زینت اپنا سامان باندھ رہی تھی جب اس عورت نے اس سے پوچھا ۔
کہاں جا رہی ہو؟؟؟؟
مجھے اس انسان کے رحم و کرم پر نہیں پلنا ۔ میں اپنی ماں کے پاس جا رہی ہوں ۔
اس نے غصے سے کہا ۔
میں تمہیں تمہاری ماں تک پہنچا سکتی ہوں۔ ۔
زینت نے اس کا شکریہ ادا کیا ۔
تم کل صبح جا سکتی ہو اپنی ماں سے ملنے ۔
کیا وہ مجھے پہچانتی ہیں ؟؟؟
نہیں۔ جبار نے اسے کسی آدمی کو بیچ دیا تھا ۔ اب وہ ریڈ لائٹ ایریا میں ہوتی ہے ۔ وہ نرگس کے نام سے مشہور ہے ۔تم وہاں جانا اور فہمیدہ آپا سے مل کر کہنا کہ تمہیں نرگس سے ملنا ہے۔ اور حنا نے بھیجا ہے تمہیں وہ خود ہی سمجھ جائیں گی تمہیں ۔ اور تمہاری ماں تک پہنچا دیں گی ۔
اس عورت (حنا) نے کہا ۔
زینت حیرانگی سے اسے دیکھ رہی تھی کہ اس کی ماں ریڈ لائٹ ایریا میں ۔
اسے اپنی ماں کا سن کر بہت دکھ ہوا۔ پتا نہیں میری ماں کس حالت میں ہو گی ۔ میں اس آدمی کو کبھی بھی معاف نہیں کروں گی جس نے مجھے اور میری ماں کو اس حال میں پہنچایا ۔
وہ بہت افسردہ تھی ۔
یہ وقت کمزور پڑنے کا نہیں ہے تمہیں ہمت سے کام لینا ہو گا اگر تم اس سےبدلہ لینا چاہتی ہو تو تمہیں خود کو مضبوط کرنا ہو گا ۔
حنا نے کہا ۔۔
زینت نے ہاں میں سر ہلایا اور بیڈ پر لیٹ گئی۔
حنا کمرے سے باہر نکل گئ۔
وہ کیسی ماں تھی جو اپنی ہی بیٹی کی دشمن بن گئ تھی ۔ وہ اپنا بدلہ لینے کے لیے ایک اور معصوم کی زندگی برباد کر رہی تھی ۔
______________
حنا کچھ تو بولو ۔۔پلیز ۔۔۔ اس بچے کو اس دنیا میں آنے دو اس کا کیا قصور ہے تم میرے کئے کی سزا اسے کیوں دے رہی ہو ۔۔ نکاح کر لو مجھ سے حنا۔
جبار نے اسے التجائیہ لہجے میں کہا ۔
نہیں کر سکتی میں تمہیں معاف۔ تم نے میری زندگی عذاب بنا دی ۔ میری چچی تمہاری وجہ سے مجھے چھوڑ کر چلی گئ۔ تمہاری وجہ سے میرے گھر والوں کو لوگوں کی باتیں سننے پڑیں ۔ ان کی عزت اچھالی گئ۔ تمہاری وجہ سے مجھے آخری بار میری چچی کا چہرہ دیکھنا نصیب نہ ہوا ۔ تمہاری وجہ سے مجھے گھر سے نکال دیا گیا۔
یہ سن کر جبار کو حیرت کے ساتھ ساتھ شرمندگی بھی ھوئی۔ ۔ کیونکہ اس دن اسے لگا تھا کہ حنا بھاگ رہی تھی۔ ۔ لیکن یہ کیا اسے تو اس کے گھر والوں نے نکالا تھا ۔ ۔
تم ظالموں کی طرح میری عزت روندتے رہے ۔ تم مجھے مارتے رہے ۔ تم نے میرا چہرہ بگاڑ دیا۔ تمہاری وجہ سے میں لاوارثوں جیسی زندگی گزار رہی ہوں میں تمہاری وجہ سے۔ ۔
میں اس ناجائز اولاد کو اس دنیا میں نہیں آنے دوں گی ۔میں اپنا وجود ہی ختم کر دوں گی ۔ مجھے گھن آتی ہے تم سے۔ نفرت ہے مجھے تم سے۔ تمہاری شکل سے اور تمہارے وجود سے ۔ میں تم جیسے درندے کے ساتھ اپنی زندگی نہیں گزارنا چاہتی۔
آج اسے موقع ملا تھا تو وہ اپنے اندر کا سارا غبار نکال رہی تھی۔ ۔
جبار نے اس کے آگے ہاتھ ہی جوڑ دئیے ۔
حنا میں مانتا ہوں میں نے تمہارے ساتھ بہت برا کیا ۔
