مشرف عالم ذوقی کا شمار ۱۹۸۰ء کے بعد کے فکشن نگاروں میں ہوتا ہے ۸۰ کے آس پاس کہانی کی واپسی کا دور شروع ہوااور جدیدیت اپنا وجود کھونے لگی تاہم کچھ ادیب جدیدیت کی سر میں سر ملا تے ہوئے اپنی روش پر قائم رہے لیکن بہت سے قلمکار ایسے بھی تھے جو زیادہ دنوں تک خود کو جدیدیت کے شکنجے میں نہیں دیکھ سکے اور وہ بھی بیانیہ اور کہانی کی طرف لوٹ آئے اسی کے ساتھ کچھ نئے نام بھی ابھر کر سامنے آئے جن کے یہاں جدیدیت کے برعکس رحجان ملتا ہے اس طرح نئے اور پرانے چراغوں کی اشتراکی کوششوں سے اردو فکشن کا ایک نیا باب وا ہوا جو پہلے سے مختلف بھی ہے اور منفرد بھی۔۱۹۸۰ء کے بعد ہندوستان کی سیاسی،سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں کی وجہ سے ادب کے منظر نامے میں جو انقلاب رونما ہوا اس میں ان فکشن نگاروں نے بھی اپنا اہم رول ادا کیاچنانچہ ذوقی کے فن کو سمجھنے کے لئے اس دور کے مختلف مسائل کے علاوہ ان کے معاصرین کا مطالعہ کرنا بھی ضروری ہوجاتا ہے میں نے اس باب میں ایسے ہی فکشن نگاروں اور ان کی تخلیقات کا سرسری جائزہ پیش کیا ہے تاکہ ذوقی کے فن کی انفرادیت کا اندازہ ہوسکے۔اس سلسلے میں فکشن نگاروں کی ایک لمبی قطار موجود ہے جن میں الیاس احمد،شموئل احمد،رحمٰن عباس،نور الحسنین،اقبال مجید،اشرف شاد،پیغام آفاقی،عبدالصمد،حسین الحق،علی امام نقوی،غضنفر،شفق،ترنم ریاض،ابن کنول،شوکت حیات،آنند لہر،ساجدہ زیدی،طارق چھتاری،شائستہ فاخری،انور خان،انجم عثمانی،جوگندر پال،ذکیہ مشہدی،اسرار گاندھی،مظہر الزماں،احمد صغیر،سلام بن رزاق،سید محمد اشرف،مستنصر حسین،تبسم فاطمہ،معین الدین جینا بڑے،خالد جاوید،صدیق عالم،غزال صیغم،محسن خان،یعقوب یاور،جتندر بلو،ساجد رشید،رضیہ فصیح احمد،گیان سنگھ شاطر،شوکت صدیقی،نسیم بن آسی،مصطفٰی کریم،انیس رفیع،حسن جمال،ظفر عدیم،صادقہ نواب صحر،اشک،مشتاق احمد نوری،وحید احمد،انور قمر،عاصم بٹ اور بیگ احساس وغیرہ کے نام شامل ہیںاس مختصر سے باب میں سب کا احاطہ کرنا دشوار ہے لہٰذا ذیل میں صرف چند نمایاں فکشن نگاروں کے فن کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے:۔
الیاس احمد:
۱۹۸۰ ء کے بعد فکشن نگاری کے حوالے سے الیاس احمد گدی کا نام خصوصی اہمیت کا حامل ہے الیاس احمد گدی کا شمار ان فکشن نگاروں میں ہوتا ہے جو علامت اور تجرید کے بہاؤ میں بہے اور پھر واپس آگئے۔انھوں نے افسانہ نگاری کے ذریعہ فکشن کے میدان میں قدم رکھا مگر اس صنف میں ان کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی پھر انھوں نے ایک ناول لکھا’’فائر ایریا‘‘جس کی وجہ سے ان کو ایک شناخت ملی۔یہ ناول فائر ایریا یعنی کول فیلڈ میں کام کرنے والے ان مزدوروں کی زندگی اور بنیادی مسائل پر مبنی ہے جو اپنی جان کو جوکھم میں ڈال کر سرمایہ کاروں کی جیبوں کو بھرتے ہیں اور مسلسل استحصال کے دلدل میں پھنس جاتے ہیں۔’’فائر ایریا‘‘میں مصنف نے صوبہ بہار کے ایک چھوٹے سے علاقہ ’کولیری‘کو اپنے ناول کا محور بنایا ہے اس ناول کے بہانے الیاس احمد نے ’کولیری ‘کی اس دنیا میں جھانکنے کی کوشش کی ہے جہاں گھٹن ہے،گھپ اندھیرا ہے کھولتے ہوئے گرم لاوے ہیں جہاں آگ ہے اور اس آگ میں کندن کی طرح تپتا ہوا غریب مزدور ہے جو اپنی زندگی کے تمام جذبات و احساسات اور خوشیوں کو سولی پر چڑھا کر دو وقت کی روٹی کا سامان کرتا ہے ۔’’فائر ایریا‘‘دراصل ایسے ہی مزدوروں کے دلوں میں سلگتی ہوئی آگ کا استعارہ ہے یہ ناول سرمایہ دارانہ نظام کے چہرے سے نقاب اتارتا ہے اس ناول کو مقبول بنانے میں کردار نگاری،زبان اور تکنیک کا بہت بڑا رول ہے ماحول ویسا ہی پیش کیا ہے جیسا کولیری میں دیکھنے کو ملتا ہے کرداروں کے مکالمے ویسے ہی ہیں جیسایہ مزدور بولتے ہیں ۔علاقائی زبان کے علاوہ بہار کی دوسری بولیوں پر بھی مصنف کی مضبوط گرفت دیکھی جاسکتی ہے اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ناول کی تخلیق اس شخص نے کی ہے جو بہار کے جغرافیائی حدود،زبان،ماحول اور کلچر سے بخوبی واقف ہے یہی وجہ ہے کہ ’’فائر ایریا‘‘ایک عمدہ اور کامیاب ناول کے طور پر سامنے آیا۔الیاس احمد گدی کی کہانیاں کسی کو یاد نہیں لیکن وہ ’’فائر ایریا‘‘کی وجہ سے آج بھی زندہ ہیں ۔
شموئل احمد:
شموئل احمدنے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیاان کے چار افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیںجن میں’’بگولے‘‘اور ’’سنگھاردان‘‘کو کافی شہرت ملی انھوں نے اپنے افسانوں کے ذریعہ عورتوں کی نفسیات کی خوبصورت عکاسی کی ہے اس کے علاوہ انھوں نے سماجی،سیاسی،جنسی اور نفسیاتی موضوعات پر افسانے لکھے ہیں ۔شموئل احمد کے افسانوں کا ترجمہ انگریزی کے علاوہ ہندوستان کی دوسری زبانوں میں بھی ہو چکا ہے ان کے اب تک دو ناول منظر عام پر آئے ہیں ’’ندی‘‘اور’’مہاماری‘‘۔’’ندی‘‘۱۹۹۳ء میں شائع ہوا یہ ناول جنسی موضوعات پر مبنی ہے فکر و فن کے اعتبار سے یہ ایک کامیاب ناول ہے ’’ندی‘‘ایک سو سولہ صفحات پر مشتمل ایک مختصر سا ناول ہے جسے ناولٹ بھی کہا جاسکتا ہے اس ناول میں مصنف نے عورت کے وجود اور اس کی کشمکش کو نہایت ہی موثر انداز میں پیش کیا ہے انھوں نے یہ واضح کیا ہے کہ عورت ایک ندی کی طرح ہے جو کسی طرح کی پابندی کو برداشت نہیں کرسکتی اس کے دل میں بے شمار جذبات اور خواہشات ہیں اور وہ ان کو بغیر کسی روک ٹوک کے حاصل کرنا چاہتی ہے ناول میں مرد اور عورت کے جنسی اور جذباتی رشتے کو بڑی چابکدستی سے پیش کیا گیا ہے ۔’’ندی‘‘میں کل تین کردار ہیں ایک لڑکی،لڑکی کا باپ اور تیسرا کردار لڑکی کے شوہر کا ہے تینوں کے خیالات و جذبات کو ناول نگار نے کھل کر بیا ن کیا ہے اور اپنی فن کاری کا ثبوت پیش کیا ہے عورت کی ذہنی اور جسمانی آزادی کو ایک وسیع کینوس پر جو کوڈ اور استعارہ شموئل احمد نے فراہم کیا ہے اس کی تعریف کرنی ہوگی لیکن افسوس کہ ان کے دوسرے ناول ’’مہاماری‘‘کو زیادہ مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی۔شموئل احمد کا ایک اور سوانحی ناول’’اے دل آوارہ‘‘بھی ہے۔’’اردو کی نفسیاتی کہانیاں‘‘شموئل احمد کی ایک اہم کتاب ہے جس میں انھوں نے اردو کے ان افسانوں کی نشاندہی کی ہے جن میں نفسیاتی عناصر پائے جاتے ہیں۔
رحمٰن عباس:
رحمٰن عباس کا شمار عصر حاضر کے فعال فکشن نگاروں میں ہوتا ہے انھوں نے افسانے اور ناول دونوں میں طبع آزمائی کی ہے ان کی پہلی کہانی ’’گھابو کی بکری‘‘۱۹۷۷ء میں رسالہ ’شب خون‘میں شائع ہوئی۔رحمٰن عباس کی کہانیاں مہذب دنیا اور خدا کے وجود سے متعلق مکالمہ کرتی نظر آتی ہیں وہ مسلم گھرانوں کے ثقافتی ،خانگی اور تہذیبی رویوں سے ناراض نظر آتے ہیں اور اس کی خاص وجہ ہے اس معاشرے میں تبدیلی و ترقی کی مدھم رفتار ۔دراصل زیادہ تر مسلم گھرانے آج بھی پندرھویں صدی کی طرح زندگی گزار رہے ہیں ان کے پاس اپنی سہولت کے حساب سے ایک شرعی زندگی ہے جس میں مذہب کے علاوہ دنیا کی کوئی روشنی ان کے جہاں کو منور نہیں کرتی ۔ناولوں کی بات کریں تو اب تک رحمٰن عباس کے تین ناول منظر عام پر آچکے ہیں ’’نخلستان کی تلاش ‘‘ان کا پہلا ناول ہے جو ۲۰۰۴ء میں شائع ہوا۔’’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی‘‘ان کا دوسرا ناول ہے جو ۲۰۰۹ء میں شائع ہوا ۔یہ ناول بہت مشہور ہوااور اس کو ادبی حلقے میں کافی سراہا گیا۔اس میں مصنف نے کو کن کے ایک گاؤں ’سورل ‘کی کہانی پیش کی ہے جہاں کے بدلتے ہوئے سماجی،مذہبی اور معاشرتی پس منظر میں ایک رومانی کہانی کو انجام تک پہنچایا گیا ہے ۔ناول کی ہیروئن سکینہ ایک شادی شدہ مگر لا ولد خاتون ہے اس کا شوہر تبلیغی رحجانات کا حامل ہے ناول کا ہیرو عبدالعزیز سکینہ سے محبت کرتا ہے اور ان کی یہ محبت دونوں کوشادی کے بعد بھی چھپ چھپ کر ملنے پر مجبور کرتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے پیار کی نشانی سکینہ کی گود میں آجاتی ہے چنانچہ ناول میں یوسف کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہے یہ سکینہ اور عبدالعزیز کا بیٹا ہے جو حالات کے چلتے اپنے ناجائز باپ عبدالعزیزکا قتل کردیتا ہے دراصل رحمٰن عباس کرداروں کے ذریعہ ناول میں ایک ایسا ماحول بنا دیتے ہیں کہ قاری متاثر ہوئے بنا نہیں رہ پاتا۔اس ناول کا اسلوب بیانیہ ہے اس میں فلیش بیک اور فلیش فارورڈ تکنیک کا استعمال بہت ہی خوبصورتی سے کیا گیا ہے ناول کی مکمل فضا کوکن کے مسلمانوں کی مجموعی زندگی کی ترجمانی کرتی ہے لیکن دیکھا جائے تو یہ آج حاشیہ پر پھینکے گئے مسلمانوں کی آپ بیتی بھی ہے مصنف نے کوکن کے مسلمانوں کے بہانے آج کی سیاست کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے۔
’’خدا کے سائے میں آنکھ مچولی‘‘رحمٰن عباس کا تیسرا ناول ہے یہ ۲۰۱۱ء میں منظر عام پر آیا موضوع کی بے باکی اورطرز اسلوب کی ندرت کی وجہ سے یہ ناول زیر بحث رہا ۔کچھ نقادوں نے اس ناول کو پورنو ناول قرار د ے دیا حد تو تب ہوگئی جب مصنف کو نہ صرف اس سکول سے نکالا گیا جہاں وہ پڑھایا کرتے تھے بلکہ ممبئی کے ایک اخبار ’اردو ٹائمس ‘ میں ان کے خلاف ’کافر‘کا فتوٰی تک صادر کیا گیا لیکن فکریہ اعتبار سے یہ ایک بڑا ناول ہے اس لئے کہ اس میں ایک بڑی فکر اور بڑے وژن کا احاطہ کیا گیا ہے جس کو سمجھنے کے لئے حساس ذہن کا ہونا ضروری ہے ۔یہاں میں یہ بتانا لازمی سمجھتا ہوں کہ جب بھی کوئی ادیب بڑی تخلیق لے کر سامنے آتا ہے تو اس کی ستائش ہونی چاہئے تاکہ ا س کی حوصلہ افزائی ہوسکے اور وہ اپنی تخلیقی ذہانت کو اور وسعت دے سکے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ چند مطلب پرست لوگ ایسی تخلیقات کو اپنی تنگ نظری سے پرکھ کر حساس ادیب کے قلم کو کمزور کرنے کی سازش کرتے ہیں چنانچہ ایک باشعور ادیب کو چاہئے کہ وہ ایسے عناصر کی پرواہ کئے بغیر اپنی تخلیقی صلاحیتوںکو بروئے کار لائے اور سماج کو حقیقت کا آئینہ دکھا کر اپنی ذمہ داری کو پورا کرے۔ رحمٰن عباس کا ایک اور ناول ’’روحزن‘‘ہے یہ ناول اردو سے جرمن میں ترجمہ ہوچکا ہے اور جرمن پبلی کیشنز کی ویب سائٹ کے مطابق مئی ۲۰۱۸ء تک شائع ہوجائے گا۔ا س کے علاوہ رحمٰن عباس نے ۲۰۱۱ء میں سندیپ واسلیکر کی مراٹھی کتاب ’’ایک سمت کی تلاش ‘‘کا اردو ترجمہ بھی کیا ۔
نورالحسنین:
اس سلسلے میں اورنگ آباد مہاراشٹر کے فکشن نگارنورالحسنین کا نام بھی اہم ہے انھوں نے کہانیوں سے فکشن کے میدان میں قدم رکھا اور پھر ناول بھی لکھے۔نورالحسنین کے اب تک چار افسانوی مجموعے اور دو ناول شائع ہوچکے ہیں ’’سمٹتے دائرے‘‘ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جو ۱۹۸۵ء میں شائع ہوا ۔اس کے بعد ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ’’مور،رقص اور تماشائی‘‘۱۹۸۸ء میں،تیسرا مجموعہ’’گڑھی میں اترتی شام‘‘۱۹۹۹ء میں اور چوتھا افسانوی مجموعہ ’’فقط بیان تک‘‘۲۰۱۲ء میں سامنے آیا۔نورالحسنین کا پہلا ناول ’’اہنکار‘‘اور دوسرا ناول ’’ایوانوں کے خوابیدہ چراغ‘‘ہے جو بہت مقبول ہوا۔اس ناول میں ۱۸۵۷ء کے تاریخی واقعات کو موضوع بنایا گیا ہے غدر کے وقت پورے ہندوستان میں جو حادثات و واقعات رونما ہوئے تھے ناول نگار نے ان کو بڑے موثر انداز میں پیش کیا ہے اس میں عشق ومحبت کے چند واقعات بھی ہیں چنانچہ مصنف نے غدر کے واقعات میں محبت کی چاشنی ملا کر ان میں دلچسپی کا رنگ بھر دیا ہے ۔اس ناول کا پلاٹ کافی پیچیدہ ہے زبان و بیان کے اعتبار سے یہ ایک دلچسپ ناول ہے نورالحسنین نے تاریخی ناول لکھ کر ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔
اقبال مجید:
اقبال مجیدنے ۱۹۷۰ء کے عشرے میں بطور افسانہ نگار اپنی شناخت بنائی۔ان کے افسانوی مجموعوںمیں ’’دو بھیگے ہوئے لوگ‘‘(۱۹۷۰)،’’ایک حلفیہ بیان‘‘(۱۹۸۰)،’’شہر بد نصیب‘‘(۱۹۹۷)اور’’تماشا گھر‘‘(۲۰۰۳)وغیرہ قابل ذکر ہیںاس کے علاوہ اسٹیج ڈراموں کا ایک مجموعہ’’کتے‘‘بھی ان کے نام سے منسوب ہے۔ان کے افسانے روایتی اسلوب سے ہٹ کر ہیں جسے ہم ان کے عہد کے اسلوبیاتی تبدیلی کا پیش خیمہ کہہ سکتے ہیں لیکن یہ بھی ہے کہ افسانہ نگاری میں ان کو زیادہ کامیابی ہاتھ نہیں آئی ۔ان کی شہرت و مقبولیت کا باعث ان کے ناول ہیں اب تک ان کے دو ناول منظر عام پر آچکے ہیں ۔’’کسی دن‘‘ان کا پہلا ناول ہے یہ ۱۹۹۲ء میں شائع ہوایہ ۱۱۵صفحات پر مشتمل ایک مختصر سا ناول ہے جسے ہم ناولٹ بھی کہہ سکتے ہیں یہ ناول اپنے وقت کے سیاسی،سماجی،معاشی اور اقتصادی سطح پر تغیر پذیر اقدار کی عکاسی کرتا ہے اور اس میں انسانی زندگی کی پیچیدگیوں کو سیاسی فضا کے ساتھ پیش کیا گیا ہے جہاں تہذیبی اور انسانی اقدار کا خاتمہ ہورہا ہے یہ ناول ہندوستان کے ان سیاسی افراد کی قلعی کھولتا ہے جو اس سیکولر اور جمہوری ملک میںمکھوٹا پہن کر منافقانہ رویہ اختیار کر کے منافرت و تشددکی فصل کاٹ رہے ہیں اس طرح معمولی سے معمولی مسئلہ پر آج جس طرح کی سیاست ہورہی ہے اور لوگ ایک دوسرے کو جس طرح سے بے وقوف بنا رہے ہیں وہ اس ناول سے صاف طور پر واضح ہو جاتا ہے ۔اس ناول کے ذریعہ مصنف نے نہ صرف اپنے وقت کے سیاسی قائدین کے مکر وفریب اور ریا کاری میں آلودہ چہروں کو سامنے لایا ہے بلکہ متوسط طبقہ کے مسلم معاشرے کی بے بسی ولاچاری کا مشاہدہ ومطالعہ بھی بحسن وخوبی کیا ہے چنانچہ ایک طبقہ خوف و دہشت اور نفرت وعداوت کے بیج بو کر مسلمانوں کو نفسیاتی سطح پر کمزور کرتا جارہا ہے جس سے مسلمان خود کو بے بس اور ڈرا سہما محسوس کررہا ہے بہر کیف سیاسی ودھائکوں اور منتریوں کے دوغلے پن کو ناول میں جس باریک بینی سے پیش کیا گیا ہے اس سے ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں کی حقیقی تصویر توابھر کر سامنے آہی جاتی ہے ساتھ ہی ایسے عناصر کا بھی ذکر کیا گیا ہے ہے جن سے ہندو مسلم دونوں طبقوں میں ناراضگی پیدا ہوسکتی ہے اس طرح کی سیاست کتنی بھیانک ثابت ہوسکتی ہے اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے موضوع،زبان و بیان اور اسلوب کے اعتبار سے یہ ایک کامیاب ناول ہے ۔اقبال مجید کا ایک اور ناول’’نمک‘‘ہے یہ ۱۹۹۹ء میں منظر عام پر آیا۔یہ ناول۱۳۷صفحات پر مشتمل ہے اس ناول میں موجودہ معاشرہ کے نامساعداورغیر متوازن حالات ،قدیم روایات سے انحراف،سماجی،معاشی اور تہذیبی سطح پر بنتے بگڑتے نئے پرانے اصولوں کا ٹکراؤ اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل کے علاوہ صارفی دنیا کا تہذیب و ثقافت پر بڑھتا ہوا اثر و رسوخ وغیرہ سب کچھ دیکھا جاسکتا ہے ۔جنریشن گیپ اور تہذیبوں کے مابین تصادم اور کشمکش کو ا س ناول میں نہایت ہی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔
اشرف شاد:
عصر حاضر کے ناول نگاروں میں آسٹریلیا میں مقیم پاکستانی ادیب اشرف شادکا نام بھی قابل ذکر ہے انھوں نے اپنے ناولوں میں موجودہ پاکستان کے حقیقی منظر نامے کو سامنے لایا ہے ان کے ناولوں میں ’’بے وطن‘‘،’’وزیراعظم‘‘اور ’’صدراعلٰی‘‘شامل ہیں۔’’بے وطن‘‘۱۹۹۷ء میں شائع ہوایہ ناول دراصل ان پاکستانیوں کی کہانی ہے جو نا جائز طریقوں سے آسٹریلیا میں داخل ہوکرروزگار اور شہریت حاصل کرنے کی دوڑ میںمصروف رہتے ہیںیہ لوگ مغربی طرز کی جدید سوسائٹی میں خود کو Transplantکرنے کی کوشش کرتے ہیںاور اکثر ناکام رہتے ہیں۔ان کا دوسرا ناول’’وزیراعظم‘‘۱۹۹۹ء میں منظر عام پر آیا یہ ناول پاکستان کے سیاستدانوں،افسروں اور فوجی عہدہ داروں کی ہوس اقتدار اور سازشی کاروائیوں کو بے نقاب کرتا ہے ۔’’صدر اعلٰی‘‘میں بھی پاکستانی معاشرہ کے مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے چنانچہ آج کے پاکستان کا چہرہ دیکھنا ہو تو اشرف شاد کے ان ناولوں کا مطالعہ کرنا بے حد اہم ہوجاتا ہے اس چہرے میں پیار و محبت کی کہانیوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے یہ دہشت گردی،ظلم وجبر اور گندگی سے بھرا چہرہ ہے پاکستان کے اس ناپاک چہرے کو ادب کے آئینے میں دکھانا کسی بھی ادیب کے لئے ایک چنوتی کا کام ہے اور اشرف شاد نے اس چیلنج کو بخوبی قبول کیااور نبھایا ہے اشرف شاد کے ان تینوں ناولوں میں صرف پاکستانی آمریت کی جھلک ہی نہیں ہے بلکہ اس کے پس پردہ عالمی نظام اور مسائل کا وہ چہرہ بھی محسوس کیا جاسکتا ہے جو سپر پاور ہونے کی آڑ میں آہستہ آہستہ کمزور ممالک کو نگلتا جارہا ہے۔
پیغام آفاقی:
ذوقی کے ہم عصر فکشن نگاروں میں پیغام آفاقی کا نام ایک خصوصی اہمیت کا حامل ہے انھوں نے چند افسانے اور دو ناول لکھے جنھیں زبردست پذیرائی ملی اس کے علاوہ انھوں نے کچھ نظمیں بھی لکھی ہیں ان کی نظموں کا مجموعہ ’’درندہ‘‘کے نام سے چھپ چکا ہے۔ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ ’’مافیا‘‘کے نام سے شائع ہواوہ حیات وکائنات کے ان پہلوؤں کو اپنے افسانے کا موضوع بناتے ہیں جو پورے سماج کو تنزلی کی کھائی میں ڈھکیل رہے ہیں ایسے مسائل کی تہہ تک پہنچنا ان کے فن کا خاص وصف ہے ۔’’کو آپریٹو سوسائٹی‘‘ان کا ایک مشہور و مقبول افسانہ ہے۔اس افسانے کا تعلق سماجی ڈسکورس سے ہے مصنف نے سماج کے اندر پائی جانے والی ان برائیوں کو ہدف تنقید بنایا ہے جو ہمارے سماج کو کھوکھلا بنائے جارہی ہے اس افسانے کا اسلوب اتنا دلکش ہے کہ قاری اس میںپوری طرح بندھ جاتا ہے کہیں کوئی پیچیدگی نہیں ہے کہانی میں بیانیہ انداز اپنایا گیا ہے تاہم پیغام آفاقی کی اصل شناخت ان کے ناولوں کی وجہ سے ہے ان کے دو ہی ناول منظر عام پر آئے اس کے علاوہ انھوں نے طالب علمی کے زمانے میں ایک ناولٹ ’راگنی‘کی تخلیق کی مگر وہ شائع نہیں ہوسکا۔ناول ’’مکان‘‘لکھ کر پیغام آفاقی نے شہرت دوام حاصل کی ۔یہ ناول ہندوستان کے بڑے شہروں کی جدید ترین معاشرت کی بظاہر خوشنما اور پرکشش زندگی کے اندر چھپے کرپشن،لاقانونیت اور اخلاقی بے راہ روی کی نشاندہی کرتا ہے ’’مکان‘‘دراصل ہندوستانی معاشرے کی ان مثبت قدروں کی علامت ہے جو آزادی کے بعد بد عنوان رہنماؤں اور افسروں کے مکر وفریب کی وجہ سے رفتہ رفتہ دم توڑتی جارہی ہیں لیکن یہ قدریں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ ان ہی پر ملک اور معاشرے کا پورا مکان کھڑا ہے اگر ان قدروں ،ان جڑوں کو ہی ختم کردیا جائے تو مکان کھوکھلا ہوجائے گامصنف اپنے اس ناول میں یہ تعمیری پیغام دینے میں ہر طرح سے کامیاب نظر آتے ہیں۔’’مکان‘‘ایک مکان مالک نیرااور اس کے کرایہ دار کمارکی کہانی ہے جو نیرا کے مکان پر زبردستی قبضہ کرلیتا ہے اور اس کو اپنے مکان سے بے دخل کرنے کے غلط حربے استعمال کرتا ہے نیرا ایک شریف لڑکی ہے وہ میڈیکل سائنس کی طالبہ ہے جس پر گھر کی ساری ذمہ داری ہے مردانہ بالادستی کے باوجود نیرا کمارسے مسلسل ٹکراتی رہتی ہے آخر کار اس احتجاج اور جدوجہد میں نیرا اپنے ایمان،صداقت اور استقامت کے ذریعہ اپنا مکان حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے اس ناول میں مصنف نے سادہ زبان استعمال کی ہے تکنیک سیدھی سادی ہے ناول میں کوئی انوکھا تجربہ نہیں کیا گیا ہے مگر احتجاج اور حالات سے لڑنے کی جو جرأت مندانہ کوشش اس ناول میں زریں لہروں کی طرح دوڑتی رہتی ہے وہ اس کے اسلوب کو اور نکھار دیتی ہے ۔’’مکان ‘‘کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی حکومت نے اس کتاب کا ترجمہ انگریزی میں کروانے کے لئے فیلو شپ جاری کیا تھا اردو کے بہت کم ناول نگاروں کو یہ مقبولیت حاصل ہوپائی ۔پیغام آفاقی کا دوسرا اور اہم ناول ’’پلیتہ‘‘ہے یہ ناول ۲۰۱۱ء میں شائع ہوا۔اس میں حاکم اور محکوم کے رشتے کی وضاحت کی گئی ہے مصنف نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح ظالم و جابر حکمران مظلوم و بے گناہ عوام پر ظلم ڈھاتے ہیں اور ان کا استحصال کرتے ہیں ۔اردو فکشن کا یہ ستارہ سال ۲۰۱۶ء میں ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا لیکن ان کی تخلیقات قارئین کے مطالعہ کا حصہ بنی رہیں گی اور فکشن کے تئیں ان کی خدمات کا اعتراف ہوتا رہے گا ۔
عبدالصمد:
عبدالصمدنے ۱۹۷۰ء کے آس پاس لکھناشروع کیا لیکن صحیح معنوں میں ان کی شناخت ۱۹۸۰ء کے بعد ہی قائم ہوئی اب تک ان کے پانچ سے زائد افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔’’بارہ رنگوں والا کمرہ‘‘(۱۹۸۰)،’’پس دیوار‘‘(۱۹۸۳)،’’سیاہ کاغذ کی دھجیاں‘‘(۱۹۹۵)،’’میوزیکل چئیر‘‘(۲۰۰۲)اور’’بقلم خود‘‘(۲۰۱۳)شامل ہیں ۔’سحرالبیان‘،’نجات‘،’آگ کے اندر راکھ‘،’شہر بند‘،’وسیلہ‘اور ’مراتھن‘ان کی مشہور و مقبول کہانیاں ہیں ۔عبدالصمد کے افسانوں کے موضوعات سماج میں پھیلی ہوئی تلخ سچائیاں ہیں ان کے افسانے یہاں ماضی کی شاندار یادوں کا مرقع ہیں وہیں زمانہ حال میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا اشاریہ بھی۔ساتھ ہی ان میں خوش آئند مستقبل کے روشن نقوش بھی موجود ہیں ۔ثقافتی،تہذیبی،سیاسی اور معاشرتی تبدیلیوں کے باعث پیدا ہونے والے حالات عبدالصمد کو جھنجھوڑتے ہیں اور وہ ان سے متاثر ہو کر لکھنا شروع کردیتے ہیں ۔افسانوں کے مقابلہ میں انھوں نے ناول میں زیادہ کامیابی حاصل کی ۔’’دو گز زمین ‘‘ان کا پہلا ناول ہے یہ ۱۹۸۸ء میں شائع ہوا۔یہ ناول اتنا مشہور ہوا کہ لوگ عبدالصمد کو آج بھی اسی ناول سے یاد کرتے ہیں اس ناول پر انھیں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے ’’دو گز زمین‘‘یوں تو بہار شریف کے ایک مشہور گاؤں ’بین‘میں مقیم شیخ الطاف حسین کے خاندان کی المناک کہانی کو پیش کرتا ہے لیکن یہ صرف ایک خاندان کی داستان نہیں بلکہ ہندوستان کے ان لاکھوں مسلم خاندانوں کے بنیادی مسائل کا احاطہ کرتا ہے جو تحریک آزادی اور تقسیم کے المیہ کا شکار ہو گئے تھے یہ دراصل حقائق پر مبنی ایک فکر انگیز ناول ہے جو ذات پات کی ہولناکیوں کا تجزیہ پیش کرتا ہے اور علامتی طور پر مسلمانوں کو ماضی کے تلخ تجربات کا احساس دلا کر ایک نئے سانچے میں ڈھلنے کا اشارہ کرتا ہے ’’دو گز زمین‘‘خوبصورت بیانیہ کا اعلٰی نمونہ ہے ۔عبدالصمد کا دوسرا ناول ’’مہاتما‘‘ہے یہ ۱۹۹۲ء میں شائع ہوا ۔اس میں مصنف نے تعلیمی اداروں میں پھیلی ہوئی بد عنوانیوں کو نہایت ہی فنکاری کے ساتھ پیش کیا ہے ۔’’خوابوں کا سویرا‘‘عبدالصمد کا تیسرا ناول ہے یہ ۱۹۹۶ء میں منظر عام پر آیا یہ ناول موجودہ ہندوستان میں پیدا شدہ نئے مسائل کو پیش کرتا ہے جن میں سیاست،اعتدال کی کمی،سماجی زندگی کی پیچیدگیاں،فرقہ پرستی اور مذہب کا سہارا لے کر فسادات کروانا وغیرہ شامل ہیں اس کے علاوہ عبدالصمد کے چار اور ناول منظر عام پر آکر داد تحسین وصول کرچکے ہیں جن میں’’مہاساگر‘‘(۱۹۹۹)،’’دھمک‘‘(۲۰۰۵)،’’بکھرے اوراق‘‘(۲۰۱۰)اور’’شکست کی آواز‘‘(۲۰۱۳)قابل ذکر ہیں ۔اس اجمالی جائزے میں ان کے تمام ناولوں پر تفصیلی روشنی ڈالنا ممکن نہیں ہے بہر حال عبدالصمد کا تخلیقی سفر ابھی جاری ہے اور ان سے اردو فکشن کی بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں۔
حسین الحق:
مشرف عالم ذوقی اپنے ہم عصروں میں حسین الحق کا نام بھی لیتے ہیں حسین الحق نے ابتداء میں بچوں کے لئے کہانیاں لکھنا شروع کی ان کی پہلی کہانی’کلیاں‘۱۹۶۳ء میں شائع ہوئی۔اب تک ان کے لگ بھگ ڈیڑھ سو سے زائد افسانے شائع ہوچکے ہیں ان کے افسانوی مجموعے’’پس پردہ شب‘‘،’’صورت حال‘‘،’’گھنے جنگلوں میں‘‘،’’مطلع‘‘اور’’سوئی کی نوک پر رکا لمحہ‘‘منظر عام پر آکر داد تحسین وصول کرچکے ہیں۔’آتم کتھا‘،’گونگا بولنا چاہتا ہے‘،’استعارہ‘اور’سدھیشور بابو حاضر ہوجائیں ‘وغیرہ ان کی مشہور کہانیاں ہیں۔
ان کی افسانہ نگاری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ماضی سے اپنے آپ کو کلی طور پر منقطع نہیں کرتے بلکہ ماضی کے آیئنے میں حال کی تصویر دیکھتے ہیں ان کے افسانوں کا ایک بڑا حصہ تاریخی حقائق پر مبنی ہے اور اس طرح وہ تاریخی سچائیوں کو اپنی کہانیوں کے ذریعہ دور حاضر کے تناظر میں فٹ کرکے ایک نیا ڈسکورس قائم کرتے ہیںافسانے کے علاوہ حسین الحق نے ناول کے میدان میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں ان کے دو ناول ’’بولو مت چپ رہو‘‘اور ’’فرات‘‘ہے ان میں ’’فرات‘‘کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔’’بولو مت چپ رہو‘‘حسین الحق کا پہلا ناول ہے یہ ۱۹۹۰ء میں شائع ہوا اس ناول میں تعلیمی نظام کے مختلف مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے ناول نگار نے ایک مدرس یا ٹیچر کی عینک لگا کر موضوع کے حوالے سے پورے تعلیمی ڈھانچے کو طنز کا نشانہ بنایا ہے ساتھ ہی ہمارے موجودہ تعلیمی نظام میں جس طرح کی بدعنوانیاں اور برائیاں عام ہوگئی ہیں ان کی نشاندہی کرنے میں مصنف نے جو فنکاری کی ہے وہ کمال کی ہے اس کے علاوہ کرپشن،گمراہی،ہوسناکی اور عیش پرست معاشرے کی سفاکیوں سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے اس ناول کا مرکزی کردار افتخارالزماں ہے جو اعلٰی اقدار و روایات کا پاسدار ہے ناول کے آغاز سے انجام تک متعدد اشعار اور موقع و محل کے لحاظ سے فلسفیانہ جملوں اور مکالموں کا استعمال کیا گیا ہے جس سے ناول نگار کی دانشمندی،شاعرانہ شعور اور فلسفیانہ بصیرت کا احساس ہوتا ہے ۔حسین الحق کا دوسرا ناول ’’فرات‘‘ہے جو ۱۹۹۲ء میں منظر عام پر آیا یہ ناول ۲۹۶ صفحات پر مشتمل ہے اس میں مصنف نے تین نسلوں کی زندگی کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے ناول کا مرکزی کردار وقار احمد ہے پہلی نسل وقار کے والد کی ہے دوسری وقار کی اور تیسری اس کے بیٹے فیصل ،تبریز اور بیٹی شبل کی ہے ۔’’فرات‘‘کی کہانی بظاہر ایک خاندان کی کہانی کی طرح ابھرتی ہے لیکن آہستہ آہستہ اس کا کینوس وسیع ہوتا جاتا ہے اور پھر اس میں ماضی کادرد،جنریشن گیپ،مذہب،سیاست،تہذیب اور اخلاقیات غرض زندگی کے مختلف پہلوؤں کے دور کھلتے چلے جاتے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ قاری کی دلچسپی ناول کے آخری صفحات تک مسلسل برقرار رہتی ہے اس ناول میں تقسیم ملک،فسادات اور ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے حوالے سے تلخ حقائق اور مسائل کو بھی بڑی فنکاری کے ساتھ پیش کیا گیا ہے یہ ناول شعور کی رو اور فلیش بیک کی تکنیک میں لکھا گیا ہے مصنف نے اس ناول میں لفظوں کے ذریعہ ایسی فضا کی تخلیق کی ہے جس کی آرائش و زیبائش ،حسن وجمال،دلکشی اور دلفریبی،سادگی اور روانی کے سحر میں قاری ناول ختم کرنے کے بعد بھی گرفتار رہتا ہے۔
علی امام نقوی:
علی امام نقوی کا شمار بھی ذوقی کے ہم عصرفکشن نگاروں میں ہوتا ہے انھوں نے افسانے اور ناول کی دنیا میں اپنا نام پیدا کیا ان کے چار افسانوی مجموعے’’نئے مکان کی دیمک‘‘(۱۹۸۰)،’’مباہلہ‘‘(۱۹۸۸)،’’گھٹتے بڑھتے سائے‘‘(۱۹۹۳)اور’’موسم عذابوں کا‘‘(۱۹۹۸)منظر عام پر آچکے ہیں ناول کے میدان میں وہ کچھ زیادہ کارہائے نمایاں تو انجام نہیں دے سکے لیکن پھر بھی اپنے دو ناولوں ’’تین بتی کے راما‘‘(۱۹۹۱)اور’’بساط‘‘(۲۰۰۰)لکھ کر وہ فکشن کی دنیا میں شہرت دوام حاصل کرنے میں کامیاب ہی نظر آتے ہیں۔
’’تین بتی کے راما‘‘میں ممبئی کے علاقہ تین بتی کے معاشرے کی عکاسی کی گئی ہے مصنف نے نہایت ہی چابکدستی کے ساتھ وہاں کے امراء،مالداروںاور سیٹھوں کے کالے کارناموں،استحصال زدہ راماؤں،مفلوک الحال عورتوں کے جنسی استحصال،مردوں کی بے راہ روی ،سیاسی پارٹیوں میں ہونے والی بد اعمالیوںاور بمبئی کی دیگر لغویات و فضولیات کو راماؤں کی زبانی بمبئی کے خاص لہجے اور انداز میں پیش کیا ہے مصنف نے اس ناول میں جو زبان استعمال کی ہے وہ اس طبقے کی نمائندگی کرتی ہے جس سے تین بتی کے راما تعلق رکھتے ہیں ناول کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ علی امام نقوی کو راماؤں کی زندگی ،ان کی نفسیات اور ان کے روز مرہ مشا غل سے مکمل واقفیت ہے اور وہ اس پر دسترس بھی رکھتے ہیں۔
