اپنی مسلسل گردش کے باوجود، ہائیڈروجوجیکل سائیکل کے کچھ حصے ایسے ہیں جو محدود قدرتی ریسورس ہیں۔ خاص طور پر زیرِ زمین پانی کے ذرائع۔
زیرِزمین پانی بہت ہی پرکشش ہے۔ بارش یا دریا کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ان کی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت نہیں۔ یہ مسلسل سپلائی کا قابلِ اعتبار ذریعہ نہیں۔ اس کے برعکس زیرِ زمین ایکویفر (aquifer) بہت زیادہ پانی رکھتے ہیں اور مقابلتاً مستحکم ہوتے ہیں۔ انسانی ہزاروں برس سے کنویں کھودتے آئے ہیں۔ مصر، چین اور پرشیا میں چار ہزار سال پہلے سے۔ لیکن ستر یا اسی فٹ گہرے کنویں جدید ایجاد ہے۔ سنٹری فیوگل پمپ اور انٹرنل کمبسشن انجن نے اس کو ممکن کیا ہے۔ پانی کی قلت والے علاقوں میں اس نئی ٹیکنالوجی نے پانی کی ڈرلنگ کا دور شروع کیا۔ ویسے ہی جیسے تیل کے لئے ڈرلنگ کا تھا۔
اس تکنیک نے ہمیں مچھر جیسا بنا دیا۔ جگہ جگہ پر ہماری فولادی ڈنک زمین کے پانی کو تلاش کر کے اس کو چوس رہے ہیں۔
اس کا مطلب یہ نکلا کہ کسان اپنے خشک کھیتوں اور صحراوٗں کو راتوں رات ہرا بھرا کر سکتے ہیں۔ اور یہاں ایک ناخوشگوار راز ہے۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں آنے والا “سبز انقلاب” صرف پیٹروکیمیکل، ہائیبرڈ بیج اور مشینی زراعت کی وجہ سے نہیں آیا بلکہ زیرِ زمین پانی کو فصلوں میں استعمال کرنے کی صلاحیت بھی اس کا اہم حصہ ہے۔ زیرِ کاشت رقبہ 1960 میں چھ کروڑ ایکڑ تھا۔ یہ 2007 تک دگنا ہو کر بارہ کروڑ ایکڑ ہو چکا تھا۔ اس میں زیادہ تر اضافی پانی زمین کے نیچے سے آیا تھا۔ آج دنیا میں بہت سی جگہوں پر کسانوں کی گزربسر کا انحصار اس پر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایکویفر زمین کے نیچے بہتا دریا یا جھیل نہیں ہوتا۔ یہ گیلی جیولوجیکل تہہ ہے۔ عام طور پر یہ مسام دار ریت میں پایا جاتا ہے۔ اس تہہ میں سوراخ کیا جاتا ہے اور پمپ لگا کر اس پانی کو سطح تک بلند کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ واٹر ٹیبل میں ایک cone بن جاتی ہے اور ارد گرد کا پانی اس مسامدار میٹرکس سے سوراخ والی جگہ تک پہنچتا ہے اور پانی کی مسلسل سپلائی جاری رہتی ہے۔ گہرے ایکویفر سے آنے والی سپلائی عام طور پر قابلِ اعتبار ہوتی ہے۔ یہ شفاف، ٹھنڈا اور مزیدار پانی ہوتا ہے۔ گہرے ایکویفر نہ خشک ہوتے ہیں اور نہ ان میں سیلاب آتا ہے۔
انسانی تہذیب کے خشک ترین اور پانی کی قلت والے مقامات پر بڑے ایکویفرز کی دریافت اور استعمال بڑی آبادیاں ممکن کر رہے ہیں۔ ٹیکساس سے سعودی عرب کے صحراوٗں میں گھروں میں لگے باغوں کے پیچھے ماضی کے یہ باقیات ہیں جہاں اس پانی کو اکٹھا ہونے میں ہزاروں برس لگے۔
مسئلہ یہ ہے کہ کسی کو یہ معلوم بھی نہیں تھا اور پرواہ بھی نہیں تھی کہ زمین کے نیچے پانی آتا کہاں سے ہے۔ ابتدائی وقتوں میں ڈرل کرنے والوں کا خیال تھا کہ یہ لامحدود ہے یا پھر کوئی پرسرار زیرِ زمین دریا اس کو بھرتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ دوبارہ چارج بارش کے اس پانی سے ہوتے ہیں جس کو زمین جذب کر لیتی ہے۔ اس لئے یہ سست رفتار سے بھرتے ہیں۔ اگر نکالے جانے والے پانی کی رفتار دوبارہ بھرنے والے سے تیز ہو تو ایکویفائر اوورڈرافٹ میں چلا جاتا ہے۔ پانی کی سطح گرنے لگتی ہے اور کنویں ناکام ہونے لگتے ہیں۔ پانی کے حصول کے لئے مزید گہری کھدائی کرنی پڑتی ہے اور پھر کچھ مدت کے بعد کنویں وہاں پر بھی ناکام ہو جاتے ہیں۔ یہ اس وقت تک چلتا ہے جب تک ایکویفر اس قدر نیچے چلا جائے کہ اس سے پانی نکالنا ممکن نہ رہے یا بہت مہنگا ہو جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں اب اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ مسئلہ عالمی طور پر کتنا زیادہ عام ہے۔ اس کی پیمائش زمین کی گریویٹی میں پڑنے والے انتہائی معمولی فرق سے کی جا سکتی ہے۔ 2009 میں ناسا کے سیٹلائیٹ GRACE سے ملنے والے ڈیٹا سے محققین نے دریافت کیا کہ قدرتی ریچارج ہونے کے باوجود برِصغیر کے ان علاقوں میں جہاں زراعت بہت زیادہ ہے، واٹر ٹیبل چار سے دس سینٹی میٹر سالانہ گِر رہا ہے!!۔
جن جگہوں پر بارش کی کمی ہے، وہاں پر اس کو واپس لانے کا طریقہ نہیں۔ کیونکہ ان جگہوں پر نہ صرف یہ کہ پانی کا ری چارج سب سے کم ہے بلکہ یہاں رہنے والوں کے لئے اسی پانی پر ہی لوگوں کا انحصار ہے۔ ایک بار ختم ہو گیا تو واپس آنے میں ہزاروں سال لگیں گے اور کچھ جگہوں پر ہزاروں سال بعد بھی نہیں آئے گا کیونکہ یہ ماضی کے آخری برفانی دور کی باقیات ہے۔ فوسل گراونڈ واٹر پٹرولیم کی طرح ہی محدود ریسورس ہے۔
پٹرولیم کی طرح ہی اس پانی کے کنویں بالآخر خشک ہو جائیں گے۔