتے اسکا دھیان بٹایا۔
ہمممممم؟؟
وہ خاموش رہی تو دوبارہ نارمل انداز میں ہی پوچھا۔
فارس کا نرم لہجہ محسوس کرتے ہی عین نے ہمت کرتے منہ کھولا۔
وہ۔۔۔ہ۔۔۔ گندا۔۔۔ ہے۔۔۔ گندی۔۔۔ باتیں۔۔۔ کرتا۔۔۔ ہے۔۔۔!
بچوں کی طرح وہ روتے ہوٸے فارس سے شکایت لگانے لگی۔
ہمممم۔۔۔۔۔۔ کہتے ہی ساتھ ۔۔
گہری سانس خارج کرتے اس نے پاٶں سے کانچ کو کھینچ کے نکالا۔
عین کی سسکی خاموش فضا میں وہ باآسانی سن سکتا تھا۔
اسکے پاٶں سے خون کو صاف کرتا اور بینڈیج لگا تا وہ عین کو بہت اپنا سا لگا۔
آنسو خود بخود رک گۓ۔
کچھ دیر پہلے والی کنڈیشن اب قدرے بہتر ہوگٸ تھی۔
دن کو باہر نکلنا نہیں۔۔۔ اور رات۔۔۔ کو لڈیاں ڈال رہیں ہیں۔۔۔ محترمہ۔۔۔۔!! زیرِ لب وہ بڑبڑایا۔
نننہہہہیں۔۔۔۔ ہم۔۔۔پانی۔۔۔۔ پینے آٸے تھے۔۔۔۔!!
عین نے اپنی صفاٸی دینی چاہی۔
فارس اٹھا۔ اور اسے بھی ہاتھ تھام کے اٹھایا۔
آٸندہ رات کو روم سے باہر نہ نکلنا۔۔۔ سمجھی۔۔۔۔!!جاٶ۔۔۔ اب۔۔۔!! فارس واپس اپنے پہلے والے روپ میں آچکا تھا۔ اور سخت لہجے میں بولا۔
عین ایک نظر فارس پے ڈالے اثبات میں سر ہلاتی لڑکھڑاتی ہوٸی باہر کی جانب بڑھی۔
اسے یوں تکلیف سے چلتا دیکھ فارس کے دل کو کچھ ہوا۔
فوراً آگے بڑھ کے اسے اپنی بانہوں میں اٹھایا۔ بنا اسکی طرف دیکھے۔ اور باہر نکل کے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
جبکہ عین تو بس اسے ہی دیکھے جا رہی تھی۔
وہ فان کا عکس ہی تو تھا۔
لیکن وہ۔۔۔ عفان نہیں۔۔۔ تھا۔۔
وہ فارس تھا۔۔۔
فارس شاہ۔۔۔
اکھڑ مغرور۔۔۔
من مانی کرنے والا۔۔
حد درجے ضدی اور جنونی انسان۔۔۔
لیکن ۔۔۔ آج وہ عین کو کٸیرنگ لگا۔۔۔
اس کے اتنے نزدیک وہ اسکی دل کی جگہ ہاتھ رکھے اسکی دل کی دھڑکن کو اپنے ساتھ دھڑکتا محسوس کر رہی تھی۔
اسے۔۔ یہ سب۔۔ اک اچھوتا احساس لگ رہا تھا۔
اسکا جی چاہا فارس اسے یونہی۔۔ اٹھاٸے رکھے۔ ہمیشہ۔۔۔
وہ معصوم اور اسکی خواہشیں بھی معصوم۔۔۔
فارس نے اسے روم کے باہر اتارا۔
وہ جانتا تھا دعا اور وہ روم شیٸر کرتی ہیں۔ اس لیے اس نے اندر جانا مناسب نہ سمجھا۔
جاٶ اندر۔۔۔!!