’’بساط‘‘بھی علی امام نقوی کا ایک اہم ناول ہے یہ ناول ۱۴۸صفحات پر مشتمل ہے جس میں مختلف کرداروں مثلاًظفر،خورشیداور بختیار وغیرہ کے ذریعہ ایک طرف جہاں گھریلو اور خانگی مسائل سے پیدا شدہ حالات کی عکاسی کی گئی ہے وہیں دوسری طرف کشمیر جو کہ صدیوں سے آزادی کا خواہشمند ہے اور خود مختار ریاست کا حامی ہے اس کے مسائل کا بھی ذکر کیا گیا ہے دراصل ہندوستان جو سب سے بڑا جمہوری اور سیکولر ملک ہے اس کی جمہوریت اور سیکولرازم پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے یہ بات آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ ہمارا ملک صرف آئین کی حد تک سیکولر اور جمہوری ہے ورنہ اگر ہم عملی زندگی میں دیکھیں تو یہ چیزیں کم ہی نظر آتی ہیں کیونکہ آج وادی کشمیر سے لے کر ملک کے کونے کونے تک ہر حساس فرد ملک کے نظام کے خلاف اپنے دل و دماغ میں غم و غصہ محسوس کرتا ہے بہر حال نقوی کا یہ ناول زبان وبیان اور اسلوب کے لحاظ سے سادہ اور آسان ہے پورا ناول مکالموں سے پر ہے اور یہ مکالمے ہی ناول کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
غضنفر:
غضنفرعہد حاضر کے ایک ممتاز فکشن نگار ہیں وہ طالب علمی کے زمانے سے ہی ادب کی طرف مائل رہے ۔پہلے انھوں نے شاعری شروع کی ان کی تقریباًدوسو غزلیں مختلف رسائل میں شائع ہو چکی ہیں پھر افسانے لکھے ان کا پہلا افسانہ ’’ٹیری کاٹ کا سوٹ‘‘رسالہ’بڑھتے قدم‘میں ۱۹۷۳ء کے آس پا س شائع ہوا۔’’خالد کا ختنہ‘‘’’تانابانا‘‘’’سانڈ‘‘اور’’دل کی دیوار‘‘ ان کے مشہور افسانے ہیں ۔ان کے دو افسانوی مجموعے ’’حیرت فروش‘‘اور’’پارکنگ ایریا‘‘بہ ترتیب ۲۰۰۵ء اور ۲۰۱۶ء میں شائع ہوئے۔غضنفر کے کئی ناول بھی منظر عام پر آچکے ہیں ان کا پہلا ناول’’پانی‘‘۱۹۸۹ء میں شائع ہوا پھر’’کینچلی ‘‘۱۹۹۳ء ’’کہانی انکل‘‘۱۹۹۷ء’’دویہ بانی‘‘۲۰۰۰ء’’فسوں‘‘۲۰۰۳ء ’’وش منتھن‘‘۲۰۰۴ء ’’مم‘‘۲۰۰۷ء ’’شوراب‘‘۲۰۰۹ء اور’’مانجھی‘‘۲۰۱۲ء شائع ہو کر قارئین کی توجہ کا مرکز بنے۔’’دویہ بانی‘‘غضنفر کے باقی ناولوں سے موضوع،زبان اور قصہ کی گہرائی اور انفرادیت کی بناء پر بالکل الگ ہے مصنف نے اس ناول میں ہندوستان کے عصری ثقافتی منظر نامے کو اس کی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ پیش کیا ہے ترقی کے بڑے بڑے دعوؤں کے باوجود ہمارا معاشرہ آج بھی کس طرح کے فرسودہ عقائد سے دوچار ہے اس بات کا اندازہ ناول کے مطالعہ سے بخوبی ہو جاتا ہے یہ ناول کئی زمانوں پر محیط ہے اور ہندوستان میں مذہب کی آڑ میں جس طرح انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے اس کی قلعی کھولتا ہے غضنفر نے صدیوں پر محیط اس کرب کو محسوس کرکے اس پر ناول کی عمارت کھڑی کی ہے اور مخصوص برہمن ہندو سماج کی تنگ نظری اور ہٹ دھرمی کے خلاف احتجاج کیا ہے ناول میں دلت سماج کے لوگوں پر ہورہے مظالم اور نا انصافیوں کو بروئے کار لانے کی کوشش کی گئی ہے اس میں ایسی تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے جس کے ذریعہ قاری ایک زمانے سے دوسرے زمانے تک ناول نگار کے ساتھ چل کر سفر کرتا ہے اس طرح یہ تکنیک کئی معنوں میں روایتی ناول کی تکنیک سے مختلف ہے ناول کا اسلوب استعاراتی،علامتی اور تمثیلی ہے چونکہ غضنفر ایک اچھے شاعر بھی ہیں لہٰذا انھوں نے اس ناول میں اپنی شاعری کا بھرپور استعمال کیا ہے یوں تو پورا ناول ہی اپنے موضوع کی مناسبت سے ہندی زبان اور ہندی اسلوب میں لکھا گیا ہے مگر کہیں کہیں ایسی خالص ہندی اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں جو ہندی سے نابلد قاری کے لئے پریشانی کا سبب بنتی ہیں تاہم ناول نگار کی وسعت نگاہ،مشاہدہ کی باریکی اور ہندی و اردو زبان کے خوبصورت امتزاج سے ’’دویہ بانی‘‘کا اسلوب منفرد،دلکش اور ناقابل فراموش بن جاتا ہے۔غضنفر کا ایک ڈرامہ ’’کوئلے سے ہیرا‘‘۱۹۷۱ء میں شائع ہوا۔انھوں نے چند تنقیدی کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں ’’مشرقی معیار نقد‘‘،’’زبان و ادب کے تدریسی پہلو‘‘،’’تدریس شعر و شاعری‘‘اور’’فکشن سے الگ ‘‘اہمیت کی حامل ہیں۔غضنفر کا ایک شعری مجموعہ ’’آنکھ میں لکنت‘‘کے عنوان سے ۲۰۱۵ء میں شائع ہوا۔اس کے علاوہ انھوں نے دو خاکے ’’سرخ رو‘‘اور’’روئے خوش رنگ‘‘بھی لکھے جو بہ ترتیب ۲۰۱۰ء اور۲۰۱۵ء میں منظر عا م پر آئے۔
شفق:
شفق کا شمار دور حاضر کے صف اول کے فکشن نگاروں میں ہوتا ہے وہ دوران تعلیم ہی ادب میں دلچسپی لینے لگے تھے ابتداء میں انھوں نے چند نظمیں بھی لکھیں مگر یہ صنف ان کی طبیعت کو راس نہیں آئی اور وہ مکمل طور پر فکشن کی طرف متوجہ ہوگئے۔’’میں قاتل ہوں‘‘ان کا پہلا افسانہ ہے جو کلکتہ کے معروف رسالہ’سوز‘میں ۱۹۶۲ء میں شائع ہوا۔شفق کا پہلا افسانوی مجموعہ’’سمٹتی ہوئی زمین‘‘ہے جو ۱۹۷۹ء میں منظر عام پر آیااس کے علاوہ ’’سگ گزیدہ‘‘۱۹۸۴ء ’’شناخت‘‘۱۹۸۹ء اور’’وراثت ‘‘۲۰۰۳ء میں شائع ہوا۔’’آخری پڑاؤ‘‘’’فرصت کے دن‘‘’’مہاجر پرندے‘‘’’کھڑکی‘‘’’شناخت‘‘’’دوسرا کفن‘‘اور’’چٹکی بھر زندگی‘‘شفق کے مشہور و مقبول افسانے ہیں۔ان کا پہلا ناول ’’کانچ کا بازی گر‘‘ہے جو پہلی بار۱۹۸۲ء اور دوسری بار ۲۰۱۰ء میں شائع ہوا۔ان کا دوسرا ناول ’’بادل‘‘۲۰۰۲ء اور تیسرا ’’کابوس‘‘۲۰۰۳ء میں شائع ہوا۔شفق نے عام طور پر سماجی رشتوں اور عالمی دہشت پسندی سے وابستہ واقعات و حادثات کو اپنی کہانیوں اور ناولوں کا موضوع بنایا ہے ان کی تخلیقات میں انسانیت کا پیغام نمایاں طور پر نظر آتا ہے ۔شفق کا اہم ناول’’بادل‘‘ہے اس میں انھوں نے موجودہ عہد کے مسلمانوں کی بے چینی اور عالمی سطح پر جنگ اور فساد کے بڑھتے رحجان کی وجہ سے جو مسائل سامنے آئے ہیں ان پر بھرپور روشنی ڈالی ہے مصنف نے جہاں ملک کے اندرونی حالات اور بڑھتی ہوئی مذہبی تفریق کی نشاندہی کی ہے وہیں امریکی سامراجی ذہنیت کا بھی پردہ فاش کیا ہے ۔ناول میں ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملے کا واقعہ بھی پیش کیا گیا ہے اس حادثے کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کو جن پریشانیوں اور جن جن سوالات سے جوجھنا پڑا ان تمام مسائل کو شفق نے بڑے کرب ناک انداز میں نہایت ہی فنکاری کے ساتھ پیش کیا ہے مصنف نے ناول کو دلچسپ بنانے کے لئے خالد اور سلمہٰ کے عشق کا سہارا لیا ہے اور اس طرح ایک عشقیہ کہانی کے ارد گرد جنگ،فسادات اور کشیدہ حالات کے تانے بانے کو بنا گیا ہے ناول میں خالد اور سلمہٰ کے علاوہ نعیم کا کردار بھی اہم ہے جو کہانی کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے ناول کی زبان صاف ستھری اور عین کرداروں کے مطابق ہے اس کے مکالمے کہانی کو حقیقت میں بدلنے والے ہوتے ہیں ناول پڑھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے ناول میں بار بار بادل کا آنا کہانی میں مختلف شیڈ پیدا کرتا ہے جس کے باعث قاری کا تجسس بڑھ جاتا ہے شفق کے اس ناول کو پڑھنے کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ناول یقینا ناول نگاری کے باب میں ایک اضافہ ہے۔
