بی۔ اے پاس کرنے کے بعد چندر پرکاش کو ایک ٹیوشن کرنے کے سوا کچھ نہ سوجھا۔ ان کی ماں پہلے ہی مر چکی تھی۔ اسی سال والد بھی چل بسے۔ اور پرکاش زندگی کے جو شیریں خواب دیکھا کرتا تھا، وہ مٹی میں مل گئے۔ والد اعلیٰ عہدے پر تھے۔ ان کی وساطت سے چندر پرکاش کوئی اچھی جگہ ملنے کی پوری امید تھی، مگر وہ سب منصوبے دھرے ہی رہ گئے۔ اور اب گزر اوقات کے لئے صرف تیس روپے ماہوار کی ٹیوشن ہی رہ گئی ہے۔ والد نے کوئی جائداد نہ چھوڑی الٹا بھوک کا بوجھ اور سر پر لاد دیا۔ اور بیوی بھی ملی تو تعلیم یافتہ، شوقین، زبان کی طرار جسے موٹا کھانے اور موٹے پہننے کی نسبت مر جانا قبول تھا۔ چندر پرکاش کو تیس کی نوکری کرتے شرم آتی تھی۔ لیکن ٹھاکر صاحب نے رہنے کے لئے مکان دے کر ان کے آنسو پونچھ دئے۔ یہ مکان ٹھاکر صاحب کے مکان سے ملا ہوا تھا۔ پختہ ہوا دار صاف ستھرا اور ضروری سامان سے آراستہ۔ ایسا مکان بیس روپے ماہوار سے کم میں نہ مل سکتا تھا۔ لڑکا تو لگ بھگ انھیں کی عمر کا تھا مگر بڑا کند ذہن، کام چور، ابھی نویں درجہ میں پڑھتا تھا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ ٹھاکر اور ٹھکرائن دونوں پرکاش کی بڑی عزت کرتے تھے بلکہ اپنا ہی لڑکا سمجھتے تھے۔ گویا ملازم نہیں، گھر کا آدمی تھا اور گھر کے ہر ایک معاملے میں اس سے مشورہ لیا جاتا تھا۔
شام کا وقت تھا۔ پرکاش نے اپنے شاگرد ویریندر کو پڑھا کر چلنے کے لئے چھڑی اٹھائی تو ٹھکرائن نے کہا۔ ’’ابھی نہ جاؤ بیٹا، ذرا میرے ساتھ آؤ، تم سے کچھ کہنا ہے۔‘‘
پرکاش نے دل میں سوچا، وہ کیا بات ہے جو ویریندر کے سامنے نہیں کہی جا سکتی۔ پرکاش کو علاحدہ لے جا کر اما دیوی نے کہا۔ ’’تمہاری کیا صلاح ہے۔؟ ویرو کا بیاہ کر دوں ایک بہت اچھے گھر کا پیغام آیا ہے۔‘‘
پرکاش نے مسکرا کر کہا۔ ’’یہ تو ویرو بابو ہی سے پوچھیے۔‘‘
’’نہیں میں تم سے پوچھتی ہوں۔‘‘
پرکاش نے ذرا تذبذب سے کہا۔ ’’میں اس معاملے میں کیا صلاح دے سکتا ہوں؟ ان کا بیسواں سال تو ہے۔ لیکن یہ سمجھ لیجیے کہ بیاہ کے بعد پڑھنا ہو چکا۔‘‘
’’تو ابھی نہ کروں۔ تمہاری یہی صلاح ہے‘‘
’’جیسا آپ مناسب خیال فرمائیں۔ میں نے تو دونوں باتیں عرض کر دیں۔‘‘
’’تو کر ڈالوں؟ مجھے یہ ڈر لگتا ہے کہ لڑکا کہیں بہک نہ جائے پھر پچھتانا پڑے گا‘‘
’’میرے رہتے ہوئے تو آپ اس کی فکر نہ کریں۔ ہاں مرضی ہو تو کر ڈالیے کوئی حرج بھی نہیں ہے۔‘‘
’’سب تیاریاں تمہیں کرنی پڑیں گی یہ سمجھ لو۔‘‘
’’تو میں کب انکار کرتا ہوں۔‘‘
روٹی کی خیر منانے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں ایک کمزوری ہوتی ہے جو انہیں تلخ سچائی کے اظہار سے روکتی ہے۔ پرکاش میں بھی یہی کمزوری تھی۔
بات پکی ہو گئی اور شادی کا سامان ہونے لگا۔ ٹھاکر صاحب ان اصحاب میں سے تھے جنہیں اپنے اوپر بھروسہ نہیں ہوتا۔ ان کی نگاہ میں پرکاش کی ڈگری اپنے ساٹھ سالہ تجربے سے زیادہ قیمتی تھی۔ شادی کا سارا انتظام پرکاش کے ہاتھوں میں تھا۔ دس بارہ ہزار روپے خرچ کرنے کا اختیار کچھ تھوڑی عزت کی بات نہیں تھی۔ دیکھتے دیکھتے ایک خستہ حال نوجوان ذمہ دار منیجر بن بیٹھا۔ کہیں بزاز اسے سلام کرنے آیا ہے۔ کہیں محلے کا بنیا گھیرے ہوئے ہے۔ کہیں گیس اور شامیانے والا خوشامد کر رہا ہے۔ وہ چاہتا تو دو چار سو روپے آسانی سے اڑا سکتا تھا، لیکن اتنا کمینہ نہ تھا۔ پھر اس کے ساتھ کیا دغا کرے جس نے سب کچھ اسی پر چھوڑ دیا ہو۔ مگر جس دن اس نے پانچ ہزار کے زیورات خریدے اس کے کلیجہ پر سانپ لوٹنے لگا۔
