ڈراما یونانی زبان کے لفظ ’’ڈراؤ‘‘(Darao)سے نکلا ہے جس کے معنی ’کرکے دکھانا‘کے ہیں ارسطو کے مطابق ڈراما کے معنی عمل کے ہیں یعنی ہر وہ چیز جو عمل کے ساتھ وجود میں آئے ڈراما کہلاتی ہے ڈراما انسانی زندگی کے حالات و واقعات کی کہانی کو پیش کرنے کا ایک موثر ذریعہ ہے اس میں زندگی کے واقعات و حقائق کو کرداروں اور مکالموں کے ذریعہ اسٹیج پر پیش کیا جاتا ہے عمل ڈرامے کی جان ہے کیونکہ اسی پر ڈرامے کی کامیابی وکامرانی کا دارومدار ہوتا ہے ۔
ڈراما جہاں ادب کی ایک مقبول ترین صنف ہے وہیں اسے ادب کی سب سے مشکل صنف بھی مانا جاتا ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ اس کا براہ راست تعلق اسٹیج سے ہوتا ہے ڈرامے کا تصور آتے ہی اسٹیج کا خیال ذہن میں آجاتا ہے یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں ڈراما کا بنیادی مقصد ہی عمل کرکے دکھانا ہے اور یہ عمل اسٹیج کے بغیر مکمل نہیں ہوپاتا۔ڈراما لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے اس میں بہت سی باتوں کا دھیان رکھنا ہوتا ہے ۔ایک ڈراما نگار کے لئے ضروری ہے کہ وہ بیک وقت مختلف چیزوں اور فنی نکتوں پر مہارت رکھتا ہو۔ڈراما چونکہ عوام کے لئے لکھا جاتا ہے اس لئے اس میں ان کی پسند ناپسند کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے لہٰذا ڈرامے کی کامیابی کے لئے اسٹیج کا مناسب ساز و سامان ،لباس ،موسیقی،روشنی ،موثر اداکاری وغیرہ کا ہونا ضروری ہے ان تمام چیزوں کے خوشگوار امتزاج سے ہی ایک کامیاب ڈراما وجود میں آتا ہے۔
اردو اسٹیج ڈرامے کا آغاز واجد علی شاہ کے لکھے ہوئے ڈرامے ’’رادھا کنھیا کا قصہ‘‘سے ہوتا ہے یہ ڈراما ۱۸۴۰ء میں لکھا گیا اور ۱۸۴۳ء میں لکھنئو کے شاہی محل کے اسٹیج پر کھیلا گیا۔یہ ڈراما رادھا کنھیا کی داستان محبت پر مبنی ہے اس کے بعد واجد علی نے تین اور ڈرامے لکھے جو شاہی اسٹیج پر پیش کئے گئے۔خواص کے بعد عوام میں بھی اس صنف کا چرچہ ہونے لگاجس سے ان کی دلچسپی بڑھنے لگی اسی کے نتیجہ میں امانت لکھنوی کا ڈراما ’’اندر سبھا‘‘وجود میں آیا ۔یہ عوامی اسٹیج کا سب سے بہتر اور پہلا منظوم ڈراما ہے یہ ڈراما ۱۸۵۳ء میں اسٹیج کیا گیا۔اس ڈرامے کی مقبولیت کا راز ایک طرف زبان کی صفائی،شیرینی اور اس کے شاعرانہ حسن میں پنہاں ہے تو دوسری طرف رقص و موسیقی بھی اس کی دلکشی میں اضافہ کرتی ہے یہ ڈراما کئی بار اسٹیج ہوچکا ہے اور اس کے ترجمے دوسری زبانوں میں بھی کئے گئے ہیں اس کے بعد اردو ڈرامے کی ایک طویل روایت رہی ہے جس میں مختلف ڈراما نگاروں نے مختلف ادوار میں اس صنف کو بام عروج تک پہنچانے کی کوشش کی ۔خصوصاًآغا حشر اور امتیاز علی تاج نے ڈرامے کو فروغ دینے میں بہت بڑا رول ادا کیا ہے لیکن آزادی ہند کے ساتھ ساتھ اس صنف کا زوال شروع ہوگیا۔اس کی ایک بڑی وجہ تھیٹر اور اسٹیج کا زوال بھی ہے دوسری طرف تقسیم ملک نے بھی اس صنف کو متاثر کیا کیونکہ مسلمانوں کے ساتھ اردو زبان کو بھی تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی جس سے ڈراما نگاروں نے اس کی طرف اپنی توجہ کم کردی لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ آزادی کے بعد ڈرامے نہیں لکھے گئے بلکہ چند اچھے ڈراما نگار ابھر کر سامنے آئے جنھوں نے اس صنف کو پھر سے پروان چڑھانے کی سعی کی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔۱۹۸۰ ء کے بعد کی بات کریں تو یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس دور میں بہت کم ایسے ڈرامے لکھے گئے جو اسٹیج کئے گئے ہوں بلکہ یہ ڈرامے صرف رسائل و جرائد میں چھپ کر رہ گئے ہیں یہ الگ بات ہے کہ آج تھیٹر کی جگہ ٹیلی ویژن نے لے لی ہے یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ ٹیلی ویژن اور فلموں کی مقبولیت نے اردو اسٹیج ڈراموں پر برا اثر ڈالا ہے تاہم اس دور میں بھی ریڈیائی اور یکبابی ڈراموں کے علاوہ اسٹیج ڈراموں کو خاصی مقبولیت حاصل ہوئی ہے اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ اب بھی اردو ڈرامے لکھے جارہے ہیں جو رسالوں کی زینت زیادہ بنتے ہیں اور اسٹیج کی کم۔
ذوقی کا شمار بھی ۱۹۸۰ء کے بعد کے ڈرامانگاروں میں ہوتا ہے یعنی ناولوں اور افسانوں کے علاوہ انھوں نے ڈرامے میں بھی اپنا قلم چلایا اور اپنی فنی کاوشوں کو بروئے کار لانے کی سعی کی ہے حالانکہ اس صنف میں وہ اپنی چھاپ چھوڑنے میں کچھ زیادہ کامیاب نظر نہیں آتے اور یہ ان کا خاص میدان بھی نہیں ہے پھر بھی ایسے وقت میں ڈراما لکھنا اور اس کی فنی حیثیت کو سنبھالے رکھنا جب یہ صنف زوال کے دہانے پر کھڑی ہے ذوقی کی یہ کوشش قابل ستائش ہے۔
ذوقی کا رحجان شروع سے ہی ڈرامانگاری کی طرف تھا جب انھوں نے لکھنا شروع کیا تو وہ اس وقت کے کئی چھوٹے موٹے تھیٹرز سے بھی وابستہ ہوئے اس دوران ان کو ڈرامے سے متعلق ضروری اور اہم معلومات حاصل کرنے کا موقع ملا ۔ڈرامے کے بنیادی ڈھانچے میں ہونے والی تبدیلیوں اور اسٹیج کے تقاضوں کو انھوں نے قریب سے دیکھنے ،پرکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی۔ان دنوں ذوقی آرا میں رہتے تھے آرا کے کئی تھیٹر گروپ منظم طریقے سے کام کر رہے تھے جہاں نکڑ ناٹکوں کی با ضابطہ اسکرپٹ لکھی جاتی تھی اور پھر یہ نکڑ ناٹک ان تھیٹروں میں دکھائے جاتے تھے یہ نکڑ ناٹک وہاں کے corrupt systemکے خلاف تھے ان میں corrruptionاور اس سے پیدا شدہ مسائل سے معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں کو پیش کیا جاتا تھا یہ نکڑ ناٹک عوام کو جگانے اور ان میں بیداری لانے کا کام کرتے تھے ذوقی بھی ان ناٹکوں سے متاثر ہوئے اور وہ روز مرہ زندگی کے مسائل پر غور وفکر کرنے لگے۔یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اس وقت وہ ترقی پسند تحریک سے مکمل طور پر وابستہ ہو گئے تھے ان ہی دنوں انھوں نے اپنا پہلا ناٹک ’’رمبھا رمبھا‘‘لکھا یہ ڈراما ۱۹۷۹ء میں گیا سے نکلنے والے ادبی رسالہ ’آہنگ‘ میں شائع ہوا۔اس زمانے میں ادب کی طرح فلموں میں بھی غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں فلموں میں فحش چیزوں کا رحجان شروع ہوچکا تھا گویا فحاشی اور عریانی بڑھنے لگی تھی ذوقی کو اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ ان فلموں اور گانوں کے ذریعہ ایک پوری تہذیب بربادی کے راستے پر چڑھ چکی ہے نئی نسل نہ صرف ان فلموں سے متاثر ہورہی ہے بلکہ اپنا راستہ اور مقصد بھی بھول چکی ہے ’’رمبھا رمبھا‘‘اسی موضوع کو بنیاد بنا کر لکھا گیا ہے یہ ڈراما بھی رسالہ ’آہنگ‘ میں شائع ہوا ۔اس کے بعد ڈراما نگاری کی طرف ان کا رحجان اور تیز ہوتا گیا اور وہ اس صنف میں اور بھی دلچسپی لینے لگے۔اپنے کالج کے دنوں میں انھوں نے دو ایک ڈراموں میں ایکٹنگ کا کام بھی کیا لیکن یہ کام ان کی طبیعت سے میل نہیں کھاتا تھا اس لئے جلد ہی انھوں نے اس سے کنارہ کشی کرلی۔
