۱۹۸۰ء کے بعد کے افسانہ نگاروں کی اگر بات کریں تو ایک لمبی فہرست نظر آتی ہے ان میں ایک نمایاں نام مشرف عالم ذوقی کا ہے ۔ مشرف عالم ذوقی نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں وہاں شعر و ادب کی گونج تھی ان کا گھر کوٹھی کہلاتا تھا جہاں مشاعروں کا انعقاد کیا جاتا تھا اور کہانیاں بھی سنائی جاتی تھیں ۔ذوقی کو شاعری سے زیادہ کہانیوں میں دلچسپی تھی اس لئے چھوٹی عمر میں ہی وہ کہانیوں اور ناولوں کی طرف متوجہ ہوئے ان کا سب سے پہلا افسانہ ’’جلتے بجھتے دیپ‘‘ہے جو انھوں نے ریڈیو کے لئے لکھا تھا لیکن ان کا پہلا افسانہ جو اشاعت کی منزلوں سے گزرا وہ ’’لمحہ رشتوں کی صلیب‘‘ہے یہ’ کہکشاں‘ممبئی میں ۱۹۷۵ء میں شائع ہوا ۔یہ افسانہ انھوں نے محض ۱۳ سال کی عمر میں لکھا اسی سال ان کا ایک اور افسانہ ’’موڑ‘‘کلام حیدری کے رسالہ ’آہنگ‘ میں شائع ہوا ۔ذوقی پریم چند سے بہت متاثر نظر آتے ہیں ان کی ایک بات کو ذوقی نے پلے باندھ لیا کہ ادیب تو مزدور ہوتا ہے اور ادب ایک ادیب کے لئے مزدوری کرنے جیسا ہے چنانچہ اسی خیال نے انھیں دن رات کہانیوں کی تلاش میں کوشاں رکھا اور وہ مسلسل غور وفکر کرنے لگے اور نئی نئی کہانیاں اردو ادب کی جھولی میں ڈالنے لگے ۔دراصل کسی چیز کا شوق ہوناالگ بات ہے اور اس چیز کی لگن ہونا اور بات۔ذوقی کے اندر کہانیاں تلاش کرنے کی لگن تھی اور یہی وجہ تھی کہ میٹرک تک ان کی کہانیاں ’کہکشاں‘،’آہنگ‘،’بیسویں صدی‘،’شمع‘اور اس وقت کے تمام اہم ادبی رسائل و جرائد میں چھپ چکی تھیں۔
روسی ادب سے ذوقی کو ایک خاص قسم کا لگاؤ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر روسی ادیبوں کے یہاں زندگی کے گونا گوں مسائل اور ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کی جسارت ملتی ہے۔بورس پولو کی کہانی’’The story of a real man‘‘، ہیمنگوے کی ’’The old man and the sea‘‘اورترگنیف کی کہانی’’The father and the son‘‘ذوقی کو بے حد پسند ہیںاور وہ ان سے بہت متاثر بھی ہوئے ۔اردو میں پریم چند کے علاوہ منٹو،راجندر سنگھ بیدی اور کرشن چندر کے افسانے انھیں متاثر کرتے رہے اسی طرح ایک مدت تک ذوقی کہانیوں کی ہر طاقتور موج کے ساتھ بہتے رہے اور اس کی طغیانی کو محسوس کرتے رہے کسی نے انھیں حیرت کے جنگل میں بھٹکنے پر مجبور کیااور کسی نے ذہنی اذیت سے دوچار کیا۔جب وہ دلی آئے تو یہاں کی بھیڑ بھری سڑکوں پر بھی ہیمنگوے کا ’’The old man and the sea‘‘ان کے دماغ پر سوار تھا ۔دلی کی تنگ دست زندگی نے انھیں حالات سے نبرد آزما ہونے کا جذبہ فراہم کیا اوراس جذبے نے ذوقی کو ایک ترقی پسند انہ رنگ دیا جو تقریباً۱۹۸۵ء سے ۱۹۹۵ء تک کی کہانیوں پر غالب رہالیکن ذوقی ہمیشہ یہ محسوس کرتے رہے کہ یہ وہ منزل نہیں ہے جس کی ان کو تلاش ہے پھر انھوں نے اپنا تجزیہ کیا ۔ایک نئی روش اپنائی اور ایک نئی ڈگر پر چل پڑے۔
ذوقی کا کمٹمنٹ زندگی کی سچائیوں سے ہے اس لئے وہ زندگی کے بیان کو اپنے افسانوں میں جگہ دینے پر زور دیتے ہیں وہ روایتی انداز میں بنی گئی کہانیوں پر یقین نہیں رکھتے اور نہ ہی روایت سے یکسر انحراف کرتے ہیںوہ اپنے افسانوں میں علامتوں کا استعمال کرتے ہیں ساتھ ہی بیانیہ اور فنٹاسی کا خوبصورت استعمال ان کی کہانیوں میں جان ڈال دیتا ہے ایک طرف جہاں ان کے افسانوں میں سماجی اور سیاسی شعور کی جھلک دکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف ان میں تاریخ کی گونج بھی سنائی دیتی ہے یہ ذوقی کا وہ انداز بیان ہے جو برصغیر میں بہت کم افسانہ نگاروں کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے ۔
ذوقی کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ بہت تیزی سے لکھتے ہیں اگر انھیں Fast writerیا تیز ادیب کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔چاہے افسانے ہوں یا ناول وہ مسلسل ایک کے بعد ایک نئی تخلیق سامنے لاکر قاری کو چونکاتے رہتے ہیں اب تک ان کے سات افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ان میں ’’بھوکا ایتھوپیا‘‘،’’منڈی‘‘،’’غلام بخش اور دیگر کہانیاں‘‘،’’صدی کو الوداع کہتے ہوئے‘‘،’’لینڈاسکیپ کے گھوڑے‘‘،’’ایک انجانے خوف کی ریہرسل‘‘اور ’’نفرت کے دنوں میں‘‘شامل ہیںمذکورہ بالا تمام افسانوی مجموعوں کی تفصیل اور تجزیہ ذیل میں کیا جارہا ہے۔
(i) ’’بھوکا ایتھوپیا‘‘
’’بھوکا ایتھوپیا‘‘ذوقی کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جو ۱۹۹۳ء میں منظر عام پر آیا۔یہ مجموعہ ۲۳ کہانیوں پر مشتمل ہے چونکہ اس مجموعے کے منظر عام پر آنے سے پہلے ہی ذوقی اردو دنیا میں بطور افسانہ نگار متعارف ہوچکے تھے اور ان کے بہت سے افسانے ہندوستان کے بہت سے اہم رسائل و جرائد میں چھپ کر قارئین سے داد تحسین وصول کرچکے تھے اس لئے اس مجموعے کے سامنے آنے سے ایسا نہیں ہوا کہ لوگوں نے پہلی دفعہ ان کی کہانیوں کو پڑھا ہو لیکن ذوقی کے ادبی خصوصاً افسانوی سرمائے میں اس مجموعے کوایک خاص اہمیت حاصل ہے ۔
بھوک،افلاس و غربت،جبر واستحصال،تقسیم کا المیہ اور اس سے پیدہ شدامسائل،ہجرت کا کرب،طبقاتی کشمکش،سماجی کرب اور شہری زندگی کے مسائل وغیرہ ان افسانوں کے اہم موضوعات ہیں ۔
تقسیم ہندو پاک ایک ایسا المیہ ہے جس پر سینکڑوں افسانے لکھے گئے تقریباً تمام بڑے افسانہ نگاروں نے اس موضوع پر افسانے تخلیق کئے ہیں مگر سب کے زاویے جداگانہ ہیں اور موضوع کے برتاؤ کے لحاظ سے بھی انفرادیت ہے چنانچہ آج بھی اس موضوع پر کہانیاں لکھنے کی گنجائش موجود ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ اس موضوع پر لکھے گئے افسانے فرسودہ مضامین کے دائرے میں آئیں گے یا قارئین ان کو پڑھنا پسند نہیں کریں گے بلکہ یہ ایک تاریخی موضوع ہے جس کی ضرورت ہر عہد میں محسوس کی جائے گی چنانچہ مشرف عالم ذوقی نے بھی تقسیم کے اس کرب کو اپنے بیانیہ انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے اس ضمن میں ’’بھوکا ایتھوپیا‘‘میں شامل ان کے افسانے ’’ہجرت‘‘،’’مرگ نینی نے کہا‘‘،’’ہم خوشبو خریدیں گے‘‘،’’مت رو سالک رام‘‘’’مہاندی‘‘’’تحفظ‘‘اور’’دہشت کیوںہے‘‘قابل ذکر ہیں۔
’’ہجرت‘‘تقسیم وطن کے کرب پر مبنی افسانہ ہے اس افسانے میں ہجرت کے سبب عام آدمی کو جن پریشانیوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا ان کو تفصیل سے پیش کیا گیا ہے ۔اس کہانی کا پلاٹ اکہرہ،سادہ اور مربوط ہے جو حقیقت نگاری سے بھرپور ہے ذوقی نے پنجاب کے ایک متوسط خاندان کے ارد گرد پلاٹ کا تانا بانا تیار کیا ہے تقسیم وطن کے وقت عام لوگوں کی طرح اس خاندان کو بھی اپنا گھر چھوڑ کر دوسری جگہ جانا پڑتا ہے جو نہ تو ان کا اپنا وطن ہے اور نہ ہی وہ وہاں کے لوگوں کو جانتے ہیں وہاں ایک نیا گھر بناتے ہیں کچھ ہمدرد لوگ ملتے ہیں مگر فرقہ پرست عناصر پھر سے گھروں کو آگ لگا دیتے ہیں اور اس طرح وقت کے تھپیڑوں کا مارا یہ خاندان مستقل ہجرت کرنے پر مجبور ہے پنجاب سے لاہور،لاہور سے آرہ اور اب آرہ سے پنجاب۔
’’بیٹے،ہماری قسمت میں بس ہجرت لکھی ہے۔ہجرت جس کا مفہوم تمھارا معصوم ذہن ابھی نہیں سمجھ سکتا۔لاہور سے آرہ اور آرہ سے پنجاب۔پتہ نہیں اس بوڑھی تقدیر میں اور کتنی ہجرت لکھی ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،بھوکا ایتھوپیا،ص۔۱۰۰)
گھر کے سبھی افراد ایک ٹرین میں بیٹھے ہیں اور آپس میں باتیں کر رہے ہیں بوڑھا جگجیت یادوں میں کھویا ہوا سوچ رہا ہے کہ کیا وہ زندگی کے اس پڑاؤ کو برداشت کر پائے گا؟اس کے دماغ میں ایک ہلچل مچی ہوئی ہے زندگی کے اس لمبے سفر میں اس کو بار بار اپنے دل و جان سے پیاری کئی چیزوں کو چھوڑنا پڑا ہے دنگے فساد نے اس سے نہ صرف اس کا گھر بار چھین لیا بلکہ اس کی بیوی نندی، اس کا بڑا بیٹااور پیارا دوست ملک زادہ بھی چھین لیا۔وہ اس دکھ کو کبھی نہیں بھلا سکا اور تا عمر اس زخم کو اپنے سینے میں لیے زندگی سے جدوجہد کئے جارہا ہے لیکن ہجرت کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔وہ بار بار ایک نیا گھر بناتا ہے اور ہر بار اس کو توڑ دیا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ ہجرت پر ہجرت کئے جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس اور کوئی آپشن نہیں ۔مصنف نے اس افسانے کے ذریعہ ان ہی جذبات و احساسات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔اس افسانے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ایک آدمی جو زندگی کے ہر موڑ پر صرف یہ سوچ کر سمجھوتہ کر لیتا ہے کہ اب سب ٹھیک ہوجائے گا مگر ملک میں سیاسی فریب اور فرقہ وارانہ نظام کے چلتے ہر بار ایک عام انسان کو ہی بچھی ہوئی بساط کا مہرہ بنایا جاتا ہے اور اس کو ہی آگے آکر اپنے جذبات اور خوشیوں کی قربانی دینی پڑتی ہے چاہے اس کی زندگی موت سے بھی بدتر ہوجائے اور یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ ایسا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔
یہ کہانی ٹرین کے سفر سے شروع ہوتی ہے اس لئے ٹرین بھی کہیں نہ کہیں ایک علامت کے طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے ۔تمام کردار حقیقی زندگی سے لئے گئے ہیں جو زندگی کے اتار چڑاؤ کا سامنا کرتے نظر آتے ہیں مرکزی کردار جگجیت(لکھی)کا ہے جو زندگی بھر ہجرت کے کرب سے جوجھتا رہتا ہے اور مسلسل ہجرت نے اسے نڈھال کردیا ہے یہ ایک مضبوط کردار ہے جو وقت کے تھپیڑوں کی مار جھیل کر بھی اپنے اندر مضبوطی پیدا کرلیتا ہے اور کبھی ہار نہیں مانتا ۔اس کے علاوہ دیگر کردار بھی کہانی کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔ہئیت اور زبان و بیان کے اعتبار سے بھی یہ ایک اہم افسانہ ہے اس کی زبان بالکل سادہ ہے پنجابی زبان کے لب و لہجہ میں بھی کچھ مکالمے پڑھنے کو ملتے ہیں۔
افسانہ’’مرگ نینی نے کہا‘‘کا عنوان مرکزی کردار مرگ نینی کے نام پر رکھا گیا ہے اس افسانے میں ۱۹۴۷ء کے بعد کے معاشرے کی عکاسی کی گئی ہے یہ افسانہ نئی اور پرانی نسل کے مابین ذہنی کشمکش اور غلط فہمیوں کی بنیاد پر معاشرے میں نفرت کا جو زہر پھیل رہا ہے اس پر کاری ضرب لگاتا ہے ساتھ ہی دہشت پسند عناصر کے چہرے پر پڑا پردہ بھی ہٹاتا ہے ذوقی نے اس افسانے میں مذہبی فسادات اور انسانی ذہنیت پر بھرپور طنز کیا ہے۔مرگ نینی ایک سیدھی سادی لڑکی ہے جو کالج میں پڑھتی ہے وہ اپنے دوست اسد سے صرف اس لئے بات نہیں کرسکتی کہ وہ ایک مسلمان ہے مرگ نینی کا باپ نرسنگھ ایک فرقہ پرست ہندو ہے وہ مذہبی فسادات کی جڑیں نہ صرف سماج میں پھیلانے میں لگا ہوا ہے بلکہ اپنے گھر کے ہر فرد پر اپنے مذہبی اصولوں کو تھوپنا بھی فرض سمجھتا ہے وہ صرف ہندو اور مسلمان دو ہی مذہب کو جانتا ہے نرسنگھ اپنے گھر والوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتا ہے وہ تاریخ کی غلط بیانی سے مسلمانوں کو گھٹیا اور کم تر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ زور زبردستی ہندوؤں کو مسلمان بناتے ہیں مندروں کو توڑتے ہیں اور گائے کا مانس کھاتے ہیں اس کردار کے ذریعہ ذوقی نے ان فرقہ پرست لوگوں کو نشانہ بنایا ہے جو صرف غلط فہمیوں کی بنیاد پر مسلمانوں پر الزام لگاتے پھرتے ہیں اور ان پر طنز کرتے ہیں۔
اسی بیچ مرگ نینی کی شادی اویناش کے ساتھ کر دی جاتی ہے اویناش کھلے ذہن کا آدمی ہے وہ گوشت اور مچھلی کھانے کا شوقین ہے عبدل بھائی اس کا دوست ہے دونوں ایک ساتھ کھاتے پیتے ہیں وہ اس طرح آپس میں گھل مل گئے ہیں کہ مذہب کہیں دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ یہاں مرگ نینی کشمکش میں پڑ جاتی ہے اسے لگتا ہے کہ اس کہ اپنی پہچان کہیں کھو گئی ہے پہلے وہ باپ کے اصولوں سے بندھی رہی اور اب اویناش کے اپنے اصول ہیں وہ کس کی باتوں کو مانے اور کس کی نہیں اسے کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔جب مرگ نینی کا ایک سال کا بیٹا بلبیر مرجاتا ہے تو اس موقع پر اس کا باپ نر سنگھ بھی آتا ہے وہ عبدل کو دیکھ کر آگ بگولہ ہوجاتا ہے اور اس کی موجودگی میں مسلمانوں کو برا بھلا کہتا ہے اویناش کو بہت برا لگتا ہے وہ نر سنگھ سے نفرت کرنے لگتا ہے دراصل اویناش اور عبدل کے کرداروں کے ذریعہ ذوقی نے ہندو اور مسلمان کے بیچ کی دیوار کو گرانے کی کامیاب کوشش کی ہے ان دونوں کے رشتے اور پیار محبت کو دیکھ کر مرگ نینی بھی متاثر ہوتی ہے اور وہ مذہب کے ٹھیکیداروں کی بری نیت کو پہچان جاتی ہے جو صرف نفرت اور جنگ وجدل کے بیج بوتے ہیں اور معصوم لوگوں کا قتل کرواتے ہیں وہی مرگ نینی جو کبھی اپنے باپ کے سامنے آنکھ اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتی تھی آج کورے لفظوں میں ان کو طنز کا نشانہ بناتی ہے وہ مذہب کے نام پر ان کو ایک بیماری قرار دیتی ہے اور ان کے ساتھ اپنا رشتہ توڑ دیتی ہے۔
’’جب دو خیالوںمیں زمین و آسمان کافرق ہو اور یہ احساس بھی ہو کہ انھیں ملانے کی کارروائی بیکار ہے تو۔۔۔؟ایسے رشتے ٹھہریں گے تو نہیں نا۔۔۔پھر ان رشتوں کو ڈھویا جانا کیا ضروری ہے ۔اس لئے میں ابھی سے یہ رشتہ توڑ رہی ہوں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،بھوکا ایتھوپیا،ص۔۶۶)
یہ ایک طویل افسانہ ہے اس کا پلاٹ کافی ڈھیلا ڈھالا ہے کچھ غیر ضروری بحثیں ہیں جو پلاٹ کو کمزور کرتی ہیں ہندی اور انگریزی کے الفاظ بھی کثرت سے استعمال کئے گئے ہیں جو دقت کا باعث بنتے ہیں تاہم موضوع کے اعتبار سے یہ ایک اہم افسانہ ہے جسے کافی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی۔
’’ہم خوشبو خریدیں گے‘‘معصوم ذہنوں کی فکر اور تاثرات پر مبنی افسانہ ہے فرقہ وارانہ فسادات پر یوں تو بیشتر افسانے تخلیق کئے گئے ہیں مگر ان کے اثرات بچوں پر کس طرح مرتب ہوتے ہیں اس کی طرف کم ہی افسانہ نگاروں کی نظر پڑی ہے ذوقی کا کمال یہ ہے کہ وہ ان فسادات کو بچوں کی نظر سے بھی دیکھتے ہیں اور ان کے تاثرات کو قلمبند کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ چھوٹے چھوٹے بچے جو ابھی ہندو مسلم کے نام سے واقف نہیں اور نہ ہی فرقہ وارانہ فسادات کو سمجھتے ہیں وہ بچے جو ابھی عرفی اور اروشی میں فرق محسوس نہیں کرتے۔
ذوقی نے اس افسانے میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اسکول میں پڑھنے والے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اس بات کا احساس ہے کہ جو کچھ بھی ہمارے سماج اور معاشرے میں ہورہا ہے وہ غلط ہے اور اس سے لوگوں میں بے چینی اور خوف و ہراس ہے تو کیوں نہ ہم کوئی ایسا کام کریں جس سے پورے سماج کے ذہن کو بدلا جاسکے۔اس کے لئے وہ ہر گھر میں ،ملک بلکہ پورے سماج میں پھولوں کی خوشبو پھیلانا چاہتے ہیں تاکہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ پیار و محبت کریں ۔مذہب کے نام پر آپس میں لڑائی جھگڑے اور فساد نہ ہوں اور پورے خطہ بلکہ پوری دنیا میں امن وامان قائم ہوسکے گوکہ بچے اس مشن میں کامیاب نہیں ہوپاتے اور اس کے لئے تنگ نظر اور فرقہ پرست لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے مگر پھر بھی ان بچوں کی سوچ اور امن کے لئے کی گئی اس پہل کی سراہنا کرنی پڑتی ہے اور قاری کو ان بچوں سے بے حد محبت ہونے لگتی ہے یہ افسانہ قاری پر دیر تک اپنا تاثر قائم رکھتا ہے کردارنگاری اور انداز بیان دلچسپ ہے۔
’’تحفظ‘‘ایک مختصر سا افسانہ ہے یہ افسانہ ذوقی نے اس عہد میں لکھا جب ہندو مسلم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے تھے دراصل فرقہ وارانہ فسادات ہمارے ملک اور معاشرے کی ایک ایسی لعنت ہے جو صدیوں کی بنی بنائی بھائی چارگی،مشترکہ تہذیب اور اقدار و روایات کو آناً فاناً ختم کردیتی ہے فساد کرانے میں صرف چند لوگوں کا ہاتھ ہوتا ہے مگر اس کی تباہی اور بربادی پوری عوام کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اس افسانے میں مصنف نے اس بات کا احساس بخوبی کرایا ہے۔ ہر جگہ تباہی اور بربادی پھیلی ہوئی ہے لوگ ایک دوسرے سے ڈر کر اپنی جان بچانے کی کوشش میں ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں صرف مذہب کے نام پر ان کو مارا جا رہا ہے جبکہ ان کی آپسی کوئی رنجش نہیں ہے دو آدمی ایک جگہ ملتے ہیں اور وہ دونوں بنا کچھ جان پہچان کے ایک دوسرے کے ساتھ ہو لیتے ہیں اور اپنی جان بچاتے ہیں پھر جب ایک دوسرے سے بات چیت ہوتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ جن لوگوں کے ڈر سے وہ بھاگ رہے ہیں مذہب کے نام پر وہ بھی دونوں وہی ہیں ایک ہندو اور ایک مسلمان۔دونوں کو بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے ہی ڈر کر چھپتے چھپتے ایک ساتھ ہو لئے اور ان کو ایک دوسرے سے کوئی خطرہ بھی نہیں رہا کیونکہ پہلے وہ صرف ایک انسان ہیں بعد میں کوئی مذہب یا سیاست ۔اس کہانی کے ذریعہ مصنف نے جہاں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ایک انسان ہی دوسرے انسان کی پریشانی اور تکلیف کو سمجھ سکتا ہے تو وہیں سیاست رچنے والے حیوانوں کے چہروں پر بھی طمانچہ مارا ہے جو اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے عام انسانوں کو ڈرا دھمکا کر ان کا استحصال کرتے ہیں اور پھر بیٹھ کر ان کا تماشہ دیکھتے ہیں ۔اس افسانے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں جو Messageدیا گیا ہے وہ اپنے آپ میں بے مثال ہے افسانے میں دو ہی کردار ہیں مصنف نے کرداروں کے نام تو نہیں بتائے مگر کہانی کے مطالعہ سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان میں ایک کردار ہندو اور دوسرا مسلمان ہے اس لحاظ سے یہ ایک علامتی افسانہ کہلاتا ہے۔
