زاورشاہ کی پرانی عادت تھی صبح سویرے سیر کرنے کی جب وہ اپنے سر سبز کھیتوں میں بھاگتا اور ورزش کرتا تو۔۔۔۔وہ رعب والا زاورشاہ لگتا ہی نہیں تھا۔۔۔۔اور کوئی اسے روز اپنی بالکنی میں کھڑے ہو کر دیکھنا اپنے لیے سکون سمجھتا تھا۔۔۔۔بھاگتا تو زاورشاہ تھا ۔۔۔پر توانائی شاید اسکو ملتی تھی۔۔۔۔
————————————-
بڑی حویلی اپنی مثال آپ تھی۔۔۔۔طرز میں اور اس میں رہنے والے مکین بھی ۔۔۔۔۔یہ حویلی اپنی شان اور قیمت کا منہ بولتا ثبوت تھی۔۔۔۔۔جب صبح سویرے سرسبز لان کی صفائی کی جاتی۔۔۔ہر کیاری میں لگے خوبصورت رنگ برنگے پھول۔۔۔۔کشادہ لان۔۔۔۔دیکھنے والا ہر ذہن کھول جاتا تھا۔۔۔۔۔صاف ستھرا ٹریک جس پر ترتیب سے گاڑیاں کھڑی تھیں۔۔۔۔۔جن کی قیمت خود بول رہی تھی۔۔۔۔
—————–
زاورشاہ جب فریش ہوکر نیچے آیا تو بڑی حویلی کی بڑی سی ڈائنگ ٹیبل لوازمات سے سج چکی تھی۔۔۔۔۔۔جس میں امرینہ بیگم ملک خاور شاہ کے ساتھ برجمان تھیں۔۔۔۔یہ دو نفوس زاورشاہ کی جان تھے۔۔۔۔اسلام و علیکم بابا جانی۔۔۔۔۔وعلیکم السلام کیسے ہو بابا کی جان۔۔۔۔بہت مضبوط ہمیشہ کی طرح ۔۔۔۔۔آہاں آج تو کیپٹن صاحب بھی آئے ہیں۔۔۔۔عالیان صرف ہنس دیا تھا۔۔۔۔
————————–
اچانک جب کسی نے عروہ کی غیر موجودگی کو محسوس کیا تو شور مچا ڈالا۔۔۔۔مس عروہ کہاں ہے؟ ہر زبان پر بس یہی سوال تھا سب بکھر چکے تھے عروہ کو ڈھونڈنے کے لیے۔۔۔۔۔عروہ وہاں ہوتی تو ملتی ناں۔۔۔۔۔۔ہر کوئی ڈھونڈھ کر ناامید لوٹ رہا تھا جھکے ہوئے سر کے ساتھ۔۔۔۔۔آخرکار سب نے اسی ناامیدی کے ساتھ واپسی کا سفر باندھا کیونکہ اب یہاں رکنا بے سود تھا۔۔۔سب کے دل ڈرے ہوئے تھے ۔۔۔آنکھیں اشکبار تھیں-
—————————————
بڑی حویلی کے سامنے ایک گاڑی تیزی سے آکر رکی۔۔۔۔گاڑی کے رکتے ہی جیسے ہر کوئی ڈر کی لپیٹ میں آجاتا تھا۔۔۔۔۔گاڑی کا دروازہ کھولتے ہی جب اس نے اپنا مرمریں پاوں باہر رکھا تو۔۔۔۔زاورشاہ کو اپنے کمرے میں کھڑے اندازاہ ہوگیا۔۔۔۔کہ انداز کسکا ہے اور زبردست سی مسکراہٹ اسکے لبوں کو چھو دی۔۔۔۔
دھڑکنیں رک سی گئیں سینے میں۔۔۔۔۔
تم کہیں آس پاس لگتے ہو۔۔۔
