(Last Updated On: )
مشرف عالم ذوقی کا شمار ۱۹۸۰ء کے بعد کے فکشن نگاروں میں ہوتا ہے وہ بیک وقت اردو اور ہندی میں بطور فکشن نگار اپنی پہچان کروا چکے ہیں تاہم یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ذوقی کا نام اردو ناول نگاری کے میدان میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے انھوں نے یکے بعد دیگرے کئی ناول قارئین کے حوالے کئے۔ــ’’عقاب کی آنکھیں‘‘ ان کا پہلا ناول ہے اس کے بعد’’ شہر چپ ہے ‘‘ ،’’لمحہ آئندہ‘‘ اور ’’نیلام گھر‘‘ جیسے ناول سامنے آئے۔۱۹۹۲ء میں انھوں نے’’ مسلمان ‘‘ لکھ کر ادبی حلقے میں بطور ناول نگار اپنی پہچان بنائی۔۱۹۹۵ء میں ان کا ناول’’ بیان‘‘ سامنے آیاجس نے ان کو شہرت سے نوازا۔اس کے بعد یہ سلسلہ اور تیز ہو گیا چنانچہ ۲۰۰۰ء میں’’ ذبح‘‘ ، ۲۰۰۴ء میں’’ پو کے مان کی دنیا ‘‘، ۲۰۰۵ء میں ’’پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی ‘‘، ۲۰۱۱ء میں ’’ لے سانس بھی آہستہ ‘‘ ، ۲۰۱۳ء میں ’’ آتش رفتہ کا سراغ‘‘ اور ۲۰۱۴ء میں ’’ نالہ شبگیر‘‘ لکھ کر قارئین کے سامنے پیش کئے ۔ذوقی کے کچھ ناول ابھی زیر طبع ہیں ان میں’’ ا ردو‘‘ ،’’سب سازندے ‘‘ ،’’سرحدی جناح ‘‘ اور ’’اڑنے دو ذرا‘‘ شامل ہیں۔ذیل میں ان کے چند اہم ناولوں کا تجزیہ پیش کیا جارہا ہے:۔
(i)’’ مسلمان ‘‘
مشرف عالم ذوقی کا ناول ’’مسلمان ‘‘ ہندی میں ۱۹۹۰ء میں شائع ہواجبکہ اردو میں یہ ناول ۲۴ سال بعد یعنی ۲۰۱۴ء میں شائع ہوا۔’’ مسلمان‘‘ ذوقی کا ایک ایسا ناول ہے جو ہندوستانی مسلمانوں سے متعلق ہر سوال کا جواب دینے کے لیے کافی ہے ہندوستان میںمسلمانوں کی حیثیت،ان کے مسائل،بے روزگاری،جاہلیت،وطن پرستی وغیرہ کو اس ناول میں پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے دراصل ’’ مسلمان ‘‘ ہر ایک مسلمان کی آپ بیتی ہے ۔آزادی کے ۶۷ برسوں کے بعدبھی مسلمان ہندوستا ن میں اقلیت کہلاتے ہیں ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی تقریباََ پچیس کروڑ ہے جو کہ ایک ملک کی آبادی سے بھی کہیں زیادہ ہے اگر دیکھا جائے تو مسلمان ہندوستان میںدوسری بڑی اکثریت کہلانے کے مستحق ہیں ۔آزادی کے بعد ہندوستان میں یا ہندوستان سے باہر ایسا کچھ بھی ہوتا ہے جس کے پیچھے مسلمانوں کا ہاتھ ہو تو بھارتیہ مسلمان شک کے گھیرے میں آجاتا ہے جبکہ وہ بے قصور ہے اور اس کو مورد الزام ٹھہرانا غلط ہے ناول’’ مسلمان‘‘ اس سوچ کے خلاف ایک جنگ ہے،جہاد ہے۔
’’ مسلمان‘‘ میں ذوقی نے طوائف کا استعارہ استعمال کیا ہے جس طرح طوائفوں کو اچھوت سمجھا جاتا ہے اور بار بار ان کی عزتوں کا سودا کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح مسلمان بھی اس ملک میں اچھوت بن کر رہ گئے ہیں اور بار بار ان کی عصمت کی نیلامی ہوتی رہتی ہے ۔
’’مسلمان ‘‘ پر ذوقی نے’ ملت‘ کے نام سے ایک سیریل بھی پروڈیوس کیا جو دور درشن سے ڈی ڈی نیشنل اور ڈی ڈی میٹرو پر کئی بار دکھایا جا چکا ہے ۔ ’’مسلمان‘‘ زیادہ طویل ناول نہیں ہے یہ ناول ۱۶۰ صفحات پر مشتمل ہے اسے ناولٹ بھی کہا جا سکتاہے اس میں مصنف نے شروع سے لے کر آخر تک ہر واقعہ کو مسلسل پیش کیا ہے واقعات آپس میں جڑے ہوئے ہیںاس ناول میں آزادی کے تقریباََدو سال بعد کے ہندوستان کی صورت حال،مسلمانوںکی ہجرت،وطن پرست مسلمانوںکے حالات،ملک میںفسادات کا ماحول اور تباہی،مسلمانوں کی پریشان حالی،بے روزگاری وغیرہ کو مصنف نے نہایت ہی خوبی کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ناول کا پلاٹ افروز اور اس کے اہل و عیال کے ارد گرد گھومتا ہے ذوقی نے افروز کے بچپن ،جوانی،تباہی اور فساد کے ماحول میں گھر سے ہجرت،در در کی ٹھوکریںاور روزگار کی تلاش میںسر گرداںرہنے کے واقعات کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے ۔نواب الطاف حسین کی حویلی بھی ایک بڑا استعارہ ہے جو مسلمانوں کے تہذیبی و ثقافتی زوال اورمعاشی بد حالی کی علامت ہے ۔
’’ مسلمان‘‘ میں افروز کو مرکزیت حاصل ہے ناول کی کہانی اسی کے ارد گرد گھومتی ہے یہ کہانی غلامی کے آخری دنوںسے شروع ہوتی ہے اور ۱۹۸۶ء کے لگ بھگ اختتام کو پہنچتی ہے ۔افروز ایک معصوم سی بچی ہے اس کی ماں کا نام گوہر بائی ہے گوہر بائی ایک پیشہ ور طوائف ہے اس کا کوٹھا سب کے لئے کھلا ہے یہاںہندو بھی آتے ہیںاور مسلمان بھی۔بوڑھے،جوان،نواب،شرفا،ہر طبقے کے لوگ یہاںآتے ہیں گوہر بائی کے کوٹھے پرناچ گانا،ساغرومینا کی گونج،گھنگھروں کی جھنکار،طبلے کی تھاپ اور گاہکوں کی آمدورفت کا ماحول بالکل ویسا ہی ہے جیسا ہر طوائف کے کوٹھے پر ہوتا ہے مگر گوہر بائی کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو اس ماحول سے دور رکھنا چاہتی ہے وہ نہیں چاہتی کہ اس کی بیٹی کی تربیت اور تعلیم پر اس گندے ماحول کا اثر پڑے۔وہ افروز کو ایک صاف ستھری اور عزت والی زندگی دینا چاہتی ہے اس لیے اس نے اپنے چہیتے دلال بدی ماما کو اس کی ذمہ داری سونپ دی ہے کہ وہ افروز کو اس کے کمرے کے آس پاس بھی نہ آنے دے ۔افروز نے جب ہوش سنبھالنا شروع کیا تو اس کی الجھنیںبھی بڑھنے لگیں۔اپنے گھر کے آلودہ ماحول کو دیکھ کر وہ خوف محسوس کرتی ہے مگر گوہر بائی نے یہ پیشہ اپنی مرضی سے قبول نہیں کیابلکہ اس کو اس ماحول میں رکھا گیا اس کی با قاعدہ تربیت کی گئی البتہ اسے احساس ہے کہ یہ کام اچھا نہیں ہے ۔گوہر بائی کی ماں عزیزن اسے جنم دینے کے بعد دنیا سے رخصت ہو گئی۔دراصل ۱۹۴۷ء کے آس پاس جب ہندو مسلم دنگے تیز ہوئے اور چاروں طرف مار کاٹ مچ گئی تو تباہی کا یہ طوفان ریاست بہار کی چونڑا بستی بھی پہنچا۔اس بستی میں تقریباََپچاس باون گھر ہوں گے اس بستی سے تھوڑی دوری پر ہی لکھی پور بستی آباد تھی ۔لکھی پور میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی اور چونڑا بستی میں اہیروں کی۔وہاں مسلمانوں کے دو چار گھر ہی آباد تھے لکھی پور کے مسلمانوں نے مار کاٹ کی تو چونڑا بستی میں بھی تنائو کی فضا بن گئی۔وہاںکے پرمکھ بانکے چودھری نے دوپہر کے وقت حالات کو نازک جانتے ہوئے میٹنگ بلائی اور یہ طے کیا کہ چاروں گھروں کے مسلمان مال واسباب کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنا اپنا گھر چھوڑ دیں اور پڑوس کے ہندو گھروں میں چلے جائیں۔پرمکھ کو خطرہ اس بات کا تھا کہ لکھی پور میں ہندوئوںکی بربادی کا سن کر پچھم ٹولہ کے ہندئوں کا فرمان پہنچا تھا کہ چونڑہ بستی کے مسلمان صاف کر دیے جائیں۔بانکے چودھری نے اپنے گھروں میں مسلمانوں کو چھپانے اور پناہ دینے کا فیصلہ کر کے ایک بہت بڑا جوکھم اٹھا لیا۔ان میں سے ہی ایک خاندان شیخ سلیم کا تھا شیخ سلیم کے خاندان میں اس کی بیوی آمنہ کے علاوہ دو جوان بیٹیاں عزیزن اور امیرن بھی تھیں عزیزن کی عمر ۱۸ سال تھی اور امیرن اس سے کچھ برس چھوٹی تھی ۔شیخ سلیم کے مکان کے پاس ہی للن یادو کا مکان تھا جس کے لڑکے ویریندر یادو (ویرا) کی نظر عزیزن پر تھی۔
ادھر جب نفرت کے لاوے کچھ تھم گئے تو نئی پناہ گاہوں کی تلاش شروع ہوئی۔افسران نے بھی اعلان کردیا کہ کسی کے ساتھ کوئی زور زبردستی نہیں کی جائے گی جو لوگ اپنی مرضی سے پاکستان جانا چاہتے ہیں انھیں جانے دیا جائے ۔اس اعلان کا پاکستان جانے والے مسلمانوں نے خیر مقدم کیا۔چونڑہ بستی کے چار مسلمان خاندانوں میں سے دو خاندان تو یہیں رک گئے جبکہ شیخ سلیم اور باقی بچا ایک خاندان پاکستان جانے کی تیاری میں لگ گیا۔بانکے چودھری اور دوسرے کئی لوگوں نے انھیںبہت سمجھایا کہ اب حالات ٹھیک ہوگئے ہیںاور کوئی خطرہ نہیں ہے ہم سب مل جل کر رہیں گے لیکن انھوں نے فیصلہ کر لیا تھا پاکستان جانے والے لوگوں کا قافلہ’ اللہ اکبر‘ اور’ نعرہ تکبیر‘ کی صدا بلند کرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا اچانک قافلے میں بھگدڑ مچ گئی۔بھیڑ میں عزیزن کا ہاتھ امیرن سے کب چھوٹا،اس کو پتہ بھی نہ چلا ۔وہ بے ہوش ہو گئی جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ ایک تنگ سی کوٹھری ہے وہ ایک چار پائی پر پڑی ہے اور سامنے نشے کی حالت میں ویرا کھڑا ہے ویرا نے کئی بار اس کی عزت لوٹی۔پھر اس نے عزیزن کو ایک کوٹھے پر بیچ دیا وہ کوٹھے پر ویرا کا تین ما ہ کا حمل لے کر آئی تھی اس نے کوٹھے کی پیشہ ور طوائف شہناز بائی کو صاف صاف کہہ دیا۔
’’ ـ یہ بچہ جیسے بھی ہوگا ،وہ پیدا کرے گی۔پھر اس کے بعد ساری زندگی وہ اس کے اشاروں پر ناچے گی‘‘(مشرف عالم ذوقی،مسلمان۔ــــص۔۴۶)
اس کے تقریباََ چھ مہینے بعد عزیزن نے گوہر کو جنم دیااور ہمیشہ کے لئے اپنی آنکھیں بند کر لیںاس طرح شہناز بائی نے گوہر کی پرورش کی اور پھر اسے بھی ایک پیشہ ور طوائف بنا کر کوٹھے پر بٹھادیا۔شہناز بائی کی وفات کے بعد گوہر بائی نے اس کام کو سنبھالا۔اس کی بیٹی افروز نواب الطاف حسین کی ناجائز اولاد ہے وہ بار بار گوہر بائی کے کوٹھے پر آتا ہے اور اس کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کر لیتا ہے مگر وہ افروز کو اپنانے سے ڈرتا ہے گوہر بائی نے اپنی بیٹی کی تعلیم و تربیت کی پوری ذمہ داری خود نبھائی۔اپنے گھر میں ہی ایک طوائف کا پیشہ کرنے کے باوجود وہ اپنی بیٹی کو اس کام سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے لیکن افروز جیسے جیسے بڑی ہوتی جاتی ہے وہ سب کچھ سمجھنے لگتی ہے وہ یہ بھی جانتی ہے کہ وہ نواب الطاف حسین کی نا جائز بیٹی ہے جب وہ جوان ہوئی تو گوہر بائی کے ایک دلال جاگیرا کی بری نظریں اس پر پڑنے لگیں اس نے ایک بار گوہر بائی سے کہا کہ وہ افروز کو بھی اس دھندے میں شامل کر لے اس پر گوہر بائی نے اسے تھپڑ بھی رسید کیا اس کے بعد جاگیرا رقابت کی آگ میں جلنے لگتا ہے اور ایک دن جب پورے شہر میں فرقہ وارانہ فسادات ہو رہے تھے تو جاگیرا اپنے ساتھ بہت سے مشعل بردار لوگوں کو لے کر گوہر بائی کے گھر میں داخل ہوتا ہے گوہر بائی نے افروز کو وہاں سے بھگا دیا اور جاگیرا نے اس کے کوٹھے کو آگ لگا دی اور اس طرح گوہر بائی بھی جل کر مرگئی ۔افروز وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور نواب الطاف حسین کی حویلی میں پہنچتی ہے وہاں وہ انور،قریشہ اور ان کی ماں ممتاز سے ملتی ہے نواب الطاف حسین نے اسے چند دنوں کے لیے وہاں ٹھہرنے کی اجازت دے دی افروز کو اس گھر میں بہت پیار ملتا ہے مگر وہ ان پر بوجھ نہیں بننا چاہتی تھی اس لیے کچھ دنوں کے بعد وہ دلی چلی جاتی ہے وہاں وہ نواب صاحب کے ایک دوست مولوی عنایت اللہ کے گھر پر رکتی ہے اسے نوکری کی تلاش ہے وہ کئی دفتروں میں جاتی ہے مگر اسے کوئی کام نہیں ملتا ۔پھر اس کی ملاقات شعیب سے ہوتی ہے وہ بھی بے روز گار ہے اور نوکری کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹک رہا ہے دراصل مسلمانوں کو روزگار سے محروم رکھا جارہا تھا کوئی بھی انھیں ملازمت دینے کے لیے تیا ر نہیں تھا ملک میں حالات بہت کشیدہ تھے اس لیے شعیب نے افروز کو ایک مشورہ دیا کہ وہ اپنا نام بدل کر کوشش کرے دوسرے دن افروز ایک دفتر میں جاتی ہے وہاں وہ اپنا نام انجو بتاتی ہے اور اسے نوکری مل جاتی ہے پھر وہ مولوی عنایت اللہ کا گھر چھوڑ کر شیش محل میں چلی جاتی ہے جہاں اس کو ایک خستہ حال کمپلیکس میں ون روم فلیٹ کرائے پر مل جاتا ہے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی سے وہ بہت پریشان سی رہتی ہے اس دوران وہ شعیب سے بھی ملتی رہتی ہے ایک دن شعیب اسے اپنے دوست ونئے سے ملواتا ہے وہ دونوں روم پارٹنر ہیں اور ایک ساتھ رہتے ہیں دونوں ملک میں پھیلی ہوئی بد امنی کو لے کر سنجیدہ ہیں ہندو مسلم دنگوں کی مخالفت کرتے ہیں وہ ہندوستان کو ایک ترقی یافتہ اور امن پسند ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں شعیب اور ونئے پڑھے لکھے اور سیکولر سوچ رکھنے والے نوجوان ہیں اس دوران افروز کو انور اور قریشہ کے خطوط برابر ملتے رہتے ہیں اور اس طرح وہ ان سے بھی جڑی رہتی ہے قریشہ اپنے خط میں افروز کو لکھتی ہے کہ اس کے ابا نواب الطاف حسین نے اپنی خاندانی شمشیر سے خود کشی کر لی اور اب وہ حویلی کو بیچ کر ایک کرائے کے مکان میں رہتے ہیں پھر ایک دن افروز’ جن مانس‘ اخبار کے لیے رپورٹ تیار کرنے نکلی تو اس نے ایک جگہ دیکھا کہ ایک آدمی کے ارد گردلوگوں کی بھیڑ جمع ہے پھر وہ شخص گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے چلا جاتا ہے ۔
’’ـ انجو ٹھگی سی دیکھتی رہ گئی ۔یہ شخص۔اس کی آنکھیں دھوکا نہیں کھا سکتیں۔پھر یہ سب کیا تھا۔یہ آدمی کون تھا ؟ایک شخص نے پوچھنے پر بتایا۔منتری ہیں۔جاگیرا صاحب ابھی ابھی راجیہ سبھا کے ممبر نامزد ہوئے ہیں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،مسلمان،ـ ص۔۱۳۹)
یہ سن کر انجو (افروز) حیران رہ جاتی ہے اس نے سوچا کہ میری شناخت تو ابھی ادھوری ہے امتحان کا وقت تو اب آیا ہے اس نے جاگیرا کو سبق سکھانے کی ٹھان لی ۔وہ جاگیرا کو اس کے کیے کی سزا دلوانا چاہتی تھی اس کو وہ بھیانک منظر یاد آنے لگا جب وہ اپنی ماں سے بچھڑی تھی۔
ـ ’’ بائی اماں کے آگے دس دس روپیوں کے بنڈل کو پھینکتا ہوا جاگیرا۔گوہر جان،یہ تیری افروز کی نتھ اترائی کی قیمت ہے ۔ٹوٹی کواڑ اور دہشت زدہ سی اماں کے آگے جلتی مشعل لیے کھڑا جاگیرا۔دھند میںڈوبی ساری تصویریں یکایک اس کے ذہن میں زندہ ہو گئیں۔ـ‘‘(مشرف عالم ذوقی ،مسلمان ،ص۔۱۴۰)
افروز جاگیرا سے بدلہ لینے کے لیے تیار ہو جاتی ہے اسے معلوم ہے کہ یہ راجیہ سبھا کی عزت کا سوال ہے وہ اس عہدہ پر جاگیرا جیسے لوگوں کو بٹھانے کے حق میں نہیں ہے ۔
’’ـ وہ ڈرتے ڈرتے سمپادک جسویر تھانی کے کمرے میں داخل ہوئی اور سچ اگل دیا ۔تھانی صاحب کو جیسے کسی بچھو نے ڈنک مارا۔بڑے آدمی ہیں جاگیرا صاحب۔۔۔۔میں ان کے خلاف جن مت جٹائوں گی۔‘‘(مشرف عالم ذوقی ،مسلمان ،ـص۔۱۴۱)
اس نے واپس اپنے وطن جانے کا فیصلہ کرلیا۔اس کے جانے سے پہلے ایک حادثہ اور ہو گیاپورے ملک میں فساد ہو رہا تھا شری اڈوانی کے رتھ نے دنگوں کو اور بھڑکا دیامعصوم انسانوں کا قتل عام ہونے لگاان دنگوں میں شعیب کے دوست ونئے کا بڑا بھائی بھی مارا گیا ۔افروز رانی منڈی پہنچتی ہے اور وہاں کی ہر طوائف سے جاگیرا کے بارے میں پوچھ تاچھ کرتی ہے اجمیری بائی،دلشاد جان،نسیم بانو،مہر بائی قمرو،رخسانہ اور بھی کتنی ہی طوائفوں سے افروز نے جاگیرا کی کرتوتوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔
ـ’’ نکو۔نابابا،نا۔رخسانہ تو صاف ہی مکر گئی۔۔۔۔۔۔دلشاد جان ناگواری سے بولی ۔جاگیرا نے تو جو بھی کمایا ،موئے نے دنگوں میں کمایا۔لاج بھی نہیں آئی کم بخت کو۔۔۔۔۔انجو دھیرے سے بولی ۔بس یہی تو چاہتی ہوں میں ۔اس کاغذ پر اپنے دستخط کر دو ۔نابابا،نا۔دلشاد جان پیچھے ہٹ گئیں۔جیسے ڈھیر سارے بچھو کو دیکھ لیا ہو۔۔۔۔۔۔وہ اب نیتا بن گیا ہے ۔ہم مجبور ہیں۔مہر بائی ہوائی چپل پیر میں ڈالتے ہوئے بولی ۔اجمیری بائی نے کہا ۔ہم تو پہلے ہی لٹے لٹائے ہیں افروز جان۔پیشہ سے بھی جاتے رہے تو سڑکوں پر بھیک مانگنے کی نوبت آجائے گی۔ـ‘‘(مشرف عالم ذوقی،مسلمان، ص۔۴۳۔۱۴۲)
اس کے بعد افروز نے کتنے ہی دروازے کھٹکھٹائے اور کتنے ہی لوگوں سے ملی ۔جاگیرا کیسے ایک منتری بنا،وہ اس مقام تک کیسے پہنچا۔یہ کہانی تو سب کو معلوم تھی مگراتنے بڑے شہر میں کوئی بھی اس کے خلاف بولنے کو تیار نہیں تھااب صرف ایک ہی گھر بچا تھااور افروز ابھی بھی پر امید تھی۔
’’ یہ گھر اس کی آخری امید کا مرکز تھا ۔وہ تھکی ہاری مایوسی سے اتری تھی۔کہ اچانک بیس بائیس سال کی ایک لڑکی دوڑی دوڑی اس کے پاس آکر ٹھہر گئی۔سنئے!وہ ہانپ رہی تھی میرے پاس وقت کم ہے ۔اس وقت میں دلشاد بائی کے یہاں تھی۔آپ کی باتیں سنیں ۔جاگیرا مجھے یوپی کے گائوں سے بھگا کر لایا تھا۔مجھ سے شادی کاناٹک کھیلا اور یہاں کوٹھے پر ڈال گیا۔اس نے بلائوز میں ہاتھ ڈالااور ایک میلی سی تصویر نکالی ۔۔۔انجو نے کاغذ آگے کیا۔لڑکی نے کانپتے ہاتھوں سے دستخط کر دیا۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،مسلمان، ص۔۱۴۴)
اس کے بعد وہ لڑکی وہاں سے چلی جاتی ہے افروز نے اس دھندلی میلی تصویر کو غور سے دیکھا۔تصویر میں جاگیرا اس لڑکی کے ساتھ اگنی کے پھیرے لے رہا تھاپھر دوسرے دن شعیب افروز کو فون کر کے ملنے کے لیے بلاتا ہے شام کو افروز جب شعیب سے ملی تو اس نے دیکھا کہ وہ بہت گھبرایا ہوا ہے اس کی داڑھی بڑھی ہوئی اور چہرے پر الجھن کے آثار ہیں وہ افروز کو بتاتا ہے کہ اسے ونئے سے ڈر لگنے لگا ہے کیونکہ رات کو اس نے مجھے جان سے مارنے کی کوشش کی ۔اسے لگتا ہے کہ جن مسلمانوں نے اس کے بھائی کا قتل کیا میں بھی ان میں سے ہی ایک ہوںاس نے مجھ سے معافی بھی مانگی مگر ہم ایک دوسرے سے ڈرے ڈرے رہتے ہیں۔
دوسرے دن افروز روزنامہ جن مانس کے ایڈیٹر تھانی صاحب سے ملتی ہے اور وہ تصویر دکھاتی ہے جو رانی منڈی کی ایک طوائف نے اسے دی تھی لیکن تھانی صاحب نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ وہ جاگیرا جیسے بڑے آدمی کے ساتھ دشمنی مول لینا نہیں چاہتے لیکن روز نامہ دیس کے ایڈیٹر نے اس کے مضمون کو چھاپنے کی منظوری دے دی۔خبر چھپی اور ہنگاموں کا ایک طوفان سا مچ گیا۔چاروں طرف سے حکومت کی توہین ہوئی تھی اور یہ طے تھا کہ جاگیرا کو راجیہ سبھا کی ممبری سے استعفٰی دینا ہوگا۔انجو خوف اور خطروںمیں پڑ گئی تھی مگر اسے اطمینان تھا کہ وہ جیت گئی ہے اور اس کے ٹھیک پانچویںدن جاگیرا نے استعفٰی دے دیا جسے منظور کر لیا گیا ۔اس کے بعد روزنامہ دیس کے مالک جناب گوئل جی انجو کو اپنے دفتر میں بلاتے ہیں اور اس سے پوچھ تاچھ کرتے ہیں۔چنانچہ افروز سب کو سچ سچ بتا دیتی ہے کہ وہ ایک مسلمان لڑکی ہے اورگوہر بائی اس کی ماںہے اور اس طرح وہ جاگیرا کو اس کے کئے کی سزا دلواتی ہے ۔
آدھی رات کو افروز کے دروازے پر دستک ہوتی ہے جب اس نے دروازہ کھولا تو سامنے پسینے سے شرابور شعیب کھڑا تھا اس کا پورا جسم لرز رہاتھا۔
’’شعیب۔۔۔اتنی رات گئے۔میں۔میں نے ونئے کا قتل کردیا ۔۔۔۔۔نہ کرتا تو وہ میرا کر دیتا۔۔۔میں نے تو صرف اپنی جان بچائی ہے ۔روز روز کی ذہنی الجھنوں سے خود کو آزاد کیا ہے ۔‘‘(مشرف عالم ذوقی ،مسلمان ،ص۔۱۵۷)
یہ سن کر افروز کا پورا جسم ساکت ہو گیا وہ الجھن میں پڑ جاتی ہے اسے لگتا ہے کہ اس میں شعیب کا کوئی قصور نہیں ہے اور نہ ہی ونئے کی کوئی غلطی تھی اس نے اپنے بھائی کی لاش دیکھی تھی جسے مسلمانوں نے مارا تھا اور ایسے موقعہ پر کوئی بھی جذباتی ہوسکتا ہے فساد اچھے اچھے ذہن کو بھی بدل سکنے کی طاقت رکھتا ہے ۔ملک میں بڑھکی ہوئی فرقہ پرستی کی آگ نے افروز کے جسم کو جلا کر رکھ دیا ہے انسانی جانوں کے قتل عام سے وہ تڑپ رہی ہے ہندو مسلم کی تفریق نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ہر تباہی اور فساد کا ذمہ دار مسلمان کو ہی قرار دیا جاتا ہے وہ کشمکش میں ہے بہت سارے سوالات اس کو الجھن میں ڈال رہے ہیں وہ یادوں کے بھنور میں گم ہوجاتی ہے ۔
’’اندھیرے میں ہونے والی دستکیں بڑھتی جارہی تھیں ۔پہلے رانی منڈی ۔پھر دلی۔اور اب یہ حادثہ۔اسے ایک نئی جنگ شروع کرنی ہے ۔ایک نئے موسم کا گواہ بننا ہے ۔کسی نہ کسی کو آگے بڑھ کر ایک شروعات کرنی ہے ۔مگر ۔کہاں سے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی ،مسلمان ،ص۔۶۰۔۱۵۹)
’’مسلمان ‘‘کے کردار حقیقی ہیں ان کی زندگی تکلف اور بناوٹ سے پاک ہے یوں تو اس ناول میں بہت سے کردار ہیں لیکن افروز اس ناول کا مرکزی کردار ہے کیونکہ شروع سے لے کر آخر تک پوری کہانی اس کے ارد گرد گھومتی ہے اس کے علاوہ گوہر بائی ،نواب الطاف حسین،بدی ماما،جاگیرا،ویرا ،قریشہ ،انور،شعیب،ونئے،مولوی عنایت اللہ،مولوی نظیر احمد،تھانی صاحب،شہناز بائی،گوئل،ممتاز وغیرہ کے کردار بھی اہمیت کے حامل ہیں ان کے علاوہ اور بھی بہت سے ضمنی کردارہیںجو کہانی کو آگے بڑھانے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔اس کہانی کا مرکزی کردار افروز نام کی ایک مسلم لڑکی ہے جو رانی منڈی کی مشہور طوائف گوہر بائی کی بیٹی ہے افروز ایک باہمت،سلیقہ مند،تعلیم یافتہ اور محنتی لڑکی ہے اس کا بچپن ایک کوٹھے پر گزرالیکن اس کی تعلیم و تربیت نہایت ہی اچھے ڈھنگ سے کی گئی۔جب اس نے ہوش سنبھالاتو گھر میں طرح طرح کے مردوں کی آمدورفت،گھنگھروئوں کی آوازاور بالکنی پر ایک قطار میںٹنگے ہوئے گندے میلے کپڑے اسے الجھن میں ڈال دیتے ہیں آہستہ آہستہ وہ سب کچھ جان جاتی ہے اسے پتہ ہے کہ اس کی ماں جو کام کرتی ہے وہ ٹھیک نہیں ہے مگر اسے اس بات کا بھی احساس ہے کہ وہ مجبورہے ۔افروز یہ بھی جانتی ہے کہ نواب الطاف حسین ہی اس کے حقیقی باپ ہیں اور وہ ان کی نا جائز بیٹی ہے مگر اس کے باوجود وہ ان سے کسی قسم کا مطالبہ نہیں کرتی اس لئے کہ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ نواب صاحب نہیں چاہتے کہ ان کی اصلیت سب کے سامنے آئے وہ ان کو ذلیل نہیں کروانا چاہتی۔افروز کے اندر محنت اور جدو جہد کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے وہ نوکری کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھاتی ہے پھر اسے ایک نوکری مل جاتی ہے اس زمانے میں مسلم عورتوں کا پردے سے نکل کر دفتروں یا سڑکوں پر جانا معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن افروز یہ سب کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے اور اس نے ایسا کر کے دکھا بھی دیا۔
جب افروز کو پتہ چلتا ہے کہ جاگیرا راجیہ سبھا کا ممبر بننے والا ہے تو وہ جاگیرا کو اس عہدہ سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیتی ہے اس کے لئے وہ انتھک محنت کرتی ہے اور رانی منڈی میں پہنچ کر جاگیرا کے خلاف ثبوت اکٹھے کرتی ہے اور جاگیرا کی بری کرتوتوں کا پردہ فاش کرتی ہے جس کے نتیجہ میں جاگیرا کو منتری کے عہدہ سے استعفٰی دینا پڑا۔لہٰذا ایک طرح سے اس نے اپنی ماں کی موت کا بدلہ بھی لے لیااور جاگیرا کو اس کے کئے کی سزا بھی دلوائی۔یہ اس کی ہمت کا ایک بڑا ثبوت ہے ایک ایسے وقت میں جب چاروں طرف فساد ہو رہا تھا اور مسلمانوں کو اس کا مورد الزام ٹھہرایا جارہاتھاان کو ذلیل و خوار کیا جا رہا تھا ایک مسلمان لڑکی کا راجیہ سبھا میں ایک غلط آدمی کو ممبر بنانے سے روکنا بہت بڑی بات ہے ۔افروز ایک مہذب اور پڑھی لکھی لڑکی ہے وہ ذہین بھی ہے اور سنجیدہ بھی۔زندگی نے ہر موڑ پر اس کا امتحان لیامگر اس نے بھی ہمت نہیں ہاری وہ ایک چٹان کی طرح ہر مصیبت کا سامنا کرتی ہے افروز ایک فعال کردار ہے۔
گوہر بائی اس ناول کا ایک اور اہم کردار ہے وہ افروز کی ماں ہے گوہر بائی رانی منڈی کی ایک پیشہ ور طوائف ہے وہ اپنی بیٹی سے بے حد پیار کرتی ہے اور اس کی تعلیم و تربیت کی پوری ذمہ داری خود اٹھاتی ہے گوہر بائی ایک مخصوص کمرے میں طوائف کا کام انجام دیتی ہے اس نے اپنے دلال بدی ماما کو یہ ہدایت دے رکھی ہے کہ وہ افروز کو اس کے کمرے کی طرف نہ آنے دے تاکہ اسے اس کام کی بھنک بھی نہ لگ سکے وہ افروز کو اس گندے ماحول سے دور ہی رکھنا چاہتی ہے اور اسے ایک صاف اور پاکیزہ زندگی دینا چاہتی ہے وہ افروز کو لے کر بہت فکر مند ہے اور اس کی جھولی خوشیوں سے بھر دینے کی آرزو رکھتی ہے۔
گوہر بائی ایک نیک دل خاتون ہے اس نے بدی ماما جیسے بے گھر کو سہارا دیااور اپنے ساتھ کام پر رکھاوہ غریبوں کی مدد کرتی ہے صدقہ بھی دیتی ہے اور اللہ کی عبادت بھی کرتی ہے ۔گوہر بائی کے مزاج میں کافی چڑچڑاپن ہے جب وہ غصے میں ہوتی ہے تو بہت جلد چڑ جاتی ہے مسلمانوں کی خستہ حالی پر وہ بھرپور طنز کرتی ہے ایک مرتبہ نواب الطاف حسین سے مخاطب ہو کر کہتی ہے :۔
’’تم۔تم نے کیا دیا ہے الطاف حسین۔۔۔۔اس ملک کو ۔قوم کو۔اور دے ہی کیا سکتے ہو تم ۔تم مسلمان۔؟تم اپنی جوانیاں بیچنے آتے ہو یہاں۔۔۔۔اور بدلے میں ہاتھوں پر ریشے اور چہرے پر جھریاںلے کر واپس جاتے ہو۔۔۔اور بھی سننا چاہتے ہو۔‘‘(مشرف عالم ذوقی ،مسلمان ،ص۔۴۷)
گوہر بائی ایک طوائف ہونے کے باوجود زندہ دلی سے جیتی ہے اسے کسی کا خوف نہیں وہ کسی کے آگے نہیں جھکتی وہ ہر چنوتی کا ڈٹ کر سامنا کرتی ہے لوگ بار بار اس کی عصمت کا سودا کرتے ہیں لیکن اپنی عزت بیچ کر بھی وہ اپنے اندر جینے کا حوصلہ پیدا کر لیتی ہے وہ کچھ بھی برداشت کر سکتی ہے مگر اپنی بچی کو کوئی آنچ نہیں آنے دینا چاہتی۔جب جاگیرا جلتی ہوئی مشعل لے کر اس کے کوٹھے پر آتا ہے تو وہ اپنی جان دے کر افروز کو بچا لیتی ہے اور اس طرح اپنی ممتا کا حق ادا کرتی ہے گوہر بائی کا کردار اس ناول کی جان ہے ۔
نواب الطاف حسین ایک بزدل،کم ہمت،بے بس اور غیر فعال کردار ہے وہ اپنی نوابی کے زمانے کو رومانی انداز سے یاد کرتے ہیں کوئی کام دھندہ نہیں کرتے اور بے کار ہی گھر میں پڑے رہتے ہیں طوائفوں کے کوٹھوں پر جا کر رنگ رلیاں مناتے ہیں اور ذلت کی زندگی جیتے ہیں ۔جاگیردارانہ نظام کے ختم ہو جانے سے نواب صاحب کی اقتصادی حالت بہت ہی خراب ہے اوروہ اندر ہی اندر گھٹتے رہتے ہیں یہ گھٹن اتنی شدید ہوتی ہے کہ جائدادکے نام پر صرف ایک بچی ہوئی حویلی کے نیلام ہونے کی خبر سن کر وہ خود کشی کر لیتے ہیں دراصل نواب صاحب اس مسلمان کے نمائندہ کردار ہیں جو ماضی میں جیتا ہے اور ماضی ہی میں مر جاتا ہے سچ تو یہ ہے کہ آج بھی ایسے مسلمانوں کی تعداد کم نہیں ہے مصنف نے بہت باریکی سے اس کردار کا مطالعہ کیا ہے ۔