’’کالج کے دنوں میں ،میں دو ایک ڈراموں سے بطور ایکٹر بھی وابستہ ہوا۔لیکن میں ایک برا ایکٹر تھا مجھے جلد ہی اس بات کا احساس ہوگیا کہ ایکٹنگ میرے لئے نہیں ہے لیکن سسٹم کو بدلنے کے لئے میں اچھے ڈرامے ضرور لکھ سکتا ہوں۔‘‘(ان باتوں کا اظہار ذوقی نے ایک انٹرویو کے دوران کیا)
ذوقی کی کئی کہانیاں ’عصری ادب‘میں شائع ہوچکی تھیں اس رسالہ کے مدیر ڈاکٹر محمد حسن ان کی کہانیوں کو بہت پسند کرتے تھے وہ ان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ایک خط کے ذریعہ ذوقی سے ڈراما لکھنے کی فرمائش کرڈالی گویا انھوں نے ذوقی کو ڈراما نگاری کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی۔یہ اس وقت کے ذوقی کے لئے کوئی چھوٹی بات نہیں تھی کہ ایک مشہور ناقد اور ایڈیٹر نے انھیں باضابطہ طور پر ڈرامے لکھنے کی ہدایت دی ہو۔اس بات کا ذوقی پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ فوراً ہی قلم کاغذ لے کر بیٹھ گئے اور غور وفکر کے ساتھ لکھنا شروع کردیا ۔ان کا ذہنی شعور تو شروع سے گہرا رہا ہے لہٰذا اپنے آس پاس کا جائزہ لیا یہ وہ زمانہ تھا جب رام جنم بھومی اور بابری مسجد کی ہنگامی آوازیں ملکی فضا کو متاثر کر ہی تھیں اور چاروں طرف فرقہ پرستی کا بول بالا تھا آزادی کے بعد ایک بار پھر ہندو مسلمان دو حصوں میں تقسیم ہوچکے تھے جگہ جگہ دھنگے فساد ہونے لگے اور ایک بے چینی کا ماحول قائم ہوگیاذوقی نے ان حالات سے متاثر ہوکر ’’ایک اور شہادت‘‘کے نام سے ایک ڈراما لکھا جو ’عصری ادب‘میں شائع ہوا یہ ایک تجرباتی ڈراما تھا جس میں لائٹ اور صوت کا تجربہ کیا گیا یہ ڈراما کافی مشہور ہو ا بلکہ آرہ اور پٹنہ میں دو ایک مقام پر کھیلا بھی گیا۔
۱۹۸۵ء میں ذوقی دہلی آگئے یہ ان کی زندگی میں نئی تبدیلیوں کا سال تھا تلاش معاش میں ان کو بہت جدو جہد کرنا پڑی لیکن وہ خاموشی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف قدم بڑھاتے رہے انھوں نے ادب میں اپنا نام پیدا کرنے کے لئے بڑے ہاتھ پاؤں مارے ۔اس زمانے میں رسالہ’آج کل‘ کو اردو ادب میں ایک بلند مقام حاصل تھا اس کے مدیر راج نرائن رازؔ غضب کے شاعر اور ایڈیٹر تھے اس وقت ’آج کل ‘ میں شائع ہونا کوئی آسان بات نہیں تھی ذوقی نے رازؔ صاحب سے ملاقات کی جس میں تھیٹر اور ڈراموں سے متعلق کچھ اہم نکات اور امور پر تبادلہ خیال کیا گیا اس طرح رازؔصاحب نے بھی ذوقی کو ڈرامے کی طرف اکسانے میں اپنا اہم رول ادا کیا۔چنانچہ جب ’آج کل‘کا ایک شمارہ ’ڈراما نمبر‘سامنے آیا تو اس میں ذوقی کا ڈراما ’’ایک ہارے ہوئے آدمی کا کنفشن‘‘بھی شائع ہوا یہ ڈراما ملک کی مجموعی صورت حال اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل پر مبنی تھا جو جدید فکر کے ساتھ تحریر کیا گیا تھا یہ ڈراما نہ صرف مشہور ہوا بلکہ دہلی میں بھی کئی مقام پر اسٹیج کیا گیا دہلی کے ’شری رام آرٹ سنٹر‘ میں بھی اس کا شو ہوا اور اس ڈرامے کو بہت سراہا گیا ۔
۱۹۹۲ء میں بابری مسجد شہید کردی گئی اس واقعہ نے ذوقی نے نچوڑ کر رکھ دیا وہ اس قدر جذباتی ہوگئے کہ اپنے جذبات کے اظہار کے لئے اس حادثے کے فوراًبعد ایک ناول’’بیان‘‘لکھ ڈالا۔اس ناول کے ذریعہ انھوں نے ملک کی فرقہ پرست طاقتوں کو بے نقاب کرنے کی کامیاب کوشش کی لیکن اس کے باوجود وہ مطمئن نہیں تھے لہٰذا ’’بیان‘‘لکھنے کے بعد جلد ہی انھوں نے اس موضوع پر ایک ڈراما’’گڈ بائے راجنیتی‘‘بھی لکھا چونکہ اس وقت سیاست کے محافظ یا کہنا چاہئے کہ سیاست کے پہریدار عوامی اور ملکی مفاد کو بھول کر سیاسی سطح پر اپنے گندے کھیل میں مصروف تھے چنانچہ اس ڈرامے میں مصنف نے سیاست کی گمشدگی کی روداد بیان کرنے کی کوشش کی ہے انھوں نے کھل کر بھاجپا اور کانگریس کی سیاست کو بے نقاب کیا ہے کیوں کہ جہاں بھاجپا نے کھلے عام قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا تھا وہیں کانگریس بھی منہ چھپائے اپنی گھناؤنی چالوں کو سر انجام دے رہی تھی اس وقت کانگریس کی حکومت تھی اور نرسمہا راؤ ملک کے وزیراعظم تھے ہندوتوااور اس سے وابستہ لوگ بابری مسجد شہادت کو فتح کے طور پر دیکھ رہے تھے اور جشن منا رہے تھے ذوقی کا کہنا ہے کہ نرسمہا راؤ کو بھی اس پوری سیاست کے لئے قطعی معاف نہیں کیا جاسکتا تھا وہ وزیراعظم تھے اور اگر چاہتے تو اس خطرے کو روک سکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بابری مسجد کا حادثہ نرسمہا راؤ کے اشارے پر ہی ہوا تھا لہٰذا اس کے لئے صرف ایل کے ایڈوانی کی ٹیم کو مجرم نہیں ٹھہرایاجاسکتا کانگریس کا بھی اس میں برابر کا ہاتھ رہا ہے ’’گڈ بائے راجنیتی‘‘میں ذوقی نے ان تمام باتوں کی طرف واضح اشارے کئے ہیں۔
ڈراما ’’گڈ بائے راجنیتی‘‘ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھا گیا ہے جیسا کہ عنوان سے ہی پتہ چلتا ہے یہ ڈراما سیاست ،سیاست دانوں اور ان کے ہتھکنڈوں اور گھٹیا چالوں کا پردہ فاش کرتا ہے اس میں سیاست سے متعلق تمام چھوٹی بڑی باتوں کو بروئے کار لانے کی کوشش کی گئی ہے ساتھ ہی ہندوستان میں سیاست کے جنم ،اس کے ارتقاء اور زوال کی پوری کہانی پیش کی گئی ہے۔’’گڈ بائے راجنیتی‘‘چودہ مناظر پر مشتمل ڈراما ہے پلاٹ کسی بھی ڈرامے کا بنیادی جز ہے اس کی پختہ تعمیر و تشکیل ہی ڈرامے کی کامیابی کا راز ہے پلاٹ کے ارتقاء میں جس قدر روانی اور بہاؤ ہوگا اتنا ہی ناظرین کی دلچسپی کا باعث بنے گا ۔ڈراما نگار کو پلاٹ کی ترتیب میں بڑی محنت اور ریاضت سے کام لینا پڑتا ہے اس کے ایک ایک پہلو کو جانچنا اور پرکھنا ہوتا ہے اس کو پلاٹ کی ترتیب اور اس کے مختلف اجزاء میں ہم آہنگی اور ربط پیدا کرتے وقت اختصار سے کام لینا ہوتا ہے تب جاکر ایک بہتر ڈراما وجود میں آتا ہے ۔ذوقی کے ڈراما’’گڈ بائے راجنیتی‘‘کی بات کریں تو اس کا پلاٹ مربوط اور گٹھا ہوا ہے واقعات فطری ارتقاء کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں ان میں ربط اور تسلسل پایا جاتا ہے تمام واقعات کی کڑیاں آپس میں جڑی ہوئی ہیں ہر آنے والا منظر پچھلے منظر کا حصہ معلوم ہوتاہے خیالی اور مافوق الفطری عناصر سے پرہیز کیا گیا ہے اور روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے حادثات و واقعات کی مدد سے ہی پلاٹ کی تعمیر عمل میں لائی گئی ہے و اقعات میں دلچسپی اور جدت و ندرت پیدا کرنے کے لئے مختلف موقعوں پر ایڈ،میوزک اور مزاحیہ مکالموں کا استعمال بھی کیا گیا ہے ایک دو مقام پر واقعات میں ٹھہراؤ اور تیزی کا احساس ہوتا ہے اور پلاٹ کی ڈور میں الجھاؤ پیدا ہونے لگتا ہے لیکن جلد ہی ڈراما نگار اس کمزوری کو بھانپ لیتا ہے اور پلاٹ کو منظم طریقے سے آگے بڑھاتا ہے اس کے لئے ڈراما نگار نے کرداروں کے حرکات وسکنات سے زیادہ کام لیا ہے اس طرح یہ ڈراما واقعات کی کہانی ہونے کے بجائے کرداروں کی کہانی بن جاتا ہے لیکن یہ ڈرامے کی انفرادیت بھی ہے اس ڈرامے کے کردار اپنی گفتگو اور عمل سے پلاٹ کے چھپے ہوئے حصوں کی تکمیل کرنے اور اس کی کہانی کو آگے بڑھانے میں معاون ومددگار ثابت ہوتے ہیں۔
