مامون بغداد کو علم کا بڑا مرکز بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اس میں ان کی ذاتی دلچسپی شامل تھی۔ انہوں نے علم کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کی تھی۔ دوسری اہم چیز طویل امن اور ترقی کا دور تھا۔ اس وجہ سے بہترین دماغ کو بغداد کی طرف آئے۔
بعد میں آنے والے کمزور خلفاء کے وقتوں میں سائنس سے بے توجہی سے اس آؤٹ پٹ پر منفی اثرات رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
جدید وقتوں میں ہمیں بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں نظر آتا ہے کہ کوپن ہیگن میں ورنر ہائزنبرگ، پال ڈیراک یا وولف گینگ پالی جیسے نابغے اکٹھے تھے اور ایٹمی تھیوری بنانے میں حصہ لیا۔ ایسا کیوں؟ اس کی وجہ صرف اتفاق نہیں کہی جا سکتی۔ اگر مواقع دستیاب ہوں، سماجی اور سیاسی حالات موافق ہوں تو پھر وہ لوگ ابھریں گے جو نیا کر دکھانے کا چیلنج لے سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک چیز جس میں گلیلیو، نیوٹن، الرازی، ابن الہیثم، البیرونی کا کام ایک ہی طرح کا تھا، وہ دنیا کی تفتیش کا طریقہ تھا جسے ہم سائنسی طریقہ کہتے ہیں (اور مغربی مورخین کی بیان کردہ تاریخ کے برخلاف اس کی پیدائش یورپ میں نہیں ہوئی)۔
یورپی احیائے نو کے دور میں ہونے والی تیزرفتار ترقی کے پیچھے کئی عوامل تھے۔ اس میں ایک چھاپہ خانہ تھا جس نے خیالات کی ترسیل کو تیزرفتار کر دیا تھا۔ (عباسیوں میں ایسا ہی کام کاغذ کی مِل کی آمد نے کیا تھا)۔ دوسری ایجادات میں ٹیلی سکوپ اور مائیکرو سکوپ تھی جس نے میڈیسن، بائیولوجی اور آسٹرونومی میں انقلاب برپا کیا تھا۔
تیرہویں صدی سے سولہویں صدی میں ہم اسلامی دنیا میں سائنسی تحقیق کو روبہ زوال دیکھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ سیاسی زوال تھا۔ اسلامی دنیا کے بہت سے خطوں میں حکمران خاندانوں کو شکست و ریخت کا سامنا تھا۔ سائنسی تحقیق کی ترجیح کم ہو گئی تھی۔
بغداد پر سورج غروب ہو جانے کے بعد نئے مراکز آئے۔ فاطمیوں کا قاہرہ، امویوں کا قرطبہ، مامونیوں کا گرگانج ابھرے اور پھر زوال پذیر ہوئے۔
تو پھر کیا غلط ہوا؟ اس سست رفتار زوال کی وجہ کیا بنی؟ یہ وہ سوال ہے جو کیا جاتا رہا ہے۔
اس کی دو وجوہات عام بتائی جاتی ہیں جو ایسا ظاہر کرتی ہیں گویا کہ یہ سنہرا دور اچانک ہی ختم ہو گیا تھا۔
مغرب میں کئی لوگ ایسا کہتے ہیں کہ یہ اسلامی قدامت پسندی اور معتزلہ کی روشن خیالی کی جنگ تھی۔ امام غزالی نے اس جنگ کا فیصلہ قدامت پرستی کے حق میں کر دیا تھا جس سے یہ سائنسی دور اپنے اختتام کو پہنچا۔ غزالی نے ابنِ سینا پر بالخصوص اور فلسفے پر بالعموم تنقید کی تھی۔ ارسطو کے خیالات پر فکری طور پر حملہ آور ہوئے تھے اور یوں عقل پسندی کا راستہ روک دیا تھا۔
امام غزالی اسلامی تاریخ میں بہت محترم مفکر ہیں۔ ان کے خیالات کا بہت اثر رہا ہے۔ اور انہوں نے دو صدیوں بعد یورپ میں آنے والے تھامس اکیوناس اور دوسرے مفکرین کو بھی متاثر کیا۔
“غزالی قدامت پسند تھے اور انہوں نے اسلامی فلسفے پر نشان چھوڑے ہیں۔ انہوں نے الکندی، فارابی، ابنِ رشد اور ابنِ سینا کے کام کو بے وقعت کیا”۔ ناقدین کے یہ سادہ لوح فقرے مغربی مورخین میں مقبول ہیں۔ یہ غزالی کے فکری مرتبے کے ساتھ انصاف نہیں۔ وہ خود ایک قابل سائنسدان تھے اور دنیا کو بہت گہرے خیالات دے کر گئے۔
امام غزالی بنیادی طور پر ایک تھیولوجیکل اور میٹافزیکل نقطہ نظر کے ناقد تھے جو ارسطو اور افلاطون کی منطق کی بنیاد پر تھا۔ ان کا اعتراض یونانی فلسفے پر تھا۔ اعلیٰ ذہنوں کے درمیان ہونے والی فکری بحث کو “غیرمنطقی مذہب” اور “منطقی سائنس” کی سیاہ و سفید عینک سے دیکھنا صرف سادہ لوحی ہی نہیں، احمقانہ بھی ہے۔
اور یہ بحث ریاضی، فلکیات یا طب پر تو تھی ہی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس زوال کی دی جانے والی دوسری وجہ اس سے بھی زیادہ بے کار ہے۔ اور یہ سوچ کسی وجہ سے اسلامی دنیا میں مقبول ہے۔ اس کے مطابق 1258 وہ وقت تھا جب اس سنہرے دور کو بریک لگ گئی۔ جب منگولوں نے بغداد کو تہس نہس کیا اور ہلاکو خان نے کتابوں کو تباہ کیا۔ اس سال فروری میں منگول افواج نے فروری کے ایک ہفتے میں بغداد میں لاکھوں لوگوں کا قتل کیا۔ اس قدر بڑا حملہ تھا کہ بغداد اس سے کبھی نہ سنبھل سکا اور پانچ سو سالہ عباسی دور اپنے اختتام کو پہنچا۔
عراق میں تو آج بھی ایسا ہی پڑھایا جاتا ہے۔ لیکن اسلامی سلطنت کا مطلب بغداد نہیں تھا۔ تیرہویں صدی میں تو یہ صفِ اول کا شہر بھی نہیں رہا تھا۔ سائنس کے درجنوں مراکز شمالی افریقہ، اندرس، فارس اور وسطی ایشیا میں تھے۔ ابنِ سینا یا البیرونی جیسے لوگوں نے تو کبھی بغداد میں قدم بھی نہیں رکھا تھا۔ اگرچہ بغداد کی تباہی ایک بڑا سانحہ تھی لیکن اسی آخری وجہ قرار دینا کاہلی کے سوال کچھ نہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...