“میں بتا رہی ہوں آج میں نے مشین نہیں لگانی پچھلے سنڈے بھی میں نے لگائی تھی اور ایسا لگ رہا تھا وہ آٹھ لوگوں کے نہیں آدھے پاکستان کے کپڑے ہیں” زینیہ کی دہائیاں عروج پہ تھیں
“کپڑے دھونے کی ذمہ داری تمہاری ہے تو تمہیں چاہیے روز دھو لو پر نہیں تمہیں تو سنڈے کو مشین لگانی ہوتی ہے تو اب لگاؤ اس نکتے سے ہٹ کے کپڑے آدھے پاکستان کے ہیں یا سارے پاکستان کے” مریم جو سیڑھی پہ کھڑی ہو کر چھت سے جالے اتار رہی تھی اس نے وہی ٹنگے ہوئے اس کی طبعیت صاف کی تھی
“یہ ابا کہاں ہیں صبح ناشتہ بنا کے ایسے غائب ہوئے ہیں کہ اس کے بعد سے ابھی تک نظر نہیں آئے” فاتینا نے پردے اتارتے ہوئے حسین صاحب کے متعلق پوچھا تھا
“ابا آج تھوڑا جلدی سٹور چلے گئے تھے اور یہ پردے تم کس خوشی میں اتار رہی ہو؟” اسے پردے اتارتے دیکھ کر زینیہ تو تڑپ ہی اٹھی تھی پہلے کپڑے کیا کم تھے جو وہ پردے بھی اتار رہی تھی
“مس زینیہ حسین یہ پردے پچھلے سنڈے بھی آپ کی غفلت کی نظر ہو گئے تھے لیکن اس دفعہ ایسا کچھ نہیں ہو گا” فاتینا کے کہنے پہ زینیہ نے بس منہ بسورا تھا
“اے چشماٹو تم کیوں اتنے سکون سے بیٹھی ہو اٹھو کسی کام پہ لگو” نویرا نے صوفے پہ لیٹ کے موبائل پہ ڈرامہ دیکھتی روش کی چوٹی کھینچی تھی
“مریم سمجھا لو اسے مجھے چشماٹو مت کہا کرے” روش نے چیختے ہوئے مریم کو بھی بیچ میں گھسیٹا تھا
“مریم جا کر اپنا کچن صاف کر لو مجھ سے نہیں ہوتا سب سے گھٹیا کام مجھے سونپا ہوا ہے ابا شاید چائے چولہے پہ رکھ کے اسے اٹھانا بول گئے تھے اب دیگچی کی حالت دیکھو جا کر اور ہنڈیا کا حال بھی مختلف نہیں ہے اس لیے میں نہیں کر رہی کچن صاف” اس سے پہلے کہ مریم اسے جواب دیتی منیہا اپنا مسئلہ لے کر حاضر ہوئی تھی
“ہاں سب آ کر مریم کے سر پہ چڑھ کے ناچو مریم تم لوگوں کو یہاں سب سے زیادہ فارغ نظر آ رہی ہے نا” مریم جو سیڑھی کھینچ کھینچ کے اب ہانپ چکی تھی ان کی شکایات پہ پھٹ پڑی تھی سب نے حیرت بھری نظروں سے اسے دیکھا تھا کیونکہ وہ غصہ بہت کم کرتی تھی
“ہائے گرمی نے مت مار دی باہر تو کوئی حال نہیں ہے” مائرہ جو باہر صحن سے جھاڑو لگا کہ اور واش روم دھو کے آئی تھی آتے ہی بغیر اردگرد پھیلے گند کی پرواہ کیے پنکھے کے نیچے ڈھیر ہو گئی تھی سب کا دھیان اس طرف ہو گیا تھا مریم بڑبڑاتی ہوئی سیڑھی اٹھا کے اوپر والے پورشن میں چلی گئی تھی
مریم کے جاتے وہ سب سکون سے بیٹھ گئی تھی اسے اوپر جاتا دیکھ کے منیہا بھی کچن چھوڑ کے وہاں آ گئی تھی وہ سب باتوں میں اتنی مگن تھیں کہ انہیں حسین صاحب کے وہاں آنے کا بھی نہیں پتہ چلا تھا
“شاباش آرام کرنے ہی کے لیے تو آئی ہو تم سب اس دنیا میں اور اتفاقاً تم سب کو میرے گھر کا رستہ مل گیا جہاں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے آرام سے آرام فرما لیتی ہو سب” حسین صاحب کی آواز پہ ان سب کو کرنٹ لگا تھا بجلی کی سی تیزی سے وہ سب کھڑی ہو گئی تھیں
