گذشتہ ابواب میں مشرف عالم ذوقی کے افسانوں،ناولوںاور ڈراموںکا فنی وتنقیدی تجزیہ پیش کیا گیا ہے یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ذوقی صرف فکشن کے ہی رائٹر نہیں ہیں بلکہ وہ بیک وقت دیگر اصناف پر بھی قلم اٹھاتے رہتے ہیں مثلاًشاعری ۔اس کے علاوہ انھوں نے مختلف نوعیت کے بے شمار مضامین لکھے ہیں اور آج بھی لگاتار لکھ رہے ہیں چاہے وہ سیاسی نوعیت کے ہوں،صحافت سے متعلق ہوں ، روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے مسائل کی ترجمانی کرتے ہوں یا پھر ادبی شخصیات اور تخلیقات سے متعلق ہوں وہ لگاتار مضامین لکھ رہے ہیں جو نہ صرف مقامی اور قومی سطح کے اخبارات میں شائع ہوتے ہیں بلکہ بینالاقوامی اخبارات و رسائل میں بھی چھپتے رہتے ہیں۔
’’لیپروسی کیمپ‘‘ ان کی ایک طویل نثری نظم ہے اس کے علاوہ فکشن اور ادبی مضامین کے حوالے سے ان کی دو اہم کتابیں ’’سلسہ روز وشب ‘‘اور’’آب روان کبیر‘‘بھی چھپ کر سامنے آئی ہیں جو اردو فکشن کے بارے میں اہم معلومات فراہم کرتی ہیں۔
’’ لیپروسی کیمپ‘‘:
’’لیپروسی کیمپ‘‘مشرف عالم ذوقی کی ایک اہم کتاب ہے یہ سن ۲۰۰۰ء میں شائع ہوئی۔اس میں ذوقی نے اپنی تمام نثری نظموں کو شامل کیا ہے انھوں نے کوڑھ کے مریضوں سے متاثر ہو کر یہ نظمیں لکھی ہیں وہ بچپن میں لیپروسیوں کا قافلہ دیکھ کر متعجب ہو جاتے تھے اور گھر والوں سے چھپ کر ان کی حرکتوں کا مشاہدہ کرتے تھے ۔کتاب کے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں۔
’’لیپروسی کیمپ‘۔۔۔مجھے یاد نہیں،میں ان کی طرف کب متوجہ ہوا۔یہ میرا بچپن تھا ۔محلہ مہا دیوا۔پتھریلی سڑکیں۔ان سڑکوں پر آباد سو سال سے بھی زیادہ قدیم ہمارا آبائی مکان۔۔۔۔۔۔تو یہی داستانی حویلی تھی۔میں تھا۔میرا بچپن تھا ۔وہ موسم سرما کی ٹھنڈی صبحیں ہوا کرتی تھیں۔داستانی حویلی کے باہر کی پتھریلی سڑکیں ابھی انسانی قدموں کی آہٹ سے گونجتی بھی نہیں تھیں کہ’رنگ والی تھالیوں ‘کا سنگیت فضا میں گونج اٹھتا ۔میں باہر آتا تو ان لیپروسیوں کا ایک لمبا قافلہ ہوتا ۔’Help me‘کی ٹوپیاں سروں سے چپکی۔’مدد کرو‘اور ’سہائیتا کرو‘کے بورڈ۔ٹھٹھے،چرکیدے ہاتھوں میں رنگ والی چھوٹی چھوٹی تھالیاں ہوتیں جنہیں بجاتے ہوئے موسم سرما کے ان سرد ترین دنوں میں یہ ہمارے گھر کے سامنے سے گزرا کرتے تھے ۔مجھے الجھن ہوتی تھی۔اماں میرا ہاتھ پکڑ کر اندر کھینچ لاتیں۔دروازہ بند کر دیتیں۔اور رنگ والی چھوٹی چھوٹی تھالیوں کے شور دیر تک میرے کانوں میں ’دہاڑتے‘رہتے۔ان کی آڑھی،ترچھی،ٹیڑھی،سڑی شکلیں دیر تک میری آنکھوں میں ناچتی رہتیں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،لیپروسی کیمپ۔ص۔۱۰۔۱۱)
چنانچہ ان واقعات کو انھوں نے اپنے ذہن میں محفوظ کر لیا اور اپنے قلم کی نوک سے کاغذ کے پنوں میں بکھیر دیا ۔ذوقی کی مانیں تو انھوں نے یہ نظمیں ۱۹۸۴ء میں لکھیں یعنی بائس سال کی عمر میں ۔’لیپروسی کیمپ‘کے عنوان سے انھوں نے ایک افسانہ بھی لکھا ہے جو ان کے افسانوی مجموعہ’’منڈی‘‘میں شامل ہے یہ افسانہ ۱۹۸۰ء میں مظفر پور سے قمراعظم ہاشمی کی نگرانی میں نکلنے والے رسالہ ’ادراک‘میں شائع ہوامگر ذوقی اس سے مطمئن نہیں ہوئے کیونکہ انھیں اپنے خیالات اور مشاہدات کو زیادہ موثر طریقے سے واضح کرنے کے لئے افسانے کی زمین تنگ محسوس ہو رہی تھی چنانچہ وہ خود کہتے ہیں ۔
’’میرے لیے اپنی ان Feelingsیا احساسات کو کہانیوں میں اتارنا دشوار تھا ۔سو میں نے نثری نظم کا انتخاب کیا ۔۔۔نثری نظم کے توسط سے مجھے اپنی بات کہنے میں زیادہ آسانی ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،لیپروسی کیمپ،ص۔۱۳)
’’لیپروسی کیمپ‘‘میںکل تیرہ نظمیں ہیں جن کے عنوانات تو مختلف ہیں لیکن موضوع ایک ہی ہے یہ تمام نظمیں تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں ہر اگلی نظم پچھلی نظم کا حصہ معلوم ہوتی ہے یا پھر کہنا چاہئے کہ ان تمام نظموں میں مصنف نے تسلسل سے کام لیا ہے ان نظموں میں کوڑھ کے مریضوں کے روزمرہ زندگی کے معاملات،ان کے رہن سہن اور سراپا کی تصویر کشی کرنے کے ساتھ ساتھ مصنف نے ان کی اندرونی کیفیات کو بھی اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے ۔وہ کیسے رہتے ہیں ،کیاکیا سہتے ہیںاور ان کی حالت زار کیا ہے؟اس کا اندازہ اس اقتباس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے :۔
’’ان کے پاس
بھوک ہے
دردہے
تکلیف ہے
پیپ دیتے زخم ہیں
گلتے ناسور ہیں ،
بھنبھناتی مکھیاں ہیں
ٹوٹی رسیاں ہیں
جو طنابیں کسنے کے کام آتی ہیں،
انسانی ٹولیوں کے باہر
جنگل کے ویرانے میں
جہاں وہ نصب کرتے ہیں
خیمہ
اپنے رہنے کے لیے
اور وہ رہتے ہیں
وہ چیختے رہتے ہیں
تڑپتے رہتے ہیں
اور کوئی کسی کی نہیں سنتا
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
اور کوئی نہیں جانتا
کس کا درد سب سے زیادہ ہے
کس کا غم سب سے بھاری ہے‘‘ (مشرف عالم ذوقی،لیپروسی کیمپ،ص۔۳۷۔۳۸)
ذوقی کو کوڑھیوں پر ترس آتا ہے انھیں ان سے ہمدردی ہے وہ جانتے ہیں کہ ان کا درد صبر کا مطالبہ کرتا ہے مگر وہ کمزور انسان ہیں ان کے پاس صبرایوبؑ نہیں۔اور ان سے ایسا Expectبھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ حضرت ایوبؑ جیسا صبر کسی اور کو نصیب نہیں ہوسکتا اس لئے ذوقی نہیں چاہتے کہ یہ لوگ اس درد کے ساتھ جئیں بلکہ وہ انھیں اس تکلیف سے نجات دلانا چاہتے ہیں ملاحظہ ہو یہ اقتباس:۔
’’تمہیںدیکھتا ہوں
اکثر دیکھتا ہوں
اور سوچ میں پڑ جاتا ہوں
تمہیں کن ماؤں نے جنا ہے ۔۔۔
اور جننے کے بعد چھوڑ دیا ہے
اپنے کوڑھ میں
گلتے ہوئے ناسور اور بہتی ہوئی پیپ میں
کیڑے جمع کرنے کے لئے۔۔۔
صبر ایوبؑ کی قسم!
میںیہ ضرورکہوں گا
کہ مجھے تم سے ہمدردی ہے
مگر یہ نہیں کہوں گا
کہ میں دعائیں کرتا ہوں تمہارے لئے
درازی عمر کی۔۔۔‘‘ (مشرف عالم ذوقی،لیپروسی کیمپ،ص۔۵۱)
ذوقی ایک حساس ادیب ہیں ان کی نظر پورے معاشرے پر ٹکی رہتی ہے وہ تمام حالات و واقعات کی خبر رکھتے ہیں ان بدلتے ہوئے حالات میں انسان کے جذبات و احساسات سے زندگی ختم ہوچکی ہے اور اس کی حیثیت بھی Productکی سی ہو گئی ہے یہ صورت حال انسانیت کے لئے نہایت ہی خطرناک ہے نت نئی سائنسی ایجادات اور تحقیقات کے نام پر فطرت کے ساتھ جو چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ شروع ہوا ہے اس کے بھیانک انجام کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے ۔چنانچہ ذوقی نے کوڑھیوں کو یہ واضح طور پر بتا دیا ہے کہ انھیں خود کو کوسنے کی ضرورت نہیں ہے صرف وہی لوگ اس کا شکار نہیں ہیں بلکہ پورا معاشرہ کوڑھ کی لپیٹ میں ہے یہ الگ بات ہے کہ لوگ اپنے اندر کے کوڑھ کو نہیں دیکھنا چاہتے اور کوڑھیوں سے بچتے پھرتے ہیں جبکہ انھیں اپنے آپ سے ڈرنے اور محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔مصنف نے کوڑھ کے مریضوں کے ساتھ متعصبانہ سلوک روا رکھنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے جو ان کے ساتھ ہمدردی کرنے کے بجائے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں کل تک جو ایک پل بھی جدا نہیں ہوتے تھے آج ان کو دیکھنے سے بھی پرہیز کرتے ہیںملاحظہ ہو یہ اقتباس:۔
’’یہ چہرہ کندی کا تو نہیں۔۔
اس جلے چہرے میں۔۔
وہ کہیں نہیں دیکھتا۔۔
اپنا ماضی،اپنا مستقبل،اپنا حال
اپنی پانچ سالہ پرانی محبت۔۔
گھنٹوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے۔۔
شوخیاں،چھیڑ چھاڑاور قہقہے۔۔
مگر۔۔
کندی بھوت بن گئی ہے ۔۔
کندی اب زندہ بھی ہے تو۔۔؟
کندی اس کے لیے اب بھوت بن گئی ہے۔۔
جلے ہوئے چہرے نے
بھوت بنا دیا ہے کندی کو۔۔
تو کندی اب بھوت ہے
اور بھوت کا احساس خوف پیدا کرتا ہے
کندی اب گزرے کل کا چہرہ ہے
ایک پرانی دستک ہے ‘‘ (مشرف عالم ذوقی،لیپروسی کیمپ،ص۔۷۶)
لیکن ذوقی کا منشا انسانی نسلوں کا تحفظ اور سلامتی ہے وہ بڑے سے بڑے درد اور زخم پر مرحم لگانا جانتے ہیں اور انسانوں کو تمام تکلیفوںسے نجات دلا کر انھیں جینا سکھاتے ہیں وہ ایک ایسے معاشرے کی بنیاد ڈالنا چاہتے ہیں جو ہر قسم کے تعصب سے پاک ہو اور جہاں امن اور خوشحالی ہو۔
’’نہیںپیارو!