’’مسلمان‘‘ میں ویرا اور جاگیرا کے کردار بھی ہیں جو فسادات کا فائدہ اٹھا کر نوجوان مسلم لڑکیوں کی عزت لوٹتے ہیں اور پھر انھیں کوٹھوں پر بیچ دیتے ہیں ۔ونئے اور شعیب کے کردار بھی اہمیت کے حامل ہیں یہ دونوں دوست ہیں اور ایک کرائے کے کمرے میں رہتے ہیں دونوں سیکولر سوچ رکھتے ہیں اور ملک میں پھیلی ہوئی فرقہ پرستی کی مخالفت کرتے ہیں لیکن جب ونئے کا بڑا بھائی ایک فساد میں مارا جاتا ہے تو اس کی سوچ میں ایک نمایاں تبدیلی آجاتی ہے وہ جذباتی ہو جاتا ہے اسے مسلمانوں سے نفرت ہونے لگتی ہے اور ایک رات وہ غصہ میں آکر شعیب پر حملہ کرتا ہے لیکن شعیب بیدار ہو جاتا ہے اور اس کی کوشش ناکام ہو جاتی ہے چنانچہ فساد ایک ساتھ رہنے والے دو ہندو اور مسلمان دوستوں کے بیچ فرقہ پرستی کی دیوار کھڑی کردیتا ہے ایک دوست دوسرے دوست پر اعتماد نہیں کر پاتاجبکہ وہ دونوں ایک ہی کمرے میں ایک ساتھ رہتے ہیں اور آخر کار شعیب ونئے کا قتل کر دیتا ہے یہ کہتے ہوئے کہ اگر میں اسے نہ مارتا تو وہ میری جان لے لیتا ۔یہ اس ناول کا ایک اہم مقام ہے مصنف نے یہاں شاید یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ دو میں سے ایک ہی زندہ رہ سکتا ہے اس ضمن میں مصنف کو اور بھی گہرائی سے غور کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ فرقہ واریت کا حل یہ نہیں ہو سکتا ۔مصنف چاہتا تو ان دونوں کو الگ الگ رہنے پر بھی مجبور کر سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ رہنا تو ہندو مسلمان کو ساتھ ساتھ ہی ہے مگر یہاں پر ونئے کے کردار کو زندہ رکھنا ضروری تھا تاکہ سیکولر سوچ رکھنے والے لوگ ایک مضبوط اور خوشحال ہندوستان کی بنیاد رکھ سکیں۔ہندوستان میں سیکولر مزاج کے لوگوں کی آج بھی کمی نہیں ہے جوہندوستان کو ایک ترقی یافتہ ملک کے طور پر دیکھنے کے خواہشمند ہیں ۔
اس کے علاوہ ناول میں اور بھی بہت سے کردار ہیں جو کہانی کو آگے بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔
’’مسلمان‘‘ میں منظر نگاری کے کچھ نمونے بھی پیش کئے گئے ہیں تا ہم دیگر ناولوں کے مقابلے اس ناول کی منظر کشی اتنی جاندار نہیں ہے پھر بھی کچھ مناظر ہیں جو ناول کی دلچسپی میں اضافہ کرتے ہیں ۔
لوٹ مار کے زمانے میں جب مسلمان ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان جانے کی تیاری کرتے ہیں تو عزیزن بھی اپنے گھر کو خیر باد کہتی ہے اس کے جذبات کی عکاسی بہت خوبصورتی سے کی گئی ہے پیش ہے یہ منظر:۔
’’عزیزن نے آخری بار مکان پر نظر ڈالی۔۔۔پھر تھم سی گئی۔۔۔سب کچھ چھوٹ جائے گا،نا۔۔۔درو دیوار۔۔۔یہ مٹی۔۔۔یہ پیڑ پودے۔۔۔یہ چاہتوں کے خزانے ،سب کچھ۔۔۔ممکن ہے سب کچھ مل جائے۔۔۔مگر یہ گھر،یہ مٹی،یہ آنگن اور ان سے لگائو۔۔پتہ نہیں تب تک کتنا کچھ بدل چکا ہو۔۔۔اس نے ٹھنڈی سانس بھری۔آنکھیں نم ہو گئیں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،مسلمان،ص۔۴۴)
دنگوں اور ہنگاموں کا ایک نظارہ ذوقی نے اس طرح پیش کیا ہے:۔
’’سڑک پر ہنگامہ مچ گیا۔شٹر جلدی جلدی گرنے لگے۔دکانیں بند ہونے لگیں۔۔۔لوگ تیزی سے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے ۔بالکنی پر لٹکے ہوئے کپڑوں کے درمیان سے تھوڑا سا سر نکال کر یہ منظر گوہر جان نے بھی دیکھا۔چاروں طرف افرا تفری مچی تھی ۔۔۔آس پاس کی کھلی کھڑکیوں سے جھانکتی طوائفوں کے درمیان،آنکھوں آنکھوں میں وحشت کے کچھ مکالمے بھی ہوئے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،مسلمان،ص۔۷۶)
اس ناول کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کے مکالموں میں کوئی جھول نظر نہیں آتا۔ذوقی نے ہر کردار کی زبان سے مناسب،موزوں،فطری اور دلچسپ مکالمے ادا کروائے ہیںجس سے ناول میں جان پڑ جاتی ہے ۔’’مسلمان‘‘ کے چند اہم مکالمے ملاحظہ ہوں۔
جب ویراشیخ سلیم کے گھر جا کر اس کی جوان بیٹی کے ساتھ بد تمیزی کرتا ہے تو شیخ سلیم گھبرا جاتے ہیں اس موقع پر ویرا کا باپ للن یادو وہاں پہنچتا ہے اور یہ مکالمہ ادا کرتا ہے :۔
’’بالکل مت گھبرائیے شیخ صاحب!آپ کی لڑکی ہماری لڑکی ہے ۔ویرا سے تو ہم بعد میں سمجھیں گے۔آپ بالکل پریشان نہ ہوں ۔‘‘(مشرف عالم ذوقی ،مسلمان،ص۔۴۳)
گوہر بائی کی بیٹی افروز جب جوان ہو جاتی ہے تو اس کے دلال جاگیرا کی بری نظر اس پر پڑتی ہے وہ گوہر بائی سے کہتا ہے:۔
’’تمہارا شباب تو اب چند دنوں کا مہمان ہے گوہر بائی۔۔۔۔افروز جان کو بھی اس دھندے سے کیوں نہیں لگا دیتیں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،مسلمان،ص۔۵۳)
افروز کا یہ مکالمہ ملاحظہ ہو:۔
’’آج میں فیصلہ سننے آئی ہوںبائی اماں۔یا تو آپ مجھے یہ گھنگھرو پہنائیے یا اس ماحول سے دور لے جائیے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،مسلمان،ص۔۷۲)
افروز جب نوکری کی تلاش میں ایک دفتر میں جاتی ہے تو وہاں کے انچارج مسٹر باواکا جملہ اسے ہلا کر رکھ دیتا ہے :۔
’’نو ویکنسی مس افروز۔تم مسلمان ہو معاف کرنا۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،مسلمان،ص۔۱۱۷)
شعیب کے دوست ونئے کا یہ مکالمہ ملاحظہ ہو:۔
’’وہ ہمارا دوغلہ پن ہے جو چائے کی ان میزوں پر سمٹ آتا ہے ۔اس سے الگ،گھر کی میزوں پر ہم کیا ہیں؟ہم ہندو ہیںافروز یا شعیب مسلمان ہے ۔تمہارے مذہب میں کافروں کوجان سے مارنا بھی گناہ نہیں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،مسلمان،ص۔۱۴۷)
ناول کے یہ مکالمے حقیقت سے بہت قریب نظر آتے ہیں اور ناول کی دلچسپی میں اضافہ کرتے ہیں۔
کسی بھی ناول کی کامیابی کا سہرا بڑی حد تک اس کی زبان وبیان پر منحصر ہوتا ہے اس لئے زبان و بیان کے استعمال میں تخلیق کار کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ایک اچھے تخلیق کار کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسی زبان استعمال کرے جسے قاری سمجھے اور اس کو پڑھنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ناول ’’مسلمان‘‘ کی زبان ملی جلی ہے اس میں ہندی کے علاوہ انگریزی الفاظ کی بھی بھر مار ہے ۔انجکشن،میٹروپلٹن،گرلس ہوسٹل،میٹنگ،نیو سٹی ایریا،ایکسائٹڈ،وی سی پی،وی سی آر،اسٹرگل،کاسٹ ازم،پرائیویٹ،کوالیفکیشن،فیملی،مائی گاڈ،ون روم فلیٹ،سسٹم،روم پارٹنر،پلیز،آفس،کمیونل اور فری لانسر کے علاوہ اور بھی بہت سے انگریزی الفاظ ملتے ہیں۔ہندی الفاظ میںآندولن،اگنی پرکشا،راکشس،پرمکھ،گئو،دھارمک سنستھا،ویشیا،جن مانس،منتری،اپمان،گوشٹھی،ترشول،وبھاجن،دنگے وغیرہ کئی الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے ۔ناول میں چندمشکل الفاظ بھی استعمال کئے گئے ہیں مثلاًتانڈو،جھانس،کساں،سرپٹ،ملیچھ،مٹول،دھرتے،اٹھا پٹک ایسے الفاظ ہیںجو عام قاری کی سمجھ میں نہیں آتے۔
ناول میں محاوروں کا بھی جابجااستعمال کیا گیا ہے مثلاً پھوٹی آنکھ نہ بھانا،دل پر چوٹ لگنا،کاٹو تو خون نہیں،تھر تھر کانپنا،تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ،سر آنکھوں پر بٹھانا،آم کھائو گٹھلی سے کیا کام،مرا ہوا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے وغیرہ لیکن ناول میں چند غلط محاورے بھی پڑھنے کو ملتے ہیںجیسے پیار کا دورہ پڑنا،کلیجہ بھر آنا،تال پیٹو تال،ماتھا ٹھنکا وغیرہ جبکہ اصل محاورے اس طرح ہیں ۔پیار آنا،کلیجہ بڑھ جانا،تال مارنااور ماتھا ٹھنکنا۔
(ii) پو کے مان کی دنیا
’’پو کے مان کی دنیا ‘‘بھی ذوقی کا ایک اچھا ناول ہے ان کا قلم اکثر زندگی کی برہنہ سچائیوںکو صفحہ قرطاس پر اتارتا رہا ہے اس ناول میں انھوں نے بدلتے ہوئے زمانے اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے منفی اثرات کی ترجمانی کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے
جہاں تک ’پو کے مان‘ کا تعلق ہے تقریباًبیس سال قبل جاپان کی ایک ڈیزائننگ کمپنی نے عجیب و غریب نام اور شکلوں والے کم و بیش ایک سو پچاس کارٹونوںکی تخلیق کی تھی تب اس کمپنی والوں نے یہ سوچا بھی نہیں ہوگاکہ بچوں کے آج کے Behaviourسے یہ شکلیں اتنی مل جائیں گی کہ ان کی فطرت میں وہ ساری حرکتیں شامل ہو جائیںگی جو وہ ان کارٹونوں کے ذریعہ پیش کر رہے ہیں۔ذوقی نے اس ناول میں ایک سو اکیانواں(۱۵۱)پو کے مان پیش کرنے کی سعی کی ہے۔
’’پو کے مان کی دنیا‘‘میں عصر حاضر کے ایک سلگتے ہوئے موضوع کی ایسی حقیقت پسندانہ تصویر کھینچی گئی ہے جس میں مستقبل کی خطرناک جھلکیاں صاف طور پر دکھائی دے رہی ہیں۔سائبر کرائم پر اردو میںاب تک ایسا عمدہ ناول شائد ہی لکھا گیا ہو اس ناول کے ذریعے ہم ایک حقیقت سے آشنا ہوتے ہیںسائبر اور انٹرنیٹ نے ہمارے بچوں کے ذہنوں کو غلام بنا دیا ہے۔
’’پو کے مان کی دنیا‘‘صحیح معنوں میں اکیسویں صدی کے ہندوستانی سماج اور اس سے جڑے ہوئے مسائل کا آئینہ ہے نئی ٹیکنالوجی کا سماجی ڈھانچے پر بہت گہرا اثر پڑا ہے یہ ناول اس اہم ترین موضوع پر ایک سنجیدہ روشنی ڈالتا ہے ناول میں آج کے نوجوانوں کا سماجی رحجان اور ان کا پچھلی نسل سے فکری سطح پر اور روز مرہ کی زندگی میں رہن سہن کا ٹکرائو بہت خوبی سے بیان کیا گیاہے مصنف نے نابالغ بچوں کو کردار بنا کرہندوستان کی مکروہ سیاست سے پردہ ہٹانے کی سعی بھی کی ہے ۔
یہ ناول ذوقی کے مشاہدے کا اچھا نمونہ ہے اور ثابت کرتا ہے کہ ایماندار فنکار ہماری زندگی اور تہذیب کو متاثر کرنے والے ہر چھوٹے بڑے واقعے اور حادثے کو بہت شدت سے محسوس کرتا ہے آج والدین کے پاس وقت نہیں ہے وہ دفتر ،کاروباراور دیگر امور میں اس قدر مصروف ہیں کہ انھیں پتہ ہی نہیں ہے کہ ان کے بچے کیا کر رہے ہیں اور ان کی زندگی کون سا رخ اختیار کر رہی ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سائبر عہد کے بچے نہ صرف عمر سے پہلے جوان ہو رہے ہیںبلکہ ان کے ہوش وحواس پر جنس غالب ہو رہی ہے آج کل بچے بے ججھک بلو فلمیں اور فحش ویب سائٹس دیکھ رہے ہیں اور عملی زندگی میں بھی اسے اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں ظاہر ہے ایسے سائٹس بچوں کو Sexualکرائم کی طرف اکساتے ہیں۔ناول کے مرکزی کردار سنیل کمار رائے(جج) کے پاس ایسا ہی ایک کیس آتا ہے بارہ سال کا روی کنچن اور اس کی ہم عمر اور ہم جماعت لڑکی سونالی اپنے گھر میں بلو فلم دیکھتے ہیںاور پھر وہی سب کچھ کر بیٹھتے ہیں۔
سنیل کمار گوپال گنج کا رہنے والا ہے جو غریبی اور مفلسی کے عالم میں تعلیم پوری کر کے دلی میں جج کے عہدے پر فائز ہے اور وہیں اپنے اہل وعیال کے ساتھ قیام پذیر ہے اس کا لڑکا نتن اور لڑکی ریا کانونٹ اسکول میں تعلیم حاصل کر کے Modernہو جاتے ہیںمگر سنیل ان کے رنگ ڈھنگ اور چال چلن سے مایوس اور فکر مند ہے اسے گوپال گنج اور دلی کے کلچر میںخاصا فرق نظر آتا ہے ایک لمبے عرصہ تک رہنے کے باوجود وہ دلی شہر کے طرز زندگی سے سمجھوتہ نہ کر سکا جب کہ اس کی بیوی سنیہہ لتا اس نئی تہذیب سے مطابقت پیدا کر لیتی ہے سنیل نئی تہذیب کے پروردہ بچوں کی حرکتوں سے متعجب ہو کر کہتا ہے :۔
’’آج کے بچے اتنا تیز اڑ رہے ہیں کہ ہماری پکڑمیں ہی نہیں آسکتے ہیں۔نئی ٹیکنالوجی صرف نئی اور بھیانک بیماریاں ہی دے سکتی ہے ۔اور ہمیں ایک ایسی نفسیات میں مبتلا کر سکتی ہے ۔جس کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،پو کے مان کی دنیا،ص۔۷۰۔۶۹)
جہاں سنیل کمار عدالت میں روز کئی ملزموں کو فیصلہ سناتا ہے وہیںاس کے گھر میں اس کا ایک بھی فیصلہ نہیں مانا جاتا۔اس کی بیٹی ریا اور بیٹا نتن آج کے بچے ہیںاور آج کے بچے اپنے والدین کی کہاں سنتے ہیں۔اسنیہہ بھی اپنے بچوں کی ہاں میں ہاں ملاتی ہے اس بات کو لے کر کئی بار میاں بیوی میں جھگڑے بھی ہوتے ہیں مگر سنیل کی بیوی،بچوں کا ساتھ دینا نہیں چھوڑتی اور اس کی آنکھ تب کھلتی ہے جب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے دراصل ایک ویلسی نام کا لڑکاریا کے ساتھ ان کے گھر پر آتا ہے وہ ایک سنگیت کلا کار ہے اور ریا کو سنگیت سکھاتا ہے ریا کو ویلسی کے ساتھ پیار ہو جاتا ہے اور وہ اس کے ساتھ بھاگ جاتی ہے نتن ’بلیو برڈ‘ نامی ایک امریکی کمپنی میں کام کرتا ہے اور وہیں کسی لڑکی کے پیار میں پھنس کر اس سے شادی کر لیتا ہے بچوں کے اس طرح گھر چھوڑ کر چلے جانے سے اسنیہہ بہت پریشان رہنے لگتی ہے مگر اس کا شوہر اس حالت میں بھی اس کے ساتھ ہوتا ہے اور اس کا حوصلہ بڑھاتا ہے ۔
مگر اصل کہانی تو تب سامنے آتی ہے جب جے چنگی رام جو کہ ایک دلت لیڈر اور بی جے پی کا سر گرم رکن ہے کی نا بالغ بیٹی سلونی کا بلاتکار ہو جاتا ہے لڑکی کی عمر ابھی صرف بارہ سال کی ہوتی ہے بلاتکاری اسی کا ہم جماعت لڑکا روی کنچن ہے جو بڑی ذات سے تعلق رکھتا ہے روی کی عمر بھی بارہ سال بتائی گئی ہے یہ مقدمہ سنیل کمار کی عدالت میں چلتا ہے ۔اس مقدمے کی پہلی سنوائی بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو جاتی ہے جج سنیل کمار ،روی کنچن کو فارم ہائوس بھیجنے کا فیصلہ سناتا ہے اس کے بعد روی کو فارم ہائوس بھیج دیا جاتا ہے میڈیا والے اس معاملے کو ہوا دیتے ہیں اور اس طرح یہ خبر پورے شہر میں پھیل جاتی ہے ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اس معاملے کو پولیٹیکل ایشو بنانے میں لگ جاتی ہیںشہر کے لوگ دلت لڑکی کے بلاتکار کی خبر سن کر آگ بگولہ ہو جاتے ہیں محلے والے روی کنچن کے گھر توڑ پھوڑ کرتے ہیں اور میڈیا والے بھی روی کے گھر میں داخل ہو کر اس کے ماں باپ کی تصویریں کھینچ کر جھوٹی خبریں پیش کرنے میں جٹ جاتے ہیں جب کہ سنیل کمار روی کنچن کے کیس کو سنجیدگی سے حل کرنا چاہتے ہیں جج پر سیاسی جماعت کی طرف سے دبائو ہے کہ بچے کو زنا بالجبر کا مجرم قرار دے کر اسے سخت سے سخت سزا دیں۔لیکن جج صاحب معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لئے روی سے ملتے ہیں اور حقیقت جاننے کے بعد بچے کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
ایک طرف جہاں بی جے پی جے چنگی رام کی بیٹی کے بلاتکار کا معاملہ اٹھا کر اور جھوٹی ہمدردی جتا کر دلت ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور دل ہی دل میں دلت کی بیٹی کے بلاتکار پر خوش ہو رہی ہے ،اسے الیکشن ایشو بنا رہی ہے تو وہیں دوسری طرف بہوجن سماج پارٹی جو خود کو دلتوں کی واحد پارٹی کہتی ہے اسے دوسرا رنگ دے کر منو وادیوں کو گالی دے رہی ہے اور اپنا ووٹ بینک بڑھا رہی ہے لیکن سلونی کا بھلا چاہنے والا کوئی نہیں۔
سلونی کا بلاتکار اور اس سے پیدا ہوئے مسائل اور مقدمہ کے ارد گرد گھومتا ناول کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے کئی کردار درمیان میں آتے ہیں جو محض ناول کو آگے ہی نہیں بڑھاتے بلکہ اپنی سوچ،کردار اور مکالمے سے اپنی پہچان بھی چھوڑتے ہیںجیسے شوبھا(سلونی کی ماں)،ریتا بھاوے،پرماکر بندھو،نکھل اڈوانی،ویلسی(ریا کا بوائے فرینڈ)،میری فرنانڈس اور دیگر کئی کردار ناول میں شامل ہیں جو کہ اس ناول کا اہم حصہ ہیں ۔جج سنیل کمار اس مقدمے کی ایک تفصیلی رپورٹ تیار کرتا ہے۔
’’یہ مقدمہ اتنا سیدھا سادھا نہیں ہے۔جس کا فیصلہ ایک منٹ میں سنا دیا جائے۔کہ یہ ہوا۔یا ایسا ہو گیا۔یہ ملزم ہے اور یہ سزا۔دراصل ہم ایک مشکل ترین دنیا پر داخل ہو گئے ہیں ۔جہاں فیصلے آسان نہیں ہو ں گے۔قانون کو اپنے اب تک بنے بنائے اصولوں اور ضابطوں کو توڑنے کے بارے میں سوچنا ہو گا۔آپ اب 2+2=4پر بھروسہ نہیں کر سکتے ۔الجبرا کے فارمولوں سے لے کر بدن کا الجبرا اور دماغ کا جغرافیہ سب کچھ بدلنے لگا ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،پو کے مان کی دنیا،ص۔۳۲۲)
سنیل کمار کچھ اور بھی بتاتے ہیں:۔
’’ایک طرف بھیانک Realityہے،دوسری طرفFantasy۔بچہ ایک بھیانک Reality سے گزر چکا ہے ۔دوسری طرف وہ پو کے مان دیکھ رہا ہے ۔بچہ کچھ کر گزرا ہے ۔لیکن وہ اس اصول پر پابند ہے ۔کہ وہ ہے تو ہو گا۔اس لئے اسے Guiltتو ہے ۔لیکن ہمارے Behaviourسے پریشانی بھی۔شاید ہم اسے اس بات کا ضرورت سے زیادہ احساس کرا چکے ہیںکہ اس سے ایک بھیانک کرائم کمٹ ہو چکا ہے ۔ایک دن وہ فنٹاسی اور ریلیٹی کو آپس میں ملا دے گا۔اور خطرناک سیریل کلر(killer)بن جائے گا۔امریکہ سے بھارت تک ایسے سیریل کلر کی کہانیاں دیکھیں،تو آپ کو اس سچ پر یقین آجائے گا۔یعنی killingکے لئے نئی نئی فنتاسی کی کھوج۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،پو کے مان کی دنیا،ص۔۳۲۲۔۳۲۳)
جج صاحب مزید اپنی رپورٹ پڑھتے ہیں :۔
’’آپ بچوں سے ان کے کارڈ حاصل کیجئے۔وہاں ہر پو کے مان کا نمبر،وزن،لمبائی اور ہارس پاور موجود ہوتا ہے ۔یہ کردار جاپانی لوک کتھائوں سے نکلے ہیں اور بھارتیہ بچوں کے سر پر سوار ہیں۔مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مانیہ منتری مرلی منوہر جوشی جی کے شکچھا ایجنڈے میں جو بھی ہو ،مگر وہ اپنی سنسکرتی کی رکچھا کیسے کر پائیں گے۔کیونکہ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کو بھارتیہ بازار میں اتارنے کے پیچھے ان کے گڈ فیل فیکٹر رہے ہیں ۔منافع کمائو۔اور عیش کرو۔تباہ کچھ نہیں ہوتا ۔مگر ہر صدی میں ہم روتے رہے ہیں۔اس صدی میں ہم کچھ زیادہ رو رہے ہیں کیونکہ انجانے طور پر اس گلوبلائزیشن نے ہمارے ۱۲ سال کے ایک بچے سے بلاتکار کی گھٹنا کرا دی ہے ۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،پو کے مان کی دنیا،ص۔۳۲۶)
جج سنیل کمار رائے نے اس تاریخی مقدمہ کا جو فیصلہ سنایایہی اس ناول کی سب سے مضبوط کڑی ہے ۔دراصل کہانی کا اختتام اس ناول کا سب سے خوبصورت حصہ ہے ناول کا اس سے خوبصورت اور چونکانے والااختتام ممکن ہی نہیں تھا۔
’’روی کنچن بے قصور ہے ۔اور اس پورے معاملہ کا اس سے کوئی سروکار نہیں۔ایک چھوٹے سے پو کے مان کی غلطی کو نظر انداز کرنے میں ہی ہم سب کی بھلائی ہے۔لیکن اس کے باوجود کوئی نہ کوئی مجرم ضرور ہے اور جو مجرم ہے،اسے سخت سے سخت سزا تو ملنی ہی چاہئے۔اس لئے۔۔۔۔۔میں پورے ہوش و حواس میں یہ فیصلہ سناتا ہوںکہ تعزیرات ہند،دفعہ ۳۰۲کے تحت۔میں اس نئی ٹکنالوجی،ملٹی نیشنل کمپنیز،کنزیومر ورلڈاور گلوبلائزیشن کو سزائے موت کا حکم دیتا ہوں،ہینگ ٹل ڈیتھ۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،پو کے مان کی دنیا،ص۔۳۳۰)
اس ناول میں مصنف نے گلوبلائزیشن کے بڑھتے ہوئے دائرہ کار اور اس کے اثرات کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ساری دنیا ایک گلوبل گائوںمیں تبدیل ہو رہی ہے اور اس گلوبل گائوں سے بے شمار خطرات پیدا ہو رہے ہیںیہ ناول اس کی خوبصورت عکاسی کرتا ہے گلوبلائزڈاور لبرالائزڈ دنیا میں انسانی قدروں کے لئے کوئی جگہ نہیں ۔ٹکنالوجی کے اس دور میں انسانی رشتے،قدریںاور سیکس ایک بڑے بازار کا حصہ بن چکے ہیں۔
’’پو کے مان کی دنیا‘‘دراصل وہ کہانی ہے جو آج کل ٹی وی پر بچوںکی دلچسپی کا سبب بنی ہوئی ہے ’’پو کے مان‘‘کا اگر اردو ترجمہ کیا جائے تو اسے ((جیبی شیطان))Pocket Monsterکہتے ہیں۔ناول میں بچوں کی ابتدائی دلچسپیوں کے بارے میں ایک طویل گفتگو پیش کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح بچے سوسائٹی میں اپنی غلط خواہشوں کی وجہ سے قتل وغارت گری،جوا،شراب،ریپ اور اسی طرح کئی دوسرے خطرناک جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں جس کے مضر اثرات نہ صرف سماج پر پڑتے ہیں بلکہ وہ خود بھی زندگی بھر کرب میں مبتلا رہتے ہیں ۔
سلونی کا بلاتکار روی کنچن نے صرف ۱۲سال کی عمرمیں کردیا۔ناول میں اس واقعے کی تفصیل سے وضاحت کی گئی ہے ان دونوں بچوں نے ایک کھیل کھیلا۔اسے بلاتکار کا نام دیا جائے یا محض کھیل کہا جائے یہ غور کرنے کی بات ہے مگر ایک دوسرااور اہم سوال جو کہ موجودہ دور کا سب سے سلگتا ہوا سوال ہے کہ بچے آج وقت سے پہلے جوان ہو رہے ہیں جو بچے ٹیلی ویژن زیادہ دیکھتے ہیںوہ غیر فطری طور پر عمر سے پہلے بالغ ہو جاتے ہیںآج ہم جس ماحول میں سانس لے رہے ہیں وہاں کیبل ٹی وی کے ذریعہ جس طرح کے پروگرام دکھائے جارہے ہیں ان سے ہم سب واقف ہیں یہ پروگرام بچوں کے دماغ پر اثر نہیں بلکہ اٹیک کرتے ہیں اور پھر اسی طرح کی وارداتیں منظر عام پر آتی ہیںایسی وارداتوں کے ذمہ دار صرف بچے ہی نہیں والدین بھی ہیں جو اپنے بچوں کی من مانی کے آگے جھک جاتے ہیں اور انہیں وہ ساری سہولتیں مہیا کرتے ہیں جو اسکول جانے والے بچوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔
ذوقی نے بچوں کی جنسی بے راہ روی میں سائنسی آلات مثلاًموبائل فون،ٹی وی،ویڈیو اور کمپیوٹرانٹرنیٹ وغیرہ کو موردالزام ٹھہرا یا ہے جو کہ بالکل درست ہے۔والدین بچوں کی پرواہ کئے بغیر فحش اور بلو فلمیں دیکھنے میںاحتراز نہیں کرتے۔ایسے میں ان کی ذراسی بھول بچوں کو گناہوں کی طرف مائل ہی نہیں بلکہ مجبور کر دیتی ہے۔
’’اپنے اپنے ٹی وی سیٹ کے آگے خاموشی سے پو کے مان دیکھتے بچوں کو ماں باپ بھی نہیں پڑھ سکے کہ ان کابچپن کہاں جا رہا ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،پو کے مان کی دنیا،ص۔۳۲۷)
آج کے بچے انٹرنیٹ اور کمپیوٹر عہد میں پیدا ہو رہے ہیں انٹرٹینمنٹ کے نئے نئے میڈیا روز بہ روز ان کا استقبال کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں ایسے حالات میں ہم ان سے یہ توقع کیسے رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہم سے ڈریں،ہمارا ادب اور احترام کریں۔اس ٹکنالوجی نے عمر کے طبقات کو ختم سا کردیا ہے اور آج کا بچہ ،بچہ ہونے کے تمام احساسات سے دور نکل چکا ہے ناول میں تہذیبوں کے تصادم کو نہایت ہی موثر انداز میںپیش کیا گیا ہے ۔مصنف نے آج کی تہذیب پر گہرا طنز کیا ہے آج کے بچے اپنی تہذیب سے بے نیاز ہیںمغربی طرز پر چلتے ہوئے وہ اپنی تہذیبی وراثت کو فراموش کر چکے ہیں ناول میں ایشیائی تہذیب کا درد ناک منظر ہے اس ناول میں ذوقی نے ایک تہذیب کا زوال اور دوسری تہذیب کا عروج بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے اسنیہہ اس ناول کی ایک اہم کردار ہے اسنیہہ ماضی کا دامن چھوڑتی گئی اورنئی روایتوں کو اپناتی گئی مگر سنیل کمار رائے نے کبھی بھی اپنے ماضی سے نظریں نہیں چرائی وہ اخلاقیات کے گہرے بھنور میں پھنسا ہوا ہے اس کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی روایتوں اور تہذیبوں کا خون ہوتے ہوئے دیکھے جبکہ اس کے دوست نکھل نے وقت کی رفتار کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہے اس لئے وہ ہر لمحے کو جیتا ہے اور وہ نئے زمانے کی تہذیب کو پوری طرح سے اپنا لیتا ہے آج کی مشکل ترین زندگی اور نئی تہذیب کا منظر اس ناول میں بے لاگ پیش کیا گیا ہے آج کے دور میں اگر موبائل پر گندے گندے ایس ایم ایس موصول ہوتے ہیںتو یہ چیزیںپہلے بھی ہوا کرتی تھیں فرق صرف یہ تھا کہ پہلے لوگ سامنے والے کے منہ پر ہی گندے مکالمے بول دیتے تھے مصنف نے ان دونوں پہلوئوں پر برابر روشنی ڈالی ہے ذوقی کو انسانی نفسیات پر بھی عبور حاصل ہے آج کی جنریشن کو جو محبت اور سیکس کی نئی بیماری لگی ہے یہ بیماری پہلے بھی تھی مگر اس میں اتنی شدت نہیںتھی جتنی کہ آج کے دور میں ہے ذوقی نے اس معاملہ کو سنجیدگی اور فکر سے دیکھنے اور برتنے کی کوشش کی ہے ۔
’’ایک نئی تہذیب جنم لینے والی ہے ۔ایک انڈا ٹوٹنے والا ہے۔اس سے ایک بھیانک پرندہ نکلے گا ۔نئی پیڑھی کو لذت اور چٹخارے چاہئے۔وہ سیکس سے آئے یا دہشت گردی سے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،پوکے مان کی دنیا،ص۔۶۷)
ناول کا کردار نتن اپنے باپ کی سوچ اور طرز زندگی سے اختلاف رکھتا ہے وہ نئی نسل کا نمائندہ کردار ہے اس کے مکالموں سے تہذیبوں کے تصادم اور جنریشن گیپ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
’’نو۔نو۔،نتن چونک گیا ہے۔ہم کیا رئیلیٹی سے باہر ہیں۔ایک فنتاسی کی دنیا ہے ۔نو۔نو۔یو آر جسٹ جوکنگ پاپا۔رئیلیٹی۔یہ رئیلیٹی کیا ہے۔؟یہ ہم ہیں۔ہمارا یہ دور ہے۔ہماری محبت ہے۔ٹو پلس ٹواز اکول ٹوفار۔آپ کی طرح نہیں کہ محبت اندھی ہوتی تھی۔ایک بلیک ہول میں۔دیکھا اور محبت ہو گئی۔رئیلیٹی ہماری ہے۔ہم سچ دیکھ رہے ہیں۔یہ رئیلیٹی ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،پوکے مان کی دنیا،ص۔۲۷)
ناول نگار نے کرداروں کی پیشکش میں فنی مہارت کا ثبوت دیا ہے ان کے تمام کردار فطری معلوم ہوتے ہیں کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ بھی عمدہ طریقے سے کیا گیا ہے البتہ ویلسی کا کردار حقیقی نہیں لگتا اس میں کچھ کمزوریاں اور خامیاں ہیں ۔ویلسی ریا کا بوائے فرینڈ ہے یہ کردار ناول میں جتنی دیر رہا اس نے اپنی حرکتوں اور باتوں سے قارئین کو چونکایا ہے ویلسی کے کردار کو مصنف نے عجیب رنگ ڈھنگ کا بنا کر پیش کیا ہے اس کی باتیں غلط اور بے بنیاد لگتی ہیں۔
’’ہم ہر بار نئے ہوتے ہیں۔نئے سنگیت کی طرح ۔نہیں۔فی الحال ان سر اور تال کی پہچان کرنی ہے ۔کسی کو بوجھ مت بنائو۔گھر برا ہے۔تو نہیںرہنا۔زندگی بری ہے ۔تو جسم کی کینچلی کو اتار دو۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،پوکے مان کی دنیا،ص۔۱۳۵)
ریا آج کی جنریشن کا نمائندہ کردار ہے اس کا رہن سہن اعلٰی سوسائٹی کا ہے وہ کانونٹ اسکول میں تعلیم حاصل کرتی ہے ریا کا لباس مغربی طرز کا ہے وہ پرانی روایتوں کو نہیں مانتی۔اسے سماجی پابندیوں سے گھن آتی ہے ریا کا کردار جنریشن گیپ کی بہترین نمائندگی کرتا ہے وہ اکثر اپنے باپ سے الجھتی ہوئی پائی جاتی ہے۔
’’یہ ہے جنریشن گیپ ۔آپ کے اور ہمارے بیچ کاڈیڈ۔اونلی جنریشن گیپ۔آپ صرف ہماری جنریشن میں بیکٹریا ڈھونڈھو گے۔غلط باتوں کا بیکٹریا۔یو آر سو کنزوویٹو اینڈ سواولڈ فیشنڈ۔بدلے ہوئے زمانے میں آپ کبھی ہمیں Acceptکرو گے ہی نہیں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،پوکے مان کی دنیا،ص۔۲۸)
ریا کو اپنے ماں باپ کی عزت کا کوئی پاس نہیں ہے اور نہ ہی وہ ان باتوں کو کوئی اہمیت دیتی ہے وہ ان کی اجازت کے بغیر ایک نوجوان اور اجنبی لڑکے کو گھر میں لے آتی ہے ریا کے اس فیصلے سے اس کے والدین خوش نہیں ہیںلیکن وہ تمام بندشوں کو توڑ کر اڑنا چاہتی ہے اور ویلسی کے ساتھ ناجائز تعلقات بنا لیتی ہے وہ اس کو اپنے ہی کمرے میں ٹھہراتی ہے اور اس سے بوس و کنار کرنے میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتی اور پھر ایک دن وہ اس کے ساتھ بھاگ جاتی ہے ریا ویلسی کے ساتھ کوئی سچا پیار نہیں کرتی نہ ہی وہ اس کے ساتھ پیار نبھانے کا وعدہ کرتی ہے بلکہ وہ تو اسے صاف طور پر کہہ دیتی ہے :۔