گھر آ کر چمپا سے بولا، ’’ہم تو یہاں روٹیوں کے محتاج ہیں، اور دنیا میں ایسے ایسے آدمی پڑے ہیں جو ہزاروں لاکھوں روپے کے زیورات بنوا ڈالتے ہیں۔ ٹھاکر صاحب نے آج بہو کے چڑھاوے کے لئے پانچ ہزار کے زیور خریدے۔ ایسی ایسی چیزوں کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں سچ کہتا ہوں۔ بعض چیزوں پر تو آنکھ نہیں ٹھہرتی تھی۔‘‘
چمپا حاسدانہ لہجے میں بولی،’’اونہہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ جنہیں ایشور نے دیا ہے وہ پہنیں یہاں تو رو رو کر مرنے کو پیدا ہوئے ہیں۔‘‘
چندر پرکاش: ’’یہی لوگ مزے اڑاتے ہیں۔ نہ کمانا نہ دھمانا باپ دادا چھوڑ گئے ہیں۔ مزے سے کھاتے اور چین کرتے ہیں۔ اسی لئے کہتا ہوں، ایشور بڑا غیر منصف ہے۔‘‘
چمپا: ’’اپنا اپنا مقدر ہے۔ ایشور کا کیا قصور ہے۔ تمہارے باپ دادا چھوڑ گئے ہوتے تو تم بھی مزے اڑاتے۔ یہاں تو روزمرہ کا خرچ چلانا مشکل ہے۔ گہنے کپڑے کون روئے؟ کوئی ڈھنگ کی ساڑی بھی نہیں کہ کسی بھلے آدمی کے گھر جانا ہو تو پہن لوں۔ میں تو اسی سوچ میں ہوں کہ ٹھکرائن کے یہاں شادی میں کیسے جاؤں گی۔ سوچتی ہوں بیمار پڑ جاتی تو جان بچتی۔‘‘
یہ کہتے کہتے اس کی آنکھیں بھر آئیں پرکاش نے تسلی دی۔ ’’ساڑی تمہارے لئے ضرور لاؤں گا۔ یہ مصیبت کے دن ہمیشہ نہ رہیں گے۔ زندہ رہا تو ایک دن تم سر سے پاؤں تک زیور سے لدی ہو گی۔‘‘
چمپا مسکرا کر بولی، ’’چلو ایسی من کی مٹھائی میں نہیں کھاتی۔ گزر ہوتی جائے یہی بہت ہے۔‘‘
پرکاش نے چمپا کی بات سن کر شرم اور حیا سے سر جھکا لیا۔ چمپا اسے اتنا کاہل الو جود سمجھتی ہے۔
رات کو دونوں کھانا کھا کر سوئے تو پرکاش نے پھر زیوروں کا ذکر چھیڑا۔ زیور اس کی آنکھوں میں بسے ہوئے تھے۔ ’’اس شہر میں ایسے بڑھیا زیور بنتے ہیں۔ مجھے اس کی امید نہ تھی۔‘‘
چمپا نے کہا۔ ’’کوئی اور بات کرو۔ زیوروں کی بات سن کر دل جلتا ہے۔‘‘
’’ایسی چیزیں تم پہنو تو رانی معلوم ہونے لگو۔‘‘
’’زیوروں سے کیا خوبصورتی معلوم ہوتی ہے۔ میں نے تو ایسی بہت سی عورتیں دیکھی ہیں، جو زیور پہن کر بھی بھدی معلوم ہوتی ہے۔‘‘
ٹھاکر صاحب مطلب کے یار معلوم ہوتے ہیں، یہ نہ ہوا کہ کہتے۔
’’تم اس میں سے کوئی چمپا کے لئے لیتے جاؤ۔‘‘
’’تم کیسی بچوں کی سی باتیں کرتے ہو۔‘‘
’’اس میں بچپن کی کیا بات ہے کوئی فراخ دل آدمی کبھی اتنی کنجوسی نہ کرتا۔‘‘
’’میں نے سخی کوئی نہیں دیکھا۔ جو اپنی بہو کے زیور کسی غیر کو بخش دے۔‘‘
’’میں غیر نہیں ہوں۔ ہم دونوں ایک ہی مکان میں رہتے ہیں۔ میں ان کے لڑکے کو پڑھاتا ہوں اور شادی کا سارا انتظام کر رہا ہوں۔ اگر سو دو سو کی چیز دے دیتے تو کون سی بڑی بات تھی۔ مگر اہل ثروت کا دل دولت کے بوجھ سے دب کر سکڑ جاتا ہے۔ اس میں سخاوت اور فراخ حوصلگی کے لئے جگہ ہی نہیں رہتی۔‘‘
یکایک پرکاش چارپائی سے اٹھ کر کھڑا ہوا۔ آہ چمپا کے نازک جسم پر ایک گہنا بھی نہیں پھر بھی وہ کتنی شاکر ہے۔ اسے چمپا پر رحم آ گیا۔ یہی تو کھانے پینے کی عمر ہے اور اس عمر میں اس بیچاری کو ہر ایک چیز کے لئے ترسنا پڑتا ہے۔ وہ دبے پاؤں گھر سے باہر چھت پر آیا۔ ٹھاکر صاحب کی چھت اس چھت سے ملی ہوئی تھی۔ بیچ میں ایک پانچ فٹ اونچی دیوار تھی۔ وہ دیوار پر چڑھ گیا اور ٹھاکر صاحب کی چھت پر آہستہ سے اتر گیا۔ گھر میں بالکل سناٹا تھا۔