پہلے منظر میں اسٹیج کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے حصہ میں چار الگ الگ پارٹیوں کے لوگ بینر اور جھنڈے لئے گروپ میں بیٹھے ہیں دوسرے حصہ میں ایک کمرہ ہے جس میں ایک چارپائی اور ایک کرسی ہے گردھاری لال کھڑا ہے اور اس کی بیوی شیاما دیوی چار پائی پر بیٹھی ہے ۔پہلے حصہ کو اندھیرے میں رکھا جاتا ہے اور دوسرے حصہ پر روشنی پڑتی ہے گردھاری لال بے چینی میں ٹہلنے لگتا ہے وہ پریشان ہے اور اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ وہ مصیبت میں پھنس گیا ہے شیاما دیوی اس کی کھلی اڑاتی ہے کہ نیتا لوگ تو دوسروں کو مصیبت میں ڈالتے ہیں ان پر مصیبت کیسے آسکتی ہے پھر گردھاری لال بتاتا ہے کہ دراصل الیکشن ڈکلئیر کیا جاچکا ہے اور میں نے بدعنوان مخالف پارٹی سے استعفٰی دے دیا ہے کیونکہ اس پارٹی کے صدر سامو باؤ پر گھاس گھوٹالے کا الزام ہے میرے یار دوست ۲۰ سالوں میں ۲۰ پارٹیاں بدل چکے ہیں لیکن میں نے پہلی بار یہ پارٹی چھوڑی ہے آج نامینیشن فائل کرنے کا آخری دن ہے میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ کس پارٹی میں جاؤں اور کس میں نہیں کیونکہ کسی بھی پارٹی نے الیکشن لڑنے کا مدعا واضح نہیں کیا ۔اتنے میں فون کی گھنٹی بجتی ہے گردھاری لال فون اٹھاتا ہے سامو باؤ اس کو کہتا ہے کہ وہ واپس آکر اس کی پارٹی جوائن کرلے۔پھر کہتا ہے کہ وہ گھاس گھوٹالے کے الزام سے تو بری ہوگیا ہے لیکن اب ہنسوا گھوٹالے میں پھنس گیا ہے گردھاری اسے کہتا ہے کہ یہ سب رولنگ پارٹی کی چال ہے اس کے بعد گردھاری نامینیشن پیپر فائل کرنے کے لئے گھر سے نکل جاتا ہے ۔اب اسٹیج کے دوسرے حصہ میں روشنی پڑتی ہے چار الگ الگ پارٹیوں جنتا تانترک مورچہ،جنتا گٹھ بندھن،بد عنوان مخالف پارٹی اور راشٹریہ سائرس پارٹی کے لوگ اپنی اپنی پارٹی کے حق میں نعرے لگاتے ہیں تمام پارٹیوں کے لوگ گردھاری کو اپنی پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں سبھی پارٹی لیڈروں سے ملنے کے بعد گردھاری لال اسٹیج کے درمیان میں کھڑا ہوجاتا ہے اور پہلا منظر ختم ہوجاتا ہے۔
دوسرے منظر میں سات آٹھ لیڈرکرسیوں پر بیٹھے دکھائے گئے ہیں ان کے ساتھ گردھاری لال بھی ہے لیڈر لوگ گردھاری سے کہتے ہیں کہ آج کی سیاست میں اصولوں کی کوئی اہمیت نہیں جس پارٹی میں فائدہ نظر آئے اس میں شامل ہوجاؤ لیکن گردھاری کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ میں بہت اصولی آدمی ہوں مگر اتنا ضرور ہے کہ میں دوسروں کے مقابلے کم سوارتھی ہوں ۔میں اپنے مطلب کے لئے کسی کا قتل نہیں کرسکتا اس کے بعد اسٹیج پر نائک کی انٹری ہوتی ہے وہ گردھاری سے کچھ سوال پوچھتا ہے اور اس کو سیاست کے لئے نا اہل قرار دیتا ہے کیوں کہ اس کے نزدیک سیاست میں آنے کے لئے ضروری ہے کہ نیتا باربار اپنا نام اور پارٹی بدلنے کا گر جانتا ہو اس کا سبھاؤ اتنا شانت ہو کہ کسی گھوٹالے میں ملوث ہونے پر اگر اسے جیل بھی جانا پڑے تو اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہو اتنا ہی نہیں اس کا گھوٹالہ واد سنسکرت سے جڑا ہونا بھی ضروری ہے کیوں کہ اس وقت پارٹی کو آدمی سے زیادہ فنڈ کی ضرورت ہے اس کے بعد نائک گردھاری سے پوچھتا ہے کہ تمہارے پاس ایسا کوئی تجربہ ہے؟اس پر گردھاری نا میں جواب دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اسی لئے میں انڈی پینڈنٹ امیدوار کے طور پر چناؤ لڑ رہاہوں اور میرا چناؤ نشان ہے ڈنڈا چھاپ۔
تیسرے منظر میں چند نیتا لوگ کرسیوں پر بیٹھے ہیں ان میں سے ایک نیتا اٹھ کر کہتا ہے کہ نامینیشن تو فائل ہوگئے لیکن پارٹی مینی فیسٹو تیار کرنے کے لئے کوئی مدعا نہیں مل رہا ہے دوسرے نیتا کہتے ہیں کہ اگر مدعا ہی نہیں ہوگا تو چناؤ کیسے لڑیں گے اور اگر چناؤ نہیں ہوں گے تو سیاست کیسے چلے گی ایک نیتا فون پر بات کرتے ہوئے اپنے کسی ساتھی سے کہتا ہے کہ مدعا تلاش کرو۔کہیں سے بھی کیسے بھی کرکے مدعا حاصل کرو۔اتنے میں ادھر سے خبر ملتی ہے کہ سیاست غائب ہو گئی ہے سارے دیش میں ہاہا کار مچا ہوا ہے تمام پارٹی دفتروں میں رونا دھونا مچ گیا ہے ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے ۹ بجے کی نیوز میں بھی اس کا اعلان کردیا جائے گا یہ سن کر اسٹیج پر موجود نیتا دھنگ رہ جاتے ہیں اور وہ بے ہوش ہو کر گر جاتے ہیں اس منظر میں تصادم باضابطہ طور پر شروع ہوجاتا ہے۔
چوتھے منظر میں B newsاسٹوڈیو اور اس میں مدعو کئے گئے لوگوں کو دکھایا گیا ہے نیوز اینکر سنیل دعا ہیں اس کے علاوہ جنتا گٹھ بندھن کے ڈائریکٹر پنڈت آچاریہ ،راشٹریہ سائرس پارٹی کی صدر موہت آندھی،سائکریٹس نرملا ورما اور سینئر صحافی ورون موری بھی موجود ہیں ۔سنیل دعا اسٹوڈیو میں آئے ہوئے مہمانوں کا استقبال کرنے کے بعد ناظرین سے ان کا تعارف کرواتے ہیں پھر وہ سیاست کی بات چھیڑ کر اس کے غائب ہونے سے پیدا شدہ مسائل اور صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں کہ سیاست کا اس طرح غائب ہوجانا ملک کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آخر سیاست گئی کیوں؟کیا وہ واپس لوٹے گی یا نہیں؟اور اگر سیاست کی واپسی نہیں ہوتی ہے تو ملک کا کیا ہوگا؟ملک رہے گا یا ٹوٹ جائے گا ؟اس کے بعد ایک چھوٹا سا بریک لیا جاتا ہے بریک کے لئے اسٹیج کا 1/4حصہ روشنی میں رکھا جاتا ہے بریک میں ایک نیم برہنہ لڑکی کپڑے کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کو ہاتھ میں لے کر ربر انڈر وئیر بنیان کی Addپیش کرتی ہے بریک کے بعد سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوتا ہے موہت آندھی کا ماننا ہے کہ سیاست کے بغیر ملک ٹوٹ جائے گا ۔پنڈت آچاریہ اور ورون موری کے خیال میں سیاست کے غائب ہوجانے کے پیچھے مذہب اور تہذیب کے وسرجن کا ہاتھ ہے اس کے بعد ایک اور بریک لیا جاتا ہے ایک دوسری لڑکی ہاتھ میں ایک صابن لے کر گاتے ہوئے نیائے صابن کی ایڈ پیش کرتی ہے بریک کے بعد نرمل ورما سے سوال وجواب ہوتا ہے وہ اسے پوری طرح عوامی معاملہ قرار دیتے ہیں کہ آزادی کے ۵۳سالوں میں عوام نے سیاست کو کس حد تک ایکسیپٹ یا رئیکٹ کیا ہے۔
