تحریم کے پہلو سے نکلتے ہوئےزمل کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں چلتی ہوئے اپنے کمرے تک آئ ، اندر آکر اس نے موبائل نکالا اور زی کو کال ملائی ، اس وقت اس کا دماغ بالکل کام کرنا چھوڑ چکا تھا ، دوسری ہی بیل پر زی نے فون اٹھا لیا ۔
” زہے نصیب ، آج سورج کہیں جنوب یا شمال سے تو نہیں نکل آیا کیونکہ خبر تو قیامت سے بھی بڑی ہے ۔” زی اپنی ہی دھن میں بولے جا رہا تھا اور زمل کا دل کیا کہ ساری دنیا تھم جائے اور وہ بس اسی کی آواز سنتی رہے ،وہ یوں ہی بولتا رہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” زمل ! تم فون پر ہو ، زمل ! ۔ ۔ ۔ ۔؟”، اب وہ صحیح میں پریشان ہوا کیونکہ وہ کچھ بول ہی نہیں رہی تھی ۔
” ہ ہ ہ ہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زی ۔” زمل نے روتے ہوئے اتنا کہا ، کیونکہ اس تھپڑ کے ساتھ کہے گئے جملوں کی تکلیف کم ہو ہی نہیں رہی تھی ، ” چندہ ہوا کیا ہے ، اور اور تم رو کیوں رہی ہو ؟ کیا ہوا ہے ؟ ” جب دوسری طرف سے کوئی جواب نا ملا تو وہ پھر بولا ، ” زمل ! خدارا کچھ تو بولو ، کیوں میری جان سولی پر اٹکا رہی ہو، زمل ! ” ، اب کی بار زمل بولی ، ” میں جینا نہیں چاہتی زی ، مجھ تک کوئ بہت اچھا زہر بھجوا دو پلیز۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” ، ” بکواس بند کرو اپنی ، خبردار آئیندہ جو کبھی اپنی جان لینے کی بات سوچی بھی تو ، ہوا کیا ہے بتاو مجھے ” اچھا خاصہ ڈانٹ کر وہ آخر میں نرم ہو گیا ۔ ” زی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بابا ۔ ۔ ۔ ۔۔ بابا نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ بولتی تحریم دروازہ ناک کیے بغیر اندر آگئیں ، زمل نے دیکھا تو گڑبڑا کر موبائل سرانے کے نیچے رکھ دیا ۔” زمل بات کیا ہوئ ہے ، اور تمہارے بابا اتنے غصے میں کیوں گئے ہیں ؟ ” تحریم نے زمل کا گھبرانا نوٹ نہیں کیا اور اس کے پاس آکر بیٹھ گئیں ۔
” زمل ! کچھ بتاو گی مجھے کہ نہیں،کون ہے وہ لڑکا؟ (اک پل کو زمل کو لگا کہ اس کی چوری پکڑ لی گئ ہے) کس لڑکے کی بات کر رہے تھے رفیق ؟ ” لیکن ان کے سوال نے جہان اس کی ٹینشن کم کی وہیں پر اس کا ضبط جواب دے گیا اور وہ دھاڑ کر بولی ، ” وہ لڑکا ، لڑکے کا پوچھ رہی ہیں امی ، آپ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آپ پوچھ رہی ہیں تو سنیں وہ لڑکا ہارون تھا ۔”
” ہارون ؟” ،تحریم بھی حیران رہ گئیں ۔
” جی ہاں ہارون ، ہمایوں کا دوست ، میرے چھوٹےبھائ جیسا ہے وہ امی۔ ۔ ۔ ۔ اور جان بوجھ کر نہیں گئ تھی میں وہاں بلکہ وہ میرے سامنے آگیا تھا ، جب پتا چلا کہ ڈوپٹا باورچی خانے میں ہے تو لے لیا تھا میں نے۔ ۔ ۔ لیکن نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ امی ایک کام کریں ۔ ۔ ۔ خدارا ۔ ۔ ۔ خدارا مجھے زہر دے دیں “، تحریم نے آگے بڑھ کے اسے سینے سے لگا لیا تو اس نے ان کو جھٹک دیا ۔ ” نہیں چاہیے یہ سب مجھے ، مجھے آپ کی ندامت بھی نہیں چاہیے ، امی نہیں رہا جاتا اب مجھ سے اس طرح ، پہلے تو وہ صرف بے جا سختی کرتے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں صرف یہ سوچ کر کہ وہ بابا ہیں میرے ، کچھ نہیں کہتی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن امی اب بس ۔ ۔ ۔ ۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ میں بے حیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کیا کیا ہے امی ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ” ، زمل روتے ہوے ان کے ساتھ لگ گئ ، ” امی مجھ سے اس طرح گھٹ گھٹ کے جیا نہیں جاتا ، میں آپ کے اور لوگوں کے سامنے خوش رہنے کی اداکاری کر کر کے تھک چکی ہوں ، مجھے اس طرح کی زندگی نہیں چاہیے ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ،” اور پھر جب زمل زاروقطار رو لی تو تحریم اٹھیں اور دروازہ بند کر کے نیچے طلی گئیں ، حقیقت میں آج وہ بھی اپنی بیٹی سے نظریں نہیں ملا پارہیں تھی ۔جب وہ چلی گئیں تو زمل اٹھی اور آکر دروازے کو کنڈی لگا کر دوبارہ بیڈ پر آگئ ، اب اس نے کانپتے ہاتھوں سے موبائل نکالا تو جس بات کا ڈر تھا وہ ہی ہوئ ، زی نے فون ڈسکنیکٹ نہیں کیا تھا ۔ جس کا مطلب تھا کہ وہ زمل اور تحریم کی ساری باتیں سن چکا ہے ۔ اور اب اس نے ڈرتے ڈرتے فون کان سے لگایا ، دوسری طرف وہ زمل کے سانس لینے سے پہچان گیا کہ یہ زمل ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چند لمحوں کے بعد زی کی آواز گونجی ۔