اس نے سوچا پہلے زینہ سے اتر کر کمرہ میں چلوں۔ اگر وہ جاگ گئے تو زور سے ہنس دوں گا اور کہوں گا، کیا چرکا دیا۔ کہہ دوں گا۔ میرے گھر کی چھت سے کوئی آدمی ادھر آتا دکھائی دیا اس لئے میں بھی اس کے پیچھے پیچھے آیا کہ دیکھوں یہ کیا کر رہا ہے؟ کسی کو مجھ پر شک ہی نہیں ہو گا۔ اگر صندوق کی کنجی مل گئی تو پو بارہ ہیں۔ سب نوکروں پر شبہ کریں گے۔ میں بھی کہوں گا صاحب نوکروں کی حرکت ہے ان کے سوا اور کون لے جا سکتا ہے۔ میں نلوہ نکل جاؤں گا۔ شادی کے بعد کوئی دوسرا گھر لے لوں گا۔ پھر آہستہ آہستہ ایک ایک زیور چمپا کو دوں گا جس سے کوئی شک نہ گزرے۔
پھر بھی وہ جب زینے سے اترنے لگا تو اس کا دل دھڑک رہا تھا۔
دھوپ نکل آئی تھی پرکاش ابھی سو رہا تھا کہ چمپا نے اسے جگا کر کہا۔ ’’بڑا غضب ہو گیا رات کو ٹھاکر صاحب کے گھر میں چوری ہو گئی۔ چور زیوروں کا ڈبہ اٹھا کر لے گئے۔‘‘
پرکاش نے پڑے پڑے پوچھا، ’’کسی نے پکڑا نہیں چور کو۔‘‘
’’کسی کو خبر بھی نہیں، وہی ڈبے لے گئے جس میں شادی کے زیور رکھے تھے نہ جانے کیسے چابی اڑا لی۔ اور انہیں کیسے معلوم ہوا کہ اس صندوق میں ڈبہ رکھا ہے۔‘‘
’’نوکروں کی کارستانی ہو گی۔ باہر کے آدمی کا یہ کام نہیں ہے۔‘‘
’’نوکر تو ان کے تینوں پرانے ہیں۔‘‘
’’نیت بدلتے کیا دیر لگتی ہے۔ آج موقع دیکھا اڑا لے گئے۔‘‘
’’تم جا کر ان کو تسلی دو۔ ٹھکرائن بے چاری رو رہی تھی۔ تمہارا نام لے کر کہتی تھیں کہ بیچارہ مہینوں ان زیوروں کے لئے دوڑا۔ ایک ایک چیز اپنے سامنے بنوائی اور چور مونڈی کاٹے نے اس کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔‘‘
پرکاش جھٹ پٹ اٹھ بیٹھا اور گھبرایا ہوا سا جا کر ٹھکرائن سے بولا۔ ’’یہ تو بڑا غضب ہو گیا ماتا جی، مجھے تو ابھی ابھی چمپا نے بتلایا۔‘‘
ٹھاکر صاحب سر پر ہاتھ رکھے ہوئے بیٹھے تھے۔ بولے، ’’کہیں سیندھ نہیں کوئی تالا نہیں ٹوٹا۔ کسی دروازے کی چول نہیں اتری سمجھ میں نہیں آیا کہ چور کدھر سے آیا؟‘‘
ٹھکرائن نے رو کر کہا، ’’میں تو لٹ گئی بھیا! بیاہ سر پر ہے، کیا ہو گا بھگوان! تم نے کتنی دوڑ دھوپ کی تھی، تب کہیں جا کر چیزیں تیار ہو کر آئی تھیں نہ جانے کس منحوس ساعت میں بنوائی تھیں۔‘‘
پرکاش نے ٹھاکر صاحب کی کان میں کہا، ’’مجھے تو نوکروں کی شرارت معلوم ہوتی ہے۔‘‘
ٹھکرائن نے مخالفت کی۔ ’’ارے نہیں بھیا۔ نوکروں میں کوئی نہیں۔ دس ہزار روپے یوں ہی اوپر رکھے رہتے ہیں۔ کبھی ایک پائی کا نقصان نہیں ہوا۔‘‘
ٹھاکر صاحب نے ناک سکوڑ کر کہا۔ ’’تم کیا جانو آدمی کا دل کتنی جلدی بدل جاتا ہے۔ جس نے ابھی تک چوری نہیں کی وہ چوری نہیں کرے گا، یہ کوئی نہیں کہہ سکتا۔ میں پولیس میں رپورٹ کروں گا اور ایک ایک نوکر کی تلاشی کراؤں گا۔ کہیں مال اڑا دیا ہو گا۔ جب پولیس کے جوتے پڑیں گے تو آپ اقبال کریں گے۔‘‘
پرکاش نے پولیس کا گھر میں آنا خطرناک سمجھا۔ کہیں ان کے گھر کی تلاشی لیں تو ستم ہی ہو جائے گا۔ بولے، ’’پولیس میں رپورٹ کرنا اور تحقیقات کرنا بالکل بے فائدہ ہے۔‘‘
ٹھاکر صاحب نے منھ بنا کر کہا۔ ’’تم بھی کیا بچوں کی سی بات کر رہے ہو پرکاش بابو۔ بھلا چوری کرنے والا خود بخود اقبال کرے گا۔ تم زد و کوب بھی نہیں کر سکتے۔ ہاں پولیس میں رپورٹ کرنا مجھے بھی فضول معلوم ہوتا ہے۔ ال چلا گیا، اب کیا ملے گا۔‘‘