پانچویں منظر میں گردھاری لال کے گھر کا کمرہ ہے شیاما دیوی چارپائی پر بیٹھ کر چوسر کھیل رہی ہے اتنے میں گردھاری لال سبزی کا جھولا لئے اندر آتا ہے شیاما دیوی گردھاری کو اس حالت میں دیکھ کر مسکراتی ہے اور اس کا مذاق اڑاتی ہے کہ اب تم سبزی لانے لائق بھی ہوگئے پھر دونوں سبزی اور سیاست کی باتوں میں الجھ جاتے ہیں شیاما دیوی بتاتی ہے کہ سامو باؤ کا فون آیا تھا وہ شام کو پردھان منتری نواس جانے کی بات کررہا تھا۔
چھٹا منظر انتہائی اہم اور عبرت ناک ہے اس میں پردھان منتری نواس کے کمرے کا منظر پیش کیا گیا ہے جہاں پردھان منتری جٹل کمار ابھیمینو ایک لڑکی کو اپنی گرفت میں لانے کی کوشش کرتا ہے لڑکی کے کپڑے بری طرح سے پھٹ چکے ہیں وہ ڈری ہوئی ہے اور اس کے چہرے پر مکھوٹا ہے وہ ادھر ادھر بھاگتی ہے اتنے میں آنکھوں پر کالا چشمہ لگائے ایک کمانڈو اندر آتا ہے وہ پردھان منتری سے کہتا ہے کہ سامو باؤ آپ سے ملنا چاہتا ہے پردھان منتری ملنے سے منع کردیتا ہے لیکن سامو باؤ زبردستی اندر داخل ہوجاتا ہے اور اندر کا نظارہ دیکھ کر جذباتی ہوجاتا ہے پھر وہ بھی پردھان منتری کے ساتھ مل کر لڑکی کو اپنی آغوش میں بھرنے کی کوشش کرتا ہے لڑکی پیٹھ کئے سسک رہی ہے سامو باؤ آگے بڑھ کر اس کو اپنی بانہوں میں بھرتا ہے پردھان منتری چیختا ہے سامو باؤ مکھوٹے میں چھپے چہرے کو دیکھ لیتاہے اور پردھان منتری کے ساتھ اس کا سودا کرنے لگتا ہے اتنے میں لڑکی وہاں سے بھاگ جاتی ہے اس منظر میں تصادم تیز ہوجاتا ہے۔
ساتویں منظر میں گردھاری لال کے گھر کا کمرہ ہے جہاں وہ سیاست کے گم ہونے سے پریشان نظر آتا ہے اور بے چینی میں ٹہلنے لگتا ہے اتنے میں مکھوٹے والی لڑکی بچاؤ بچاؤ کی آوازیں لگاتی ہوئی اندر آتی ہے اور گردھاری سے دروازہ بند کرنے کو کہتی ہے گردھاری اس کا نام اور مکھوٹے کا راز جاننا چاہتا ہے وہ بتاتی ہے کہ میں سیاست ہوں اور سیاستدانوں کے ظلم و جبر نے مجھے مکھوٹا لگانے پر مجبور کردیا ہے آزادی کے ساتھ ہی میرا جنم ہوا ۔اتنے سالوں سے مسلسل میرا استعمال اور استحصال ہوتا رہا ہے ہر نیتا نے مجھے لوٹنے اور میرا بلاتکار کرنے کی کوشش کی ۔تم کم سوارتھی اور آزاد امیدوار ہو اس لئے تمہارے پاس آئی ہوں کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ میں تمہارے پاس ہی محفوظ رہ سکتی ہوں میں اپنی فریاد لے کر کہاں کہاں نہیں گئی سب سے پہلے تو میں ہیومن رائٹس کمیشن کے پاس گئی جب وہاں سے مجھے نا کا جواب ملا تو میں united nationsکے دفتر میں چلی گئی لیکن وہاں سے بھی مجھے مایوسی ہی ہاتھ لگی پھر گردھاری سیاست سے پوچھتا ہے کہ تم نے سوچا ہے کہ تمہارے اس طرح بھاگ جانے سے دیش کا کیا ہوگا مدعے کہاں سے آئیں گے اور اگر مدعے ہی نہیں رہیں گے تو چناؤ کیسے ہوگا ؟سیاست کہتی ہے کہ تم مجھے بچاؤ بدلے میں ،میں تمہاری مدد کروں گی وہ ا س کو ایک مدعا بتاتی ہے ’مدعا وہینتا‘یعنی جہاں کوئی مدعا نہیں ہو وہاں بھی ایک مدعا ہوتا ہے اس مدعے کو لے کر سب پارٹیوں پر چڑجاؤ اپنی حکومت بناؤ اور ایک نئے دور کا آغاز کرو۔
آٹھویں منظر میں ایک بار پھر B-newsکیupdatesپیش کی گئی ہیں اس بلیٹن میں سنیل دعا کے ساتھ دومہمان ہیں مانسک مرض کے ماہر نرمل ورما اور سیاسی ماہر انل جٹا۔مہمانوں کے استقبال کے بعد سنیل دعا قارئین کو بتاتے ہیں کہ آج سیاست کی گمشدگی کا ساتواں دن ہے ملک کی تازہ صورت حال یہ ہے کہ سیاست کے غائب ہوجانے سے لوگ خوشیاں منارہے ہیں اسٹیج اسکرین پرB-newsکی نمائندہ نگار کیرتی جین کی رپورٹ دکھائی جاتی ہے جس میں سیاست سے متعلق مختلف لوگوں کی رائے لی جاتی ہے لوگوں کا کہنا ہے کہ سیاست کے چلے جانے سے دیش کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔اس کے بعد سنیل دعا قارئین سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ ہندوستان میں سیاست کے غائب ہونے کی خبر سے دنیا کے کئی دیش بھارت میں آنے اور فرنگی حکومت کی پرانی کہانی دہرانے کو تیار بیٹھے ہیں پھر سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوتا ہے انل جٹا کا کہنا ہے کہ بھارت میں سیاست کا وجود آزادی کے ساتھ عمل میں آیا ۔نئے دیش کو سنبھلنے کے لئے وقت چاہئے اور ہندوستانیوں کے پاس تجربے کی کمی تھی اس لئے سیاست کو سنبھال نہیں پائے یہ بھی ہے کہ سیاست کے بغیر دیش کی ترویج نہیں ہوسکتی ۔نرمل ورما کا ماننا ہے کہ آزادی کے بعد سے جو حالات ہم نے سیاست کو دیے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سیاست کا اغوا نہیں ہوا یا تو وہ پاگل ہوچکی ہے یا پھر ممکن ہے کہ اس نے خودکشی کرلی ہو۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ عوام کو خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انھیں خطرہ سیاست سے نہیں بلکہ سیاستدانوں سے ہے سیاست کھوئی یا گم ہوئی ہے لیکن سیاستدان تو ابھی بھی زندہ ہیں۔
نویں منظر میں گردھاری لال سامو باؤ سے فون پر بات کرتا ہے اور اسے گھاس گھوٹالے اور ہنسوا گھوٹالے سے بری ہونے پر مبارکباد دیتا ہے ساتھ ہی اسے مدعا ملنے کی خوش خبری بھی سناتا ہے اور سامو باؤ گردھاری سے ملنے کے لئے اسے اپنے گھر بلاتا ہے۔
دسویں منظر میں گردھاری سامو باؤ کے گھر جاتا ہے سامو باؤ مدعا جاننے کے لئے بے تاب ہے مدعا جاننے کے بعد وہ زیادہ جذباتی ہوجاتا ہے اور گردھاری کا شکریہ ادا کرنے کے لئے اس کے پاؤں پڑتا ہے اور کہتا ہے کہ میں سوچتا تھا میں پھر کبھی حکومت نہیں کرپاؤں گا لیکن تم نے میرا یہ خواب پورا کردیا اب میں ’مدعا وہینتا‘پر الیکشن لڑ کر پردھان منتری بنوں گا اور تمہیں خوش کردوں گا تم اپنے گھر جاؤ میں آج ہی اسٹریٹجی بناؤں گا اور تمہارے گھر آؤں گا گردھاری لال اسے اپنے گھر آنے سے منع کرتاہے اور چلا جاتا ہے ۔
گیارھویں منظر میں گردھاری لال کا گھر دکھایا گیا ہے وہ پریشانی میں ٹہل رہا ہے سیاست اس سے پریشانی کی وجہ پوچھتی ہے اتنے میں سامو باؤ اندر داخل ہوتا ہے سامو باؤ سیاست کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے وہ گردھاری سے کہتا ہے کہ اب میں سمجھا تمہیں مدعا کہاں سے ملا ۔سیاست گردھاری سے شکوہ کرتی ہے کہ تم اس آدمی سے میرا سودا کرنے گئے تھے جس سے مجھے سخت نفرت ہے یوں تو کتنی ہی پارٹیاں آئیں کتنے سیاستدان آئے سب نے میری ذات کو روندا لیکن سب سے گھناؤنے طریقے سے اگر کسی نے میرا بلاتکار کیا ہے تو وہ یہی سامو باؤ ہے میں اسے چھوڑوں گی نہیں ۔یہ سن کر سامو باؤ وہاں سے بھاگ جاتا ہے پھر سیاست گردھاری سے کہتی ہے کہ تم ایک بڑی جن سبھا کا انتظام کرو ۔عوام کو بتاؤ کہ سیاست اپنا آخری بیان دینا چاہتی ہے پھر چاہے تم اسے پتھر مار کر ختم کردو لیکن ایک بار اس کی آواز سن لو ۔