’’ہماری جنریشن Loveجیسی چیز پر بھروسہ نہیں رکھتی۔یہاں سے جانا ہو،یا مجھ سے دور رہنا ہو تو۔پھیکے،بوجھل شبدوں کا سہارا مت لو۔ہم دل پر کوئی بات نہیں لیتے۔رکھتے بھی نہیں۔ویلسی۔یہ میرا سنگیت ہے۔ریا کا سنگیت۔تم جائو گے۔ایک دوسرا ویلسی آجائے گا۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،پوکے مان کی دنیا،ص۔۲۰۷)
سنیل کمار رائے ناول ’’پو کے مان کی دنیا ‘‘کا سب سے اہم اور متحرک کردار ہے وہ اس ناول کا مرکزی کردار بھی ہے ،ہیرو بھی اور راوی بھی۔پورا ناول اسی کردار کے ارد گرد گھومتا ہے ۔پیشہ کے اعتبار سے سنیل کمار ایک جج ہے وہ ایک مہذب انسان ہے اسے اخلاقی قدروں اور روایتوں کا پاس ہے ۔سنیل کا کردار ایک ہوش مند،باخبر،درد مند اور انصاف پسند منصف کے طور پر ابھرتا ہے ناول پڑھتے وقت قاری کو بار بار اس کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے ۔
سنیل کمار رائے ایک ایسا کردار ہے جس کی تخلیق،تشکیل اور تعمیر مصنف نے نہایت ہی عمدہ طریقے سے کی ہے اس کے اندر زندگی کے مثبت اور منفی دونوں پہلوئوںکو سمجھنے اور سمجھانے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے وہ ایک تجربہ کار قانون دان ہے اور انصاف کی عینک پہن کر ہی اپنا فیصلہ سناتا ہے سنیل کمار یوں تو ایک جج ہے مگر وہ اپنے پیشے کا لباس پہن کر نہیں جینا چاہتا۔اس کے گھر کے ہر فرد نے یہ بھلا دیا ہے کہ وہ بھی ان ہی کی طرح ایک جیتا جاگتا انسان ہے وہ بھی ایک عام آدمی کی طرح سوچتا ہے اس کے پاس بھی جذبات ہیں خواہشات ہیںیا اس کا بھی دل ہے جس میں دھڑکن بھی ہے ۔سنیل کمار ایک شوہرہے،باپ ہے اور ایک اچھا دوست بھی۔اس سے بھی ہر معاملے میں رائے لی جا سکتی ہے یا بحث کی جا سکتی ہے مگر افسوس کہ اس سے اگر بات کی جاتی ہے تو اس کے پیشے کے اعتبار سے یا ایک جج کی حیثیت سے۔مصنف نے فرد کے اس کرب کو بخوبی محسوس کیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ کوئی بھی بڑا سے بڑا آدمی چاہے وہ کمشنر،کلکٹر،پروفیسر،ڈاکٹر،انجینئر یا انسپکٹر ہو پہلے وہ ایک انسان ہے اور اس کے بعد کچھ اور ۔اس کے پاس بھی دل ہوتا ہے جس میںبہت ساری تمنائیں اور آرزوئیں ہوتی ہیں اور وہ بھی اپنے آپ کو دوسروں سے شئیر کرنا چاہتا ہے ۔
’’اسنیہہ نئی باتوں سے سمجھوتہ کرتی رہی۔اور میں اندر ہی اندر ذبح ہوتا رہا ۔مگر کیوں۔؟سوچتا ہوں تو جواب نہیں ملتا۔شاید اس لئے کہ میں بچوں میں بچھ بچھ جانا چاہتا تھا ۔مگر بڑے ہوتے بچوں نے مجھے صرف ایک ڈیڈ رہنے دیاتھا۔Diedمیں ایک مرا ہوا آدمی تھا۔جس سے وہ بے تکلف نہیں ہو سکتے تھے ۔جس سے وہ ایک لمبی دوری بنا کر رکھنا چاہتے تھے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،پوکے مان کی دنیا،ص۔۳۲)
دیوورت اور شالنی اپنے بچے روی کنچن کو ایک بہتر تربیت نہیں دے پاتے۔دیوورت بلڈنگ کنٹریکٹر کا کام کرتا ہے سارا دن باہر رہتا ہے اور دیر رات شراب پی کر گھر لوٹتا ہے وہ خود کو کام میں اتنا مصروف رکھتا ہے کہ اپنے بچے کے لئے اس کے پاس وقت ہی نہیں ہے شالنی بھی ایک بیوٹی پارلر میں کام کرتی ہے وہ گھر کے کام میں بھی خود کو زیادہ مصروف رکھتی ہے اور رات کو جب دیوورت گھر آتا ہے تو دونوں ٹی وی پر گندی فلمیں دیکھتے ہیں روی نے ان کو بلو فلم دیکھتے ہوئے کئی بار دیکھا اور جب بھی وہ گھر پر اکیلا ہوتا تو CDلگاکر فلم دیکھتا اور اسی کے نتیجے میں اس نے سلونی کا بلاتکار کر دیا ۔والدین کی لاپرواہی کی وجہ سے ہی وہ یہ گھنائونا قدم اٹھاتا ہے اور اس طرح مصنف نے آج کے والدین کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ وہ اپنے فرائض کو انجام دینے میں کس طرح کوتاہی برتتے ہیں اور اس کے خطرناک نتائج برآمد ہو رہے ہیں ۔
ناول ’’پو کے مان کی دنیا‘‘میں میڈیا کی گھنائونی کرتوتوں کا بھی پردہ فاش کیا گیا ہے ناول میں ریپ کیس کو میڈیا کے ذریعہ جس طرح اچھالا جاتا ہے اس میں اخلاقیات کا سبق سرے سے غائب ہوتا ہے اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں اپنے مفاد کے لئے میڈیا کو خرید لیتی ہیں اور میڈیا والے اپنا فرض بھول کر ایسی خبریں پیش کرتے ہیں جن سے عوام کے جذبات بھڑک جاتے ہیں ایک دلت اور غریب آدمی کو پیسوں کا لالچ دے کر اس کی ہی مظلومہ بیٹی کی تصویریں کھینچ کر عصمت دری کے واقعات کو جس طرح منظر عام پر لایا جاتا ہے اس سے سماج میں غلط Messageجاتا ہے ٹی وی رپورٹر اور اخباری نمائندوں کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سماج میں اس بیٹی اور باپ کو کس نگاہ سے دیکھا جائے گا یا ان کی آئندہ زندگی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیںمیڈیا کو چاہئے کہ وہ اپنی حدود میں رہ کر ہی خبریں پیش کرے اور چند پیسوں کے عوض اپنے فرائض سے منہ نہ موڑے بلکہ سچ کو ہی اپنی خبروں میں پیش کرے۔مصنف نے میڈیا کے لئے سخت قانون بنانے پر بھی زور دیا ہے ۔
ناول میں سیاسی اور سماجی دونوں پہلوئوں کے مسائل اور کمزوریوں کو نشانہ بنا یا گیا ہے ۱۲سال کا ایک لڑکا اپنی ہی ہم عمر لڑکی کا بلاتکار کرتا ہے تو فرد سے سماج،معاشرہ،سماجیات اور پھر ننگی سیاست کی گتھیاں ایک کے بعد ایک کھلتی چلی جاتی ہیںتب کی رولنگ پارٹی بی جے پی اس واقعہ کا فائدہ اٹھاتی ہے اور اسے پولیٹیکل ایشو بنا کر اپنا ووٹ بینک بڑھانے کی کوشش کرتی ہے پارٹی کا ایک لیڈر جے چنگی کو ہدایت دیتے ہوئے کہتا ہے :۔
’’آدیش ہے ۔سونالی کو منچ پر لائو۔اسے بتائو۔وہ اپنا دکھڑا روئے گی۔چلاّچلاّکر بتائے گی،کہ وہ نردوش ہے ۔اس کا دوش کیول یہ ہے کہ وہ دلت ہے ۔لیکن۔جانتے ہو نا جے چنگی۔راجنیتی میں لیکن،کنتو،پرنتو کی گنجائش کہاں ہوتی ہے ۔سونالی کو اسٹیج پر لائو۔وہ باہر بھی جائے گی۔تم بھی اپنا بھاشن تیار رکھو۔الپ سنکھیکوں اور دلتوں کے لئے اب پارٹی کھل کر سامنے آئے گی ۔کیونکہ پارٹی ان کا ہت (فائدہ)چاہتی ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،پوکے مان کی دنیا،ص۔۳۰۷)
ذوقی نے سیاست کے دوسرے حربوں کی طرف بھی ہماری توجہ مبذول کروائی ہے کہ کس طرح سیاسی لیڈر لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھیلتے ہیں اور اپنے مفاد کے لئے انصاف کی کرسی پر بیٹھے ہوئے جج تک کو خریدنے میں گریز نہیں کرتے۔سیاسی پارٹیاں اقتدار کی حوس میں معاشرے میں فرقہ واریت اور فسادات برپا کرتی ہیں جس سے بے گناہ معصوموں کا قتل اور عورتوں کا جنسی استحصال ہوتا ہے اس کی زندہ مثال گجرات کا سانحہ ہے جس میں وہاں کے مسلمانوں پر اس قدر ظلم کیا گیا کہ تاریخ اسے قیامت تک فراموش نہیں کر سکتی یہاں تک کہ ان کی فریاد اور مقدمہ کی سماعت سننے والا بھی کوئی نہیں جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ قانون بھی سیاست کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہے ان ظالموں کے اس غیر انسانی رویے کی روداد بیان کرتے ہوئے ناول کی کردار میری فرنانڈس کہتی ہے:۔
’’اب گجرات دیکھیئے۔Enemyہو،Warہو یا رائٹ(Riot)آپ دیکھئے گا۔سب سے پہلے جھونکا جاتا ہے یہ لیڈیز لوگ۔سب سے پہلے جلتا ہے ۔سب سے پہلے اسی کا ریپ ہوتا ہے ۔وہ ظاہرہ شیاخ،صبوحی مرجا۔آپ نے پڑھا۔اپنا لیڈیز ہے نا ۔جہاں رہے گا ۔وہاں ریپ ہوگا ۔لوٹو۔کون ریلی جن یہ سب سکھاتا ہے ۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،پوکے مان کی دنیا،ص۔۱۰۵)
ذوقی نے اس ناول میں صرف ہندوستانی سیاست کا پردہ فاش ہی نہیں کیا ہے بلکہ وہ عالمی سطح پر بھی ان سیاسی سازشوں کو ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں جہاں ہر طرف ضلم و جبر ہو رہا ہے جس سے متاثر ہو کر نسل آدم کراہ رہی ہے ہزاروں،لاکھوں بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں اور ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں بالآخر مصنف یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ
’’کیا یہ بچے مودی کو تسلیم کریں گے۔بش کو تسلیم کریں گے ۔صدام یا اسامہ بن لادن کو۔؟گھنائونی سیاست کا ہر مہرہ ان کے لئے ظالم چہرہ بن جائے گا ۔اور وہ اس ظالم چہرے کا انت دیکھنا چاہیں گے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،پوکے مان کی دنیا،ص۔۷۸)
ناول میں بہت سے سیاسی لیڈروں کا ذکر بھی کیا گیا ہے کچھ سیاسی ناموں سے احتراز برتا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا کیونکہ یہ نام ناول کی زمانی اہمیت کو محدود کر دیتے ہیں ۔
ذوقی کو زبان پر عبور حاصل ہے خوبصورت لفظوں کا انتخاب اور ان سے موثر ترین جملے بنانا ان کے فن کا کمال ہے اس ناول میں انھوں نے کرداروں کو جو زبان دی ہے اور جو مکالمے ادا کروائے ہیں وہ بھی حقیقی معلوم ہوتے ہیں ناول کا اسلوب نہایت ہی دلکش ہے برجستہ اور خوبصورت مکالمے ناول کو دلچسپ بناتے ہیں اس ناول کی زبان ملی جلی ہے دیگر ناولوں کی طرح ذوقی نے اس ناول میں بھی ہندی اور انگریزی کے الفاظ کثرت سے استعمال کئے ہیں ۔سنسکار،اتہاس،اپرادھی،جیون،کیول،پاکھنڈ،آشرم،پریورتن،آپوتر،ساودھانی،
یوجنا،اپائے،آکاش،گھوشنا جیسے بہت سے ہندی الفاظ ہیں اسی طرح سائڈک،ٹریڈ،اسٹڈی،گریٹ،ڈسکشن،اسٹرگل،کامک،ویٹ،Adjus t،Law،Contest،Womb،Attraction،Riot،Feeling،Guilt،Victim وغیرہ انگریزی کے بے شمار الفاظ ہیں جو ہندی اور انگریزی نہ جاننے والے قاری کے لئے پریشانی کا سبب بنتے ہیں اور ناول کے تسلسل میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں طویل انگریزی مکالمے بھی قاری کو اکتاہٹ کا احساس کرواتے ہیں اس کے علاوہ ناول میں سنسکرت زبان میں بھی ایک سطر پڑھنے کو ملتی ہے تاہم اس کا اردو ترجمہ بھی کیا گیا ہے جس کی وجہ سے قاری کو کوئی مشکل پیش نہیں آتی ۔ناول میں محاوروں کا بھی بر محل استعمال کیا گیا ہے جو ناول میں قاری کی دلچسپی بنائے رکھتے ہیں مثلاً چھوٹا منہ بڑی بات،ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا ،تل کا تاڑ بنانا ،الٹا چور کو توال کو ڈانٹے،بال کی کھال نکالناوغیرہ اس ناول میں مصنف نے بیانیہ تکنیک کا استعمال کیا ہے ۔
ذوقی وقت کی نبض پر نگاہ رکھتے ہیں اور یہ ناول اس کی دین ہے اس ناول کے ذریعہ انہوں نے جو پیغام دیا ہے اگر اسے عام کیا جائے تو یقیناًسماج کی موجودہ صورت حال بدلے گی بھی اور بہتر بھی ہوگی۔ناول کی مجموعی فضا مطالعہ کے دوران ہمیں ایک ایسی دنیا میں لے جاتی ہے جو ہمارے رہنے اور جینے کے باوجود بھی ہماری دیکھی ہوئی نہیں تھی ۔ذوقی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف یہ دنیا ہمیں دکھائی بلکہ آئندہ پیدا ہونے والے خطرات کے بارے میں بھی آگاہ کیا ۔
’’یہ بچے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔سارے گناہ،سارے غلط،ناجائز دھندے۔یہ بچے اگر پیدا ہونے کے ساتھ ہی ریپ کرنے لگیں تو مجھے حیرت نہیں ہوگی ۔وہی تمہارا نئے زمانے کا ڈائناسور۔یہ ڈائناسور تمہارے جوراسک پارک کے ڈائناسور سے زیادہ بھیانک ہے ۔وہ حملہ کرتے تھے تو پتہ چلتا تھا ۔یہ حملہ کرتے ہیں تو پتہ بھی نہیں چلتا۔اور جب پتہ چلتا ہے تو کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،پوکے مان کی دنیا،ص۔۲۲۳)
(iii) ’’بیان‘‘
’’بیان‘‘ذوقی کا ایک نہایت ہی مشہور و مقبول ناول ہے ’’بیان‘‘۱۹۹۵ء میں منظر عام پر آیا۔یہ ناول ۲۵۹صفحات پر مشتمل ہے ذوقی ایک نڈر قلم کار ہیں وہ جو بھی لکھتے ہیں بے خوف ہو کر لکھتے ہیں ان کا یہ ناول ۶ دسمبر کے دلدوز واقعے کے ارد گرد گھومتا ہے اور فرقہ وارانہ فسادات کے اسباب اور اس کے نتائج و اثرات کی تصویر کشی کرتا ہے ۶دسمبر ہندوستانی تاریخ کا سب سے بد نما دن کہا جا سکتا ہے جس دن جمہوریت کو بالائے طاق رکھ کر شدت پسند عناصر نے قدیم ترین بابری مسجد کو شہید کر کے وہاں رام لیلا کی مورتی نصب کی تھی اور اس کے نتیجے میں پورے ملک میں جو فسادات رونما ہوئے انہیں کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا اس دن نہ جانے کتنے ہی بے گناہ لوگوں کی جانیں تلف ہو گئیں۔
’’بیان‘‘ایک ایسا ناول ہے جو آج کے دور میں سیکولر ازم کی موت کو بیان کرتا ہے ذوقی کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کچھ چھپاتے نہیں ہیںاور سچ کو سچ کی طرح کہنے کا ہنر انہیں خوب آتا ہے حقیقت نگاری ذوقی کا خاص وصف ہے وہ حقیقت پسند ہیں اور انجام سے بے پرواہ۔یہی وجہ ہے کہ وہ ’’بیان‘‘جیسا بولڈ ناول لکھنے کی جرأت کر پائے۔انھوں نے اس ناول کے ذریعے ہمیں جس طرح حقیقت سے آشنا کرایا ہے وہ ان کی انفرادی کوشش اور کمال فن کا بہترین امتزاج ہے ناول میں مذہبی تعصب،فرقہ وارانہ ذہنیت،سیاسی ہتھکنڈوں اور نئی اور پرانی نسلوں کے تضاد کو بخوبی پیش کیا گیا ہے ساتھ ہی آزادی کے بعد پیدا ہونے والی سماجی،سیاسی اور تہذیبی تبدیلیوں ،بدلتے رشتوں ،بڑھتی ہوئی فرقہ واریت،خود غرضی،گھٹتی انسانیت اور دہشت ناک حالات کی عکاسی بھی کی گئی ہے۔ذوقی کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ ایک بے باک قلم کار ہیں اور سچ کو بیان کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں سیاسی جماعتوں اور اشخاص کے نام لینے میں بھی وہ جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ذوقی کے موضوعات اور واقعات گھڑے ہوئے نہیں ہوتے بلکہ حقیقی ہوتے ہیں انہوں نے زندگی کی سچائیوں کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔
فساد کے موضوع پر یوں تو بہت سارے ناول لکھے گئے ہیں لیکن اس ناول کی اہمیت اس لئے بڑھ جاتی ہے کہ اس میں ان محرکات کا بھی ذکر ہے جو فساد کا سبب بنتے ہیں ناول نگار نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی،سیکولر ازم اور رشتہ انسانیت کی بحالی پر زور دیا ہے۔ذوقی کا یہ ناول اس مرتے ہوئے آدمی سے جڑا ہوا ہے جو مرنے سے پہلے کچھ بیان دینا چاہتا ہے لیکن موت اسے اتنی مہلت نہیں دیتی اور وہ اپنا بیان دیے بغیر اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے یہ آدمی مشترکہ کلچر کی پیداوار ہے اور اس کی زندگی کے لئے سب سے عزیز قدریں ہیں جنہیں وہ تا حیات اپنے سینے سے لگائے رکھتا ہے دراصل یہ وہی قدریں ہیں جنہیں بیسویں صدی کے آخر تک لوگوں نے سنبھالے رکھا ۔پھر کس طرح یہ قدریں ٹوٹتی،بکھرتی اور ختم ہوتی ہیں اور انہیں اپنے سینوں سے لگائے رکھنے والوں کا آخر میں کیا حشر ہوتا ہے یہی اس ناول میں پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔
ناول کا پلاٹ۶ دسمبر ۱۹۹۲ء کے حادثہ کے بعد ملک میں رونما ہونے والے واقعات اور سیاسی و سماجی طور پر ہونے والی تبدیلیوں پر مبنی ہے ناول نگار نے دو خاندانوں(چودھری برکت حسین اور بالمکند شرما جوش)اور ان کے افراد کے ذریعے ناول کا تانا بانا تیار کیا ہے درمیان میں کانگریس،بی جے پی،آر ایس ایس اور پولیس کے رول کو بھی شامل کیا گیا ہے ساتھ ہی ٹوٹتی ہوئی تہذیبی قدروں کا ماتم بھی ہے ۔واقعات میں تسلسل ہے کہیں بھی بے ربطی کا احساس نہیں ہوتا۔ذوقی کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ’’بیان‘‘کو صرف بیان تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ادب پارہ بنا دیا۔
ناول کا آغاز نئی اور پرانی نسل کی کشمکش سے ہوتا ہے اور یہ تصادم شروع سے لے کر آخر تک قائم رہتا ہے نئی نسل اپنے انداز سے سوچتی ہے جبکہ پرانی پیڑھی اپنی تہذیب کو گلے لگائے ہوئے ہے اور اندر ہی اندر کڑھتی رہتی ہے اور پھر یہ ناول وقت کے اس عہد میں چلا جاتا ہے جو ۶ دسمبر ۱۹۹۲ء کے بعد سے شروع ہوتاہے جہاں مذہب کے نام پر سیاست کی جاتی ہے سماج میں نفرت پھیلائی جاتی ہے اور پورا معاشرہ مذہب کے خانوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔
ناول کا آغاز ڈرامائی انداز میں ہوتا ہے بالمکند شرما جوش فسادات کے ماحول میں خود کو سنبھال نہیں پارہے ہیں اور گھٹن محسوس کر رہے ہیں وہ حیران بھی ہیں اور بے بس بھی۔
’’بالمکند شرما جوش باہر نکلے تو آنکھیں انگاروں جیسی لال ہو رہی تھی ۔سر چکرا رہا تھا ۔۔۔آنکھوں کے آگے ہزاروں وحشی تانڈو رقص کر رہے تھے ۔مار ڈالیں گے۔ سب کو مار ڈالیں گے۔ مارو۔‘‘(مشرف عالم ذوقی ،بیان ،ص۔۱)
بالمکند شرما جوش گنگا جمنی تہذیب کی آخری علامت ہیںان کا تعلق عالم و فاضل خاندان سے تھا ان کے والد اردو اور فارسی کے اچھے عالم تھے ۔شرما جی کو بھی اردو زبان سے خاص لگاؤ ہے وہ ایک شاعر ہیں اور جوشؔ ان کا تخلص ہے۔شرما جی کی شادی ایک امیر ہندو گھرانے میں ہوتی ہے ان کی بیوی الگ خیالات کی ہے وہ ایک کٹر ہندو عورت کے روپ میں نظر آتی ہے جو اردو زبان اور مسلمانوں سے سخت نفرت کرتی ہے انیل ان کی پہلی اولاد تھی اور نریندر دوسری۔جب انیل تھوڑا بڑا ہوا تو شرما جی کو خیال آیا کہ کسی اچھے مولوی کو بلوا کر آموختہ کرواتے ہیں اور پھر اسکول میں داخلہ کروائیں گے اس بات پر ان کی بیوی اور سسرال والے سخت مخالفت کرتے ہیں۔
’’یہ مسلمانوں کی زبان ہمارے بچے کو نہیں پڑھائی جائے گی‘‘(مشرف عالم ذوقی،بیان،ص۔۱۶۴)
اس وقت شرما جی کو پہلی بار بدلتی ہوئی فضا کا احساس ہوتا ہے ان کے لڑکے بڑے ہو کر سیاست میں شامل ہو جاتے ہیں ۔انیل کانگریس جوائن کر لیتا ہے اور نریندر بھاجپا کا رکن بن جاتا ہے دونوں کی بیویاں بھی ان کی سیاسی پارٹیوں کی طرح سوچ رکھتی ہیں انیل کی بیوی تلسی کانگریس کی طرح موقع پرست ہے جبکہ نریندر کی بیوی اوما متعصب ذہن کی ہے اس کی ایک چھوٹی بچی مالو ہے ۔شرما جی کے خاص دوست چودھری برکت حسین ہیں جو ان کے ہم خیال ہیں ان کا اکلوتا بیٹا تنویر حسین عرف منا بجلی آفس میں کلرک ہے اس کی شادی ہو چکی ہے اس کی بیوی شمیم ایک سیدھی سادھی دیہاتی عورت ہے ان کی ایک بچی ہے جس کا نام نشی ہے منا کی والدہ جمیلہ نہایت ہی صابر اور پرہیزگار عورت ہے۔یہ دونوں خاندان کھیم پورہ محلے میں رہتے ہیں جہاں ہندو مسلمان دونوں قوموں کے لوگ آباد ہیں ۔بالمکند شرما اور برکت حسین اکثر ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے رہتے ہیں دونوں اکٹھے پان کھاتے ہیں شطرنج کھیلتے ہیں اور ملک کی سیاست اور حالات پر تبصرہ کرتے ہیں۔
’’ اور کیا رہ گیا جوش بھائی۔زندگی میں اب۔بس جنگ ہی تو ہے بچے کام دھندے سے فارغ ہو کر آتے ہیں تو جنگ کی باتیں،ریڈیو لگاؤ وہی چیختی چنگھاڑتی دل دہلا دینے والی خبریں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی ۔بیان ۔ص۔۱۱)
بدلتے ہوئے حالات کے آگے دونوں دوست بے بس نظر آتے ہیں کیونکہ دونوں کی اولادیں مطلب پرست ہیں اپنی مٹتی ہوئی وراثتی قدروں کی انھیں کوئی پرواہ نہیں ۔انھیں صرف اور صرف پیسے سے مطلب ہے ملک،قوم اور تہذیب سے ان کو کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
ملک کی سیاسی پارٹیوں میں حکومت کی کرسی حاصل کرنے کے لئے رسا کشی شروع ہوتی ہے دو بڑی سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کو ہرانے کے لئے معصوم عوام کو گمراہ کرتی ہیں اور انھیں آپس میں لڑا کر اپنا الو سیدھا کرتی ہیں ۔بھاجپا کے لیڈرلوگوں کو بھڑکاتے ہیں اور معصوم لوگ سیاست کی چالوں کو بنا سمجھے جذبات میں آکر ہندوستانی تاریخ کی عظیم وراثت بابری مسجد کو مسمار کر دیتے ہیں مگر ظالم سیاستدانوں کو اتنے پر بھی سکون نہیں ملتا وہ لوگوں کو فساد کی آگ میں جھونک دیتے ہیں اور ہندوستانی عوام گنگا جمنی تہذیب ،ثقافت اور آپسی بھائی چارے کو بالائے طاق رکھ کر مر رہے ہیں اور مار رہے ہیں جبکہ دونوں صورتوں میں انسانیت کا ہی قتل ہو رہا ہے۔دونوں دوست ملک کی سیاست اور حالات پر اظہار افسوس کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ بر بریت تقسیم ہند کے طوفان سے بھی خطرناک ہے آپسی بھائی چارہ اور انسان دوستی ختم ہو گئی ہے شرما جی اس بدلتی ہوئی تہذیب کو برداشت نہیں کرتے کیونکہ ان کا اپنا گھر خود اس گندی سیاست کا شکار ہو کر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے ان کے دونوں بیٹے مختلف سوچ والی سیاسی پارٹیوں کے حامی بن کر گھر کے بٹوارے پر اترے ہوئے ہیں اور شرما جوش کو گھر اور گھر سے باہر مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کی مسلم دوستی اور اردو دانی پر ان کی معصوم سی پوتی مالو بھی مخالفت کرتی ہے۔
’’آپ مسلمان ہیں کیا؟۔۔۔کیوں ؟۔۔۔آپ اردو جو پڑھتے ہیں ۔۔۔مسلمان کیسے ہوتے ہیں ؟۔ایک دم سے گندے۔۔۔وہ گھر کو گندہ رکھتے ہیں ۔جانوروں کو مارتے ہیں اور۔۔۔وہ بد معاش ہوتے ہیں ۔۔۔یہ سب کہاں سے سیکھا ۔۔۔ڈیڈی بتاتے ہیں کبھی کبھی ماں بولتی ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،بیان،ص۔۱۸)
سیاست کی گندی اور جھوٹی پھیلائی ہوئی باتوں کو نئی نسل قبول کرتی جارہی ہے ان سب باتوں سے پریشان ہو کر شرما جوش اپنے شاندار ماضی کو یاد کرتے ہیں کہ ہمارا بچپن تعصب و نفرت سے پاک تھا چھوٹے بڑوں کی ہمیں تمیز تھی سماجی قدروں کا احترام تھا مگر یہ بات ختم ہوگئی۔بدلتی ہوئی قدروں کی تاب نہ لا کر شرما جوش ’’الزیمرس‘‘ کا شکار ہو جاتے ہیں یعنی انھیں بھولنے کی بیماری ہو جاتی ہے بیت الخلا جانے کے بجائے وہ بیڈروم میں چلے جاتے ہیں بستر کے بجائے زمین پر لیٹ جاتے ہیں ۔دوسری طرف برکت حسین کا لڑکا تنویر جو نئی سوچ کا حامل ہے گھر کے صحن میں پھولوں کی کیاریوں کی جگہ دکانیں بنانا چاہتا ہے برکت حسین اس کی مخالفت کرتا ہے کہ پرکھوں کی وراثت کو تباہ مت کرو لیکن تنویر ان کی ایک نہیں سنتا ۔بابری مسجد کے مسمار ہو جانے سے تنویر بہت پریشان رہنے لگتا ہے اسی ذہنی کشمکش میں وہ نوکری پر جاتا ہے وہاں اسے ’میاں‘ اور ’پاکستانی‘ جیسے طعنے سننے پڑتے ہیں اور ہر روز نئی الجھن لئے وہ گھر لوٹتا ہے اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوالوں سے پریشان ہو کر وہ ایک دن کرفیو والی شام کو اکبر پورہ کی طرف نکل جاتا ہے پولیس سے بچتے اور فرقہ پرستوں کے ہاتھوں زخمی ہو کر وہ سدھیندو کی مدد سے ڈاکٹر نریندر کی کلینک پہنچتا ہے جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھاجپائی ہیں تو ان کی ہمدردی سے متاثر ہو کر وہ ان کی پارٹی میں شامل ہو جاتا ہے۔تنویر کے لاپتہ ہونے پر برکت حسین کے گھر میں قیامت برپا ہو جاتی ہے رات بھر جمیلہ اور شمیم روتی رہتی ہیں صبح ہوتے ہی برکت حسین قریب کے پولیس تھانے میں رپورٹ لکھوانے جاتا ہے جہاں اس کے ساتھ تعصب برتا جاتا ہے اور اسے بنا رپورٹ درج کروائے گھر واپس آنا پڑتا ہے پریشان ہو کر وہ شرما جوش کے گھر جاتا ہے اور اپنی آپ بیتی سناتا ہے۔
تین دن کے بعد تنویر واپس آجاتا ہے مگر وہ بہت بدلا ہوا نظر آتا ہے وہ چپ چاپ اور گم سم رہتا ہے کچھ دنوں کے بعد حالات کچھ بہتر ہو جاتے ہیں مگر مسجدوں اور مندروں کے ارد گرد پولیس چوکیاں تعینات کر دی گئیں۔لوگ اب بھی خوف و ہراس میں تھے اکبر پورہ اور قریش محلے کے چند مسلم نوجوانوں کو گرفتار کر لیا جاتا ہے مسلم اکثریتی محلوں میں تلاشی شروع کی گئی ۔اسی دوران کھیم پورہ میں چودھری برکت حسین کے گھر کی بھی تلاشی لی جاتی ہے اور انھیں پھر سے ذلیل و خوار کیا جاتا ہے ۔شرما جوش برکت حسین کی ذلت کو برداشت نہیں کر پاتے اور وہ پرانی قدروں کو یاد کرتے ہیں اپنے شاندار ماضی کو دہراتے ہیںوہ اپنے دوست برکت حسین کے ساتھ متواتر مشاعروں میں شرکت کرتے ہیں جہاں ان کی نعت گوئی پر سبھی داد دیتے ہیں وہیں ایک کونے میں بیٹھے ہوئے پانچ بے روزگار نوجوان ہمیشہ جوش صاحب پر تنقید کرتے ہیں شرما جی انھیں ’’پانچ پاپی‘‘ کہتے ہیں یہ پانچوں ان کو اچھے لگتے ہیں کیونکہ یہ سب صاف گو ہیں بابری مسجد کی شہادت کو ایک مہینے کے قریب ہو گیا تھا فسادات لگ بھگ ٹھنڈے ہو گئے تھے مگر بھاجپا کے لیڈر فسادات کو پھر سے گرم کرنے کے لئے چھوٹی بڑی ریلیاں کرکے لوگوں کو اکسانا شروع کر دیتے ہیں ۔شیو پوری،اکبر پورہ کے علاوہ بہت سی جگہوں پر بھاجپا سبھائیں کرواکر فضا کو پھر بارودی بنا دیتے ہیں دوسری طرف کانگریس عوام میں مقبولیت کھوتی جاتی ہے اور مسلم ووٹ ان کے ہاتھوں سے نکلتا ہوا دکھائی دیتا ہے اکبر پورہ میں پھر فساد برپا ہو جاتے ہیں دنگائیوں نے مسلمانوں کی دکانوں کو آگ لگا دی اور رفو چکر ہو گئے شہر میں مارکاٹ اور تعصب بڑھ جاتا ہے ہندو مسلمان ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں شہر میں مسلم محلوں کی آبادی جہاں کم تھی وہ لوگ سہمے ہوئے تھے بابری مسجد کی مسماری کے بعد جمعہ کی نماز میں نمازیوں کی تعداد میں خاصی کمی آگئی تھی گندی سیاست نے لوگوں کی سوچ بھی کتنی گندی کر دی تھی۔
’’جمعہ کا مطلب مسلمانوں کا دن ۔۔۔۔سات دنوں میں پانچ دن ہندوؤں کا ۔جمعہ ،جمعرات مسلمانوں کا ۔جمعہ کا مطلب کرتا پائجامہ،جمعہ مطلب ٹوپیاں،جمعہ مطلب مسجدوں کی طرف بڑھتے ٹوپی پہنے قدم۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،بیان،ص۔۴۱)
تعصب کی یہ حد تھی کہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی وہ محلے پاکستانی کہلاتے اور جس محلے میں ہندو زیادہ تھے وہ R.S.Sکے محلے کہلاتے۔بالمکند شرما جوش،چودھری برکت حسین ،’پانچ پاپی‘ اور بہت سے دوسرے لوگ ایک دن نعمان شوقؔ کے ہاں مشاعرے میں شرکت کرتے ہیں وہ سب حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہیں اسی دوران ایک بزرگ جوش صاحب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ ان کے بیٹے فساد کروا رہے ہیں ،مار کاٹ کروا رہے ہیںاور یہ صاحب مشاعروں میں ہماری مرہم پٹی کرنے آتے ہیں ان کے بچاؤ میں برکت حسین نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو بزرگ نے انھیں بھی آئنہ دکھا دیا کہ تمہارا بیٹا بھی بھاجپائی ہے تم کو تو کوئی پریشانی نہیں ہو گی ۔مارے گئے تو ہم مسلمان ۔یہ دونوں دوست خاندان،تہذیب اور اخلاق کی کھونٹ سے بندھے ہوئے تھے مگر آج سر محفل دونوں کی عزت اتر گئی حالات سے بد دل ہو کر اور مشاعرے میں بے عزتی کے چلتے شرما جی ذہنی طور پر بہت پریشان ہو جاتے ہیں اسی پریشانی کی حالت میں وہ پانچ پاپیوں کو اپنے پاس بلاتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں ۔
