“یش۔۔فہ اوو اچھا” وہ یشفہ کا نام الگ الگ کرتے ہوئے بولیں
تو دانیال تیز تیز سر ہلانے لگا
“اچھا ٹھیک ہے پہلے زرا لائن میں آجاؤ جو سب سے پہلے کھڑا ہوگا
لائن میں اس کو اُسی طرح مارونگی جو اس کی ڈش میں نکلا ہوگا”
وہ چھرے کی نوک پر انگلی رکھتی
ہوئی بولیں
سب کو اپنی جان عزیز تھی اس لئے وہ سب جگاہیں تبدیل کررہے تھے
یشفہ کو کچھ سمجھ نہیں آرہا
اُسے علم تھا کہ جانا تو سبھی کو ہے اس لئے سب سے آگے وہ کھڑی ہوگئی
اب وہ ایک سیدھ میں کھڑے تھے
جو شروع یشفہ سے اور آخر دانیال پر باقی مزمل اور منیبہ بیچ میں تھے
“اممم اب یہ شروع کہاں سے ہوگا” انہوں نے چھرے کی نوک اپنی ٹھوڑی پر رکھی
ان کے اس انداز پر یشفہ نے آنکھیں میچ لیں
کیونکہ اُسے اس طرح کسی کو تکلیف میں دیکھ کر تکلیف سی محسوس ہورہی تھی
یکایک بڑھیا کی آنکھوں میں سفید موتیا اور تیزی سے بڑھا تھا
“شروع”
“شروع”
“شروع ”
وہ اپنی انگلی چاروں کی طرف چلاتی ہوئی بولیں
اور پھر انگلی روک دی سب سے پہلے یہ انہوں نے اشارہ کیا
سب نے نظریں اُٹھائیں تھیں
دانیال نے اپنی جانب اُنگلی دیکھی تو رونے لگ گیا
“تجھے تب کچھ نہ ہوا جب کسی اور کو مارنے کا سوچ رہا تھا اب تو ہی مرے گا
زہر لگتے ہیں مجھے ایسے مرد” وہ چلتی ہوئیں اس کی جانب آئی
انہوں نے چھری کی نوک اس کی جانب کی وہ آنکھیں میچ گیا تھا
اور چھری کی نوک اس کی آنکھ پر مار دی گئی تھی
وہ تڑپ تڑپ کر وہیں مر گیا اور اس کی آنکھ کا گوڈا باہر نکل کر زمین بوس ہوگئی
سب کی جان حلق میں آگئی تھی
اگلی باری مزمل کی تھی جو ایک ایک قدم پیچھے ہورہا تھا
اور دیوار سے جا لگا تھا اس نے پیچھے دیوار کو دیکھا
تو تھوک نگلا اور دونوں ہاتھ آپس میں جوڑ دئیے
“پلیز جانے دو مجھے ہم یہاں کبھی واپس نہیں آئینگی پلیز” وہ روتے ہوئے بولا
“ارے بس اتنی ہی ہمت تھی پہلے تو تم لوگ بہت پرتجسس تھے
یہاں آنے کے لئے تب ڈر کہا تھا اور اب کیسے گڑگڑا رہے ہو”
وہ تمسخرانہ اندا میں بولیں اور بڑھیا نے اس کے ہاتھ پر چھرا چلا دیا
وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے انہیں دیکھتا ایک کراہ سے پورے قد سمیت نیچے گر گیا
وہ مندی مندی آنکھوں سے بڑھیا کو دیکھ رہا تھا
جس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں تھی
وہ زیادہ دیر آنکھیں کھول کر نہ رکھ سکا
اور اس کی آنکھیں بند ہوتی چلی گئیں
منیبہ کی باری تھی اور اب اسے مرنا ہی تھا
وہ گھٹنوں کے بل گر گئی بڑھیا بھی اُس کے ساتھ ہی نیچے بیٹھ گئی
“تجھے مارنے کو دل نہیں پھر بھی چل خدا حافظ” انہوں نے کہا
اور ایک جست سے اس کا پیر کاٹ ڈالا