“ویسے روک ٹوک کے ہمیشہ ابا یہی کہتے ہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں” منیہا نے نویرا نے کے کان میں سرگوشی کی تھی نویرا نے اس کی کہنی سے تواضع کر کے اسے چپ رہنے کا اشارہ دیا تھا اور حسین صاحب کی نظروں سے خائف ہوتیں وہ سب دوبارہ اپنا اپنا کام سنبھال چکی تھیں اور حسین صاحب بھی سر جھٹکتے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے تھے
یہ منظر تھا حسین احمد کے گھر کا جہاں سنڈے ہونے کی وجہ سے تفصیلی صفائی کی جا رہی تھی مگر اپنی ازلی سستی کی وجہ سے دن کے گیارہ بجنے کے باوجود وہ ابھی تک اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہو سکی تھیں
حسین صاحب کا کریانہ سٹور تھا جو بہت بڑا نہیں تو بہت چھوٹا بھی نہیں تھا ان کی گزر بسر اچھی ہو رہی تھی حسین صاحب کی سات بیٹیاں مریم، مائرہ، زینیہ،فاتینا،نویرہ،منیہا اور روش جب روش دو سال کی تھی تب ان کی بیوی کا انتقال ہو گیا تھا تب سے حسین صاحب نے انہیں ماں اور باپ دونوں بن کر پالا تھا
َان سب میں بس سال ڈیڑھ سال کا ہی فرق تھا سب اک دوسرے کو نام سے ہی بلاتی تھیں یہاں تک کہ سب سے چھوٹی روش مریم سے آٹھ نو سال چھوٹی تھی مگر اسے اس کے نام سے ہی بلاتی تھی
مریم بی اے کے بعد پڑھائی کو خیر آباد کہہ دیا تھا اس کے نقش قدم پہ چلتے زینیہ اور فاتینہ نے بھی ایسا ہی کیا تھا کیونکہ مائرہ سی اے کر رہی تھی اس کی فیس اور باقی چھوٹی تینوں کی فیسز اتنی تھیں کہ حسین صاحب وہ ہی پے کر لیں تو یہی بہت ہے مائرہ کا بس اک پیپر رہ گیا تھا کلئیر کرنے والا اور وہ ساتھ جاب بھی کر رہی تھی
مریم پچیس کی ہو چکی تھی حسین صاحب اس کے رشتے کے لیے بہت پریشان تھے مگر رشتے داروں میں سے کوئی لینے کو تیار نہیں تھا اور باتیں جو بناتے وہ علیحدہ حسین صاحب یہ سب سوچتے ڈپریشن کے مریض بن چکے تھے اور وہ سب جان بوجھ کے اسی حرکتیں کرتی تھیں کہ ان کا دھیان بٹا رہے اور کچھ فضول سوچ نہ سکیں
“کھبی کھبی تو مجھے لگتا ہے ابا میں ہٹلر کی روح آ جاتی ہے ایسے گھورتے ہیں جیسے کچا چبا جائیں گے” حسین صاحب شاید کچھ لینے آئے تھے وہ لے کر چلے گئے تو روش نے دھڑم سے نیچے بیٹھتے شاہی فرمان جاری کیا تھا
“ابا کا تو پتہ نہیں لیکن اگر ہم یہاں سے کام ختم کر کے اوپر نہ گئیں تو ابا کی بڑی بیٹی میں ہٹلر کی روح آ جانی ہے اور ہم نے بلکل بھی نہیں بچنا” فاتینا نے ان کی توجہ اوپر والے پورشن میں گئی مریم کی طرف دلوائی تو وہ سب الرٹ ہوتیں جلدی سے کام نپٹانے لگیں ورنہ سچ میں مریم سے انہیں کوئی نہیں بچا سکتا تھا