ترنم ریاض:
۱۹۸۰ء کے بعد نمائندہ ناول نگاروں میں ریاست جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والی ممتاز فکشن نگار ترنم ریاض بھی شامل ہیں افسانہ اور ناول کے علاوہ صحافت،تنقید اور شاعری کے میدان میں بھی وہ اپنی ادبی صلاحیتوں کا مظاہرہ کررہی ہیں تنقید و تحقیق سے متعلق ان کی کتابیں ’’بیسویں صدی میں خواتین کا اردو ادب‘‘اور’’چشم نقش قدم‘‘قابل ذکر ہیں اسی طرح ’’پرانی کتابوں کی خوشبو‘‘اور’’حکایت حرف تمنا‘‘ان کے شعری مجموعے ہیں۔ترنم ریاض کے چار افسانوی مجموعے’’یہ تنگ زمین‘‘’’ابابیلیں لوٹ آئیں گی‘‘’’یمبرزل‘‘اور’’مرا رخت سفر‘‘کے نام سے شائع ہوچکے ہیںان کے افسانوں میںنئی بدلتی ہوئی عورت کو آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے ان کی شروعاتی کہانیوں میںروایتی اثر نمایاں طور پر نظر آتا ہے مگر آہستہ آہستہ انھوں نے اپنے افسانوں کو نئے اسلوب اور نئے ڈھانچے میں پرونا شروع کیا ۔’’یہ تنگ زمین‘‘ان کا شاہکار افسانوی مجموعہ ہے جس میں ایک عورت کی بے بسی کی کامیاب عکاسی کی گئی ہے ’’ساحلوں کے اس طرف‘‘ان کا ایک ناقابل فراموش افسانہ ہے جس میں ایک بالکل نئی عورت ایک نئی تہذیب ہمارے سامنے ہے نئی دنیا اور فیمنزم کے موضوع پر اس سے بلند اور خوبصورت کہانی شاید ہی کسی زبان میں لکھی گئی ہواس کہانی میں عورتوں کی کئی دنیائیں آباد ہیںاور کتنی ہی نسائی تحریکیں بھی اس کہانی کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہیںشیری اس افسانے کا مرکزی کردار ہے جس کے سہارے مصنفہ نے عورتوں کے مسائل کی ترجمانی کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔
ترنم ریاض کے اب تک دو ناول’’مورتی‘‘اور’’برف آشنا پرندے‘‘منظر عام پر آچکے ہیںان کا پہلا ناول’’ مورتی‘‘۲۰۰۴ء میںشائع ہوا اسے ناولٹ بھی کہا جاسکتاہے اس ناول میں ایک تعلیم یافتہ اور حسین و جمیل لڑکی ملیحہ کی کہانی پیش کی گئی ہے جس کی شادی ایک کاروباری ذہن رکھنے والے بد ذوق انسان سے ہوجاتی ہے ملیحہ بے حد حساس اور نازک لڑکی ہے جبکہ اس کے شوہر کے اندر جذبات واحساسات کی کوئی گنجائش نہیں ہے ملیحہ کا شوہر بے حد دولت مند ہے وہ ملیحہ کے ظاہر ی حسن کو تو محسوس کرتا ہے لیکن اس کے اندرکے فنکار کو نہیں پہچان پاتا ۔اس ناول کا اختتام المناک انداز میں ہوتا ہے ترنم ریاض کا بیانیہ بے حد پرتاثر اور تہہ دار ہے یہ ناول استعاراتی انداز میں بیان کیا گیا ہے ترقی کے بڑے بڑے دعوؤں کے باوجود آج بھی ہمارا سماج جن وسوسوں اور فرسودہ عقائد میں گھرا ہوا ہے اس کی ترجمانی’’مورتی‘‘میں بڑی کامیابی سے کی گئی ہے۔
ترنم ریاض کا تازہ ترین ناول’’برف آشنا پرندے‘‘ہے یہ ناول ۲۰۱۰ء میں شائع ہوا۔اس ناول کا موضوع مسئلہ کشمیر ہے مصنفہ نے اس ناول کی رو سے کشمیریوںکے حالات زندگی کا نہایت ہی خوبصورتی سے تجزیہ کیا ہے یہ ناول سنجیدہ موضوع کے ساتھ ایک جرأت مندانہ قدم ہے اس ناول میں انھوں نے کشمیر کی سیاسی،سماجی اور معاشرتی تہذیب کی پانچ ہزار سالہ تاریخ کو مختصراً مگر دلچسپ پیرائے میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے ناول کا پلاٹ کافی پھیلا ہوا ہے زبان سادہ اور سلیس ہے جس میں ہندی،اردو،پنجابی اور انگریزی کے الفاظ کا حسین امتزاج شامل ہے ۔شیبا ا س ناول کا مرکزی کردار ہے اس کردار میں کشمیر کی زندگی کے وہ پہلو مبہم انداز میں دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں غربت کی وجہ سے عورتوں پر ہورہے مظالم کو کہانی کی شکل میں دکھایا گیا ہے اور ساتھ ہی مسئلہ کشمیر کو بھی مدلل انداز میں سامنے لایا گیا ہے یہ ترنم ریاض کا ایک ناقابل فراموش ناول ہے جس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔
ابن کنول:
ذوقی کے ہم عصروں میں ابن کنول کا نام بھی لیا جاتا ہے ۔’’تیسری دنیا کے لوگ‘‘ان کا افسانوی مجموعہ ہے ابن کنول کا جدیدیت سے سروکار اس حد تک ہے کہ وہ آج بھی علامتوں کا سہارا لیتے ہیں لیکن علامتی اسلوب میں کہانیاں لکھنا کوئی جرم بھی نہیں ہے قاری آسانی سے ان علامتوں سے کہانی کا سراغ لگا لیتا ہے اور یہی ابن کنول کی خوبی ہے انھوں نے بہت کم لکھا ہے لیکن جو بھی لکھا اس کی معنویت سے انکار ممکن نہیں ہے۔
شوکت حیات:
ذوقی کے ہم عصر ادیبوں میں ایک اور نام شوکت حیات کا ہے وہ بیک وقت ترقی پسند بھی ہیں اور جدید پسند بھی۔ان کے یہاں بیانیہ اور علامتوں کا حسین سنگم دیکھنے کو ملتا ہے انھوں نے صرف افسانے ہی لکھے ہیں ایک بات اورکہ ابھی تک ان کا کوئی بھی افسانوی مجموعہ منظر عام پر نہیں آیا ہے لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنی خوبصورت کہانیوں کی بدولت افسانے میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا ہے ان کی ہر کہانی کا اردو دنیا میں زبردست استقبال کیا جاتا ہے ان کی سب سے مشہور کہانی ’’گنبد کے کبوتر‘‘ہے یہ بابری مسجد کے بھیانک المیہ پر مبنی کہانی ہے ۔ہندو پاک کے مسائل کو لے کر شوکت حیات نے ’’کوا‘‘جیسی ناقابل فراموش کہانی بھی لکھی جس میں دونوں ملکوں کے عوام کے درد و کرب کو آسانی سے محسوس کیا جاسکتا ہے ۔شوکت حیات کی دیگر اہم کہانیوں میں’’فرشتے‘‘’’کہ‘‘اور’’سورج مکھی‘‘قابل ذکر ہیں ان کے افسانوں کی فنی خصوصیات میں سب سے اہم یہ ہے کہ ان میں واقعہ سے گریز کیا جاتا ہے صورت حال ہی ایسی خلق کردی جاتی ہے کہ واقعہ خود بخود پس منظر کی چیز بن کر رہ جاتا ہے ساتھ ہی ان کے افسانوں میں بیانیہ کا رنگ بھی بہت گہرا ہوتا ہے۔
آنند لہرؔ:
ریاست جموں وکشمیر سے تعلق رکھنے والے آنند لہرؔکا شمار بھی دور حاضر کے اہم فکشن نگاروں میں ہوتا ہے آنند لہر کا پہلا ناول ’’سرحدوں کے بیچ‘‘۲۰۰۲ء میں منظر عام پر آیا۔اس ناول میں انھوں نے ہندوستان کی تقسیم اور سرحدوں کے دونوں جانب رہنے والے لوگوں کی عملی دقتوں کا خلاصہ پیش کیا ہے۔آنند لہر کا دوسرا ناول ’’اگلی عید سے پہلے‘‘ہے یہ ناول ایک سو آٹھ صفحات پر مشتمل ہے اس میں کشمیر کی بدلتی ہوئی صورت حال کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے اس ناول میں آنند لہر نے کشمیریوں کی مذہبی رواداری اور مہمان نوازی کا بھی ذکر کیا ہے ناول میں عبدل اور بدری کے کرداروں کے ذریعہ کشمیریوں کے آپسی بھائی چارے کی وضاحت بھی کی گئی ہے اور ہندو،مسلم،سکھ اتحاد کے نعرے کو ایٹم بم سے زیادہ طاقتور قرار دیا ہے زبان و بیان کے لحاظ سے یہ ایک عمدہ ناول ہے آنندلہرؔکا تیسرا ناول ’’مجھ سے کہا ہوتا‘‘۲۰۰۵ء میں شائع ہوا یہ ناول ایک سو انیس صفحات پر پھیلا ہوا ہے اس ناول میں آنند لہرؔنے جنگ کے اسباب،اس کی تباہ کاریاں اور جنگ کے بعد ہولناک مناظر کی عکاسی کی ہے ’’مجھ سے کہا ہوتا‘‘میں پرندوں اور جانوروں کی زبانی تباہی و بربادی کے المیہ کو پیش کیا گیا ہے یہ ناول اصل میں امریکہ کی طرف سے بلاوجہ عراق پر حملے اور جنگ کے پس منظر میں لکھا گیا ہے اس ناول میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کاروباری جنگ سے نہ صرف انسان تباہ ہوتا ہے بلکہ چرند،پرند اور روئے زمین پر پیدا ہونے والے نباتات ،حیوانات اور ماحولیات کی بربادی بھی ہوتی ہے۔