وہ وانیہ ضیا تھی ۔۔۔۔ جس کے دل کی دھڑکن زاورشاہ کے ہونے کا پتا دے رہی تھیں۔۔۔۔۔وہ اپنے نام کی طرح کی صرف ایک۔۔۔۔۔زاورشاہ اور وانیہ ضیا دونوں واقعی اپنی ذات میں لاجواب تھے۔۔۔۔۔وہ دونوں شان تھے اپنے خاندان کی۔۔۔۔۔وانیہ ضیا کوئی کمزور لڑکی نہیں تھی۔۔۔۔پر اسکو زاورشاہ کی ذات سے عشق تھا۔۔۔۔پر اس بات سے بےخبر تھا زاورشاہ ۔۔۔۔وہ جیسے ہی اندار داخل ہوئی زاور اتنی تیزی سے باہر نکل رہا تھا۔۔۔۔تم رک بھی سکتے ہو زاور شاہ۔۔۔رکنے کی وجہ بھی ہونی چاہیے وانیہ ضیا۔۔۔۔زاور نے بھی اسی طرز میں جواب دیا”
میرا یہاں آنا : کیا اس سے بڑی بھی وجہ کی تلاش ہے تمہیں۔۔۔۔۔زاورشاہ خود وجہ بنا کرتا ہے۔۔۔۔۔۔اپنے لیے بنواتا نہیں ہے۔۔۔۔وہ جواب دیتے ہی آگے کو نکل دیا۔۔۔۔وانیہ ضیا پھر وہی کھڑی رہ گئی۔۔۔۔صرف اس شخص کے سامنے وہ بے بس ہو جایا کرتی تھی نہ جانے کیوں؟
ایک لمحے کی توجہ نہیں حاصل اس کی ،
اور یہ دل ۔۔۔کہ اسے حد سے سوا چاہتا ہے ۔۔۔۔
وانیہ ضیا نے پوری شدت سے آنکھیں بند کر کے اس شعر کو پڑھا تھا-
—————————————
ابھی وہ گاڑی لے کر نکلا ہی تھا جب بابا جانی کی کال آگئی۔۔۔۔کہاں ہو۔۔؟ جواب سے پہلے ہی جواب دے کر بولے فورا فارم ہاوس پہنچو۔۔۔
زاورشاہ نے گاڑی فارم ہاوس کی جانب موڑ دی۔۔۔۔گھنٹے کے راستے کو آدھے گھنٹے میں طے کر کے وہ ملک خاور شاہ کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔۔۔
“کون ہے وہ لڑکی؟” ایک گرج دار آواز پورے کمرے میں گونجی۔
کون سی لڑکی بابا جانی ۔۔۔۔زاورشاہ بھی اپنے نام کا ایک تھا۔۔۔۔کوئی ڈر خوف اس پر طاری نہیں ہوا۔۔۔۔کیونکہ ڈرے تو وہ جسکے دل میں چور ہو۔۔۔!
“زاور شاہ عزتیں سب کی برابر ہوا کرتیں ہیں اور بیٹیاں ماں باپ کا سرمایہ ہوتی ہیں تم نے کسی کی عزت کو بے عزت کیا ہے اب تم اسکو اپنی عزت بناکر معاشرے میں باعزت مقام دو گے کیونکہ مرد عزتوں کے رکھوالے بنا کرتے ہیں”
زاور شاہ بولنے کے قابل نہیں رہا تھا اور بابا جانی کو انکار کرنا انکی تربیت پر حرف لانا تھا ۔۔۔۔سو اس نے چپ چاپ سر جھکا دیا-
————————————-
زاورشاہ ابھی حویلی میں داخل ہی ہوا تھا کہ وانیہ ضیا آنکھوں میں غصہ اور نفرت لیے کھڑی تھی۔۔۔۔
زاورشاہ تم ایسا کرنے کا سوچنا بھی مت۔۔۔وہ آنکھیں نکال کر بولی۔کیونکہ وانیہ ضیا نے صرف ہرانا سیکھا ہے”
“اور زاورشاہ نے صرف ہارنا نہیں سیکھا”
زاورشاہ نے انگلی کے اشارے سے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا-
سب سمجھتے ہیں میں تمہاری ہوں
تم بھی رہتے ہو اس گمان میں کیا۔۔۔۔۔۔!