’’ غور سے سنو۔میں جارہا ہوں ۔تمہارے درمیان سے ہمیشہ کے لئے ۔۔۔میں پھر نہیں آؤں گا ۔۔۔میں تمہارے درمیان کی ایک کڑی تھا ۔میں مشق سخن کرتا تھا ۔۔۔۔اب دوسرے آئیں گے لیکن جان لو۔میری طرح کا کوئی آدمی تمہارے درمیان اس طرح ہنستا بولتا نہیں آئے گا ۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،بیان،ص۔ ۱۵۷)
انیل اور نریندر کے کہنے پر ان کا خاندانی وکیل ایک دن شرما جوش سے ملنے آتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ اب آپ بیمار ہو گئے ہیں لہٰذا اپنے جیتے جی جائیداد کا بٹوارا کر دیجئے وکیل کی بات سن کر شرما جی غصہ ہو جاتے ہیںاور کہتے ہیں کہ میں اپنے جیتے جی گھر کا بٹوارہ نہیں کروںگا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔
تنویر کے بہت سے دوست اس کے بھاجپا میں شامل ہونے کی تصدیق کرتے ہیں لہٰذا تنویر کا راز جاننے کے بعد برکت حسین بھی شرما جوش کی طرح اپنی ہی نگاہوں میں تہہ خاک ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا بیٹا غلط راہ پر چل نکلا ہے ۔
ایک روز نیل کنٹھ کے گھر میٹنگ ہوتی ہے جس میں پارٹی کے بڑے لیڈر سدھیندو رائے،ڈاکٹر نویندو اور دیگر بہت سے بھاجپا لیڈراور کارکنان شامل ہوتے ہیں تنویر کے نہ آنے کی وجہ ڈاکٹر نریندر پوچھتے ہیں مگر کسی کو کچھ معلوم نہیں ۔اس پر ڈاکٹر نریندر کہتے ہیں کہ تنویر(منا) کو ایک بھڑکاؤ بھاشن کے لئے تیار کرو۔اگر وہ تیار ہوتا ہے تو ٹھیک نہیں تو مروادو۔یہ سب باتیں تنویر سن لیتا ہے اور دبے پاؤں واپس ہو جاتا ہے اور پھر فیصلہ کرتا ہے کہ اب وہ مفاد پرست پارٹی سے الگ ہو جائے گا چنانچہ وہ صاف طور پر نیل کنٹھ سے اس بات کا اظہار کر دیتا ہے لیکن دوسرے ہی لمحہ نیل کنٹھ کے ڈرانے دھمکانے پر وہ اپنا فیصلہ بدل دیتا ہے۔بھاجپا کے پارٹی لیڈر نلکانی دوسرے لیڈروں کو ہدایت دیتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو پارٹی میں شامل کروائیں کیونکہ ہمیں ایک تیر سے دو شکار کرنے ہیں ہمیں ان کے خلاف بھی بولنا ہے اور بہلائے پھسلائے بھی رکھنا ہے اب ہم آگے بڑھیں گے رکیں گے نہیں۔بابری مسجد مسمار ہو گئی ہے اور اب رام مندر بنے گا اب ہم کاشی اور متھرا جائیں گے کاشی وشو ناتھ مندر بنائیں گے رام جنم بھومی کے بعد کرشن بھومی کی باری ہے ۔
نیل کنٹھ سبھائیں کرتا ہے اور اس میں سیاسی ہندو تنظیموں کو ایک ہی جٹ بتاتا ہے کہ ہماری پارٹیاں الگ ہیں نام الگ ہیں مگر جڑ ایک ہی ہے مقصد ایک ہی ہے۔
’’آر ۔ایس۔ایس،بھاجپا،وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل ،ایک ہی چیز ہیں‘‘(مشرف عالم ذوقی،بیان،ص۔۵۷)
اکبر پورہ فسادات کے بعد بھاجپا کی ایک بہت بڑی ریلی دہلی میں ہوتی ہے جس میں پارٹی کے سبھی چھوٹے بڑے لیڈر شامل ہوتے ہیں نریندر بھی وہاں چلا جاتا ہے اس کے چلے جانے کے بعد اس کی بیٹی مالو سخت بیمار ہو جاتی ہے گھر میں شرما جوش کے علاوہ کوئی مرد نہیں تھا اس مشکل وقت میں تنویر فرشتہ بن کر مدد کے لئے پہنچتا ہے وہ مالو کو ہسپتال لے جاتا ہے جہاں اس کا علاج کیا جاتا ہے یہی نہیں تنویر اور اس کی بیوی شمیم رات بھر جاگ کر مالو کی تیمار داری کرتے ہیں مالو کی حالت میں سدھار ہوتا ہے اور وہ گھر آجاتی ہے اس حادثہ سے مالو کی ماں اوما کے خیالات میں ایک واضح تبدیلی آجاتی ہے پہلے وہ مسلمانوں کو قاتل،دشمن،گندہ اور نہ جانے کیا کیا سمجھتی تھی مگر اب وہ تنویر کے گھر جانے لگتی ہے اور چودھری برکت حسین کو ’بڑے میاں‘کے بجائے چچا کہنے لگتی ہے ۔
ادھر دہلی میں ریلی کا ہنگامہ ختم ہو جاتا ہے اور پارٹی کے پانچ بڑے لیڈر نلکانی ،سدھیندو رائے،ڈاکٹر نویندو،نیل کنٹھ اور نریندر جیت کی طرف بڑھتے قدموں کی خوشی میں ایک ہوٹل میں شراب کی مستی میں مست ہو جاتے ہیں اور سب بیٹھ کر آگے کی حکمت عملی تیار کرتے ہیں غور و فکر کے بعد نلکانی مذہب کی آڑ لے کر کہتے ہیں کہ منا ہمارے لئے بہت بڑا خطرہ ہے لہٰذا نویندو اور نیل کنٹھ کو تنویر (منا) کے قتل کی ذمہ داری سونپتے ہیں اور اس کے لئے وہ مذہب کا سہارا لیتے ہیں:۔
’’تم اسے ہتیا کہتے ہو۔دھرم کے کام میں ہتیا ،اپرادجیسے شبد نہیں ہوتے ۔۔۔پارٹی سے بڑھ کر دھرم کیا ہے ۔اور دھرم نے ستیہ کے لئے کیے گئے یدھ کو کبھی غلط نہیں کہا۔‘‘(مشرف عالم ذوقی ،بیان،ص۔۲۳۲)
نریندر جب گھر پہنچا تو اسے ہر طرف منا کے نام کی رٹ سنائی دی۔اوما،مالو،شرما جی سب کی زبان سے منا کے لئے دعائیں اور تعریفیں سنائی دیں مگر جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ منا نے مالو کی جان بچائی تو وہ الجھن میں پڑ جاتا ہے۔شرما جی کی حالت بہت بگڑ گئی تھی نہ تو وہ کسی سے بات کرتے اور نہ ہی کہیں باہر جا سکتے ہیں صرف الماری میں پڑی کتابوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں کاغذ پرکچھ لکھتے ہیں پھر پھاڑ دیتے ہیں کبھی کوئی شعر گنگنانے لگتے ہیں۔
ادھر منا کو مارنے کے لئے نریندر ایک کرایہ کے قاتل کا استعمال کرتا ہے سر پر گول ٹوپی اور میلا کرتا پہنے ایک شخص منا کو بجلی آفس کے سامنے چھرا مارتا ہے اور ہسپتال پہنچنے تک منا کی موت ہوجاتی ہے شہر میں پھر سے کشیدگی بڑھ جاتی ہے منا کی آڑ میں بھاجپا کے کارکن کھیم پورہ اور اکبر پورہ میں کئی دکانیں جلادیتے ہیں اور حالات بد سے بد تر ہو جاتے ہیں چودھری برکت حسین منا کی موت سے بے حال ہو جاتے ہیں اس موقع پر ان کے گھر میں صرف بھاجپا کارکن ہی موجود تھے جبکہ محلے کا کوئی بھی مسلمان ان کے غم میں شریک نہیں ہوا بعد میں منا کا قاتل بھی پکڑا جاتا ہے مگر کسی کو معلوم نہیں کہ کب اور کس نے اسے رہا کروا دیا۔
منا کی موت کی خبر شرما جی کے لئے جاں گسل ثابت ہوئی اس رات محلے میں جم کر فساد ہوا تھا عورتوں اور بچوں کی چیخ و پکار سے وہ تڑپ رہے تھے مرنے سے پہلے وہ نریندر سے قلم مانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے اپنا بیان لکھنا ہے مگر پتہ نہیں وہ کیا بیان لکھتے ہیں دوسرے دن صبح شرما جوش اپنے بستر پر مردہ پائے جاتے ہیں اور ان کے بیٹے وصیت کی تلاش میں ڈسٹ بن،ٹیبل،الماری چھانتے ہیں مگر سوائے ایک کاغذ کے ٹکڑے کے کوئی وصیت نامہ یا بیان نہیں ملتا جس پر اردو میں کچھ لکھا ہوتا ہے جو انیل سے کہیں گم ہو جاتا ہے کرفیو کے دو دن بعد شرما جوش کا آخری رسوم ادا کر دیا جاتا ہے جس میں شہر کے ہزاروں لوگ کرفیو کے باوجود بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔
آخر میں انیل اور نریندر پانچ پاپیوں سے دریافت کرتے ہیں کہ شاید شرما جوش نے انھیں اپنی وصیت کے بارے میں کچھ بتایا ہو مگر وہ پانچوں بھی ان کے بیان سے انجان ہیں کرفیو ختم ہونے کے بعد یہ پانچوں مرحوم بالمکند کے گھر جاتے ہیں مگر وہاں جوش صاحب کی کتابیں ردی والوں کے ہاتھوں فروخت ہو چکی ہوتی ہیں ان کی کمی کا احساس ان پانچوں دوستوں کو ہوتا ہے لوٹتے وقت یہ پانچوں پاپی یاس وحسرت بھری نگاہوں سے جوش صاحب کے مکان کو دیکھتے ہیں۔
’’بیان‘‘ میں فضول اور غیر متحرک کرداروں کی بھیڑ نہیں ہے بالکمند شرما جوش اور برکت حسین اس ناول کے دو اہم کردار ہیں جو ایک دوسرے کے جگری دوست ہیں مذہب ان کی دوستی کی راہ میں کبھی حائل نہ ہوا ۔ان کے علاوہ انیل،نریندر،نیل کنٹھ،نلکانی،سدھیندو،فیض سقراطی،باقر مرزااور نسوانی کردار مالو،تلسی،اوما،جمیلہ،شمیم ،نشی وغیرہ کے علاوہ اور بھی کئی ضمنی کردار ہیں۔
ناول کے سب سے متحرک کردار بالمکند شرما جوش ہیںاگر بالمکند کو اس ناول کا ہیرو کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ناول کی پوری کہانی ان ہی کے ارد گرد گھومتی ہے یہ کردار صفات سے بھرپور نظر آتا ہے وہ ایک فلسفی،شاعر ،وطن پرست،حساس اور سیکولر مزاج رکھنے والے انسان ہیں وہ تعمیر پسند ہیں اور خون خرابہ سے شدید نفرت کرتے ہیں جوش صاحب ہندو مسلم روایت کا مشترک نمونہ ہیں۔شرما جی کے دو بیٹے ہیں لیکن کوئی ان کی خبر گیری نہیں کرتا اور اگر کرتا بھی ہے تو اپنے مفاد یعنی جائیداد کے لالچ میں کرتا ہے محبت،ہمدردی اور وفاداری نام کی کوئی چیز ان میں نہیں ہے ان کے دونوں بیٹے جائیداد کے بٹوارے کو لے کر لڑائی جھگڑا کرتے ہیں لیکن شرما جی اپنی پرانی وراثت کو کسی بھی قیمت پر ٹوٹ کر بکھر دینا نہیں چاہتے ۔دراصل شرما جوش پرانی تہذیب کی علامت ہیں نئے ماحول اور بدلتی تہذیب سے خوف زدہ ہو کر وہ ہمیشہ اپنے پرانے وقتوں کو یاد کرتے ہیں اور اشک بہاتے ہیں فرقہ وارانہ فسادات اور حالات کی کشمکش میں وہ ’الزیمرس‘یعنی بھولنے کی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں مرنے سے پہلے شرما جی کو اپنی موت کی آہٹ سنائی دیتی ہے اور وہ ایک بیان دینا چاہتے ہیں مگر فرقہ وارانہ دنگوں کی تاب نہ لاکر خوف و ہراس میں ایک رات ان کی موت ہو جاتی ہے اور وہ اپنا بیان کاغذ کے چھوٹے ٹکڑے پر اردو میں لکھ چھوڑتے ہیں جسے بعد میں ان کے بیٹے ضائع کر دیتے ہیں۔
’’بیان‘‘ میں شرما جوش کے بعد دوسرا اہم کردار ان کا ہم خیال دوست چودھری برکت حسین ہے جو نہایت شریف،باعزت اور پرانی تہذیب کا دلدادہ ہے اتنا ہی نہیں وہ ایک حساس دل رکھنے والا باپ بھی ہے وہ اپنی اکلوتی اولاد کی ضد کے آگے اپنی خاندانی میراث کی قربانی دینے کو تیار ہو جاتے ہیں برکت حسین نئی تہذیب کے ساتھ کچھ حد تک سمجھوتہ کر لیتے ہیں مگر مذہبی تعصب اور دو قوموں کے درمیان ٹکراؤ اور بڑھتی ہوئی خلیج سے پریشان ہیں دراصل بالمکند جوش اور برکت حسین جیسے مثالی کردار آج بھی ہمارے سماج میں کہیں نہ کہیں مل جائیں گے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ذوقی نے اس ناول کا خمیر کہیں باہر سے نہیں لایا ہے بلکہ اسی ہندوستانی سماج سے تیار کیا ہے یہ وہ کردار ہیں جو مثبت انداز فکر کی پہچان کراتے ہیں کچھ شر پسند عناصر فرقہ پرستی کا ڈھول پیٹ کر ان کرداروں کو ختم کرنا چاہتے ہیں مگر پھر بھی یہ کردار اپنی پہچان نہیں کھوتے۔برکت حسین اور بالمکند کے کردار کو تراشنے اور نکھارنے میں ذوقی نے بہت محنت کی ہے انھوں نے جہاں بالمکند جوش اور برکت حسین کے رہن سہن ،چال ڈھال،ذوق و شوق اور میل جول کے ساتھ ان کی مزاجی شائستگی کی مکمل تصویر کھینچی ہے وہاں ان کے اہل و عیال کی گونا گوں خرافاتوں اور فکر و عمل کے تانے بانے بھی بڑی فنکاری کے ساتھ تشکیل دیے ہیں۔
تنویر حسین عرف منا اس ناول کا تیسرا اہم کردار ہے منا مسلمان نوجوانوں کے ذہنی انتشار کی نمائندگی کرتا ہے منا ایک سیدھا سادہ مسلمان ہے وہ بجلی آفس میں کلرک ہے وہ ہندوستانی ہوتے ہوئے بھی پاکستانی اور غدار کہلاتا ہے بات بات میں اسے ’میاں‘ کے طعنے دیے جاتے ہیں فساد کی وحشت سے مجبور ہو کر وہ بی جے پی میں شامل ہوجاتا ہے مسلمان اسے غلط نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں اور اپنے ہی گھر میں وہ اجنبی کی طرح زندگی گزارتا ہے لیکن جلد ہی منا کو اپنی غلطی کا احساس ہونے لگتا ہے ذرا سی حکم عدولی پر بھاجپا والے اسے دھمکانے لگتے ہیں اسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی گینگ میں شامل ہو گیا ہے اور اس سے باہر نکلنے پر جان کا خطرہ لاحق ہے اس کا دل مسلمانوں کے خلاف سازش کو گوارہ نہیں کرسکا اس لئے وہ بھاجپا سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہتا ہے لیکن پارٹی کے کارکن سازش کرواکر اسے مروا ڈالتے ہیں یہ کردار ناول کا ہیرو ثابت ہو سکتا تھا مگر ذہنی الجھن اور بھاجپا کے جال میں پھنس کر جان گنوانا اس کردار کو کمزور بنا دیتا ہے۔
کانگریس اور بھاجپا کی پالیسیوں کو ذوقی نے بخوبی سمجھا ہے اور اس لئے انھوں نے ایک ہی گھر میں کانگریس اور بھاجپا کے کرداروں کو رکھ کر دونوں کی ذہنیت کو قاری کے سامنے پیش کیا ہے کہ یہی وہ ناسور ہیں جو ملک کو توڑ رہے ہیں ۔انیل اور نریندر بالمکند کے بیٹے ہیں انیل کانگریسی اور نریندر بھاجپائی ہے دونوں کے راستے جدا جدا ہیں اس لئے گھر کی فضا خوشگوار نہیں ہے انیل کا کردار آج کی کانگریس پارٹی کی صحیح تصویر پیش کرتا ہے جو صرف اپنا فائدہ دیکھتا ہے اور اپنی پتنی تلسی کا کہنا مان کر گھر کا بٹوارہ چاہتا ہے نریندر تو بھاجپائی ہے ہی مگر انیل بھی مسجد توڑنے والوں میں شامل ہے حالانکہ وہ کانگریسی ہے دراصل یہ بات سب جانتے ہیں کہ بابری مسجد کی شہادت میں کانگریس کا بھی ہاتھ رہا ہے نریندر انتہائی متعصب ہے اور فرقہ وارانہ دنگے کروانے میں پیش پیش رہتا ہے۔
تلسی اور اوما میں بھی کافی تناؤ رہتا ہے تلسی انیل کی بیوی ہے اس کا کردار ناول میں کوئی خاص مقام نہیں رکھتا اس کی خصلت مطلبی ہے تلسی کے مقابلے اوما کا کردار زیادہ مربوط نظر آتا ہے اوما نریندر کی بیوی ہے ناول کے ابتداء میں وہ متعصب نظر آتی ہے مگر جب تنویر اس کی بچی مالو کی مدد کرتا ہے تو مسلمانوں کے تئیں اس کی سوچ بدل جاتی ہے ۔اوما کی بچی مالو کا کردار معصومیت سے لبریز نظر آتا ہے مالو سرف پانچ چھ سال کی بچی ہے مگر اس کے ذہن میں اتنا زہر بھر دیا گیا ہے کہ وہ بھی مسلمانوں سے نفرت کرتی ہے ایک دن وہ اپنے ددو جوش صاحب سے پوچھتی ہے کہ آپ مسلمان ہیں کیا؟اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ جوش صاحب اردو پڑھتے لکھتے ہیں مگر مالو کو بتایا گیا ہے کہ اردو تو مسلمان پڑھتے ہیں اور یہ کہ مسلمان گندے ہوتے ہیںاوما کے متعصبانہ مکالمے ملاحظہ ہوں۔
’’وہ بد معاش ہوتے ہیں ۔ذرا سی بات میں قتل کرنے سے نہیں چونکتے۔جہاں زیادہ ہوتے ہیں ،وہاں جانے کا نہیں ہوتا۔نہیں تو تلوار دکھا کر بولتے ہیں ۔مسلمان بن جاؤ۔۔۔۔۔ڈیڈی بتاتے ہیں ۔کبھی کبھی ماں بولتی ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،بیان،ص۔۱۹)
دراصل اس میں مالو کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ یہ تو اس کے والدین کی کرنی ہے بچے تو معصوم ہوتے ہیں یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو صحیح راستہ دکھائیں تاکہ وہ مستقبل میں کامیابی کی منزلیں طے کرسکیں اور ایک بہتر زندگی جی سکیں اس کے برعکس اگر بچوں کے ذہن میں نفرت کی باتیں بھر دی جائیں تو وہ پریشانیوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور اس کے سنگین اور خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں ۔
ناول میں سیاسی سطح پر چند کٹر سیاسی کردار نظر آتے ہیں جن میں بھاجپا کے ڈاکٹرنویندو،امرجیت،نلکانی،سدھیندو رائے،نیل کنٹھ وغیرہ شامل ہیں ۔ذوقی نے ان کرداروں کے ذریعہ بھاجپا کے لیڈروں کے خیال اور سوچ کو سامنے لایا ہے یہ لوگ نہایت ہی شاطر ،خطرناک اور موقع پرست ہیں یہ ملک کے سب سے بڑے دشمن ہیں اور ان کا مقصد صرف فساد کرانا اور دہشت پھیلانا ہے مذہب اور پارٹی کے نام پر فساد کی چنگاری کو ہوا دے کر کشیدگی کا ماحول پیدا کرنا ان کا معمول ہے یہ کردار اس ناول میں ولین کا رول ادا کرتے ہیں اور ان میں خامیاں ہی خامیاں ہیں۔
ان کرداروں کے علاوہ پانچ بے روزگار مسلم نوجوان ہیں فیض سقراطی،حبیب تنویر،نازاں خیال،باقر مرزا اور احمد ربانی۔یہ ’پانچ پاپی‘کہلاتے ہیں ۔ذوقی نے ان کے ذریعہ بے روزگاری کے مسئلہ کو اجاگر کیا ہے اور حکومت کو اس بارے میں غور وفکراور دھیان دینے کی ضرورت پر زور دیا ہے یہ تعلیم یافتہ نوجوان پڑھ لکھ کر بے روزگار ہیں اور در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور نفسیاتی الجھن میں مبتلا ہیں لہٰذا ذہنی سکون حاصل کرنے کے لئے مشاعروں میں شرکت کرتے ہیں ان سب کے لئے نوکری یا ملازمت ایک خیالی محبوبہ سے کم نہیں جو انھیں کبھی نہیں ملتی۔وہ اپنی بے روزگاری پر نالاں ہیں اور حکومت پر خوب طنز کرتے ہیں احمد ربانی کی زبانی سنئے:۔
’’اس نے پیٹ پر ہاتھ مارا ۔یہ روٹی کھوجتا ہے۔اور روٹی نوکری۔مسئلہ صرف ایک ہے حکومت نے اس سے بچنے کے لئے عام آدمی کو مندر مسجد میں الجھا دیا ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،بیان،ص۔۲۱۰)
یہ پانچوں کردار بے روزگار ہونے کے باوجود کوئی غلط کام نہیں کرتے لیکن ان میں محنت کا جذبہ با لکل ناپید ہے یہاں ذوقی کا قلم کمزور پڑ جاتا ہے کیونکہ اگر ان کرداروں کو محنتی بنا کر پیش کیا جاتا تو وہ ایک خاص تاثر چھوڑ سکتے تھے۔
’’بیان‘‘میں قدیم و جدید تہذیب کی کشمکش صاف نظر آتی ہے قدیم تہذیب پر جدید تہذیب حاوی ہوتی جارہی ہے اس لئے پرانی قدریں بھی پامال ہو رہی ہیں پہلے زمانے میں ہر کام کے لئے کچھ اصول وضع کر دیے گئے تھے اور ہر انسان اپنے رشتے کی مناسبت سے تمیز و تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی زندگی بسر کرتا تھا مرد اور عورت کا فرق ہر مذہب اور ہر سماج میں تھا ۔بے پردگی،عریانیت،فحاشی اور بد تہذیبی یا بد کلامی کی اجازت کہیں نہیں تھی تہذیبی اعتبار سے سب کے سب ایک تھے گھر کے رہن سہن اور طور طریقوں میں بھی یکسانیت تھی لیکن رفتہ رفتہ بدلتے ماحول میں انسان اکیلا ہوتا گیا والدین کو صرف خاندان کی زینت کے طور پر گھر میں بٹھا دیا گیا اور ان کی اطاعت مجبوری سمجھ کر کی جانے لگی ۔دراصل آج کل والدین کو اولادیں ایک بوجھ سمجھ کر برداشت کرتی ہیں یا پھر انھیں وراثت یا جائیداد کا حق دار بننے کی حرص ہوتی ہے لیکن ان بزرگوں کے دلوں پر اس موروثی جائیداد یا مکان کے بٹوارے کا خیال آتے ہی کیا گذرتی ہے اس کا اندازہ لگا پانا مشکل ہے۔نئی تہذیب نے انسان کو دولت پرست بنا دیا ہے اس لئے معاشرے کا نقشہ بد ترین ہوتا جارہا ہے بدلتے ماحول میں ہر انسان دولت کا پجاری ہو چکا ہے اقتدار کی ہوس اور دولت کے لالچ نے اسے اتنا گرا دیا ہے کہ وہ چھوٹے بڑے،مرد عورت اور رشتے ناطے سب کچھ بھول چکا ہے نہ تمیز نہ تہذیب بلکہ اب تو مغربی تہذیب کی پیروی کی جارہی ہے جس کا ذکر چودھری برکت حسین بالمکند جوش سے بڑی حسرت سے کرتے ہیں :۔
’’سب سنسکار کا فرق ہے۔ہم تھے تو سنسکار بھی تھے۔۔۔نئے بچے اڑن کھٹولے پر سوار ہیں ۔اب کیبل ہے،اسٹار ہے۔زی ٹی وی ہے۔اے ٹی ان ہے۔پاپ میوزک ہے۔تم ہی کہو بالمکند۔کل کو ہم گھر میں ذرا زور سے بول سکتے تھے چیخ سکتے تھے،تہذیب کو بالائے طاق رکھ سکتے تھے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،بیان،ص۔۲۶)
ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر گنگا جمنی تہذیب کو جنم دیا تھا اور اسی گنگا جمنی تہذیب کے پروردہ ناول کے کردار بالمکند جوش اور برکت حسین ہیں دونوں ایک دوسرے کے تہوار،خوشی اور غم میں شریک ہوتے ہیں ان کے رہنے سہنے اور کھانے پینے میں یکسانیت ہے دونوں کے لباس اور مکان ایک طرح کے ہیں لیکن سیاسی جماعتوں اور کچھ فرقہ پرست لوگوں نے اس تہذیب کی قدر نہیں کی اور اس کو پارہ پارہ کردیا ۔ہندو مسلم میں رواداری کی جگہ تعصب اور محبت کی جگہ نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی مگر اس کے باوجود دونوں دوستوں نے اپنے تہذیبی ورثے کو سنبھالا اور اس کی پاس داری کی۔
ذوقی نے اپنے اس ناول میں دیگر مسائل کے علاوہ فرقہ پرستی کے مسئلے کو بھی ابھارنے کی کوشش کی ہے اور نہ صرف کوشش کی ہے بلکہ کھرے کھوٹے اور کڑے الفاظ میں سچ کو سامنے لایا ہے ہندوستان میں فرقہ پرستی کی شروعات انگریزوں نے ’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘کی پالیسی سے کی جس سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ مذہبی بھید بھاؤ کی شروعات ہوئی جو رفتہ رفتہ نفرت،لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت گری تک پہنچ گئی۔آزادی کے بعد آہستہ آہستہ ہندوستانی سماج میں فرقہ پرستی نے جڑ پکڑ لی۔سیاست نے اقتدار کی لالچ میں نفرت پھیلانی شروع کر دی۔سیاسی جماعتوں نے پورے سماج کی تصویر ہی بدل کر رکھ دی مذہب اور سیاست کے نام پر پورے ملک میں فسادات اور نفرت کا ماحول پیدا ہوگیا جگہ جگہ لوٹ مار ،دنگے اور فساد ہونے لگے نوجوانوں میں بغاوت اور نفرت کی آگ بھڑکنے لگی۔موقع پرست سیاستدان اس صورت حال کا فائدہ اٹھا کر معصوم اور بے گناہ لوگوں کا استحصال کرنے لگے اور ملک کو ایک بھیانک تباہی کے مقام پر لا کھڑا کر دیا۔ہندوستان جیسے بڑے ملک میں جہاں مختلف مذاہب کے لوگ قیام پذیر ہیں فرقہ وارانہ دنگے مختلف دشواریوں کا باعث ہو سکتے ہیں ساتھ ہی ملک کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔اس ناول کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں آزادی سے لے کر بابری مسجد کے شہید ہونے کے قبل تک کی فرقہ وارانہ ذہنیت اور سیاسی ماحول کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں چھوٹے چھوٹے ذیلی عنوانات کے ذریعہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس ناول میں کئی راز فاش کئے گئے ہیں کہ فساد کون کرتا ہے؟کیوں کراتا ہے؟کس کس طرح سے کراتا ہے یا ان کے کیا مقاصد ہوتے ہیں؟ان سب سوالوں کی ذوقی نے بھرپور وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے انھوں نے انجام سے بے پرواہ ہو کر ایک مجاہد کی طرح ہاتھ میں قلم اٹھا کر فرقہ پرست اور دھوکے باز پارٹیوں کے نام لے کر ان کے چہروں سے جھوٹ کا نقاب اتارا ہے اور ان کی اصلیت کو سب کے سامنے لایا ہے۔
ذوقی نے ’’بیان‘‘ کے ذریعہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اصول،کارکردگی،کانگریس کے رویہ اور ان سب کے ساتھ عوام کی پریشانیوں کو بہت خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے ۔سیاسی جماعتیں طرح طرح سے دنگے کرواتی ہیں اور اس کے پیچھے سیاست دانوں کا کیا مقصد ہوتا ہے ناول میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے بند کمروں میں کس طرح پلاننگ ہوتی ہے سیاست کی چال کس طرح چلی جاتی ہے اور فسادات کے بعد عوام کی ہمدردی کیسے حاصل کی جاتی ہے ان تمام سیاسی حربوں سے یہ ناول پردہ اٹھاتا ہے۔ذوقی نے بھاجپائیوں کے فکر ونظریہ اور حرکات و عمل کو بڑی وضاحت اور جرأت مندی سے پیش کیا ہے ممکن ہے کہ بھاجپائیوں کو یہ بات ناگوار گزرے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان ہی لوگوں نے بابری مسجد کو مسمار کیا تھا یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا اور نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ سارے ہندوستان کے لئے یہ ایک سیاہ دن تھا جسے کبھی نہیں بھلایا جاسکتا ۔بابری مسجد کے سانحہ پر اس سے خوبصورت اور حقیقت پر مبنی تحریر شاید ہی لکھی گئی ہو۔
فن کے اعتبار سے یہ ناول سپاٹ سا ہے ساری باتیں با لکل صاف اور واضح ہیں ناول نگار نے با لکل سیدھے طور پر کانگریس اور بی جے پی کے نام لے کر واقعات بیان کئے ہیں اور کہیں کہیں تو ان کے لیڈر ان تک کے نام لے لیے جاتے ہیں منا کے قتل کے واقعہ کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے لیکن اس کے فوراً بعد اس کی تفصیل دے کر واقعے کو سپاٹ بنا دیا ہے یہی نہیں بالمکند شرما جوش جو بیان دینا چاہتے ہیں اس کا ذکر وہ اتنی بار کرتے ہیں کہ قاری کو آسانی سے ان کے بیان کے متعلق علم ہو جاتا ہے اس طرح ناول میں حقیقت پسندی تو آجاتی ہے لیکن ناول پن پیدا نہیں ہوپاتا جس کی وجہ سے کہیں نہ کہیں ناول کا فن مجروح ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔
ذوقی نے ’’بیان‘‘ میں کچھ دستاویزی بیانات کو بھی کہانی کا حصہ بنایا ہے یہ بیانات اخباری رپورٹ یا واقعے کا جزو لگتے ہیں یہ بیانات پڑھنے والوں کو متاثر تو کرتے ہیں مگر ناول کے فن اور تسلسل کو کمزور بھی کرتے ہیں ۔ذوقی کا لہجہ،ان کا انداز بیان اور کم الفاظ میں بہت بڑی بات کہنے کا فن ان کی بصیرت اور بصارت کا واضح ثبوت ہے زبان کے لحاظ سے یہ ناول مخلوط زبان کی ترجمانی کرتا ہے اس میں ہندی الفاظ کی بھر مار ہے اس لئے اس کو ہندی آمیز ناول کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔زبان و بیان پر ذوقی کو اتنی قدرت حاصل ہے کہ انھوں نے جیسا دیس ویسا بھیس والی مثال سچ کر دکھائی ہے انھوں نے وقت،ماحول اور حالات کی مناسبت سے اردواور ہندی الفاظ کا استعمال کیا ہے وہ ماحول جہاں اردو دانی حاوی ہے وہاں خالص اردو زبان سے کام لیا گیا ہے اور جہاں فضا میں ہندی کا پلڑا بھاری ہے وہاں ہندی الفاظ کو بروئے کار لایا گیا ہے بھاجپا کے جلسوں،میٹنگوں اور کارکنوں کی گفتگو میں ہندی زبان کا استعمال ضروری تھا اس لئے ایسے موقعوں پر ہندی الفاظ ،جملے یہاں تک کہ لمبے لمبے پیراگراف بھی ملتے ہیں ۔
’’اب ایک اوسر (موقع)ملاہے ہمیں۔اتیت جیسا بھی بیت گیا پر ورتمان سامنے ہے ۔ہم اپنے بھوش (مستقبل) کو اپنے طور پر آکار دیں گے ۔یدھ میںنشور شریر کے بارے میں سوچنا بھی مورکھتا ہے۔ایک نشور دیہہ یدی مریتو کو پراپت ہو کر ہمیں کچھ دے سکتا ہے ،تو یہی ہماری سپھلتا ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،بیان،ص۔۲۳۳)
شرما جوش کو چھوڑ کر تمام ہندو کرداروں کے منہ سے ہندی الفاظ کہلوائے گئے ہیں اتنا ہی نہیں چند مسلم کردار بھی ہندی بولتے ہوئے نظر آتے ہیں اس سے ذوقی نے ثابت کیا ہے کہ یہ بات با لکل غلط ہے کہ ہندوستان میں مسلمان ہندی نہیں جانتے۔شرما جوش،برکت حسین ،منا اور پانچ پاپی اردو زبان کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ناول کی زبان نہایت صاف ستھری اور طرز اظہار بیانیہ ہے محاوروں اور خوبصورت مکالموں نے نہ صرف دلچسپی کی فضا قائم کی ہے بلکہ یہ جزئیات نگاری کی بھی اچھی مثال بن گئے ہیں لیکن ایک بات جو اس ناول میں کھٹکتی ہے وہ یہ کہ ذوقی نے اردو محاوروں کو بدل کر اپنے ہی محاورے ایجاد کئے ہیں کئی بے معنی الفاظ بھی استعمال کئے گئے ہیں جو ناول پڑھتے وقت قاری کی دلچسپی کو متاثر کرتے ہیں ناول میں ذوقی نے غالبؔکے ایک مشہور شعر کو بھی پیش کیا ہے ملاحظہ ہو۔