نئی الفی میں
نئی صدی میں
ہم اس ’وسوسے‘اندیشے
تباہکاریوں،
میزائلوں کے خوف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور
کوڑھ کے جراثیم کے ساتھ نہیں جائیں گے
نئی الفی میں داخل ہوں گے ہم
سفید براق کپڑوں میں
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
ہم باہر نکلیں گے
کالونیوں سے
انسانوں سے بڑی بنائیں گے دھرتی
دھرتی سے بڑا بنائیں گے دل
دل میں رکھیں گے چاندنی
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
چھت سے دیکھیں گے ہم نیلگوں آسماں
ہم دیکھیں گے ستاروں کے جھرمٹ کو ‘‘
(مشرف عالم ذوقی،لیپروسی کیمپ،ص۔۹۵۔۹۶)
اتنا ہی نہیں وہ انسانوں سے کٹے ہوئے کوڑھ کے ان مریضوں پر پھول نچھاور کرتے ہیں اور ان سے اپنی دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کتنے رحم دل اور انسان دوست ہیں اور مایوس دلوں میں امید کے چراغ روشن کرنے والے بھی۔ملاحظہ ہو یہ اقتباس:
’’ان پھولوں میں میری عقیدت دیکھو
کہ یہ سارے پھول
میں صرف تمہارے لئے لایا ہوں
کیوں کہ۔۔۔
تمہارے سڑے ہوئے جسم کے اندر
اور تمہاری کٹی ہوئی ناک کے گوشت بھرے لتھڑے میں
اور تمہاری اندر اندر دھنسی ہوئی آنکھوں میں
اور تمہاری پیشانی پر ابھرے ہوئے چکتے میں
تمہارے زخم آلودہ ہاتھوں میں
اور تمہارے مواد بھرے ہوئے پاؤں میں
میں نے محسوس کیا ہے
ان گنت پھولوں کی خوشبو کو۔۔۔‘‘
(مشرف عالم ذوقی،لیپروسی کیمپ،ص۔۱۰۱۔۱۰۲)
ذوقی کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ قارئین کو بوریت کا احساس نہیں ہونے دیتے اور کبھی کبھی اپنی تخلیقات میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے رومانیت کا سہارا بھی لیتے ہیں ۔ان نظموں میں جس موضوع کو اپنایا گیا ہے اس میں رومانی فضا ہموار کرنے کی بہت کم گنجائش ہوتی ہے لیکن ذوقی اس منزل سے آسانی کے ساتھ گزر جاتے ہیں یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ایک کوڑھی مرد
اور ایک کوڑھی عورت
دونوں ہی جوان تھے
کوڑھی مرد نے
کوڑھی عورت کو
زوروں سے اپنے سینے میں بھینچا
اور اس کے مواد سے بھرے چرکیدے ہونٹوں پر
اپنے سڑے ہوئے ہونٹ کو رکھ دیا۔۔۔‘‘
(مشرف عالم ذوقی،لیپروسی کیمپ،ص۔۱۱۱)
’’لیپروسی کیمپ‘‘ملی جلی ہندی اور اردو زبان میں لکھی گئی ہے اس میں یہی نہیں کہ شعر اور نثرکی حدیں ایک دوسرے میں گم ہوتی نظر آتی ہیں بلکہ اردو اور ہندی نثری نظم کا ایک نئے سرے سے سنگم ہوتا دکھائی دیتا ہے ذوقی نے ’’لیپروسی کیمپ‘‘کے ذریعہ اردو اور ہندی لہجے کے امتزاج سے ایک نئی بوطیقا ترتیب دینے کی سنجیدہ کوشش کی ہے ۔ڈکشن اور اسلوب کے لحاظ سے یہ نظم ہندی میں تخلیق کی جانے والی نثری نظموں سے بے حد قریب معلوم ہوتی ہے کیوں کہ جس طرح انھوں نے جملوں یا سطروں کو نحوی اعتبار سے ترتیب دیا ہے وہ ہندی نثری شاعری کا خاصہ ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ ذوقی بیک وقت ہندی کے بھی لکھاڑی ہیں جس کے سبب ہندی کے بہت سے نکات ان کی اردو تخلیقات میں در آئے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ وہ نہایت ہی صداقت اور سادگی کے ساتھ اپنی بات کو قارئین تک پہنچانے میں یقین رکھتے ہیںاور شاید یہی سبب ہے کہ وہ نظم کی ظاہری حسن کاری پر زیادہ توجہ دینے کی کوشش نہیں کرتے۔البتہ نثر کے اجزاء کی بے جا بہتات نظم کی جمالیاتی اثر انگیزی کو محدود کردیتی ہے گویا نظم کے خارجی محرکات کے بجائے انھوں نے داخلی کیفیات اور جزیات پر توجہ صرف کی ہے اور اس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی رہے ہیں ۔ذوقی نے کوڑھیوں کے مسائل اور ان کی سائکی کو نہایت ہی موثر انداز میں نثری شاعری کے پیرائے میں ڈالنے کی کوشش کی ہے مختلف واقعات،تجربات اور مشاہدات کو بغیر کسی تکلف اور تصنع کے جن الفاظ کے ساتھ وہ ذہن میں اترے انہیں الفاظ میں صفحہء قرطاس پر بکھیر دیا گیا ہے ۔’’لیپروسی کیمپ‘‘کی اہمیت اس لئے ہے کہ اس میں ذوقی نے ایک ایسے طبقے کو موضوع بنایا ہے جو معاشرے میں ایک دھبہ تصور کیا جاتا ہے اور جس کو تمام لوگ اپنی نظروں اور معاشرے سے دور کرنا چاہتے ہیں لیکن ذوقی کے دل میں ان کے لئے ایک خاص جگہ ہے اور انھوں نے اس کامیابی کے ساتھ ان کی تصویر کشی کی ہے کہ وہ سماج اور معاشرے کے لئے زحمت نہیں بلکہ رحمت ثابت ہوئے ہیں اور یہی ذوقی کا کمال ہے ۔
نثری نظموں کے علاوہ ذوقی نے ابتداء میں چند آزاد نظمیں بھی کہی ہیں جو ان کی منظوم خود نوشت’’کھوئے ہوؤں کی جستجو‘‘ میں شامل ہیں۔یہ کتاب ہنوز نا مکمل اور غیر مطبوعہ ہے۔
’’آب روان کبیر‘‘:
’’آب روان کبیر‘‘مشرف عالم ذوقی کی ایک نہایت ہی عمدہ کتاب ہے اس کتاب کا عنوان علامہ اقبال کے ایک شعر سے ماخوذ ہے ۔
ًٌٍٍٍٍٍٍّْْؐٔٔؑؔؔ ؎آب روان کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
ذوقی ایک بڑے لکھاڑی ہیںوہ افسانے اور ناول تو لکھتے ہی ہیں مگر ساتھ ہی مضامین پر بھی مسلسل اپنا قلم چلاتے رہتے ہیں وہ اب تک ۵۰۰سے بھی زائد مضامین لکھ چکے ہیں ان میں سے کئی تو بھولے بسرے رسائل میں کھو گئے اور کچھ جو ان کے پاس تھے انہیں کتابی صورت میں سامنے لانے کی کوشش کی ہے انھوں نے اردو فکشن کے حوالے سے بہت کچھ لکھا ہے ۔’’آب روان کبیر‘‘ان کے تحقیقی وتنقیدی مضامین پر مبنی کتاب ہے اس کے زیادہ تر مضامین افسانے سے متعلق ہیںیہ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے۔پہلے حصہ میں اردو افسانے کی حقیقت،موجودہ صورت حال ،نئے امکانات اور نئے افسانہ نگاروں سے متعلق مضامین شامل کئے گئے ہیں دوسرے حصہ میں چند پرانے افسانہ نگاروں کی وفات پر لکھے گئے مضامین ہیں اور آخری حصہ میں ذوقی نے اپنی حیات اور ادبی زندگی کے اہم واقعات بیان کئے ہیں ۔
پہلے حصہ کے کچھ مضامین میں ذوقی نے افسانے کے موجودہ منظر نامے پر سیر حاصل بحث کی ہے انھوں نے جدید دور کے تقاضوں کو سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش کی ہے ۔اپنے مضمون’’نئی کہانی کا منظر نامہ‘‘میں ذوقی نے یہ باور کرایا ہے کہ آج کا ادب بے سمت ہے اور لکھنے والے خاموش ہیں صرف گنتی کے چند نام ہیںجو مسلسل اپنے قلم کا استعمال کر کے اردو ادب کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔ذوقی اردو کی اس حالت زار سے مایوس ہیں لیکن پر امید بھی ہیں کہ نئے قلمکار اردو کہانی کو ایک نیا افق دینے کے لئے راستہ تلاش کر رہے ہیں ۔
’’اردو کہانی :ایک نیا مکالمہ‘‘میں مصنف نے مکالمہ اور تنقید کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے اور واضح کیا ہے کہ اگر مکالمہ سو جائے یا تنقید گم ہو جائے تو افسانے کا وجود ماند پڑ جاتا ہے چنانچہ کوئی بھی عمدہ تخلیق یا افسانہ جب منظر عام پر آتا ہے تو اس پر بحث و گفتگو کے دروازے کھلنے چاہئے اور صحت مند تنقید بھی ہونی چاہئے تاکہ اس کے معیار کا صحیح تعین کیا جا سکے ۔اس مضمون میں ذوقی نے اردو افسانے کے مختلف مرحلوں کا ذکر کرتے ہوئے تنقیدی افکار پر نظر صرف کی ہے اور ان نقادوں کو ٹھکرایا ہے جو اپنے بنائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں افسانہ نگاروں کا استحصال کرتے ہیں اس طرح وہ ادب کو اپنے پیمانے سے ناپ تول کر اپنی جیب بھرتے ہیں اور ادب کو بانٹتے رہتے ہیں لیکن آج کے حساس قلمکاروں نے ایسے نقادوں کو ریجیکٹ کر کے تخلیق اور تنقید کا مورچہ خود سنبھال لیا ہے ایسا کرنا ضروری بھی ہے کیونکہ اگر ایک ادیب نقاد کے رحم و کرم پر رہے گا اور اسی کے بنائے ہوئے اصول ضوابط کی پیروی کرنے لگے گا تو ایسے میں اس کا تخلیقی جوہر اور شعور ابھر کر سامنے نہیں آئے گا اور وہ محض نقاد کی کٹھ پتلی بن کر رہ جائے گا لہٰذا افسانہ نگاروں کو نقا د کی صحیح پرکھ اور پہچان ہونی چاہئے تبھی وہ اپنی تخلیق کی صحتمند تنقید کر پائیں گے۔