’’دہشت کیوں ہے؟‘‘جھوٹی افواہوں،بم دھماکوں اور خوف و ہراس پر مبنی افسانہ ہے ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس معاشرے کو ترقی یافتہ معاشرہ کہا جاتا ہے آج ہر انسان یہ دعوہ کرتا ہے کہ سائنس نے بہت ترقی کر لی ہے مگر اس ترقی کے پس منظر میں انسان کو دہشت سے زیادہ کچھ حاصل نہیں ہوا ہے پوری دنیا میں جس طرح بم اور بڑے بڑے ہتھیار بنائے جا رہے ہیں اس سے لوگوں میں خوف و دہشت پھیلی ہوئی ہے ان ہی نکات کو اس افسانے میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
شہری زندگی اور اس کے مسائل پر ذوقی گہری نظر رکھتے ہیں بظاہر تو شہروں میں بڑی چمک دمک اور ترقی کے آثار نظر آتے ہیں مگر اس کے پس منظر میں بہت سے مسائل اور پچھڑے ہوئے معاملات چھپے ہوئے ہیں جن کو کریدنا اوران کی نشاندہی کرنا ایک بڑا سوال ہے ذوقی نے ان چیزوں کو قریب سے دیکھا اور ان کا مشاہدہ کیا ہے اور پھر ان معاملات کو اپنی تخلیقات میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے اس حوالے سے اس مجموعے کے افسانے ’’بھوکا ایتھوپیا‘‘،’’فنی لینڈ‘‘،’’بچھو گھاٹی‘‘،’’پربت‘‘،’’جلاوطن‘‘،’’تناؤ‘‘اور’’تحریکیں‘‘اہمیت کے حامل ہیں۔
’’بھوکا ایتھوپیا‘‘بھوک اور سیاسی و حکومتی چالوں کو سامنے لاتا ہے یہ قحط سالی اور اس سے پیدا شدہ مسائل پر مبنی افسانہ ہے اس میں ذوقی نے سیاست اور حکومت پر طنز کیا ہے یہ افسانہ تین کرداروں کے ذریعہ آگے بڑھتا ہے گھوش بابو،اس کی بیوی شویتا اور ان کا بیٹا اتپلیندو۔گھوش بابو ایک سرکاری ملازم ہے وہ بڑی مشکل سے گھر کا خرچہ چلاتا ہے اوراپنے بیٹے کو پڑھنے کی تاکید کرتا ہے نہ پڑھنے پر اس کو مارتا پیٹتا ہے اتپلیندو ایک سنجیدہ اور باغی قسم کا لڑکا ہے وہ ترقی پسند ہے بھوک سے بے حال لوگوں کو دیکھ کر وہ سنجیدہ ہوجاتا ہے اور حکومت کے خلاف نعرے بازی اور ناٹک کے ذریعہ اپنا احتجاج بلند کرتا ہے وہ اپنے باپ کو سرکاری نوکری چھوڑنے کے لئے کہتا ہے اس پر گھوش بابو اسے ڈانٹتا ہے شویتا اپنے بیٹے کا ساتھ دیتی ہے اور شوہر کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہے گھوش بابو اپنے دفتر میں ایک ریٹائرڈ بزرگ کی بے بسی اور لاچاری کا مشاہدہ کرتا ہے جو اپنی تنخواہ نکلوانے کے لئے بار بار دفتر کے چکر کاٹتا ہے افسروں کی جھڑکیں سہتا ہے وہ بھوک سے تڑپ رہا ہے اور اس کی آنکھوں کی روشنی بھی مدھم پڑگئی ہے اس کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ۔زندگی بھر حکومت کی خدمت کرنے کے بعد بھی اسے اپنے حق کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں اس کردار کے ذریعہ ذوقی نے حکومت کے منہ پر زور کا طمانچہ مارا ہے ادھر اتپلیندو جب بھوک سے مر رہے لوگوں کو اسٹیج پر لاکر حکومت کی آنکھ کھولنے کی کوشش کرتا ہے تو پولیس لاٹھی چارج کرتی ہے جس میں اتپلیندو کی موت ہوجاتی ہے بیٹے کی شہادت گھوش بابو کو بیدار کرتی ہے اور وہ نوکری سے استعفٰی دے دیتا ہے۔
موضوع اور کردار نگاری کے لحاظ سے یہ ایک بڑھیا افسانہ ہے گھوش بابو اس ناول کا مرکزی کردار ہے لیکن اتپلیندو کا کردار زیادہ فعال اور متحرک معلوم ہوتا ہے اتپلیندو سماج میں تبدیلی لانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے وہ نکڑ ناٹک کرتا ہے اور رات کے وقت لوگوں تک اپنے انقلابی پیغام اور بات پہنچانے کے لئے پوسٹر لگاتا ہے وہ ’ہندو،مسلم،سکھ،عیسائی سب آپس میں بھائی بھائی‘کا نعرہ لگاتا ہے اس کردار کے ذریعہ ذوقی نے نوجوان طبقہ کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ انہیں اب مذہب اور فرقے کے دائرے سے باہر نکلنا ہوگا اور ایک نئی سوچ کے تحت اپنے ملک کی رہنمائی کرنی ہوگی۔’’بچھو گھاٹی‘‘بھی اسی نوعیت کا افسانہ ہے۔
’’پربت‘‘ میں ایک بزرگ کردارکی زندگی کے المیہ کو پیش کیا گیا ہے جو اپنی عمر کے ۶۲سال گزارنے کے بعد اپنے آپ کو دنیا اور سماج سے کٹا کٹا محسوس کرنے لگتا ہے دوسروں کی نظر میں یہاں تک کہ اس کے اپنے بچوں کے لئے اس کی اہمیت اور حیثیت صرف اور صرف گھر کے ایک کونے میں پڑی ہوئی کسی پرانی چیز کی مانند ہے جس کو کبھی کبھی جھاڑ پونچھ دیا جاتا ہے مگر اس کو اب استعمال کی چیز نہیں سمجھا جاتا ۔اس افسانے کا موضوع ’’پربت‘‘اس لئے رکھا گیا ہے کہ انسان جب اکیلے پن کو جھیلتا ہوا شب وروز گزارتا ہے تو زندگی اس کے لئے اذیت ناک بن جاتی ہے اس کو اپنی زندگی پہاڑ کی طرح بڑی اور بوجھ لگنے لگتی ہے ۔اس کہانی کے مرکزی کردار کو ذوقی نے’کو‘،’پتا جی‘یا پھر کہیں کہیں ’داداجی‘سے مخاطب کیا ہے جس سے پورے معاشرے کے بزرگ کردار مراد ہیں یہ بزرگ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی،بچے اور بہو اس کے پاس بیٹھیں ،اس سے باتیں کریں،پوتے ،پوتیاں اس کے ساتھ کھیلیں ۔سب ساتھ ساتھ ٹی وی دیکھیں اور وہ ویسے ہی نارمل رہے جیسے وہ اپنی پہلے کی زندگی گزار چکا ہے وہ ہر وقت سوچتا رہتا ہے اور اپنے آپ کو بیکار سمجھنے لگتا ہے اس کی زندگی پتھرا جاتی ہے اور حرکات بند ہوجاتے ہیں وہ اپنے آپ کو Busyرکھنے کے لئے کدال اٹھا کر مٹی کھودنا شروع کردیتا ہے اور ایک باغ تیار کرنے کی سوچتا ہے اس طرح کے خیالات بزرگوں کے ذہنوں میں آتے رہتے ہیں کیوں کہ یہ عمر ہی سوچ اور فکر کی عمرہوتی ہے ۔ذوقی نے اس عمر کے بزرگوں کے جذبات اور احساس کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔’’جلا وطن‘‘بھی اسی موضوع پر مبنی افسانہ ہے اس میں ساٹھ سال کے ایک ریٹائرڈآدمی رما کانت کے بڑھاپے کا کرب اور المیہ پیش کیا گیا ہے۔
’’بچھو گھاٹی‘‘ایک ایسے آدمی کی کہانی ہے جو اپنے ملک اور وطن کی بربادی اور بگڑتے ہوئے حالات سے پریشان ہے وہ اپنے ملک کے سنہرے مستقبل کا خواب دیکھتا ہے اور پھر اس خواب کی تعبیر کے لئے زندگی بھر جدوجہد کرتا رہتا ہے اس کہانی کا موضوع آزادی کے بعد کا عہد ہے آزادی کے بعد ملک کے حالات اور لوگوں کے جذبات اور فکر میں کس طرح کے بدلاؤ آئے ان ہی نکات کو مصنف نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے افسانے کی شکل میں ڈھالا ہے جو قاری کو حقیقت نگاری کا بھرپور احساس دلاتے ہیں۔مسٹر پرکاش اس افسانے کا مرکزی کردار ہے وہ ایک میگزین رائٹر ہے دیپیکا اس کی بیوی ہے جو ہر قدم پر اس کا ساتھ دیتی ہے وہ ایک نئے دور کی عورت ہے جو ہر موڑ پر زندگی کے تھپیڑوں کا سامنا کرنے کے لئے مضبوطی سے تیار رہتی ہے تیسرا کردار ان کا بیٹا آشوتوش ہے جو نئے زمانے کے ساتھ آگے بڑھنے اور اپنے آپ کو مضبوط کرنے میں لگا ہے پڑھائی کے ساتھ ساتھ اب وہ Part timeکام بھی کرنے لگا ہے مسٹر پرکاش نہ چاہتے ہوئے بھی میگزین میں وہ سب باتیں لکھ دیتے ہیں جو اپنے ملک اور وطن کے روشن مستقبل کے لئے سوچا کرتے تھے کہ جب ہمیں آزادی ملے گی تو ہمارا ملک بہشت سے کم نہ ہوگا یہاں سب خوش و خرم اور مل جل کر رہیں گے مگر اب جب آزادی کے بعد وہ اپنے ملک کی درد ناک اور ابتر حالت کو دیکھتا ہے تو اس کا دل پسیج جاتا ہے۔
’’ہزاروں لاکھوںجانیں نذر کرکے تم نے آزادی پائی بھی تو آزادی کے جسم کو شمشان میں لاکر جلادیا۔کتنی ہی پیڑھیوں کو تم ذات پات،دھرم،مذہب کے نام پر کھا گئے۔۔۔۔اپنی سنسکرتی کو،سبھیتا کو اور خود کو۔۔۔تم دوسری بے کار چیزوں
میں اتنا بٹتے گئے کہ انسان نہیں رہ گئے۔۔۔کچھ اور ہوگئے ہو تم۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،بھوکا ایتھوپیا،ص۔۴۳)
وہ یہ سوچتا ہے کہ جب انسان کا خواب پورا نہیں ہوتا تو اس کے دل ودماغ میں وہ بات بیٹھ جاتی ہے اور کبھی کسی موقع پر وہ باہر نکل کر اس کے جذبات کو جنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔
’’تب تب اپنے پورے احساس کو میں کوئی نام نہیں دے پاتا۔جانے کیوں لگتا ہے کہ میں بچھوؤں سے بھری ہوئی گھاٹی میں ہوں۔۔۔قدم قدم پر گھات لگائے بچھّو میرے جسم پر بچھ گئے ہیں ۔۔۔ان کے زہریلے ڈنکوں نے لہو لہان کردیا ہے۔۔۔مجھے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،بھوکا ایتھوپیا،ص۔۴۵)
اپنے ان تمام جذبات کو مسٹر پرکاش تحریری شکل میں قارئین کے سامنے لاتا ہے اور ان پر اپنا تاثر قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔یہ افسانہ ذوقی کی سرگزشت لگتا ہے اس میں تمام فنی لوازم کو برتنے کی کوشش کی گئی ہے یہ ایک شاہکار افسانہ ہے جو ذوقی کے ادبی کیرئیر کے لئے میل کاپتھر ثابت ہوا۔اس افسانے کو ادبی حلقے میں کافی پسند کیا گیا۔