حکم صادر ہوا۔
اور وہ تشکر بھرے انداز میں فارس کو دیکھتی روم کے اندر داخل ہوٸی۔
فارس نیچے اترا۔۔ اسکی دماغ کی رگیں تن گٸیں تھیں۔
وہ۔۔۔ہ۔۔۔ گندا۔۔۔ ہے۔۔۔ گندی۔۔۔ باتیں۔۔۔ کرتا۔۔۔ ہے۔۔۔!
اسی ایک لاٸن کہ بازگشت اسکے کانوں میں ہو رہی تھی۔
بنا کسی کی پراوہ کیے وہ ابرار کے روم میں گیا
ابرار کی شومٸ قسمت کے اس نے دروازے کو لاک بھی نہ لگایا تھا۔ وہ شاور لے کے باتھ سے باہر نکلا تھا۔ساتھ میں فارس کو کوس رہا تھا۔ کہ اچانک فارس کو روم میں آتا دیکھ ٹھٹھکا۔
فارس نے آتےہی اسے دو چار مکے سیدھا منہ پے رسید کیے اور اسے لیے دوبارہ باتھ روم کی جانب بڑھا۔
چھوڑیں ۔۔۔ مجھے۔۔۔۔!! وہ درد سے چلایا۔
فارس نے اسے گردن سے دبوچا۔
اور شاور کے نیچے کھڑا کیے شاور کھول دیا۔
دونوں ہی بھگتے جا رہے تھے۔
ابرار کا تو مانو سانس اکھڑے لگا۔
گلے پے دباٶ بڑھتا جا رہا تھا۔
اس نے ہاتھ پاٶں مارے لیکن فارس کا غصہ تھا کہ کم ہی نہیں ہو رہا تھا۔
پھر ایک جھٹکے سے اسے چھوڑتا دیوارکے ساتھ لگا گیا۔
آج کے بعد۔۔۔ میری نور۔۔۔ کی طرف آنکھ اٹھا کے بھی دیکھا۔۔۔!! تو ایک سیکنڈبھی نہیں ۔لگاٶں گا۔۔۔ تمہاری جان لینے میں۔۔ اور ۔۔اس بات کا مجھے قطعی۔۔
افسوس نہ ہوگا۔
شیر کی طرح غراتے وہ غصے سے شاور بند کرتے اسے دھکا دیتے باہر نکلا۔
جبکہ ابرار اپنا اکھڑتا سانس ہی بحال نہ کر پارہا تھا۔
دعا اور زیان صبح صبح نکلے تھے۔ اور شہر اسلام آباد پہنچ گٸے تھے۔
دعا۔۔۔ ابھی بھی سوچ لو۔۔۔فلیٹ ہے اپنا۔۔اور تم۔ ہاسٹل رک رہی ہو۔۔۔۔!!
زیان شاہ۔۔۔۔!! ہمیں۔۔ اچھا لگتا ہے۔۔۔ خود کےلیے کچھ کرنا۔۔۔ پلیز۔۔۔ آپ فکرمند نہ ہوں۔
وہ ایک ادا سے کہتی ہمیشہ کی طرح زیان سے اپنی بات منوا لیا کرتی تھی۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔۔ کوٸی بھی مٸسلہ ہو۔۔مجھے فون کرنا۔۔۔!! اور ہاں۔۔ یونی کے لیے میں خود پک بھی کروں گا۔اور ڈراپ بھی۔۔۔ اوکے۔۔۔!!