’’یہی سچ ہے‘‘آنند لہرؔ کا ایک اور ناول ہے یہ ۲۰۰۸ء میں شائع ہوا ۔اس ناول میں انھوں نے زندگی کے حقائق کو فلسفیانہ انداز میں پیش کرنے کی سعی کی ہے مصنف نے ایمانداری،شرافت،بے ایمانی،رشوت خوری،غرور ،استحصال وغیرہ کو نہایت ہی موثر طور پر پیش کیا ہے ۔کوشل،شیو اور شنکر اس ناول کے اہم کردار ہیںآنند لہرؔ نے دو سگے بھائیوں شیو اور شنکر کے ذریعہ امیری،غریبی،پاپ،پنیہ،سورگ،نرک کا تصور اور ان دونوں بھائیوں کے درمیان تضاد اور کشمکش کی بڑی عمدہ تصویر کشی کی ہے ’’یہی سچ ہے‘‘دراصل زندگی کی سچائیوں کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے۔
ساجدہ زیدی:
عہد حاضرکے ناول نگاروں میں ساجدہ زیدی کا نام بھی اہم ہے ’’موج ہوا پہچان‘‘ان کا پہلا ناول ہے ناقدین اور قارئین کی نظر میں یہ ایک ایسی تخلیق ہے جس میں فن کے اصولوں کو منفی طور پر استعمال کیا گیا ہے اور ان کی نظر میں یہ ناول نہیں بلکہ ناول کا امکان ہے ساجدہ زیدی کا دوسرا اور اہم ناول ’’مٹی کے حرم‘‘ ہے اس ناول میں انھوں نے نئے تجربے کئے ہیں یہ ایک سوانحی نوعیت کا ناول ہے ۔
طارق چھتاری:
ذوقی کے ہم عصروں میںطارق چھتاری کا نام بھی شامل ہے انھوں نے گو اپنے معاصرین میں سب سے کم لکھا مگر جو بھی لکھا عمدہ لکھا اور اس طرح وہ اردو فکشن میں اپنا ایک خاص مقام بنانے میں کامیاب نظر آتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ فکری اور فنی سطح پر ان کے یہاں اختصاص و امتیاز پایا جاتا ہے ان کے بیشتر افسانوں کی یہ خوبی ہے کہ وہ قاری کے ذہن و دل پر فوری مگر دیرپا اثر ڈالتے ہیں ان کا اسلوب دلکش ہے لہجے میں سنجیدگی ہے جزئیات نگاری کی تکنیک ان کے افسانوں کا طرۂ امتیاز ہے ۔’’باغ کا دروازہ‘‘ان کا افسانوی مجموعہ ہے اس کی بیشتر کہانیوں میں تہذیبوں کی کشمکش کی گونج سنائی دیتی ہے ’’لکیریں‘‘اس مجموعے کی بہترین کہانی ہے۔’’برف اور پانی‘‘ان کا ایک اور افسانہ ہے جس میں زندگی کے نشیب و فراز اور جذبات و احساسات کی بازگشت کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
شائستہ فاخری:
شائستہ فاخری نے اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں بطور فکشن نگار اپنی شناخت قائم کی ہے ان کے پانچ افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ۔’’سندھ بیلا‘‘ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے اس کے علاوہ’’ہرے زخم کی پہچان‘‘’’دھیکا دکھ‘‘’’اداس لمحوں کی خود کلامی‘‘اور’’چھ زبانوں کی ہندوستانی کہانیاں‘‘ان کے دیگر مجموعے ہیں۔شائستہ کے اب تک تین ناول بھی شائع ہوچکے ہیںجن میں’’شہر سے کچھ دور‘‘’’نادیدہ بہاروں کے نشاں‘‘اور’’صدائے عندلیب بر شاخ شب‘‘شامل ہیں اس کے علاوہ ان کی کئی تنقیدی تصانیف بھی شائع ہوچکی ہیںشائستہ فاخری ناول نگاری کے فن کی تمام جہات سے پوری طرح واقف ہیں ان کے تینوں ناول الگ الگ موضوع پر لکھے گئے ہیں یہاں ان کے ناول ’’نادیدہ بہاروں کے نشاں‘‘کا مختصر جائزہ پیش کیا جاتا ہے یہ ناول ۲۰۱۳ء میں شائع ہوا اور یہ’حلالہ‘کے موضوع پر لکھا گیاہے۔’حلالہ‘ایسی شادی ہے جس کی اجازت اسلامی مذہب نے دے رکھی ہے لیکن ا س کے کچھ اصول و ضوابط بھی متعین کئے گئے ہیںجس کو شائستہ فاخری نے بڑی فنکاری کے ساتھ ناول میں پیش کیا ہے ۔یہ ناول بیوی اور شوہر کے رشتے پر لکھا گیا ایک المیہ ہے اس ناول میں مصنفہ نے عورت کی ایسی جھلک کو پیش کیا جو ظلم و جبر اور نا انصافی کو سہہ کر بھی شوہر کی فرمانبرداربنی رہتی ہے ناول کا پلاٹ سادہ اور بیانیہ ہے علیزہ اس ناول کا ایک اہم کردار ہے جس کے ارد گرد ساری کہانی کا تانا بنا گیا ہے علیزہ کی شادی فرحان سے ہوتی ہے جو لکھنئو میں اپنے چچا زاد بھائی اعیان کے ساتھ رہتا ہے اعیان علیزہ کو بھابھی کی حیثیت سے مانتا ہے اور اس کا خیال رکھتا ہے مگر فرحان ان کے جذبات کو غلط سمجھتاہے اور اس کے دل میں ان دونوں کے لئے شک پیدا ہوجاتا ہے اسی دوران ایک ایسا حادثہ پیش آتا ہے جو تینوں کی زندگی کو بدل کر رکھ دیتا ہے فرحان باپ کے علیل ہونے پر اپنے گاؤں رائے بریلی چلا جاتا ہے اور ادھر اعیان کا ایکسیڈنٹ ہوجاتا ہے علیزہ اعیان کے پیروں میں مرہم لگا رہی ہوتی ہے کہ تبھی فرحان وہاں آجاتا ہے یہ دیکھ کر وہ غلط فہمی کا شکار ہوجاتا ہے اور غصہ میں آکر علیزہ کو طلاق دے دیتا ہے لیکن جب اسے اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تو وہ علیزہ کو دوبارہ پانے کی چاہت کرتا ہے چنانچہ وہ اعیان کو علیزہ کے ساتھ ’حلالہ‘نکاح کرنے کے لئے تیار کرتا ہے یہاں شائستہ فاخری نے ایک مرد کی حوسناکی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ وہ اپنے فائدے کے لئے کس حد تک جا سکتا ہے اور کس طرح اس کو کچھ بھی سوچنے یا کرنے کا حق حاصل ہے وہ اپنی طلاق شدہ بیوی کا نکاح اسی شخص سے کروادیتا ہے جس کی وجہ سے وہ اسے طلاق دیتا ہے مگراس کے ان فیصلوں یا حرکتوں کی وجہ سے علیزہ کے دل پر کیا گزرتی ہے اس کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔ شائستہ فاخری نے اس ناول کی منظر کشی اتنی خوبصورتی سے کی ہے کہ اس کا ہر منظر حقیقی معلوم ہوتا ہے جو قاری کو متا ثر کرتا ہے اس ناول میں مصنفہ نے اودھ کی زبان بھی استعمال کی ہے جو مکالمہ نگاری کے لحاظ سے درست ہے انھوں نے لکھنئو کے متوسط طبقہ کے افراد سے انھیں کی زبان میںمکالمہ ادا کروایا ہے ۔واقعات،کرداراور زبان کے درمیان ایسا تال میل موجود ہے جو ناول کو ہر قسم کے جھول سے پاک رکھتا ہے۔
انورخان:
۱۹۸۰ء کے بعد اپنے منفرد انداز کے لئے جو افسانہ نگار مشہور ہوئے ان میں ایک