پرکاش، ’’لیکن کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔‘‘
ٹھاکر: ’’کوئی فائدہ نہیں۔ ہاں اگر کوئی خفیہ پولیس کا آدمی ہو جو چپکے چپکے پتہ لگا دے تو البتہ مال نکل آئے۔ لیکن یہاں ایسے آدمی کہاں۔ نصیبوں کو رو کر بیٹھ رہو اور کیا۔‘‘
پرکاش، ’’آپ بیٹھے رہیے۔ لیکن میں بیٹھنے والا نہیں۔ میں انہیں نوکروں کے سامنے چور کا نام نکلواؤں گا۔‘‘
ٹھکرائن: ’’نوکروں پر مجھے پورا یقین ہے۔ کسی کا نام بھی نکل آئے تو مجھے یہی خیال رہے گا کہ یہ کسی باہر کے آدمی کا کام ہے۔ چاہے جدھر سے آیا ہو پر چور آیا باہر سے۔ تمہارے کوٹھے سے بھی تو آ سکتا ہے۔‘‘
ٹھاکر: ’’ہاں ذرا اپنے کوٹھے پر دیکھو شاید کچھ نشان ملے۔ کل دروازہ تو کھلا ہوا نہیں رہ گیا؟‘‘
پرکاش کا دل دھڑکنے لگا۔ بولا ’’میں تو دس بجے دروازہ بند کر لیتا ہوں، ہاں کوئی پہلے سے موقع پا کر کوٹھے پر چلا گیا ہو۔ وہاں چھپا بیٹھا رہا ہو تو دوسری بات ہے۔‘‘
تینوں آدمی چھت پر گئے۔ تو بیچ کی منڈیر پر کسی کے پاؤں کے نشان دکھائی دئیے جہاں پرکاش کا پاؤں پڑا تھا وہاں کا چونا لگ جانے سے چھت پر پاؤں کا نشان پڑ گیا تھا۔ پرکاش کی چھت پر جا کر منڈیر کی دوسری طرف دیکھا تو ویسے ہی نشان وہاں بھی دکھائی دئیے۔ ٹھاکر صاحب سر جھکائے کھڑے تھے۔ لحاظ کے مارے کچھ نہ کہہ سکے تھے۔ پرکاش نے ان کے دل کی بات کھول دی۔ ’’اب تو کوئی شک ہی نہیں رہا۔‘‘
ٹھاکر صاحب نے کہا۔ ’’ہاں میں بھی یہی سمجھتا ہوں۔ لیکن اتنا پتہ لگ جانے سے کیا، مال تو جانا تھا وہ گیا، اب چلو آرام سے بیٹھو، آج روپے کی کوئی تجویز کرنی ہو گی۔‘‘
پرکاش: ’’میں آج ہی یہ گھر چھوڑ دوں گا۔‘‘
ٹھاکر: ’’کیوں ہمیں تمہارا۔۔۔‘‘
پرکاش: ’’آپ نہ کہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں۔ میرے سر پر بہت بڑی جواب دہی آ گئی۔ میرا دروازہ نو دس بجے تک کھلا ہی رہتا ہے۔ چور نے راستہ دیکھ لیا ہے۔ منکے ہے دو چار دن میں پھر آ گھسے۔ گھر میں اکیلی ایک عورت ہے سارے گھر کی نگرانی نہیں کر سکتی۔ ادھر وہ تو باورچی خانے میں بیٹھی ہے ادھر کوئی آدمی چپکے سے اوپر چڑھ گیا تو ذرا بھی آہٹ نہیں مل سکتی۔ میں گھوم گھوم کر کبھی نو بجے آیا کبھی دس بجے اور شادی کے دنوں میں دیر ہوتی رہے گی۔ ادھر کا راستہ بند ہی ہو جانا چاہئیے۔ میں تو سمجھتا ہوں چوری ساری میرے سر ہے۔‘‘
ٹھکرائن ڈریں، ’’تم چلے جاؤ گے بھیا تب تو گھر اور پھاڑ کھائے گا۔‘‘
پرکاش: ’’کچھ بھی ہو ماتا جی۔ مجھے بہت جلد گھر چھوڑ دینا پڑے گا۔ میری غفلت سے چوری ہو گئی۔ اس کا مجھے خمیازہ اٹھانا پڑے گا۔‘‘
پرکاش چلا گیا تو ٹھاکر کی عورت نے کہا۔ ’’بڑا لائق آدمی ہے چور ادھر سے آیا یہی بات اسے کھا گئی کہیں یہ چور کو پکڑ پائے تو کچا ہی کھائے۔‘‘
’’مار ہی ڈالے۔‘‘
’’دیکھ لینا کبھی نہ کبھی مال برآمد کرے گا۔‘‘
’’اب اس گھر میں ہرگز نہ رہے گا۔ کتنا ہی سمجھاؤ۔‘‘
’’کرایہ کے بیس روپے دینے پڑیں گے۔‘‘
’’ہم کیوں کرایہ دیں۔ وہ آپ ہی گھر چھوڑ رہے ہیں، ہم تو کچھ کہے نہیں۔‘‘
’’کرایہ تو دینا ہی پڑے گا، ایسے آدمی کے لئے کچھ غم بھی کھانا پڑے تو برا نہیں لگتا۔‘‘
’’میں تو سمجھتی ہوں کرایہ لیں گے بھی نہیں۔‘‘
’’تیس روپے میں گزر بھی تو نہ ہو گی۔‘‘