؎موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی۔
ساتھ ہی ناول میں فارسی کا ایک جملہ مع ترجمعہ ادا کیا گیاہے۔
استخوان نرچوں تراشیدہ کہ گل رفت۔
اس کے علاوہ انگریزی کے الفاظ بھی ناول میں برجستہ ملتے ہیں اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ذوقی کو مختلف زبانوں پر عبور حاصل ہے۔
دراصل ’’بیان‘‘موجودہ عہد میں ایک خوشگوار جھونکا ہے جو اس بات کا احساس کرا جاتا ہے کہ سچ کو سچ کی طرح بے باک انداز میں پیش کرنے والے فنکار ابھی زندہ ہیں اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ۶ دسمبر ہندوستان کی سیکولر تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جسے بھلانا آسان نہیں اور جب بھی اردو ادب میں ۶دسمبر کاذکر ہوگا ذوقی کے ناول ’’بیان‘‘کا حوالہ ضرور دیا جائے ۔
(iv) ’’پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی‘‘
’’پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی‘‘ذوقی کا ایک نہایت ہی مشہور و مقبول ناول ہے یہ ناول ۲۰۰۵ء میں شائع ہوا۔ذوقی نے ۲۶ دسمبر ۲۰۰۴ء کو پیش آنے والے حادثے سے اس ناول کا تانا بانا بنا ہے ناول کا کینوس بہت وسیع ہے ۔یہ ایک ضخیم ناول ہے جو لگ بھگ ۵۱۹صفحات پر مشتمل ہے مصنف نے اس ناول میں سونامی کو ایک علامت بنا کر پیش کیا ہے اس ناول کا ٹائٹل نہایت ہی عمدہ ہے جسے پڑھ کر قاری کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ ناول میں سونامی کے حالات پیش کئے گئے ہوں گے۔
یہ ناول سونامی کے عذاب کے صرف چھ ماہ بعد شائع ہوکر منظر عام پر آیا ۔ناول میں موجودہ عہد کے سائنسی تجربات اور ان سے متاثر شدہ معاشرہ اور معاشرے میں پھیلی ہوئی گمراہی و بد عنوانی کی تصویر کشی کی گئی ہے جیسا کہ میں نے اوپر والی سطروں میں بھی ذکر کیا کہ ناول کے عنوان سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس میں سونامی سے متعلق گفتگو ہوگی لیکن صرف ایسا نہیں ہے بلکہ اور بھی کئی مسائل کو ناول کا حصہ بنایا گیا ہے یہ ناول موجودہ عہد کی سیاسی،سماجی،مذہبی،ادبی اور فکری نا انصافیوں کے خلاف احتجاج کی داستان ہے۔’’پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی ‘‘محض سمندری لہروں کا ترجمان ہی نہیں ہے بلکہ یہ ہماری گم ہوتی شناخت کا نوحہ بھی ہے یہ لہریں گلوبل ورلڈ میں دم توڑتی ہوئی تہذیب کا ماتم،رشتوں کے بکھراؤ،ادب اور ادیب کو بہا کر اپنے ساتھ لے جانے والی ہیں ساتھ ہی یہ لہریں انسانی فطرت کی عکاسی بھی کرتی ہیں ذوقی نے سونامی کی زیریں لہروں کے سہارے زندگی کے المیہ کو بھرپور ڈھنگ سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
آج زندگی کے ہر شعبہ میں تبدیلی آچکی ہے ادب بھی زندگی کا آئینہ ہے اس لئے اس میں بھی تبدیلیوں کاہونا واضح ہے سونامی کے بہانے ذوقی نے ادب میں در آئی سونامی کا بھی جائزہ لیا ہے ذوقی ایک بے باک اور نڈر قلمکار ہیں انھوں نے ادبی مافیا کا وہ بھیانک اور خوفناک چہرہ دکھایا ہے جو حساس قاری کے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے ناول نگار نے ادبی محفلوں کی بے ادبی،نقادوں کی بے راہ روی،سرکاری اداروں اور کلچرل اکادمیوں کی اجارہ داری پر بھرپور طنز کیا ہے۔
گلوبلائزیشن آج کی دنیا کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ایشیا بلکہ برطانیہ اور یوروپ کے تمام ممالک بھی پریشان ہیں قدرتی عذابوں میں اضافہ ہو رہا ہے جن میں سے ایک عذاب ’سونامی‘کی شکل میں مسلط ہوا ہے ذوقی کے نزدیک سونامی محض ایک لہر نہیں بلکہ سماج میں پنپنے والی برائیوں، گناہوں اور جبر و استحصال کا خاتمہ کرنے والی ایک انوکھی طاقت ہے۔
مذکورہ ناول تین حصوں پر مشتمل ہے پہلے حصے میں احمد علی اور ادیتی کی داستان عشق ہے جو مختلف دشوار گذار مرحلوں سے گذر کر اپنی منزل کو پالیتی ہے درمیانی حصے میں پروفیسر ایس کی داستان بیان کی گئی ہے اور یہی مرکزی مو ضوع ہے ناول کا آخر حصہ سونامی لہر کے قدرتی واقعے سے متعلق ہے ۔ناول نگار نے اس ناول میں لفظ ’’سونامی‘‘کے معنی بھی واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
’’ ’سونامی‘جاپانی زبان سے نکلا ہے ۔جو دو الفاظ کا مرکب ہے۔پہلا ’سو‘یعنی’ساحل‘اور دوسرا ’نامی‘یعنی’لہر‘۔جس کا مطلب ہے ساحل پر پہنچنے والی لہروں کا سلسلہ جو قیامت کے مناظر پیش کرتا ہے‘‘(مشرف عالم ذوقی،پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی، ص۔۳۲۸)
ناول کی شروعات کلکتہ کی سر زمین سے ہوتی ہے بہار سے احمد علی نام کا ایک نوجوان لڑکا روزگار کی تلاش میں کلکتہ جاتا ہے اور وہاں کامریڈ احمد علی بن جاتا ہے سدیپ سانیال کی سرپرستی میں انڈر گراؤنڈکامریڈ لوگ ریڈ انڈین جوٹ مل سے متعلق مسائل کے حل کے لئے کوشاں رہتے ہیں نکسل تحریک سے وابستہ یہ لوگ اس کے پرسنل مینجر آرسی کشوا ہا کا خون کرنے کی ذمہ داری کامریڈ احمد علی کو سونپتے ہیں کامریڈ احمد علی جو دیپ سانیال کی بیٹی ادیتی سانیال کے عشق میں گرفتار ہو چکا ہوتا ہے ادیتی کے کہنے پر کشواہا کا قتل کرنے کے بجائے اس کے گھر جا کر اس کی لڑکی جینی کشوا ہا کو الرٹ کر دیتا ہے حالانکہ نکسلی تحریک میں غداری کی سزا موت ہوتی ہے لیکن سدیپ سانیال کی وجہ سے اس کی جان بچ جاتی ہے بعد میں سدیپ کے چھوٹے بھائی چارو سانیال کی سفارش سے اس کی شادی ادیتی سانیال سے ہوجاتی ہے احمد علی اپنی زندگی کا بقیہ حصہ نکسل تحریک کے سائے سے دور بتانے کے لئے دہلی آجاتا ہے اور شاہ پور چھولہ داری میں زمین کا ایک پلاٹ خرید لیتا ہے۔
دہلی شہر سے کچھ فاصلے پر شاہ پور چھولہ داری ہے جو ایک دیہی اور جھگی جھونپڑیوں والا علاقہ ہے لیکن رفتہ رفتہ بازار بنتا جارہا ہے جہاں ایک گرجا گھر بھی ہے جس کے پادری فادر کیڈلک ہیں اس کے ساتھ ہی فادر امبروسیو کی خانقاہ بھی ہے فادر امبروسیو کے بعد ان کے جانشین جیکب اس کی ملکیت کے کاغذات نواب دلپت رائے کو سونپ دیتا ہے اور دلپت رائے کے ورثاء اسے پروفیسر ایس کے ہاتھوں فروخت کر دیتے ہیں پروفیسر ایس جب پہلی بار اس خانقاہ کے معائنے کے لئے آتا ہے تاکہ اسے اپنی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کرسکے تو اس کے ساتھ اس کی دوسری بیوی سیما بھی ہوتی ہے جس کی عمر تقریباًسولہ سال ہے اور وہ دیکھنے میں پروفیسر کی بیوی کم بیٹی زیادہ لگتی ہے شاہ پور چھولہ داری کے علاقے میں فادر امبروسیو کی خانقاہ طلسماتی کیفیت کی حامل ہے تو پروفیسر پر اسرار شخصیت کا مالک نہ صرف معلوم ہوتا ہے بلکہ مشہور و معروف ہو جاتا ہے احمد علی بھی بڑے شوق سے پروفیسر ایس کو دیکھتا ہے اور اس کی شخصیت سے متاثر ہوتا ہے۔
اس کے بعد شاہ پور چھولہ داری میں پروفیسر کی آمد ہوتی ہے جو وہاں کے فادر امبروسیو کی پرانی خانقاہ کو اپنی رہائش گاہ بناتا ہے اسی خانقاہ کے سامنے احمد علی نے اپنا مکان بنوایا ہے اور پرویزسانیال کے روپ میں ان دونوں کی محبت سامنے آتی ہے پروفیسر کی خانقاہ میں اس کی بیوی سیما بھی رہتی ہے پروفیسر اپنی پہلی بیوی حمیدہ کو چھوڑ کر مسجد کے امام کی کم سن لڑکی سیما سے شادی کر لیتا ہے اگرچہ وہ اس سے بہت دھیمے لہجے میں گفتگو کرتا ہے لیکن اس سے بے انتہا سفاکی سے پیش آتا ہے اس کی عیاشی کی انتہا یہ ہے کہ عورتیں ایک مخصوص عمر کے بعد اسے اچھی نہیں لگتیں۔پروفیسر ایس نے ادب کے بہت بڑے مافیا لوپی چند سیب کو اپنی مٹھی میں کیا ہوا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پروفیسر ایس کے پاس لوپی چند کی ایک ایسی تصویر ہے جس کے منظر عام پر آجانے سے اس کی عزت کا جنازہ نکل جائے گا اسی ڈر سے وہ پروفیسر کو اکادمی کے بڑے انعام سے نوازتا ہے پروفیسر ایس خانقاہی اور احمد بشیر کی مدد سے ایک ادبی رسالے کا اجراء بھی کرتا ہے۔خانقاہی اگرچہ بے حد ذہین اور مذہبی بیک گراؤنڈ کا لڑکا ہے لیکن پروفیسر کی صحبت اسے شراب کا رسیا بنا دیتی ہے۔
شاہ پور چھولہ داری میں رہنے والا ڈاکٹر اجے پروفیسر ایس کے بارے میں طرح طرح کی خبریں اڑاتا ہے اور اس علاقے کے لئے اسے منحوس قرار دیتا ہے لیکن احمد علی اپنے بیٹے پرویز سانیال کی پرورش پروفیسر کی نگرانی میں کروانا چاہتا ہے اسے لگتا ہے کہ پروفیسر ایک قابل اور عزت دار انسان ہے اور ایک دن وہ پروفیسر سے اس سلسلے میں بات بھی کرتا ہے مگر پروفیسر ایس پرویز سانیال کو اپنی تربیت میں رکھنے کے لئے کچھ شرائط پیش کرتا ہے جو اس طرح ہیں:۔
’’پرویز کو میں کسی ملکیت کی طرح اپنی تحویل میں لوں گا ۔اور آپ مجھ سے کبھی بھی کوئی رابطہ نہیں رکھیں گے۔کچھ پوچھیں گے نہیں۔۔۔۔آہ،میں پرویز میں اپنی زندگی کے تمام تجربے خرچ کردوں گا ۔۔۔۔۔پرویز آپ سے زیادہ میری پراپرٹی ہوگا۔میری ملکیت۔آپ کبھی بھی ہمارے اور پرویز کے درمیان نہیں آئیں گے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی،ص۔۲۳۴)
احمد علی اپنے بچے کو پروفیسر ایس جیسا بنانا چاہتا ہے اس لئے وہ ان شرائط کو مان لیتا ہے لیکن پرویز کی ماں ادیتی سانیال ان شرطوں کو سن کر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتی ہے اس طرح احمد علی اپنی بیوی کے خلاف جا کریہ فیصلہ لیتا ہے اور اپنے بیٹے کو پروفیسرکے سپرد کر دیتا ہے۔
پروفیسر ایس اپنے اندازمیں پرویز کی تربیت کرتا ہے اس دوران پرویز سانیال پروفیسر کی کمسن بیوی پر ہو رہے ظلم سے بھی واقف ہو جاتا ہے پروفیسر اتنا سنگ دل ہے کہ وہ سیماکو کسی کے سامنے نہیں آنے دیتا۔ایک بار خانقاہی پیاس کی شدت میں بھابھی کہتے ہوئے اندر گیا تھا اور سیما نے اسے پانی کا گلاس دیا تھا اس چھوٹی سی غلطی کے لئے پروفیسر نے سیما کے بدن کو سلاخوں سے داغ دیا تھا وہ سیما کو اپنی حویلی میں بے لباس دیکھنا پسند کرتا تھا اور اسی بے لباسی میں وہ اس کے لئے چائے یا کافی بھی بناتی تھی۔
اس درمیان پروفیسر کی ملاقات ایک خوبصورت نوجوان فوقی سے ہوتی ہے جو کسی زمانے میں کہانیاں لکھتا تھا مگر اب وقت کے ساتھ چھوٹے پردے کی دنیا کو اس نے اپنی دنیا بنا لیا تھا فوقی کی مدد سے وہ سی ٹی وی کے لئے اپنا پروجیکٹ جمع کرتا ہے لیکن وہاں کا انچارج بالم سرشاری پروفیسر کو اسمگلر کہہ کر اس کے پروجیکٹ کولینے سے انکار کرتا ہے لیکن فوقی کی سفارش سے وہ اسے رکھ لیتا ہے بعد میں پروفیسر جموں کی ایک شاعرہ کنول ڈیسائی کو بالم سرشاری کے پاس بھیجتا ہے اور نگار زیدی کو نوٹوں سے بھرا بیگ دے کر اس بات کے لئے راضی کر لیتا ہے کہ وہ سی ٹی وی کا سارا پروگرام صرف اسے ہی دے۔اس طرح وہ بڑی خوبصورتی سے اپنے محسن فوقی کا پروجیکٹ سی ٹی وی سے رد کروا دیتا ہے۔
پرویز سانیال بچپن سے ہی شیلی کے ساتھ کھیلتا کودتا ہوا بڑا ہوتا ہے دونوں ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے ہیں ادیتی سانیال بھی اس جوڑی کو پسند کی نگاہ سے دیکھتی ہے لیکن وقت کو کچھ اور ہی منظور ہوتا ہے پرویز سانیال پروفیسر کی صحبت میں اس طرح گرفتار ہو جاتا ہے کہ وہ شیلی کی محبت کو ٹھکرا دیتا ہے اور شیلی کی شادی کسی اور سے ہو جاتی ہے اس دوران ادیتی سانیال کی موت بھی ہوجاتی ہے ماں کی موت پر پرویز بکھر جاتا ہے لیکن اس کا باپ اسے سنبھال لیتا ہے۔
ناول کے تیسرے حصے میں اکیسویں صدی کے سب سے ہولناک حادثے سونامی کا ذکر ہے اور اس پورے باب میں سونامی کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں پروفیسر پرویز سانیال کے ساتھ ہر اس جگہ جاتا ہے جہاں سونامی نے قہر برپا کیا ہے اس سلسلے میں تفصیلات اتنی زیادہ ہیں کہ کبھی کبھی اس پر رپورٹنگ کا گمان ہوتا ہے ۔پروفیسر کو ایک عجیب سی بیماری بھی ہے وہ بند کمرے میں زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتا اس کا دم گھٹنے لگتا ہے سانس رکنے لگتی ہے اس پر غشی طاری ہوجاتی ہے اور اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گھٹن سے اس کا دم نکل جائے گا یہی وجہ ہے کہ نہ تو وہ طیارہ میں سفر کرسکتا ہے اور نہ ہی ٹرین کے اے سی ڈبے میں ۔انتہا یہ ہے کہ وہ اس باتھ روم میں جس میں کھڑکیاں نہ ہوں گھٹن محسوس کرنے لگتا ہے ۔سونامی سے متاثرہ علاقوں کے دورے کے دوران پروفیسر کے اندر کی سفاکی پرویز سانیال پر ظاہر ہو جاتی ہے اور وہ اس سے دورہونے لگتا ہے دہلی واپس آنے تک اس میں ایک نمایاں تبدیلی ہو چکی ہوتی ہے اور جب وہ اپنے گھر واپس آتا ہے تو اپنے شفیق والد احمد علی کو بھی پروفیسر کی حقیقت بتا دیتا ہے اور وہ بھی اس سے نفرت کرنے لگتا ہے اب احمد علی کو احساس ہوتا ہے کہ اس نے کتنی بڑی غلطی کی ہے اسی دوران مختصر علالت کے بعد احمد علی کا انتقال ہو جاتا ہے اور پرویز سانیال اس دنیا میں اپنے آپ کو اکیلا محسوس کرنے لگتا ہے موت کی خبر سن کر شیلی بھی پرویز کے گھر آتی ہے اور بے اختیار پرویز سے لپٹ جاتی ہے اس کے جذبات کے سارے باندھ ٹوٹ جاتے ہیں۔
’’میں نہیں روکوں گی تمہیں۔میں کب سے۔۔۔اس دن کے لئے ترس رہی تھی پگلے۔اور آج،پرائے ہوجانے کے احساس کے بعد،تم نے میرے لئے اپنے آپ کو کھولا ہے۔اپنے ہونٹوں کو۔ہاتھوں کو۔اور اپنے جسم کو۔میرے لئے۔۔۔میں بھول گئی ،کہ میری شادی ہوچکی ہے۔پرویز۔اپنے آپ کو روکو مت۔بہہ جانے دو۔سیلاب آتا ہے تو آنے دو۔خود کو روکو مت۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی،ص۔۴۶۹)
لیکن پرویز اپنے باپ کے غم میں اس قدر بے حال ہے کہ وہ شیلی کے اکسانے کے باوجود اپنے آپ پر قابو پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔اس دوران پروفیسر ایس لوپی چند سیب کے بلاوے پر دو دن کے لئے دہلی کے سفر پر روانہ ہوتا ہے جہاں اس کے اعزاز میں ایک میٹنگ ہونے والی ہے جس میں پروفیسر اپنے دورے کی داستان سنا کر لوگوں کی واہ واہی لوٹنے کا متمنی رہتا ہے وہ دو دن تک دہلی میں قیام کرتا ہے اور یہی دو دن اس کی زندگی پر بھاری پڑ جاتے ہیں سیما اور پرویز مل کر اس کی موت کا سامان اکٹھا کرتے ہیں فادر امبروسیو کی عبادت گاہ میں جس کی دیواروں پر پروفیسر کی تصویریں سجی ہوئی ہیں اس کی ایک تصویر کے پیچھے ایک کھڑکی ہے جس سے پروفیسر کو اطمینان رہتا ہے کہ وہ اس میں محصور نہیں ہے پرویز اور سیما مل کر اس کمرے کی کھڑکیوں کو نکال کروہاں دیوار چنوا دیتے ہیں اور اس طرح دہلی سے واپسی پر جب پروفیسر اپنے کمرے میں جاتا ہے تو سیما باہر سے کنڈی لگا کر اس میں تالا جڑ دیتی ہے پھر دونوں وہیں بیٹھ کر کمرے کے اندر پروفیسر کی بے بسی کا لطف اٹھاتے ہیں پروفیسر کی عجیب بیماری اس پر حملہ آور ہوتی ہے اور وہ موت کی نیند سوجاتا ہے اس طرح پروفیسر ایس کی عجیب داستان اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔
اس ناول کے کرداروں میں سے ایک اہم کردار پرویز سانیال ہے جو اپنی زندگی کی کہانی اپنی زبانی بیان کر رہا ہے دیگر کرداروں کے علاوہ احمد علی،پروفیسر ایس،سدیپ سانیال،ادیتی سانیال،لوپی چند سیب،سیما اور شیلی اہم کردار ہیں ان ہی کرداروں کے ذریعہ کہانی کو آگے بڑھایا گیا ہے۔احمد علی اس ناول کا بنیادی اور اہم کردار ہے مظفر پور بہار کا باشندہ احمد علی اپنی غربت ،افلاس اور سوتیلی ماں کی بد سلوکی سے تنگ آکرکلکتہ پہنچتا ہے اور مزدوری پر گذارا کرتا ہے احمد علی اپنے باپ کو زیادہ پسند نہیں کرتا مگر اس کے باوجود وہ اپنے باپ کے خدا،مسجد،مذہب اور اس کی دی ہوئی تعلیم سے پیچھا نہیں چھڑا پاتا۔وہ زندگی سے پیار کرتا ہے زندگی اسے نہیں جیتی بلکہ وہ زندگی کو جیتا ہے ادیتی سانیال کی طرف اس کی لپک زندگی سے عشق کا استعارہ ہے۔
احمد علی اپنی غریبی اور بے روزگاری کے باوجود ایک قابل اعتماد شخصیت کے طور پر ابھرتا ہے ادیتی سے شادی کرنے کے بعد وہ دہلی کے لئے تنہا روانہ ہوتا ہے اور ادیتی اور سدیپ سانیال سے کہتا ہے کہ حالات کے بہتر ہوتے ہی وہ ادیتی کو اپنے پاس بلالے گا احمد علی کی شخصیت ان کے نزدیک اتنی باوقار اور اس کی بات اتنی وزن دار ہے کہ ان دونوں میں سے کسی کو اس پر کوئی تامل یا شک نہیں ہوتا ۔احمد علی ادیتی سے سچی محبت کرتا ہے اس کی محبت میں کوئی کھوٹ نہیں ہے وہ ادیتی کی محبت میں اس قدرجذباتی ہو جاتا ہے کہ ادیتی سے شادی کرنے کے بعد اس نے اپنے نام کے آگے اس کا نام جوڑ دیا جبکہ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا بلکہ عورت کے نام کے ساتھ مرد کا نام جوڑا جاتا ہے لیکن احمد علی کی محبت کا اپنا انداز ہے وہ روایتوں کو شاید زیادہ اہمیت نہیں دیتا حد تو یہ ہے کہ اپنے بیٹے کو بھی اس نے ادیتی کا نام دے دیا۔
’’عام طور پر پتنی ،پتی کا نام جوڑتی ہے ۔لیکن تم تو۔وہ جوش سے مسکرایا۔پتنی نہیں یار۔محبت محبت کی بات ہے ۔جس کی محبت کا پلڑا بھاری ہوتا ہے ‘‘(مشرف عالم ذوقی،پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی،ص۔۱۴۴)
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ احمد علی نے اپنی محبت کو صحیح معنوں میں نبھانے کی نہ صرف کوشش کی بلکہ اس کی قدر بھی کی اور محبت کے نام پر ایک خوبصورت گھر آباد کیا۔ احمد علی ایک شفیق باپ کی طرح اپنے بیٹے پرویز کو بڑا آدمی بنانا چاہتا ہے جب پروفیسر ایس خانقاہ میں سکونت اختیار کرتا ہے تو احمد علی کو محسوس ہوتا ہے کہ پروفیسر اگر پرویز کو اپنی شاگردی میں لے لے تو وہ بھی پروفیسر جیسا معزز اور باوقار بن جائے گا لہٰذا احمد علی اپنے مقصد کے لئے دوڑ دھوپ شروع کردیتا ہے اور اس سلسلے میں وہ کامیاب بھی ہوتا ہے یعنی وہ پرویز سانیال کو پروفسیر کے حوالے کر دیتا ہے یہ الگ بات ہے کہ پروفیسر نے اس کی ساری آرزوؤں اور امیدوں پر پانی پھیر دیا مگر اس کے ارادے کمزور نہیں تھے۔
موجودہ دور میں زوال انسانی کا ایک بھیانک منظر یہ بھی ہے کہ آدمی روحانی انسان بن کر مطمئن نہیں ہوپاتا۔اس کا اپنا آدھا ادھورا علم یا سماج اسے رسموں میں گھرا مذہبی بنا کر ہی دم لیتا ہے احمد علی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے وہ مذہبی ہے اور ادیتی کے کمرے میں نماز پڑھ کر مسلمان ہونے کی دلیل بھی پیش کرتا ہے۔وہ خود تو ادیتی کے عشق میں گرفتار ہوکر اس سے شادی کر لیتا ہے مگر اپنے بیٹے پرویز اور شیلی کے رشتے سے اسے اعتراض ہے یہ ذہنی اور فکری دیوالیہ پن کی انتہا ہے ہندوستان کا عام مذہبی آدمی اس دیوالیہ پن کا شکار ہے احمد علی کے کردار میں اتنے شیڈس ہیں کہ یہ اس ناول کا ایک یادگار کردار معلوم ہوتا ہے۔
پروفیسر ایس بھی اس ناول کا بنیادی کردار ہے پروفیسر ایس کا پورا نام صدرالدین پرویز قریشی ہے ذوقی نے پروفیسر ایس کی شخصیت و سیرت کا خاکہ اور مرقع پیش کرنے میں فنی مہارت کا ثبوت دیا ہے پروفیسر ایس کے تعارف میں اس کی شخصیت کی مرقع سازی اس انداز میں کی گئی ہے کہ اس کی شخصیت ایک طرف جاذب نظر اور انتہائی پرکشش تو دوسری طرف پر اسرار نظر آتی ہے اس کی شخصیت کا مرقع درج ذیل عبارت سے واضح ہوجاتا ہے ۔
’’اُف معاذ اللہ۔وہ آنکھیں ۔ان آنکھوں کی گہرائی کو تو وہ زندگی بھر نہیں بھول سکتا۔انتہائی خوبصورت سفید چہرہ۔ہلکی گھنی ڈاڑھی۔آنکھوں پر چڑھا ہوا سیاہ چشمہ۔کالے رنگ کا سوٹ۔سفید شرٹ،خوبصورت نکٹائی۔کالے رنگ کا جوتا ،قد چھ فٹ سے کچھ ہی کم ۔پوری شخصیت میں ایک ایسا جادو تھا کہ وہ بس دیکھتا رہ گیا۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی،ص۔۱۵۵)
صدرالدین پرویز قریشی ،پروفیسر کہلاتا تو ضرور ہے لیکن پورے ناول میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ وہ کب ،کہاں اور کس کالج یا یونیورسٹی کا پروفیسر رہا ہے۔پروفیسرایس کے کردار کو تراشنے میں ذوقی نے کافی محنت کی ہے پروفیسر ایک ایسے کردار کے طور پر ہمارے سامنے آتا ہے جوایک نرم گفتار اور بے حد پر کشش شخصیت کا مالک ہے پروفیسر ایک ادیب بھی ہے وہ اپنی تحریروں سے جادو جگانے والا ،لوگوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے والا ،ذہین لوگوں کا استحصال کرنے والا اور جنسی طور پر بے حد سفاک شخص ہے۔اس کردار کے کئی رنگ ہیں بزدلی،سچ سے منہ موڑنا،مغرور اور متکبرانہ مزاج،عورت کو صرف جسمانی خواہشات پوری کرنے والی چیز سمجھنا ،محبت کو بے کار اور کمزوری کی علامت کہنا وغیرہ اس کردار کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔پروفیسر ایس کی طبیعت میں انا کا عنصر بھی پایا جاتا ہے اس کی خود پسندی کی انتہا یہ ہے کہ اس نے اپنی مختلف پوز کی تصویریں بنوائی ہیں اور ان سے اپنی آرٹ گیلری سجائی ہے وہ اکثر اپنی ان تصویروں کا جائزہ لیتا اور نہ صرف خوش ہوتا بلکہ نئے عزائم کے ساتھ نئے منصوبے بناتا اور ان منصوبوں کی تکمیل کے لئے امکانات و مسائل پر غور کرتا۔اس کی آنکھوں پر ہمیشہ کالا چشمہ چپکا رہتا ہے نفسیاتی طور پر جو لوگ سادیت پسند ہوتے ہیں وہ کسی سے آنکھ ملانے کی ہمت نہیں رکھتے اسی لئے اپنی آنکھوں کو کالے شیشے میں چھپائے رکھتے ہیں پروفیسر کی شخصیت ایک کولڈ بلڈڈ سادیت پسند کے طور پر ابھرتی ہے جو اپنی کامیابی کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے جہاں نہ کوئی رشتہ آڑے آتا ہے نہ ضمیر سامنے آتا ہے حد تو یہ ہے کہ دوستی اور وفاداری بھی اپنا اثر نہیں دکھا پاتی۔پروفیسر ایس جذبات و احساسات کو خاطر میں نہیں لاتا لیکن وقت کے بہاؤ میں یہی چیز اس کو دھیرے دھیرے کھوکھلا اورکمزور کر تی چلی جاتی ہے پھر وہ ایک بھیانک نفسیات کا شکار ہوجاتا ہے ۔ذوقی نے پروفیسر ایس کے کردار میں فکر و عمل کا تضاد بڑی خوبصورتی سے ظاہر کیا ہے پروفیسر نہ صرف نام ونمود اور دولت کی خاطر ہیبت ناک ہتھکنڈے اپناتا ہے بلکہ وہ اپنے جذبات کی تسکین کے لئے انسانیت کی حد سے بہت نیچے گر جاتا ہے کسی اجنبی آدمی کے سامنے آجانے پر وہ اپنی بیوی پر ظلم و ستم کرتا ہے وہ نہ صرف اس کے جسم پر بلکہ دل و دماغ پر بھی اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے ۔
پروفیسر زمانہ سازی کے فن سے اچھی طرح واقف تھا وہ صرف اپنی حکمرانی اور سکے کا قائل تھا وہ حکومت کرنے کے لئے اپنا ایک کلون تیار کرنا چاہتا ہے جو جذبات سے عاری ہو یا پھر یہ کہ شاید وہ انسان کو Dehumaniseکرنا چاہتا ہے اس کے لئے وہ پرویز سانیال کا انتخاب کرتا ہے اس نے دس سال تک اپنے تجربوں کو یکجا کیا اور پرویز کو اپنے جیسا بنانے میں صرف کردیا مگر وہ اپنے مقصد میں ناکام رہا ۔
پروفیسر ایس سونامی کی لہروں کی تباہی کے معائنے کا پروگرام بناتا ہے تو پرویز کو بھی اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پروفیسر پہلی بار ان ہی سونامی لہروں کے درمیان بے نقاب ہوتا ہے حکومت کرنے کے دو اہم مونو لاگ سے اس کا سابقہ یہیں پڑتا ہے اس کا کلون یعنی پرویز سانیال اسی سونامی سے متاثر ہوکر اپنے اندر ایک مضبوطی پیدا کر لیتا ہے جو بعد میں پروفیسر کی موت کا سبب بنتا ہے اور پروفیسر کا الٹرا ہیومن کا کنسپٹ بھی یہیں ٹوٹتاہے ۔ناول کے قصے کا آغاز اور انجام اسی کردار پر منحصر ہے تاہم یہ قصہ صدرالدین پرویز قریشی تک ہی محدود نہیں ہے اور نہ ہی وہ مرکزی کردار کے روپ میں ابھرتا ہے لیکن اس کی شخصیت کے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے جبکہ ناول کے مرکزی کردار کو اس قدر نہیں ابھارا گیا ہے یہ کردار نگاری کا ایک کمزور پہلو ضرور ہے جس سے ایک عدم توازن کی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ناول کا مرکزی کردار پرویز سانیال ہی لگتا ہے وہ نہ صرف ہیرو کی حیثیت سے ابھرتا ہے بلکہ ناول کے قصے کا راوی بھی ہے جو کہنے کو تو پروفیسر ایس کی داستان بیان کرتا ہے لیکن بالواسطہ طور پر وہ اپنی داستان حیات سناتا ہے اس میں ایسے عناصر موجود ہیں جو اسے دلچسپ بناتے ہیں اس کی زندگی میں کئی موڑ آتے ہیں انھیں میں سے ایک اہم موڑ پروفیسر ایس کا وجود اور اس کی سر گرمیاں ہیں۔
پرویز سانیال پروفیسر ایس کا شاگرد ہے وہ اس بات سے انجان ہے کہ پروفیسر اس کے ساتھ کون سا کھیل کھیل رہا ہے اور جب اس کے سامنے پروفیسر کی حقیقت کھلتی ہے تو پروفیسر کے خلاف بغاوت کا جذبہ اس کے اندر سونامی کی لہروں کی طرح ابھرتا ہے جس کو وہ شدت سے محسوس کرتا ہے تعلیم و تربیت کے نام پر پروفیسر نے اسے جو کچھ بھی دیا ہے وہ اسے سود سمیت لوٹا دینا چاہتا ہے کیوں کہ اس مدت میں اس نے اپنے باپ احمد علی ،ماں ادیتی اور اپنی معصوم دوست شیلی کو کھو دیا ہے۔
سیما پر پروفیسر کی زیادتیوں اور ستم رانیوں کو پرویز سانیال بھی بخوبی جانتا ہے وہ اپنے آپ کو بھی اس کے قید و بند میں محسوس کرتا ہے وہ جانتا ہے کہ اسی قید و بند کی وجہ سے وہ اپنے والدین کے کام نہ آسکا اور وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے اس طرح پرویز پروفیسر سے انتقام لینے کے لئے کمر بستہ ہوجاتا ہے سونامی کے سفر کے دوران وہ پروفیسر ایس کی کمزوریوں سے اچھی طرح واقف ہوجاتا ہے لہٰذا سفر سے واپسی کے بعد پرویز اور سیما مل کر پروفیسر کے خلاف سازش رچتے ہیں ۔پرویز سانیال پروفیسر کے قتل کی اسکیم تیار کرتا ہے وہ اسے گولی سے مار دینا چاہتا ہے اس موقع پر پرویز کی جذباتیت ہوش مندی سے عاری دکھائی دیتی ہے اس کے برعکس سیما نہایت ہی ہوشیار اور چالاک نظر آتی ہے وہ شاطرانہ چالوں میں پروفیسر سے بھی بہت آگے نکلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔سیما کو معلوم ہے کہ پروفیسر ایک نفسیاتی مرض میں مبتلا ہے کسی بند کھڑکی والے کمرے یا کمپارٹمنٹ میں اس کا دم گھٹنے لگتا ہے چنانچہ اگر ایسے کسی کمرے میں تھوڑی دیر کے لئے وہ بند رہے تو اپنی موت آپ مر سکتا ہے اس طرح سیما کی تجویز کے مطابق پروفیسر کے کمرے کی کھڑکیاں چنوا دی جاتی ہیں پروفیسر اپنے کمرے میں جاتا ہے اور اندر سے کنڈی چڑھا دیتا ہے لیکن جب کھڑکیوں کو کھولتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ کھڑکیوں کے باہر دیوار کھڑی ہے اس لئے نہ کہیں سے ہوا آسکتی ہے اور نہ روشنی۔اس احساس کے ساتھ اس کا دم گھٹنے لگتا ہے وہ جلدی سے اپنے کمرے سے باہر نکلنا چاہتا ہے لیکن جب کنڈی گراتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ باہر سے بھی کنڈی چڑھی ہوئی ہے اس کا دم اور بھی تیزی سے گھٹنے لگتا ہے وہ کمرہ کھولنے کے لئے دروازہ بھی کھٹکھٹا تا ہے اور آواز بھی لگاتا ہے لیکن اس کی تمام کوششیں رائیگاں جاتی ہیں اور اس طرح ایک الٹراہیومن کا خاتمہ کیڑے مکوڑے کی طرح ہو جاتا ہے اس ناول میں سیما کا کردار راکھ میں چھپائے ہوئے انگارے کی طرح ابھرتا ہے جو پروفیسر کی زندگی کے خس و خاشاک کو چند لمحوں میں جلا کر خاکستر بنا دیتا ہے جبکہ پرویز سانیال کا کردار زندگی کی جدوجہد میں فعالیت کے اعتبار سے بہت ہی کمزور نظر آتا ہے شاید اس کا اصل رول ناول کے اختتام کے بعد شروع ہوتا ہے جسے صرف قیاس ہی کیا جا سکتا ہے۔
