” آپ جا سکتی ہیں۔“
ایان نے روکھے لہجے میں کہا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔
” وہ لڑکی مجھ سے زیادہ پیاری ہے۔؟“
عینا ایان کے پیچھے اسکے کمرے میں آٸی تھی۔
” بلکل۔“
ایان بنا کوٸی تاثر دیے، کمرے سے نکل گیا۔
عینا اسے دیکھ کر رہ گٸ۔
” کس ظالم سے محبت کر لی۔۔۔۔“
اس نے دکھ سے سوچا۔
وفا آہستہ آہستہ فٹ پاتھ پر چل رہی تھی، رات کے اندھیرے نے اپنے پنکھ پھیلا کر کیلگری کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔
ایان نے گاڑی اسکے پاس روکی۔
وفا نے گردن گھما کر دیکھا، ایان نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
” آپ بچی نہیں ہیں، اپنا خیال رکھنا جانتی ہیں، تو رکھ کیوں نہیں سکتیں۔“
ایان ڈراٸیو کرتے ہوۓ تیکھے لہجے میں بولا۔
وفا نے حیرت سے اسے دیکھا۔
” میں آپ کے گھر کیسے آگٸ۔؟“
وفا نے کھلبلی مچاتا سوال کر دیا۔
” تمہارے ورک پرمٹ پر میرا نمبر بھی درج ہے، اگر تمہیں یاد ہو تو ہماری پیپر میرج ہوٸی ہے۔“
ایان روکھے لہجے میں بول رہا تھا، وفا کو اسکا بلاوجہ غصہ ہونا سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
” ہاسپٹل سے کال آٸی تھی، مجھے تمہیں ڈسچارج کروا کے گھر لانا پڑا۔“۔
اس کے لہجے کی کوفت وفا کو محسوس ہو گٸ تھی، وفا نے اپارٹمنٹس کا ایڈریس بتایا۔
ایان نے گاڑی موڑ لی۔
” تم جس کے لیے کینیڈا آٸی تھی، وہ تمہیں مل گیا۔؟“
ایان کا دھیان روڈ پر تھا۔
وفا نے رخ موڑ کے اسے دیکھا۔
” آپ کو یہ یقین کیوں ہے، میں جس کے لیے آٸی ہوں، وہ لڑکا ہی ہے۔؟“
وفا نے سوال کے جواب میں سوال کر دیا۔
ایان نے یکلخت کو اسے دیکھا۔
آجکل یہی تو ہو رہا ہے۔“
اس نے لاپرواہی سے کندھے اچکا کر کہا۔
” ضروری نہیں، معاشرہ جو کر رہا ہے، ہم پر بھی وہی کرنا فرض ہے۔“
وفا سنجیدگی سے بولی تھی۔
سفر کی طوالت سے وفا اندازہ لگا چکی تھی، ایان کیلگری کی اس ساٸڈ پر رہتا ہے اور وہ دوسری ساٸڈ پر۔
” تمہیں کبھی محبت نہیں ہوٸی۔؟“
جانے کیوں اسے اس لڑکی سے چڑ نہیں ہو رہی تھی۔
” نہیں، محبت کی میری زندگی میں کوٸی جگہ نہیں ہے۔“
وفا صاف گوٸی سے بولی تھی۔
” کیوں۔؟“
ایان نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔
” محبت کی تحریرں پڑھنے میں اچھی لگتیں ہیں بس، حقيقت میں محبت کسی شہزادے کو نہیں لاتی۔“
وفا حقيقت پسند تھی۔
” کبھی بھی نہیں کرو گی۔؟“
ایان کو اس سے بحث کرنا اچھا لگ رہا تھا۔
” نہیں۔“
وفا نے مختصر کہا۔
گاڑی اپارٹمنٹس کے سامنے رک گٸ تھی۔
وفا شکریہ کہتی اتر گٸ۔
” سنو۔۔۔!!!“