” مجھ سے شادی کرو گی زمل ؟ ”
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ✴✴✴✴✴✴✴✴✴✴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
زمل کو تو جیسے اب چپ سی لگ گئ ، سب کام وہ اُسی طرح کرتی جیسے پہلے کرتی تھی ، لیکن اب اس گھر کے مکین زمل کی آواز سننے کو ترس گئے ۔ وہ زی سے بھی بات نہیں کر رہی تھی ، اور اس وقت صرف اللہ کو معلوم تھا کہ اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے ، رفیق صاحب تو حسبِ معمول اپنی زندگی میں گم تھے لیکن زمل کی چپ کو انہوں نے بھی محسوس کیا تھا ۔ مگر وہ ازلی لاپرواہی کا مظاہرہ کر رہے تھے جیسا کہ کچھ ہوا ہی نہیں ۔
سچ بات تو یہ ہے کہ والدین کا اعتماد اولاد کے کردار کی بلندی کیلیے ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے ۔ زیادہ تر جو بچے بغاوت کرتے ہیں ان میں اکثریت اپنے والدین کے بےجا رویے کی وجہ سے یہ انتہائ قدم اٹھاتی ہے ۔ لیکن اس کے برعکس جو والدین اپنی اولاد کو یہ حوصلہ دیں کہ ہاں ان کو اپنے بچوں پر اعتماد ہے تو پھر وہ اولاد بھی اپنی ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ ان کی وجہ سے ان کے والدین کا سر شرم سے نا جھکے ۔
لیکن رفیق صاحب جیسے والد یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آج کا دور ان کے دور سے قطعی مختلف ہے ، آج کے دور میں بچوں پر سختی کرکے ان کو دبانا بہت مشکل کام ہے ۔ عقلمندی تو یہ ہے کہ والدین اپنے اور اپنی اولاد کے درمیان دیوار کو گرا دیں اور ان کیلیے اپنے وقت میں سے وقت نکالیں ، ان کی زندگی کی ترجیحات کو سمجھیں اور پھر ان کی راہنمائ کریں ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ✴✴✴✴✴✴✴✴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
“آپی مجھے یہ والا سوال بھی کروا دو ۔” ہمایوں دسویں کی حساب کی کتاب لے کرصوفے پر خاموش بیٹھی زمل کے پاس آیا ، تو اس کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا ۔ ” ا۔ ۔ ۔ ہاں ۔ ۔ ۔ دکھاو ۔” ہنایوں نے کتاب اور کاپی اس کے سامنے رکھی اور اس کے ساتھ بیٹھ گیا ۔ زمل نے جب سوال سمجھا دیا تو بولی ، ” اب اس مشق کے باقی تین سوال کر کے دکھاو مجھے ۔”
” جی اچھا ۔ پتا ہے کیا آپی ؟” ہمایوں نے کتابیں اپنی گود میں رکھتے ہوئے کہا ۔
” کیا ؟ ”
” ہارون کہہ رہا تھا کہ اس دن جو کباب آپ نے بنائے تھے وہ بہت مزے کے تھے ، اگر دوبارہ بنائے تو ان کو ضرور بلوائیے گا ۔” یہ سن کر زمل کا زخم پھر سے ہرا ہو گیا ۔ پھر سے رفیق صاحب کے الفاظ ذہن میں گردش کرنے لگ گئے ۔ جب اس کی آنکھیں بھیگ گئیں تو اٹھ کے کچن میں چلی آئ ۔ اب وہ اپنے چھوٹے بھائ کو کیا بتاتی کہ اس دن ہارون کے سامنے آنے کی وجہ سے اس نے کیا کیا سن لیا تھا ۔ تحریم جو ابھی کچن میں آئیں تو اس کو وہاں کھڑے آنسو بہاتا دیکھا تو اس کے پاس چلی آئیں ۔ ” زمل بیٹا ! آخر کب تک اس طرح رہو گی ، اب شاباش اپنا موڈ ٹھیک کر لو ۔” تحریم نے اسے سینے سے لگاتے ہوئے کہا ۔ “میں ٹھیک ہوں ماما ۔” یہ کہتے ہوئے اس نے گندے برتن دھونا شروع کردیے ۔ “زمل تمہارے لیے تمہارے بابا کے دوست کا رشتہ آیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ،” زمل کا برتن دھوتا ہاتھ تھما ، اور اس نے تحریم کی جانب دیکھا ۔”اور انہوں نے ہاں کر دی ہے ، وہ لوگ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہفتے کی شب کو آئیں گے تمہیں دیکھنے ۔” تحریم نے جب اپنی بات مکمل کی تو زمل کے ہاتھوں سے صابن لگی پلیٹ پھسل کر گر گئ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چند لمحے وہ ان کی آنکھوں میں دیکھتی رہی کہ شاید ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہہ دیں کہ میں مذاق کر رہی ہوں ۔لیکن وہ ان کی آنکھوں میں چھپی سچائ اور دکھ دیکھ گئ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہ ہنسی تو ہنستی ہی چلی گئ ، تحریم نے پریشانی سے اسے دیکھا ، ہنستے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔
” زمل میری بچی ۔ ۔ ۔ میری جان ۔ ۔ ۔ ۔ “، انہوں نے آگے ہو کر اسے اپنے ساتھ لگانے کی کوشش کی تو زمل نے جھٹک دیا ، ” ماما مت کریں ایسا ۔ ۔ ۔ ۔ خدارا ایسا مت کریں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مت مجھے کسی گائے بھینس کی طرح زبح کریں ، بلکہ ہاں ذبح کردیں لیکن ایسا سلوک مت کریں ۔ بابا نے ۔ ۔ ۔ مجھ سے پوچھنا تو بہت دور ۔ ۔ ۔ ۔ خود بتانا بھی گوارہ نہیں کیا ۔” زمل نے ہچکیوں میں روتے ہوئے تحریم سے التجا کی ۔