وہ اپنے بچاؤ کے بجائے خود ہی اپنی جان کی قربانی دے رہے تھے
بڑھیا چھرے پر لگا خون اپنے سفید ساڑھی سے رگڑتی یشفہ کہ پاس آئی
جو ٹیبل سے لگی پڑی تھی وہ آہستہ آہستہ چلتی اس کے قریب آرہی تھی
“میرے قریب مت آنا میں بتا رہیں ہو قریب مت آنا”
وہ انہیں تنبیہ کررہی تھی
مگر وہ اس کی جانب بڑھتی جا رہی تھیں
یشفہ نے بہت ہمت مجتمع کی اور اندھا دھند بھاگنا شروع ہوگئی
وہ تیزی سے زینیں چڑھ رہی تھی وہ کافی دفعہ گری تھی
مگر آج اُٹھنا لازمی تھا ورنہ آج وہ نہ اُٹھتی تو کبھی بھی نہ اُٹھ پاتی
مجھے ان کے کمرے سے ہی کچھ ملے گا وہ سوچتی ان کے کمرے میں داخل ہوگئی
اور دروازہ لاک کردیا کھڑکیوں پر کنڈی چڑھا دی
اور اس کی ایک ایک چیز دیکھنے لگی
سامنے ہی فارمولے اور ایکسپیریمینٹ لگے ہوئے تھے
اس نے ایک ایک بک چھان ماری مگر کچھ نہیں مل رہا تھا
اور بڑھیا مسلسل دروازہ پیٹ رہی تھی
یشفہ نے غصہ سے دیوار پر ہاتھ مارا اس کا ہاتھ ایک چارٹ پیپر پر لگا تھا
جس پر انگریزی میں کچھ لکھا ہوا تھا یشفہ کو سمجھ آگیا
“یس یہ آگ سے جلیں ہیں اور ان کو ختم کرنے کا بیسٹ آپشن پانی ہے
ہاں پانی مجھے پہلے ذہن میں کیوں نہ آیا”
” میں اپنے دوستوں کو بچا سکتی تھی آہ۔۔ “وہ سر پر ہاتھ مار کر بولی
وہ جلدی سے کمرے سے منسلک واش روم میں گئی
سامنے ہی ٹوٹی ہوئی بالٹی پڑی ہوئی تھی
اس نے وہ بالٹی بھرنا شروع کردی
تب تک وہ بڑھیا دروازہ کھول چکی
تھی یشفہ نے نل کو تیز کیا اور واش روم کہ دروازہ کی کنڈی چڑھا دی
“دروازہ کھول تو بچ نہیں سکتی” بڑھیا غرائی تھی
اور اپنی پوری قوت سے چھرا دروازے پر مارنے لگی اور وہ کھل گیا
اس نے دروازہ کھول کر اندازے سے دیوار پر ہاتھ مارا
کیونکہ اُسے احساس ہوگیا تھا وہ دیوار سے لگی ہے
مگر یشفہ وقت پر پیچھے ہوگئی
تو اس کے گلہ پر بس خراش آئی تھی
جس سے اس کے گلہ سے خون رسنے لگا تھا
مگر اُسے ابھی اپنی جان بچانی تھی
اس نے بالٹی اُٹھائی اور ایک جست میں پانی اس کے پورے جسم پر پھینکا
تو وہ چیخنے چلانے لگی
یہ کیا،کیا تو نے؟ وہ ہاتھ پیر مارنے لگی
اور ان کی دلغرش چیخیں پوری حویلی میں گونجنے لگی
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ غائب ہونے لگی تھی
“میں واپس آؤنگی میں کبھی نہیں جاؤنگی واپس ضرور آؤنگی”
وہ غراتی ہوئی غائب ہوگئی تھی
اس بری بلا کا خاتمہ ہوگیا تھا اس کی روح اس حویلی سے چلی گئی تھی
مگر اپنے ساتھ بہت سی جانوں کو بھی لے گئی تھی
جنہیں وہ چاہ کر بھی واپس نہیں لاسکتی تھی شاید ان کی یہی سزا تھی
کیونکہ سب جانتے تھے یہاں موت کا سائرن ہے