ادیتی سانیال ایک حساس لڑکی ہے جو صرف پیار کرنا جانتی ہے محبتیں لٹانا جانتی ہے وہ احمد علی سے بے حد پیار کرتی ہے اور اسے اپنا جیون ساتھی بنا لیتی ہے وہ اپنی محبت کے سامنے نہ تو سماج کو اہمیت دیتی ہے اور نہ ہی دھرم کو۔اس کا دھرم صرف محبت ہے ۔
’’تمہاری محبت کے راستے بابا کا کمیونزم بھی کام نہیں آیا۔تمہاری محبت میں اتنی پاگل تھی کہ تمہارا دھرم بھی اپنا لیا۔میرے نزدیک مذہب کی نہیں ،محبت کی اہمیت تھی ۔اگر مذہب کی اہمیت ہوتی تو تمہارا دھرم کبھی نہیں اپناتی۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی،ص۔ ۲۳۰)
ادیتی اپنے عاشق اور شوہر احمد علی کا ہر برے وقت میں ساتھ دیتی ہے جب ادیتی کا باپ احمد علی کو آرسی کشواہا کا قتل کرنے کا حکم دیتا ہے تو احمد علی پوری طرح ٹوٹ جاتا ہے اور وہ کشمکش میں پڑ جاتا ہے اس موقع پر ادیتی کی محبت ہی اس کو راہ دکھاتی ہے۔
ادیتی اپنے باپ کے خیالات سے متفق نہیں ہے وہ اپنے والد کی وچار دھارا سے خود کو جوڑ نہیں پاتی اور نہ ہی کبھی اسے اپنے باپ کا پیار ملا لیکن اسے اپنی محبت پر پورا بھروسہ ہے وہ محبت میں دھوکہ نہیں سہہ سکتی اس لئے احمد علی کو صاف طور پر کہہ دیتی ہے ۔
’’بس دھوکہ مت دینا ۔بچپن سے بابا کے وچاروں کا دھوکہ سہتی آئی ہوں ۔نکسل باڑی۔دوغلی مانسکتا کے پیچھے کا سچ کیا ہوتا ہے ،جان چکی ہوں۔پریم میں دھوکہ کھانے کی کلپنا بھی ،نہیں کرسکتی۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی،ص۔۱۰۷)
احمد علی اور ادیتی سانیال کے کردار غیر معمولی ہیں اور ذہن پر پروفیسر یا پرویز سے زیادہ گہرا نقش قائم کرتے ہیں کیونکہ جدو جہد اور کشمکش سے بھری زندگی گذارنے والے ایسے کئی چہرے ہمیں اپنی زندگی میں ملتے ہیں جو ہمیں سوچنے اور غورو فکر کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
ذوقی نے سونامی کے ذریعہ اردو کے ٹھیکیداروں کو بھی بے نقاب کیا ہے جو زبان کے فروغ کا دھندا کرتے ہیں اور انعام حاصل کرتے ہیں مصنف نے ادبی پولیوشن کا ذکر کیا ہے انھوں نے ادب کو بھی سونامی کا شکار بنایا اور اس طرح ادب کے لٹیروں کو سامنے لانے کی پہل اور کوشش کی۔دراصل کئی برسوں سے ادب کی لوٹ جاری ہے ادب بھی ایک مافیا بن چکا ہے انھوں نے یہ واضح کیا ہے کہ جو ادیب بڑے عہدے اور رتبے پر فائز ہے وہ زبان کا ناجائز استعمال کر رہا ہے ۔
’’ہم ایک مرتی ہوئی زبان کے ٹھیکیدار ہیں بس۔۔۔۔۔اور اسی لئے ہمیں پوجا جا رہا ہے کہ اس مرتی ہوئی زبان کی باگ ڈور برسوں سے ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ذرا نظر تو دوڑاؤ۔۔۔۔۔الگ الگ ابھی بھی کتنے ہی ٹھیکیدار ہیں اور ہمیں سیاست سے،ہشیاری سے ایک ایک مہرہ آگے بڑھاتے ہوئے لوگوں کی نظر میں مسیحا بن جانا ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی،ص۔۲۲۲)
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم ایک بے حس اور سڑے ہوئے بازار میں قدم رکھ چکے ہیں جہاں ہر چیز بک رہی ہے اردو زبان بھی بک رہی ہے اور اس کے چاہنے والے بھی۔ملاحظہ ہو
’’لوگ سمجھتے ہیں ادب سے مسائل حل ہوتے ہیں۔انقلاب آتا ہے۔تھوکتا ہوں ایسے لوگوں کے دماغ پر۔اس دنیا میں سیاست سے بھی زیادہ کوئی چیز بکتی ہے تو وہ ادب ہے ۔رنڈی سے زیادہ ننگی اور گھناؤنی دنیا ہے یہ۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی،ص۳۳۳)
اردو مافیا کی شکل دیکھنی ہو تو ذوقی کا یہ ناول کافی ہے یہاں سیمینار ہوتے ہیں محفلیں سجائی جاتی ہیں ہزاروں لاکھوں روپے اکادمیاں ایک دوسرے کو خوش کرنے میں صرف کر دیتی ہیں مگر اردو کا بھلا چاہنے والا کوئی نہیں اور اردو کا بھلا ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ جب تک صدرالدین پرویز قریشی اور لوپی چند سیب جیسے لوگ ہمارے درمیان ہیں ہم ضمیر فروشوں میں شامل ہیں جہاں نہ زبان کا بھلا ہوسکتا ہے اور نہ ہی ہم کسی فنکار کی صحیح قدرو قیمت کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ہر فنکار کو ادبی نا انصافی کے خلاف احتجاج کرنے کی آزادی ہے ذوقی نے بھی اس ناول میں اردو ادب کے ساتھ ہو رہی نا انصافی کے خلاف اپنی آواز بلند کی ہے اس ناول میں ای ٹی وی کا معاملہ،رسالہ نکالنا،خانقاہی کا ناول لکھنا،پروفیسر کا انعام حاصل کرنا جیسے کچھ واقعات کے پس منظر میں ذوقی نے شکایت کا اظہار کیا ہے لیکن جس طرح انھوں نے چند ادبی شخصیات کے ناموں کا ذکر کیا ہے اس سے ادبی تنازعہ پیدا ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
ناول میں سونامی کے المیہ پر مصنف نے ۱۰۰ صفحات سے زیادہ خرچ کئے ہیں یہ ایک ایسا عبرت ناک واقعہ تھا جس نے پوری انسانیت کو خصوصاً ہندوستانی عوام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔لوگ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہوگئے۔سونامی لہریں اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے گئیں اور موت کو کیش کرتی رہیں ۔ہزاروں لوگ درد ناک موت کا شکار ہوئے اور جو بچ گئے ان کا درد موت سے بھی بھیانک تھا ۔مصنف کا کمال یہ ہے کہ اس نے موت کے بعد زندگی کی امید جگائی اور مردہ دلوں میں نئی روح پھونک دی ۔چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
’’موسیو،موت کے بعد بھی زندگی چلتی رہتی ہے ۔سونامی سے جہاں نقصان ہوا ہے وہاں فائدے اور روزگار کے نئے نئے دفتر کھل رہے ہیں ۔اب ایسے مجھے چونک کر مت دیکھئے موسیو۔سمندر میں ہزاروں طرح کے روزگار چھپے ہیں ۔بایو آشینو گرافی،فزیکل آشینو گرافی،مرین کیمسٹری۔اور آگے بڑھئے موسیو۔سمندری غذا،سمندری علاج،سمندری کھیل،موتیوں کی تجارت۔سونامی لہریں موت دیتی ہیں تو آپ کو زندگی بھی دیتی ہیں ۔موت کے ہر ڈر کے بعد زندگی کے دس راستے کھل جاتے ہیں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی،ص۔۳۶۱)
’’وہ دیکھئے دور تک ٹوٹی ہوئی نوکائیں ۔جسے یہ زندہ بچ جانے والے مچھوارے دوبارہ جوڑنے اور ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔لیکن کیوں موسیو۔کیونکہ زندگی ختم نہیں ہوتی۔بڑے سے بڑے زلزلے یا سونامی لہروں کے بعد بھی۔یہ دوبارہ نوکائیں بنا لیں گے۔دوبارہ سمندر میں جائیں گے۔اور دوبارہ مچھلیاں پکڑیں گے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی،ص۳۴۳)
’’مگر موسیو،یہ بات بھولیں گے نہیں کہ موت کے بعد زندگی کا سفر ختم نہیں ہوتا ۔ہماری آنکھیں کھلی ہیں اور ہم جی رہے ہیں ۔یہی سچائی ہے ۔۔۔موت،زندگی کو دیکھنے کا ایک بہانہ ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی،ص۔۴۶۰)
زندگی اور موت کی کشمکش کے یہ اشارے ناول میں قدم قدم پر ملتے ہیں اس لئے یہ ناول کا بہت ضروری حصہ ہے۔
یہ ناول غور سے اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کی چیز ہے اس میں ذوقی نے جزیات نگاری سے کام لیا ہے خاص طور پر جہاں سونامی کے تذکرے ہیں وہاں کی جزیات نگاری ایسی ہے کہ سونامی کا پورا منظر ہمارے سامنے آجاتا ہے جس کے ذکر سے قاری کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں مصنف نے سونامی کے بارے میں بہت سی معلومات فراہم کرنے کی کوشش کی ہے اس کے علاوہ اس پر کئی رپورٹیں بھی پیش کی گئی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس ناول پر رپورٹنگ کا گمان ہونے لگتا ہے صفحہ ۲۸۹سے۴۲۴تک کے واقعات صحافتی ادب کا حصہ معلوم ہوتے ہیں جو ناول کی طوالت اور پلاٹ کے ڈھیلے پن کا سبب بنتے ہیں ناول میں بائبل کے طویل اقتباسات کا بھی جگہ جگہ استعمال کیا گیا ہے جو قصے کی جامعیت کو متاثر کرتے ہیں ۔جہاں تک طرز و اسلوب اور زبان و بیان کا تعلق ہے تو مشرف عالم ذوقی کا مخصوص انداز یہاں بھی اپنے جلوے بکھیرتا ہوا دکھائی دیتا ہے جس وجہ سے ان کی امتیازی حیثیت اور انفرادیت برقرار رہتی ہے ناول کا زبان و اسلوب اتنا دلکش ہے کہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اس ناول کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کے آغاز میں قرآن پاک کی ایک آیت استعمال کی گئی ہے جس کا اردو ترجمہ بھی دیا گیا ہے ساتھ ہی کہیں کہیں بنگلہ زبان کا بھی مع ترجمہ استعمال کیا گیا ہے اس کے علاوہ حسب معمول ہندی اور انگریزی کے الفاظ بھی پڑھنے کو ملتے ہیں محاوروں کا بر محل استعمال قاری کی دلچسپی کو قائم رکھتا ہے دیگر ناولوں کی طرح ذوقی کا یہ ناول بھی بیانیہ تکنیک پر منحصر ہے۔
(v) ’’ لے سانس بھی آہستہ‘‘
’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ذوقی کا مقبول ترین اور اہم ناول ہے یہ ناول ۲۰۱۱ء میں شائع ہوا۔ اس ناول کا عنوان میر تقی میرؔ کے مشہور شعر سے ماخوذ ہے۔
؎لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا
موضوع و فکر کے لحاظ سے ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایک غیرمعمولی اور بولڈ ناول ہے اس ناول کا موضوعٖٖٖFamily Incestہے اس میں فیملی انسیسٹ پر جنسی رشتوں کے ایسے گھناؤنے اور بھیانک واقعات پیش کئے گئے ہیں جنھیں اس سے پیشتر شاید ہی کسی فکشن نگار نے اتنی جرأ ت و دلیری سے پیش کیا ہو ۔’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ تہذیب و اخلاقیات کے انتشار کا نوحہ بیان کرتا ہے یہ ناول ہندوستانی مسلمانوں کی سائکی ،سماجی صورت حال اور معاشرتی کشمکش کا منظر نامہ بیان کرتا ہے ناول اخلاقیات اور با لخصوص انسانی جبلت اور جنسی اخلاقیات پر نشتر لگاتا ہے اور قاری کو بے شمار سوالات کے بھنور میں چھوڑ جاتا ہے ۔
’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ایک طویل ناول ہے جو ۴۸۰ صفحات پر مشتمل ہے یہ ناول چار حصوں پر مبنی ہے اس ناول کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ بنیادی موضوع کے حصار میں کئی واقعات ساتھ ساتھ چلتے نظر آتے ہیں ناول میں ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء سے لے کر ۲۰۱۱ء تک کے کئی اہم واقعات کو بڑی تفصیل سے اور خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے اس ناول میں تقسیم ہند کا المیہ ،تہذیبوں کا تصادم،جاگیردارانہ نظام کا زوال،توہم پرستی،اخلاقیات،وقت اور قدرت کا جبر ،انسانی رشتوں کا بکھراؤ،قدروں کی پامالی،انٹرنیٹ اور گلو بلائزیشن کے اثرات وغیرہ مو ضوعات کو بڑی باریکی سے غیر جانبدارانہ انداز میںپیش کرنے کی سعی کی گئی ہے اس ناول کو ذوقی نے بڑے بے باک انداز میں تحریر کیا ہے یہ ناول خیالی طور پر جہاں کئی دہائیوں پر محیط ہے وہاں اصلاً یہ آزادی کے بعد کا تاریخ نامہ ہے کہ ہم نے چھ سات دہائیوں میں کیا کھویا اور کیا پایا ۔ذوقی نے تخلیقی زبان کے سہارے جو تاریخ گوئی کی ہے اور عہد بہ عہد گذرنے والے واقعات کو جس انداز سے ناول کے فن میں پرویا ہے ان سب نے قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔
ذوقی زندگی کے حقائق پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ میں تہذیب ،اخلاق اور زندگی کے بارے میں فکر انگیز مسائل اٹھائے گئے ہیں ناول میں سماج ،نفسیات اور اخلاقیات،ماضی اور حال کی داستان سنائی دیتی ہے ۔
’’لے سانس بھی آہستہ‘‘کی کہانی نور محمد اور عبدا لرحمٰن کاردار نامی دو کرداروں کے ارد گرد گھومتی ہے جن کی پیدائش بر صغیر ہند کی برطانوی تسلط سے آزادی کے بعد ہوتی ہے جبکہ بر صغیر بٹوارے کے زخموں سے چور چور ہو چکا ہوتا ہے اور یہاں ہندوستان میں رہ گئے مسلمانوں کو کئی طرح کے مصائب اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اورپھر کئی برسوں کی کاوشوں کے بعد ملک سے جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور نوجوان نسل امیدوں اور آرزوؤں کے نئے محل تعمیر کرنے اور سنہرے سپنے بننے شروع کر دیتی ہے ناول کے بنیادی موضوع کو اجاگر کرنے کے لئے عشق و محبت کی معصوم داستان کا سہارا لیا گیا ہے جس میں عبدا لرحمٰن کاردار،نادرہ اور نور محمد شامل ہیں ۔نادرہ ،عبدا لرحمٰن کے ماموں سفیان کی اکلوتی بیٹی ہے اس کی والدہ کا انتقال ہو چکا ہے اور وہ اپنے والد کے ساتھ پاکستان سے ہندوستان ہمیشہ کے لئے لوٹ آئی ہے کاردار کی حویلی ہی میں رہتی ہے یہاں عبدا لرحمٰن اور اس کے درمیان محبت کا کھیل شروع ہو جاتا ہے ۔بلند حویلی کے مقابل ہی نور محمد کی کوٹھی ہے اس کی بھی والدہ کا انتقال ہو جاتا ہے یوں نادرہ کا نور محمد سے تعارف ہو جاتا ہے اور اس ہمدردی کو رحمٰن محبت سمجھ بیٹھتا ہے اور نادرہ سے دور ہو جاتا ہے لیکن اس کے سینے میں یہ محبت ہمیشہ باقی رہتی ہے نادرہ کی شادی نور محمد سے ہو جاتی ہے شادی کے ایک سال بعد نور محمد کے گھر میں ایک ایسی بچی پیدا ہوتی ہے جو ذہنی طور پر نہ صرف معذور ہے بلکہ اس کے احساسات تک مردہ ہیںالبتہ اس کی جسمانی نشو و نما معمول کے مطابق ہوتی ہے اس دوران نور محمد کی بیوی مر جاتی ہے اور اس بچی نگار کی نگہداشت کی ذمہ داری نور محمد کو اٹھانی پڑتی ہے اسے کھلانے،پلانے اور نہلانے کے علاوہ اپنے ساتھ سلانا بھی پڑتا ہے اور اس دوران وہ حادثہ یا سانحہ وقوع پذیر ہو تا ہے جو قاری کے رونگٹے کھڑے کردیتا ہے نگار بالغ ہو چکی ہے اور اس کی جنسی اشتہا ایک مرد کی متقاضی ہے آخر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ نور محمد کو اپنی ہی بیٹی کے جنسی اشتعال کو شانت کرنے کے لئے اس کے ساتھ جنسی رشتہ قائم کرنا پڑتا ہے نتیجہ کے طور پر وہ حاملہ ہو جاتی ہے نور محمد اپنی حویلی کو خیر باد کہہ کر اپنی بیٹی کے ساتھ ایک دور افتادہ گاؤں ولاس پور میں جا کر بس جاتا ہے وہاں نگار ایک بچی کو جنم دیتی ہے جس کا نام جینی رکھا جاتا ہے اس کے ایک سال بعد نگار مر جاتی ہے اور نور محمدجینی کے ساتھ ایک نئی زندگی شروع کرتا ہے ۔اپنے کلائمکس کو پہنچتے پہنچتے ناول اخلاقیات اور انسانی رشتوں پر سوال اٹھاتاہے کہ جینی نور محمد کی کون ہے بیٹی۔۔۔یا بیٹی کی بیٹی یعنی نواسی۔ہر چند یہ واقعہ پڑھتے ہوئے بے حد نا گوار اور پریشان کن معلوم ہوتاہے مگر ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ میں اس رشتے کی جس نفسیاتی مہارت کے ساتھ گرہ کشائی کی گئی ہے اس سے اندازہ ہوتاہے کہ مشرف عالم ذوقی کے قلم میں وہ پختگی ہے جو سخت سے سخت موضوع کو موم بنانے کی استعداد رکھتی ہے ۔
’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کی سب سے بڑی خوبی جزیات کا دلچسپ ہونا ہے اس کا پلاٹ کافی گٹھا ہوا ہے اور کہانی کی بساط بہت پہلے سے اور بڑی دور تک بچھائی گئی ہے ناول کہیں پر بھی بور نہیں کرتا ہے اور اس کی وجہ مجھے یہ لگتی ہے کہ پورا کا پورا ناول مصنف کے ذہن میں پہلے سے تیار ہے اور قلم کی باگ کو مصنف مضبوطی سے لے کر چلتا ہے دوسرے لفظوں میں اگر ہم یہ کہیں کہ قلم مصنف کی رہنمائی نہیں کرتا بلکہ مصنف قلم پر پوری طرح حاوی ہے اس لئے قلم کہانی کو اسی سمت لے چلتا ہے جس سمت مصنف لے جانا چاہتا ہے جو پیغام مصنف دینا چاہتا ہے اسی کے پیغامبر سارے کردار معلوم ہوتے ہیں اور مصنف سے بغاوت کرنے کی ہمت ذوقی کے اس ناول کے کسی کردار میں نہیں ۔کہانی کا کلائمکس پہلے سے طے شدہ ہے اور اس کا ارتقاء مرحلہ وار بھی پوری طرح مصنف کی گرفت میں ہے۔
’’لے سانس بھی آہستہ‘‘میں تہذیبوں کے تصادم کو بہت اچھے انداز میں پیش کیا گیا ہے ذوقی نے اپنے اس ناول کے لئے اتر پردیش کے ایک مقام ’بلند شہر‘کا انتخاب کیا ہے جہاں تہذیبوں نے آنکھیں بھی کھولیں ،پروان بھی چڑھیںاور نئی تہذیبوں سے ہم آہنگ ہونے کی کوششیں بھی کیں۔تہذیب ہر بارایک نیا بھیس بدل کر سامنے آتی ہے جب پرانی تہذیب منہدم ہوتی ہے تو نئی تہذیب پیدا ہوتی ہے اور معاشرہ کیسے اس کی گرفت میں آتا ہے پتہ بھی نہیں چلتا۔پرانی اور نئی نسل کا تصادم ،تہذیب کے تصادم کا روپ لے لیتا ہے جو لوگ پرانی تہذیب سے وابسطہ ہیں وہ نئی تہذیب سے سمجھوتا نہیں کرپاتے جس کے نتیجہ میں وہ ذہنی کشمکش میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔
نگار اگر ذہنی مرض میں مبتلاہے تو اس نفسیاتی بیماری کے پیچھے کون سے عناصر کار فرما ہیں؟دراصل اس کا تعلق بھی تہذیب کی قید و بند سے بہت گہرا ہے وہی اخلاقی بندشیں اور ان بندشوں میں گھٹتی زندگی ۔آج کی نسل ان اخلاقی بندشوں میں گھٹنے کی عادی نہیں ہے وہ ساری بندشیں توڑ دینا چاہتی ہے تو ایک وہ نسل جو خودکی مرضی پر اخلاقیات کو فوقیت دیتی تھی اور دوسری طرف وہ نسل جو اس کے نتیجے بغیر اُف کئے برداشت کرتی رہی ۔آخر عبدا لرحمٰن نے نادرہ سے شادی کیوں نہیں کی یا پھر نور محمد سے شادی کرتے وقت نادرہ نے یہ صاف صاف کیوں نہیں کہا کہ وہ عبدا لرحمٰن سے محبت کرتی ہے اور جب ان سب کے نتیجہ میں نگار پیدا ہوئی تو ایک باپ کی حیثیت سے نور محمد اپنی پوری ذمہ داری بغیر اُف کئے کیوں نبھاتا رہا۔ان سب سوالوں کے جواب کی کڑی تہذیب کی تبدیلی سے مل جاتی ہے ۔
پروفیسر نیلے اپنے دوست کاردار کو کسی ایسی دنیا کا انکشاف کرانا چاہتے ہیں جس کا ان کی تہذیب نے کبھی تصور تک نہیں کیا ہوگا ۔اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے مکمل ہونے تک ایسی دنیا پیدا ہو چکی ہے جسے شاید بچوں اور بچوں کے بچوں نے تو دیکھا ہو لیکن کاردار اور ان کی عمر کے لوگوں نے نہیں دیکھا اگر وہ اس دنیا کو دیکھیں تو صرف لرز سکتے ہیں مگر زمانے کے اس بھیانک سچ کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چل سکتے ۔پروفیسر نیلے عبدا لرحمٰن کاردار کو یہ احساس دلانا چاہتے ہیں کہ معاملہ سیکس سے رشتوں تک آگیا ہے یہاں ہزاروں فلمیں ہیں اور رشتوں کے مقدس دھاگے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر گئے ہیں ۔Googleکے اسکرین پر Family Incestلکھ کر پروفیسر نیلے ہزاروں خانے روشن کرتے ہیں اور اس روشنی میں جو کچھ نظر آتا ہے وہ آج کی مہذب اور ترقی یافتہ دنیا کا کڑوا سچ ہے:۔
’’باپ بیٹی میں سیکس۔ماں بیٹے میں سیکس۔خاندان کے ساتھ گروپ سیکس۔بھائی بہن میں سیکس۔سوتیلی بہن کے ساتھ۔ماں اور بیٹی کے ساتھ باپ کا دونوں کو Seduceکرنا۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،لے سانس بھی آہستہ۔ص۔۴۳۰)
ذوقی نے یہ کہانیاں گھڑی نہیں ہیں بلکہ اپنی فنکارانہ ہنر مندی سے تہذیب،ترقی اور روشن خیالی کے دعوے کو آیئنہ دکھایا ہے ۔ذوقی نے اس ناول کے ذریعے سماج کا ایسا گھناؤناچہرہ ہمیں دکھایا ہے جو اس سے قبل اردو کے کسی بھی ناول میں کبھی نظر نہیں آیا تھا ۔ناول کا دوسرا حصّہ انٹرنیٹ اور بدلتے ہوئے صارفی کلچر کو لے کر ہے یعنی ایک ایسی تہذیب ہمارے سامنے آتی ہے جہاں چھوٹے چھوٹے بچے بازار کا حصّہ بن چکے ہیں گھٹن ہے اور نئی نسل کے لئے باہر نکلنے کے سبھی دروازے بند ہوتے نظر آرہے ہیں ۔انٹرنیٹ کے ذریعے جو منفی اثرات آج کے بچوں پر مرتب ہو رہے ہیں اور وہ جس طرح اس کی گرفت میں آرہے ہیں آنے والے وقت میں کیا ہم انہیں اس سے بچا پائیںگے؟ایسے بہت سے سوالات ہیں جو قاری کے ذہن میں ابھرتے ہیں ایک اچھا قلم کار وہی ہوتا ہے جو قاری کے ذہن کو متفکر کر دے اور ذوقی کا یہ ناول قاری کو سوچنے اور غور و فکر کرنے پر مجبور کرتا ہے ۔
’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ میں تقسیم ہند کا المیہ بھی پیش کیا گیا ہے اس سے پہلے بھی کئی ناول منظر عام پر آچکے ہیں جن میں تقسیم کا المیہ اور آزادی کے بعد کے مسائل بیان کئے گئے ہیں لیکن ذوقی کا ناول اس وقت منظر عام پر آیا ہے جب اکیسویں صدی کی پہلی دہائی ختم ہوچکی ہے اور اس میں ۱۹۴۷ء سے لے کر ۲۰۱۱ء تک کے تمام تر اہم واقعات و سانحات کو بھر پور طریقے سے سمیٹا گیا ہے یہ ناول تقسیم کے نفسیاتی اثرات کاغمگین پورٹریٹ ہے نادرہ نور محمد سے شادی کرنے کے بعد ذہنی مرض میں مبتلا ہو جاتی ہے جس کی جڑیں برصغیر کی تقسیم ،فسادات،انسانی رشتوں کی تقسیم اور اس سے پیدا ہونے والی خلش میں پوشیدہ ہیں لیکن گھر کے افراد اور سماج ان امراض کو جناتوں ،بھوتوں اور آسیب زدگی سے جوڑ کر ان کا حل مو لویوں کے مشوروں میں تلاش کرتے ہیں یہ ایک بحران بھی رہا ہے کہ ہماری تہذیبی تاریخ میں نفسیاتی امراض کا حل مابعد الطبیعاتی یا مافوق الفطرت عناصر میں ڈھونڈاگیا ہے ذوقی نے اس صورتِ حال کو بے حد دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔
مشرف عالم ذوقی نے تمام کرداروں کی نفسیات کو بڑے موثر و بے باک انداز میں پیش کیا ہے تقسیم سے متعلق چند مکالمے ملاحظہ ہوں:
’’پرانی یادیں بھولی نہیں جاتیں ۔نئے مسائل بہت دکھ دیتے ہیں ۔ٹھہر ٹھہر کر پرانی یادیں چوٹ پہنچاتی رہیں گی۔‘‘( مشرف عالم ذوقی،لے سانس بھی آہستہ۔ص۔۴۳)
’’نوج،نہ تقسیم ہوتی نہ اپنے بچھڑتے۔پاگلوں نے ملک کا بٹوارا کردیا۔آدھے ادھر تو آدھے ادھر۔یہ تقسیم ہے یارشتے کی دیوار کھڑی کرنا۔‘‘(ایضاً۔ص۔۱۲۸)
ملک آزاد ہوا اور پھر تقسیم بھی ہو گیا۔تقسیم نے وہ زخم دیاجو آج تک نہ بھر سکا ہندوستانی مسلمان اپنے ہی وطن میں بے وطن کہلائے جا رہے ہیں ان کی حب الوطنی پر آج بھی انگشت نمائی کی جاتی ہے اس کرب کو ناول کے کردار’ دادا حضرت‘ کی زبانی اس طرح گرفت میں لایا گیا ہے:
’’تمہیں بار بار اپنی صفائی دینی ہو گی۔۔۔۔۔اور کتنی عجیب بات ہے ۔اپنے ملک کو اپنا ملک کہنے کے لئے بھی تم صفائی دوگے۔۔۔۔۔اور اسی صفائی دینے میں تمہاری عمر نکل جائے گی‘‘( مشرف عالم ذوقی،لے سانس بھی آہستہ۔ص۔۴۵)
یہ پیراگراف آج بھی اپنی معنویت رکھتا ہے ۱۹۴۷ء سے آج تک مسلمان نہ تقسیم کے طنز سے ابھر سکے اور نہ ہی ان کی وفاداریاں شکوک سے بالاتر ہو سکیں ۔
’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ میں کرداروں کی تعدادبھی اچھی خاصی ہے ذوقی نے ہر کردار کو بڑے ہی فنکارانہ طریقے سے پیش کیا ہے ۔بہت سے کرداروں کے باوجود ہر ایک کردار کو دوسروں سے الگ رکھا ہے ۔عبدا لرحمٰن اس ناول کا مرکزی کردار ہے اس کے علاوہ نور محمد،نادرہ اور نگار کے کردار بھی اہمیت کے حامل ہیں ناول کے تمام کردار حقیقی رنگ میں سر گرم نظر آتے ہیں اس ناول کا سب سے متحرک کردار نور محمد ہے ۔نور محمد ایک ایسا کردار ہے جسے زندگی کے آخری ایام تک اپنی صلیب اٹھانی پڑتی ہے پہلے وہ اپنی ماں کی دشوار گذار اور دل دہلا دینے والی زندگی کا سامنا کرتا ہے پھر ان کی وفات کو جھیلتا ہے بعد میں نادرہ سے محبت کر بیٹھتا ہے لیکن لذت آشنائی و محبت زیادہ دن اسے راس نہیں آتی اور نادرہ کی کیفیت خراب ہونا شروع ہوجاتی ہے بالآخر وہ اپنی معذور بچی نگار کو نور محمد کے لئے چھوڑ کر انتقال کر جاتی ہے اسی پر بس نہیں ہوتا بلکہ نور محمد اپنی معذور اور عقل و خرد سے عاری بیٹی نگار کو نہلاتا دھلاتا ۔اس کے گندے کپڑے صاف کرتا ہے ۔پیشاب پا خانہ کراتا ہے نور محمد کسی بھی قیمت پر نگار کو کھونا نہیں چاہتا تھا اس نے نگار کا ہر طرح سے علاج کرانے کی کوشش کی مگر تمام جگہوں سے مایوسیاں ہی ملیں لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری وہ سارے زمانے ،سماج،خاندان کو فراموش کر کے اپنے پیار کی امانت نگار کی دیکھ ریکھ میں ہمہ وقت مشغول رہتا ہے نور محمد ایک Abnormalبیٹی کے لئے اپنی زندگی وقف کر دیتا ہے یہاں تک کہ وہ پورے معاشرے سے کٹ جاتا ہے اور ایک دن وہ اپنی محبت کو زندہ رکھنے کے لئے وہ سب کچھ کر ڈالتا ہے جس کی اجازت نہ مذہب نے دی ،نہ انسانی معاشرے نے ۔نور محمد کا یہ مکالمہ قاری کے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے :
’’اس نے لمبی سانس بھری اور دھماکہ کردیا۔میں نے طلب پوری کردی۔۔۔۔۔کیا۔۔؟اورکوئی راستہ نہیںتھا۔۔۔وہ رو رہا تھا۔Now She is Pregnant ‘‘ ( مشرف عالم ذوقی،لے سانس بھی آہستہ۔ص۔۴۴۶)
یہ نگارکی زندگی کو بچانے کے لئے کیا گیا گناہ تھا جس سے گزرنے کے بعد نور محمدشرمندہ رہتا ہے نگار جب حاملہ ہوجاتی ہے تو نور محمد اپنی کوٹھی کو فروخت کر کے ایک گاؤں ولاس پور چلا جاتا ہے اور نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کرتا ہے جینی کو پیدا کرنے کے بعد نگار کی موت واقع ہو جاتی ہے اب نور محمد کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر نگار اس کی بیٹی ہے تو جینی کون ہے اوراگر نادرہ اس کی بیوی تھی تو نگار کون ہے؟بہرِحال زندگی گزارنے اور نادرہ سے کئے گئے وعدے کو وفا کرنے کے لئے وہ جینی کو بھی زندہ رکھتا ہے اور ایک باپ کی طرح اس کی تربیت میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا ۔یہ معمولی بات نہیں کہ تمام مسائل سے گزرتے ہوئے ذوقی کا یہ کردار اپنے تمام فرائض بخوبی انجام دیتا ہے ۔