’’اردو فکشن:تیس برس‘‘اور ’’اردو فکشن کا باتھ ٹب‘‘بھی اسی نوعیت کے مضامین ہیں ان میں ذوقی نے اردو فکشن کے تیس برس (۱۹۷۰ سے ۲۰۰۰ء تک)کااحاطہ کرکے چند اہم اور بڑے مسائل کی نشاندہی کی ہے دراصل یہ اردو افسانے کا وہ عہد ہے جس میں ادب سے قاری کو چھین لیا گیا تھا کہانی گم تھی مصنوعی فلسفے اور نقالی کو رواج دیا گیا چنانچہ محض الفاظ رہ گئے تھے نہ تو کہانی پن تھا اور نہ ہی کردار سازی۔۷۰ء سے پہلے کی نسل پر الزام تراشی کرنے والے افسانہ نگار خود بھی وہی لکھ رہے تھے جو پہلے افسانہ نگاروں نے لکھا ۔۷۰ء سے ۸۰ء تک کے زیادہ تر لکھنے والے اسی المیہ کا شکار رہے لیکن ۸۰ء کے بعد بیانیہ کی واپسی ہوئی کہانی میں نیا پن اور نئے موضوعات شامل ہونے لگے قاری کی دلچسپی کو سامنے رکھا گیا اور اردو افسانہ ایک بار پھر نئی جہت سے روشناس ہونے لگا۔
’’عالمی مسائل اور ہماری کہانیاں‘‘ایک اہم مضمون ہے جس میں مصنف نے اردو فکشن کے ان تمام لکھاڑیوں کے نام درج کئے ہیں جنہوں نے اپنی تخلیقات میں نئے مسائل کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے اتنا ہی نہیں انہوں نے پریم چند سے لے کر عہد جدید تک مختلف ادوار کا ذکر کرتے ہوئے نہایت ہی موثر انداز میں اردو فکشن میں نئے مسائل کی نشاندہی کی ہے جہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ اردو کے بڑے نقادوں کی طرح ذوقی کبھی بھی مایوسی کا شکار نہیں رہے انھیں اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ اردو فکشن اپنے ہر عہد میں نئے مسائل سے آنکھیں چار کرتا ہوا آگے بڑھا اور انھوں نے اپنی بات مثالوں سے واضح کی ہے مصنف نے نہ صرف ہندوستانی بلکہ پاکستانی ادیبوں کے علاوہ مختلف ممالک میں مقیم اردو فکشن نگاروں کے نام گنوائے ہیں اور ان کی تخلیقات کے حوالے بھی دیے ہیں ۔آج بھوک مری،بربریت،دہشت گردی اور سائنس و ٹکنالوجی سے پیدا شدہ بے شمار مسائل ہمارے سامنے منہ چڑھائے کھڑے ہیں جنھیں اردو کا ادیب نہ صرف محسوس کر رہا ہے بلکہ من وعن اپنی تخلیقات میں پیش کر کے داد تحسین وصول کر رہا ہے۔نمونہ کے طور پر ذوقی نے اشرف شاد کے افسانہ’’وزیر اعظم‘‘کا ایک اقتباس نقل کیا ہے :۔
’’کچھ پتہ نہیں کون کس کو مار رہا ہے لگتا ہے سب اجتماعی خود کشی پر تل گئے ہیں ۔پاگل پن کا پلیگ ہے جو پورے شہر میں پھیل گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔پولیس مقابلے ہوتے ہیں جن میں چلنے والی گولیاں صحیح نشانوںپر پہنچ کر سینے چھلنی کرتی ہے ۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔عمارتوں میں راکٹ پھٹتے ہیں ۔شہر میں بے روزگار نوجوانوں کی فصلیں تیار کھڑی ہیں جنہیں کاٹنے والا کوئی نہیں۔سیاست کرنے والے بے حس گورکن بنے،قتل گاہوں پر طاقت کے تخت بچھائے بیٹھے ہیں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،آب روان کبیر،ص۔۷۳)
’’نئی صدی اور اردو فکشن ‘‘میں ذوقی نے اکیسویں صدی کے اہم اور بھیانک مسائل کا ذکر کیا ہے جن میں آج کا انسان پھنس کر رہ گیا ہے ان کا ماننا ہے کہ نئی صدی میں ادب کے لیے سب سے با معنی اور بھیانک موضوع انسان ہے دراصل آج انسان ترقی کرتے کرتے تنزلی کے راستے پر لوٹ آیا ہے جہاں اس کے لئے تباہی و بربادی کے بے شمار دروازے کھل گئے ہیں اس کی شناخت کہیں گم ہو کر رہ گئی ہے بقول ذوقی:
’’آج کا سب سے اہم موضوع انسان ہے ۔جو پھیل رہا ہے یا سکڑ گیا ہے ۔جو مائیکرو سے ’نینو‘کی طرف لوٹ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔جس نے اپنے تحفظ کے لئے ایٹمی بم تیار کئے ہیں اور یہی ایٹمی بم اس کا نشان بھی صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے کافی ہیں ۔اب جس کی ’وجودیت‘کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اسی انسان نے اپنے وجود کا لوہا یوں منوایا کہ اب یہ وجود بارود کے دہانے پر کھڑا ہے اور کسی وقت بھی انسان کی شناخت کے پرخچے بکھر سکتے ہیں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،آب روان کبیر،ص۔۱۱۰)
نئی صدی میں اردو زبان کی حیثیت اور اہمیت بھی کم ہوئی ہے اور ذوقی نے اس کا ذمہ دار اردو والوں کو ٹھہرایا ہے جو صحیح بھی ہے اس میں شک نہیں کہ آج اردو جاننے والے اس زبان کی حفاظت کے لئے آگے آنے سے کترا رہے ہیں وہ اردو بولنے،پڑھنے اور لکھنے میں شرم محسوس کر رہے ہیں اگر یہی حال رہا تو اس زبان کی شناخت اور بقا خطرے میں پڑ جائے گی ۔مصنف نے اردو ادب اور ادیب سے متعلق چند اہم باتیں بھی کہی ہیں جو نہایت ہی مفید اور کاآمد ثابت ہوسکتی ہیں ۔ان کا ماننا ہے کہ ادیب محض ایک فنکار ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ بیک وقت مبلغ و مقرر بھی ہوتا ہے اور اس کی شخصیت کے کئی Shadesہونے چاہئے انھوں نے سیاست کو فکشن کے لئے بنیادی چیز قرار دیا ہے ان کے خیال میں اچھے ادب کے لئے صرف مطالعہ اور مشاہدہ ہی نہیں بلکہ سیر و سیاحت بھی ضروری ہے ’’جدید حقیقت نگاری بنام آج کی اردو کہانیاں‘‘بھی اسی نوعیت کا مضمون ہے۔
’’نئی کہانی:کچھ شیڈس‘‘میں ذوقی نے چند نئی کہانیوں کا ذکر کیا ہے جو معیاری حیثیت کی حامل ہیں ساتھ ہی کچھ نئے افسانہ نگاروں کے نام بھی لئے ہیں جو اچھی اور عمدہ کہانیاں لکھ رہے ہیں وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ آج بھی گنی چنی ہی سہی مگر معیاری کہانیاں لکھی جارہی ہیں اور ایسی کہانیوں کی ستائش ہونی چاہئے کیونکہ نئے قلمکاروں کی حوصلہ افزائی سے اردو افسانے میں ایک نئے دور کا آغاز ہوسکتا ہے انھوں نے اردو فکشن کے نقادوں کی ہٹ دھرمی کو افسانے کے لئے ایک بڑا نقصان بتایا ہے اور افسانہ نگاروں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ ایسے نقادوں کو خاطر میں نہ لائیں اور اپنا کام خلوص اور سنجیدگی سے کریں تخلیق اور تنقید کی ذمہ داری خود سنبھالیں اور اردو افسانے کو ایک نئی جہت کی طرف لے جانے میں اپنا کلیدی رول ادا کریں اور وہ نئے افسانہ نگاروں سے پر امید بھی ہیں۔
’’کہانیوں کے مجموعے کچھ نوٹس‘‘میں ایسے ہی چند افسانہ نگاروں کے افسانوی مجموعوں کا سرسری جائزہ لیا گیا ہے اس ضمن میں انور عظیم کے مجموعے ’’اجنبی فاصلے‘‘اور ’’دھان کٹنے کے بعد‘‘سید اشرف کے ’’ڈار سے بچھڑے‘‘اور ’’باد صبا کا انتظار‘‘اسی طرح ذکیہ مشہدی کا افسانوی مجموعہ ’’تاریک راہوں کے مسافر‘‘اسرار گاندھی کا ’’پرت پرت زندگی‘‘حسین الحق کا ’’سوئی کی نوک پر رکا لمحہ‘‘نسیم بن آسی کا مجموعہ’’لفظوں کے درمیان‘‘اور مظہرالزماں کے افسانوی مجموعہ ’’دستکوں کا ہتھیلیوں سے نکل جانا ‘‘شامل ہیں ان تمام مجموعوں میں شامل کہانیوں میں سے ذوقی نے عمدہ کہانیوں کا انتخاب کرکے ان کے نام گنوائے ہیں اور ان سے متعلق کچھ کار آمد نوٹس بھی لئے ہیں اور قارئین کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ موجودہ دور میں بھی اچھی کہانیاں لکھی جارہی ہیں جن کو سراہنے کی کوشش ہونی چاہئے۔
’’منٹو:ایک کولاژ‘‘میں ذوقی نے منٹو کے فن اور فکری پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے منٹو کا شمار ان خوش نصیب افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جن کی فنکارانہ صلاحیتوں کو ان کی زندگی میں ہی تسلیم کرلیا جاتا ہے پھر شہرت ان کے قدم کیوں نہ چومتی جہاں تک کہ ناقدین نے ان کا موازنہ چیخوف اور موپاساں جیسے مایہ ناز ادیبوں سے کیا ہے ۔منٹو نے جو بھی لکھا سوچ سمجھ اور پرکھ کر لکھاانھوں نے اردو افسانہ نگاری میں بے شمار تجربے کئے ۔نئے نئے موضوعات سے افسانے کا دامن وسیع کیا اور اس میں فکری عنصر کو داخل کرکے کہانی کی خوبصورتی اور دلچسپی میں چار چاند لگا دیے۔ان کا ہر افسانہ گزشتہ سے آگے کی کڑی معلوم ہوتا ہے کیونکہ فکر کی منزل بلند سے بلند تر ہوتی چلی جاتی ہے قصہ گوئی اور وحدت تاثر منٹو کے افسانوں کی اہم خصوصیت ہے اس حوالے سے ذوقی کا کیا کہنا ہے ملاحظہ ہو یہ اقتباس:
’’حقیقت یہ ہے کہ اپنے ہر نئے افسانے کے ساتھ منٹو کا ذہنی معیار اور بلند ،پختہ اور تازگی سے بھرپور معلوم ہوتا ہے جو قاری کو سحر آمیز ڈھنگ سے اپنے حصار میں لے لیتا ہے ۔منٹو کی تخلیقی ہنر مندی یہ ہے کہ وہ اپنے افسانے کی پہلی سطر سے ہی قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے جیسے کہہ رہا ہو۔پکڑ لیا نہ۔۔۔اب بچ کر جاؤ گے کہاں ؟اب آخر تک میرے افسانے کو پڑھ ڈالو۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،آب روان کبیر،ص۔۲۱۷)
منٹو کی ایک خاص بات یہ ہے کہ افسانہ کہنے کا اس کا اپنا انداز ہے اپنے تیور ہیں۔کہانی بننے کا جو سلیقہ منٹو کے پاس ہے وہ مختلف بھی ہے اور نایاب بھی۔لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ وہ روایت سے یکسر ہٹ گئے بلکہ وہ اپنے ہم عصر وں میں بیک وقت روایتی بھی رہے اور مختلف اور جدید بھی۔
جیسا کہ اکثر کہا جاتا ہے کہ منٹو،بیدی،کرشن چندر اور عصمت چغتائی اردو فکشن کے چار مضبوط ستون ہیں اور انھوں نے اردو افسانے کو ترقی کی جس سطح پر پہنچا دیا تھا وہاں تک پہنچنا بعد کے افسانہ نگاروں کے لئے ایک چنوتی بنا رہا اور ان کے جانے کے بعد اردو افسانے کے آسمان میں ایک ایسا کھلا پیدا ہوگیا جس کو آج تک کوئی پر نہیں کر سکا تو اسی حوالے سے ذوقی نے بھی اپنے تاثرات قلمبند کئے ہیں انھیں اس بات کا احساس ہے کہ یہ چاروں افسانہ نگار اپنی اپنی سطح پر اردو فکشن کو ترقی کی بلندیوں تک لے گئے۔انھوں نے جو لکھا وہ اپنے آپ میں اردو ادب کے لئے ایک انمول خزانہ ہے جس کا اعتراف اردو والوں کو ہمیشہ رہے گا ۔منٹو کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ان کے فن کو سمجھنے کے لئے صرف اس وقت کی غلامی کو ذہن میں رکھنا کافی نہیں ہے بلکہ تقسیم اور اس کے بعد کے عہد کو بھی سمجھنا ہوگا کیونکہ ان کی کہانیاں صرف غلامی یا تقسیم کا المیہ نہیں ہیں بلکہ بہت کچھ اور بھی ہیں۔ذوقی کا ماننا ہے کہ منٹو کا فن اپنے وقت سے صدیوں آگے کے سفر پر تھا شاید اس لئے موجودہ عہد کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے جب کہانیاں ترقی کی دوڑ میں کافی آگے نکل گئی ہیں منٹو کو کچھ زیادہ ہی جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے ۔میرا ماننا ہے کہ منٹو ایک بڑا ادیب تو ہے ہی اس کے علاوہ ایک بڑا دانشور،سنجیدہ نقاد اور بہترین راہبر بھی ہے انھوں نے اپنی تخلیقات میں نئے مسائل اور انسانی نفسیات کی گانٹھیں کھول کر عام لوگوں کو بہت سی چنوتیوں اور خطرات سے آگا ہ کرنے کی بھرپور کوششیں کی ہیں ان کے ادبی سرمایے میں افسانے ،خاکے اور بے شمار مضامین کے علاوہ ایک ناولٹ بھی ہے چنانچہ منٹو اور اس کے فن کو سمجھنے کے لئے اس کی تمام تر تخلیقات کو پڑھنے کی ضرورت ہے تب جا کر ہم صحیح معنوں میں ان کی ادبی اہمیت کا اندازہ کر پائیں گے۔
’’منٹو ہندوستانی‘‘ایک دلچسپ مضمون ہے جس میں ذوقی نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ منٹو ایک ہندوستا نی ہے اور اس کی رگوں میں ہمیشہ ہندوستان کا لہو دوڑتا رہا۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ منٹو تقسیم کے تقریباًایک سال بعد پاکستان گیا اور سات سال کے بعد اس کا انتقال ہو گیا ۔عجیب بات یہ ہے کہ پاکستانی ادیبوں نے منٹو کے ادب کو بھی تقسیم کرنے کی سازش رچ دی اور انھیں پاکستان کا ادیب قرار دے دیا جبکہ یہ سراسر غلط فہمی اور ہٹ دھرمی ہے پاکستان والے لاکھ دلیلیں پیش کریں مگر وہ اس حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتے کہ منٹو نے جس سرزمین پر اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزارا اس کی یادیں آخری دم تک اس کو ستاتی رہیں جس کا اظہار انھوں نے اپنے قلم کے ذریعہ کھل کر کیا ہے ۔ایک اور سچ یہ بھی ہے کہ منٹو تقسیم ملک کے کرب سے دوچار رہے ان کا ذہن تقسیم کو گوارہ نہ کرسکا ۔انھیں تقسیم راس نہیں آئی یہی وجہ ہے کہ تقسیم کے درد اور اس کے گھناؤنے اثرات پر انھوں نے خوب طنز کیا ہے ان کا افسانہ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے جس نے افسانوی ادب میں ایک تہلکہ مچاکر رکھ دیا۔چنانچہ ذوقی نے حوالوں کی مدد سے یہ واضح کرنے کی سعی کی ہے کہ منٹو پاکستان میں رہا ضرور مگر اس نے اپنی تخلیقات کے ذریعہ ہمیشہ ہندوستانی تہذیب اور معاشرت کی نمائندگی کی ۔لہٰذا منٹو ہندوستانی ادب کا ایک نہ مٹنے والا نام ہے خصوصاً اردو فکشن میں ان کا نام سنہرے حروف میں درج ہے۔
’’اظہارالاسلام:عہد جدید کا باغی افسانہ نگار‘‘اس لئے ایک اہم مضمون ہے کہ اس میں ذوقی نے ایک ایسے ادیب کو لکھنے کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے جو ایک مدت تک عمدہ افسانے لکھتا رہا اور پھر اچانک اس کا قلم خاموش ہوگیا ۔دراصل اظہارالاسلام جدیدیت کے عہد کا ایک مشہور و معروف افسانہ نگار ہے مگران کی خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے جو لکھا وہ بہت حد تک اپنے ہم عصروں سے مختلف تھا ۔انھوں نے ایسے موضوعات پر قلم اٹھایا جن کی جدید ادب میں سرے سے کوئی جگہ نہیں تھی گویا انھوں نے جدیدیت کے جدید فارمولے کو اپنانے کے بجائے وہ لکھا جو ان کے سامنے تھا زندگی کے نئے فلسفے اور انسانی مسائل کی حقیقت نگاری ان کے افسانوں کے موضوعات رہے خوبصورت بیانیہ کے سہارے انھوں نے اپنی کہانیوں میں اعلٰی فکر کی ترجمانی کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے ۔ذوقی کی مانیں تو گھریلو ماحول سے سیات اور کلکتہ کی مصروف ترین زندگی کی جو ترجمانی اظہارالاسلام کے افسانوں میں ہوئی ہے وہ اس زمانے میں کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی لیکن بد قسمتی کی بات یہ رہی کہ انھوں نے اچانک لکھنا چھوڑ دیا ۔ذوقی نے ان نقادوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے جنھوں نے اپنی ہٹ دھرمی سے ایک بڑے فنکار کے قلم کو خاموش کردیا۔’’ہاجرہ رنجور یا مسرور؟‘‘بھی ایک ایسا ہی مضمون ہے جس میں ذوقی نے ہاجرہ مسرور کی ادبی زندگی اور پھر اچانک ان کے قلم کی خاموشی کی روداد پیش کی ہے۔اسی طرح ’’بلند اقبال:میرا بھائی،میرا دوست‘‘اور’’تسلیمہ اپنے فن کے آئینہ میں‘‘بھی اہم مضامین ہیں جن میں مذکورہ افسانہ نگاروں کی کہانیوں اور ان کے فن کے حوالے سے سرسری جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔
’’اردو کی خواتین باغی افسانہ نگار‘‘ذوقی کا ایک طویل اور اہم مضمون ہے جس میں انھوں نے اسلام اور ادب میں عورت کے تصورات،اہمیت اور نظریات پر بحث کرتے ہوئے اردو کی ایسی خواتین افسانہ نگاروں کے نام لئے ہیں جنھوں نے اپنی کہانیوں کے ذریعہ مردانہ معاشرے کے خلاف بغاوت کا پرچم لہرانے کی کوشش کی۔دراصل دنیائے قدیم سے ہی عورت استحصال کا شکار رہی ہے ذوقی نے اس مضمون میں واضح اشارے کئے ہیں کہ اسلام میں بھی عورت کے وجود کی کوئی تسلی بخش اور قابل قبول تاریخ نہیں رہی ہے بلکہ اس کی آزادی اور کھلے پن کی ہمیشہ مخالفت کی جاتی رہی ہے اور اس طرح مسلم معاشرے میں عورتیں گھر کی چہار دیواری میں ہی قید ہو کر رہ جاتی ہیں ظاہر ہے ہر عورت کا مزاج ایک جیسا نہیں ہوتا ۔کچھ عورتیں تو خود کو پردے میں رکھ کر خوش رہتی ہیں لیکن بہت سی عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو گھر کی چہار دیواری کو لانگ کر کھلی ہوا میں سانس لینا چاہتی ہیں اور زندگی کے ہر شعبہ میں آگے بڑھنا چاہتی ہیں اور جب معاشرہ انھیں ایسا کرنے سے روکتا ہے تو وہ بغاوت کا راستہ اپنانے سے بھی نہیں ہچکچاتیں ۔ذوقی نے اس مضمون میں ایسی ہی کچھ خواتین افسانہ نگاروں کا ذکر کیا ہے جنھوں نے قلم کے سہارے اپنی بغاوت کو ظاہر کیا ۔مصنف نے نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ممالک جیسے پاکستان ،بنگلہ دیش اور چند دوسرے ممالک میں قیام پذیر خواتین افسانہ نگاروں اور ان کی کہانیوں کے حوالے پیش کئے ہیں ۔