’’تحریکیں‘‘اور ’’تناؤ‘‘بے روزگار نوجوانوں کی زندگیوں پر مبنی افسانے ہیں جو ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے پریشان ہیں اور اعلٰی تعلیمی اداروں کے سرپرستوں اور
پروفیسروں کے استحصال کا نشانہ بنتے ہیں وہ کجروی اور بے سمتی کے شکار ہیں ان کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر سیاسی طاقتیں ان کو اپنی طرف کھینچتی ہیں اور وہ گلیوں،سڑکوں اور چوراہوں پر ’ہائے ہائے‘کرنے کے لئے چھوڑ دیے جاتے ہیں ان افسانوں میں مصنف نے بے کار اور بے روزگار نوجوانوں کے المیہ کو بڑے موثر طریقے سے پیش کیا ہے ۔
’’میںہارانہیںہوںکامریڈ‘‘،’’خیمے‘‘،’’ہندوستانی‘‘،’’کتناوش‘‘،’’سور باڑی‘‘اور ’’کان بند ہے ‘‘میں سماجی اور سیاسی مسائل کو بروئے کار لایا گیا ہے۔’’میں ہارا نہیں ہوں کامریڈ‘‘اس مجموعے کا ایک نہایت ہی عمدہ افسانہ ہے اس میں زندگی،سماج اور سیاست کی حقیقی جھلک پیش کی گئی ہے اس افسانے کی ابتداء بڑے ہی دلچسپ انداز میں ہوتی ہے یہ کہانی گاؤں میں رہنے والے ایک ایسے نوجوان کی ہے جو چھوٹی سی عمر میں بڑے بڑے خواب بنتا ہے اور پھر ان خوابوں کو پورا کرنے کے لئے اپنے ماں باپ اور گھر بار کو چھوڑ کر شہر چلا جاتا ہے وہاں وہ پڑھائی کرتا ہے لیکن جلد ہی اسے احساس ہوتا ہے کہ یہاں انسان کی حیثیت صرف ایک مشین کی سی ہے اور کچھ نہیں ۔جب اس کے جذبات اور خوابوں کا خون ہونے لگتا ہے تو وہ بوکھلا جاتا ہے اور اس کو اپنے ہی وجود پر شک ہونے لگتا ہے وہ ان لوگوں سے نفرت کرنے لگتا ہے جو انسانی جذبات کو صرف مشین کی طرح استعمال کرتے ہیں ۔پوری کہانی ایک ہی کمرے میں دولوگوں کے بیچ چلتی ہے جن میں ایک گاؤں سے آیا ہوا ونئے ہے اور دوسراوہ آدمی جو پہلے سے ہی روم میں رہ رہا ہے جس کو ونئے ساتھی کہہ کر پکارتا ہے دونوں ایک دوسرے سے اپنے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں پر الگ الگ رائے رکھتے ہیں ونئے کچھ زیادہ ہی جذباتی ہے پڑھائی کرتے کرتے وہ یہ جان چکا ہے کہ کس طرح بڑے لوگ عام لوگوں کا استعمال اور استحصال کرتے ہیں لہٰذا وہ اس گندی ذہنیت اور Politicsکو منہ توڑ جواب دینے کا فیصلہ کرتا ہے ۔اس کے لئے وہ نیوز پیپرکو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ یہ افسانہ مفاد پرست اورانسانی زندگیوں سے کھیلنے والے لوگوں کے خلاف ایک جنگ ہے جو انسان کو حیوان بنانے کی سازش رچتے ہیں سماج سدھار کا یہ عزم کہانی کا سب سے اہم پہلو ہے جس کی وجہ سے یہ ایک اصلاحی افسانہ معلوم ہوتا ہے اس میں دو ہی کردار ہیں جو اپنی حرکات وسکنات اور حقیقی مکالموں سے اپنی پہچان بھی کراتے ہیں اور قاری پر اپنا تاثر بھی جماتے ہیں ۔افسانے میں فلیش بیک اور فلیش فارورڈ کی تکنیک استعمال کی گئی ہے یہ تیس صفحات پر مشتمل ایک طویل افسانہ ہے جو افسانہ کم ناولٹ زیادہ لگتا ہے اس میں انگریزی اور ہندی الفاظ کی اس قدر بھرمار ہے کہ اردو کا قاری تشویش میں پڑ جاتا ہے اور اس کو یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ یہ افسانہ اردو میں نہیں بلکہ ملی جلی انگریزی اور ہندی زبان میں لکھا گیا ہے۔
’’خیمے‘‘ایک سلگتا ہوا افسانہ ہے جس میں ذوقی نے ان فرقہ پرست پارٹیوں کو طنز کا نشانہ بنایا ہے جو مذہب کے نام پر اپنا ایک الگ خیمہ بناکر انسانی جذبات کا خون کرتی ہیں اور انسانوں کو مختلف فرقوں اور خانوں میں تقسیم کرتی ہیں ۔
افسانہ ’’ہندوستانی‘‘بھی سیاسی مفاد پرستی پر مبنی ہے اس افسانے میں فسادات کے حالات بیان کئے گئے ہیں کہ کس طرح ہندو مسلمان ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے ہیں ہر کوئی خوف وہراس میں ہے نہ کوئی چین نہ سکون۔لوگوں کی راتوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں وہ رات بھر جاگ کر اپنے اپنے گھروں کی حفاظت کرتے ہیں مگر کیا وہ سب اس ملک میں محفوظ ہیں ؟اور اگر وہ اپنے ملک میں ہی محفوظ نہیں
ہیں تو پھر اپنے گھروں کی حفاظت کرکے کیا وہ محفوظ رہ سکتے ہیں یہ ایک بڑا اور اہم سوال ہے جو اس وقت ہر ہندوستانی شہری کے دماغ میں ہے۔
’’سورباڑی‘‘سماج کے ایک انتہائی دبے کچلے معاشرے سے متعلق ہے یہ ڈوموں اور چماروں کا معاشرہ ہے جو دن بھر محنت مزدوری کرتے ہیں تب جا کر ان کو رات کی روٹی نصیب ہوتی ہے نہ تو ان کے رہنے کی کوئی مستقل جگہ ہے اور نہ اپنے بچوں کو پڑھانے لکھانے کا کوئی انتظام ۔دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ان کے حفاظت صحت کے لئے بھی حکومت کی طرف سے کوئی بندوبست نہیںکیا گیا ہے۔سورباڑی وہ جگہ ہے جہاں یہ انسان اور اور جانور ایک ساتھ رہتے ہیں لیکن سماج کے دوسرے لوگ ان کی حالت زار دیکھنے کے بجائے اس جگہ پھیلی گندگی سے پریشان ہیں وہ ان کی فلاح کے بجائے ان کو وہاں سے ہٹانے کی تدبیریں کرتے ہیں لیکن یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے کیوں کہ کل کو پھر اس گندی باڑی کے قریب کوئی نیا اپارٹمنٹ بنے گا اور پھر ان لوگوں کو وہاں سے ہٹا دیا جائے گا اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور سورباڑی کے یہ لوگ نقل مکانی کے کرب سے دوچار ہوتے رہیں گے۔چنانچہ ایک دن حکومت کا آرڈر آجاتا ہے کہ انھیں یہاں سے ہٹایا جائے یہ سن کر وہ لوگ مایوس وپریشان ہوجاتے ہیں ۔بھیکو جو اسی
معاشرے کا ایک نوجوان لڑکا ہے بغاوت پر اتر آتا ہے وہ جانتا ہے کہ یہ ایک مشکل کام ہے اور اس کی آواز کو کچل دیا جائے گا مگر مصنف نے اس کے اندر بغاوت کا جو عنصر دکھایا ہے وہ اصلاح کی جانب ایک قدم ہے بھیکو اپنے تمام لوگوں کو جمع کرتا ہے اور انھیں مخالفت کے لئے آمادہ کرتا ہے۔
’’تم ہی بھیکو ہو؟ہاں ساب۔۔۔۔۔کیا سچ مچ یہ باڑی اجڑ جائے گی؟نہیں ساب۔ہم اجڑنے نہیں دیں گے۔۔۔۔مگر اگر پولیس اجاڑنے پر تُل ہی گئی تو؟ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے۔۔۔تو ہنگامہ کروگے تم لوگ؟وہ تو ہم کریں گے ہی ساب۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،بھوکا ایتھوپیا،ص۔۲۵۹)
مگر ایک دن اچانک بھیکو کا ایکسیڈنٹ ہوجاتا ہے اور سرکاری عملے کو موقع مل جاتا ہے کہ اب مخالفت کرنے والا کوئی نہیں اس طرح سورباڑی کو خالی کرا لیا جاتا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھیکو کا ایکسیڈنٹ کس نے کروایا اور کیا یہ بھی کوئی سازش تھی ؟اس طرح یہ کہانی سماج میں پھیلی ذات پات اور چھو اچھوت کا ایک بڑا المیہ بن کر ابھرتی ہے موضوع اور کردار نگاری کے اعتبار سے یہ ایک اہم کہانی ہے اس میں منظر نگاری کے بھی اچھے نمونے ملتے ہیں یہ ذوقی کی ایک شاہکار کہانی ہے ۔
اس مجموعے میں تین افسانے ایسے ہیں جن کو سفرنامے یا پھر یادداشت کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے ان کو سوانحی افسانے کہنا زیادہ مناسب ہوگا ۔’’کمرہ بولتا ہے‘‘،’’پینتالیس سال کا سفرنامہ ‘‘اور’’مجھے موسم بننے سے روکو‘‘۔ان افسانوں میں مصنف نے اپنے بچپن اور ادبی سفر کی رودادکو پیش کیاہے۔’’کمرہ بولتا ہے‘‘ میں ذوقی نے اپنی خود نوشت کی جھلکیاں پیش کی ہیں انھوں نے اپنے کمرے کی یاد کے سہارے کہانی کو ایک وسیع تناظر فراہم کیا ہے حقیقت یہ ہے کہ جس جگہ،معاشرے اور تہذیبی اقدار میں انسان کی پرورش اور اس کی شخصیت کی تعمیرو تشکیل ہوتی ہے اس جگہ کو انسان کبھی فراموش نہیں کرسکتا چاہے وہ کتنے ہی بڑے مقام پر کیوں نہ پہنچ جائے اسے وہ جگہ ضرور یاد رہتی ہے اسی کیفیت کو اس افسانے میں پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔
’’پینتالیس سال کا سفرنامہ‘‘بھی ایک خود نوشت افسانہ ہے یہ تخلیق کار کے ساتھ ساتھ معاشرے کے افراد کا بیانیہ بھی ہے اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان جب پینتالیس سال کا ہوجاتا ہے تو زندگی کے اس موڑ پر وہ سوچتا ہے کہ وہ کیا تھا اور آج کس مقام پر ہے وہ کس کے لئے جی رہا ہے اپنے لئے،دوسروں کے لئے یا پھر اپنے پریوار کے لئے۔اسی کشمکش میں وہ اپنے گزرے ہوئے عہد کو یاد کرتا ہے اور پرانی یادوں میں کھو کر جذباتی ہوجاتا ہے اپنے آپ کو بہلانے کے لئے وہ یادوں کا سہارا لیتا ہے ان ہی جذبات کی حقیقت نگاری کو ذوقی نے اس کہانی کے ذریعہ قارئین کے سامنے لایا ہے۔مرکزی کردار وہ خود ہیں اس کے علاوہ ندیم اور تبو ضمنی کردار ہیں مگر اس افسانے میں ایک بات کھٹکتی ہے کہ مصنف نے اپنی عمر کے ۴۵ سالہ سفر کا ذکر کیا ہے جبکہ افسانے کے آخر میں سن ۱۹۸۶ء درج ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت افسانہ نگار کی عمر محض ۲۴ سال تھی اس لئے اس افسانے میں حقیقت کا فقدان ہے ۔