بارھویں منظر میں اسٹیج پر ۵منٹ کے لئے بابری مسجد حادثے سے جڑی آوازیں کیرتن،بھجن،شور اور چیخ و پکار وغیرہ سنائی دیتی ہیں اس کے بعد سامو باؤ،جٹل کمار ابھیمینو اور اس کے ساتھی نندانی کے درمیان لفظی جنگ چھڑ جاتی ہے جٹل اور نندانی جان چکے ہیں کہ دھنگوں اور گھوٹالوں کے لئے سامو باؤ نے ان کا استعمال کیا ہے لوگ ان کی اصلیت جان گئے ہیں اور وہ ان کو گالیاں دے رہے ہیں وہ سامو باؤ کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اس جبر و لوٹ مار کو بند کردے جبکہ سامو باؤ ان دونوں کو سمجھاتا ہے کہ وقت کو کیش کرو اور ستا پر قابض ہونے کی کوشش کرو۔
تیرھویں منظر میں سامو باؤ پردھان منتری نواس میں پہنچتا ہے اور جٹل کمار کو خبردار کرتا ہے کہ سیاست زندہ ہے وہ سب کچھ عوام کو بتانے والی ہے وہ بتائے گی کہ ظالموں نے کس طرح اس کو زخمی اور داغدار کیا وہ یہ بھی بتانے والی ہے کہ کس طرح تم نے اس دن اس کا بلاتکار کرنے کی کوشش کی اس پر جٹل کمار کہتا ہے کہ وہ بتائے یا نہیں بتائے مگر تم ضرور جاکربتاؤگے لہٰذا اس خطرے کو ٹالنے کے لئے پردھان منتری اپنے کمانڈو سے سامو باؤ کا قتل کروادیتا ہے اور اس کی لاش کو اسی کی گاڑی میں رکھ کر بم سے اڑادیا جاتا ہے اس کے بعد جٹل کمار ایک بیان دیتا ہے کہ سامو باؤ کا قتل ایک سیاسی عمل ہے اس کا مطلب کہ سیاست زندہ ہے اور ممکن ہے کہ وہ واپس آکر سرکار اور دیش کے بارے میں الٹ پلٹ بیان دے لہٰذا عوام اس کے بیان کو قبول نہ کرے۔
چودھویں اور آخری منظر میں جن سبھا کا انتظام کیا جاتا ہے گردھاری لوگوں کی بھیڑ کو سنبھالنے کی کوشش کرتا ہے وہ لوگوں سے شانتی بنائے رکھنے اور سیاست کی آخری بات سننے کی اپیل کرتا ہے تھوڑی دیر کے بعد سیاست مکھوٹا لگائے اسٹیج پر آتی ہے تو لوگوں کی چیخ’مکھوٹا ہٹاؤ‘کی آواز میں گونجتی ہے جب تک مکھوٹا نہیں ہٹے گا ہم تمہاری بات نہیں سنیں گے لیکن سیاست کہتی ہے کہ مکھوٹا لگانا میری مجبوری ہے میں اسے نہیں اتار سکتی ۔تبھی بھیڑ میں اچانک سیاست کے چہرے سے مکھوٹا گرتا ہے اور لوگ سیاست کو دیکھ کر ایک دم خاموش ہوجاتے ہیں۔پھر سیاست اپنی آپ بیتی سناتی ہے کہ کس طرح آزادی سے لے کر اب تک مسلسل میرا استحصال کیا گیاکبھی غریبی کے نام پر،کبھی روٹی،کپڑا،لباس،کبھی فرقہ واریت اور ریزرویشن کے نام پر میری آبرو ریزی کی گئی میرے آگے پیچھے گھومنے والے لوگ انتہائی گھناؤنے اور گھٹیا تھے ان کو ستا کا نشہ تھا انھوں نے ہر بار جنتا کے ساتھ کھلواڑ کیا جس کا نتیجہ مجھے بھگتنا پڑا۔مسلسل بھوگ سمبھوگ اور پیڑا سے گذرتے ہوئے میں ایسی بن گئی کہ عام آدمی،بچے ،جوان،کالج میں پڑھنے والے،دکاندار،عورتیں میرا نام سننا تک گوارا نہیں کرتے۔آج لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں میری شکل تک دیکھنا پسند نہیں کرتے اور اس کے ذمہ دار وہ سیاستدان ہیں جو لگاتار پارٹیاں اور کپڑے بدل کر جنتا کو لوٹتے رہے ان ہی لوگوں نے آپ کو مجھ سے نفرت کرنے کے لئے مجبور کردیا۔لیکن سامو باؤ نے میرا بلاتکار انتہائی بے دردی اور بے رحمی سے کیا اس کے دور حکومت میں فرقہ واریت اپنی آخری حد کو پہنچ گئی گھوٹالہ سنسکرت کی شروعات بھی اسی نے کی اور اس طرح اس نے مجھے سب سے زیادہ پلید کیا مختلف گھوٹالوں میں ملوث ہونے کے باوجود کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ پایا۔میں جانتی ہوں سامو باؤ کا قتل کس نے کیا ہے ایک ڈرا ہوا آدمی دوسرے ڈرے ہوئے آدمی کا قتل کردیتا ہے اس میں کس کا ہاتھ ہے یہ جاننا ضروری نہیں ہے میرا استحصال کرنے والے آزاد گھوم رہے ہیں اور سزا مجھے مل رہی ہے اگر اب بھی آپ لوگ مجھ سے نفرت ہی کرنا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے لیکن میری ایک بات یاد رکھئے سیاست ہے تو دیش ہے اور دیش ہے تو آپ ہیں اس کے بعد سیاست وہاں سے چلی جاتی ہے اوربھیڑ’سیاست زندہ باد‘کے نعرے لگاتی ہے اسی پر یہ ڈراما ختم ہوجاتا ہے۔
کردارنگاری بھی ڈرامے کو کامیاب بنانے میں اہم رول ادا کرتی ہے ڈراما نگار کو کرداروں کی پیشکش میں بڑی ہوشیاری اور چابکدستی سے کام لینا پڑتا ہے اسے کرداروں کی گفتگو،افعال وحرکات،عادات واطوار اور لباس وغیرہ کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے اتنا ہی نہیں کردار کے خارجی و باطنی کیفیات وجذبات کو بھی مد نظر رکھنا ہوتا ہے تاکہ ان کی ادائیگی میں کوئی جھول نہ پیدا ہونے پائے ۔’’گڈ بائے راجنیتی‘‘کے تمام کردار حقیقی زندگی سے لئے گئے ہیں جن میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیاں بھی پائی جاتی ہیں اس ڈرامے کے کردار متوسط اور اعلٰی طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں ذوقی نے ان کے ذاتی،قومی اور سیاسی مسائل کو پیش کرنے کی سعی کی ہے سبھی کردار جدوجہد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں یہ کردار اپنے انداز گفتگو اور حرکات واعمال سے قارئین وناظرین کو متاثر کرنے میں کامیاب ہی نظر آتے ہیں ۔گردھاری لال اس ڈرامے کا مرکزی کردار ہے سارا ڈراما اسی کردار کے ارد گرد گھومتا ہوا دکھائی دیتا ہے یہ کردار پہلے منظر سے ہی قارئین یا ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے اور ڈراما ختم ہونے تک ان کی نظر یا دلچسپی اس کردار میں برقرار رہتی ہے ۔گردھاری لا راشٹریہ سائرس پارٹی کا نیتا ہے پارٹی کا صدر سامو باؤ جب گھوٹالوں میں ملوث پایا جاتا ہے اور پارٹی کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگتا ہے تو وہ اس پارٹی سے استعفٰی دے دیتا ہے اس طرح بیس سالوں میں پہلی بار وہ کسی پارٹی کو چھوڑتا ہے جبکہ اس کے یار دوست ہر سال نئی پارٹی بدل لیتے ہیں وہ ایک ایماندار اور اصولی لیڈر ہے وہ سیاست میں آیا ہے تو اس کی عزت بھی کرتا ہے اور اپنے اصولوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا ۔وہ ایک آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنا چاہتا ہے لیکن دیگر لیڈروں کی طرح اس کے پاس بھی کوئی مدعا نہیں ہے چنانچہ ایک دن اچانک سیاست اس کے گھر آتی ہے اور اس کو ایک مدعا بتاتی ہے ’مدعا وہینتا‘۔لیکن گردھاری کو سیاست کی بھوک نہیں ہے بلکہ وہ سیاست کو لوٹنے والوں کو ان کے انجام تک پہنچانا چاہتا ہے اور اس کے لئے وہ ایک واضح لائحہ عمل طے کرتا ہے سامو باؤ کو لالچ دے کر اس کو مدعا بتاتا ہے سامو باؤ حکومت کے لالچ میں آکر جذباتی ہوجاتا ہے اور موت کے منہ میں چلا جاتا ہے گردھاری لال سیاست کو لوگوں کے سامنے لاتا ہے اور سیاست کے تئیں ان کی نفرت کو شانت کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اس طرح وہ سیاست کی کھوئی ہوئی عزت بحال کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اس کردار کے ذریعہ ذوقی نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ آج کے corruptاور خودغرضی کے عہد میں بھی گردھاری جیسے ایماندار لیڈر موجود ہیں جو سیاست کی ساکھ کو بچائے ہوئے ہیں اور جو پیسوں اور حکومت سے زیادہ اپنے ایمان اور اصولوں کو اہمیت دیتے ہیں اور لوگوں کی صحیح اور بہتر نمائندگی کرنے میں کوشاں رہتے ہیں۔