اسلام میں عورت کے تصور کو واضح کرنے کے لئے مصنف نے قرآن پاک کی مختلف آیات کے ترجموں کا حوالہ دیا ہے انھوں نے ترقی پسند تحریک سے ہوتے ہوئے جدیدیت اور دور حاضر تک کے مختلف ادوار کی خواتین افسانہ نگاروں کا احاطہ کیا ہے اور مثالوں اور حوالوں کے ساتھ اپنی بات کو مدلل انداز میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔یہ بات صحیح ہے کہ ہر دور میں عورت کا استحصال ہوتا رہا ہے اور باشعور عورتوں نے اس ظلم کے خلاف اپنی آواز بلند کی ہے چنانچہ اردو ادب میں بھی ایسی کئی خواتین کے نام شامل ہیں جنھوں نے اپنے اپنے انداز میں آواز احتجاج کو بلند کیااور ایسا بھی بہت بار ہوا کہ مرد پرست معاشرے نے ان کو خاموش کرنے یا ان کے خلاف مقدمات درج کرنے کی کوشش کی لیکن ان خواتین قلمکاروں نے اپنے مضبوط قلم سے اس ظلم کا منہ توڑ جواب دیا اور اپنی آزادی اور حق کی جو لڑائی لڑی اس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی رہیں۔اس مضمون میں ذوقی نے جن خواتین افسانہ نگاروں کے نام لئے ہیں ان میں رشید جہاں،ممتاز شیریں،کشور ناہید،عصمت چغتائی،فہمیدہ ریاض،واجدہ تبسم،زاہدہ حنا،تہمینہ درانی،تسلیمہ نسرین،طاہرہ اقبال،بشرٰی اعجاز،غزال صیغم،ترنم ریاض،خدیجہ مستور،جیلانی بانو،قراۃالعین حیدر،ذکیہ مشہدی،تبسم فاطمہ،لالی چودھری،بانو اختر،پروین لاشری،سارا شگفتہ وغیرہ شامل ہیں لیکن ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا آج کی تاریخ میں بھی ایسا ادب لکھا جا رہا ہے جس میں عورتوں کے مسائل اور ان کی آزادی کے معاملات پر کھل کر بحث کی گئی ہو۔یہ بھی ہے کہ عورتوں کے مسائل کی حقیقی ترجمانی ان ہی کے قلم سے ممکن ہے چناچہ اب بھی ضرورت ہے کہ ایسی خواتین قلم کار سامنے آئیں جو اردو ادب کو ایک نئی جہت اور سمت عطاکرنے میں اپنا کلیدی رول ادا کریں تاکہ عورت کی اہمیت،عظمت اور اس کی شخصیت اور بھی نکھر کر سامنے آئے۔
افسانہ نگار ساجد رشیدپر ذوقی نے ایک مضمون لکھا ہے جس کا عنوان ہے ’’وہ یہیں کہیں آس پاس ہے‘‘۔اس میں ذوقی نے مختصر طور پر ساجد کے ساتھ مختلف اوقات میں کی گئی ملاقاتوں کا ذکر کیا ہے ذوقی نے جہاں ساجد رشید کی شخصیت کے اہم اور دلچسپ پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے وہیں ان کی ادبی اور فنی کاوشوں کو بھی بروئے کار لایا ہے ساجد ایک سچے افسانہ نگار تھے انھوں نے اپنی تخلیقات میں سماج کے جھوٹے اور گھناؤنے افراد کا چہرہ سامنے لانے کی بھرپور کوشش کی۔بقول ذوقی
’’۔۔۔۔۔مزدور یونین ہو،کسی کے ساتھ بھی ہونے والی نا انصافی ہو،اردو کا معاملہ ہو،ممبئی اردو اکادمی میں جان پھونکنے کی سعی ہو۔بال ٹھاکرے ہوں،اناہزارے یا راج ٹھاکرے۔وہ کمزوروں کی زبان جانتا ہی نہیں تھا ۔اور یہی احتجاج،یہی چیخ جہاں اس کے افسانوں میں حق کی بھیانک گونج بن جاتے ہیں۔۔۔۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،آب روان کبیر،ص۔۳۳۸)
’’ریت گھڑی‘‘اور ’’ایک مردہ سر کی حکایت‘‘ساجد کے اہم افسانوی مجموعے ہیں اس کے علاوہ انھوں نے ایک ناول بھی لکھا ’’جسم بدر‘‘جو ادھورا رہا کیونکہ یہ ناول مکمل ہونے سے پہلے وہ انتقال کر گئے ۔بہر حال انھوں نے جو بھی لکھا اچھا لکھا اور سماج کی حقیقی تصویروں کو سامنے لایا ۔’’کبیر گنج والا کانچ کا بازیگر‘‘بھی اسی نوعیت کا مضمون ہے اس میں ذوقی نے ایک بلند پایہ فکشن نگار شفق کی موت کا المیہ پیش کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ کس طرح ایک اہم فنکار گمنام موت کا شکار ہوتا ہے المیہ یہ ہے کہ اردو ادب کو اپنی زندگی وقف کردینے والے اس قلمکار کی موت کو کسی اخبار یا رسالے میں شائع تک نہیں کیا جاتا ہے اور اس کے ہم عصرادیب سیمیناروں اور محفلوں میں قہقہے بکھیرتے ہوئے نظر آتے ہیں شفق کی موت کا سوگ تو دور اس کا ذکر تک نہیں ہوتا۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ’’کانچ کا بازیگر‘‘،’’کابوس‘‘اور ’’بادل‘‘جیسے مشہور و مقبول ناول لکھنے کے باوجود شفق کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا گیا اور ان کے انتقال کو ہلکے میں لیا گیا یہ اپنے آپ میں ایک بڑا المیہ ہے ۔اردو فکشن نگاروںکو جاگنے کی ضرورت ہے ورنہ ان کے ساتھ بھی کل یہی ہونے والا ہے اس مضمون میں ذوقی نے شفق کی اردو فکشن کے تئیں تن دہی اور ایمانداری کی سراہنا کی ہے اور ان کی موت پر گہرے افسوس کا اظہاربھی کیا ہے وہ ان کی کہانیوں پر سیرئل بھی بنانا چاہتے ہیں اور اگر وہ ایسا کرپاتے ہیں تو میرے خیال میں یقیناًیہ شفق کے لئے کسی خراج عقیدت سے کم نہیں ہوگا۔
’’عندلیب گلشن نا آفریدہ‘‘اردو کے نامور ادیب محمد حسن سے متعلق ہے اس مضمون میں ذوقی نے حسن صاحب کی موت پر رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے اپنے جذبات کو سامنے لایا ہے اس کے علاوہ ذوقی نے ان کے ساتھ ہوئی چند ملاقاتوں کا بھی سرسری ذکر کیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ وہ حسن صاحب کا کتنا ادب واحترام کرتے تھے ذوقی نے اس مضمون میں حسن صاحب کی دل کھول کر تعریف کی ہے اسی نوعیت کا ایک اور مضمون ’’سناٹے میں اکتارا‘‘کے عنوان سے ہے جس میں مشہور افسانہ نگار انور عظیم کی موت کا المیہ پیش کیا گیا ہے معمول کی طرح ذوقی نے اس میں بھی مدح سرائی سے کام لیا ہے اور ایسا اکثر کہا اور سنا جاتا ہے کہ لوگ کسی شخص کی موت پر اس کی تعریف زیادہ اور تنقید کم ہی کرتے ہیں اس میں شک نہیں کہ یہ لوگ اردو کے چند بڑے ادیبوں میں شمار کئے جاتے ہیں لیکن شخصیت کے صرف مثبت پہلو کو اجاگر کرنا اور منفی پہلو کو نظر انداز کرنا بھی صحیح نہیں ہے لہٰذا میرا ذاتی طور پر یہ ماننا ہے کہ کسی بھی شخصیت سے متعلق تحریر میں دونوں پہلوؤں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے تاکہ اس شخصیت کے بارے میں ایک متوازن رائے قائم کی جاسکے۔
اس کتاب کے آخری باب میں ذوقی نے اپنی آپ بیتی سے متعلق ایک مضمون ’’میں کہ مری سرشت میں‘‘کے عنوان سے شامل کیا ہے چونکہ یہ مضمون مصنف کے افسانوی مجموعے’’صدی کو الوداع کہتے ہوئے‘‘میں بھی شامل ہے اور میں گذشتہ باب میں اس کا تجزیہ کر چکا ہوں لہٰذا یہاں اس کے بارے میں بحث کرنے سے احتراز برتا جارہا ہے ۔مجموعی طور پر اس کتاب کے مضامین عمدہ ہیں ان میں ادبی رنگ بھی ہے تنقیدی پہلو بھی اور اردو فکشن خاص کر افسانوی ادب سے متعلق ضروری اور اہم معلومات کا ذخیرہ بھی۔
’’سلسہ روز و شب‘‘:
’’سلسلہ روز وشب‘‘مشرف عالم ذوقی کی ایک اور اہم تحقیقی و تنقیدی کتاب ہے یہ کتاب ۲۰۱۴ء میں ایجوکیشنل پبلیشینگ ہاؤس دہلی سے شائع ہوئی۔اس میں اردو ناولوں سے متعلق مضامین ہیں اس کے علاوہ دیگر مضامین اور ذوقی کی حیات و ادبی زندگی کے بارے میں اہم معلومات بھی درج ہیں۔یہ کتاب کل چار ابواب پر مشتمل ہے پہلے دو ابواب ناولوں سے متعلق ہیں تیسرے باب میں اردو ادب کی مختلف اصناف کے علاوہ مختلف نوعیت کے تحقیقی و تنقیدی مضامین ہیں اور کتاب کا آخری باب ذوقی کی آپ بیتی پر مشتمل ہے ۔
’’اردو ناول کی گم ہوتی ہوئی دنیا‘‘اس کتاب کا پہلا مضمون ہے جس میں مصنف نے یہ باور کرایا ہے کہ ناول اردو ادب کا ایک عظیم ورثہ ہے اور ابتدا سے لے کر دور حاضر تک اس صنف پر لکھنے والوں کی کمی نظر نہیں آتی۔اب تک بے شمار قلمکار اردو ناول کے میدان میں اتر کر اپنے تجربے اور فن کا مظاہرہ کرچکے ہیں لیکن افسوف کی بات یہ ہے کہ کئی اہم اور بڑے ناول نگاروں کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق تھے ہر دور میں کچھ گنتی کے ناول نگار ہی ناقدوں کو پسند آئے جن کو شہرت اور مقبولیت کے ساتویں آسمان پر چڑھایا گیا لیکن وہ نام کبھی سامنے نہیں آئے جنھوں نے اردو ناول کے فن اور اس کی ساخت کو پروان چڑھانے میں اپنا کلیدی رول ادا کیا وجہ اس کی یہ ہے کہ ناقدوں نے وہی ناول پڑھے جو ان کو ناول نگاروں نے تحفے میں دیے یا پھر جو انھیں سہولت سے میسر ہوگئے ورنہ دیگر ناولوں کی طرف انھوں نے کبھی رجوع ہی نہیں کیا کیونکہ یہ ایک تحقیق طلب مسئلہ ہے کہ کون سا ناول کہاں سے شائع ہوا اور کس نے لکھا یا اس میں کیا لکھا گیا ۔اس مضمون میں ذوقی نے بہت سے ایسے ناول نگاروں کے نام گنوائے ہیں جو شاید نقادوں کی نظروں سے اوجھل ہوں ساتھ ہی ان کی تصانیف پر بھی مختصر روشنی ڈالی گئی ہے اور مصنف نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ہر ادیب کی کتاب کو پڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی تخلیق کے متعلق ایک جائز اور متوازن رائے قائم کی جاسکے تب جاکر صحیح معنوں میں ایک ناقد اپنی ذمہ داری کو ادا کرسکتا ہے۔