“زمل میری جان ! تمہارے بابا کہہ رہے تھے وہ بہت اچھے لوگ ہیں ۔ بہت بڑا گھر ہے۔ ۔ ۔ ۔ تم بہت خوش رہو گی وہاں پہ ۔” زمل نے حیرت سے تحریم کی جانب دیکھا ، چند لمحے اپنے آپ کو قابو میں لانے کیلیے لیے پھر بولی ، ” ماما کافی دن پہلے میں نے ایک بیان سنا تھا ، جب حضرت علی، فاطمہؓ کا رشتہ لے کر آئے تو یہ جانتے ہوئے کہ رشتہ پہلے ہی آسمان پر بن چکا ہے ، آپؐ نے ہاں نہیں کی ، بلکہ کہا ان شاءاللہ ، اور اٹھ کر فاطمہ کے پاس آئے اور کہا ” بیٹی علی رشتہ لے کر آیا ہے تو کہے تو ہاں کر دوں ؟، ماما کاش کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کاش کہ ۔ ۔ ۔کچھ نہیں ، آپ یہاں میری رائے لینے نہیں آئ ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ابھی کیلیے پلیز مجھے اکیلا چھوڑ دیں ۔” تحریم تو باورچی خانے سے باہر آگئیں لیکن زمل نے اگلا قدم اٹھانے کے متعلق سوچ لیا ۔زمل کمرے میں آئ تو الماری میں سے موبائل نکال کر کافی دیر تک اسے دیکھتی رہی ، جو قدم وہ اٹھانے کا سوچ چکی تھی اس کو پائہ تکمیل تک پہنچانا کوئ آسان کام نہیں تھا ۔ گھر چھوڑ کے جانے کی جو ازیت ہے اسے وہی محسوس کر سکتا ہے جو اس پر سے گزرا ہے ۔ اور جو ایسا قدم اٹھاتے ہیں ان کے خلاف فتووں کی ایک لمبی فہرست موجود ہے لیکن کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ آخر ایسے کیا حالات تھے ، ایسی کیا پریشانی تھی ، ایسی کیا مجبوری تھی جس نے بچی کو یہ قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا۔ ایسے کیا حالات تھے اس لڑکی کے اپنے گھر میں کہ اس نے باہر کی ننگی بھوکی دنیا کو ترجیح دی ، حقیقت یہ ہے کہ جب ہم تصویر کے دونوں رخ دیکھنا شروع کر دیں تو وہ لوگ جن سے ہم نفرت کرتے ہیں ان میں سے آدھے ہماری محبت کے حقدار ٹھہریں گے ۔
زمل نے دھڑکتے دل کے ساتھ زی کا نمبر ملایا ، بیل جا تو رہی تھی لیکن کوئ اٹھا نہیں رہا تھا ۔ زمل کی دھڑکن ہر گزرتی بیل کے ساتھ تیز ہوتی جارہی تھی ، آخرکار چھٹی بیل پر فون اٹھا لیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دونوں کئ لمحے کچھ بول ہی نا پائے ، یہ اس دن کے بعد اب ان کی پہلی گفتگو تھی ۔ “زی!” ، زمل نے بڑی ہمت کر کے بولا ۔
” بولو چندا ۔ ” اور زمل بتا نہیں سکی کہ اس لفظ نے اسے کتنی ہمت دی تھی ۔
” زی ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے یہاں نہیں رہنا ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے اب اس گھر میں نہیں رہنا ۔ ۔ ۔ ۔ مجھ سے ۔ ۔ ۔ ۔ مجھ سے نہیں ۔ ۔ ۔ ” زمل زاروقطار رونا شروع ہوگئ ۔ زی بولا ۔
” زمل ! ۔ ۔ ۔ ۔ میں کوئ لمبی چوڑی بات نہیں کروں گا ۔ ۔ ۔ ۔ میں تمہارے ساتھ مخلص ہوں ۔ میں جھوٹ نہیں بولوں گا شروع میں میں نے تمہیں اپنے صرف اپنے لیے تفریح کا سامان سمجھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، لیکن گزرتے وقت کے ساتھ میں خود حیران ہوں کہ آخر میں تم سے بات کئے ، تمہاری آواز سنے اور تمہاری خیریت جانے بغیر بے سکون کیوں رہتا ہوں ۔ ” اور زمل منہ پر ہاتھ رکھے اس کو سن رہی تھی ، وہ اس لمحے خود کو کسی اور ہی جہان میں محسوس کر رہی تھی ، جیسے اس کی سانس لینے کی آواز سے بھی وہ طلسم ٹوٹ جائے گا ۔” زمل میں ۔ ۔ ۔ ۔ میں تم سے بہت محبت کرنے لگا ہوں ، اگر ایک دو دن تک تمہاری کال نا آتی تو میں خود کر لیتا۔ ۔ ۔ ۔ میں یہ جان کر بہت کرب میں ہوں کہ تم وہاں پر خوش نہیں ہو ، اگر تم کہو تو میں اپنا رشتہ بھجواوں ؟”، زی نے پوچھا تو زمل گھبرا گئ کہ کیا کہے ۔
” زمل؟”
” زی ! بابا کبھی بھی نہیں مانیں گے ، وہ میرا رشتہ اپنے کسی دوست کے بیٹے کے ساتھ کر چکے ہیں۔” اور زمل کے لہجے سے زی کو اندازہ ہو گیا کہ وہ سچ ہی کہہ رہی ہے ۔
” زمل ! ”
” م م ”
” میں اگر کہوں کے میرے ساتھ چلو ؟ ”
” کہاں ؟ ”
” اس سب سے بہت دور ، میں جاب کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ ممی اور ڈیڈ اگر ناراض ہوئے بھی تو زیادہ دیر تک نہیں رہیں گے،وہ جلد ہی مان جائیں گے ، ہم کسی دوسرے شہر میں شفٹ ہو جائیں گے یا کسی دوسرے ملک میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زمل ۔ ۔ تم سن رہی ہو نا ؟ ”
” ہاں۔”