تم مجھے جو سزا دینا چاہتی ہو دے دو ۔ لیکن اس بچے کے ساتھ ایسا مت کرو ۔ میرے کئے کی سزا اسے مت دو حنا۔
حنا حیران ہو رہ تھی۔ کہ یہ پتھر دل انسان اس بچے کے لئے گڑگڑا رہا ہے جو ابھی اس دنیا میں ہی نہیں آیا۔ اسے جھکا ہوا دیکھ کر حنا کو سکون مل رہا تھا۔
اس نے جبار کی یہ حالت دیکھ کہ دل ھی دل میں یہ فیصلہ کر لیا تھا وہ اس بچے کو جنم دے گی ۔ وہ جبار کے ایک ایک ظلم کا بدلہ اس بچے کے ذریعے اس سے لے گی۔
ٹھیک ہے میں اسے دنیا میں لاؤں گی ۔اس کی پرورش کروں گی ۔لیکن میری کچھ شرائط ہیں۔
حنا نے پر اعتماد لہجے میں اس سے کہا۔
جبار خوش ہو گیا تھا ۔ مجھے معلوم تھا تم مان جاؤ گی۔ مجھے تمہاری ساری شرطیں منظور ہیں۔
حنا کے چہرے پہ ہلکی سی طنزیہ مسکراہٹ تھی جس کو جبار نہ سمجھ پایا ۔
پہلی شرط میں تم سے نکاح نہیں کروں گی ۔ تم اس بچے کو اپنا نام دو گے ۔ لیکن اسے کہو گے اس کی ماں مر چکی ہے ۔
اس کی پہلی شرط نے ہی جبار کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
یہ کیا کہہ رہی ہو تم ۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟؟؟
یہ سب تمہیں کرنے سے پہلے سوچنا چاہیئے تھا ۔
جبار نے کچھ سوچتے ہوئے اس کی شرط مان لی ۔
اسے لگا حنا کا غصہ وقتی ہے وہ وقت کے ساتھ ٹھیک ہو جائے گی اور اس بچے کو اپنی آغوش میں لیتے ہی اس کی ممتا جاگ جائے گی ۔ اس لئے وہ اس کی شرط مان گیا۔
دوسری شرط میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ۔ بچے کے پیدا ہوتے ہی میں اسے لے کر کہیں دور چلی جاؤں گی میں نہیں چاہتی کہ یہ بچہ تم جیسا بنے یا تمہاری قربت میں رہے ۔ میں اسے عام لوگوں کی طرح رکھنا چاہتی ہوں غنڈوں کی طرح نہیں ۔
جبار نے ہاں میں سر ہلا کر اس کی دوسری شرط بھی مان لی۔
تیسری شرط تم اپنے بچے سے تب تک نہیں ملو گے جب تک وہ بالغ نہ ہو جائے ۔
جبار نے اسے گھورا اور کہا ۔
تم میری ڈھیل کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہو۔ میرا جب دل کرے گا میں اس سے ملنے آؤں گا۔
ٹھیک ہے سال میں دو بار مل سکتے ہو تم ۔
حنا نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
مجھے یقین ہے تم مجھے جلد ہی معاف کر دو گی ۔ پھر ان شرائط کا کوئی مقصد ہی نہیں رہے گا۔
جبار نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
بُھول ہے تمہاری
حنا نے اسے گھورتے ہوئے کہا
جبار مسکرایا اور کمرے سے چلا گیا۔
جبکہ حنا اپنے منصوبے کے کامیاب ہونے پر مسکرا دی ۔
________________
بچے کی پیدائش تک جبار نے حنا کی بہت خدمت کی ۔ وہ سارا دن اس کے کھانے پینے کا خیال رکھتا ۔ اسے وقت پردوائی دیتا ۔ اور اسے بیڈ سے اٹھنے تک نہ دیتا ۔ لیکن حنا پتھر دل ہوچکی تھی ۔ وہ اس کی قدر نہیں کرتی تھی ۔ جبار بابر کو حنا کے پاس چھوڑ کر کسی کام سے باہر گیا تھا ۔