______________________________
وہ سب کام ختم کر کے نہا دھو کے فریش ہو کے بیٹھی گپیں لگا رہی تھیں ان کا گھر ڈبل سٹوری تھا وہ ساتوں بہنیں اک ہی کمرے میں سوتی تھیں کمرے میں سات سنگل بیڈ تھے اور اک سٹڈی ٹیبل اور اک ٹو سیٹر صوفہ
فرنیچر کے نام پہ اس کمرے میں اور کچھ نہیں تھا باقی کمرے اور اوپر والے پورشن کے کمرے بھی فرنشڈ تھے مگر وہاں رہتا کوئی نہیں تھا انہوں نے کئی دفعہ حسین صاحب سے کہا تھا کہ اوپر والا پورشن رینٹ پہ دے دیں مگر وہ نہیں مانے تھے
“یار کیوں نہ برابر والوں کے یہاں سے کیریاں توڑ کے کھائی جائیں” باتوں سے بور ہو گئیں تو فاتینا نے آئیڈیا پیش کیا تھا جو سب کو پسند آیا
“لیکن اگر ابا آ گئے تو؟” مائرہ نے اپنا خدشہ ظاہر کیا
“تم تو ڈر ڈر کے مر جانا تم سے زیادہ بہادر تو روش ہے” مریم نے مائرہ کو گھرکا تو اس نے اسے آنکھیں دکھائی تھیں اور روش نے فرضی کالر جھاڑا تھا
پھر وہ سب سیڑھی سمیت صحن میں آ گئی تھیں آم کا درخت دوسری طرف دیوار کے ساتھ ہی تھا اور اس کا کچھ جھکاؤ ان کے گھر کی طرف تھا اس لیے انہوں نے سیڑھی دیوار کے ساتھ لگائی اور نویرہ کو چڑھنے کا اشارہ دیا تھا
نویرہ سیڑھی سے دیوار پہ چڑھی تھی اور اچھی طرح اطمینان کیا تھا کہ دوسری طرف کوئی ہے تو نہیں کسی کو نہ پا کر وہ تیزی سے درخت پہ چڑھی تھی نیچے وہ اک ٹوکری لے کر کھڑی تھیں نویرہ جلدی جلدی سے کیریاں اتار کے اس میں پھینک رہی تھی
“یہ کیا ہو رہا ہے؟” اس آواز پہ نویرہ کا توازن بگڑا تھا مگر دوسرے تنے کو پکڑتے اس نے خود کو سنھبالا اور نیچے دیکھا تھا جہاں ان کے پڑوسیوں کا اکلوتا چشم و چراغ اور اس کا دشمن اول ارسلان احمد دونوں ابرو اچکائے اسے ہی دیکھ رہا تھا
“منحوس انسان اگر میں گر جاتی نہ تو زندہ میں نے تمہیں بھی نہیں چھوڑنا تھا” نویرہ نے دانت پیستے اسے دھمکی دی تھی
“مجھے دھمکیاں بعد میں دینا فلحال تم ہمارے درخت سے اترو اس سے پہلے کہ میں وہاں آ کر تمہیں دکھا دوں” ارسلان نے اس کی دھمکی کو ہوا میں اڑاتے کہا تو اک لمحے کے لیے نویرہ کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا تھا اور پھر غیرت نے جوش مارا تھا
“جا رہی ہوں تم ہو ہی کنجوس اللّٰہ کرے کیڑے پڑ جائیں ساری کیریوں میں پھر ان کا اچار ڈال لینا” نویرہ اسے گھور کے بددعائیں دیتی درخت سے اتر کے دیوار سے سیڑھی پہ پیر رکھا تھا اور اس سے کل یونی میں بدلہ لینے کا سوچ لیا تھا اس نے عین اسی وقت گھر کا داخلی دروازہ کھول کے حسین صاحب اندر داخل ہوئے تھے
“ابا” نویرہ کی مری مری آواز سن کے ان سب کی گردنیں پیچھے کی طرف گھومی تھیں حسین صاحب گھر کا چکر لگاتے ہی رہتے تھے دیوار کی دوسری طرف کھڑے ارسلان نے افسوس میں سر ہلایا تھا وہ اسے بچانے کے لیے جلدی اتار رہا تھا کیونکہ وہ حسین صاحب کو گلی میں دیکھ کر آیا تھا مگر اپنے کوسنوں میں ٹائم ضائع کر کے اب وہ ڈانٹ کھائیں گی