دوسرا اہم کردار سیاست کا ہے وہ مسلسل چوٹ اور درد و کرب کے عمل سے گذرتی ہے اور سیاستدانوں کے جرم اور استحصال کا شکار بنتی ہے ہر کسی نے اس کا استعمال اور بلاتکار کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے اس کا وجود زخموں سے چھلنی ہوگیا ہے لوگ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور وہ ان سے بچنے کے لئے چہرے پر مکھوٹا لگا لیتی ہے سامو باؤ اور جٹل کمار سے بچ کر وہ گردھاری لال کے پاس جاتی ہے اور اس سے اپنی عزت اور سلامتی کی فریاد کرتی ہے وہ لوگوں سے ڈرتی ہے مگر اہم بات یہ ہے کہ وہ ان کے سامنے سچ بولنے کی ہمت پیدا کرلیتی ہے ۔
’’ان برسوں میں آپ نفرت کرنے کے لئے مجبور کردیے گئے ہیں مجھ سے۔میں جانتی ہوں سارا دیش مجھ سے نفرت کرتا ہے ۔لیکن کیوں؟میرا قصور کیا ہے ۔لگاتار میرا استحصال کرنے والے آزاد گھوم رہے ہیں اور سزا مجھے ملتی رہی۔۔۔۔لیکن ایک بات یاد رکھئے ۔۔۔سیاست کو عزت دینا بھی آپ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی۔گڈ بائے راجنیتی۔ص۔۶۴)
یہ حا لات اور سیاسی رسہ کشی کا مارا ہوا کردار ہے جس کے ذریعہ مصنف نے موجودہ سیاست کی بہت سی بند پڑی گرہوں کو کھولنے کی کوشش کی ہے اس کی کمزوریوں،اس کے مرتبے اور اہمیت و افادیت کو سامنے لانے کی ایک پہل کی ہے ڈرامے میں حرکت و عمل کا محور یہی کردار ہے ۔
اس ڈرامے کا دلکش کردار شیاما دیوی ہے وہ گردھاری لال کی بیوی ہے یہ ایک مزاحیہ کردار ہے جواکثر اپنے شوہر اور سیاسی اتھل پتھل پر طنز کرتی نظر آتی ہے وہ گھر اور شوہر کو سنبھالنے کے علاوہ سیاست کا بھی گہرا شعور رکھتی ہے وہ سیاستدانوں کی چالوں اور ان کے ظاہری ڈھونگ سے بھی واقف ہے اسے پتہ ہے کہ کس طرح یہ لیڈر اپنے مطلب کے لئے عام لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں اور ان کا استعمال کرتے ہیں وہ صرف ایسا سوچتی ہی نہیں بلکہ بولتی بھی ہے یہ کردار عقلمند اور سلجھی ہوئی ہندوستانی عورتوں کی نمائندگی کرتا ہے اس کے ذریعہ ڈراما نگار نے عام عورتوں کے اندر سیاسی بیداری لانے کی کوشش کی ہے یہ کردار تھوڑی دیر کے لئے اسٹیج پر آتا ہے مگر دیکھنے اور پڑھنے والوں پر اپنا گہرا نقش چھوڑ جاتا ہے۔
سامو باؤ اور جٹل کمارابھیمینو کے کردار بھی ڈرامے میں اہم رول ادا کرتے ہیں ان دونوں کو ستا اور حکومت کا نشہ ہے یہ اس قدر خود غرض اور لالچی لیڈرہیں کہ معصوم عوام کو دھوکہ دے کر ان کے چولہے سے روٹی چھین لیتے ہیں یعنی ان کی روزی روٹی پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اور پھر ان پر دباؤ ڈال کر ووٹ حاصل کرتے ہیں حکومت میں آنے کے بعد عیش کرتے ہیں اور لوگوں کو مذہب کے نام پر لڑاتے ہیں ایک بڑے پیمانے پر ان کا قتل کرواتے ہیں اور ان میں آپسی پھوٹ اور بھید بھاؤ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر خوشیاں مناتے ہیں جبکہ لوگوں کے زمینی مسائل کی انھیں سرے سے کوئی فکر نہیں ۔اتنا ہی نہیں گھاس گھوٹالے یا دوسرے کئی گھوٹالوں میں ملوث ہونے کے باوجود باعزت رہا کردیے جاتے ہیں اور لوگوں میں کھلے عام گھومتے پھرتے ہیں جیسے کچھ کیا ہی نہ ہو۔یہ اس قدر بے شرم اور بے حیا لیڈر ہیں کہ سیاست کا استعمال اور اس کو روندنے اور بدنام کرنے کے لئے پھر سے الیکشن لڑنے کی تیاری کرتے ہیں لیکن مدعا نہ ملنے کی وجہ سے آپسی رنجش میں مبتلا ہوجاتے ہیں الگ الگ پارٹیوں کی نمائندگی کرنے کے باوجود یہ دونوں ایک ہی سوچ اور visionرکھتے ہیں سیاست کو لوٹنے کے عمل میں یہ دونوں کردارآپس میں بھڑ جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں جٹل کمار ساموباؤ کاقتل کروادیتا ہے اور اس کی موت کو خودکشی ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
’’ساموباؤ کی لاش انہیں کی گاڑی میں لے جاکر گاڑی ہائیوے پر کھڑی کردو۔دو ہیومین بم تیار کرو اور آدھے گھنٹے میں سامو باؤ کا کریا کرم ہوجانا چاہئے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی۔گڈ بائے راجنیتی۔ص۔۵۹)
یہ ہے ہندوستانی سیاست دانوں کا اصل چہرہ جسے ذوقی نے اس ڈرامے کے ذریعہ ننگا کرنے کی کامیاب سعی کی ہے یہ کردار ان لیڈروں اور نیتاؤں کی نمائندگی کرتے ہیں جو حکومت میں آنے کی ہوس میں اس قدر گھٹیا اور گھناؤنے کام کرتے ہیںکہ انھیںانسان کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے آج کی سیاست میں ایسے ہی بھیڑیے دیش کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں مذکورہ بالا کرداروں کے علاوہ موہت آندھی،سنیل دعا،نندانی،نرمل ورما ،انل جٹا،کیرتی،ورون موری،پنڈت آچاریہ اور دیگر کردار بھی ڈرامے کے پلاٹ کو مکمل کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
مکالمہ نگاری کو بھی ڈرامے کا ایک اہم جز شمار کیا جاتا ہے یہ ڈراما کی جان ہے کردار کی کامیابی کا راز اسی میں پوشیدہ ہے مکالمے کے ذریعہ ہمیں کردار کی صحیح شخصیت کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے کیونکہ اسی کے ذریعہ کردار اپنے تمام خیالات وجذبات اور تاثرات کا اظہار کرتا ہے مکالمہ نگاری انتہائی مشکل اور نازک مرحلہ ہوتا ہے اس لئے ڈراما نگار کو چاہئے کہ وہ مکالموں میں طوالت،بے ربطی،مشکل الفاظ اور طویل خودکلامی سے پرہیز کرے۔مکالمے مختصر،صاف،سادہ اور واضح ہونے چاہئے جہاں تک ’’گڈ بائے راجنیتی‘‘کا تعلق ہے تو اس میں ہر قسم کے مکالموں کا استعمال کیا گیا ہے اکثر مکالمے ہندی زبان میں لکھے گئے ہیں جو کہ اردو والوں کے لئے ایک عیب سمجھا جاتا ہے حسب معمول انگریزی کے الفاظ کا بھی استعمال کیا گیا ہے ہندی اور انگریزی الفاظ کی بھرمار ڈرامے کے حسن کو متاثر کرتی ہے اس ڈرامے کا عنوان ہی ہندی انگریزی الفاظ کا مجموعہ ہے لہٰذا اس کو ہندی نما ڈراما کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔کچھ مقامات پر طویل مکالموں کا سہارا لیا گیا ہے جو نہ صرف پڑھنے اور دیکھنے والوں کو بوریت کا احساس کرواتے ہیں بلکہ ڈرامے کے ربط و تسلسل میں بھی رکاوٹ پیدا کرتے ہیں کہیں کہیں یہ مکالمے دو صفحات سے بھی تجاوز کر گئے ہیں اس طرح طویل مکالموں کا استعمال قارئین کی توجہ ہٹانے کا باعث بنتا ہے جو کہ ڈرامے کے لئے ایک معیوب عمل کہا جاتا ہے لیکن اس سے بھی انکار نہیںکہ ڈراما نگار نے ان مکالموں میں ایک توازن بنائے رکھنے کی بھی کوشش کی ہے جہاں طویل مکالمے ہیں وہاں مختصر،سادہ اور برجستہ مکالمے بھی ملتے ہیں چند مکالمے ملاحظہ ہوں:
’’پہلی پارٹی:جیتے گا بھئی جیتے گا۔جن تانترک مورچہ جیتے گا۔۔۔vote for J.M vote for Jantantrik morcha
دوسری پارٹی:واہ بھئی واہ جنتا گٹھ بندھن!جنتا کا اصلی گٹھ بندھن!باقی بندھن ہلکے جھوٹے سچا ہے جنتا گٹھ بندھن۔۔۔vote forجنتا گٹھ بندھن۔‘‘(مشرف عالم ذوقی۔گڈ بائے راجنیتی۔ص۔۶)
’’نائک(چٹ لے کر):گردھاری لال !نام کیوں نہیں بدل لیتے آپ۔
گردھاری:نام؟ارے ۔راجنیتی میں ۲۰ سال سے ہوں ۔سارا دیش جانتا ہے مجھے۔
نائک:دیش کی نظر کمزور ہے ۔دماغ بھی ۔۲۰ سال کیا ۔۲۰۰ سال کا اتہاس بھول سکتی ہے ۔(ٹھہاکا)دیش کیا ہے وہ طوطا ہے طوطا سب کچھ نئے سرے سے رٹوا سکتے ہیں ۔ارے آپ کے نام سے ایک ذات کی گندھ آتی ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی۔گڈ بائے راجنیتی۔ص۔۱۰)
ان مکالموں میں الیکشن کے وقت سیاسی پارٹیوں کا جوش وخروش اور لیڈروں کے پارٹی بدلنے کی مہم کے بنیادی نقطوں کی نشاندہی ہوتی ہے کہ کس طرح خود غرض نیتا ایک دوسرے کو پارٹی بدلنے یہاں تک کہ اپنا نام بدلنے کی بھی صلاح دیتے ہیں انھیں اپنی ذات،شخصیت اور عزت کی کوئی پرواہ نہیںگویا سیاسی مفاد کے لئے وہ اپنی شنا خت مٹانے کو بھی تیار ہیں مصنف نے ان مکالموں کے ذریعہ آج کے سیاسی منظر نامے کو آئنہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔
’’گردھاری:پران پریہ،میری پران پیاری،پکڑو اسے۔
شیاما:کیا ہے یہ؟
گردھاری:سبزی ہے۔
شیاما:تم لائے؟تم سبزی لائے۔
گردھاری:نہیں ۔آکاش سے فرشتے اترے اور سبزی لیتے ہوئے آگئے۔
شیاما:نہیںمذاق مت کرو۔مجھے ہنس لینے دو۔یعنی اب تم سبزی لانے لائق بھی ہوگئے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی۔گڈ بائے راجنیتی۔ص۔۲۴)
’’سامو :مدعا ہے تمہارے پاس۔کہاں ہے یار نکالو۔نکالو۔جتنا چاہو مجھ سے لے لو۔جو چاہئے وہ مانگ لو۔لیکن مدعا کہاں ہے؟
گردھاری:ہے نہ؟میرے پاس۔
سامو :مذاق مت کرو۔جیب میں ہے کیا؟
گردھاری:کیسی باتیں کرتے ہیں آپ۔مدعا کیا جیب میں ہوتا ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی۔گڈ بائے راجنیتی۔ص۔۴۸)
ان مکالموں میں طنز ومزاح سے کام لیا گیا ہے جس سے نہ صرف ڈرامے میں دلچسپی برقرار رہتی ہے بلکہ دیکھنے والوں کی اصلاح بھی ہوجاتی ہے ان کو کچھ سیکھنے کا موقع مل جاتا ہے۔
چند اور مکالمے ملاحظہ ہوں:
’’گردھاری(پریشانی سے):سامو باؤ۔یہ کیا کررہیں آپ؟
سامو:اپنے سے چھوٹے کے پاس زیادہ عقل ہو تو پاؤں چھونے میں شرم کیسی۔‘‘(مشرف عالم ذوقی۔گڈ بائے راجنیتی۔ص۔۵۰)
’’نندانی :وہاں۔سامو باؤ۔لوگ مرکٹ رہے ہیں۔سڑکوں پر۔گاڑیوں پر۔ایک بار پھر بٹوارے کے بعد خون کا سیلاب آیا ہوا ہے ۔
سامو:اور ذمہ دار میں ہوں۔
جٹل:لوگ ہمیں گالیاں دے رہے ہیں۔دیشی ودیشی پریس سے عام آدمی تک۔
نندانی:آپ جانتے تھے،حویلی سے ہندو منتر تک،ہم سب کچھ ووٹ بینک کے لئے کررہے تھے۔آپ نے یہ منتر گنوادیا سامو باؤ۔یہ پالٹکس نہیںہے۔ویشیاورتی ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی۔گڈ بائے راجنیتی۔ص۔۵۶)
ان مکالموں کے ذریعہ ان بڑے سیاستدانوں کو طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے جن کے ہاتھوں میں دیش کا مستقبل سونپا جاتا ہے لیکن ان کو ملک کی نہیں بلکہ اپنی فکرہے کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ مال جمع کیا جائے اور عیش اڑائی جائے یہ لوگ اپنے گھٹیا اور گھناؤنے منصوبوں کا استعمال کرکے لوگوں میں فرقہ پرستی کی آگ کو بھڑکاتے ہیں اور ان کی جانوں کا سودا کرتے ہیں جس کی وجہ سے آج دیش میں خوف و دہشت کے بادل منڈرارہے ہیں یہ لوگ اس قدر گرے ہوئے ہیں کہ سیاست کی ہوس اور لالچ میں دوسروں کے پاؤں پڑنے میں بھی گریز نہیں کرتے۔ظاہر سی بات ہے کہ ایسے لیڈروں سے دیش کی ترقی اور کامیابی کی امیدیں رکھنا فضول ہے چنانچہ لوگوں کو جاگنے اور خبردار رہنے کی ضرورت ہے اپنے ملک کو ایک نئی اڑان دینے کے لئے عوام کو اپنی سوچ اور شعور کو بیدار کر کے سچے اور ایماندار لوگوں کو منتخب کرنا ہوگا جو ملک کی ڈور کو نہ صرف ٹوٹنے سے بچائے بلکہ اس کو اور مضبوط بنانے کی اہلیت رکھتے ہوں تاکہ ہر قسم کے امتیاز،فرق،نفرت اور گندی ذہنیت کو مٹا کر ملک کا ایک روشن مستقبل وجود میں لایا جاسکے۔
ڈرامے کا سب سے اہم اور لازمی جز کشمکش ہے کشمکش یا تصادم کو ڈرامے کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے اس سے نہ صرف واقعات میں اتار چڑھاؤ پیدا ہوتا ہے بلکہ قارئین کی اصلی دلچسپی کا باعث یہی ہے اس کے مختلف مرحلے ہوتے ہیں تصادم کی ہر کیفیت کو دلچسپ اور کامیاب بنانے کے لئے کرداروں کے نفسیاتی مطالعہ اور ان کی فطری خصوصیات کو سامنے رکھنا ضروری ہے ۔’’گڈ بائے راجنیتی‘‘میں داخلی اور خارجی دونوں طرح کا تصادم ملتا ہے داخلی تصادم گردھاری لال اور سامو باؤ کے درمیان ہوتا ہے لیکن یہ ایک طرفہ جنگ ہے اس لئے اس تصادم کو ڈرامانگار واضح طور پر نمایاں کرنے میں ناکام نظر آتا ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ ان کرداروں کی نفسیاتی کیفیات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا۔شاید یہی وجہ ہے کہ اس ڈرامے میں داخلی تصادم برائے نام ہی دیکھنے کو ملتا ہے البتہ خارجی تصادم اپنے عروج پر نظر آتا ہے یہ تصادم سیاست اور دو سیاستدانوں سامو باؤ اور جٹل کمار ابھیمینو کے مابین چلتا ہے یہ کشمکش یا تصادم پہلے منظر سے ہی قارئین اور ناظرین کی توجہ بنائے رکھتا ہے ڈرامے کے ابتداء میں جو تجسس ہے اس کی وجہ سے دلچسپی بڑھتی ہے اور اس طرح مختلف مرحلوں سے ہوتے ہوئے یہ تصادم نقطہ عروج پر پہنچ کر ڈرامے کو اختتام تک پہنچاتا ہے تصادم میں شدت اور تیزی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب پردھان منتری جٹل کمار اور سامو باؤ سیاست کو دبوچتے ہیں اور ایک دوسرے سے چھین کر اس کا بلاتکار کرنے کی کوشش کرتے ہیں پھر وہ آپس میںلڑنے لگتے ہیں اتنے میں سیاست ان کے ہاتھوں سے نکل کر بھاگ جاتی ہے اور وہ ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں لیکن سیاست کو لوٹنے کے لئے دونوں کی اپنی اپنی سطح پر کوششیں جاری رہتی ہیں اور آخر کار فتح سیاست کی ہی ہوتی ہے اس طرح یہ تصادم کامیابی کے ساتھ نقطہ عروج پر پہنچتا ہے اور انتہائی فطری طور پر اپنی منزلیں طے کرتا ہوا آگے بڑھتا رہتا ہے اور قارئین کی دلچسپی برقرار رہتی ہے جو کہ اس کی کامیابی کی دلیل ہے ذوقی نے اس ڈرامے کو پیش کرنے میں اتحاد زمان ومکاں کے علاوہ اتحاد عمل اور اتحاد اثر کا بھی خاص خیال رکھا ہے اس ڈرامے میں تاریخی اور سیاسی حقائق کے عمدہ نمونے بھی ملتے ہیں ۔ڈرامانگار نے اس ڈرامے کو شروع سے آخر تک دلچسپ بنانے کی پوری کوشش کی ہے اسٹیج کا ساز وسامان ،کرسیاں،میز ،ٹیلیفون،پردے اور چارپائی کے علاوہ میوزک اور مختلف قسم کی آوازیں ڈرامے کو دلچسپ اور جازب نظر بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’گڈ بائے راجنیتی‘‘فنی اعتبار سے ایک مکمل ڈراما ہے ذوقی کی ڈراما نگاری میں اس کا ایک خاص مقام ہے یہ نہ صرف ان کے لئے بلکہ اردو ادب کے لئے بھی ایک سرمایہ کی حیثیت رکھتا ہے یہ سیاسی مسائل پر ایک بہترین ڈراما ہے جو عصری سیاست کے چہرے سے مکھوٹا ہٹاکر اس کی بد صورتی،گندگی اور ناپاکی کو عیاں کرتا ہے۔