حنا کی اچانک طبیعت خراب ہو گئ ۔اس نے بابر کو اسے ہسپتال لے کر جانے کو کہا ۔ بابر اسے ہسپتال لے گیا اور اسنے جبار کو فون کر دیا ۔
جبار پانچ منٹ تک ہسپتال پہنچ گیا ۔ آدھے گھنٹے بعد ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے باہر نکلی ۔
جبار اس کی طرف چلا گیا اور اس سے پوچھنے لگا ۔
ڈاکٹر نے مسکراتے ھوئے اسے خوشخبری سنائی ۔
“مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے ”
جبار یہ سن کر بہت خوش ہوا ۔
اور بچے کی ماں کیسی ہے ؟؟؟
جبار نے پوچھا
وہ بھی ٹھیک ہیں ۔دوائیوں کے زیرِ اثر ہیں تھوڑی دیر تک ہوش آ جائے گا ان کو ۔ پھر آپ ان سے مل سکتے ہیں ۔ آپ اپنی بیٹی سے مل سکتے ہیں۔ ۔ ۔
جبار مسکرایا اور کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ ۔ وہ اسے دیکھ کر بہت خوش تھا ۔ اس کی آنکھیں بالکل حنا جیسی تھیں ۔ وہ بہت پیاری تھی۔ ۔
______________
صبح اٹھتے ہی زینت تیار ہو کر فہمیدہ آپا سے ملنے کے لئے نکل گئ تھی ۔ وہ پہلی بار باہر کہیں آئی تھی ۔ اس نے بڑی سی چادر لے رکھی تھی۔ اسے حنا نے ایک کاغذ پر ایڈریس لکھ دیا تھا ۔ وہ پڑھنا نہیں جانتی تھی ۔ اس لئے اس نے رکشے والے کو وہ کاغذ دیا۔ دکھنے میں وہ بھلا آدمی لگتا تھا ۔ اس نے ایڈریس پڑھتے ہی حنا کا سر سے پاؤں تک جائزہ لیا ۔ اور پوچھ بیٹھا ۔ بیٹا یہاں تمہارا کیا کام؟؟؟؟
حنا سہم سی گئ ۔ وہ پہلی بار کسی سے بات کر رہی تھی ۔
جب حنا سے کوئی جواب نہ بنا تو اس نے اس کے ہاتھ سے وہ کاغذ کھینچ لیا ۔ وہ آگے جانے بڑھنے لگی تو اس آدمی نے اسے آواز دی ۔ آؤ بیٹا میں لے چلتا ہوں ۔ یہ دنیا بہت ظالم ہے ۔ تم کسی اور کے پاس گئ تو پتہ نہیں وہ کیا کرے ۔
اس آدمی نے زینت کی گبھراہٹ دیکھتے ہوئے اسے اس کی منزل تک لے جانے کا ارادہ کیا ۔ اور اسے اس کی منزل تک پہنچا کر وہ چلا گیا ۔ اس جگہہ پر موجود ہر آدمی اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اسے اپنی منزل تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگی ۔ کیونکہ حنا پہلے سے ہی فہمیدہ کو فون کر کے سب بتا چکی تھی ۔ اسی لئے فہمیدہ خود زینت کو لینے آ گئ تھی۔
تم زینت ہو ؟؟؟؟
میک اپ سے لت پت چہرے والی عورت نے زینت سے پوچھا۔
زینت نے اس کی طرف دیکھا اور ہاں میں سر ہلایا ۔
میں فہمیدہ ہوں ۔ مجھے حنا نے بتایا کہ تم آ رہی ہو اسی لئے میں خود تمہیں لینے آ گئ ۔
فہمیدہ اس سے باتیں کرتی اسے اپنے پیچھے آنے کا کہہ کر اس کے آگے چل رہی تھی ۔
اسے ایک چھوٹے سے کمرے میں لے جاکر بٹھایا گیا ۔
زینت نے اسے اپنی ماں کے بارے میں پوچھا تو فہمیدہ اسے وہاں انتظار کرنے کا کہہ کر خود وہاں سے چلی گئ ۔ جاتے جاتے اس نے کمرہ باہر سے لاک کر دیا ۔ زینت اس سب سے انجان اپنی ماں سے ملنے کے لئے بے چین تھی۔
اسے نہیں معلوم تھا کہ اسی کی ماں نے اسے کس دلدل میں بھیج دیا تھا جہاں سے نکلنا اس کے لئے ممکن نہیں تھا ۔ ۔ ۔