سیڑھی پہ کھڑی نویرہ اور ٹوکری میں موجود کیریاں انہیں ساری کہانی سنا گئی تھیں حسین صاحب اک سخت نگاہ ان پہ ڈال کے اندر چلے گئے تھے اور وہ ساتوں بھی سر جھکائے ان نے پیچھے چل دی تھیں کیونکہ جانتی تھیں اب کلاس پکی لگے گی
“کب عقل آئے گی تم لوگوں کو؟ کیوں نہیں سمجھتی تم لوگ لڑکیاں ہو تم اور لڑکیوں کو ایسی حرکتیں زیب نہیں دیتیں” حسین صاحب نے سختی سے سب کو دیکھتے کہا تھا
“ہاں تو لڑکیاں ہیں تو کیا ہے لڑکیاں انسان نہیں ہوتیں کیا بچپن سے یہی تو سنتے آ رہے ہیں لڑکیاں ہو لڑکیاں ہو اب تو دل کرتا ہے تعویز لٹکا لیں گلے میں کہ ہم لڑکیاں ہیں” فاتینا حقیقی معنوں میں اس جملے سے بیزار ہو چکی تھی
“دیکھ رہا ہوں تم لوگوں کی زبانیں دن با دن لمبی ہوتی جا رہی ہیں” حسین صاحب نے فاتینا کو گھورا تھا
“قسم سے ابا میری تو اتنی کی اتنی ہے جس دن آپ نے پہلے کہا تھا تب سے ماپ رہی ہو اتنی کی اتنی ہے اک انچ بھی زیادہ نہیں ہوئی” روش حسبِ عادت ناک پہ دھرے چشمے کو سیٹ کرتے انتہائی معصومیت سے کہا تو ان سب سے ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہونے لگا تھا وہی حسین صاحب نے عاجز آتے دانت پیسے تھے
“شکلیں گم کرو یہاں سے تم سب” انہیں اسی جملے کی امید تھی اس لیے وہ اک سیکنڈ میں وہاں سے غائب ہوتیں اپنے روم میں پہنچی تھیں کمرے میں پہنچتے اک لمحے کو ان سب نے اک دوسرے کو دیکھا تھا اور اگلے ہی لمحے وہ کھلکھلا کے ہنس دی تھیں ان کی ہنسی سن کے برآمدے میں بیٹھے حسین صاحب کے ہونٹ بھی مسکراہٹ میں ڈھلے تھے
“یار اگر ابا ناراض ہو گئے تو؟” مائرہ کے ساتھ یہ ڈر اک لمحے کو ان سب کے دل میں بھی آیا تھا
“نہیں وہ ہمارے ابا ہیں وہ نہیں ہم سے ناراض پتہ تو ہے ان کا غصہ وقتی ہوتا ہے” مریم نے سب کو تسلی دی تھی
“ظالمو اب یہ کیریاں تو کھا لو اب جن کے چکر میں ابا نے ہمیں شکلیں گم کرنے کا کہا تھا اور اس منحوس انسان نے اپنے درخت سے اترنے کا حکم دیا تھا” نویرہ نے دہائی دیتے ان کی توجہ کیریوں کی طرف دلوائی تو وہ اک دفعہ پھر ہنس دی تھیں
“شرم کر لو لڑکیاں یوں منہ پھاڑ کے نہیں ہنستیں” حسین صاحب کی مسکراتی آواز سن کے وہ سب بھی مسکرا اٹھی تھیں
______________________________
شام میں حسین صاحب سمیت وہ سب اپنی پسندیدہ جگہ یعنی صحن میں موجود درخت کے نیچے بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھیں مریم کچن میں چائے بنا رہی تھی
“ابا آپ اور اماں کہاں ملے تھے؟” فاتینا کے اچانک سوال پہ حسین صاحب گڑبڑا گئے تھے اور حسبِ عادت گھوری سے نوازا تھا کیونکہ انہیں اس سوال کی توقع نہیں تھی
“ارے ابا یوں گھوریں مت بتائیں نہ آپ دونوں کی لو میرج تھی یا وہی دیکھا تک نہیں تھا اک دوسرے کو بس ماں باپ کی مرضی پہ سر جھکا دیا” زینیہ نے بھی اشتیاق سے پوچھا تھا