” تم چلو گی ؟ ”
” پتا نہیں ۔” کتنی ہی دیر خاموشی چھائ رہی ، پھر زی نے کہا ، ” زمل یہ فیصلہ بہت بڑا ہے ، میں جانتا ہوں ، لیکن تم ایک مرتبہ سوچ لو پھر بتا دینا ۔ ”
” جی “۔
” زمل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میری طرف سے تمہیں کوئ تکلیف نہیں ہو گی اس کی گارنٹی میں خدا کو گواہ بنا کر دیتا ہوں ۔ ۔ ۔ ( زمل کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے ) مجھے تمہارے فیصلے کا انتظار رہے گا ۔” یہ کہہ کر زی نے فون بند کر دیا اور زمل نے آنکھیں بند کر کے سر پیچھے کو لگا دیا ۔ یہ کس دوراہے پر لے آئ تھی اسے زندگی ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ✴✴✴✴✴✴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
“زمل میں نے تمہارے رشتے کی بات کی تھی نا ، آج وہ لوگ تمہیں دیکھنے آرہے ہیں شام کو ، تمہارے بابا بھی وہیں پر ہوں گے ۔ ” تحریم نے ہفتے کی صبح آکر اسے بتایا ، اس وقت وہ اپنا بستر درست کر رہی تھی ۔ جب زمل کی جانب سے کوئ جواب نا ملا تو وہ پھر سے بولیں ، ” وہ لوگ تو لڑکے کو بھی ساتھ لانا چاہ رہے تھے ، تاکہ بچے ایک دوسرے کو جان لیں لیکن تمہارے بابا نے منع کر دیا ، وہ کہہ رہےتھے کہ پہلے ماں باپ پسند کر لیں تو پھر لڑکا بھی مل ہی لے گا ۔” زمل نے حیرت سے اپنی ماما کی کی طرف دیکھا جو ایسے ظاہر کر رہی تھیں جیسے زمل نے خود کہا ہو کہ وہاں پر اس کی شادی کی جائے ، ” ماما کیا ان کو منع کرنے کا کوئ طریقہ نہیں ہے ؟” زمل نے جاب سے آگاہی ہوتے ہوئے بھی سوال کر ڈالا ۔ ” زمل ! بچے ان سے مل تو لو ، ہو سکتا ہے وہ لوگ اچھے ہوں ۔ ۔ ”
” ماما میں جان گئ کہ وہ کتنے اچھے ہوں گے ، آخر پسند جو بابا کی ہے ۔” وہ استہزانیہ ہنسی ۔
” آج تم اپنا وہ میرون سوٹ پہن لینا جو اپنی پارٹی پر پہنا تھا ۔
” جی ٹھیک ۔” زمل یہ کہہ کر پھر سے کام کرنے میں مصروف ہو گئ ، تو تحریم بھی نیچے باورچی خانے چلی آئیں ۔ زمل نے جب تصدیق کر لی کہ اب وہ دوبارہ نہیں آئیں گی تو اس نے موبائل نکال کر زی کو میسج کیا ۔
” میں آوں گی ۔”
توقع کے عین مطابق اسی وقت جواب آگیا ۔
” میں کس آوں لینے ؟ ”
” آج ۔”
” آج ؟ ” تصدیق کرنا چاہی ۔
” ہاں آج رات میں ، شام میں لوگ مجھے دیکھنے آرہے ہیں ۔ ان کے جانے کے بعد ماما اور بابا کو خالہ کی برسی میں شرکت کیلیے مظفر آباد جانا ہے ۔ تقریباً دس بجے میں باہر آجاوں گی ۔ ” زمل نے اسے ساری ترتیب بتائ ۔
” ٹھیک دس بجے تمہارے گھر کے باہر ایک سفید کورولا موجود ہو گی ۔ میں انتظار کروں گا ۔ ” زی نے بھی ہامی بھر لی ۔
” زی ؟ ”
” ہاں ۔”
” مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔” زی کو لگا جیسے کوئ معصوم سا بچہ اندھیرے سے ڈر گیا ہو ۔
” ابھی ڈر لگنا فطری ہے ، میں کوشش کروں گا کہ اس ڈر کو کم کرنے میں تمہارا بھر پور ساتھ دوں ۔ ” زی نے اسے تسلی دی ۔” زی ؟ ”
” ہاں ”
” آج تو اپنا پورا نام بتا دو ؟ ” زمل کو وہ وقت یاد آیا جب پہلی بار وہ اس کے نام پوچھنے پر بولا کہ اس کا نام زی ہے تو وہ جی بھر کے حیران ہوئ تو وہ بولا ، ” یہ میرا نک نیم ہے مجھے اچھا لگتا ہے کہ تم مجھے اس نام سے بلاو ”
زی بلا اختیار ہنسا پھر جواب دیا ۔
” اب نکاح کے وقت ہی بتاوں گا ، رات تک کا انتظار کرو ۔”
اور زمل بھی مسکرا دی ، کافی دنوں بعد سہی لیکن آج وہ پر سکون تھی ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ✴✴✴✴✴✴✴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شام میں جب وہ لوگ اسے دیکھنے آئے تو وہ خاموشی سے تیار ہو کر ان کے درمیان بیٹھ گئ ۔ اس نے کسے بھی چیز میں دلچسپی نا دکھائ ، نا ہی تب جب زارا ( لڑکے کی ماں) نے اسے اپنے ساتھ لگایا اور بولیں ، ” بھئ بھائ صاحب میں نے اپنی بہو نہیں بلکہ بیٹی چن لی ہے ، آج ہی ضارون کو سرپرائز دیں گے کہ اس کی ہونے والی بیوی مل گئ ۔” نا ہی تن جب صبور شاہ نے اس کے ہاتھ پر چند ہزار ہزار کے نوٹ رکھ دیے تو اس نے منع کرنا چاہا لیکن مزاہمت کام نا آئ ۔ پھر جب صبور شاہ نے اسے اپنے پاس بٹھاتے ہوئے یہ پوچھا، ” بیٹا زمل یہ رشتہ آپ کی مرضی سے تو ہو رہا ہے نا ؟ ” تو یک دم زمل کے ہاتھ پاوں پھولنا شروع ہو گئے ، وہ اس سوال کی توقع نہیں کر رہی تھی لہذا اس نے جھوٹ بولنے سے بہتر وہاں سے اٹھ کر اندر چلے جانا زیادہ مناسب سمجھا ۔ اپنے پیچھے اس نے رفیق صاحب کی آواز سنی ، ” زمل کی رضا مندی شامل ہے اس رشتے میں ، تحریم نے خود پوچھا تھا اس سے ، تبھی تو یوں شرما گئ ہے ۔ ” ان لوگوں کے جانے کے بعد رفیق صاحب اور تحریم بھی مظفر آباد جانے کیلیے تیار ہونے لگے ۔ زمل ہی ان دونوں کو دروازے تک چھوڑنے آئ ، رفیق صاحب نے اس کے سر پر پیار دیا جو کہ اس بات کی نشانی تھا کہ اب وہ اس سے ناراض نہیں ہیں ۔ وہ بے اختیار تحریم سے لپٹ کر رو دی ( شاید آج کے بعد آپ سے کبھی مل نا پاوں ) انہوں نے اسے خود سے پیار سے الگ کیا اور اس ماتھے پر بوسہ دیا اور بولیں ، ” بہادر بنو ، ہمایوں ساتھ ہی ہے تمہارے ، اسے دیکھ لینا رات میں ڈر جاتا ہے ، اور ہم لوگ کل شام تک آنے کی کوشش کریں گے۔” انہوں نے محبت سے دوبارہ زمل کو ساتھ لگایا اورٹیکسی میں بیٹھ گئیں جہاں رفیق صاحب پہلے ہی ان کا انتظار کر رہے تھے ۔ اس کے بعد زمل کا دل بھر آیا ۔ باجانے کس طرح وہ اپنے کمرے تک گئ پھر جاکر ایک بیگ بکالا ، اس میں چند عام سوٹ رکھے ، ایک ڈائری ساتھ لی اور ایک بڑی سی چادر لیے باہر آگئ ( کسی بھی قسم کی رقم یا جیولری ساتھ لانے سے زی نے سختی سے منع کیا تھا ) ۔
گھر کی دہلیز پر قدم رکھے تو وہ من من کے محسوس ہوئے ۔ ایک آخری نگاہ اپنے گھر پر ڈالی اور پھر باہر قدم رکھ دی۔
باہر قدم رکھا تو ویرانی نے اس کا استقبال کیا ۔ باہر کوئ گاڑی نہیں تھی ، بلا اختیار موبائل پر موصول ہونے والا پیغام دیکھا ، ” گلی تنگ ہونے کی وجہ سے میری گاڑی نہیں آ سکی ، میں بالکل گلی کے کارنر پر ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ” ، زمل نے کوئ جواب نا دیا ۔ وہ گلی کے آخر تک جانے کیلیے چل پری ۔ ہاتھ میں اٹھایا بیگ اسے اس وقت بہت وزنی لگ رہا تھا ، بار بار آنکھوں میں آنسو آجاتے جن کو وہ بڑی مشکل سے روکے ہوئے تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔زمل نے ایک لمحہ بھی نا سوچا کہ کسی ایسے شخص پر اعتبار کرنا ٹھیک ہو گا بھی یا نہیں جس کا اصل نام تک وہ جانتی نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت اپنی گلی اسے پل سراط جیسی لگی ، اپنی ساری زندگی وہ اپنی آنکھوں کے سامنے چلتی دیکھ رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور صرف ایک سوال اس کے ذہن میں تھا ، ” کیا وہ صحیح کر رہی ہے ؟ ” ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گلی سے گزرتے وقت بلا اختیار زمل کی نظر ایک بھکاری پر پڑی جو کے سنسان گلی میں ٹھٹر رہا تھا ، ناجانے کیوں زمل کو اسے قریب سے دیکھنے کا اشتیاق ہوا ، زمل نے دو تین قدم اس بھکاری کی طرف بڑھاے تو معلوم ہوا کہ وہ بھکاری اکیلا نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ اس کی چھ سات سالہ بیٹی بھی تھی جو کہ دنیا بھر کا سکون چہرے پر سمیٹے ایک گندی سی چادر میں ارد گرد سے بے خبر مزے سے سو رہی تھی ، زمل ناجانے کتنی دیر ان دونوں کو دیکھتی رہی ۔ اسے وہ وقت یاد آیا جب وہ ایک مرتبہ بیمار ہوئ تو رفیق صاحب رات کے ڈھائ بجے اسے لیے سڑکوں پر پھرے تھے ، اسے وہ وقت بھی یاد آیا جب وہ سیڑھیوں سے گری تھی تو اس کے زخم دیکھ کر رفیق صاحب کی آنکھیں بھی آنسووں سے بھر گئیں تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آنکھیں تو زمل کی بھی برسنا شروع ہو گئ تھیں ، اور اب وہ ایک تلخ فیصلہ کر چکی تھی ۔اس کی سوچوں کے تسلسل کو موبائل فون کی زوں زوں نے توڑا ۔اس نے اپنا موبائل سامنے کیا تو زی کالنگ لکھا آرہا تھا ۔ زمل نے کانپتے ہاتھوں سے موبائل اٹھایا ۔
” چندہ تم کہاں ہو ؟ میں انتظار کر رہا ہوں ۔ ” دوسری جانب زی کی پریشان آواز سنائ دی ۔
” زی ۔ ۔ ۔ ” بمشکل بول پائ ۔ ” زی ۔ ۔ ۔ ۔ میں ۔ ۔ ۔ ”
“زمل تم ٹھیک تو ہو نا اور کیا گلی میں ہو ، میں آوں ؟” زی نے پوچھا ۔
” نہیں زی ، مت آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نہیں آسکتی ۔ ۔ ۔ ۔ ” زمل نے رونا شروع کر دیا ۔ دوسری جانب خاموشی ہی رہی ۔ “زی مجھے بابا کی محبت نے روک لیا ، وہ میرے بابا ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں کیسے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیسے آسکتی ہوں ان کو دھوکا دے کر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے معاف کر دینا زی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن میں نہیں آسکتی ۔ ۔ ۔ ۔ آئ ایم سوری ۔ ۔ ۔ آئ رئیلی ایم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” دوسری جانب اب بھی خاموشی ہی تھی ۔ ” زی ! ”