نور محمد کے کردار کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ شروع سے ہی محبت کا بھوکا ہے اس کے یہاں محبت نہ تو مذہب کی روح ہے اور نہ جنسی تسکین کا ذریعہ اور نہ کسی اور رنگ میں ۔وہ تو محبت کو بس محبت سمجھتا ہے وہ محبت کی دیوانگی میں جائز اور ناجائز کے ہر عمل سے باہر نکل چکا تھا۔اس کا مذہب،اس کا عقیدہ صرف محبت تھا وہ اپنے آپ سے Committedتھا کہ میں اپنی محبت کو ہر حال میں نبھاؤں گا جو بھی میری محبت کو منظور ہوگا وہ کروں گااور وہ اپنے وعدے پر کھرا اترتا ہے ۔نور محمدایک ایسا کردار ہے جس کا شمار اردو فکشن کے نمائندہ کرداروں میں کیا جا سکتا ہے ذوقی نے نور محمد کے کردار کو تراشنے میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لایا ہے یہی وہ کردار ہے جو ذوقی کے بعد بھی اردو فکشن کو ان کی یاد دلاتا رہے گا۔
منظر نگاری کے لحاظ سے ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ایک عمدہ ناول ہے شہر اور دیہات کے خوبصورت مناظر ناول میں دلچسپی پیدا کرتے ہیں ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کے مکالمے موزوں اور فطری نظر آتے ہیں ہر کردار اپنی زبان اور عمل سے مکمل ہے کوئی بھی سچویشن ہو خواہ کتنے ہی کردار یکجا ہوں لیکن مکالموں میں جھول نظر نہیں آتا ۔ذوقی نے ہر کردار کی زبان سے موزوں ،واضح ،فطری اور دلچسپ مکالمے ادا کروا کر ناول کو خوبصورت اور حقیقی بنایا ہے اس میں اردو،انگریزی اور ہندی تینوں زبانوں کا استعمال کیاگیا ہے اس کے علاوہ ناول کے آخر میں فارسی کا ایک جملہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مصنف کو ان زبانوں میں مہارت حاصل ہے ناول میں انگریزی مکالموں کا کثرت سے استعمال کیا گیا ہے جس کی وجہ سے کچھ پیچیدگی بھی پیدا ہو گئی ہے اور انگریزی نہ جاننے والے قاری کو ناول پڑھتے وقت مشکل پیش آسکتی ہے ناول میں محاوروں کا بر محل استعمال ملتا ہے اس ناول کو مقبول بنانے میں ذوقی کے داستانوی اسلوب،صاف،سادہ اور دلکش نثر اور اسلوب بیان کی پاکیزگی اور سادگی کو بڑا دخل ہے تکنیک کے اعتبار سے فلیش بیک اور فلیش فارورڈکا استعمال اس ناول کی کامیابی میں بڑا اہم رول ادا کرتا ہے ذوقی نے ناول کو بیانیہ انداز میں پیش کیا ہے مگر شعور کی رو اور خود کلامی جیسی تکنیک کا بھی استعمال کیا ہے۔
’’لے سانس بھی آہستہ‘‘میں اخلاقیات کا المیہ پیش کیا گیا ہے اس ناول کے ذریعے ذوقی نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ آج کے اس مشینی دور میں رشتوں کی اہمیت اور اخلاق کا معیار گرتا جا رہا ہے نور محمد نے اپنی بیٹی کے ساتھ جنسی رشتہ قائم کرکے جو گناہ کیا اس کی اجازت نہ تو کسی مذہب میں ہے اور نہ ہی انسانی معاشرہ اس درندگی کو قبول کرتا ہے نور محمد مذہب اور اخلاقیات کی مثبت قدروں سے بخوبی واقف تھا وہ یہ بھی جانتا تھا کہ وہ جو کر رہا ہے وہ شریعت کے خلاف ہے مگر وہ قدرت کے جبر کے سامنے لاچار و مجبور ہوجاتاہے اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو شاید اس کی معذور بیٹی بائیس سال کی طویل زندگی نہیں جی پاتی یا پھر اس کی حالت زیادہ بگڑ جاتی۔یہ بھی ممکن تھا کہ اگر نور محمد یہ رشتہ قائم نہ کرتا تو حالات سے بے بس ہوکر وہ خودکشی کرنے کی کوشش بھی کرتا جو اپنے آپ میں ایک بڑا گناہ ہے ذوقی نے تو ایک مجبور باپ کا المیہ پیش کیا ہے ورنہ یہ دنیا تو اتنی غلیظ بھی ہے کہ ایک باپ اپنی ہی بیٹی کو اپنی ہوس کا شکار بناتے وقت ایک دفعہ بھی یہ نہیں سوچتا کہ وہ یہ کیا کر رہا ہے آج کی مہذب ترین دنیا میں ایسی ہزاروں لاکھوں مثالیں آسانی سے دیکھی جاسکتی ہیں گو کہ اس کا قصوروار مغربی ممالک کو زیادہ ٹھہرایا جاتاہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بر صغیر اور مشرقی ممالک میں بھی یہ وبا تیزی سے پھیل رہی ہے یہ ایک سنگین اور قابل مذمت جرم ہے جس کی جڑوں کو سماج سے ختم کرنا اور اس کے خلاف آواز بلندکرنا وقت کا اہم تقاضا ہے یہ ایک نری سچائی ہے جس پر بات کرنے کے لئے بھی بہت ہمت چاہئے اور ایسے میں اس طرح کے موضوع پر ناول لکھنا تو دل گردے کی بات ہے ذوقی کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کے ذریعے اس کڑوے سچ کو قارئین کے سامنے پیش کیا۔’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ نئی تہذیب کی خود شکستگی کا ایک الارم ہے جو قبل از وقت بج اٹھا ہے ذوقی کا یہ ناول اردو میں ایک منفرد تجربہ ہے اور ان سے پیشتر اس موضوع کو اس انداز میں کسی نے چھونے کی کوشش نہیں کی ۔اردو ناولوں کی قطار میں یہ ناول ایک ٹرننگ پوائنٹ کی حیثیت رکھتا ہے یہ ناول نئی صدی کے دروازے پر ایک ایسی دستک ہے جس کی گونج گزرتے وقت کے ساتھ کم ہونے کے بجائے بڑھتی جائے گی اور یہی اس ناول کی سب سے بڑی خوبی ہے ۔
(vi)’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘
’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘ بھی ذوقی کا ایک شاہکار ناول ہے یہ ناول ۲۰۱۳ء میں شائع ہوا۔یہ ایک طویل ناول ہے جو ۷۲۰صفحات پر مشتمل ہے یہ ناول ہندوستانی مسلمانوں کی آپ بیتی ہے اس میں آزادی کے ۶۷ برسوں کی درد ناک داستان پوشیدہ ہے یہ ناول مسلمانوں کے کرب کو بیان کرتا ہے ذوقی صاحب مسلمانوں کو لے کر کافی فکرمند نظر آتے ہیں وہ پہلے بھی مسلمانوں کے مسائل پر اپنی تخلیقات قارئین کے حوالے کرتے رہے ہیں لیکن اس ناول میں ان کا طرز اظہار با لکل مختلف ہے۔
’’آتش رفتہ کا سراغ ‘‘ کے ذریعہ مصنف نے اقلیت کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں جن کا جواب نہ تو سیاستدانوں کے پاس ہے اور نہ ہی سوشل ریفارمرز کے پاس یہاں تک کہ مذہب کے ٹھیکیدار کہلانے والے بھی چپی اختیار کرتے نظر آتے ہیں ۔اس ناول کے ذریعہ برسر اقتدار طبقے کے ظلم و تشدد،کچلے ہوئے مسلمانوں کی خوفناک تصویریں ،مذہبی پیشواؤں کی گھناؤنی حرکتیں،سیاسی شخصیات کی ہٹ دھرمی اور صحافتی وقانونی اداروں کے کھوکھلے پن کو نہایت ہی موثر انداز میں پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے یہی نہیں ناول میں مسلمانوں کو جبراً آتنک وادی بنانے کی سازش ،پولیس کی اصلیت،فرقہ وارانہ فسادات،گنگا جمنی تہذیب کے بکھراؤ اور دو قوموں کے اعتماد و بھروسے کی پامالی کو بھی پیش کیا گیا ہے ناول میں پورے ہندوستان کی مجموعی فضا سانس لیتی ہوئی نظر آتی ہے جہاں پورا ملک فرقہ پرستی کی آگ کی لپیٹ میں ہے۔
ذوقی کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ اکثر اپنی تخلیقات کے موضوعات اردو کے مشہور و معروف شعراء کے اشعار سے مستعار لیتے ہیں اس ناول کا موضوع اقبالؔ کے شعر سے ماخوذ ہے۔
؎ میں کہ،مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ
میری تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو
’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘ایک مخصوص طبقے اور قوم کے مسائل پر لکھا ہوا ایک درد ناک ناول ہے ایسی تحریر کسی اور ملک یا پڑوسی ملک میں لکھ پانا شاید ممکن نہیں ہے عمومی طور پر ایسی تحریروں پر حکومتی پابندیاں عائد ہونے کے خطرات زیادہ رہتے ہیں بیرونی ممالک میں اس طرح کی کتابیں لکھنے کی اجازت نہیں ہے لیکن ہندوستانی سر زمین میں ایسا ناول لکھنے کی آزادی حاصل ہے اس کا اعتراف ناول کے بیک پیج پر پاکستانی ادیب یونس خاں نے اس طرح کیا ہے۔
’’میں نے ابھی ابھی اس ناول کو ختم کیا ہے ۔اور ابھی بھی اس کے سحر میں گم ہوں ۔کہنا مشکل ہے کہ اس ناول کے سحر سے کب باہر نکل سکوں گا۔ا س ناول کو لکھنا آسان نہیں تھا۔پاکستان میں ہم ایسے ناولوں کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔مجھے نہیں خبر کہ آپ کو اس کے لکھنے کا حوصلہ کہاں سے ملا۔‘‘یونس خاں(پاکستان)
پاکستان میں آزادی اظہار کی بندشیں ہیں مگر ہندوستان کی صورت حال مختلف ہے یہاں آج بھی جمہوریت کے نام لیوا زندہ ہیں اس ملک کا جمہوری نظام واقعی سلام کا مستحق ہے یہاں مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں انھیں دہشت گرد کہا جاتا ہے سیاسی پارٹیاں ان کا استحصال کرتی ہیں مگر اس کے باوجود انھیں بولنے اور اپنی آواز اٹھانے کی مکمل آزادی ہے جس کا ثبوت ’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ذوقی نے وسیع کینوس پر مسلمانوں کی آپ بیتی لکھ کر ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے بھگوا آتنک واد کے خلاف شاید یہ اردو کا پہلا ناول ہے جس میں تفصیل سے مسلمانوں کو شکار بنائے جانے کی واردات کو زیر بحث لایا گیا ہے اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی جو صورت حال ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ایسے میں ایک بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے مسائل کو اٹھانا کوئی آسان کام نہیں ہے ذوقی نے جس حوصلہ کا اظہار اس ناول میں کیا ہے وہ حوصلہ اور جذبہ آج کے ادیبوں میں بہت کم نظر آتا ہے۔
’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘تین حصوں پر مشتمل ہے ناول کے آغاز میں ذوقی نے ناول سے متعلق اپنے تاثرات بھی پیش کئے ہیں ۔ارشد پاشا ایک شادی شدہ آدمی ہے وہ کاشی میں رہائش پذیر ہے اسے روزگار کی تلاش ہے اس کا دوست تھاپڑ اس کی مدد کرتا ہے اور اس کو دہلی میں ایک اردو اخبار میں بطور صحافی ملازمت دلواتا ہے ساتھ ہی ارشد پاشا کو تھاپڑ کی سفارش سے دہلی میں بٹلہ ہاؤس کے دلکشا انکلیو میں ایک فلیٹ بھی کرائے پر مل جاتا ہے اور وہ اپنی بیوی رباب اور بیٹے اسامہ کو بھی اپنے ساتھ دہلی لے آتا ہے اور ایک نئے سرے سے اپنی زندگی کی شروعات کرتا ہے وہ زیادہ مذہبی نہیں ہے اور نہ ہی مذہبی کاموں میں حصہ لیتا ہے کبھی کبھار عید یا جمعہ کی نماز پڑھ لیتا ہے وہ مسلمانوں کے ہجوم یا مذہبی جلوسوں کو پسند نہیں کرتا۔یہ ۲۰۰۸ء کی بات ہے ملک کی فضا خراب ہے ارشد پاشا کا بیٹا اسامہ پاشا ۱۶ سال کا ہو چکا ہے اور اس کے چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی اگنا شروع ہوگئی ہے ارشد پاشا اپنے جوان ہوتے بیٹے کو دیکھ کر ڈرنے لگا ہے کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ آئے دن ملک میں دہشت گردانہ واقعات ہو رہے ہیں اور مسلمان لڑکوں کو پھنسایا جا رہا ہے جب بھی کوئی دھماکہ یا فرضی انکاؤنٹر ہوتا ہے تو عام طور پر پولیس جن نوجوانوں کو حراست میں لیتی ہے ان کی عمر پندرہ سے پچیس سال کی ہوتی ہے ۔اسامہ پانچ وقت کی نماز مسجد میں ادا کرتا ہے وہ مکمل طور پر مذہبی رنگ میں رنگ جاتا ہے جبکہ اس کے باپ کو یہ سب پسند نہیں۔وہ اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ وہ اسامہ کو روکے۔ایک دن رات کو اسامہ عشاء کی نماز پڑھنے مسجد جاتا ہے اور دس بجے تک گھر نہیں لوٹتا۔اس کے والدین پریشان ہوجاتے ہیں اچانک دروازے پر گھنٹی بجتی ہے اور رباب جب دروازہ کھولتی ہے تو سامنے سہما ہوا اسامہ کھڑا تھا وہ بہت ڈرا ہوا تھا پوچھنے پر وہ بتاتا ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد وہ اپنے دوستوں راشد،منیر اور علوی کے ساتھ چہل قدمی کے لئے نکلا۔
’’پلیا کے پاس دو پولیس والے تھے ۔ہم چاروں ہنستے ہوئے آگے بڑھے تو پیچھے سے آواز سنائی پڑی۔آتنک وادی۔یہ چوکی پر بیٹھا ہوا ایک پولیس والا تھا ،جو ہماری طرف دیکھ کر ہنس رہا تھا۔۔۔۔۔۔اسامہ چیخا تھا ۔مجھے گھٹن ہوتی ہے ایسے ماحول سے ۔۔۔۔۔۔۔۔راشد پولیس والے سے الجھ گیا ۔ہاں ہم آتنک وادی ہیں ۔کیا کر لو گے۔۔۔۔۔۔پھر کیا ہوا۔رباب کے خوفزدہ چہرے پر پسینے کی بوندیں جھل مل کر رہی تھیں ۔راشد اور پولیس والے میں ہاتھا پائی ہو گئی۔کافی لوگ جمع ہو گئے۔پولیس والے نے راشد کو کافی مارا پیٹا۔کسی طرح ہم اسے چھڑانے میں کامیاب ہوئے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،آتش رفتہ کا سراغ،ص۔۳۲۔۳۳)
اسامہ کو ایک بڑا صدمہ لگا تھا وہ خوف میں مبتلا تھا اسے اپنے نام سے چڑھ ہونے لگی تھی اسکول میں بچے اس کا مذاق اڑاتے تھے اس کے ساتھ پڑھنے والے بچے اس کا نام لے کر پاگل کر دینے والے سوال پوچھتے تھے۔
’’ورلڈ ٹریڈ ٹاور توڑنے کا خیال کیسے آیا؟جارج بش تیرا دوست ہے یا دشمن؟تیرا اے کے ۴۷ کہاں ہے؟ضرور اسکولی بیگ میں چھپا کر رکھا ہوگا۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،آتش رفتہ کا سراغ،ص۔۳۵)
ارشد پاشا اور رباب بہت ڈر گئے تھے رات کے ٹھیک گیارہ بجے ارشد کا دوست اجے سنگھ تھاپڑ اس کے گھر آتا ہے حالات معلوم کرنے کے بعد وہ پولیس اور میڈیا کو برا بھلا کہتا ہے اور ان کے ساتھ اپنی ہمدردی ظاہر کرتا ہے اور راشد کی حمایت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس نے با لکل صحیح کیا۔پولیس والوں کو ایک معصوم بچے کو دہشت گرد کہنے کا کوئی حق نہیں ہے وہ نوجوانوں کو بھڑکا کر یہاں کی فضا کو خراب کرنا چاہتے ہیں ساڑھے گیارہ بجے محلے کے چند لوگ بھی ارشد کے گھر پہنچ جاتے ہیں ان میں راشد کے ابا بھی تھے یہ لوگ عشاء کے بعد ہونے والی واردات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہیںاور اوکھلہ،جامعہ،ذاکر نگر اور بٹلہ ہاؤس جیسی جگہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔امام صاحب اس سنجیدہ معاملے پر ارشد پاشا کو صلاح و مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس چھوٹی سی واردات میں آپ کا بیٹا بھی شامل تھا اور اگر پولیس والے کوئی خوفناک کارروائی کرتے ہیں تو اسامہ کو بھی آنچ آسکتی ہے اس لئے کچھ دنوں کے لئے اسے کہیں بھیج دو ۔اس کے بعد وہ لوگ چلے گئے۔تھوڑی دیر تک تھاپڑ بھی ارشد کو دلاسہ دیتا رہا پھر وہ بھی چلا جاتا ہے اس دوران اسامہ پاشا نے اپنا کمرہ بند کر لیا اس کے والدین کمرہ کھولنے کے لئے اسرار کرتے رہے مگر وہ رات بھر باہر نہیں نکلا اور عجیب عجیب خیالات اس کو پریشان کرتے رہے۔راشد اور رباب کے لئے یہ رات قیامت سے کم نہیں تھی وہ گھبرا گئے تھے کہ کہیں اسامہ کوئی غلط قدم نہ اٹھا لے۔پوری رات وہ بے چینی میں ٹہلتے رہے اور آنے والے طوفان سے ڈرتے رہے ۔اپنے معصوم بچے کی سلامتی کے لئے دعائیں کرتے رہے وہ جانتے تھے کہ ان کا بچہ بے قصور ہے مگر اس کے باوجود وہ اندر تک خوف سے لرز گئے تھے۔
’’آخر خوف کی مورت بنے کیوں بیٹھے ہیں ہم۔؟کیا گناہ ہوا ہے ہم سے؟کیا رات کو عشاء کی نماز کے بعد ٹہلنا جرم ہے؟اگر جرم ہے تو میرے بیٹے سے بس ایک یہی گناہ سرزد ہوا ہے۔۔۔۔رباب میری آنکھوں میں جھانک رہی تھی۔شاید میں ڈر گئی ہوں۔ڈر کی کوئی ڈور الجھ گئی ہے مجھ سے ۔۔۔کیا صرف اس لئے ڈروں کہ میں ایک جوان ہوتے بیٹے کی ماں ہوں ،اور میرا بیٹا مسلمان ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،آتش رفتہ کا سراغ،ص۔۶۵)
اس دوران اسامہ نے اپنے تینوں دوستوں سے فون پر بات کی وہ بھی گھبرائے ہوئے تھے یہ بات اسامہ بھی اچھی طرح جان گیا تھا کہ ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ مسلمان ہیںدراصل اسامہ کا بچپن دنگے اور فساد کے ماحول میں گزرا وہ خوف اور دہشت کے ملے جلے رنگوں کو دیکھتے ہوئے بڑا ہوا۔چاروں طرف نفرت کے انگارے جلتے دیکھ کر اسے گھن آتی ہے وہ کسی پرندے کی طرح اڑنا چاہتا ہے مگر جیسے اس کے پر ہی کاٹ دیے گئے ہوں ۔اس حادثے نے تو اسامہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا وہ اندر ہی اندر خوف محسوس کرنے لگا ۔جیل کی سلاخوں سے پھانسی کے پھندے تک سب کچھ اس کی نظروں کے سامنے آجاتا ہے وہ اس دلدل سے باہر نکلنا چاہتا ہے۔
’’وہ کچھ سوچ رہا ہے۔۔۔۔اس سسٹم میں وہ زیادہ دن تک خود کو قید نہیں دیکھ سکتا۔پھر…؟وہ اس سسٹم کو توڑ دے گا۔یا اس سسٹم سے باہر نکل جائے گا۔۔۔۔لیکن وہ اس سسٹم سے نکلے گا کیسے؟گھر چھوڑ دے گا ۔ممی اور پاپا۔؟کیا پولیس اسے تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرے گی؟اور اگر خدانخواستہ وہ پکڑ لیا جاتا ہے تو۔؟‘‘(مشرف عالم ذوقی،آتش رفتہ کا سراغ،ص۔۸۹)
یہ وہی وقت تھا جب مالیگاؤں دھماکے کو لے کر نئی خبریں آچکی تھیں۔اسلامی آتنک واد کی خبریں دینے والے چینلس کو پہلی بار ہندو آتنک واد کے ثبوت ملے تھے اور یہ ثبوت اتنے پختہ تھے کہ عالمی نظام کی جڑیں ہل گئی تھیں ۔سادھوی پرگیہ اور کرنل روہت کی گرفتاری کے بعد اب اس آتنک واد کے تار بڑے بڑے سابق فوجی افسر اور آر۔ایس۔ایس سے جڑنے لگے تھے۔سنگھ کا خوفناک چہرہ پہلی بار سامنے آیا تھا ۔یہاں سے کہانی مسلم نوجوانوں کے مستقبل کو لے کر حالات کی ایک ایسی تنگ و تاریک سرنگ سے گزرتی ہے جہاں صرف اندھیرا نظر آتا ہے ایک چھوٹے سے حادثے نے بٹلہ ہاؤس میں رہنے والے لوگوں کے چین و سکون کو منتشر کردیا تھا یکے بعد دیگرے ناول میں کئی کردار سامنے آتے ہیں ان میں ایک کردار پولیس انسپکٹر ورما کا ہے جو پلیا پولیس تھانے کا انچارج ہے بٹلہ ہاؤس اور آس پاس کے علاقے پر ایک مدت سے اس کی نظر ہے ورما کو دہلی لانے والے ریٹائرڈ پولیس کمشنر ابھے کمار دوبے ہیں جو سنگھ کے پرانے آدمی ہیں۔انسپکٹر ورما اس واقعے کی خبر دوبے کو دیتا ہے دوبے اس رات کے حادثے کی آگ کو مزید بڑھکانے کے لئے ایک اسٹریٹجی تیار کرتا ہے وہ روی کمار ورما کو با ضابطہ ہدایات دیتا ہے اور اس طرح حادثے کی رات کے ٹھیک تیسرے دن بٹلہ ہاؤس اور آس پاس کے علاقے اچھی خاصی پولیس چھاؤنی میں تبدیل ہو جاتے ہیں چاروں طرف خوف اور دہشت کا ماحول تھا نوجوان لڑکے اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلے،میڈیا کو بھی معاملے کے سنگین ہونے کی خبر مل گئی تھی ایک گھنٹے کے ہنگامی واردات کے بعد پولیس نے اس علاقے کے کچھ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کر لیا تھا کیمرے کے فلیش چمک رہے تھے الگ الگ نیوز چینلس کے اینکر بریکنگ نیوز کے لئے پورے معاملے کو زیادہ سے زیادہ سنسنی خیز بنا کر پیش کر رہے تھے میڈیا ایک بات بار بار اچھال رہی تھی کہ سیمی اور انڈین مجاہدین جیسی دہشت گرد تنظیمیں بھولے بھالے مسلم نوجوانوں کو اپنا شکار بنا رہی ہے۔ان سارے معاملوں میں انسپکٹر ورما کا نام سرخیوں میں آگیا تھا اگلے دن صبح علوی کو اس کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا اسی دوران بٹلہ ہاؤس میں ایک انکاؤنٹر ہوتا ہے اس انکاؤنٹر میں پولیس انسپکٹر ورما کو گولی لگتی ہے اور وہ دم توڑ دیتا ہے راشد اور منیر کو مار کر انھیں دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے پولیس اس بات کا بھی اشارہ کرتی ہے کہ دو ملزم فرار ہیں اس انکاؤنٹر سے اسامہ بہت ڈر گیا تھا اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور کمرے میں بند ہو گیا ۔پولیس اور میڈیا نے اس سانحہ کو فرضی انکاؤنٹر کا نام دے دیا اور انسپکٹر ورما کو شہید کا درجہ دیا گیا۔حالات بہت بگڑ جاتے ہیں اس لئے اسامہ کے ماں باپ کچھ دنوں کے لئے اسے تھاپڑ کے گھر بھیج دیتے ہیں چند دنوں کے بعد اسامہ گھر واپس آجاتا ہے تو ارشد اور رباب کی پریشانیاں اور بڑھ جاتی ہیں پھر ایک دن اچانک اسامہ گھر چھوڑ کر چلا جاتا ہے وہ اپنے کمرے میں ایک کاغذ کا ٹکڑا رکھ دیتا ہے جس میں اس نے لکھا ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے سسٹم میں نہیں رہ سکتا جہاں اسے کمزور بن کر جینا پڑے اسامہ کے اس طرح گھر چھوڑ کر چلے جانے سے اس کے ماں باپ کو ایک گہرا صدمہ لگتا ہے وہ اس کی گمشدگی کی رپورٹ اس لئے درج نہیں کرواتے کہ پولیس اسے گرفتار کر کے جیل میں نہ ڈال دے اور اسے اذیت نہ پہنچائے۔وہ بے چین رہنے لگتے ہیں مگر انھیں اس کے لوٹنے کی امید بھی ہے جب ۲۶نومبر ۲۰۰۸ء کا انکاؤنٹر ٹی وی اسکرین پر دکھایا جاتا ہے اور نوجوان آتنک وادیوں کی تصویریں فلیش کی جاتی ہیں تو رباب ان لڑکوں کو غور سے دیکھتی ہے کہ کہیں اس کا اسامہ بھی ان میں شامل تو نہیں ۔ملک میں کہیں بھی کوئی ایسا حادثہ ہوتا تو وہ بہت ڈر جاتی ۔اسامہ کی گمشدگی کے تین مہینے بعد ارشد پاشا پولیس میں رپورٹ درج کرانے جاتا ہے مگر پولیس انسپکٹر رپورٹ درج کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ارشد کے دوست تھاپڑ کو یہ جان کر برا بہت لگا اس لئے وہ ایک نیشنل ڈیلی اخبار میں اسامہ کو لے کر ایک رپورٹ شائع کرواتا ہے رپورٹ میں ۱۶سال کے اسامہ اور اس کے مستقبل کو لے کر اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا اس رپورٹ کے بعد راجیہ سبھا میں ہلچل مچ جاتی ہے اردو اخباروں کے علاوہ ہندی اور انگریزی کے اخباروں نے بھی مسلم بچوں کی گمشدگی کا معاملہ اچھالا اور اب یہ معاملہ میڈیا تک پہنچ گیا تھا شام کو ارشد پاشا کو ایک بڑے نیشنل چینل سے فون آتا ہے وہ ارشد اور رباب کو اپنے اسٹوڈیو میں بلاتے ہیں اور ان کا پروگرام لائیو ٹیلی کاسٹ کیا جاتا ہے ٹی وی اسکرین پر اسامہ کی تصویر فلیش کی جاتی ہے اس کے دوسرے دن شام کو ایک آدمی ارشد کے گھر آتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے شملہ مال روڈ میں اسامہ کو دیکھا ہے ارشد تھاپڑ کو لے کر شملہ کے لئے روانہ ہوتا ہے وہاں وہ اسے بہت تلاش کرتے ہیں ایک آدمی نے بتایا کہ وہ اس کے ساتھ کام کرتا تھا مگر پچھلے دو دنوں سے وہ نظر نہیں آیا لہٰذا نا امیدی کے عالم میں وہ گھر واپس لوٹتے ہیں۔
اس درمیان رباب خود کو مصروف رکھنے کے لئے موگی آشرم جوائن کر لیتی ہے جہاں بے سہارہ لڑکیوں کو پڑھایا جاتا ہے آشرم میں رباب کی ملاقات ایک معصوم لڑکی شمیمہ سے ہوتی ہے وہ اسے بے حد پیار کرتی ہے اور اسے اپنے گھر لانا چاہتی ہے۔ پولیس نے اسامہ کو تلاش کرنے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی۔اس درمیان کئی ایسے موقعے آئے جب اسامہ کے بارے میں پتہ چلا ۔کسی نے اسے بھوپال میں دیکھا پھر دوسری بار وہ رائے پور چھتیس گڑھ میں دیکھا گیا لیکن نہ وہ بھوپال میں ملا نہ چھتیس گڑھ میں۔اسے دیکھے جانے سے یہ خوشی ضرور ہوتی کہ وہ زندہ ہے مگر دوسرے ہی لمحے یہ خوشی نا امیدی میں تبدیل ہو جاتی۔
ادھر پولیس نے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے سلسلے میں ابے کمار دوبے کو گرفتار کیا تھا اس کے دفتر سے خفیہ کاغذات بھی برآمد ہوئے تھے جن میں سنگھ کے کارناموں کی تفصیل لکھی ہوئی تھی دوبے کو ۱۴دن کے ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا مگر اب تک اس نے اپنا منہ بند رکھا تھا پولیس انسپکٹر دشینت ارشد پاشا کے گھر آکر اسے دھمکی دیتا ہے کہ اسے علوی کے خلاف گواہی دینی ہوگی اور اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو وہ اسے جان سے مار ڈالے گا ۔ارشد پاشا کشمکش میں پڑ جاتا ہے کہ وہ کیا کرے ۔اسے اپنا ماضی یاد آتا ہے ماضی کی دھند میں گم ارشد پاشا کی خود کلامی کے ذریعہ کہانی آگے بڑھتی ہے یادوں کے سلسلے اسے کاشی میں لے جاتے ہیں جہاں پاشاؤں کی خستہ حال کوٹھی ہے اس کا باپ تغلق پاشا ماضی کی یادوں میں گھرا رہتا ہے پاشاؤں کے سنہرے ماضی کو ذہن میں رکھتا ہے اسے اپنے وطن سے بے پناہ محبت ہے تقسیم ملک نے تغلق پاشا کو توڑ کر رکھ دیا ۔اس کا بھائی تاجور پاشا اسے چھوڑ کر پاکستان چلا جاتا ہے تغلق پاشا کی بیوی گھر میں رکھے ملازموں کو طعنہ دیتی رہتی ہے اور اپنی قسمت کو کوستی رہتی ہے ارشد کا بھائی انور پاشا نئے خیال کا ہے وہ کوئی بڑا کارنامہ انجام دے کر اپنا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کرانا چاہتا ہے لیکن جگہ جگہ ہورہے فرقہ وارانہ دنگے اسے پریشان کرتے ہیں اور وہ کاشی چھوڑ کر دہلی آجاتا ہے ارشد پاشا کالج میں پڑھتا ہے اس کا دوست بدر ہے دونوں نئی سوچ کے ہیں اس لئے تنگ نظر اور کم سوچ رکھنے والے مسلمانوں کی مخالفت کرتے ہیں اور انھیں ملک میں پھیلی ہوئی بد امنی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ۔احمد صاحب وکیل ایک پیشہ ور صحافی ہے صفدر نام کا ایک لڑکا ان کے ساتھ کام کرتا ہے احمد صاحب کی جوان لڑکی صوفیہ ارشد سے محبت کرتی ہے مگر اس کا باپ اس کی شادی صفدر سے کرا دیتا ہے بدر ایک فساد میں مارا جاتا ہے اور ارشد کی شادی رباب سے ہو جاتی ہے اس درمیان تغلق پاشا اور اس کی بیوی کا انتقال ہو جاتا ہے اور ارشد پاشا اپنے ایک دوست اجے سنگھ تھاپڑ کے ساتھ دہلی آجاتا ہے ۔ارشد پاشا ماضی کے دھندلکوں سے واپس لوٹ آتا ہے ادھر ابے کمار دوبے کو جیل میں ہی زہر دے کر مار دیا جاتا ہے لیکن پولیس کے دباؤ میں وہ اپنا اقبالیہ بیان دے چکا ہوتا ہے اور پولیس کو اس معاملے میں اہم سراغ بھی مل جاتے ہیں ۔ادھر ارشد تھاپڑ کو لے کر اجودھیا جاتا ہے وہاں وہ اسامہ کی تلاش شروع کرتے ہیں ایک سادھو ترلوکی بابا نے بتایا کہ وہ اس کے ساتھ رہتا تھا مگر اب اس کا کچھ پتہ نہیں ۔انھوں نے اسامہ کو شملہ،میرٹھ،اجودھیااور ہری دوارہر جگہ ڈھونڈا مگر وہ انھیں کہیں نہیں ملا ۔اسامہ کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ وہ جہاں بھی گیا مسلمان بن کر رہا ۔کہیں بدر تو کہیں علوی بن کر ۔وہ کٹر ہندوؤں اور سادھوؤں کے ساتھ رہا وہ نماز بھی پڑھتا تھا اتنا ہی نہیں وہ جس سے بھی ملا اس کا دل جیتا ۔اس سے ایک بات تو صاف تھی کہ اسامہ زندہ ہے ۔مگر ایک بڑا سوال یہ تھا کہ وہ اپنے گھر واپس کیوں نہیں لوٹنا چاہتا ۔شاید وہ کسی مقصد کو پورا کرنا چاہتا تھا ۔
’’تو آپ دلّی سے آئے ہیں۔اس کے پتا۔؟’جی ہاں‘۔آچاریہ مسکرائے۔مجھے پتہ تھا۔ایک دن آپ لوگ اس کی تلاش میں آئیں گے۔مگر کہاں تلاش کریں گے اسے۔؟مطلب؟۔رمتا جوگی ہے۔میں نے بتایا نا۔عام بچہ نہیں ہے۔بھگوان نے کسی بڑے کاریہ کے لئے بھیجا ہے اسے۔ایک مسلمان بچہ اس طرح ہم سادھو سنیاسیوں کا دل جیت لے ۔اسمبھو۔وہ بھی اپنے دھرم کا پالن کرتے ہوئے۔آچاریہ ہنسے۔۔۔۔کہاں کا دھرم ۔سارے دھرم تو ایک ہیں ۔سرو دھرم کی شا کھائیں جہاں ملتی ہیں ۔وہ اومکار ہے ۔وحدہُ لاشریک لہ۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،آتش رفتہ کا سراغ،ص۔۵۹۵)