کیونکہ ہر کوئی جانتا تھا وانیہ ضیا اگر کسی کے لیے بنی ہے تو وہ ہے زاورشاہ ” انسان جس چیز کا تصور بھی برداشت نہیں کرتا ‘ جب وی حقیقت بن کر اترتی ہے تو چپ چاپ برداشت کرلیتا ہے”
اور یہی سے وانیہ ضیا کی برداشت جواب دے جاتی ہے۔۔۔
ملک خاور شاہ عزتوں والے تھے۔۔۔انہوں کسی کی عزت پر آج تک حرف نہیں آنے دیا۔۔۔وہ عروہ کو فارم ہاوس سے حویلی میں لے آئے تھے۔۔۔۔
عروہ کے لیے سب کچھ سمجھ سے باہر تھا۔۔۔۔غم اور دکھ میں حواس بھی کام کرنا چھوڑ چکے تھے۔۔۔!
اور یہ انہی کا فیصلہ تھا کہ۔۔۔۔اگر زاورشاہ نے اس لڑکی کو اسکے گھر سے بے گھر کیا ہے۔۔۔تو اب اپنے گھر کی عزت بنائے گا۔۔۔!
ہر کوئی شاک کی کیفیت میں تھا پر کس کی ہمت تھی جو ان سے سوال کر سکے۔۔۔۔وہ بیٹیوں کے باپ نہ سہی۔۔۔۔پر انکی بھی بہنیں تھیں جو اس خاندان کی عزت تھی۔۔۔
————————————-
عروہ کا ذہن معاوف ہوچکا تھا۔۔۔۔رو رو کر برا حال تھا ۔۔جب خاور شاہ اسکے کمرے میں آئے۔۔۔سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔عروہ اپنے آنسوؤں پر ضبط نہ رکھ سکی اور گلے لگ کر رو دی۔۔۔جیسے وہ رونے کے لیے کندھے کی تلاش میں ہی ہو۔۔۔
” مجھے میرے گھر جانا ہے۔۔۔ہمارے پاس صرف عزت ہوتی ہے۔۔۔بیٹیوں کا باپ پہلے ہی کمزور ہوتاہے۔۔۔میرے ابو کا سرمایہ صرف ہم ہی ہیں۔۔۔مجھے واپس بھیج دیں ۔۔آپکو خدا کا واسطہ میرے گھر والے لوگوں کی کس کس بات کا جواب دیں گے۔۔” عروہ ہاتھ جوڑ کر خاور شاہ کے سامنے باپ کی اور اپنی عزت کی امان مانگ رہی تھی۔۔۔۔!
جب تم خاور شاہ کے گھر کی عزت بنو گی تو کون ہے۔۔۔جو میری بیٹی کے کردار پر سوال کر سکے۔۔!
عروہ کو اپنی سماعت پر شک ہوا۔۔”نہیں مہربانی ایسا نہ کریں ۔۔۔میرے واپس جانے کے راستے کو کانچ کے ٹکڑوں سے نہ سجائیں کہ میں جاتے ہوئے۔۔۔اپنے نہ صرف پاوں بلکہ ماں باپ کی عزت کو بھی زخمی کردوں”
خاور شاہ کو ایک پل لگا تھا۔۔۔وہ فورا کمرے سے باہر نکل گے۔۔۔۔
——————————-
عروہ کے گھر میں ماتم کا سماں تھا ۔۔۔۔جمشید صاحب اور ذرا بیگم سر جھکا کر بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔اور احمر کی والدہ تو شاید موقع کی تلاش میں تھی۔۔۔فورا آکر رشتہ ختم کردیا “میرا صرف ایک بیٹا ہے اسکو رشتوں کی کمی نہیں ہے اور ایسی گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کو میں تو اپنے گھر قدم نہ رکھنے دوں۔۔۔۔۔بہو تو دور کی بات ہے۔۔!”