” ہاں ”
” کچھ کہو گے نہیں ؟ ”
” کیا یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے ؟”
” ہ ہ ہا۔ ۔ ۔ ہاں ۔ ۔” زمل رو دی ۔
” پھر رو مت ، پلیز مجھے تکلیف ہوتی ہے ، میں دعا کروں گا کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ تم جس کے ساتھ بھی رہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خوش رہو ۔” زی کی آواز بھیگی ہوئ تھی ۔زمل کو لگا جیسے وہ بھی رو رہا تھا ۔ وہ بمشکل کہہ پائ ، ” اللہ حافظ ۔”
” اللہ حافظ ” ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زمل نے فون بند کیا ، اس میں سے سم اور میموری کارڈ نکال کر توڑا ، وہ موبائل اس بھاری کی جھولی میں ڈال دیا اور خالی ذہن لیے واپس پلٹ آئ ۔ اپنے گھر میں داخل ہوتے ہوئے اسے لگا جیسے پہلی مرتبہ وہاں قدم رکھ رہی ہو ۔
اندر آکر باہر کا دروازہ بند کیا ، ہمایوں کو اس کے کمرے میں دیکھا اور اپنے کمرے میں آگئ ، آہتسہ آہستہ قدم اٹھاتی وہ الماری کے پاس آئ اس میں بیگ رکھا ، واش روم سے وضو کر کے آئ اور جائے نماز بچھا لیا ۔ اس پر کھڑے اور نماز پڑھتے ہوئے زمل کو احساس ہوا کہ وہ زندگی میں پہلی بار بماز پڑھ رہی ہے ، جیسے اس کی زندگی شروع ہی اب ہوئ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جیسے پہلی زندگی ایک سراب تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زمل کو اپنی ساری زندگی کبھی نماز پڑھتے رونا نہیں آیا تھا نا ہی کبھی دعا کے دوران آنسو اس کی آنکھوں سے چھلکے تھے لیکن وہ اس کی پہلی نماز تھی ، جس میں آنسووں سے اس کی آنکھیں خشک نا ہوئیں ۔وہ پہلی نماز تھی جس میں وہ ہچکیوں سے روئ اور وہ پہلی دفعہ تھا جب دعا مانگتے ہوئے زمل کے آنسو برابر کے شریک تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
” الله ! ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الله ! ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے سکون دے دیں ۔ ۔ ۔ ۔ پلیز الله ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نہیں جانتی میں نے جو کیا ۔ ۔ ۔ ۔ جو میں ابھی کر آئ وہ ٹھیک تھا یا نہیں ، میں نہیں جانتی وہ بھکاری ، اس کی بیٹی ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سب آپ کی طرف سے کوئ اشارہ تھا یا ۔ ۔ ۔ ۔ میں نہیں جانتی کہ میں نے آج ہی اس کو وہاں کیوں دیکھا ، الله مجھے سکون دے دیں ، میرے اندر برپا طوفان کو تھما دیں ، ” زمل کی یچکیاں دعا میں رکاوٹ بن رہی تھیں لیکن اس وقت وہ الله کے نزدیک پسندیدہ دعا کے طریقوں میں سے ایک اپنائے ہوئے تھی ۔ “الله مجھے اس گناہ کیلیے معاف کر دیں جس کا میں نے ارادہ کیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الله میرا پردہ رکھیئے گا ، الله زی کی محبت کو میرے دل سے نکال دیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پلیز الله ۔ ۔ ۔ ۔ پلیز مجھ سے ایسے نہیں جیا جائے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔مجھے سکون دے دیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” ، اور اسی طرح آنسو بہاتے ہوئے وہ سجدے کی حالت میں سو گئ ۔
اگلی شام تحریم اور رفیق صاحب آئے تو زمل کو بخار میں تپتا ہوا پایا ، تحریم تو صحیح معنوں میں پریشان ہو گئیں ۔ زمل کو ہاسپٹل میں داخل کرنا پڑا ، سات دنوں کے بعد اس کی حالت کچھ سمبھلی ۔ اتنے میں صبور شاہ اور ان کے گھر والوں کی طرف سے بھی رشتہ منظور ہو گیا ، انہوں نے اتوار کی شام کو رفیق صاحب کو اپنے گھر کھانے پر بلوا لیا ۔ زمل اس سب کے دوران خاموش سامع کا کردار ادا کرتی رہی شاید اسے سکون مل ہی گیا تھا ، تحریم نے اس خاموشی کو اس کی ذندگی میں آنے والی تبدیلی سمجھا اور ان کو امید تھی کہ زمل شادی کے بعد ٹھیک ہو جائے گی ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ✴✴✴✴✴✴✴✴✴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اس وقت وہ سب لوگ صبور شاہ کے گھر کھانے پر مدعو تھے ، تحریم ضارون کے بالکل سامنے تھیں اور رفیق صاحب اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ تحریم کو ضارون بہت پسند آیا تھا ، وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے رفیق صاحب کی کسی بات کا جواب دے رہا تھا جب زارا بولیں ،” ہم اتنی لیٹ آپ لوگوں کو آگاہ کرنے پر معذرت خواہ ہیں ، دراصل پچھلے ہفتے ضارون کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا ، جیسے ہی اس کی حالت بہتر ہوئ ہم نے آپ سے رابطہ کیا”، اتنے میں رفیق صاحب بولے ، ” نہیں معذرت والی تو کوئ بات نہیں ہے ، اس طرح کے کاموں میں دیر سویر تو ہوہی جاتی ہے ۔ ”