آج کے بیشتر مسلم قلمکارکہیں نہ کہیں تہذیبوں کے تصادم اور دہشت گردی کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنا رہے ہیں چنانچہ پیغام آفاقی کا ناول’’پلیتہ‘‘اور رحمٰن عباس کا ’’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی‘‘بھی اسی نوعیت کے دو اہم ناول ہیں ذوقی نے ان دونوں ناولوں کا مختصر تجزیہ ’’پلیتہ اور ایک ممنوعہ محبت کی کہانی۔ایک جائزہ‘‘کے عنوان سے تحریر کیا ہے۔مذکورہ ناول نگاروں کی فکر ایک ہے اور ان کے نشانے پر مسلم معاشرہ ہے انھوں نے اس معاشرے کی خامیوںاور کمزوریوں کو نہایت ہی موثر انداز میں قارئین کے سامنے لایا ہے ساتھ ہی مسلم نوجوانوں کے جذبہ بیداری کو بھی اجاگر کیا ہے جو ایک قابل ستائش عمل ہے رحمٰن عباس نے کوہ کن کے مسلم معاشرے کو علامت بنا کر ہندوستانی مسلمانوں کی زبوں حالی اور موجودہ فکر کو نشانہ بنایا ہے اور پیغام آفاقی نے خالد سہیل کو عالمی ترقی میں مسلمانوں کی حصہ داری کی علامت بنا کر پیش کیا ہے ذوقی نے ان دونوں ناولوں کے لئے اپنی خوشی کا اظہار کیا ہے ساتھ ہی اردو کے قارئین کو ہدایت دی ہے کہ وہ ایسے ناولوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ملاحظہ ہو یہ اقتباس:
’’یہ خوشی کا مقام ہے کہ نئے ناول نئے نئے موضوعات کے ساتھ مسلمانوں خصوصاًاجتماعی انسان کے مسائل اور درد وغم کی جانب اشارہ کر رہے ہیں ۔یہ ناول پرانے دائروں کو توڑتے ہوئے نئے دائرے بنانے کی پیش قدمی کر رہے ہیں ،اردو دنیا کو ان ناولوں کا استقبال کرنا چاہئے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،سلسلہ روز و شب،ص۔۶۲)اسی طرح ذوقی نے ’’حامد سراج کا ناول :میا‘‘اور ’’انیسواں ادھیائے‘‘اور ’’نادیدہ بہاروں کی تلاش‘‘میں مذکورہ ناولوں کا مختصر تجزیہ پیش کیا ہے ۔
’’بلونت سنگھ کا پنجاب‘‘ایک اور اہم مضمون ہے جس میں ان کے دومشہور ناولوں ’کالے کوس‘اور ’رات،چاند اور چور‘ کے حوالے سے پنجاب کی تصویر کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے ان دونوں ناولوں پر مختصر مگر نہایت ہی موثر انداز میں تجزیہ پیش کیا گیا ہے کہانی،کردار،پلاٹ،زبان وبیان اور جزئیات نگاری کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور مصنف نے یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ بلونت سنگھ کی تخلیقات میں کس طرح اس وقت(تقسیم ملک)کا پنجاب صاف طور پر نظر آتا ہے یہاں فرقہ پرستی کی آگ ہے جنگ ہے،میلے ٹھیلے،اکھاڑے،کشتی،ڈاکوؤں کی زندگی،محبت کی کشش غرض انسانی فطرت کی چھوٹی چھوٹی باتوں کی بھرپور عکاسی کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے یوں تو بہت سے ناول نگاروں نے پنجاب کے ماحول اور اس کی تصویر کو اپنے ناولوں میں اتارنے کی کوشش کی ہے مگر ذوقی کا ماننا ہے کہ بلونت سنگھ نے جس طرح اپنے ناولوں میں پنجاب کی حقیقی منظر کشی کی ہے وہ اپنے آپ میں بے مثال ہے اور یہی ان کا کمال ہے انھوں نے پنجاب کی مٹی سے اپنی کہانیوں اور ناولوں کا خمیر تیار کیا جس کی خوشبو ان کے مطالعہ سے بخوبی محسوس کی جاسکتی ہے۔ملاحظہ ہو یہ اقتباس:
’’اس لیے جہاں وہ کھڑے تھے،وہیں سے اٹھے جس زمین سے اٹھے۔وہیں سے کہانیوں کی کیاریاں بنائیں ،وہیں کی مٹی اٹھائی۔اسی پودے،اسی خوشبو کو سنبھالا۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔جگا سے کالے کوس تک کے فاصلے کو بلونت سنگھ کے افکار و خیالات میں نمایاں تبدیلیاں آئیں ۔مطالعہ اور ان کے تجربات و مشاہدات نے ان کے تخلیقی سفر میں نئی نئی راہیں کھولیں اور وہ آگے بڑھتے چلے گئے ۔پنجاب،پنجاب کے رہن سہن ،رسم و رواج کو موضوع تحریر بنانے والوں کی کمی نہیں رہی ۔مگر میرا خیال ہے کہ بلونت سنگھ کا پنجاب اور تھا اور وہ انوکھا پنجاب جو ان کی تخلیقات میں نظر آتا ہے صرف اور صرف انہی کی دریافت ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،سلسلہ روز وشب،ص۔۷۴)
ذوقی کا یہ بھی ماننا ہے کہ بلونت سنگھ کو وہ مقام اور مرتبہ نہیں مل سکا جس کے وہ مستحق تھے چنانچہ وہ ان کی تخلیقات کا مطالعہ کرنے کی صلاح دیتے ہیں تاکہ ایک بڑے فنکار کی صحیح قدروقیمت کا اندازہ لگایا جاسکے۔
’’عالمی ادب اور حیات اللہ انصاری کا فن ‘‘ذوقی کا ایک اور اہم مضمون ہے یہ ۱۹۸۴ء میں رسالہ معلم اردو کے حیات اللہ انصاری نمبر میں شائع ہوا۔مضمون کے آغاز میں ذوقی نے تمحید کے طور پر چند مشہور مغربی فنکاروں کی تخلیقات کا سرسری جائزہ لیا ہے جس میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ان فنکاروں کی تخلیقات عالمی ادب میں کیوں کر مقبول ہوئیں وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ اردو ادب کو عالمی ادب کے پیمانے سے ناپنا چاہتے ہیں اور یہ واضح کیا ہے کہ صرف ان ہی فنکاروں کو عالمی شہرت ملی ہے جنھوں نے اپنے عہد اور اس کے مسائل کی ہوبہو تصویر پیش کی ہے اس کے بعد ذوقی نے حیات اللہ انصاری کے ناول ’’لہو کے پھول‘‘کی روشنی میں ان کے فن کا جائزہ لیا ہے۔حیات اللہ انصاری ایک سنجیدہ اور با شعور قلمکار کا نام ہے انھوں نے جس عہد میں سانس لی اور اپنی زندگی کے ایام کو گذاراوہ بہت ہی نازک اور چنوتیوں سے بھرا ہوا دور تھا انھوں نے جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور وطن کو آزاد کرانے کی ہر تدبیر میں اپنے ساتھیوں کا بھرپورسا تھ دیا اپنے معاشرے اور ملک کو دشمن کی نظر سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی ۔انھوں نے جو دیکھا اور جو کیا اس کو تحریری شکل میں لاکر ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ۔ذوقی نے ان کے اس ناول کو ایک ضخیم اور اپنے عہد کا عظیم ناول قرار دیا ہے کیونکہ اس میں اپنے عہد کے تمام تر مسائل اور واقعات کو سمیٹنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے جس وجہ سے اس ناول کی عظمت کا قائل ہونا پڑتا ہے بقول ذوقی:
’’لہو کے پھول ‘‘آزادی کے جدوجہد کی کہانی ہے ۔۔۔۔بغاوت کی صدا کب بلند ہوئی۔آزادی کے مومنٹو نے کیا کیا کارنامے انجام دیے۔یہ ہندوستان کی جدوجہد کا البم ہے۔ایک پورا ہندوستان اس میں قید ہے۔بڑے چھوٹے مسائل،بادشاہ سے لیکر بھکاری تک،اچے لچے،لفنگے،بھک منگے،حسن،عشق کا فلسفہ،غم،خوشی،شرافت،خود غرضی،قربانی،محبت،ملال،سیرو تفریح،پہاڑیوں کے مناظراور اس وقت کے تمام چھوٹے بڑے مسئلے۔۔۔۔اردو میں اس نوعیت کا اور اتنا ضخیم ناول آج تک نہیں لکھا گیا۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،سلسلہ روز و شب،ص۔۹۴)
کتاب کا دوسرا باب’’ناول اور مکالمے‘‘کے عنوان سے ہے جس میں ذوقی کے مختلف انٹرویوز شامل کئے گئے ہیں ڈاکٹر مشتاق احمد،سمیہ بشیر،رحمٰن شاہی،نعمان قیصر اور رضی احمد تنہا وغیرہ نے ذوقی کے ساتھ ملاقات کرکے ان سے جو کچھ سوالات کئے ذوقی نے ان کو کتابی صورت میں لایا جو کہ ایک نہایت ہی مفید اور کارآمد عمل ہے کیونکہ اس سے اردو فکشن کے قاری خصوصاًریسرچ اسکالرز کو ان کے بارے میں مستند اور اہم معلومات دستیاب ہوسکتی ہیں ان انٹرویوز میں ذوقی سے ان کی نجی زندگی کے ساتھ ساتھ سماجی اور سیاسی نوعیت کے سوالات بھی کئے گئے ہیں اس کے علاوہ اردو فکشن خصوصاًناولوں سے متعلق بھی اہم سوالات پوچھے گئے ہیں جن کا انھوں نے تسلی بخش جواب دیا ہے اپنی زندگی کے اہم واقعات و حالات کو بھی قارئین کے سامنے لایا اور کس طرح انھوں نے ادبی زندگی کا آغاز کیا پھر ادبی سفر میں کیا اتار چڑھاؤ آئے اردو فکشن کی طرف کب اور کیسے متوجہ ہوئے اور جو ناول لکھے ان کے پس منظر کے حالات کیا رہے ان تمام سوالوں کے جواب ان کے انٹرویوز کا مطالعہ کرنے سے بخوبی مل جاتے ہیں اتنا ہی نہیں موجودہ فکشن کا معیار کیا ہے اور اس میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں یا پھر اس کو کس طرح کے چیلنج یا خطرات کا سامنا ہے یہ بھی ذوقی نے اپنے انٹرویوز میں واضح کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے ۔لہٰذا ان انٹرویوز کا مطالعہ کرنے سے قاری کو نہ صرف مصنف کی سوانح اور ادبی زندگی کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے بلکہ اردو ادب خصوصاً اردو فکشن کے حوالے سے بہت سی معلومات فراہم ہوجاتی ہیں۔