ذوقی کے ڈراموں کا ایک مجموعہ’’چار ڈرامے‘‘کے عنوان سے ۱۹۹۷ء میں شائع ہوا اس مجموعے میں ’’رمبھا رمبھا‘‘،’’ایک اور شہادت‘‘،’’سب سے اچھا انسان‘‘اور ’’ایک ہارے ہوئے آدمی کا کنفشن‘‘شامل ہیں غور طلب ہے کہ یہ تمام ڈرامے مصنف کے پاس دستیاب نہیں ہیں اور وہ ان کو پھر سے جمع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ انھیں ایک کتابی صورت میں قارئین کے سامنے لایا جاسکے۔اس کے علاوہ’’نفرت کے دنوں میں‘‘اور’’ایک سڑک ایودھیا تک‘‘ان کے ہندی ڈرامے ہیں ۔’’گڈ بائے راجنیتی‘‘ہندی میں بھی ہے اور اردو میں بھی ۔’’نفرت کے دنوں میں ‘‘پہلی بار کہانی کی شکل میں ہندی رسالہ’پاکھی‘میں چھپ کر سامنے آیا۔چھپنے کے فوراًبعد اسی سال ’بھارت مہوتسو‘میں اس کو اسٹیج کیا گیا اس کے بعد یہ ڈراما بھوپال اور اتراکھنڈ میں بھی کئی بار اسٹیج ہوا۔
یہاںاس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ ذوقی نے نہ صرف اسٹیج ڈرامے ہی لکھے بلکہ انھوںنے چھوٹے پردے یعنی ٹیلی ویژن کے لئے ڈرامے اورٹیلی فلموں کے لئے بطور ڈائریکٹر اور پروڈیوسر بھی کام کیا ۔۱۹۸۸ء میں وہ الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ہو گئے یہ وہ زمانہ تھا جب اتنے سارے ٹی وی چینلزوجود میں نہیں آئے تھے ذوقی نے دور درشن اور مسنٹریز کے لئے ۲۶سال کی عمر سے ہی پروگرام بنانا شروع کردیا ۔ابتداء میں ان کو دور درشن کی جانب سے چھوٹی چھوٹی فلمیںہی ملیں مگر چونکہ وہ اس فیلڈ میں اپنے پاؤں جمانا چاہتے تھے اور اپنی صلاحیتوں کا بخوبی استعمال کر کے ایک لمبی اڑان بھرنے کا ارادہ رکھتے تھے اس لئے انھوں نے ہر چھوٹی بڑی فلم میں کام کرنا شروع کیا۔چنانچہ بطور فلم میکر اور ہدایت کار انہوں نے پٹرولیم کنزرویشن،ملی اتحاد،ہندو مسلم ایکتا اور قومی یکجہتی جیسے موضوعات پر فلمیں بنائیں۔اسی زمانے میں این ۔ایس فلمس نے ذوقی کے پہلے افسانوی مجموعے ’’بھوکا ایتھوپیا‘‘کی کہانیوں کو لے کر ایک سیریل ’’مذہب نہیں سکھاتا‘‘کے نام سے بنایاجو دور درشن پر دکھایا جاتا رہا ۔یہ ایک کامیاب سیریل تھا اور اس کی بہت پذیرائی بھی ہوئی۔۱۹۸۸ء میں ہی انھوں نے باقاعدہ طور پر ’ذوقی فلمز‘کے نام سے پروگرام بنانے کا آغاز کیا۔۱۹۹۱ء میں انھوں نے اپنی شریک حیات تبسم فاطمہ کے ساتھ مل کر ’ارم پروڈکشنز‘کا قیام عمل میں لایا جس کے تحت دوردرشن اور منسٹریز کے لئے پروگرام بنانے کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔’ارم پروڈکشنز‘کے ذریعے ذوقی نے اپنی کہانیوں’پربت‘اور’بوڑھے جاگ سکتے ہیں‘پر ٹیلی فلمیں بھی بنائیں۔
ذوقی نے اسکرپٹ لکھنے سے الیکٹرانک میڈیا کی شروعات کی ان کا پہلا سیریل ’’الجھن‘‘ تھا جو انہوں نے ایک آڑیہ پروڈیوسر کے لئے بنایا تھا اس کے بعد ذوقی نے ’’صبح صبح‘‘سیریل کی اسکرپٹ لکھی اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہا۔الیکٹرانک میڈیا سے ذوقی کی وابستگی کے تقریباً۲۷ سال مکمل ہو چکے ہیں اور اب تک وہ ۱۰۰ سے زیادہ ڈکیومنٹری فلم بنا چکے ہیں اورلگ بھگ۳۰ کہانیوں پر سیریل بھی کر چکے ہیںٹی وی چینلز کے علاوہ انھوں نے ریڈیو کے لئے بھی کام کیا ہے ان کے بہت سے سیرئل ریڈیو پر نشر ہو چکے ہیں ۔ ذوقی نے ہندی اور اردو کے تقریباً باون بڑے لوگوں پر جن میں قراۃالعین حیدر ،نامور سنگھ،راجندر یادو،جوگندر پال،ڈاکٹر محمد حسین وغیرہ شامل ہیں ٹیلی فلمیں بنائی ہیں جن مشہور ٹیلی فلموں کے لئے انہوں نے بطور ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کام کیا ان میں ’پربت‘،’دکھاوا‘،’سارا دن سانج‘،’انجم‘،’نصبن‘،’سورج کا سفر‘،’ایک نئی صبح‘،’رنجش‘اور ’آنگن کی دھوپ‘،’انجام‘،’رکا ہوا درد‘،’بندش‘،’دو رنگ‘اور’سنگھرش‘وغیرہ قابل ذکر ہیں جو دور درشن کے نیشنل چینل پر نشر کی گئیں۔
بحیثیت پروڈیوسر انہوں نے اپنے ناول ’’مسلمان‘‘پر ایک سیریل بنایاجو’’ملت‘‘کے نام سے مقبول ہوا۔یہ سیریل دور درشن کے نیشنل چینل سے ٹیلی کاسٹ کیا گیا اور کافی کامیاب رہا اس میں کام کرنے والے کئی اداکار اب بڑے پردے سے وابستہ ہو چکے ہیں۔ڈی ڈی ون سے نشر ہونے والے دیگر سیریلز میں ’آبروئے غزل‘،’عکس پاس عکس‘،’ورق ورق چہرہ‘،’جوالہ مکھی‘،’رنجشیں‘،’کتابوں کے رنگ‘،’نشیمن‘اور’ساتواں سورج‘ وغیرہ کافی مقبول ہوئے۔بلونت سنگھ کے مشہور ناول’’رات،چور اور چاند‘‘پر ای ٹی وی اردو کے لئے بھی ذوقی نے ایک سیریل بنایا جو بہت مشہور ہوابلونت سنگھ کا یہ ناول ایک ڈاکو کی زندگی پر مبنی تھا جو جیل سے چھوٹ کر آنے کے بعد بھی خود کو نہیں بدلتا ۔اس سیریل کا کچھ حصہ جموں میں بھی شوٹ کیا گیا۔ اسی طرح انہوں نے سہیل عظیم آبادی کے مشہور ناول ’’بے جڑ کے پودے‘‘پر ایک سیریل بنایا جو ای ٹی وی اردو پر قسط وار نشر کیا گیا۔ ان کا سیریل ’دوسرا رخ‘بھی ای ٹی وی اردو پر دکھایا گیا اس سیریل کی شوٹنگ کشمیر میںہوئی۔ اس کے علاوہ ۲۰۱۴ء میں ذوقی کی کہانیوں کے مجموعے ’’لینڈ اسکیپ کے گھوڑے‘‘اور ’’صدی کو الوداع کہتے ہوئے‘‘پر ڈی ڈی اردو سے بھی سیریل دکھائے جا چکے ہیں ان کا ایک اور سیریل’تلاش‘کشمیر چینل پر نشر کیا گیا۔ذوقی کے جو سیریل دور درشن جموں سے نشر کئے گئے ان میں ’کشمیر سچائی کے رو بہ رو‘،’چوک‘،’مقصد‘،’الجھن‘،’اکیسویں صدی کے بچے‘اور افسانوی مجموعہ’ بھوکا ایتھوپیا‘پر مبنی ڈراما سیریل ’مذہب نہیں سکھاتا‘وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں اس کے علاوہ ریڈیو کے لئے لکھا گیا ان کاسیریل’عجیب داستاںہے یہ‘بھی کافی مشہور ہوا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ذوقی اپنی کہانیوں کی اسکرپٹ اور نغمے بھی خود ہی لکھتے ہیں ان کی اسکرپٹ پر مبنی ایک کتاب ’’ٹیلی اسکرپٹ‘‘کے عنوان سے بہت جلد قومی اردوکونسل سے شائع ہونے والی ہے۔ ان دنوں وہ اپنے تاریخی سیریل ’داراشکوہ ‘کی شوٹنگ میں مصروف ہیں اس کے علاوہ اور بھی کئی ایسے پراجیکٹ ہیں جن پر وہ کام کر رہے ہیں سیریل ہو یا ڈکیومنٹری وہ اپنی بات کو بہت خوبصورتی سے کہنے کا فن جانتے ہیں ۔مختصر یہ کہ ذوقی کے ادبی سفر میں الیکٹرانک میڈیا کے پروگراموں کا بھی اہم کردار رہا ہے اس لئے ان کی ان خدمات کو قطعی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