” ضارون بیٹا ! اب آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟ ” تحریم نے ضارون کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا ۔
” آنٹی اب الله کا شکر ہے پہلے سے بہتر ہے ، بس ٹانگ میں وقفے وقفے سے درد ہوتا ہے لیکن پریشانی والی کوئ بات نہیں ہے ۔ ” ضارون نے سلجھے ہوئے لہجے میں جواب دیا ۔
” اب زمل کی طبیعت کیسی ہے تحریم ؟ بخار ٹھیک ہوا اس کا اب ؟ ” زارا نے تحریم سے پوچھا تو ضارون کی آنکھیں زارا سے ہوتے ہوئے تحریم تک آئیں ان آنکھوں میں پریشانی تھی جسے تحریم نے جواب دیتے ہوئے محسوس کیا ، ” اب زمل بہت بہتر ہے ، اس دن گھر میں صرف وہ اور ہمایوں تھے ، ڈر گئ تھی وہ اس لیے بیمار پڑ گئ ، ڈاکٹر نے کہا تھا کہ ہر پریشانی سے دور رکھیں ۔ ۔ ۔ ۔ ایک دو دن مزید لگیں گے ، دراصل اکیلے رہنے کی عادت نہیں ہے اسے ۔” تحریم نے انہیں تفصیل سے آگاہ کیا ۔ ہمایوں ضارون کی چھوٹی بہن کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا ۔ ضارون کی بہن کا نام ہنال تھا وہ میڈیکل کے پہلے سال میں تھی ۔
” بھائ آپ ہمایوں کو پیرٹس دکھا لایں گے ؟ ” ہنال نے ضارون سے پوچھا جو کہ اب پریشان دکھائ دے رہا تھا ، اس نے ہمایوں کو دیکھا جو کہ اسے ہی دیکھ رہا تھا تو مسکرا کر اضطراب کم کرنے کی کوشش کی اور ہمایوں کو لے کر باہر چل دیا ۔” ضارون کو طوطے پسند ہیں کیا ؟ ” رفیق صاحب نے صبور صاحب سے پوچھا ۔
” پہلے تو نہیں تھے لیکن یہ پچھلے پانچ مہینوں سے ہی شوق ہوا ہے اسے ، بہت لگاو سا ہو گیا ہے ہم سب کو ہی ان سے ۔” صبور صاحب نے بتایا ۔ پھر اس کے بعد ضارون اور زمل کے نکاح کی تاریخ طے کی گئ ، کیونکہ رفیق صاحب کے نزدیک منگنی کی کوئ شرعی حیثیت نا ہونے کی وجہ سے انہوں نے صاف صاف کہا کہ وہ لوگ نکاح کریں گے ، اس بات کو صبور صاحب نے بھی سراہا ۔ طے ہوا کہ اگلے ہفتے دونوں کا نکاح کر دیا جائے اور پھر اس کے ایک مہینے کے بعد رخصتی کی تاریخ بھی طے کر دی گئ ۔ جب تحریم گھر آئیں تو وہ مطمئن تھیں کہ ان کی بیٹی بہت اچھے لوگوں میں بیاہ کر جارہی ہے ۔
گھر آکر وہ سب سے پہلے زمل کے کمرے میں گئیں ۔ وہ بیڈ پر بیٹھی ڈائری لکھ رہی تھی ۔ اس کے پاس جا کر اس کا ماتھا چوما اور اپنے ساتھ لگا لیا ۔ زمل کو لگا کہ شاید رشتے سے انکار ہو گیا ہے ، امید کی ایک کرن سی جاگی ۔ “میری زمل تو اب بس کچھ ہی ہفتوں کی مہمان ہے یہاں ، زمل بیٹا میرا یقین کرو وہ لوگ بہت اچھے ہیں ، خاص طور پر ضارون مجھے بہت پسند آیا ہے ۔ دونوں طرف سے رضامندی کے بعد تمہارے بابا نے کہا کہ جلد شادی کرنی ہے تو وہ بھی بولے کہ کوئ اعتراض نہیں ہے ۔ ” زمل چپی کا کلمہ پڑھے ان کے ساتھ لگی رہی ۔ ” زمل اگلے ہفتے تمہارا نکاح ہے ،” زمل نے سر اٹھا کر تحریم کو دیکھا تو آنکھوں میں آنسو آگئے ، ” پھر اگلے مہینے کی سات تاریخ کو رخصتی ہے ۔” اب کی بار زمل باقائدہ ان سے لپٹ کر رونا شروع ہو گئ ۔ تحریم نے بمشکل اسے چپ کروایا ۔
” آپ آج یہاں میرے پاس سو جائیں ماما پلیز ۔ ” ان سب باتوں کے جواب میں تحریم یہ تصور تو نہیں کر رہی تھیں لیکن وہ مان گئیں ۔ ” میں کپڑے بدل کر آتی ہوں ۔ ” وہ جب چلی گئیں تو زمل نے ڈائری دراز میں رکھ دی اور سر پیچھے ٹکا کر آنکھیں موند لیں ۔ ” الله مجھے دل سے اس رشتے کو قبول کرنے کی ہمت اور توفیق عطا کر دیں ۔ ۔ ۔ آمین ” دل ہی دل میں وہ یہ دعا کرتی کب سو گئ اسے پتا نہیں چلا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔✴✴✴✴✴✴✴✴✴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نکاح کا فنکشن ایک میرج ہال میں ترتیب دیا گیا تھا ۔ لڑکےوالوں کی طرف سے تو بہت سارے مہمان تھے لیکن لڑکی والوں کی طرف سے صرف زمل کے گھر والے اور زمل کے ایک ماموں تھے ۔ زمل برائیڈل روم میں لمبی سی آف وائیٹ کام والے بڑے گھیرے والی میکسی میں نہایت ہی خوبصورت لگ رہی تھی ، آج سے پہلے اتنا میک اپ نا کرنے کی وجہ سے بھی اس کے حسن میں بہت نکھار آیا تھا ۔ لیکن اس کا دل اتنا ہی ویران تھااور یہی ویرانی آنکھوں سے چھلکتی ہوئ اس کے چہرے کو مزید دلکش بنا رہی تھی ۔ نکاح کے وقت زمل کو لگا اس کا دل بند ہو جائے گا ، لیکن جب اس نے ” قبول ہے” کہا تو کچھ نا ہوا ۔ دستخط کرتے وقت زمل کے ہاتھ کانپ رہے تھے ، لیکن دستخط بھی ہو گئے ۔ اب سب لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے ، کسی نے زمل کو گلے لگایا تو کسے نے ماتھا چوما ، لیکن وہ خالی ذہن لیے وہیں چپ چاپ بیٹھی رہی ۔ آہستہ آہستہ سب لوگ باہر چلے گئے کیونکہ مہمانوں کیلیے کھانے کا انتظام دیکھنا تھا ، جبکہ ہنال روم میں زمل کے پاس ہی رک گئ ۔