“شرم کر لو تم سب تھوڑی بہت باپ ہوں میں تم لوگوں کا” حسین صاحب نے انہیں شرم دلانے کی کوشش کی تھی
“ارے ابا آپ ہمارے ابا تھوڑی ہیں آپ تو ہمارے دوست ہیں” روش نے اپنی ناک سے پھسلتا چشمہ واپس ٹکاتے معصوم بنتے کہا تھا
“ارے ڈفر وہ ہمارے ابا ہی ہیں اب انہیں دوست بنانے کے چکر میں انہیں ان کے عہدے سے دستبردار تو نہ کرو” زینیہ نے اس کے سر پہ چپت لگائی تھی جس پہ روش نے چشمے کے پیچھے اپنی موٹی موٹی آنکھوں سے اسے گھورا تھا
“ابا ان سب کو چھوڑیں ہم نہ مریم کی شادی کر دیتے ہیں بہت مزا آئے گا” نویرا نے آنکھیں بند کرتے ہوئے ایسے کہا تھا جیسے وہ واقعی ہی شادی انجوائے کر رہی ہو
“ہاں ابا بلکل ٹھیک کہہ رہی ہے نویرا کسی رشتے دار کی شادی پہ جاؤ تو ایلفی لگا کے اک جگہ ہی بیٹھے رہتے ہیں اور نہ ہی وہ کوئی لفٹ کرواتے ہیں اب ہم مریم کی شادی کرتے ہیں خوب ہلا گلا کریں گے اور ہم نے بھی کسی کو لفٹ نہیں کروانی” فاتینہ تو جیسے اپنے رشتے داروں سے کچھ زیادہ ہی نالاں تھیں
“وہ تو سب ٹھیک ہے لیکن لڑکا کہاں ہے جس سے شادی کروانی ہے؟” مائرہ کی بات پہ سب کو یاد آیا کہ اک عدد لڑکے کی بھی ضرورت ہے جس سے مریم کی شادی کرنی ہے ان سب میں حسین صاحب بس سب کی طرف گردنیں گھما کے انہیں ہی دیکھ رہے تھے جو انہیں بولنے کا موقع ہی نہیں دے رہی تھیں
“یہ کس کی شادی کی پلاننگ چل رہی ہے یہاں؟” مریم جو ابھی کچن سے چائے کے ساتھ برآمد ہوئی تھی اس نے بس مائرہ کی بات سنی تھی اس لیے چائے کی ٹرے ٹیبل پہ رکھتے اس نے پوچھا تھا
“مریم حسین کی شادی کی” منیہا نے آنکھیں گھماتے بتایا تو وہ اپنی جگہ سے اچھلی تھی
“جی نہیں ایسا کچھ نہیں ہو گا میں اور ابا پہلے تم سب کے فرض سے سبکدوش ہوں گے پھر میری شادی ہو گی ہے نا ابا؟” ان سب کو کہتے مریم نے آخر میں سوالیہ نظروں سے حسین صاحب کو دیکھا تھا
“جی نہیں” مریم کو چھوڑ کے باقی چھ چیخیں تھیں انہیں اس کی بات جو پسند نہیں آئی تھی
“چپ بلکل چپ” اس سے پہلے کے مریم کچھ کہتی حسین صاحب دھاڑے تھے ان ساتوں نے آنکھیں پھاڑ کے انہیں دیکھا تھا
“غضب خدا کا کب سے خود ہی بولے جا رہی ہیں مجال ہے جو مجھے اک لفظ بھی بولنے دیا ہو جیسے میں ان کا باپ نہیں یہ میری مائیں ہیں” حسین صاحب نے باری باری سب کو گھورا تھا جو انہیں ہی دیکھ رہی تھیں ان کی بات کے اختتام پہ وہ سب اک دم سے کھلکھلا اٹھیں کہ حسین صاحب بھی بوکھلا گئے انہوں نے ایسا کونسا چٹکلا چھوڑ دیا ہے اور ساتھ ہی انہیں مزید گھوریوں سے نواز کے چپ ہونے کا اشارہ دیا تھا
“وی لو یو سو مچ ابا” ان کی گھوریوں کو نظرانداز کرتے وہ سب کورس میں کہتیں اس انداز میں ان کے گلے لگی تھیں کہ حسین صاحب کو لگا کہ آج ان کا سانس بند ہو جائے گا
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...