پرکاش نے اسی دن وہ گھر چھوڑ دیا۔ اس گھر میں رہنے میں خدشہ تھا۔ لیکن جب تک شادی کی دھوم دھام رہی، اکثر تمام دن وہیں رہتے تھے۔ پیش بندی کے لئے چمپا سے کہا۔ ’’ایک سیٹھ جی کے ہاں پچاس روپے ماہوار کا کام مل گیا، مگر وہ روپے انہیں کے پاس جمع کرتا جاؤں گا۔ وہ آمدنی صرف زیوروں میں خرچ ہو گی اس میں سے ایک پیسہ گھر کے خرچ میں نہ آنے دوں گا۔‘‘ خاوند کی محبت کا یہ ثبوت پا کر اسے اپنی قسمت پر ناز ہوا دیوتاؤں میں اس کا اعتقاد اور بھی پختہ ہو گیا۔
اب تک پرکاش اور چمپا میں کوئی راز نہ تھا۔ پرکاش کے پاس جو کچھ تھا وہ چمپا کا تھا۔ چمپا ہی کے پاس اس کے ٹرنک، صندوق اور الماری کی چابیاں رہتی تھیں۔ مگر جب پرکاش کا ایک صندوق ہمیشہ بند رہتا تھا اس کی چابی کہاں ہے؟ اس کا چمپا کو پتہ نہیں۔ وہ پوچھتی ہے، اس صندوق میں کیا ہے۔ تو وہ کہہ دیتے ہیں۔ ’’کچھ نہیں پرانی کتابیں ہیں ماری ماری پھرتی تھیں اٹھا کے صندوق میں بند کر دی ہیں۔‘‘ چمپا کو شک کی گنجائش نہ تھی۔
ایک دن چمپا انہیں پان دینے گئی۔ تو دیکھا وہ اس صندوق کو کھولے کچھ دیکھ رہے ہیں۔ اسے دیکھتے ہی ان کا چہرہ فق ہو گیا۔ شبہے کا اکھوا سا نکلا مگر پانی بہہ کر سوکھ گیا۔ چمپا کسی ایسے راز کا خیال ہی نہ کر سکی جس سے شبہے کو غذا ملتی۔
لیکن پانچ ہزار کی پونجی کو اس طرح چھوڑ دینا کہ اس کا دھیان ہی نہ آئے، پرکاش کے لئے نا ممکن تھا۔ وہ کہیں باہر جاتا تو ایک بار صندوق کو ضرور کھولتا۔
ایک دن پڑوس میں چوری ہو گئی۔ اس دن سے پرکاش کمرے ہی میں سونے لگا۔ جون کا مہینہ تھا۔ گرمی کے مارے دم گھٹتا تھا۔ چمپا نے باہر سونے کے لئے کہا مگر پرکاش نہ مانا، اکیلا گھر کیسے چھوڑ دے۔
چمپا نے کہا، ’’چوری ایسوں کے گھر نہیں ہوتی۔ چور کچھ دیکھ کر ہی جان خطرے میں ڈالتے ہیں۔ یہاں کیا رکھا ہے۔‘‘
پرکاش نے غصے سے کہا، ’’کچھ نہیں، برتن تو ہیں، غریب کے لئے تو اپنی ہنڈیا ہی بہت ہے۔‘‘
ایک دن چمپا نے کمرے میں جھاڑو لگائی تو صندوق کھسکا کر ایک طرف رکھ دیا۔ پرکاش نے صندوق کی جگہ بدلی ہوئی دیکھی تو بولا۔ ’’صندوق تم نے ہٹایا تھا؟‘‘
یہ پوچھنے کی بات نہ تھی۔ جھاڑو لگاتے وقت اکثر چیزیں ادھر ادھر کھسکا دی جاتی ہیں بولی، ’’میں کیوں ہٹا نے لگی۔‘‘
’’پھر کس نے ہٹایا۔‘‘
’’گھر میں تم رہتی ہو جانے کون۔‘‘
’’اچھا اگر میں نے ہی ہٹا دیا تو اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے۔‘‘
’’کچھ یونہی پوچھا تھا۔‘‘
مگر جب تک صندوق کھول کر تمام چیزیں دیکھ نہ لے پرکاش کو چین کہاں۔ چمپا جیسے ہی کھانا پکانے لگی۔ وہ صندوق کھول کر دیکھنے لگا۔ آج چمپا نے پکوڑیاں بنائی تھیں۔ پکوڑیاں گرم گرم ہی مزا دیتی ہیں۔ پرکاش کو پکوڑیاں پسند بہت تھیں۔ اس نے تھوڑی سی پکوڑیاں طشتری میں رکھیں اور پرکاش کو دینے گئی۔ پرکاش نے اسے دیکھتے ہی صندوق دھماکے سے بند کر دیا اور تالا لگا کر اسے بہلانے کے لئے بولا۔ ’’طشتری میں کیا لائیں، آج نہ جانے کیوں مطلق بھوک نہیں لگی۔ پیٹ میں گرانی معلوم ہوتی ہیں۔‘‘
’’اچھا پکوڑیاں ہیں۔‘‘