ایان نے پکارا تو اس نے پلٹ کر دیکھا۔
” ہماری شادی محض ایک کانٹریکٹ ہے بس، اسکا فاٸدہ اٹھانے کی غلطی مت کرنا۔“
ایان نے ہاتھ جیبوں میں گھساۓ کہا تھا۔
سرمٸ بادلوں نے چاند کو چھپا رکھا تھا۔
” آپ بے فکر رہیے۔“
وفا مدھم سے کہتی مڑ گٸ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” وفا بیٹا کہاں چلی گٸ تھی۔“
وفا اپنی سوچ میں گم چلتی آ رہی تھی، جب ظہیر صاحب کی آواز پر چونکی۔
” کچھ کام تھا انکل۔؟“
وفا نے مسکرانے کی سعی کی۔
” یہ لڑکا کون تھا۔؟“
ظہیر صاحب نے جھجھکتے ہوۓ نرمی سے پوچھا۔
وفا کو سمجھ نا آیا، وہ کیا کہہ کر ایان کا متعارف کرواۓ، نا وہ اسکا دوست تھا، نہ کولیگ، اور شوہر وہ کہہ نہیں سکتی تھی۔
” تم پاکستانی ہو، کبھی بھولنا مت، وہ غلطی کبھی مت کرنا، جو ان لوگوں کے لیے فیشن ہے۔“
ظہیر صاحب نےنرمی سے اسکے سرپر دست شفقت رکھا۔
” ایسی بات نہیں ہے، ایان ملک قانوناً میرے شوہر ہیں۔“
وفا گھبرا کر اعتراف کر گٸ۔
” پیپر میرج کے زریعے کینیڈا آٸی ہوں، انکی بیوی بن کر۔“
جانے کیوں اسے لگا اسے ظہیر صاحب پر اعتبار کر لینا چاہیے۔
” اچھا۔۔۔۔“
وہ حیران ہوۓ تھے۔
” باقی میں اپنی حدود جانتی ہوں۔“
وفا مسکرا کر بولی اور پلٹ گٸ۔
” رات خواب میں مجھ سے محبت کا پوچھ رہے تھے، اور اب بھی، مطلب خواب حقيقت کا روپ دھارتے ہیں۔“
بیڈ پر بیٹھتے وہ ایان کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناشتے کی ٹیبل پرپہنچا تو معمول سے زیادہ خاموشی تھی، وہ محسوس کر چکا تھا۔
” وہ لڑکی کہاں رہتی ہے۔؟“
اکاش ملک سخت لہجے میں بولی۔
” کون لڑکی۔؟“
ایان نے سوالیہ انداز میں دیکھا۔
” جو کل تمہاری بیوی تھی۔“
راٸنہ نے طنزاً کہا۔
” وہ آج بھی میری بیوی ہی ہے۔“
ایان سنجیدگی سے راٸنہ کو دیکھتے ہوۓ بولا اور ناشتہ نکالنے لگا۔
” تب ہی اسے گھر سے نکال دیا۔“
عناٸیہ نے اپنا حصہ ڈالا۔
” تم میرے معاملات میں مت بولا کرو۔“
ایان نے روکھے لہجے میں تنبیہہ کی۔
” میں اسے لے کر آیا تب بھی آپ لوگوں کو پرابلم تھی، نکال دیا تب بھی۔“
ایان تیکھے لہجے میں بولا۔
” کس خاندان سے ہے، کیا حسب و نسب ہے۔؟“
اکاش ملک نے لہجے کی سختی پر قابو پاکر نرمی سے پوچھا۔
” پتہ نہیں۔؟“
ایان نے لقمہ چباتے ہوۓ کہا۔
اکاش ملک نے راٸنہ کی طرف دیکھا، گویا دیکھ لو اپنے سپوت کی کرتوتیں۔
راٸنہ نے کندھے اچکا دیے، میں کیا کروں۔؟
” کہاں رہتی ہے۔؟“
اکاش ملک کی جانب سے اگلا سوال آیا۔
” اپنے گھر۔“
ایان نے اتنی ہی لاپرواہی سے جواب دیا۔
” کیا مطلب، اپنے گھر، تمہاری بیوی ہے تو تمہارے ساتھ کیوں نہیں ہے۔“