’’نئی صدی،ڈش انٹینا کی یلغار اور ادب‘‘اور ’’کیا الیکٹرانک میڈیا پرنٹ میڈیا کا متبادل ہے؟‘‘کم و بیش ایک ہی نوعیت کے مضامین ہیں ۔ذوقی نے یہ واضح کیا ہے کہ نئی صدی ایک بہت بڑی تبدیلی کے ساتھ نمودار ہوئی ہے اور یہ تبدیلی زندگی کے ہر شعبہ میں دیکھی جاسکتی ہے خصوصاً الیکٹرانک میڈیا نے جس تیز رفتاری سے اپنے پر پھیلائے ہیں وہ پرنٹ میڈیا کے لئے ایک خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ لوگ کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بجائے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ میں دلچسپی لینے لگے کیونکہ یہ ان کے لئے نئی اور انوکھی چیز ہے نتیجہ کے طور پر ادب کا قاری گم ہونے لگا۔
’’چینلز کی یلغار،انٹرنیٹ کے جسم سے برآمد گوشت پوست کی عورتیں اور ان سے چپکی نوجوان نسل،پرسنل کمپیوٹرس پر جھکے ہوئے دماغ۔۔۔اور ایک طرف وہی پرانی مشینیں وہی کاغذوں کے انبار۔۔۔اور وہی سلگتے جاگتے لفظ۔۔۔وہی لفظ جو جلی سرخیوں میں بھی آپ کو چونکاتے تھے۔۔۔ ۔۔۔انہی لفظوں نے یکایک پیرہن بدل لیا۔۔۔مشینیں پرانی ہوگئیں ۔وہ لفظ قلم اور سیاہی سے کودے اور Visualsبن گئے۔۔۔وہ کیفیتیں مکالمے،فوٹوگرافی،اداکاری اور ایڈیٹنگ کی تکنیک میں سما گئیں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،سلسلہ روز و شب،ص۔۳۱۳)
لیکن مصنف اس تبدیلی سے مایوس نہیں ہے نئی ٹکنالوجی اور الیکٹرانک میڈیا اپنی چمک دمک سے لوگوں پر فوری اثر تو چھوڑنے میں کامیاب ہوتا ہے مگر یہ اثربہت کم مدت کے بعد ختم ہوجاتا ہے انھوں نے ادب اور پرنٹ میڈیا کی اہمیت کا اقرار کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ ہر عہد میں تبدیلیاں آتی ہیں اور لوگ اس تبدیلی کا شکار بھی ہوتے ہیں مگر یہ چند برسوں تک ہی اپنا تاثر قائم رکھ پاتی ہے اس کے بعد لوگ پھر معمول کی طرف لوٹ آتے ہیں ۔ادب کی اپنی دنیا اور اپنی اہمیت ہے اور جو چیز انسان کو ادب کا مطالعہ کرنے سے حاصل ہوتی ہے وہ کسی اور میڈیا سے مل جائے یہ ممکن نہیں کیونکہ انسانی جذبات و احساسات کا جو موثر اظہار الفاظ کے ذریعہ ہوسکتا ہے وہ کسی ویڈیو فلم یا کمپیوٹر اسکرین کے بس کی بات نہیں۔
’’فلمیں آتی جاتی لہریں ہیں۔Visualsاس لمحے کا سچ ہے جس لمحے کہ ہماری آنکھیں اسکرین سے چپکی ہوئی ہیں ۔پرنٹ میڈیا کو اس معاملے میں ابدیت حاصل ہے ۔اس کا ہر لفظ بولتا ہے ۔برسوں بولتا اور چیختا رہتا ہے۔۔۔۔لفظ امر ہیں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،سلسلہ روز و شب،ص۔۳۲۰)
’’ہم جنگ نہیں چاہتے‘‘ایک مختصر سا مضمون ہے جس میں ذوقی نے عالمی سطح پر ہی نہیں بلکہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان نفرتوں کے گرد و غبار کو جھاڑنے کی کوشش کی ہے وہ امن پسند ہیں اور جنگ ودہشت کی شدید مخالفت کرتے ہیں انھوں نے یہ باور کرایا ہے کہ دنیا میں بسنے والے لوگ امن و سکون چاہتے ہیں وہ جینا چاہتے ہیں لیکن افسوس کہ ظلم کی چکی چلانے والے کچھ شر پسند عناصر اپنے برے ارادوں سے باز نہیں آتے اور معاشرے کو لہو لہان کرنے پر آمادہ ہیں ذوقی نے دونوں ملکوں کے مابین دوستی کا ہاتھ بڑھانے پر زور دیا ہے تاکہ ایک خوشحال خطے کا قیام عمل میں لایا جاسکے۔’’اردو ہندی اخبارات کی دنیا اور تقسیم کا منظر نامہ‘‘بھی ایک اہم مضمون ہے اس میں مصنف نے اردو اور ہندی کے اخبارات کی نوعیت کے بارے میں ذکر کیا ہے اور یہ انکشاف کیا ہے کہ اردو اخبارات میں مسلم معاشرے کے مسائل پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور اسی طرح ہندی اخبارات میں مسلمانوں کے مسائل کو یا تو سرسری جگہ دی گئی یا پھر بالکل نظر انداز کیا گیا ہے جو کہ ایک توجہ طلب مسئلہ ہے کیونکہ اس ملک میں ایک بار پھر تقسیم کی صورت حال پیدا ہونے کا غالب امکان ہے ۔ہندی یا غیر اردو اخبارات اور میڈیا میں صرف وہی خبریں سرخیوں میں لائی جاتی ہیں جن میں مسلمانوں کو غدار یا دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ان میں اکثر خبریں جھوٹی ہوتی ہیں یہ بھی سب جانتے ہیں ان کامقصد صرف مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانا ہوتا ہے جس سے فرقہ پرستی کو بڑھاوا ملتا ہے اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس سازش میں ملکی سیاست کا بہت بڑا ہاتھ ہے چنانچہ ایسے لیڈروں اور اس طرح کی خبریں شائع کرنے والے اداروں کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے اور ان پر الزام تراشی کرنے سے پرہیز کیا جائے تاکہ ملک کی سا لمیت اور اتحاد پر کوئی منفی اثر نہ پڑے ورنہ اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب ملک ایک بار پھر ٹوٹ کر بکھر جائے گا۔’’ہندی کہانیوں کا نیا منظر نامہ‘‘ایک اور مضمون ہے جس میں ذوقی نے ہندی ادب کے کہانی کاروں کا ذکر کرتے ہوئے چند اہم کہانیوں کے نام لئے ہیں ۔ذوقی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اردو کے مقابلے ہندی کہانیوں میں کم تجربے ہوئے ہیں اردو میں جہاں بہت سی تحریکیں وجود میں آئیں وہیں ہندی ادب میں صرف جن وادی تحریک کے اثرات ہی نمایاں نظر آتے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندی کہانیوں نے اردو کے اثرات قبول کئے ہیں ۔تاہم ہندی ادب میں بے شمار ایسے نام ہیں جنہوں نے فکشن میں نام پیدا کیا اور ہندی کہانیوں کو اسلوبیات اور فکری سطح پر نئے رنگ و آہنگ سے روشناس کیا ۔کملیشور،راجندر یادو،ادئے پرکاش،سنجیو،اکھلیش،کرشنا سوبتی،منوہر شیام،نرمل ورما وغیرہ ہندی کے اہم کہانی کار ہیں ۔ارون پرکاش کی کہانی ’’بھیا ایکسپریس‘‘شیو مورتی کی’’تریا چتر‘‘سوئم پرکاش کی ’’پارٹیشن‘‘رمیش اپادھیائے کی کہانیاں’’ہنسو ہیما ہنسو‘‘اور ’’ڈیلٹا‘‘نرمل ورما کی کہانی’’سوکھا‘‘اور شیکھر جوشی کی ’’نورنگی بیمار ہے‘‘ہندی کی چند مشہور و مقبول کہانیاں ہیں ۔مصنف نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ہندی میں اکیسویں صدی کے آغا ز میں نئی نسل کے بے شمار کہانی کار سامنے آئے ہیں جو اپنی کہانیوں میں نئے اندازاوراسلوب کو ڈسکور کر رہے ہیں اور یہ ہندی فکشن کے لئے ایک خوش آئند بات ہے ۔
’’تخلیقی تجربوں کا عہد‘‘میں اکیسویں صدی کے ابتدائی دس بارہ برسوں کی اردو کہانیوں میں جو تخلیقی تجربے ہوئے ہیں انھیں حوالوں کے ساتھ بروئے کار لانے کی سعی کی گئی ہے اکیسویں صدی کے مسائل بیسویںصدی کی دنیا سے بہت حد تک مختلف ہیں نئے مسائل اور نئی تبدیلیاں نئے تخلیقی تجربوں کا تقاضہ کرتی ہیں ایسے میں کسی بھی زبان کے فنکاروں کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے ۔مصنف نے اردو کہانیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اپنی خوشی کا اظہار کیا ہے کہ اردو کے نئے قلم کار اپنی تخلیقات میں نئے تجربے کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں چنانچہ آج کی اردو کہانیاں کسی بھی لحاظ سے دیگر زبانوں کی کہانیوں سے پیچھے نہیں ہیں ذوقی نے اس سلسلے میں چند فکشن نگاروں کے نام لئے ہیں جو اپنی خدمات بخوبی انجام دے رہے ہیںان میں شائستہ فاخری،ترنم ریاض،غزال صیغم،تبسم فاطمہ،عبدالصمد،غضنفر ،حسین الحق،شوکت حیات،احمد صغیراور نورالحسنین وغیرہ کی کہانیاں نئے تخلیقی تجربوں سے ہم آہنگ ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں یہی نہیں مصنف نے چند نئے رسائل کا بھی ذکر کیا ہے جو اس سلسلے کو پروان چڑھانے میں اہم رول نبھا رہے ہیں مثلاً ازکار،اثبات،تحریر نواور تحریک ادب۔لہٰذا نئے اور سلگتے ہوئے مسائل کو آج کی اردو کہانیوں میں ایک نیا اسلوب اورتخلیقی جامعہ پہنانے کی بخوبی سعی کی جارہی ہے جو اردو فکشن کے تابناک مستقبل کا ایک واضح اشارہ ہے۔