آج چمپا کے دل میں شبہ کا وہ اکھوا جیسے ہرا ہو کر لہلہا اٹھا۔ صندوق میں کیا ہے؟ یہ دیکھنے کے لئے اس کا دل بے قرار ہو گیا۔ پرکاش اس کی چابی چھپا کر رکھتا تھا۔ چمپا کو وہ تالی کسی طرح نہ ملی۔ ایک دن ایک پھیری والا بساطی پرانی چابیاں بیچنے آ نکلا۔ چمپا نے اس تالے کی چابی خرید لی اور صندوق کھول ڈالا، ارے یہ تو زیور ہیں۔ اس نے ایک ایک زیور نکال کر دیکھا۔ یہ کہاں سے آئے۔ مجھ سے تو کبھی ان کے متعلق بات چیت نہیں کی۔ معاً اس کے دل میں خیال گزرا یہ زیورات ٹھاکر صاحب کے تو نہیں۔ چیزیں وہی تھیں جن کا تذکرہ کرتے رہتے تھے۔ اسے اب کوئی شک نہ رہا۔ لیکن اتنی بڑی شرم و ندامت سے اس کا سر جھک گیا۔ اس نے ایک دم صندوق بند کر دیا اور پلنگ پر لیٹ کر سوچنے لگی۔ ان کی اتنی ہمت کیسے پڑی؟ یہ کمینہ خواہش ان کے من میں آئی کیسے؟ میں نے تو کبھی زیوروں کے لئے انہیں تنگ نہیں کیا۔ اگر تنگ بھی کرتی تو کیا اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ چوری کر کے لائیں گے۔ چوری زیوروں کے لئے۔ ان کا ضمیر اتنا کمزور کیوں ہو گیا؟
اس دن سے چال کچھ اداس رہنے لگی۔ پرکاش سے وہ محبت نہ رہی، نہ وہ عزت کا جذبہ، بات بات پر تکرار ہو جاتی۔ پہلے دونوں ایک دوسرے سے دل کی باتیں کہتے تھے۔ مستقبل کے منصوبے باندھتے تھے۔ آپس میں ہمدردی تھی۔ مگر اب دونوں میں کئی کئی دن تک آپس میں ایک بات بھی نہ ہوتی۔
کئی مہینے گزر گئے۔ شہر کے ایک بینک میں اسسٹنٹ منیجر کی جگہ خالی ہوئی۔ پرکاش نے اکاؤنٹنٹ کا امتحان پاس کیا ہوا تھا، لیکن شرط یہ تھی کہ نقد دس ہزار روپے کی ضمانت داخل کی جائے۔ اتنی رقم کہاں سے آئے، پرکاش تڑپ تڑپ کر رہ جاتا۔
ایک دن ٹھاکر صاحب سے اس معاملے پر بات چیت چل پڑی۔ ٹھاکر صاحب نے کہا، ’’تم کیوں نہیں درخواست بھیجتے؟‘‘
پرکاش نے سر جھکا کر کہا۔ ’’دس ہزار کی نقد ضمانت مانگتے ہیں۔ میرے پاس روپے کہاں رکھے ہیں۔‘‘
’’اجی درخواست تو دو، اگر اور سب امور طے ہو جائیں تو ضمانت بھی دے دی جائے گی۔ اس کی فکر نہ کرو۔‘‘
پرکاش نے حیران ہو کر کہا، ’’آپ زر ضمانت داخل کر دیں گے؟‘‘
’’ہاں ہاں یہ کونسی بڑی بات ہے۔‘‘
پرکاش گھر کی طرف چلا تو بڑا اداس تھا۔ اس کو یہ نوکری ضرور ملے گی، مگر پھر بھی خوش نہیں ہے۔ ٹھاکر صاحب کی صاف دلی اور ان کے اس پر اتنے زبردست اعتماد سے اسے دلی صدمہ ہو رہا ہے۔ ان کی شرافت اس کے کمینہ پن کو روندے ڈالتی ہے۔ اس نے گھر آ کر چمپا کو خوشخبری سنائی۔ چمپا نے سن کر منھ پھیر لیا، پھر ایک منٹ بعد بولی۔ ’’ٹھاکر صاحب سے تم نے کیوں ضمانت دلوائی؟ جگہ نہ ملتی نہ صحیح، روٹیاں تو مل ہی جاتی ہیں۔ روپے پیسے کا معاملہ ہے، کہیں بھول چوک ہو جائے تو تمہارے ساتھ ان کے پیسے بھی جائیں۔‘‘
’’یہ تم کیسے سمجھتی ہو کہ بھول چوک ہو گی، کیا میں ایسا اناڑی ہوں؟‘‘
چمپا نے کہا، ’’آدمی کی نیت بھی تو ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی۔‘‘
پرکاش سناٹے میں آ گیا۔ اس نے چمپا کو چبھتی ہوئی نظروں سے دیکھا۔ مگر چمپا نے منھ پھیر لیا تھا۔ وہ اس کے اندرونی خیال کا اندازہ نہ لگا سکا، مگر ایسی خوش خبری سن کر بھی چمپا کا اداس رہنا کھٹکنے لگا۔ اس کے دل میں سوال پیدا ہوا، اس کے الفاظ میں کہیں طنز تو نہیں چھپا ہے۔ چمپا نے صندوق کھول کر کہیں دیکھ تو نہیں لیا۔ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے وہ اس وقت اپنی ایک آنکھ بھی نذر کر سکتا تھا۔
کھانے کے وقت پرکاش نے چمپا سے پوچھا۔ ’’تم نے کیا سوچ کر کہا کہ آدمی کی نیت تو ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی؟‘‘ جیسے اس کی زندگی اور موت کا سوال ہو۔