گاڑی سے دعا کا سامان نکالتے وہ اسے ہدایات کر رہا تھا ۔ اور وہ اسکی اپنے لیے فکرمندی کو انجواۓ کر رہی تھی۔
ہنس کیوں رہی ہو۔۔۔؟؟ زیان نے برا منایا۔
آپ۔۔۔ بہت۔۔۔ وہمی ہوگٸے ہیں۔۔ زیان شاہ۔۔۔۔!! نزدیک آتے وہ پیار سے بولی۔
ہممممم جو بھی کہہ لو۔۔۔۔ لیکن میں بار بار بول۔رہا ہوں۔۔اپنا خیال رکھنا ۔۔۔ ورنہ۔۔۔ یہاں۔۔۔ سے اٹھا کے بھی لے جانا پڑا تو لے جاٶں گا۔۔۔۔
اور یقیناً ۔۔۔ آپ ایسا موقع نہیں آنے دیں گیں۔۔۔
اب کی بار زیان معنی خیزی سے بولا۔
تو وہ ہنس دی۔
اوکے باس۔۔۔!! دعا نے سرپے ہاتھ رکھتے اوکے کا اشارہ کیا۔ اور اندر کی جانب بڑھ گٸ۔
آفس سے کچھ پیپرز فارمیلٹی پوری کرتا وہ دعا کو اللہ حافظ کہتا باہر نکلا۔
گاڑی میں۔۔ بیٹھتا وہ پرسوچ انداز میں سر سیٹ کے ساتھ لگا گیا۔
سب سمجھتے ہیں۔۔۔ میں یونی۔۔۔ پڑھنے آتا ہوں۔۔
لیکن۔۔۔ کوٸی نہیں۔۔ جانتا ۔۔ میں۔۔ پڑھنے نہیں۔۔۔ بلکہ۔۔۔؟؟
سوچیں آگے بڑھتیں کے فون کال۔نے دھیانپنی طرف کھینچا۔
فارس۔۔۔ آپ ۔۔ خو پے قابو رکھیں۔
ہم نے بلایا ہے ناں۔۔ کبیر شاہ کو۔۔۔ ہم بات کرتے ہیں۔
فارس کو بے انتہا غصے میں دیکھ دلاور شاہ اسے پر سکون کرنے کی ناکام کوشش کررہے تھے۔
جبکہ وہ تو ساری رات کانٹوں پے گزار کے آیا تھا۔ بلکہ۔صبح کاانتظار کرتا۔۔
زیان کے جانے کے بعد سیدھا دلاور شاہ کے پاس آیا۔ اور انہیں۔۔ رات والی ساری بات بتا دی۔
اس کا بس نہیں چل رہا تھا۔ابرار شاہ کو قتل کردے۔
تبھی کبیر شاہ اندر داخل ہوٸے۔
جی۔۔ بھاٸی صاحب۔۔ آپ نے بلایا۔۔۔
کبیر شاہ یہاں۔۔۔ آٸیں۔۔ بیٹھیں۔۔ آپ سے ابرار شاہ کے بارے میں بات کرنی ہے۔
بہت تحمل لیکن سخت لہجے۔میں کہا۔
جی بولیں۔۔۔!! کبیر شہ کو فارس کو دیکھتےکچھ گڑبڑ کا احساس ہوا۔
رات کو۔۔۔ ابرار شاہ نشے میں دھت گھر داخل ہوٸے۔۔۔
کیا یہ بات۔۔آپ جانتے ہیں۔۔؟؟
دلاور شاہ کے پوچھنےپر ایک منٹ کےلیے خاموشی چھا گٸ۔
بھاٸی صاحب گستاخی معاف ۔۔ جو اسکے ساتھ ہوا۔۔۔ ہے۔۔ اس کے بعد۔۔ اپنا غم ہلکا کرنے کے لیے۔۔۔ اس نے اس غلیظ محلول کو اپنے اندر اتارا۔
جو بہت ۔۔ غلط کیا اس نے۔۔۔!! لیکن۔۔۔ وہ بھی کیا کرتا۔۔۔!! عین موقع پے اسکی ہونے والی بیوی کو کوٸی اور لے اڑے تو۔۔۔۔؟؟
کیا مطلب آپ کی اس بات کا۔۔۔؟؟ فارس شاہ جو تحمل کا مظارہ کرتے خاموش سن رہا تھا۔ ان کی آخری بات پے برہم ہوا۔
کوٸی سے کیا مراد ہے آپ کی۔۔۔؟؟
فارس۔۔ بیٹا۔!!