“بس کریں چپ ہوجایئں ۔۔۔جمشید صاحب سے بیٹی کے کردار پر ایسا الزام برداشت نہ ہوا۔۔۔آخر باپ تھے ایک تو دکھ نے نڈھال کر رکھا تھا ۔۔۔اوپر سے ایسی باتیں ۔۔۔ایسی باتیں جو عموما ہر کوئی کرتا ہے۔۔۔جلتی پر تیل ڈالنا “مارنے والے ہاتھوں کو تو پکڑا جاسکتا ہے۔۔۔۔پر بولنے والی زبانوں کو کون پکڑے۔۔۔؟” کسی نے صحیح کہا تھا-
—————————–
“آپکا فیصلہ سرا سر حماقت اور جلد بازی ہے۔۔۔وہ لڑکی مر نہیں جائے گی اگر آپ نے اس پر عنایت نہ کی تو۔۔۔”
امرینہ بیگم نے بھی غصے میں آسمان سر پر اٹھا لیا تھا –
پر وہاں پرواہ کسے تھی۔”امرینہ بیگم تم بیٹیوں کی ماں نہ سہی ۔۔۔۔پر ایک باپ کی بیٹی تو ضرور ہو ۔۔۔۔تمہارا دل نہیں کانپتا کسی کی بیٹی کو رسوا کرنے کے لیے۔۔۔۔بیٹیاں عزتیں ہوتی ہیں اور عزتوں کو گھروں میں رکھا جاتا ہے ۔۔۔اور بیٹیاں باپ ‘بھائی اور شوہر کے گھروں کی زینت ہوتی ہیں”
خاور شاہ کے ہوتےہوئے وہ لڑکی صرف اس گھر کی عزت بنے گی۔۔۔۔اور میں ایک مرد ہوں ۔۔۔۔مجھے عزتوں کو سنبھالنا بھی آتا ہے۔۔۔۔اور بولتی زبانوں کو بند کرنا بھی ۔۔۔۔”
———————————
وانیہ ضیا کے لیے سانس لینا دشوار ہوچکا تھا۔۔۔۔کیونکہ اسکی سانسیں تو زاورشاہ کے نام سے چلتی تھیں۔۔۔۔اگر اسکو اپنی سانسیں رواں رکھنی تھیں۔۔۔۔تو زاورشاہ کے نام کے ساتھ جڑنے والے نام کی سانسوں کو دشوار کرنا تھا۔۔۔۔!
وہ ایسی ہی تھی۔۔۔جو اسکا تھا اس پر کوئی اور حق کیوں رکھے۔۔۔۔!
———————————
زاورشاہ نے ادھر ملازموں کا جینا حرام کردیا تھا ۔۔۔۔کہ کون اس لڑکی کو یہاں لایا تھا۔۔۔اور ہمت کیسے کی۔۔؟
“صاحب جی”
دلاور نے ڈرتے ہوئے پوری روداد سنانی شروع کی۔۔۔
“حکیم صاحب کی بیٹی جسکا رجحان کسی لڑکے کی طرف تھا۔۔۔ہم اسکے تعاقب میں نکلے تھے۔۔۔۔پر جب وہ بس میں سوار ہونے کے بعد مال روڈ کی سڑکوں پر اتری تو کالی چادر میں لپیٹی ہوئی تھی۔۔۔ تو وہ تیز قدموں کے ساتھ ایک جھرمٹ میں گھس گئی ۔۔۔۔رنگوں کی مطابقت سے ہم لوگ دھوکا کھا گئے ۔۔۔۔وہ تو بچ نکلی پر اسکی مطابقت لیے اس لڑکی کو ہم لے آئے۔۔۔یہ صرف غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔۔۔!