چمپا نے آزردہ ہو کر کہا، ’’کچھ نہیں میں نے دنیا کی بات کہی تھی۔‘‘
پرکاش کو تسلی نہ ہوئی، اس نے پوچھا۔
’’کیا جتنے آدمی بینک میں ملازم ہیں، ان کی نیت بدلتی رہتی ہے۔‘‘
چمپا نے گلا چھڑانا چاہا۔ ’’تم تو زبان پکڑتے ہو، ٹھاکر صاحب کے ہاں شادی میں ہی تو تم اپنی نیت ٹھیک نہ رکھ سکے، سو دو سو روپے کی چیز گھر میں رکھ ہی لی۔‘‘
پرکاش کے دل میں بوجھ سا اتر گیا۔ مسکرا کر بولا، ’’اچھا تمہارا اشارہ اس طرف تھا۔ لیکن میں نے کمیشن کے سوائے ان کی ایک پائی بھی نہیں چھوئی۔ اور کمیشن لینا تو کوئی پاپ نہیں۔ بڑے بڑے حکام کھلے خزانے کمیشن لیا کرتے ہیں۔‘‘
چمپا نے نفرت کے لہجے میں کہا۔ ’’جو آدمی اپنے اوپر اتنا یقین رکھے۔ اس کی آنکھ بچا کر ایک پائی بھی لینا گناہ سمجھتی ہوں۔ تمہاری شرافت جب جانتی کہ تم کمیشن کے روپے جا کر ان کے حوالے کر دیتے۔ ان چھ مہینوں میں انہوں نے تمہارے ساتھ کیا کیا سلوک کئے۔ کچھ دیا ہی ہے؟ مکان تم نے خود چھوڑا لیکن وہ بیس روپے ماہوار دیے جاتے ہیں۔ علاقے سے کوئی سوغات آتی ہے، تمہارے ہاں ضرور بھیجتے ہیں۔ تمہارے پاس گھڑی نہ تھی۔ اپنی گھڑی تمہیں دے دی۔ تمہاری کہارن جب ناغہ کرتی ہے خبر پاتے ہی اپنا نو کر بھیج دیتے ہیں۔ میری بیماری میں ڈاکٹر کے فیس انہوں نے ادا کی اور دن میں دو دو دفعہ پوچھنے آیا کرتے تھے۔ یہ ضمانت کی کیا چھوٹی بات ہے، اپنے رشتہ داروں تک کی ضمانت تو جلدی سے کوئی دیتا ہی نہیں۔ تمہاری ضمانت کے نقد دس ہزار روپے نکال کر دے دئیے۔ اسے تم چھوٹی بات سمجھتے ہو۔ آج تم سے کوئی غلطی ہو جائے تو ان کے روپے تو ضبط ہو جائیں۔ جو آدمی اپنے اوپر اتنی مہربانی کرے اس کے لئے ہمیں جان قربان کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہنا چاہئیے۔‘‘
پرکاش کھا کر لیٹا تو اس کا ضمیر اسے ملامت کر رہا تھا۔ دکھتے ہوئے پھوڑے میں کتنا مواد بھرا ہے، یہ اس وقت معلوم ہوتا ہے جب نشتر لگایا جاتا ہے۔ دل کی سیاہی اس وقت معلوم ہوتی ہے جب کوئی اسے ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیتا ہے۔ کوئی سوشل یا پولٹیکل کارٹون دیکھ کر کیوں ہمارے دل پر چوٹ لگتی ہے۔ اسلیے کہ وہ تصویر ہماری حیوانیت کو کھول کر ہمارے سامنے رکھ دیتی ہے۔ وہ جو دل کے اتھاہ سمندر میں بکھرا ہوا پڑا تھا، اکٹھا ہو کر گھر سے نکلنے والے کوڑے کی طرح اپنی جسامت سے ہمیں متوحش کر دیتا ہے۔ تب ہمارے منھ سے نکل پڑتا ہے کہ افسوس۔ چمپا کے ان ملامت آمیز الفاظ نے پرکاش کی انسانیت کو بیدار کر دیا۔ وہ صندوق کئی گنا بھاری ہو کر پتھر کی طرح اسے دبانے لگا۔ دل میں پھیلی ہوئی حرارتیں ایک نقطے پر جمع ہو کر شعلہ گیر ہو گئیں۔
کئی روز گزر گئے۔ پرکاش کو بینک میں ملازمت مل گئی۔ اس تقریب میں اس کے ہاں مہمانوں کی دعوت ہے۔ ٹھاکر صاحب، ان کی اہلیہ، ویریندر اور اس کی نئی دلہن بھی آئے ہوئے ہیں۔ باہر یار دوست گا بجا رہے ہیں۔ کھانا کھانے کے بعد ٹھاکر صاحب چلنے کو تیار ہوئے۔
پرکاش نے کہا، ’’آج آپ کو یہاں رہنا ہو گا۔ دادا میں اس وقت نہ جانے دوں گا۔‘‘
چمپا کو اس کی یہ ضد بری معلوم ہوئی۔ چارپائیاں نہیں ہیں، بچھونے نہیں ہیں اور نہ کافی جگہ ہی ہے۔ رات بھر ان کو تکلیف دینے اور خود تکلیف اٹھانے کی کوئی ضرورت اس کی سمجھ میں نہ آئی۔ لیکن پرکاش برابر ضد کرتا رہا۔ یہاں تک کہ ٹھاکر صاحب راضی ہو گئے۔