اس کہ باوجود یہاں آنا اس کے مصداق ہے
کہ آ بیل مجھے مار مگر ان نوجوان نسلوں کی خواہشوں کا کیا کریں
جو بڑھتی جاتی ہیں
اور پھر ان کے گلے کا پھندا بن جاتی ہیں
اس میں دراصل غلطی والدین کی بھی ہے اگر وہ بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر بٹھا دیں
تو وہ کچھ ایسا کرنے کا سوچیں بھی نہ مگر آجکل والدین بچے بڑے ہوگئے ہیں
صحیح غلط کی پہچان ہے انہیں یہ سوچ کر آزاد پنچھی کی طرح چھوڑ دیتے ہیں
جبکہ بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں جب تک ہم انہیں گائیڈ کرتے ہیں
وہ پرہیز برتے ہیں مگر جب ہم نے ان پر سے ہاتھ اُٹھائے
وہ سب کچھ بلا طاق کرکے اپنی من مانی شروع کردیتے ہیں
اور پھر خود کا ہی نقصان کر بیٹھتے ہیں ۔۔۔
یشفہ روتے روتے باہر نکلی اور وہیں گھٹنوں کہ بل گر کر سجدہ ریز ہوگئی
وہ کافی دیر تک اسی حالت میں گری رہی
پھر جھماکا ہونے پر وہ تیزی سے لاؤنج میں آئی
جہاں اس کے جان سے عزیز دوست ادھر ادھر بے سدھ گرے پڑے تھے
“منیبہ منیبہ اُٹھو پلیز اُٹھو” وہ اُس کا گال تھپتھپاتے ہوئے
بولی اس نے فورا اس کی نبص ٹٹولی جو اس کہ جسم کا ساتھ چھوڑ چکی تھی
یشفہ کہ آنسو ٹپ ٹپ کررہے تھے
اس نے باقیوں کی بھی نبض ٹٹولی مگر بےسدھ
یشفہ نے سر ہاتھوں میں گرا لیا اس کی سسکیاں اس پورے محل میں گونج رہی تھیں
یہ ٹھیک نہیں ہوا نہیںںںںں
اس کی حلق سے ایک چیخ برآمد ہوئی تھی
یشفہ کافی دیر تک وہیں بیٹھی ہونقوں کی طرح سب کو جگاتی رہی
مگر جب کچھ فائدہ نہ ہوا تو بلاخر وہ اپنے بےجان وجود کو گھسیٹتی وہاں سے نکل آئی تھی
شاید قسمت میں یہی تھا اس نے ایک نگاہ اس پر ڈالی
“یہ حویلی میرا سب کچھ نگل گئی کتنا کہا تھا
میں نے مگر کسی نے نہیں سنی میری” وہ گھٹنوں کہ بل گر گئی تھی
“کاش کاش وہ لوگ میری مان لیتے
تو آج،آج شاید وہ لوگ بھی میرے ساتھ ہوتے کاش”
اس نے آنسوں سے تر چہرہ اوپر کی جانب اُٹھایا تھا مگر اب کیا ہوسکتا تھا
ان کے ایک تجسس نے ان سب کی جانیں نگل لیں تھیں
تجسس اچھا ہے
مگر حد سے زیادہ تجسس انسان کہ اپنے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے
بلکہ حد سے زیادہ تجسس ہی کیوں کوئی بھی چیز حد سے زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے
جب ہم زیادہ کھانا اپنے حلق میں اُتارتے ہیں تو بد ہضمی ہوجاتی ہے
زیادہ ٹی وی موبائل فون دیکھتے ہیں تو ان کی ریز ہماری آنکھوں پر پڑتی ہے
اور ہماری آنکھوں کو کمزور کردیتی ہے
اور پھر چشمہ لگ جاتے ہیں
اس لئے کوئی بھی چیز حد سے زیادہ نقصاندہ ہی ثابت ہوئی ہے۔۔۔۔۔
“(ختم شد)”