اب اسکا نتیجہ چاھیے غلط فہمی میں نکلا ہو یا جان بوجھ کر ۔۔۔۔کسی کی عزت کانچ کی طرح ٹوٹ چکی تھی۔۔۔!
———————————-
حویلی کا ڈرائنگ روم جو ایک حال سے بھی بڑا تھا۔۔۔۔جہاں پر چھت سے لٹکتے بڑے بڑے فانوس جن کی روشنی جھلمل کر رہی تھی ‘ دیواروں پر لگی پینٹنگز کھڑکیوں پر لگے پردے جن سے سورج کی روشنی چھن کر کے اندر آرہی تھی۔۔۔۔اور گولائی میں پڑے صوفے اپنی قیمت کا منہ بولتا ثبوت تھے۔۔۔اس روم کی ہر چیز نظر کو خیرہ کر رہی تھی۔۔۔۔
————————————
دائیں طرف کے صوفے پر مولوی صاحب نکاح کا رجسڑ لیے ۔۔۔کندھوں پر مخصوص رومال ڈالے ۔۔۔نظرے قدموں پر جمائے بیٹھے تھے۔۔۔!
بائیں طرف چھوٹی حویلی کے مالک ملک ضیا شاہ ۔۔۔جو بغیر کسی تاثر کو چہرے پر رونما کیے برجمان تھے۔۔۔!
ملک خاور شاہ اپنی مخصوص نشست پر برجمان تھے۔۔۔۔جو کہ سکون سے بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔ساتھ ہی زاورشاہ جو کالے رنگ کے سوٹ میں ملبوس تھا۔۔۔۔آج کندھوں پر شال کی بجائے ۔۔۔۔گولڈن اور کالے رنگ کے امتزاج کی واسکٹ میں ۔۔۔۔بالوں کو ترتیب سے سنوارے ۔۔۔۔دائیں ہاتھ میں سلور رنگ کی گھڑی پہنے ۔۔۔۔ڈارک بروان آنکھوں میں بلا کی کشش تھی۔۔۔۔دودھیا مضبوط پاوں جو چپل میں نمایاں تھے۔۔۔۔چہرے پر ہلکے سے بالوں کی داڑھی۔۔۔جو ہر آنکھ کو دیکھنے پر مجبور کردے۔۔۔۔!
زاورشاہ کی ذات میں کوئی تو بات تھی۔۔۔۔جو وانیہ ضیا کو اسکے حواسوں میں نہیں رہنے دیتی تھی۔۔۔۔!
————————–
رجسڑ پر دستخط کرتے ہوئے۔۔۔۔پل کو عروہ کے ہاتھ کانپے تھے۔۔۔۔پر خاور شاہ کے ہاتھ کا احساس سر پر محسوس کیا تو ۔۔۔۔”پل بھر میں اس نے خود کو زاور شاہ کے نام کردیا”
“نہ جانے وہ کون تھا۔۔۔۔کیسا تھا۔۔۔۔جس کا نام بھی عروہ کے لیے ابھی تک اجنبی تھا۔۔۔۔لیکن وہ اپنی زندگی کی ہر سانس کو اب اس اجنبی کے نام کر چکی تھی۔۔۔۔وہ شخص اس کے لیے ابھی تک ۔۔۔۔۔سیپ میں چھپے موتی کی طرح تھا۔۔۔۔
چند پل لگے تھے عروہ کو خود کو زاور شاہ کے نام کرتے ہوئے۔۔۔۔چند پل میں جڑ جانے والا یہ رشتہ ۔۔۔۔سانسوں کے چلنے تک نبھانا تھا۔۔۔۔وہ اس رشتے کو نبھانے کے لیے ہمت جمع کر رہی تھی۔۔۔۔
————–
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...