دلاور شاہ نے روکنا چاہا۔
کوٸی نہیں۔۔ ہوں۔۔ میں۔۔۔!! انگلی اٹھاتےوارن کیا۔ آنکھیں الگ لال۔انگارہ ہورہی تھیں۔
اس گھر ۔۔۔ اس جاٸیداد۔۔۔ اس حویلی کا بڑا بیٹا۔۔۔ ہوں۔۔۔۔۔ سمجھےآپ۔۔۔۔!!
فارس۔۔۔!! دلاور شاہ کی دھیمی آواز آٸی ۔کبیر شاہ کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا۔
اور ایک بات۔۔۔میری کان ۔۔کھول کے سن لیں۔۔
اگر۔۔ا س گھر میں رہنا ہے۔۔ تو۔۔ اپنے بیٹے کو پٹہ ڈال کے رکھیں۔
ورنہ۔۔۔میں نے آج تو لحاظ کیا ہے۔۔۔ دوبارہ نہیں کروں گا۔۔۔!! شیر کی طرح دھاڑتے وہ بول کے بنا کچھ سنے وہاں سے جا چکا تھا۔
کبیر شاہ ابھی بھی حیرت کی مورت بنے کھڑے تھے۔
دلاور شاہ بھی خاموشی سے کبیر شاہ کو دیکھنے لگے۔
آپ۔۔۔ کا بیٹا۔۔۔ کسطرح سے بات کر کے گیا۔۔ دیکھا آپ۔۔نے۔۔؟؟
کبیر شاہ نم لہجے میں بولے۔
کبیر۔۔۔۔!! وہ فارس ہے۔۔۔ عفان نہیں۔۔۔ یہ وہ آتش فشاں ہے کہ یہی دعا کرو۔۔۔ کہ وہ کبھی پھٹے ناں۔۔۔!!
اور اگر۔۔۔ کسی کی بھی بہن یا بیٹی پے کوٸی میلی نظر ڈالے گا تو وہ۔۔ چپ نہیں بیٹھے گا۔۔۔
دلاور شاہ نے دھیمے لیکن مضبوط لہجے میں کہا۔
پھر بھی۔۔۔ !! بھاٸی۔۔۔ صاحب۔۔۔ فارس کو یوں۔۔ بات نہیں۔۔ کرنی چاہیے تھی۔
کبیر شاہ کا موڈ سخت خراب ہوا۔
بجاٸے فارس پے توجہ دینے کے۔۔ اگر آپ۔۔۔ اپنے بیٹے کو سنبھال لیں۔۔ تو بات یہیں۔۔ختم ہو جاۓ گی۔۔۔
ورنہ۔۔۔ فارس وہ طوفان ہے۔۔ جسے ہم تو کیا کوٸی بھی نہیں روک سکتا۔
دلاور شاہ انہیں کاندھے پے تھپکی دیتے باہر نکلے۔
لیکن انہیں وارن کرنا نہ بھولے۔
ہممممم۔۔۔۔ آتش فشاں۔۔۔۔ طوفان۔۔۔۔۔!!