’’مجھے موسم بننے سے روکو‘‘اس مجموعے کا آخری افسانہ ہے اس افسانے میں بیک وقت کئی پہلو ہیں ایک تو اس میں موسم کو علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور دوسرا مصنف نے اپنے فن پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے نئے رحجانات اور رویوں میں اپنی شناخت بنانے کا ذکر کیا ہے ۔اس افسانے میں بھی ذوقی کا اپنا کردار ہے نغمی اور زیبا دو اور کردار ہیں یہ دونوں کردار پوری کہانی میں ایک دوسرے سے مختلف طرح کے سوالات کرتے نظر آتے ہیں اور تخلیق کار کو اس کے اپنے لفظوں کے بھنورمیں پھنسا دیکھ کر اس کو ہدایت دیتے ہیں کہ یہ لفظ تم کو ایک دن لہو لہان کردیں گے اور پھر تم کو بچانے کوئی نہیں آئے گا ۔اس افسانے میں مصنف نے یہ بھی واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ آج ادب میں ان کو جو مقام حاصل ہے اس کو دیکھ کر ان کے ہم عصر خوش نہیں ہیں یہ افسانہ ان کے علمی و ادبی سفر کی کہانی ہے۔
’’بھوکا ایتھوپیا‘‘ذوقی کا اولین افسانوی مجموعہ ہے یہ ان کی افسانہ نگاری کا پہلا بڑا کارنامہ ہے اس لئے اس میں فنی خامیاں اور تجربے کی کمی نظر آتی ہے ایک بنیادی بات جو اس مجموعے میں قارئین کوپریشان کرتی ہے وہ ہندی الفاظ کی بھرمار ہے مگر چوںکہ ذوقی ہندی کے بھی ایک بڑے افسانہ نگار ہیں اور بیک وقت ہندی میں بھی لکھتے رہتے ہیں اسی لئے اس کا اثر ان کے اردو فن پاروں میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے اس مجموعے میں شامل تمام کہانیاں ہم عصر معاشرے کی نہ صرف ترجمان ہیں بلکہ المیہ بھی ہیں یہ کہانیاں ملک اور بیرون ملک میں پیدا ہونے والے مسائل کے تناظر میں لکھی گئی ہیں ان کہانیوں کے مطالعے سے قاری کو بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ تخلیق کار کا ذہن کافی وسیع ہے اور اس کی نظر معاشرے کی باریکیوں کو دیکھنے اور پرکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے اس مجموعے کے منظر عام پر آنے کے بعد ذوقی کی افسانہ نگاری کے لئے راہیں ہموار ہو گئیں۔
(ii) ’’منڈی‘‘
’’منڈی‘‘مشرف عالم ذوقی کا دوسرا افسانوی مجموعہ ہے یہ ۱۹۹۷ء میں منظر عام پر آیا۔اس مجموعہ میں ذوقی ایک باغی افسانہ نگار بن کر سامنے آتے ہیں کتاب کے شروع میں ہی انھوں نے یہ تحریر کردیا کہ یہ کتاب ان نقادوں کے لئے نہیں ہے جو زندہ سچائیوں پر یقین نہیں رکھتے یعنی ایسے نقاد جو سچائی سے منہ موڑتے ہیں اور اس کا سامنا کرتے ہوئے ڈرتے ہیں اور آج بھی پرانی روایات یا پرانی تہذیب کے دائرے سے باہر نہیں نکلنا چاہتے۔ذوقی ایسے نقادوں کو اپنی تحریروں سے دور رہنے کی صلاح دیتے ہیں کیوں کہ سچ کو کورے الفاظ میں سب کے سامنے لانا ان کا پیشہ ہے ۔مجموعہ ’’منڈی‘‘کی کہانیاں بھی سچ پر مبنی ہیں جنھیں پڑھتے وقت قاری کو یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کی جیتی جاگتی کہانیاں ہیں ۔’’منڈی‘‘کی کہانیاںچار حصّوں پرمشتمل ہیں:۔
۱۔نئی کہانیاں ۲۔کچھ پرانی کہانیاں ۳۔جدید لب و لہجہ کہ کہانیاں ۴۔جو چپ رہے گی زبان خنجر
تعجب کی بات یہ ہے کہ ان چاروں حصّوںمیں ’منڈی‘نام کی کوئی کہانی شامل نہیں ہے جبکہ مصنف نے اس مجموعے کا نام ’’منڈی‘‘رکھا ہے مگر مجموعے کی تمام کہانیوں کے مطالعے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دیگر منڈیوں کی طرح یہ بھی ایک منڈی ہے سبزی منڈی اور گوشت کی منڈی کی طرح ادب کی ایک منڈی۔اس منڈی میں بھی وہ سب کچھ ہوتا ہے جو تمام منڈیوں میں ہوتا ہے سودے بازی،کاروبار،دھوکہ،جھوٹ،بیوپار،بے ایمانی وغیرہ ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ادب کی منڈی میں یہ سب کون کر رہا ہے ؟مصنف نے اپنا احتجاج درج کرتے ہوئے یہ صاف کردیا ہے کہ اس کے ذمہ دار اردو کے نقاد ہیں جو اپنے فرائض سے ہٹ کر ادب کی بولی لگاتے ہیں اور چند پیسوں کے لالچ میں ادب کو نیلام کرنے پر تلے ہیں ۔اتنا ہی نہیں ’’منڈی‘‘کی متعدد کہانیاں انسانی رشتوں کی خریدو فروخت کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں جہاں پاکیزہ رشتوں کو تار تار کیا جاتا ہے۔
اس مجموعہ کی کہانیوں’’ٹیلی فون‘‘اور ’’حالانکہ یہ سب سچ نہیں ہے‘‘میں ملازمت کرنے والے شوہر اور بیوی کو موضوع بنایا گیا ہے ان کہانیوں میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کو پیش کیا گیا ہے شوہر اور بیوی دونوں پہلے بڑی بڑی باتوں کو نظرانداز کردیتے تھے مگر اب و ہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر بحث یا سنجیدہ گفتگو میں الجھ جاتے ہیں زندگی کی اس تبدیلی نے ان کے مزاج اور عادات و اطوار کو بھی بہت حد تک بدل دیا ہے اب ان کی زندگی میں بس شکوے شکایتیں ہیں اور ایک لمبی خاموشی۔وہ دونوں ملازمت کرتے ہیںا ور اس قدر مصروف ہیں کہ ان کے پاس ایک دوسرے کے لئے وقت نہیں حالانکہ پہلے وہ گھنٹوں تک محبت بھری باتیں کرتے تھے اور خوبEnjoyکرتے تھے ہنسی خوشی سے رہتے تھے لیکن محبت کی کوکھ سے جنما یہ رشتہ حالات کا شکار ہوجاتا ہے اور پیار ایک سمجھوتے میں بدل جاتا ہے اب تو وہ محض سمجھوتے والی زندگی جینے پر مجبور ہیں ۔نہ آپس میں زیادہ باتیں، نہ مسکراہٹ اورنہ قرابت۔فاصلے بڑھتے ہیں اور اداسیاں جنم لیتی ہیں۔
’’رات کافی ہوگئی تھی۔۔۔۔۔ترلو کروٹ بدل کر لیٹ گئی۔سدیپ نے اسے چھوا تک نہیں ۔وہ بس،بستر پر ترلو سے اپنا فاصلہ ناپتا رہا۔ایک کمزور سا آدمی،اس کی ایک ہلکی سی جیب اور دہلی مہانگر کی تیز رفتاری کا ساتھ دینے والی ترلو۔کیا اسے بہت کچھ سہتے جانا ہے ابھی۔۔۔۔اسی طرح۔۔۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،منڈی،ص۔۹۱)
دن رات کی محنت نے عشق کو داغدار کردیا۔باگ دوڑ اور دفتر کے مشینی نظام نے معصوم ارمانوں کو کچل کر رکھ دیا۔دراصل یہ آج کا ایک اہم اور پیچیدہ مسئلہ ہے اکثر جوڑے جو کام کے سلسلے میں دن بھر باہر رہتے ہیں اور شام کو جب تھکے ہارے گھر پہنچتے ہیں توایک دوسرے کو وقت نہیں دے پاتے جس سے گھر کی خوشیاں اور چین سکون لٹ جاتا ہے نتیجہ کے طور پر زندگی ایک بوجھ بن جاتی ہے اور خوشی کا ایک لمحہ بھی ملنا دشوار ہوجاتا ہے۔
’’مجھے جانوروں سے ،بھوتوں سے،پیار کرنے دو‘‘ایک دلچسپ افسانہ ہے اس کہانی میں انسان کی داخلی کیفیات،بے حسی اور جذباتی کشمکش کو پیش کیا گیا ہے ساتھ ہی کائنات اور معاشرے میں پھیلی ہوئی بد امنی اور اخلاقی و روحانی قدروں کی شکست و ریخت کا شدیداحساس ملتا ہے کہانی کا مرکزی کردار اپنی مرضی سے شادی کرتا ہے اور اس کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے اس کی محبت کمزور پڑتی ہے تو جینی بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے پھر وہ تنہا جینے کی عادت ڈال لیتا ہے بلی اور کتے کو اپنا ساتھی بنا لیتا ہے کیونکہ جینی کو کتے بلی پسند نہیں ہیں مصنف نے یہاں ایک فلسفہ پیش کیا ہے کہ کوئی بھی چیز اپنے مثبت پہلو کی وجہ سے نہیں بلکہ منفی پہلو کی وجہ سے زیادہ یاد رکھی جاتی ہے باپ کے مرنے پر وہ گھر کا رخ کرتا ہے اور اپنے بھائی کی خوشی کے لئے اپنی جائیداد کا حصّہ اس کے نام کردیتا ہے ۔
’’باپ لمبی بیماری میں گزر گئے۔۔۔۔تم خود اکیلے ہو۔بیوی تمہیں چھوڑ کر غیر مرد کے ساتھ بھاگ چکی ہے ۔اور تمہارے پاس باقی زندگی گزارنے کے لئے ایک بڑا مکان بھی ہے ۔اس لئے میں چاہتا ہوں کہ تم دو ایک روز کے لئے یہاں آجاؤ اور مکان پر اپنے حق سے قانونی طور پر دست برداری کا اعلان کردو۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،منڈی،ص۔۳۵)
یہ آج کے انسان کی زندگی کا ایک بڑا المیہ ہے اس تیز رفتارزندگی میں انسان جس طرح کی بے یقینی کی زندگی جی رہا ہے اس کا اظہار ذوقی نے اس کہانی میں بھرپور طریقے سے کیا ہے رشتوں میں انتشار اور ٹکراؤ ہے محبت بھی پھیکی اور ماند پڑ گئی ہے انسان جانوروں میں زیادہ دلچسپی لینے لگا ہے اور انسانی ہمدردی کمزور پڑنے لگی ہے انھیں سب باتوں کو اس کہانی میں پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے کردار نگاری اور مکالمہ نگاری کے لحاظ سے یہ ایک اچھا افسانہ ہے۔
’’اصل واقعہ کی زیراکس کاپی‘‘اس مجموعہ کی مشہور ومقبول کہانی ہے یہ کہانی فرائڈ کی تھیوری الیکٹرا کمپلیکس پر مبنی ہے یہ ایک باپ کی کہانی ہے جو اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ بلاتکار کرتا ہے ۔یہ بے شک ایک سلگتا ہوا موضوع ہے اس پر کہانی لکھنا یقیناایک کٹھن اور دشوار کام ہے ذوقی کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اس مسئلے کو عالمی منظر نامے پر پیش کیا ہے انھوں نے اس موضوع کو اس قدر وسعت دی ہے اور قارئین کو یہ باور کرایا ہے کہ دنیا کی کوئی جگہ اس طرح کے سنجیدہ مسائل سے پاک نہیں ہے ۔ملاحظہ ہو یہ اقتباس۔