اکاش ملک کو اس کی ہٹ دھرمی پر غصہ آنے لگا تھا۔
” میں اسے اپنے ساتھ کیوں رکھوں۔؟“
ایان نے وفا کے بارے میں سوچ کر کہا۔
” ایک چوبیس سال کا نوجوان پوچھ رہا ہے، اپنی بیوی کو اپنے ساتھ کیوں رکھوں۔؟“
اکاش ملک چبا چبا کر بولے اور راٸنہ کی طرف دیکھا۔
” تم نے زندگی بھر سب کام ہی بہت اچھے سے سر انجام دیے، لیکن یہ کام تم ٹھیک سے نہیں کرپاٸی۔“
وہ ایان کی طرف اشارہ کرتے، شدید ناراضگی سے بولے اور چمچ پلیٹ میں پٹخ کر چلےگیے۔
” یہ کام ٹھیک بھی ٹھیک سے کر لیتی مام۔“
ایان خفگی سے بولتا اپنے باپ کی طرف اشارہ کرتا بیگ لیے نکل گیا۔
راٸنہ سر تھام کر رہ گٸیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ظہیر صاحب کے ساتھ گروسری سٹور کی طرف جا رہی تھی، جب بہت سی سیاہ گاڑیاں ایک قطار میں وہاں سے گزریں۔
” ہمارے ہاں ایسے بارات جاتی ہے، جیسے یہ لوگ روز اپنے دفاتر جاتے ہیں، ایک قافلہ لے کر۔“
ظہیر صاحب ہنسے تھے۔
وفا بھی ہنس دی، ظہیر صاحب بہت باتونی انسان تھے۔
” یہ یہاں کی سب سے بڑی کمپنی کی اونر ہے، ساریہ ناٸک۔“
ظہیر صاحب بتانے لگے۔
” بہت امیر خاندان سے تعلق رکھتی ہے، باپ کی اکلوتی بیٹی تھی۔“
ظہیر صاحب نے بتایا۔
” میری ہم عمر ہے، اب دیکھو میں ستر کا لگتا ہوں، اور وہ تیس کی۔“
ظہیر صاحب ایک دفعہ پھر ہنس دیے، وفا نے محض مسکرانے پر اکتفا کیا۔
اسکی طبعیت آج بھی ناساز تھی، اس نے اپنے پلان کو آگے بڑھادیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عینا جاب سے واپس آٸی اور سیدھا عناٸیہ کی طرف چلی آٸی۔
” وہ سچ میں اسکی بیوی ہے، یا بس سین کرٸیٹ کر رہا ہے۔“
عینا نے ایک امید سے پوچھا تھا۔
” پتہ نہیں۔“
عناٸیہ نے کندھے اچکاۓ۔
” کیا مطلب۔؟“
عینا نے نا سمجھی سے اسے دیکھا اور اسکی بک بند کر کے ساٸڈ پر رکھی۔
” وہ اسے بھی اپنے ساتھ نہیں رکھنا چاہتا۔“
عناٸیہ نے کندھے اچکاتے لاپرواہی سے کہا تھا، گویا اسے فرق نہیں پڑتا تھا، اسکا بھاٸی جو بھی کرے۔
” مجھے لگتا ہے، نہیں بلکہ اب یقین سے کہہ سکتی ہوں، ایان ملک ایک نفسیاتی انسان ہے۔“
عینا سر جھٹکتے ہوۓ منتفر سی بولی۔
” میں نے تو پہلے بھی کہا تھا، چھوڑو اسے۔“
عناٸیہ اہنے بھاٸی کو خوب جانتی تھی، اور عینا کوبھی۔
” تمہیں لگتا ہے، عینی محبت چھوڑی جا سکتی ہے۔“
عینا اب دکھی لگ رہی تھی، وہی فکھ جو اس کے چہرے سے عیاں ہونے لگا تھا۔
وہ گھٹنوں پر بازو رکھے، ان پر ٹھوڑی تکھ کر اداسی سے بیٹھ گٸ۔