ایک لمحے میں ان کے چہرے پے ایک معنی خیز مسکان آٸی تھی۔
بیٹا۔۔۔ دھیان رکھا کرو۔۔۔ اتنیبسخت چوٹ لگا لی۔۔ کچھ چاہیے ہوتو۔۔ مجھے بتا دیا کرو۔
ماریہ شاہ نے پریشانی سے عین کا پاٶں دیکھتے کہا۔
امی جان۔۔۔!! ہم ۔۔ٹھیک ہیں۔۔ فکر نہ کریں۔۔
عین مسکرا کے بولی۔ وہ ماں کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔
کیسے فکر نہ کریں۔۔۔؟؟ اب دعا بھی نہیں ہے۔۔ اب تو زیادہ فکر ہوگی۔۔۔!! انکی پریشانی سے بھری آواز سناٸی دی۔
تو پاس بیٹھیں دردانہ نے منہ بنا کے پھیرا۔
چھوٹی بی بی آپ کوچھوٹے صاحب بلا رہے ہیں۔
نوراں نے آکے ماریہ شاہ سے کہا۔ تو وہ سر اثبات میں ہلاتیں اٹھیں۔
روم۔میں داخل ہوٸیں تو دلاور شاہ اور الماس بیگم۔بھی وہیں موجود تھے۔
اللہ اللہ آج تو ۔۔ عید ہی ہوگٸ۔۔۔ !! ماریہ شاہ مسکراٸیں۔
آٶ۔۔ ماریہ۔۔۔ یہاں۔۔ بیٹھو۔۔۔
الماس بیگمنے انہیں اپنے پاس بیٹھنے کو بولا۔
سب۔۔۔ ٹھیک ہے ناں۔۔۔؟؟ ماریہ شاہ کو کچھ گڑبڑ لگی۔
تو آج فارس شاہ کے بتاٸی ہوٸی بات کومختصراً ماریہ شاہ کے گوش گزار دیا۔
ہمبتا نہیں سکتے۔۔ کہ فارس کا غصہ کتنا سخت تھا۔
اور ۔۔ آپ کو۔۔ یہ بھی بتا دیں۔۔ وہ ہمیں یہاں تک کہ گۓ ہیں کہ۔۔ ہم۔۔۔ انہیں اس حویلی سے الگ کر دیں۔۔
جو۔۔ تا حال۔ممکن نہیں۔۔۔
دلاورشاہ نے سوچتے ہوۓ کہا۔
پھر۔۔۔۔۔؟؟ پھر کیا۔۔ کریں۔۔۔؟؟
ماریہ شاہ پریشان ہوٸیں۔
اس سب کا ایک حل نکالا ہے ہم نے۔۔!! فراز شاہ نے بھ باتوں میں حصہ لیا۔تو ماریہ شاہ نے سوالیہنظروں سے دیکھا۔
عین۔۔۔ اب فارس۔۔۔ کی امانت ہے۔۔۔ بہتر ہے۔۔ اس کے حوالے کر دیں۔ ۔۔۔ وہ خود۔۔ اسکی حفاظت کرے گا۔۔۔
فراز شاہ بہت ٹہر ٹہر کے بولے۔
تو ماریہ شاہ سوچ میں پڑگٸیں۔
ماریہ۔۔۔ ہم۔۔ چاہتےہیں۔۔ کہ عین کی رخصتی دے دو۔۔ ہمیں۔۔۔!!
الماس بیگم نے دھیرج اور محبت سے کہا۔ تو ماریہ شاہ کی آنکھیں بھیگ گٸیں۔
بھابھی۔۔۔! عین۔۔مجھ سے زیادہ آپ کی بیٹی ہے۔۔۔آپ کا اس پے۔۔سب سے۔۔ زیادہ حق ہے۔۔!!
ہاتھ تھامے ماریہ شاہ نے بھی اپنی رضامندی دے دی۔
تو دلاور شاہنے شکر کا کلمہ پڑھا۔
وہ نہیں چاہتے تھے بات زیادہ بگڑے اور کچھ بھی کسی کے ساتھ برا ہو۔۔۔!! یاکوٸی کسی کو نقصان پہنچاٸے۔
فارس کے غصے کوکنٹرول کرنا۔۔ ان کے بس میں نہ تھا۔ وہ شروع سے ہی ایسا تھا انتہا پسند۔
یہ فیصلہ انہوں نے فارس کی بھلاٸی کے لیے لیا تھا۔
اور پھر انہوں نے مل کے یہ طے کیا۔ کہ اسی جمعہ کو زیان اور دعا کے آجانے پے گھر میں ہی سادگی سے رخصتی بھی کر دیں گے۔
عفان کے جانے کے بعد کسی کا بھی دل نہیں تھا کہ دھوم۔دھام سے شادی کریں۔
ہاں۔۔ ایک سنت ہے۔۔ نکاح کے بعد رخصتی کی۔ وہ اب ادا کرنی تھی۔
اپنے بچوں کے بہترین مستقبل کے لیے۔۔۔