” زمل بھابھی ! بھائ آج اتنے خوبصورت لگ رہے تھے کہ ہال میں آنے سے پہلے تک تو میں شیور تھی کہ آج میرے بھائ سے زیادہ اچھی کسی کی پرسنیلیٹی نہیں ہوگی ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن آپ کو دیکھنے کے بعد تو مجھ پر عیاں ہوا کہ بھائ تو حسن میں پیچھے رہ گئے آپ سے ۔ ۔ ۔ ” ، ہنال کی باتوں پر زمل بےاختیار مسکرا دی ، ” والله آپ مسکراتے ہوئے بہت خوبصورت لگتی ہیں ، اسی طرح مسکراتی رہا کریں ۔ ” زمل کو سمجھ نا آئے کہ وہ اب کیا کہے تو بولی ،” شکریہ ” ۔ ” پتا کیا بھابھی ! ضارون بھائ نے آپ کی تصویر دیکھی تو کہا بس ڈیڈی لڑکی آپ نے کر لی پسند اب جلدی سے شادی کر دیں میری ۔ آپ کے بابا نا کہتے تو ڈیڈی نے جلدی شادی کا کہہ دینا تھا ، اور دیکھو تو بھائ کو ۔ ۔ ۔ مجھے تصویر نہیں دکھائ ، بولا کہ براہ راست دیکھنا ۔ “،زمل کی مسکراہٹ ایک دم مانند پڑ گئ ۔” اور دیکھیں اب مجھے کہہ رہے ہیں کہ کمرے سے باہر آو ۔ ہنہ ” ہنال نے منہ پھلا کر کہا ، ” کیوں ۔ ۔ ؟ ” زمل نے بمشکل آواز نکالی ۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئ ، زمل سیدھا ہو کر بیٹھ گئ ، جبکہ ہنال آنکھوں میں شرارت لیے دروازے کی طرف آئ ۔” کون ہے ؟ ” ہنال نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا ۔
” ہنال دروازہ کھولو میں ہوں ۔” زمل نے ضارون کی گھمبیر آواز سنی ۔
” میں تو کسی “میں” کو نہیں جانتی ۔ نا ہی میرا کوئ دوست “میں” ہے ، ناہی فیملی میں۔ ۔ ۔ ”
” ہنال اب کھول بھی دو دروازہ لوگ دیکھ رہے ہیں ۔ ” ضارون کی آواز سے غصہ چھلکنے لگا ۔
” نا نا بھائ ، پہلے اتنی پیاری بھابھی کی تصویر نہیں دکھائ اور اب بھی ٹھیک سے ملنے نہیں دیا ۔ ” ہنال نے کسی غصے کو خاطر میں نا لاتے ہوئے کہا ۔
” ہنال مل تو لیا ہے اپنی بھابھی جان سے ، اب جاکر کھانا کھاو ۔ ” ضارون نے لفظ بھابھی جان پر زور دیا ۔
” بھائ جان ہم یہاں کھا چکے ہیں ۔” ہنال نے بھی اسی طرح لفظ جان پر زور دیا ، جس پر ضارون کا ہلکا سا قہقہ سنائ دیا ۔ ” اچھا بتاو کہ کیا کروں تو آنے دو گی اندر ؟” ضارون نے جیسے ہار مانتے ہوئے کہا ۔
” آپ پہلے پرمٹ دکھائیں ۔” ہنال نے ہنسی دبائے کہا ۔
” ہنال میری جان ، میرے خیال سے ابھی تھوڑی دیر پہلے مجھ غریب کا ہی نکاح ہوا ہے ۔” ضارون نے ہنسی دبائے کہا ۔
” کیا ثبوت ہےآپ کے پاس ۔ ” ہنال نے اسے مزید تنگ کرنا چاہا ۔
” ثبوت تو اس وقت ڈیڈ کے پاس ہے ، بلکہ تمہارے ساتھ کمرے میں جیتا جاگتا ثبوت بھی ہے ۔” ضارون کا اشارہ سمجھتے ہوئے ہنال نے قہقا لگایا جبکہ زمل کا دل سینہ پھاڑ کر باہر آنے کی تیاریوں میں تھا ، وہ چاہ کر بھی مسکرا نا سکی ۔
” اچھا چھوڑیں ثبوت کو ایک ڈیل کرتے ہیں ۔ ” ہنال نے نئی تجویز دی ۔
” بولو ” ضارون بھی گھٹنے ٹیک چکا تھا ۔
” ایک ڈائمنڈ نیکلیس ۔ ” ہنال نے فرمائش کر ڈالی ۔
” تم اب زیادہ مہنگی نا پڑو ۔” ضارون نے مصنوعی خفگی سے کہا ۔
” ٹھیک ہے اگر آپ کو بھابھی سے نہیں ملنا تو ۔ ویسے آج آف وائیٹ میں وہ لگ کمال کی رہی ہیں ۔” ہنال نے مزید تنگ کیا ۔” ڈائیمنڈ نیکلس کے ساتھ ایک رنگ بھی ، اب خوش ۔” جیسے ہی ہنال کی فرمائش ڈن ہوئ کلک کی آواز آئ اور ضارون کے قدموں کی آواز سنائ دی ۔ زمل کو لگا کہ اس کا دل بند ہونے کو ہے ۔ وہ اس وقت برائڈل روم کے صوفے پر بیٹھی تھی ، ضارون کے اندر آنے پر وہ مزید سکڑ گئ ، ضارون نے آنکھ کے کونے سے منظر دیکھا اور محفوظ ہوا ۔ ” بھابھی آپ گواہ رہئیے گا بھائ کے اس وعدے کا ۔” ہنال نے اتنا کہا اور باہر چل دی ۔ اس کے جانے کے بعد ضارون نے دروازہ لاک کیا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا زمل کے عین سامنے کھڑا ہو گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد زمل نے ایک آواز سنی جس کو سننے کے بعد اس کی دنیا تھم گئ ، یہ وہ آخری آواز اور الفاظ تھے جن کو سننے کا تصور وہ آج کر سکتی تھی ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...