’’۔۔۔ہندوستان میں ۔۔۔پاکستان میں ۔۔۔کوئی سا بھی ملک باقی نہیں ہے۔۔۔امریکہ،روس،جاپان،ویتنام۔۔۔ایٹم بم اور میزائلس سے باہر نکلو تو وہی ایک جسم آجاتا ہے ۔۔۔لوگ مر رہے ہیں۔۔۔اور لوگ اپنی سگی بیٹیوں کے ساتھ ۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،منڈی،ص۔۴۵)
یہ ہے سفاک سچ۔رشتوں کی اس طرح دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں کہ فطرت بھی شرمسار ہوجائے۔ذہنی سکون حاصل کرنے کے لئے انسان اس قدر گر گیا ہے کہ وہ فطرت کے بنائے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کرنے پر اتر چکا ہے جس نے اسے تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کردیا ہے ۔ا س کہانی میں ایک باپ کو مجرم کے طور پر کورٹ میں پیش کیا جاتا ہے اس پر الزام ہے کہ اس نے اپنی دو بیٹیوں کا بلاتکار کیا ہے دیکھنے میں وہ ایک عام باپ کی طرح لگتا ہے اس کے چہرے اور Outlookسے با لکل نہیں لگتا کہ وہ اتنا گھناؤنا کام بھی کرسکتا ہے مگر اس نے یہ گناہ کیا ہے دو دوست اس معاملے پر بحث کرتے ہیں کہ ایک باپ کو اپنی بیٹی سے کتنی محبت ہوتی ہے اس کے سامنے ننھی سی بچی کودتی پھاندتی تاڑ جتنی لمبی ہوجاتی ہے اور باپ اس سے نظریں بچانے لگتا ہے یہ بہت ہی نازک رشتہ ہوتا ہے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہوئی بیٹی سے باپ اور بھی گھبرانے لگتا ہے جب بھی اس کی نظر بیٹی پر پڑتی ہے تو وہ آنکھیں پھیر لیتا ہے اس کشمکش سے بچنے کے لئے وہ اس کی شادی کی بات چھیڑتا ہے وہ کئی بار اسے رخصت کرنے کی بات سوچتا ہے دراصل وہ بس چھپنا اور بچنا چاہتا ہے کیوں کہ وہ اپنے آپ سے ڈرنے لگتا ہے ایک باپ کو اس رشتے کی پاکیزگی کا احساس بخوبی ہوتا ہے مگر کہیں کسی لمحہ میں وہ ٹوٹتا ہے ملاحظہ ہو۔
’’ہاں تو میں ۔۔۔ایک لاچار کمینہ باپ۔۔۔کسی ایک جبر وکشمکش کے لمحے کے ٹوٹ جانے کے دوران۔۔نہیں۔۔مجھے اعتراف ہے کہ وہ حوا کی کوکھ سے نہیں میرے خون سے نکلی تھی۔جنی تھی۔مجھے اعتراف ہے کہ نہیں،مجھے کہنے نہیں آرہا۔۔۔اور کیسے آسکتا ہے ۔۔۔آپ سب مجھے ایسے گھور رہے ہیں ۔۔۔سب کی نگاہیں۔عیاشی کی اس سے بھدی مثال اور کمینگی کی ا س سے زیادہ انتہا اور کیا ہوسکتی ہے۔مجھے سب اعتراف ہے ۔مگر۔۔۔میں کیسے سمجھاؤں۔۔۔بس ایک جبر وکشمکش کے ٹوٹ جانے والے لمحے کے دوران۔۔۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،منڈی،ص۔۴۶)
یہ سب تہذیبی شکست وریخت کا نتیجہ ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ مغربی تہذیب کی تمام تر برائیاں ہمارے معاشرے میں بہت تیزی سے پھیلتی جارہی ہیں جس کی وجہ سے مشرق والے اپنی تہذیبی قدروں کو پامال کر رہے ہیں ۔جنسی جذبہ ایک فطری تقاضہ ہے لیکن جب اس میں فطری بے راہ روی پیدا ہوجاتی ہے تو یہ مہلک اور مضر ثابت ہوتا ہے اور اس کے منفی اثرات سامنے آتے ہیں فطری ضابطے کے خلاف جب کوئی کام کیا جاتا ہے تو یہ انسان کو زوال پذیر بنا دیتا ہے یہ ذوقی کی ہمت ہے کہ انھوں نے وقت رہتے ہوئے معاشرے کو اس ناسوراور لعنت سے آگاہ کردیا ہے اس سلسلے میں ایک اور اقتباس ملاحظہ ہو۔
’’دکھ ۔۔جو ہم جھیلتے ہیں ۔۔۔یا جھیلتے رہتے ہیں ۔۔۔مہاتما بدھ کے مہا نبھشکر من سے لے کر بھگوان کی آستھاؤں اور نئے خداؤں کی تلاش تک ۔۔۔پھر ہم کسی روحانی نظام کی طرف بھاگتے ہیں ۔۔کبھی اوشو کی شرن میں آتے ہیں ۔۔کبھی گے (Gay)بن جاتے ہیں تو کبھی لیسبئن۔۔۔اور بھاگتے بھاگتے اچانک ہم سد بدھ کھو کر کنڈوم کلچر میں کھوجاتے ہیں ۔۔۔ہم مررہے ہیں سموئل۔اور جو نہیں مررہے ہیں وہ جانے انجانے ایچ۔آئی۔وی پازیٹیو (HIV Positive)کی تلاش میں بھاگ رہے ہیں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،منڈی،ص۔۴۷)
مصنف نے ناپاک رشتوں کی تمام گرہیں کھول کر قارئین کے سامنے رکھ دی ہیں ہم لاکھ انکار کریں مگر رشتوں کی اس حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتے۔یہ ایک ایسی وبا ہے جو ساری دنیا کو اپنے قبضہ میں لے کر اس کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے۔یہ ایک بیانیہ افسانہ ہے کہانی کو بیان کرنے کا انداز بالکل انوکھا ہے یہ کہانی دو راویوں کے مکالموں سے شروع ہوتی ہے اور انھیں کے سہارے آگے بڑھتی ہے وہ بار بار باپ بیٹی کے رشتے پر Commentکرتے ہیں اور باپ کو طنز کا نشانہ بناتے ہیں جبکہ وہ خود جنسی بازار کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور ہوٹلوں میں جاکر طوائفوں کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے ہیں اور مہذب ہونے کا کھوکھلا دعوہ کرتے ہیں ان کرداروں کے ذریعہ مصنف نے شاید یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ معاشرے کا ہر فرد جنسی بے راہ روی کا شکار ہے اور ایک نیا کلچر فروغ پارہا ہے جسے کنڈوم کلچر کے نام سے جانا جاتا ہے یہ بالکل ایک نئے Dimensionکی کہانی ہے جو آج کی کڑی اور بھیانک سچائی کا اظہار کرتی ہے ۔
افسانہ’’باہر کا ایک دن‘‘میں اخبارات سے جڑے ان بزرگ ملازموں کی روداد پیش کی گئی ہے جنھیں عمر کے آخری حصّے میں نوکری سے نکال دیا جاتا ہے اور وہ بے کاری کے چلتے اداسی اور ناامیدی میں مبتلا ہوجاتے ہیں زندگی کا ایک ایک لمحہ ان کے لئے وبال جان بن جاتا ہے اس کہانی میں جہاں اخبار نویسوں کو طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے وہیں ان ملازموں کی کمزوریوں کو بھی بروئے کار لایا گیا ہے کہ جو اپنی کمائی کو جھوٹی شان اور فضول خرچی میں اڑاتے ہیں مصنف نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اپنی آمدنی کو مناسب جگہ استعمال کرنا چاہئے اور اس کی بچت کرنے کی بھی فکر ہونی چاہئے تاکہ مستقبل میں کوئی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
’’ہم بہت آگے نہیں دیکھتے۔صرف خوش فہمیوں پر بھروسہ کرتے ہیں اور ایک دن کنگال ہوجاتے ہیں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،منڈی،ص۔۵۲)
اس افسانے میں انگریزی زبان کا استعمال قدرے زیادہ ہے اس لئے اسے انگریزی نما افسانہ کہا جائے تو مضائقہ نہیں ۔اس میں دو مرکزی کردار ہیں لیکن افسانہ نگار ان دونوں میں ایک توازن بنائے رکھنے میں کمزور نظر آتا ہے ۔سکسینہ کے بارے میں سب باتیں مفصل بیان کی گئی ہیں جبکہ اس کے دوست کی زندگی سے متعلق مختصر تعارف کرایا گیا ہے جس سے کہانی میں ایک جھول پیدا ہوگیا ہے۔
’’حیران مت ہو سنگی مترا‘‘بالکل سامنے کی کہانی ہے مگر اہم بات یہ ہے کہ ذوقی نے اس کو ایک الگ انداز میں تخلیق کیا ہے یہ کہانی سنگی مترا کے پیار اور اس کے بھروسے کی ہے وہ جسدیو سے لو میرج کرتی ہے اور اس سے رشتہ نبھانے کے لئے کلکتہ چھوڑ کر ممبئی آجاتی ہے ۔جسدیو ایک بڑا آدمی بننے کا خواب سجاتا ہے وہ فلموں اور سیریلس کے لئے کہانیاں لکھنے کا کام شروع کرتا ہے اس کا ایک دوست ابھیتوش اس کی بہت مدد کرتا ہے محلے کے کچھ مرد سنگی مترا کو’بائی‘ کہہ کر پریشان کرتے رہتے ہیں اور اس پر بری نظر ڈالتے ہیں جسدیو دن بھر کام میں مصروف رہتا ہے تو ابھیتوش سنگی مترا کو بہلائے رکھتا ہے اور اس کے اکیلے پن کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ ایک بھولا بھالا اور مہذب آدمی لگتا ہے جب سنگی مترا حاملہ ہوجاتی ہے تو اس کی ماں ایک لڑکی سرجو کو اس کے پاس بھیج دیتی ہے تاکہ وہ سنگی کا خیال رکھے اور اس کے کام میں ہاتھ بٹائے۔ابھیتوش سرجو میں دلچسپی لینے لگتا ہے سنگی مترا کی آنکھ لگ جاتی ہے اور ابھیتوش سرجو کے بھولے پن سے فائدہ اٹھا کر اسے اپنی ہوس کا شکار بناتا ہے۔
’’سرجو زاروقطار رورہی تھی ۔میم سائب۔۔۔۔جن کے پتی نہیں ہوتے کیا وہ رنڈیاںہوتی ہیں میم سائب۔۔۔دوبات کرنے کا مطلب کیا شریر سے کپڑا الگ کرنا ہوتا ہے ۔امی تو اوکے مہا پرش سبھے بی چھلاح۔۔۔میم سائب ہم تو کھوس ہوتے تھے بابو کتنا پڑھا لکھا آدمی ہے ۔۔۔لیکن سب کتے ہیں میم سائب۔۔۔سب کو گوشت کی بوٹیاں چاہئیں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،منڈی،ص۔۸۰)
اس طرح سنگی کا مردوں پر سے یقین اٹھ جاتا ہے وہ اپنے پتی جسدیو کے ظاہر و باطن کو جانچنا اور پرکھنا چاہتی ہے اس لئے اس کو سوالوں کے کٹہرے میں کھڑا کردیتی ہے۔