نام انور خان کا بھی ہے انھوں نے نو آبادیاتی نظام کی تمام تر سفاکیوں کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے اس کے علاوہ شہرکاری اور عالم کاری کے وجود میں آنے کے نتیجہ میں جو تہذیب و ثقافت وجود میں آئی اس کے تمام تر پہلوؤں کو بھی انور خان نے اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے ان کے یہاں زبان کا بر محل اور برجستہ تخلیقی استعمال ملتا ہے ۔’’یاد بسیرے‘‘ان کے افسانوں کا مجموعہ ہے ’’راستے اور کھڑکیاں‘‘ان کی مشہور کہانی ہے جس کا موضوع تنہائی کا کرب ہے اس میں انور خان نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی بات دوسرے سے کہے اور اس کی بات کو بھی سنے اور اگر ایسا نہیں ہوتا توبہت ممکن ہے کہ وہ نفسیاتی اور ذہنی مرض کا شکارہوجائے ۔افسانہ نگار نے یہ باور کرایا ہے کہ آج ہر انسان اپنے آپ کو تنہا پارہا ہے شہرکاری نے اس تنہائی کو اور بھی زیادہ گہرا اور سفاک بنادیا ہے انسان ا س قدر مصروف ہوگیا ہے کہ اس کے پاس کسی دوسرے سے بات کرنے کی فرصت ہی نہیںہے یہ افسانہ عام فہم بیانیہ انداز میں لکھا گیا ہے اس کی زبان صاف،دلکش اور سلیس ہے انور خان کا ایک ناول’’پھول جیسے لوگ‘‘کے عنوان سے شائع ہوا۔
انجم عثمانی:
۱۹۸۰ء کے بعد لکھنے والے اہم افسانہ نگاروں میں انجم عثمانی کی اپنی منفرد شناخت ہے انھوں نے اردو میں افسانہ لکھ کر ایک نئے اسلوب کی داغ بیل ڈالی۔اختصار ان کے فن کا کمال ہے ان کی کہانیاں ختم ہوتی ہوئی تہذیب کی علامت ہیں انجم عثمانی کے یہاں ثقافتی جزئیات نگاری اورداستانی اسلوب کی کارفرمائی قدم قدم پر ملتی ہے جس کی وجہ سے ان کے افسانے بیانیہ کے بہت قریب دکھائی دیتے ہیں مغربی تہذیب نے آج کے انسان کو مایوسی،تنہائی اور اجنبی پن جیسے غیر صحت منداحساسات کا شکار بنا کر رکھ دیا ہے چنانچہ اپنی قدیم تہذیبی اقدار کی طرف مراجعت کا رویہ انجم عثمانی کے افسانوں میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے شہرکاری اور عالم کاری کے نتیجہ میں جو بلا ہمارے ملک و سماج میں پھیل چکی ہے اس پر بھی انہوں نے اپنے افسانوں میں تنقید کی ہے انجم عثمانی کا افسانہ’’شہر گریہ کا مکین‘‘اسی موضوع پر مشتمل ہے یہ بیانیہ اسلوب میں لکھا گیا ایک مشہور و مقبول افسانہ ہے۔
معاصرین فکشن نگاروں میں اور بھی کئی ایسے نام ہیں جو متاثر کرتے ہیںعبداللہ حسین کا ناول’اداس نسلیں‘ایک شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے یہ تقسیم ہند کے المیہ پر لکھا گیا ایک کامیاب ناول ہے ۔انور سجاد کا ناول’’خوشیوں کا باغ‘‘اپنے مخصوص اور منفرد اسلوب کی بنا پر اردو ادب میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔مستنصر حسین کا ناول’’راکھ‘‘۱۹۹۷ء میں منظر عام پر آیا اس ناول میں سیاسی،سماجی اور تہذیبی پہلوؤں کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اور یہی اس ناول کی سب سے بڑی خوبی ہے۔شوکت صدیقی ایک حقیقت نگار ناول نویس کی حیثیت رکھتے ہیںانھوں نے عالمی سطح پر معاشرے میں پائی جانے والی خرابیوں اور جرائم کو خوبصورت فنی پیرائے میں بیان کیا ہے۔’’خدا کی بستی‘‘ان کا مشہور ناول ہے اس کے علاوہ’’کوکا بیلی‘‘اور’’جانگلوس‘‘بھی ان کے اہم ناول ہیں۔معین الدین جینا بڑے اردو افسانے کا ایک اہم نام ہے ’تعبیر‘ اور ’برسو رام دھڑاکے سے‘ان کے مشہور افسانے ہیں۔صدیق عالم اور خالد جاوید نے نئے پیرائے میں کہانیاں لکھ کر قارئین کو چونکایا ہے خالد جاوید نے’برے موسم میں‘اور ’ہزیان‘جیسی کہانیاں لکھ کر اردو افسانے میں نئے افق روشن کئے ہیں۔مذکورہ بالا فکشن نگاروں کے علاوہ اور بھی کئی ایسے نام ہیں جو اردو فکشن کے میدان میں کود پڑے ہیں اور اپنے قلم کے ذریعہ سنجیدہ اور اہم مسائل کی ترجمانی کر کے فکشن کے سفر کو ترقی کی جانب لے جانے میں اپنا کلیدی رول نبھا رہے ہیں۔
ذوقی:
مشرف عالم ذوقی اپنے ہم عصر فکشن نگاروں میں ایک ممتاز اور منفرد حیثیت رکھتے ہیںجس برق رفتاری سے انھوں نے اردو ادب خاص کر فکشن میں بلند پایہ کارنامے انجام دیے ہیں اس کی مثال ملنا کافی مشکل ہے ذوقی اپنے فن اور فکر کے اعتبار سے ہم عصروں میں اس لئے ممتاز ہیں کہ انھوں نے عصری مسائل کے ساتھ ساتھ بین الا قوامی مسائل اور ان کے اثرات کو اپنے فکشن میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے انھوں نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں زندگی کے تمام چھوٹے بڑے مسائل کو فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے ان کے افسانوں اور ناولوں کے کردار بڑے انوکھے اور دلچسپ ہیں ان کے کردار حقیقی زندگی سے جڑے ہوئے ہیں انھوں نے اپنے کرداروں کو اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ چلتے پھرتے اور ہنستے روتے عام زندگی سے تصادم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ذوقی نے کرداروں کو اس طرح تراشا ہے کہ وہ زندہ تصویر بن کر قاری کے ذہن پر دیر تک اپنا اثر چھوڑ جاتے ہیں ان کے کردار غلام بخش کی بات کریں توپڑھنے کے وقت تک اورپڑھنے کے بعد تک وہ ذہن پر حاوی رہتا ہے قاری سالک رام اور مرگ نینی کو نہیں بھول پاتا اسی طرح بالمکند شرما جوش ،پروفیسر ایس اور نور محمد کے کردار بھی پڑھنے والے کے ذہن میں محفوظ ہوجاتے ہیں ۔ذوقی اپنے ہم عصروں میں اس لئے بھی منفرد شناخت رکھتے ہیں کہ انھوں نے ہندی،انگریزی اور عام بول چال کی زبان کو بڑی بے تکلفی سے استعمال کیا ہے ذوقی نے سات افسانوی مجموعے،چند ڈرامے اور ایک درجن سے زائد ناول لکھ کر ادبی حلقے میں ایک تہلکہ مچا دیا ہے اس کے علاوہ انھوں نے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ بھی اپنے ادب کی آبیاری کی ہے ۔ذوقی کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ معاصرین ناول نگاروں میں انھوں نے سب سے زیادہ ناول تخلیق کئے ہیں ان پر زود نویسی کا الزام بھی لگایا گیا مگر بات یہ ہے کہ ذوقی نہایت ہی حساس ادیب ہیں جب بھی کوئی مسئلہ یا موضوع ان کے سامنے آتا ہے تو ان سے رہا نہیں جاتا اوروہ فوراً ہی اپنا قلم اٹھا کر تخلیق کرنا شروع کردیتے ہیں۔ذوقی اپنے انداز کے سب سے توانا اور منفرد فکشن نگار ہیں تہذیب کی ہر نئی کروٹ اور تیز رفتار زندگی سے پیدا ہونے والے ہر مسئلہ پر عموماًذوقی کی نظر سب سے پہلے پڑتی ہے وہ سنگین سے سنگین ترین مسائل کو اپنے فکشن میں پیش کرنے کی جرأت رکھتے ہیں ۔۱۹۸۰ء کے بعد آج تک بہت سے فکشن نگاروں نے عمدہ افسانے اور ناول لکھ کر اردو ادب کے خزانے کی توسیع کی ہے تاہم یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مشرف عالم ذوقی کے فکشن کا معاملہ ان کے تمام ہم عصر اور پیش روؤں سے مختلف ہے ان کے کہانی کہنے کا ڈھنگ اور طریقہ بھی سب سے الگ ہے ذوقی عصر ی ادیبوں میں اس لحاظ سے بھی اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں کہ انھوں نے اردو ادب کے روایتی موضوعات پر قلم اٹھانے کے بجائے ہمیشہ سے نئے موضوعات کا انتخاب کیا ہے ایسے موضوعات جن کو آج تک اردو کے دوسرے ادیب نہ چھو پائے اور نہ کسی نے ان موضوعات پر قلم اٹھانے کی جسارت کی ۔ذوقی محنت، لگن اور ادبی ذوق و شوق کی وجہ سے اپنے معاصرین فکشن نگاروں میں ایک خاص مقام حاصل کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