بارہ بجے تھے۔ ٹھاکر صاحب اوپر سو رہے تھے اور پرکاش باہر برآمدے میں، تینوں عورتیں اندر کمرے میں تھیں۔ پرکاش جاگ رہا تھا۔ ویرو کے سرہانے چابیوں کا گچھا پڑا ہوا تھا۔ پرکاش نے گچھا اٹھا لیا، پھر کمرہ کھول کر اس میں سے زیورات کا ڈبہ نکالا اور ٹھاکر صاحب کے گھر کی طرف چلا۔ کئی ماہ پیش تر وہ اسی طرح لرزتے ہوئے دل کے ساتھ ٹھاکر صاحب کے مکان میں گھسا تھا۔ اس کے پاؤں تب بھی اسی طرح تھر تھرا رہے تھے۔ لیکن تب کانٹا چبھنے کا درد تھا آج کانٹا نکلنے کا۔ تب بخار کا چڑھا و تھا حرارت اضطراب اور خلش سے پر، اب بخار کا اتار تھا۔ سوھن، فرحت اور امنگ سے بھرا ہوا۔ تب قدم پیچھے ہٹا تھا۔ آج آگے بڑھ رہا تھا۔
ٹھاکر صاحب کے گھر پہنچ کر اس نے آہستہ سے ویریندر کا کمرہ کھولا اور اندر جا کر ٹھاکر صاحب کے پلنگ کے نیچے ڈبہ رکھ دیا، پھر فوراً باہر آ کر آہستہ سے دروازہ بند کیا اور گھر لوٹ پڑا۔ ہنومان جی سنجیونی بوٹی والا پہاڑ کا ٹکڑا اٹھائے جس روحانی سرور کا لطف اٹھا رہے تھے، ویسی ہی خوشی پرکاش کو بھی ہو رہی تھی۔ زیوروں کو اپنے گھر لے جاتے ہوئے اس کی جان سوکھی ہوئی تھی۔ گویا کہ کسی گہرائی میں جا رہا ہو۔ آج ڈبے کو لوٹا کر اسے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ ایروپلین پر بیٹھا ہوا فضا میں اڑا جا رہا ہے اوپر اوپر اور اوپر۔
وہ گھر پہنچا تو ویرو سو رہا تھا، چابیوں کا گچھا اس کے سرہانے رکھ دیا۔
ٹھاکر صاحب صبح تشریف لے گئے۔
پرکاش شام کو پڑھانے جایا کرتا تھا۔ آج وہ بے صبر ہو کر تیسرے پہر ہی جا پہنچا دیکھنا چاہتا تھا وہاں آج کیا گل کھلتا ہے۔
ویریندر نے اسے دیکھتے ہی خوش ہو کر کہا، ’’بابوجی کل آپ کے ہاں کی دعوت بڑی مبارک تھی۔ جو زیورات چوری ہو گئے تھے سب مل گئے۔‘‘
ٹھاکر صاحب بھی آ گئے، اور بولے، ’’بڑی مبارک دعوت تھی تمہاری، پورا کا پورا ڈبہ مل گیا۔ ایک چیز بھی نہیں گئی، جیسے امانت رکھنے کے لئے ہی لے گیا ہو۔‘‘
پرکاش کو ان کی باتوں پر یقین کیسے آئے جب تک وہ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لے کہیں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ چوری گیا ہوا مال چھ ماہ بعد مل جائے اور جوں کا توں۔
ڈبہ کھول کر اس نے بڑی سنجیدگی سے دیکھا، تعجب کی بات ہے۔ میری عقل تو کام نہیں کرتی۔
ٹھاکر: ’’کسی کی عقل کچھ کام نہیں کرتی بھائی تمہاری ہی کیوں؟ ویرو کی ماں تو کہتی ہے کوئی غیبی معجزہ ہے آج سے مجھے بھی معجزات پر یقین ہو گیا۔‘‘
پرکاش: ’’اگر آنکھوں دیکھی بات نہ ہوتی تو مجھے یقین نہ آتا۔‘‘
ٹھاکر: ’’آج اس خوشی میں ہمارے ہاں دعوت ہو گی۔‘‘
پرکاش: ’’آپ نے کوئی منتر ونتر تو نہیں پڑھوایا کسی سے۔‘‘
ٹھاکر: ’’کئی پنڈتوں سے۔‘‘
پرکاش: ’’تو بس یہ اسی کی برکت ہے۔‘‘
گھر لوٹ کر پرکاش نے چمپا کو یہ خوشخبری سنائی تو وہ دوڑ کر ان کے گلے سے چمٹ گئی، اور نہ جانے کیوں رونے لگی، جیسے اس کا بچھڑا ہوا خاوند بہت مدت کے بعد گھر آ گیا ہو۔
پرکاش نے کہا، ’’آج ان کے ہاں میری دعوت ہے۔‘‘
’’میں بھی ایک ہزار بھوکوں کو کھانا کھلاؤں گی۔‘‘
’’تم تو سینکڑوں کا خرچ بتلا رہی ہو۔‘‘
’’مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ لاکھوں روپے خرچ کرنے پر بھی ارمان پورا نہ ہو گا۔‘‘
پرکاش کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...