’’جو پوچھتی ہوں اس کا خیال مت کرنا۔صحیح صحیح جواب دینا ۔۔۔کبھی میرے سوا کسی اور کی مانگ نے جنم لیا ہے تمہارے اندر؟۔۔۔کبھی کسی کو دیکھ کر سوئی ہوئی بھوک لہرائی ہو۔رات دن لڑکیوں سے سامنا ہوتا رہتا ہے تمہارا۔۔۔سچ تو یہ ہے کہ ساری ترقی پسندی ایک طرف۔مردوں کے لئے ہم صرف گوشت کی بوٹیاں ہیں ۔مجھے بوٹیاں نہیں بننا جسدیو۔میں مردوں میں تمیز نہیں کرپارہی۔۔اصول اور آدرش کی ساری کتابیں مجھے جھوٹی لگ رہی ہیں اور ان کے لکھنے والے بھی۔وہ اب تک اس کا گریبان پکڑے ہانپ رہی تھی۔۔۔میری تسلی کرادو جسدیو۔سچ میں برا نہیں مانوں گی جسدیو۔۔۔میں برا نہیں مانوں گی۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،منڈی،ص۔۸۲۔۸۱)
یہ ہر اس عورت کا سوال ہے جو شادی شدہ ہے جس کی صفائی وہ اپنے شوہر کی زبان سے سننا چاہتی ہے کیونکہ ایک عورت کچھ بھی برداشت کرسکتی ہے مگر اپنے شوہر کو کسی دوسری عورت کے ساتھ بالکل نہیں دیکھ سکتی۔اس کہانی میں اتنے ہی کردار ہیں جتنے ضروری ہیں ۔جسدیو،ابھیتوش،رحمت،قدوس،سنگی مترا اور سرجو۔ان میں سنگی مترا اور جسدیو کے کردار اہمیت کے حامل ہیں سنگی مترا اپنا گھر بار چھوڑ کر شوہر کی خاطر ایک معمولی سے کمرے میں گزارا کرتی ہے اور جسدیو کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کو پورا کرتی ہے وہ اپنے شوہر کی خوشیوں کے لئے اپنی تمام خواہشوں کو قربان کردیتی ہے مگر اپنی نوکرانی کے ساتھ ہوئے حادثے سے وہ سہم جاتی ہے اور کشمکش میں پڑ جاتی ہے اپنی الجھن کو دور کرنے کے لئے وہ جسدیو سے صاف طور پر بات کرتی ہے سنگی مترا ایک نڈر اور با ہمت عورت کا کردار ہے جسدیو ایک محنتی آدمی ہے وہ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے ہجرت کرتا ہے اور محنت اور لگن سے ترقی کی منزلیں طے کرتا ہے وہ اپنی بیوی سے بہت پیار کرتا ہے اور اس کو خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے ۔ابھیتوش دوستی کی آڑ میں ایک ایسا بھیڑیا ہے جو موقع ملتے ہی اپنے شکار پر ٹوٹ پڑتا ہے وہ ایک معصوم لڑکی کی عزت خراب کرتا ہے اور اسے بدنامی سہنے کے لئے چھوڑ دیتا ہے سرجو کا کردار ایک کمزور اور مظلوم لڑکی کا استعارہ ہے وہ ابھیتوش کے جبر کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے اور اس کے ظلم کا شکار بن جاتی ہے نہ وہ احتجاج کرتی ہے اورنہ ہی ابھیتوش کو سزا دلواتی ہے ۔ذوقی نے اس کہانی کو ایک محدود مقام تک سمیٹنے کی کوشش کی ہے انھوں نے ایک بند کمرے میں کہانی کے تمام اتار چڑاؤ کو پیش کرکے قارئین کو حیران کردیا۔سچ میں یہ کہانی کہنے کا انوکھا انداز ہے بنگالی زبان کے کچھ فقرے پڑھتے وقت بوریت ہونے لگتی ہے اگر ان کا اردو ترجمہ کردیا جاتا تو کہانی اور بھی دلچسپ بن سکتی تھی۔
’’بھنور میں ایلس‘‘ایک لاجواب افسانہ ہے یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو کینسر کی مریض ہے مگر وہ گھٹ گھٹ کر نہیں جیتی اور نہ ہی کبھی مایوس ہوتی ہے وہ زندہ دل ہے اور اپنی زندگی کے ہر لمحہ کو Enjoyکرتی ہے وہ مرنے سے پہلے مکمل طور پر جینا چاہتی ہے اور اپنے شوہر کی غلط فہمی دور کرنے کے لئے صاف طور پر کہہ دیتی ہے۔
’’موم بتی جب تک جل رہی ہے۔۔۔آخری شعلے تک ۔۔۔وہ روشنی تو دے رہی ہے ۔۔۔میں ابھی نہیں مر رہی ۔۔۔جب مروں گی،تب دیکھا جائے گا ۔موت کو عام حقیقتوں کی طرح قبول کرنا سیکھو۔۔۔جینا سیکھو۔زندگی جینا اور ہر لمحے کو Enjoyکرنا۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،منڈی،ص۔۱۴۵)
ذوقی زندگی کو ایک حسین ترین شے تصور کرتے ہیںوہ بیمار کو بھی زندگی کا لطف اٹھانے کے لئے تیار کرتے ہیں اور اسے حوصلہ دیتے ہیں وہ رنج وغم اور درد سے فرار حاصل کرنا چاہتے ہیں یہی چیزیں وہ اپنے کرداروں میں ڈال دیتے ہیں اور انھیں جاندار اور باہمت بنانے میں کامیاب نظر آتے ہیں ان کے کردار خود کو بندشوں اور الجھنوں میں قید نہیں رکھتے وہ ہر حال میں خوش رہتے ہیں ان کے لئے موت اور زندگی میں زیادہ فرق نہیں۔
’’میں نے دیکھا کہ میں مرگئی ہوں۔۔۔اور وہاں۔۔۔آسمان پر جو تارہ چمک رہا ہے نا،وہ میں ہوں۔۔۔اچھا بتاؤ۔۔۔رات میں آسمان پر چمکنے والے تارے کتنے بھلے اور سندر لگتے ہیں ۔۔۔اچھا سمجھ لو ہم مر گئے ہیں اور مرکر وہاں آسمان میں گل بوٹوں کی طرح چپک گئے ہیں ۔اس تارے کی طرح۔۔۔تو اس میں گھبرانے کی بات کیا ہے؟‘‘(مشرف عالم ذوقی،منڈی،ص۔۱۳۲)
ذوقی نے اس کہانی کو مزید جانداراور دلچسپ بنانے کے لئے الگزینڈرنیٹسن کی کتاب’’کینسروارڈ‘‘سے استفادہ کیا ہے جس کی ایک کردار لڑکی مرنے سے پہلے اپنے بوائے فرینڈ کو اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے اور اپنے پوشیدہ اعضاء کو چھونے کے لئے کہتی ہے تاکہ وہ اس کے زندہ ہونے کا گواہ بن سکے۔
’’مجھے بس وہ عورت یاد آگئی۔۔۔جو اچانک اپنا سینہ کھول کر اپنے بوائے فرینڈ کے سامنے جذباتی ہوگئی تھی۔Suck it۔۔۔اسے منہ میں لے لو۔چوسو!۔۔۔یہ دہکتا ہوا انگارہ۔اس کا یقین کروابھی یہ اس جگہ ہے ۔۔۔کل یہ آپریشن کے بعد کسی گٹر یا ڈسٹ بن میں پھینک دیا جائے گا۔مگر گواہ رہنا کہ یہ اس جگہ موجود تھا ۔۔۔۔اپنی تمام تر شعلہ سامانیوں کے ساتھ۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،منڈی،ص۔۱۴۰)
یقینا ذوقی کا کہانی لکھنے کا سلیقہ اور انداز نرالا ہے وہ نہایت ہی فنکاری سے اپنی بات قاری تک پہنچا دیتے ہیں کینسر اور دوسری مہلک بیماریوں پر ہزاروں کہانیاں لکھی گئی ہوں گی مگرذوقی کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اس کہانی کو زندہ جاوید بنا دیا ہے موت جیسی برہنہ حقیقت کو Glamouriseکرکے پیش کرنا ذوقی جیسا فنکار ہی کرسکتا ہے۔
’’اپنی کہانی‘‘میں ذوقی نے اپنے آپ کو طنز کا نشانہ بنایا ہے کہانی ان کے ساتھ ہم کلام ہوتی ہے اور انھیں پرانی روایتوں سے انحراف کرنے پر اکساتی ہے وہ اس بات کا بھی انکشاف کرتی ہے کہ آپ صرف نچلے طبقے کے لوگوں کو اپنی کہانیوں کا موضوع بناتے ہیں اور رومانٹسزم کے ذریعہ ان میں دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ وقت تیزی سے بدل رہا ہے اور اس بدلتے ہوئے ماحول میں آپ کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے ۔دوسروں کے بجائے آپ خود پر کہانیاں لکھیں اور ان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کریں ۔یہ ایک مختصر سی کہانی ہے اور یہ اس لئے اہم ہے کہ اس میں مصنف نے ادبی خامیوں کو بروئے کار لایا ہے زبان سادہ ہے اور مکالمے بھی انتہائی برجستہ ہیں۔
’’بچھونا‘‘،’’کنگن‘‘اور’’ایک پرانی دستک‘‘میں بھکاریوں کو موضوع بنایا گیا ہے ذوقی کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ سماج کے ہر طبقے کو اپنی کہانیوں میں جگہ دیتے ہیں بھکاری لوگ کس طرح گزر بسر کرتے ہیں اور اپنی چھوٹی چھوٹی چاہتوں کے خواب سجاتے ہیں مگر ان کے تمام ارمان چکنا چور ہوجاتے ہیں ان کا اپنا کچھ نہیں ہوتا۔نہ کوئی مقام،نہ مکان۔زندگی بھر کی کمائی میں وہ ایک بستر ہی حاصل کرپاتے ہیں اور جب وہ بستر بھی چھن جائے تو ایک رات گزارنا بھی محال ہوجاتا ہے۔
’’ہماری تو ساری کمائی بچھونا ہوتی ہے ۔ارے۔۔کیا؟کہ بچھونا نہیں تو کچھ بھی نہیں۔زندگی بھر سالا ہم کماتے ہیں کیا۔یہی بچھونا۔اس نے بچھونے کو ہاتھ سے چھوتے ہوئے کہا،یہی بس۔۔۔یہی ملکیت ہوتی ہے ہماری۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،منڈی،ص۔۱۶۸)
بھکاریوں کی زندگی دوسروں کے رحم و کرم پر منحصر ہوتی ہے وہ دن بھر طرح طرح کے حیلوں سے بھیک مانگتے پھرتے ہیں لوگوں کے طعنے اور جھٹکے سہتے ہیں اور ایک ایک پیسہ جمع کرکے بڑی مشکل سے پیٹ کی دوزخ کو شانت کرتے ہیں یہی ان کا معمول اور زندگی ہے نہ وہ اپنا جسم چھپانے کے لئے کوئی ڈھنگ کا کپڑا خرید سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی دوسری خواہشوں کو پورا کرپاتے ہیں ان کی تمام خواہشیں اندر ہی دبی رہ جاتی ہیں اور پھر اندر ہی مرجاتی ہیں لوگ ان کو نیچ سمجھتے ہیں اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیںکوئی ان کے منہ نہیں لگتا اور وہ اس ذلت بھری زندگی سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں۔ان افسانوںمیں مصنف نے جہاں بھکاریوں کی دکھ بھری زندگی کے نازک گوشوں سے متعارف کروایا ہے وہیں پولیس اور ان لوگوں کو بھی طنز کا نشانہ بنایا ہے جو بھکاریوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں اور ان پر ہنستے ہیں ۔اپاہج اور لاچار بھکاریوں کو سڑکوں پر روند کر مرنے کے لئے چھوڑدیا جاتا ہے اور پولیس ٹس سے مس نہیں ہوتی۔
’’اچانک اس افراتفری میں ایک دلخراش چیخ گونجی۔آہ۔۔۔اور کسی کی بیساکھی لوگوں کے دھکے سے دور جاگری۔اور اس کے ساتھ ہی کتنے ہی قدموں تلے وہ شخص روند دیا گیا ۔۔۔۔۔بیساکھی والا تقریباً بے ہوش ہوگیا تھا ۔آنکھیں ابل آئی تھیں۔چہرہ زخموں سے چور تھا ۔پیروں سے خون نکلنے لگا تھا۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،منڈی،ص۔۱۹۰)