” سب کچھ کیا جاسکتا ہے، ہمت کی ضرورت ہوتی ہے، لڑ جانے کی ہمت ہو تو، محبت کچھ بھی نہیں ہے۔“
عناٸیہ نارمل لہجے میں بولی۔
” تم خود ایان کو کھونے سے ڈرتی ہو یا تمہارا دل۔؟“
عناٸیہ نے سوالیہ نظر اس کے اداس چہرے پر ڈالی، جو اب نا سمجھی کے تاثرات میں بدل رہا تھا۔
” محبت ایک خوبصورت خواب ہے، جس خواب میں بہت حسین مناظر ہوتے ہیں، ایک لڑکا ایک لڑکی، بلکہ شہزادہ اور شہزادی۔“
عناٸیہ بول رہی تھی اور وہ ہاتھ گھٹنوں سے اٹھا کر گود میں رکھے اسے سن رہی تھی۔
” تم بھی اس خواب کے زیر اثر ہو، تمہیں اس خوبصورتی کی عادت ہو گٸ ہے، تم خود اس خواب کی حدود سے نکلنا نہیں چاہتی،یہ بال پین لو اور اس خواب کے بلبلے کوپھاڑ ڈالو، میں روز روز یہ روتی ، بسورتی شکل نہیں دیکھ سکتی۔“
عناٸیہ نےمنہ بناتے ہوۓاسے دیکھا۔
عینا نے گھوری سے نواز کر سر جھٹکا۔
” میں ایان کو اچھی طرح جانتی ہوں، وہ اپنی مرضی کا مالک ہے، تم اپنا وقت برباد کر رہی ہو، اور یہ بات میں شاید تمہیں پچھلے دو سال سے سمجھا سمجھا کے تھک گٸ ہوں۔“
عناٸیہ سنجیدگی بھری خفگی سے بولی تھی۔
عینا نے ناراض نظر اس پر ڈالی۔
” تمہیں یہ سب آسان لگتا ہے۔؟“
عینا تمس سے بولی، اسکی نیلی آنکھوں میں نمی در آٸی تھی۔
” تمہیں ایان کو بھولنےکا کہا ہے، ماٶنٹ ایورسٹ سر کرنے کو نہیں۔“
عناٸیہ چڑ کر بولی۔
” مجھے اچھا لگتا ہے، اس خواب میں رہنا۔“
عینا اٹھتے ہوۓ بولی اور کمرے سے نکل گٸ، عناٸیہ نے کندھے اچکاۓ۔
” ایک سے بڑھ کر ایک پاگل۔“
وہ سر جھٹکتی کتابوں کی طرف متوجہ ہوٸی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر آنے کی بجاۓ اس نے گاڑی کا رخ کیلگری کے دوسری جانب موڑ لیا۔
” مجھے اسکی عیادت کرنی چاہیے۔“
ایان نے خود کو صفاٸی دی اور ایکسلیٹر پر دباٶ بڑھا دیا، گاڑی ہوا سے باتیں کرتی، فراٹے بھرتی فاصلہ ناپنے لگی تھی۔
اپارٹمنٹ کے سامنے گاڑی پارک کی اور وفا کے بارے میں پوچھا ، تو پتہ چلا وہ گروسری سٹور میں جاب کرتی ہے۔
ایان نے گاڑی قریبی مارکیٹ کی طرف بڑھادی۔
گاڑی پارک کر کے نکلا اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا گروسری سٹور کے اندر آگیا، وہ سامنے ہی نظر آگٸ۔
چند ثانیے بعدوہ کافی شاپ میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے تھے۔
” جی کہیے کچھ کام تھا۔“
وفا نے سنجیدگی سے پوچھا۔
” ٹو کیپچینو۔“
ایان نے آرڈر پلیس کیا۔
” میں کافی نہیں پیتی۔“
وفا نے سادگی سے کہا۔
” کیوں۔؟“
ایان نے ابرو اچکا کےاسے دیکھا۔
” اوکے ون کیپچینو۔“
آرڈر دے کر اسکی جانب متوجہ ہوا۔