ادھر ہائی کورٹ میں بابری مسجد کا تاریخی فیصلہ سنایا جاتا ہے تو یہ فیصلہ ہندوؤں کے حق میں آتا ہے اور پورے ہندوستان کے مسلمان سہم اٹھتے ہیں آبادی کا ایک بڑا حصّہ ہوتے ہوئے بھی وہ اس فیصلے کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکے دوسری طرف ہندو اس فیصلہ کا جشن منا رہے ہوتے ہیں ۔اس دوران علوی کے غم میں اس کے ابو انتقال کر جاتے ہیں اور اس موقعہ پر میر صاحب محلے کے لوگوں کو ایک احتجاج کے لئے تیار کرتے ہیں رات کے تین بجے جنازہ نکالا جاتا ہے جنازے میں ۵۰ سے ۶۰ لوگ شامل ہوتے ہیں پولیس والے بے خبر ہیں کہ یہاں کیا ہونے والا ہے نوجوانوں نے بینر اپنے کپڑوں میں چھپائے ہوئے تھے بٹلہ ہاؤس چوک میں لاش کو سڑک پر رکھ دیا جاتا ہے بینر کھولے جاتے ہیں اور چوراہے کو چاروں طرف سے گھیر لیا جاتا ہے دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کا جتھا وہاں پہنچ جاتا ہے اس درمیان پولیس بھی آجاتی ہے اور میڈیا والے بھی۔سرکار بھی حرکت میں آجاتی ہے۔صبح ۶ بجے میر صاحب میڈیا کو بتاتے ہیں کہ یہ احتجاج بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے سلسلے میں گرفتار کئے گئے معصوم لڑکوںکی رہائی کے لئے کیا جارہا ہے ہم جاننا چاہتے ہیں کہ بٹلہ ہاؤس معاملہ کو کیوں دبا دیا گیا اور آج تک اس کے مجرموں کو سزا کیوں نہیں ملی۔پولیس نے علوی اور تیرہ دوسرے معصوم لڑکوں کو جبراً گرفتار کرلیا تھا اور آج تک وہ جیل کی سلاخوں میں بند ہیں یہی نہیں ملک بھر میں ایسے ہزاروں بے گناہ مسلمان جیلوں میں قید و بندکی زندگی گزار رہے ہیں اور حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی۔مسلمانوں کو ہر معاملے میں دبایا جا رہا ہے وہ گھٹ گھٹ کر جی رہے ہیں ۔ہمیں انصاف چاہئے۔ٹھیک نو بجے وزیر داخلہ مظاہرین کو بہلانے کے لئے ایک بیان دیتے ہیں۔
’’علوی کو چھوڑنا نا ممکن ہے۔مسلمانوں کی مانگوں پر غور کیا جا سکتا ہے ۔لیکن اس کے لئے وقت چاہئے۔مسلمان انصاف اور قانون پر بھروسہ بنائے رکھیں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،آتش رفتہ کا سراغ،ص۔۶۸۵)
ادھر تھاپڑ ارشد پاشا کو کسی خفیہ جگہ بلاتا ہے جہاں ارشد کو تھاپڑ کی ایک گھناؤنی حقیقت معلوم ہوتی ہے اس نے تھاپڑ کا یہ چہرہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھاسنگھ کے لباس میں تھاپڑ ارشد کا سواگت کرتا ہے اور اسے ایک کڑوا سچ دکھاتا ہے ۔ایک بڑا حال ہے جس میں کچھ نوجوان لڑکے نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں ان کا لباس،قرأت اور نماز پڑھنے کا طریقہ با لکل مسلمانوں جیسا ہے اور تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ سنگھ کے آدمی ہیں جنھیں ایک ٹریننگ کے ذریعہ مسلمانوں کے طور طریقے سکھائے جاتے ہیں اور مسلمانوں کی پہچان دے کر ان کا استعمال کیا جاتا ہے ۔تھاپڑ اپنی حقیقت بتاتے ہوئے کہتا ہے ۔
’’میں کالج کے دنوں سے ہی اس تحریک سے وابستہ تھا۔مگر میری وابستگی کی شکل مختلف تھی۔میں نے سنگھ کو جوائن کرنے کے بعد ہی اپنا فیصلہ سنا دیا تھا ۔مجھے مسلمانوں کو سمجھنے دیجئے۔اس میں زندگی بھی گزر سکتی ہے ۔۔۔۔سنگھ کی طرف سے ہری جھنڈی ملتے ہی میں اپنے کام میں لگ گیا ۔اور یقینی طور پر سنگھ مسلسل میرے کاموں پر نظر رکھ رہا تھا ۔پھر مجھے تم مل گئے۔مجھے ایک مسلمان کو مکمل طور پر جاننے اور سمجھنے کے لئے ایک مسلمان گھر کی ضرورت تھی ۔اور تم میری یہ مشکل آسان کئے جا رہے تھے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،آتش رفتہ کا سراغ،ص۔۶۹۴)
ارشد کو ایک بڑا دھکا لگتا ہے وہ حیران و پریشان ہو کر گھر واپس لوٹتا ہے اسے اپنے بیٹے کی فکر ستاتی ہے وہ سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ حمید قادری سے ملتا ہے جو زیادہ تر مظلوم مسلمانوں کے کیس لڑتے ہیں حمید قادری اسے یقین دلاتا ہے کہ وہ اسامہ کے کیس میں ان کی ہر ممکن مدد کریں گے اور ارشد سے کہتے ہیں کہ آپ اپنے طور پر اپنے بیٹے کی تلاش جاری رکھیں اور اس کے لئے دعا کریں اس طرح یہ کہانی ختم ہو جاتی ہے۔
’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘میں کرداروں کی بہت بھیڑ ہے ارشد پاشا،تغلق پاشا،انور پاشا،تاجور پاشا،احمد صاحب وکیل،اجے سنگھ تھاپڑ،صفدر علی،بدر،اسامہ پاشا،میر صاحب،امام صاحب،انسپکٹر ورما،دشینت،ابے کمار دوبے،رشید،علوی،منیر،اسلم ،حمید قادری،ترلوکی بابااور نسوانی کرداروں میں رباب،صوفیہ،شمیمہ آنندی،بسمتیا وغیرہ اہم کردار ہیں ۔ارشد پاشا اس ناول کا اہم کردار ہے وہ اس ناول کا راوی ہے اور ساری کہانی اسی کے ارد گرد گھومتی ہے یہ ایک غیر متحرک کردار ہے شروع سے آخر تک وہ بے بس اور لاچار نظر آتا ہے یہ ایک ایسا کردار ہے جو اپنے ساتھ بیتی ہوئی کہانی بیان تو کر سکتا ہے مگر حالات کا سامنا کرتے ہوئے ڈرتا ہے ارشد پاشا محض ایک کہانی کا کردار ہی نہیں ہے بلکہ ہندوستان میں سانس لے رہے کروڑوں مسلمانوں کا کردار ہے وہ ایک کمزور،بزدل اور کم ہمت انسان ہے وہ ملک میں پھیلی ہوئی بد امنی کے لئے ہندوؤں اور مسلمانوں کے مذہبی پیشواؤں کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے مگر اس کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کرتا۔ارشد پاشا صوفیہ سے محبت کرتا ہے مگر اس کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔وہ ایک شفیق باپ بھی ہے اپنے جوان بیٹے کے گم ہوجانے پر وہ غمزدہ ہو جاتا ہے اور اس کو تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے ارشد پاشا اپنے دوست کو پہچاننے میں ناکام رہتا ہے وہ جب جب پریشان ہوتا ہے تھاپڑ اس کی پریشانیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ اس کے بھائی جیسا تھا اور یہ بات ارشد پاشا جانتا تھا کہ جب تک تھاپڑ جیسے لوگ زندہ ہیں کوئی بھی طاقت ہندوستانی مسلمانوں کو پریشان نہیں کرسکتی مگر جب تھاپڑ کی حقیقت اس کے سامنے کھلتی ہے تو وہ ہکا بکا رہ جاتا ہے۔
تغلق پاشا ماضی کی یادوں میں گھرا رہنے والا ایک بزرگ کردار ہے اسے اپنے شہر اور وطن سے بے پناہ محبت ہے تغلق پاشا گنگا جمنی تہذیب،وطن پرستی اور محبت و اخوت کا بے مثال کردار ہے اس نے اپنے وطن کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھا پھر آزادی کی جدو جہد میںبھی حصّہ لیا لیکن تقسیم کے درد ناک المیہ نے تغلق پاشا کو توڑ کر رکھ دیا ۔ملک کیا بٹا سارے رشتے منتشر ہو گئے۔انھیں اپنے بھائی تاجور پاشا کی بہت یاد ستاتی ہے جو تقسیم کے وقت پاکستان چلا جاتا ہے اور وہیں اپنا گھر بسا لیتا ہے جب تاجور پاشا اپنی فیملی کے ساتھ ہندوستان آیا تو تغلق پاشا کی خوشی کا ٹھکانا نہ تھا لیکن جب وہ واپس جانے لگتے ہیں تو ان کے صبر کے تمام باندھ ٹوٹ جاتے ہیں اور ان کی آنکھوں میں سیلاب سمٹ آتا ہے تغلق پاشا کے پاس ایک خوبصورت گلدان ہے جو ان کے آبا واجداد کی نشانی ہے وہ اس کو اپنے کمرے میں سجا کر رکھتا ہے اور اسے دیکھ کر اپنے ماضی کو یاد کرتا ہے۔
سولہ سال کا نوجوان اسامہ پاشا اس ناول کا سب سے اہم اور بنیادی کردار ہے ذوقی نے جوانی کی طرف قدم بڑھاتے مسلم بچوں کی نفسیات کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے انھوں نے اسامہ پاشا کو انتہائی حساس،ذہین اور خود دار بنا کر پیش کیا ہے اپنے آس پاس بڑھکی ہوئی فرقہ پرستی کی آگ اسامہ کو جلانے لگتی ہے اور وہ کڑھن محسوس کرنے لگتا ہے ملک کے سسٹم سے اسے نفرت ہو جاتی ہے اوروہ اس سسٹم سے ناراض ہو کر گھر چھوڑ کر چلا جاتا ہے وہ نئی منزل یا نئے راستوں کی جستجو میں دہلی سے شملہ،میرٹھ،ہری دوار اور ہری دوار سے اجودھیا جاتا ہے اس کردار کی حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ ہر جگہ یہ اپنی پہچان اور شناخت کے ساتھ رہا اور اپنے ہونے کا احساس کراتا رہا۔اس نے ہر جگہ اپنے وجود کے نقوش چھوڑے اپنے عمل کی وجہ سے اس نے کٹر ہندو سادھوؤں کے دلوں میں اپنی جگہ بنا لی اور ایک سچا اور ایماندار مسلمان ہونے کا ثبوت فراہم کیا ۔یہی نہیں اس نے آر ایس ایس جیسی تنظیموں کی بنائی ہوئی پلاننگ پر بھی پانی پھیر دیا اور انھیں سوچنے پر مجبور کردیا۔یہ ایک مثالی کردار ہے جو اپنے عمل سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بناتا ہے اور انسانیت کے ساتھ اپنے مذہب کی بھی صحیح دلیل پیش کرتا ہے۔
اجے سنگھ تھاپڑ اس ناول کا ایک دلچسپ کردار ہے وہ بظاہر ارشد پاشا کا بہترین دوست،ہمدرد،اخلاقیات کا پیکر،سیکولر ذہن کا مالک اور انصاف پسند نظر آتا ہے وہ ارشد پاشا کو اسامہ کے گھر چھوڑ کر جانے کے بعد تسلی اور دلاسہ دیتا ہے اسامہ کے جانے کے بعد ان کو جو زخم لگتا ہے اس پر مرحم لگاتاہے۔
’’میں جانتا ہوں۔یہ بڑا زخم ہے ۔اس سے بڑا دنیا کا کوئی زخم نہیں ہو سکتا کہ ایک ہی بیٹا ۔اور وہ بھی گھر چھوڑ کر چلا جائے ۔وہ بھی اس ننھی سی عمر میں۔تمہاری مجبوری سمجھ سکتا ہوں۔لیکن بھابھی کے بارے میں سوچتا ہوں تو ٹوٹ جاتا ہوں۔ہم تم تسلیاں پیدا کر لیتے ہیں ۔مگر بھابھی؟بھابھی کیسے جیتی ہوں گی۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،آتش رفتہ کا سراغ،ص۔۲۳۰)
تھاپڑ کا کردار سنگھ کے آدمیوں کی نقاب کشائی کرتا ہے ارشد پاشا کے ساتھ اسامہ کی تلاش میں ہر قدم پر ساتھ رہنے والا سنگھ کا یہ آدمی اپنے مشن میں لگ کر سنگھ کے لئے کام کرتاہے اور تعجب کی بات یہ ہے کہ اس نے ارشد پاشا کو کبھی محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ وہ سنگھ سے جڑا ہوا ہے یہ اس کردار کا ایک ایسا پہلو ہے کہ ہم بھی اسے پہچان نہیں پائے وہ خود ہی ایک بڑے راز سے پردہ اٹھاتا ہے۔
’’میں سنگھ کا آدمی ہوں۔اور سنگھ کا آدمی کہاں نہیں ہے ۔ہوسکتا ہے جو آدمی آپ کو تسلی اور دلاسہ دے رہا ہو،وہ بھی سنگھ کا ہی آدمی ہو۔جو آدمی آپ کے زخموں پر مرحم رکھ رہا ہو،وہ بھی سنگھ کا آدمی ہو۔جو آدمی آپ کے گھر کا نوکر،خدمتگار یا گہرا دوست ہو،وہ بھی سنگھ کا آدمی ہو۔سنگھ کے آدمی کو کہاں کہاں تلاش کریں گے آپ۔؟وہ کسی بھی بھیس میں،کسی بھی روپ میں آپ کے پاس ہو سکتا ہے ۔اور آپ اسے پہچان بھی نہیں پائیں گے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،آتش رفتہ کا سراغ،ص۔۵۷۳)
تھاپڑ اپنے بارے میں سب کچھ بتاتا ہے کہ وہ کاشی میں ہی اپنے طالب علمی کے زمانے سے ہی سنگھ کا ممبر بن گیا تھا اس کو اپنے مشن پر کام کرنے کے لئے ایک مسلم گھرانے کی تلاش تھی اس لئے ارشد پاشا سے دوستی کر کے اس کے گھر آنا جانا شروع کردیا ارشد پاشا پر جب یہ انکشاف کھلتا ہے تو اس کے ذہن میں دھماکے ہوتے ہیں اس کو لگتا ہے جیسے وہ کسی بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہو۔
نسوانی کرداروں میں رباب ایک مثالی کردار ہے وہ صبر و تحمل سے کام لینے والی ایک سمجھدار عورت ہے لیکن آج کے ماحول سے اس قدر سہمی ہوئی ہے کہ وہ اپنے شوہر ارشد پاشا کو مسلم علاقے میں رہائش بنانے کے لئے دباؤ بناتی ہے تاکہ وہ محفوظ رہ سکیںلہٰذا وہ بٹلہ ہاؤس کا انتخاب کرتے ہیں ۔بٹلہ ہاؤس کا المیہ رباب کی زندگی میں طوفان لے کر آتا ہے جہاں اسے اداسی اور محرومیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے رباب کے جگر کا ٹکڑا اسامہ پاشا گھر چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو ایسے موقعے پر اپنے بیٹے کی جدائی میں آنسو بہانا،اپنے آپ کو مسلمان ہونے پر مجرم ٹھہرانا،پھر پریشان ہو کر اسامہ کے کمرے میں جا کر اس کی کتابیں ،اس کا لباس،اس کے کمپیوٹر اسکرین پر اسامہ کو بولتے ہوئے دیکھنا اور اس سے ملنے کی چاہ میں تڑپنا رباب کا معمول بن جاتا ہے لیکن وہ ایک مضبوط کردار ثابت ہوتی ہے وہ ہمت جٹا کر جینے کی تیاری کرتی ہے ۔
صوفیہ ایک ذہین اور سنجیدہ لڑکی ہے وہ آزادی کے صحیح معنی سمجھتی ہے اس کے اپنے اصول ہیں اور وہ اپنا آسمان خود بناتی ہے وہ ارشد پاشا سے محبت کرتی ہے مگر ارشد پاشا ایک بزدل،بے روزگار اور بے وقوف انسان ہے جو اس کی محبت کی قدر نہیں کرتا۔پھر وہ مجبوری کے عالم میں صفدر علی کے ساتھ ایک بے معنی رشتے میں بندھ جاتی ہے لیکن جس رشتے کی بنیاد ہی کمزور ہو اور اس میں چاہت یا محبت نہ ہو تو وہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا لہٰذا ایک رات صوفیہ صفدر علی کو چھوڑ کر ارشد پاشا کے پاس جاتی ہے اور اس کی کمزوری پر ہنستی ہے۔
’’دیکھو،میں نے اپنے آپ کو کھول دیا ہے ارشد پاشا۔۔۔۔۔اور میری طرف سے کوئی غلط فہمی مت پالنا ۔میں کوئی گری ہوئی رنڈی نہیں ہوں جو بارش کی اس طوفانی رات اپنے جسم کی جاگی ہوئی بھوک یا بڑھتی ہوئی مانگوں کو لے کر ،بریف کیس اٹھا کر تمہارے گھر میں آگئی۔میں تو صرف تمہیں تمہاری اوقات دکھانا چاہتی تھی ارشد پاشا ۔کہ تم یہ بھی نہیں کرسکتے۔۔۔۔۔میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتی تھی کہ یہ صدی تم جیسوں کے لئے نہیں ہے۔تم میں اور صفدر علی میں بہت زیادہ فاصلہ نہیں ہے ارشد پاشا۔تم دونوں بہت قریب قریب کی چیز ہو۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،آتش رفتہ کا سراغ،ص۔۵۵۰)
’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘میں دہشت گردی کے مسئلہ کو اٹھایا گیا ہے دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی حملہ یا دھماکہ ہوتا ہے تو شک کی سوئی سب سے پہلے مسلمانوں کی طرف جاتی ہے آج عالمی سطح پر جس طرح مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہیں وہ کسی سے بھی چھپے ہوئے نہیں ہیں امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی بڑے ممالک مسلم دیشوںمیں اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے دہشت پھیلا رہے ہیں ہزاروں،لاکھوں نہیں کروڑوں بے گناہ لوگ ظلم و جبر اور تشدد کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں بے شمار لوگ مارے جا رہے ہیں نہ جانے کتنے اپاہج ہو رہے ہیں اور کتنے ہی جیل کی سلاخوں میں بند کر دیے جاتے ہیں ایسے میں اسامہ بن لادن جیسے لوگوں کا اس ظلم کے خلاف بغاوت کرنا فطری بات ہے اور جب وہ ہتھیار اٹھا کر دشمنوں کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں تو انھیں دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے جبکہ اصل دہشت گرد تو اس تشدد کی آگ کو بھڑکانے والے ہیں جنھیں کوئی نہیں پوچھتا۔وہ بے حس ہو کر چین کی نیند سو رہے ہوتے ہیں اور لوگ مر رہے ہوتے ہیں کیا اس ظلم کی کوئی انتہا ہے ۔یہی صورت حال ہندوستان کی بھی ہے ملک کے کسی بھی حصہ میں کوئی واردات ہوتی ہے تو مسلمان خطرے میں پڑ جاتے ہیں وہ گھبرا جاتے ہیں اور انھیں بندی بنا کر ان سے جبراً اقبالیہ بیان لئے جاتے ہیں اور دہشت گرد قرار دیے جاتے ہیں پولیس انسپکٹر بھوانی رشید اور اس کے خاندان کے تمام افراد کو گرفتار کرتا ہے اور ان کے ساتھ جو بد سلوکی کرتا ہے وہ انسانیت کو شرمسار کرنے کے لئے کافی ہے وہ سب کے سامنے رشید کی جوان بیٹی کے ساتھ زنا کرتا ہے اور رشید کو بیان دینے کے لئے مجبور کرتا ہے۔
ہندوستان میں بھگوا آتنک واد بہت تیزی سے پھیل رہا ہے ذوقی نے اس جانب بھی قارئین کی توجہ مبذول کرائی ہے انھوں نے جس طرح اس ناول میں بھگوا آتنک واد کے کپڑے اتارے ہیں وہ قابل ستائش ہے مالیگاؤں بم بلاسٹ معاملے میں کرنل روہت اور مرگیہ کو پکڑا گیا تو بھگوا آتنک واد کا چہرہ سامنے آتا ہے ہندوتوا کے علمبرداروں کی دہشت گردی میں آر ایس ایس کا نام سامنے آتا ہے تو اس وقت کی حزب اختلاف پارٹی بی جے پی کے لیڈران تلملا جاتے ہیں اور پارلیمان نہ چلنے کی دھمکی دیتے ہیں ۔بھگوا آتنک وادیوں نے مسلم نوجوانوں کو انڈین مجاہدین اور سیمی کا کارکن بتا کر گرفتار کرنا اور ان پر جھوٹے الزام لگا کر بدنام کرنا شروع کردیا ۔اس کے برعکس پختہ ثبوت ہونے کے باوجود حکومت آر ایس ایس اور مسلم دشمن دہشت گردوں کے خلاف صرف لفظی بیان بازی کھیلتی رہتی ہے وہ بے حس اور بے بس نظر آتی ہے لیکن بھگوا آتنک واد کو ایک بڑا دھکا لگتا ہے اور وہ بو کھلا جاتے ہیں ۔
’’دراصل جب سے ان کے بھگوا آتنک واد کی قلعی کھلی ہے ،یہ بوکھلا گئے ہیں۔اور یہ چھوٹے چھوٹے بے قصور مسلمان بچوں کو اپنا نشانہ،اپنا ٹارگیٹ بنا رہے ہیں ۔پہلے مدرسہ۔پھر اسکول اور کالج میں پڑھنے والے بچے۔اور المیہ دیکھئے۔اپنا کہیں کوئی بھی نہیں میڈیا تک عام مسلمانوں کی آواز نہیں پہنچتی۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،آتش رفتہ کا سراغ،ص۔۴۴۔۲۴۳)
ہندوستان میں بڑے بڑے سنگھ خاموشی سے اپنا کام انجام دے رہے ہیں اور خوفناک منصوبے بنا کر مسلمانوں کو عالمی نقشے پر بلیک میل کرنے کے لئے طرح طرح کے ٹریننگ کیمپ چلائے جا رہے ہیں۔
’’سواگتم۔اشوک نمانی مسکرائے۔ہمیں امریکیوں اور یہودیوں سے بھی ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے ۔وہ اپنے لوگوں کو مسلمان بنا کر اس مہم میں اتار رہے ہیں ۔انہیں عربی سکھائی جاتی ہے ۔اسلامی طور طریقے سکھائے جاتے ہیں ۔داڑھی بنانے اور نماز کی صحیح ادائیگی کے طریقے بتائے جاتے ہیں ۔پھر انہیں مہم میں اتارا جاتا ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،آتش رفتہ کا سراغ،ص۔۱۲۲)
Training campsمیں تیار ان Productsکو مشن پر بھیجا جاتا ہے اور مشن میں فیل ہوجانے یا پکڑے جانے پر کیا کرنا ہے انھیں سب بتایا جاتاہے اگر وہ زندہ یا مردہ پکڑے جاتے ہیں تو ان کی جیب سے اردو زبان میں لکھے ہوئے کاغذات بر آمد ہوتے ہیں جن میں ان کا مسلم نام کے ساتھ شناختی کارڈ اور کسی مسلم دہشت گرد تنظیم سے وابستہ ہونے کا ثبوت ہوتا ہے جبکہ حقیقت میں یہ لوگ غیر مسلم ہوتے ہیں اس کے سیدھے اثرات مسلمانوں پر پڑتے ہیں وہ گھبرا جاتے ہیں اپنے ہی گھروں میں نظر بند ہو جاتے ہیں اور ڈر کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں وہ ان دہشت آمیز خبروں کو پڑھ کر یا سن کر ایک لاچا اور کمزور اقلیت میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔جہاں ایک طرف عام مسلمانوں کو دہشت گرد کی علامت بنا کر پیش کیا جا رہا ہے تو وہیں دوسری طرف بڑی طاقتیں مسلمانوں کے نام کو مٹانے کی سعی کر رہی ہیںیہ بات مسلم ہے کہ مسلمان ہندوستان کا ایک اہم حصّہ ہیں انھیں اپنے ملک سے بے پناہ محبت ہے وہ اپنے وطن کے لئے جیتے مرتے ہیں مگر اس کے لئے انھیں بار بار اپنی صفائی پیش کرنی پڑتی ہے ۲۵ کروڑ کی آبادی ہوتے ہوئے بھی انھیں اقلیت کہا جاتا ہے جبکہ اتنی بڑی آبادی میں ایک اچھا خاصہ ملک اپنی آزادی کے ساتھ سانس لے سکتا ہے۔
مذکورہ ناول میں میڈیا کی حقیقت کو بھی سامنے لانے کی سعی کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ میڈیا کے لئے انسان ایک مشین کی طرح ہے وہ نہ کچھ بول سکتا ہے اور نہ دیکھ سکتا ہے صرف سن سکتا ہے وہ وہی کرتا ہے جو اس سے کہا جاتا ہے میڈیا اپنا نام چمکانے کے لئے لوگوں کو خریدتا ہے اور جھوٹی خبریں پیش کرتا ہے اتنا ہی نہیں میڈیا بڑی آسانی سے کسی چور کو ہیرو بنا دیتا ہے اور اگر وہ چور رسوخ والا ہوتا ہے تو عدالت میں اس کے خریدے ہوئے وکیل اسے معصوم بنا کر پیش کرتے ہیں ۔سیاسی لٹیروں کے ہاتھوں فروخت ہو کر میڈیا ان کے سُر میں سُر ملاتا ہے اور صحیح غلط کو بھول کر اپنا کاروبار بڑھانے میں مصروف ہے صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح بنا کر پیش کرنا میڈیا کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔مصنف نے ایسی بہت سی حقیقتوں کو قارئین کے سامنے لایا ہے۔
’’یہ سارےPaid چینل ہیں۔۔۔۔یہ تمہارے بھروسے سے اپنا کاروبار چمکا رہے ہیں ۔تمہارے فتووں کو بیچتے ہیں ۔تمہارے اسامہ بن لادن سے ظواہری اور تمہارے نکاح اور طلاق کی کہانیاں بیچتے رہتے ہیں ۔اس غلط فہمی میں مت رہنا کہ تمہیں ان کا سہارا ملا ہوا ہے ۔۔۔۔۔ان میں سے ہر آدمی اپنی جیب گرم کررہا ہے ۔اپنے چینل کھولنا چاہتا ہے اور سیاست میں آنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے ۔لوک سبھا نہ سہی،راج سبھا کے پچھلے دروازے سے ۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،آتش رفتہ کا سراغ،ص۔۵۰)
کسی بھی ادیب کے پاس تاریخی شعور ہونا لازمی ہے تبھی وہ ایک معیاری تحریر لکھ سکتا ہے ۔ذوقی گہرا تاریخی شعور رکھتے ہیں تاریخ ایک گہری کھائی ہے جہاں سے گمشدہ داستانوں کو بر آمد کرنا ذوقی کے فن کا کمال ہے ہندوستان میں مسلمانوں کے زوال سے بھیانک کوئی داستان نہیں ۔اس میں تاریخ کے بھید چھپے ہیں ذوقی صاحب نے جابجا اس ناول میں تاریخ کو گواہ بنا کر پیش کیا ہے جب بابری مسجد شہید کی گئی تھی تو اس وقت ملک کی مجموعی صورت حال اور افرا تفری کا جو عالم تھا ذوقی نے بڑی بے باکی سے اس منظر کو پیش کرنے کی جرأت کی ہے انھوں نے یہ بتایا ہے کہ ہندوستانی تہذیب کا زوال کہیں نہ کہیں اس بد قسمت تاریخ سے شروع ہوتا ہے جو ۶دسمبر۱۹۹۲ء کی تاریخ ہے ۔بابری مسجد کے سانحہ نے پورے ملک میں کڑواہٹ بھر دی اور لوگ ایک بار پھر دو حصوں میں بٹ گئے۔یہی نہیں انھوں نے پچھلے ۶۷ برسوں سے مسلمانوں کے ساتھ پیش آئے تمام اہم واقعات کو قلمبند کرنے کی سعی کی ہے ۔
ذوقی نے ’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘کی کہانی کی شروعات تو عمدہ کی مگر اس کا اختتام موثر طریقے سے نہیں کرپائے ۔بہت سے سوال ادھورے رہ جاتے ہیں جیسے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کا کیا فیصلہ ہوا ہوگا؟اس کیس میں گرفتار کئے گئے لڑکوں کو رہا کیا گیا یا نہیں؟یا کیا اسامہ اپنے گھر واپس لوٹتا ہے یا نہیںاور کیا تھاپڑ کی حقیقت جاننے کے بعد ارشد پاشا اس کے ساتھ اپنی دوستی کو آگے بڑھاتا ہے یا نہیں؟ایسے بہت سے سوالات ہیں جو قاری کے ذہن میں پیداہوتے ہیں ۔اس ناول میں کرداروں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انھیں شمار کرنا مشکل ہوجاتا ہے کرداروں کی اتنی لمبی فہرست قاری کو الجھن میں ڈالتی ہے ساتھ ہی اس سے کرداروں کی پہچان بھی متاثرہوتی ہے ناول میں مختلف طرح کے واقعات کو جس طرح طوالت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے وہ قصے کے تسلسل میں رکاوٹ بنتے ہیں جس سے نہ صرف قاری کی دلچسپی متاثر ہوتی ہے بلکہ اس کو اکتاہٹ کا احساس بھی ہونے لگتا ہے ۔ذوقی نے دھماکوں اور دھنگوں کا ذمہ دار صرف غیر مسلم کٹر پنتھیوں کو ٹھہرایا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے کہیں نہ کہیں مسلمان بھی اس کے ذمہ دار ہیں کچھ مطلب پرست اور ضمیر فروش مسلمان چند پیسوں کے لئے اپنا ایمان بیچ کر خود کش بم دھماکوں میں شامل ہوتے ہیں اور مسلمانوں کا نام خراب کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے اس عمل سے مسلمانوں پر کس طرح بجلی گر سکتی ہے۔ذوقی نے جس طرح تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہ صحیح نہیں ہے کیونکہ ان کا مقصد مسلمانوں کا برین واش کرنا یا ان کو گمراہ کرنا نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ دھنگے بڑھکانے کا کام کرتے ہیں بلکہ وہ اپنے مذہب کو ماننے کی تلقین کرتے ہیں اور حق کی دعوت دیتے ہیں تاکہ مسلمان راہ راست پر آجائیں اور اپنے رب کو راضی کر لیں اور اپنا کھویا ہوا وقار پھر سے حاصل کرسکیں۔ان کا لڑائی جھگڑوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا اس لئے کسی مذہبی فرقے کو اس طرح تنقید کا نشانہ بنانا غلط ہے۔
اسامہ کی گمشدگی کو لے کر جس طرح نیوز چینل والے خبر پیش کرتے ہیں اس کی تفصیل پر پانچ صفحات سے زیادہ خرچ کئے گئے ہیں جبکہ اس کو اتنا طویل کھینچنے کی ضرورت نہیں تھی کیو نکہ اس پر رپورٹنگ کا گمان ہونے لگتا ہے ۔
’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘کی زبان ملی جلی ہے اس میں ہندی اور انگریزی کے الفاظ کثرت سے استعمال کئے گئے ہیں ۔shadow,satanic verses,retina,confused,yellow,puppet,paid,terrorist,wwf،مین اسٹریم،پبلی سٹی،لیمی نیشن،فیکٹری،اسٹوڈیو،ہولڈ،ٹیلی کاسٹ،ہائی لائٹ،شو کیس،وارڈروب،امیوٹنٹ وغیرہ کے علاوہ اور بھی بہت سے انگریزی الفاظ ملتے ہیں ہندی الفاظ میں آتنک وادی،شکتی شالی،سہیوگ،ناگرک،وواد،ادھیکار،بھوکمپ،سدھ،آدی واسی،ادھیکاری،لابھ،راج یوگ،پرشاسن،نشٹ،سیوا،سفلتا،سمرتھک،پنر وچار،سنگھٹ،وچار دھارا،اتھان،ستہ،بھاگیداری جیسے بے شمار الفاظ ہیں ۔جابجا محاوروں کا بھی استعمال کیا گیا ہے مثلاً آج مرے کل دوسرا دن،اینٹ سے اینٹ بجانا،گھٹ گھٹ کر مرنا، پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ،خدا جھوٹ نہ بلوائے،آبیل مجھے مار، بلی کا بکراوغیرہ۔ ناول میں چند بے معنی الفاظ بھی ملتے ہیں جیسے الم غلم،لحیم شحیم،گندے چھنڈے،جنگ ونگ،لشتم پشتم،ذات پات وغیرہ ان میں غلم،شحیم،چھنڈے،ونگ،پشتم،پات مہمل الفاظ ہیں ۔اس کے علاوہ اس ناول میں کتابت کی بھی بہت سی غلطیاں ہیں جو قاری کی پریشانی کا سبب بنتی ہیں تیاری کے بجائے تاری،باری کی جگہ پاری،سکیورٹی کی جگہ سیکوریٹی،تاج ہوٹل کا تاج محل ہوٹل،لیتے کا لایتے،کہا کا کیا،اتنا اتنا کا اتا اتا،گھوم کا کھوم،سنگھ کا سنکھ،سنیاسیوں کا سنیاسینوں ،اپنے کا آپنے اور ڈائیورٹ کی جگہ ڈرائیورٹ لکھا ہے ۔ناول میں جابجا اشعار کا استعمال بھی کیا گیا ہے جو قاری کی دلچسپی کو بڑھانے میں مدد دیتے ہیں مثلاً غالبؔ اور اقبالؔکے یہ اشعار ملاحظہ ہوں۔
؎سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں (غالبؔ)
؎آگ بجھی ہوئی ادھر،ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر
کیا خبر اس مقام سے گذرے ہیں کتنے کارواں (اقبالؔ)
؎تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا
ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات (اقبالؔ)
اس کے علاوہ فارسی کا بھی ایک شعر پڑھنے کو ملتا ہے ملاحظہ ہو۔
؎زابر گریاں باغ سبز و ترشود
زانکہ شمع از گریہ روشن تر شود
یہی نہیں مصنف نے عربی زبان کا ایک جملہ بھی استعما ل کیا ہے ۔