’’نئی صدی اور اردو شاعری‘‘ذوقی کا ایک نہایت ہی اہم مضمون ہے جس میں نئی صدی کی اردو شاعری کے حوالے سے بہت ہی مفید اور عمدہ باتیں کی گئی ہیں دراصل اکیسویں صدی کے آغاز میں یہ بات عام ہوگئی کہ نئی صدی اردو شاعری کے لئے قطعی طور پر موزوں نہیں ہے ۔سیمیناروں، جلسوں اور کانفرنسوں کے علاوہ بہت سے اردو اخبارات و رسائل نے بھی اس بات کو کافی ہوا دینے کی کوشش کی لیکن ذوقی نے ایسی تمام تر افواہوں کو بے بنیاد قرار دیا ہے ان کا ماننا ہے کہ نئی صدی کا شاعر بے حد حساس ہے بلکہ وہ حساس ہی نہیں اپنے عہد سے آگاہ بھی ہے ۔سائنس،ٹکنالوجی،گلوبل ولیج،سائبر اسپیس،کلون،روبوٹ اور انٹر نیٹ سے عالمی سیاست تک تمام مسائل اس کے سامنے ہے شاید اسی لئے نئی صدی میں اس نے گھٹن اوڑھنے سے انکار کردیا ہے اور نئے مسائل اور تبدیلیوں کو شعری کائنات میں سمونے کا بے باکانہ اعلان کردیا ہے۔اکیسویں صدی میں غزل گوئی کی روایت کو گل و بلبل سے جوڑنے کا لامتناہی سلسلہ ٹوٹ چکا ہے دراصل پرانا نقاد شاعر کو پیامبر یا فرشتے کے طور پر دیکھنے کا عادی رہا ہے اور اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ ابہام،ترقی پسندی،جدیدیت یا مابعد جدیدیت سے الگ شاعری کی ہی نہیں جاسکتی۔لیکن نئے شعراء خود کو کسی خانے میں قید دیکھنا نہیں چاہتے وہ کسی مخصوص فکر،تحریک،ازم یا نظریے کے پابند نہیں ہیں بلکہ نئی صدی کے شاعر کو اپنی آزادی پیاری ہے وہ فرد اور تنہائی کی باتیں نہیں کرتا وہ فلسفہ وجودیت سے بھی بہت دور نکل آیا ہے جہاں تک کہ اس گلوبل،سائبر اور انٹرنیٹ سماج میں اسے اپنی شناخت کی بھی پرواہ نہیں اس نے تمام نقادوں کو ریجیکٹ کردیا ہے اور تخلیق و تنقید کی ذمہ داری خود سنبھال لی ہے۔بقول ذوقی:
’’تیزی سے بدلتے ہوئے عہد کی یہ شاعری زیادہ عمدہ ہوگی،پائیدار ہوگی،آفاقی ہوگی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر نئی صدی کی یہ شاعری اپنے زمانہ،عہد اور مسائل کے بہت قریب ہوگی۔زبان کا بحران،شخصیت اور شناخت کا بحران۔نئی شاعری کے لئے یہ سب مسئلے پرانے پڑ چکے ہوںگے۔نئی شاعری نئے جادوئی رابطوں کو جنم دے گی اور نئی شعری وحدت خلق کرے گی۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،سلسلہ روز وشب،ص۔۳۷۱۔۳۷۲)
’’نئی صدی میں نثری شاعری‘‘بھی اسی نوعیت کا مضمون ہے جس میں ذوقی نے نثری شاعری کی اہمیت و افادیت کا اعتراف کیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ نئی صدی میں اس صنف کے فروغ کے لئے زیادہ امکانات موجود ہیں نثری نظم کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں آزاد نظم کی طرح موضوع کے کسی ایک پہلو سے بندھے رہنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ شاعر اس موضوع سے متعلق مختلف پہلوؤںیاعناصر کی ترجمانی نہایت ہی آزادانہ طور پر کرسکتا ہے ۔یہاں شاعر موضوع سے بندھا ہوا نہیں ہے نہ تو اس میں قافیہ ردیف کی پابندی ہوتی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی مخصوص فریم ورک ہوتا ہے لہٰذا نثری نظم میں شاعر آزاد ہوتا ہے اور وہ بجا طور پر اپنی آزادی کا اظہار کرسکتا ہے جبکہ غزل یا آزاد نظم میں شاعر خود کو آزاد نہیں رکھ سکتا۔مصنف نے یہ بھی بتایا ہے کہ پاکستان میں نثری نظم کی طرف زیادہ توجہ دی جارہی ہے انھوں نے چند شاعروں کی نظموں سے اقتباسات بھی نقل کئے ہیں جن میں عذرا پروین،ناجیہ احمد،نصیر احمدناصر،منیر نیازی،افتخار نسیم،علی احمد فرشی اور نعمان شوق کے نام قابل ذکر ہیں ۔ذوقی نے ان نقادوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو نثری نظم کو ایک صنفی حیثیت دینے سے انکار کرتے ہیں دراصل عام نقادوں کا کہنا ہے کہ نثری نظم کسی کہانی کے اقتباس کو ٹکڑوں میں بانٹ لینے سے زیادہ کچھ نہیں ہے لیکن یہ بھی ہے کہ ایسے نقادوں نے کبھی نثری نظم کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیںجبکہ نثری نظم میں اپنی بات کہنے کی زیادہ گنجائش ہے زیادہ امکانات ہیں اور سب سے اہم یہ کہ شاعر کو جو آزادی اس صنف میں حاصل ہے وہ کہیں اور نہیں لہٰذا ذوقی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اب اس صنف کے مقام کا تعین ہوجانا ضروری ہے اور اب نئی صدی میں جبکہ نثری نظم تکنیک،اسلوب اور ہئیت کے تجزیوں سے گذرتی ہوئی آہستہ آہستہ ہماری روایت کا ایک حصہ بن چکی ہے اس سے نظریں چرانے سے کام نہیں چلے گا۔
’’نئی صدی میں اردو ڈراما‘‘بھی لگ بھگ اسی نوعیت کا مضمون ہے جس میں مصنف نے اردو ڈرامہ کی موجودہ صورت حال پر افسوس کا ظاہر کیا ہے کیونکہ نئی صدی میں اردو ڈرامہ کہیں گم ہوکر رہ گیا ہے گویا یہ صنف زوال کا شکار ہورہی ہے بلکہ ذوقی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اردو ڈرامہ کا زوال آغا حشر کی موت کے ساتھ ہی شروع ہاگیا تھا اور اب تک جاری ہے دور دور تک کوئی ڈرامہ نگار نظر نہیں آتا وہی گنے چنے نام ہیں جو کل بھی تھے اور آج بھی ۔نیا تو کچھ بھی برآمد نہیں ہورہا ذوقی نے اردو اکادمیوں پر بھی طنز کیا ہے جو ہر سال ڈرامے کا فیسٹیول تو کراتی ہیں مگر ان کی حالت یہ ہے کہ چچا غالب اور میاں بیوی کے لطائف پر مبنی ڈراموں سے آگے نکلنے کی کبھی کوشش نہیں کی جبکہ اکادمیوں کو چاہئے تھا کچھ نئے ڈراموں کو اسٹیج پر پیش کریں تاکہ اس سے اردو میں نئے لکھنے والوں کا ایک قافلہ سامنے آئے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ اردو ڈرامے کا مستقبل روشن ہو ۔یہاں ذوقی نے ان نقادوں کو بھی کھری کھوٹی سنائی ہے جو صرف دو تین روایتی ڈرامہ نگاروں کو سر پر اٹھائے کھڑے ہیں اور اس سے آگے کا راستہ بند کئے ہوئے ہیں اس میں شک نہیں کہ ڈرامہ نثر کی ایک مشکل ترین صنف ہے اور یہ بہت ساری چیزوں کا تقاضہ کرتی ہے لیکن اردو کے لکھنے والوں میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے وہ ڈرامہ لکھ بھی سکتے ہیں اور اسے اسٹیج بھی کروا سکتے ہیں صرف ان کو ایک پلیٹ فارم دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکیں ۔ایک اور بات اردو میں ڈرامے لکھے تو جارہے ہیں مگر ان کو اسٹیج نہیں کیا جاتا اس طرح وہ محض رسائل وجرائد تک ہی محدود ہوکر رہ گئے ہیں آج کے دور میں جب اس صنف کے فروغ کے زیادہ امکانات موجود ہیں نقادوں نے اس کو پس پشت ڈال رکھا ہے لہٰذا نئے لکھنے والوں کو نقادوں کی پرواہ کئے بغیر اپنا کام کرنا ہوگا تبھی ڈرامہ اپنے ارتقاء کی منزلیں طے کرپائے گا۔
کتاب کا آخری باب ذوقی کی آپ بیتی پر مشتمل ہے ۔
مذکورہ بالا کتب کے علاوہ’’کنگن‘‘بھی ذوقی کی ایک اہم کتاب ہے اس میں بچوں کے بچپن اور ان کی زندگی کے اہم مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے یہ کتاب نیشنل بک ٹرسٹ سے شائع ہوئی۔گجرات کے فسادات پر مبنی ذوقی نے ایک کتاب ’’لیبارٹری‘‘کے عنوان سے لکھی۔یہ کتاب ہندی زبان میں لکھی گئی اور سن ۲۰۰۳ء میں شائع ہوئی۔ایک اہم با ت یہ ہے کہ ذوقی اپنی کہانیوں کی اسکرپٹ اور نغمے بھی خود ہی لکھتے ہیں ان کی اسکرپٹ پر مبنی ایک کتاب ’’ٹیلی اسکرپٹ‘‘کے عنوان سے بہت جلد قومی اردوکونسل سے شائع ہونے والی ہے۔اس کے علاوہ ذوقی کی آپ بیتی پر مشتمل ایک کتاب ’’کھوئے ہوؤں کی جستجو‘‘ہے جو ہنوز غیر مطبوعہ ہے ۔ان کتابوں کے علاوہ ذوقی نے بے شمار مضامین بھی لکھے جو متعدد رسائل وجرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔
بھارت کو بھی ہندو ریاست ہونا چاہئے تھا
اروند سہارن کے ساتھ ایک ویڈیو بلاگ میں، میں نے یہ بات کہی تھی۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اس...