” میں کڑواہٹ انڈیل کر، کڑواہٹ اگلنا نہیں چاہتی۔“
وفا سادگی سے بولی۔
ایان نے حیرت سے اسے دیکھا، لیکن اپنی حیرت پر قابو پا گیا۔
” پھر تو یقیناً آپ جوس پیتی ہوں گی، تب ہی میٹھا بولتی ہیں۔“
ایان اسکے سامنے پہلی بار ہنسا تھا، اسکی ہنسی بہت پیاری تھی۔
” چاۓ پیتی ہوں، جو نا میٹھی ہوتی ہے نا کڑوی، زیادہ میٹھا انسان دوغلہ ہوتا ہے اور کڑوا انسان تو پھر کڑوا ہی ہوتا ہے۔“
وفا نرمی سے بولی تھی۔
” تم کافی سمجھدار ہو۔“
ایان نے آپ سے تم تک کاسفر طے کر لیا۔
وفا خاموش رہی۔
” طبعیت کیسی ہے۔؟“
یاد آنے پر پوچھا گیا، گو کہ ایان کی نظریں اسکے چہرے پر ہی تھیں، اسکے خدوخال میں یورپین ٹچ تھا۔
لیکن اسکی نیچر ایشین تھی۔
” الحَمْدُ ِلله۔۔ٹھیک ہوں۔“
وفا مسکراٸی۔
” گڈ۔“
ایان اٹھا اور وہ بھی اسکے ساتھ چلی آٸٕی۔
” آپ سے ایک بات پوچھنی تھی۔؟“
گاڑی کے پاس رکتے ہوۓ وفا نے پوچھا۔
” بولو۔“
ہمیشہ کی طرح پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ گھساۓ کھڑا ہو گیا۔
” آپ نے پیپر میرج کے لیےہاں کیوں کی۔؟“
” میرے ویزے، پاسپورٹ اور باقی اخراجات کیوں ادا کیے۔؟“
وفا سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوۓ بولی۔
” کیونکہ مجھے پاگل کتے نے کاٹا تھا۔“
ایان نہایت سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوۓ بولا۔
وفا نے ناسمجھی اور حیرت سے اسے دیکھا۔
” بیٹھیں میں آپ کو ڈراپ کردوں۔؟“
ایان نے کہا اور ڈرائيونگ سیٹ سنبھالی۔
” آپ کو کچھ کام تھا شاید۔؟“
وفا نے سٹور میں کہی گٸ اسکی بات یاد دلاٸی۔
” نہیں۔“
ایان نے مختصر جواب دیا۔
” تو پھر۔۔۔؟“
وفا کو اس وقت شدید قسم کاپاگل لگا۔
” میں کافی پینے آیا تھا۔“
ایان طنزاً بولا۔
وفا خاموش ہو گٸ۔
ایان نے ایک نظر اس پر ڈالی اور گاڑی اپارٹمنٹ کے سامنے روک دی۔
وفا اتری تو اس نے زن سے گاڑی بھگا لی۔
” ساٸیکو۔“
وفا بڑبڑاتے ہوۓ اندر چلی گٸ۔
رات کاکھانا وہ ظہیر کے ساتھ کھاتی تھی، اسے آج اپنے پلان کا پہلا سٹیپ پورا کرنا تھا، لیکن ایان نے اس کا ٹاٸم ویسٹ کر دیا۔
” لڑکا تو اچھے خاندان سے لگتا ہے۔“
ظہیر صاحب نے بات شروع کی۔
” جی۔“
وفا بس اتنا ہی بول پاٸی۔
” آگے کا کیا سوچا تم نے پھر۔؟“
ظہیر صاحب کھانا کھاتے ہوۓ بولے۔
” ہمارا صرف کنٹریکٹ ہوا ہے، مجھے نہیں پتہ مجھے کیا کرنا ہےان کے لیے۔“
وفا الجھی سی بولی۔
ایان نے ابھی تک اس سے کچھ بھی ڈیمانڈ نہیں کیا تھا، جبکہ میرج کے وقت طے ہوا تھا، ایان اسکی ہیلپ کرے گا اور وہ ایان کی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...