ان افسانوں کے کردار چونکہ بھکاری ہیں اس لئے انھیں کے طبقے کی زبان استعمال کی گئی ہے کرداروں کے نام بھی اسی مناسبت سے رکھے گئے ہیں مثلاً منگرو،رنگروٹ،چھلکا اماں وغیرہ۔تمام کردار حقیقی ہیں جو ہمارے معاشرے میں روز چلتے پھرتے اور بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ان کے حرکات واعمال بھی اصلی ہیں ان میں کسی قسم کی کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔
افسانہ’’مہذب‘‘آج کی تہذیب کے منہ پر ایک طمانچہ ہے ایک مہذب لوگوں کا ادارہ ہے جس میں شامل ہونے کے لئے لوگ دوڑے چلے آرہے ہیں اور مہذب لوگوں کی فہرست میں اضافہ ہوتا جارہا ہے بوڑھا شخص جو اس ادارے کا سرپرست ہے ممبر بننے آئے ہوئے لوگوں کا انٹرویو لیتا ہے اور ان سے مہذب ہونے کی دلیل مانگتا ہے پھر وہ انھیں حکم دیتا ہے کہ شہر کی طرف نکل جاؤ اور نومولد بچوں کو قتل کردو۔واپسی پر جب وہ لوگ اپنی کارگزاری سناتے ہیں تو ان کا آقا خوش ہوکر انھیں مہذب قرار دے دیتا ہے ۔
’’شاباش!آقا کی بلند آواز گونجی۔۔۔۔۔تو عزیزو!میں کیسا خوش ہوں۔تمہارے منہ سے یہ جان کر کہ تم نے ان چھوٹے چھوٹے ناپاک بچوں کو۔۔۔ہاں ناپاک بچوں کو کہ وہ بڑے ہوکر تہذیب کی مقدس آسمانی کتاب کے خلاف آواز احتجاج بلند کرتے ،تم نے ان بچوں کے وجود کو ہی ختم کردیا۔۔۔۔۔شاباش میرے عزیزو!۔۔۔اب تم مہذب لوگوں میں شامل ہونے کو تیار ہو!‘‘(مشرف عالم ذوقی،منڈی،ص۔۱۸۰)
یہ کون سی تہذیب ہے جس کی بنیاد بچوں کے سر قلم کرکے رکھی جارہی ہے اس سے گھٹیا اور کمینہ کام اور کیا ہوسکتا ہے کہ معصوم بچوں کو بے رحم موت ماراجاتا ہے اور ان کے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جاتے ہیں کیا ایک بار بھی ان ظالموں کا دل تلملایا نہیں ہوگا ؟کیا انسانیت اس حد تک بھی گرسکتی ہے؟اور پھر مہذب بننے کی دوڑ اور دلیل۔دراصل یہ آج کی ترقی یافتہ دنیا کا سچ ہے جہاں انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہیں ۔پیسے اور حکومت کی ہوس نے ایک نئی تہذیب کوجنم دے دیا ہے جس میں انسان حیوانیت پر اتر آیا ہے ۔
’’لیپروسی کیمپ‘‘میں ذوقی نے کوڑھ کے مرض میں مبتلا لوگوں کی روداد بیان کی ہے ان لوگوں کا قافلہ ساما ن سفر باندھتا ہے اور شہر سے ہوتے ہوئے گاؤں کی طرف نکل جاتا ہے مگر گاؤں کے لوگ بھی انھیں وہاں سے نکال دیتے ہیں۔
’’تم لوگ گاؤں خالی کردو۔یہاں کی فضا خراب ہورہی ہے ۔تم لوگ گاؤں کو کوڑھی بناؤگے کیا۔۔۔؟‘‘(مشرف عالم ذوقی،منڈی،ص۱۹۷)
لہٰذا وہ دربدر اور بے گھر ہوجاتے ہیں ان کے جسم کوڑھ سے لت پت ہیں اور چمڑی جھلسی ہوئی ہے وہ درد سے کراہ رہے ہیںمگر کوئی ان کا پرسان حال نہیں اوراس طرح یہ قافلہ کسی نامعلوم منزل کی جانب رواں دواں ہے اس افسانے کے تمام کردار اس خرابی کو Symboliseکرتے ہیں جو کوڑھ کی مانند ہمارے معاشرے میں پھیلتی جارہی ہے کوڑھ کے مریضوں کے ساتھ تعصبانہ رویہ رکھنا غیر انسانی فعل ہے انھیں اپنے شہر یا گاؤں سے نکالنا اس بیماری کا اعلاج نہیں ہے بلکہ ان کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنا چاہئے تاکہ وہ خود کو کمتر محسوس نہ کریں ۔یہ ایک منفرد افسانہ ہے جوسوئے ہوئے انسانی ذہنوں کو بیدار کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر ایک چیز جو قاری کو اس افسانے میں پریشان کرتی ہے وہ اس کا لب ولہجہ ہے مشکل الفاظ قاری کو الجھن میں ڈالتے ہیں اور وہ آسانی سے کہانی کو سمجھ نہیں پاتا۔
اس مجموعے کے آخری حصہ ’’جوچپ رہے گی زبان خنجر‘‘ میںشامل افسانے ’’بھگوا‘‘،’’میرا ملک گم ہوگیا ہے‘‘اور ’’لال سلام صاحب‘‘اہمیت کے حامل ہیں۔’’بھگوا‘‘میں ایک ہندو بچے گنیسوا کی کہانی پیش کی گئی ہے جس کے سر پر چٹلی ہے اس کے دوست اس کی چٹلی پکڑ کر اسے چھیڑتے ہیں اور بڑے بھی اس کا مذاق اڑاتے ہیں ایک دن کھیل کھیل میں وہ اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے کہ اسے گنیش کی زیارت ہوئی ہے اور اس کے بعد سب کچھ بدل جاتا ہے بچے اس کے ساتھ کھیلنے سے کتراتے ہیں اور اس سے دور بھاگنے لگتے ہیں اب کوئی اس کی ہنسی نہیں اڑاتا ۔ سب اسے گنیش کا بھگت کہتے ہیں اس کے ماں باپ ایک پنڈت کو بلاتے ہیں اور گنیسوا کو اس کے ساتھ بھیج دیتے ہیں تاکہ وہ دھرم کی رکچھا کرنے کے لئے اپنے دھرم کا پالن کرے مگر گنیسوا من ہی من اداس ہوجاتا ہے اسے یہ سب اچھا نہیں لگتا وہ تمنا کرتا ہے کہ اس کے پرانے دن واپس آجائیں اور سب اس کا مذاق اڑائیں۔دھرم کی حفاظت کے لئے بچوں کے ساتھ زور زبردستی کرنا غلط ہے ان کا بچپن چھین کر ان سے دھرم کا کام نہیں لیا جاسکتا۔اس عمر میں وہ کھیل کود میں دلچسپی رکھتے ہیں اس لئے ان پر زیادہ پابندیاں یا بندشیں نہیں لگانی چاہئے اس سے ان کے دل ودماغ پر منفی اثرات پڑتے ہیں اور وہ پڑھائی سے دور بھاگنے لگتے ہیں ۔کہانی کے کردار ہمارے ارد گرد سے ہی لئے گئے ہیں اور ان کے حرکات واعمال بھی حقیقی ہیں بچپن میں کھیل کھیلتے بچے کہیں بھی مل جائیں گے۔
’’چل۔۔۔ڈنگا پانی۔۔نہیں۔۔کیوں۔؟وہ ان کے پاس آگیا۔کبڈی؟نہیں۔چل ۔پھر بیر توڑتے ہیں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،منڈی،ص۔۲۵۳)
سادہ زبان اور مقامی لب ولہجہ کہانی کو دلچسپ بناتا ہے اس میں منظر نگاری کے بھی عمدہ نمونے ملتے ہیں کچھ بے معنی الفاظ بھی استعمال کئے گئے ہیں جو دقت کا سبب بنتے ہیں تاہم اس کے مکالمے برجستہ ہیں اور ایک خاص تاثر پیدا کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔
’’میرا ملک گم ہوگیا ہے‘‘اور’’لال سلام صاحب‘‘میں ظلم کی جلتی ہوئی آگ کی تصویر کشی کی گئی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اول الذکر کے کردار ظلم کو خاموشی سے سہتے ہیں اور اس کے خلاف جانے کی ہمت نہیں کرپاتے جبکہ ’’لال سلام صاحب‘‘کے کردار اس بربریت کو اپنے معاشرے سے ختم کردینا چاہتے ہیں اور وہ اس کے لئے پوری طرح تیار ہیں اب ظالموں کے قدم ان کے پاس جانے سے ڈگمگاتے ہیں۔
’’میرا ملک گم ہوگیا ہے‘‘ایک مسلم خاندان کی کہانی ہے جو فرقہ پرستی کے ماحول میں ہجرت کرنے کے بجائے ہندوستان میں ہی مقیم رہتا ہے کیونکہ اپنے وطن کی محبت انھیں روک لیتی ہے لیکن جب ملک میں دھنگے فساد بڑھتے ہیں تو ان کو طرح طرح سے پریشان کیا جاتا ہے ان کے دوست ،ہمدرد بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں انھیں غدار تک کہا جاتا ہے اور ملک بدر کرنے کی سازش رچی جاتی ہے نتیجہ کے طور پر وہ ڈپریشن کا شکار ہوکر ذہنی مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں اس طرح وہ بے بس ولاچار بنے فرقہ پرستوں کے ظلم کو برداشت کئے جاتے ہیں یہ مسلمانوں کا المیہ ہے کہ صدیوں تک اپنی وفاداری نبھاتے ہوئے بھی وہ ہجرت کرنے کے لئے مجبور کئے جارہے ہیں اور ان پر غداری کا الزام لگایا جارہا ہے گویا یہ ملک جس کے لئے وہ جیتے اور مرتے ہیں اس کی ترقی اور خوشحالی کے لئے جی توڑ محنت کرتے ہیں وہ ان کا اپنا ملک نہیں ہے صرف اس لئے کہ وہ مسلمان ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس کی تعمیر کے لئے تمام مذاہب کے لوگوں نے مل کر اینٹیں اور گھارا جمع کیا لہٰذا یہاں سب کو رہنے کا حق ہے کیونکہ یہ کسی ایک قوم یا فرقے کی وراثت نہیں ہے مصنف نے اس مسئلہ کو نہایت ہی فنکارانہ انداز میں پیش کرنے کی سعی کی ہے ۔
افسانہ ’’لال سلام صاحب‘‘میں ایک صحافی کی کاوشوں کو بروئے کار لایا گیا ہے جو ظلم کے خلاف اپنا قلم اٹھاتا ہے اور حکومت اسے حوالات میں بند کردیتی ہے جب بھی وہ باہر آتا اپنی ذمہ داریوں کو ایمانداری سے نبھانے کی کوشش کرتا۔ارول کانڈ میں ۴۵خاندان موت کی نیند سلا دیے جاتے ہیں اور حکومت چپ چاپ تماشہ دیکھتی ہے رگھوبیر اس ظلم اور بربریت کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اور سرکار کو استعفٰی دینے کے لئے کہتا ہے مگر اس کے احتجاج کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے اور اسے پھر سے حراست میں لے لیا جاتا ہے۔دھیرے دھیرے جب ارول کی طرح آرہ،بیگوسرائے،اورنگ آباد اور گیا جیسے شہر بھی ظلم کی آگ کی اس لپیٹ میں آنے لگتے ہیںتو رگھوبیر کے احتجاج نے لوگوں میں ہمت اور حوصلہ جگایا اور وہ بغاوت پر اتر آئے اب کوئی بھی ظالم ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہیں کرتااس طرح دھنگوں،تباہیوں اور قتل و غارت گری کے واقعات ختم ہونے لگتے ہیں رگھوبیر اپنے دوست مہیتوش کو لے کر ان شہروں میں جاتا ہے اور ایک بڑی تبدیلی اور خوشحال معاشرے کو دیکھ کر خوش ہوجاتا ہے ۔’لال سلام‘ہمت کا استعارہ ہے جو لوگوں کے اندر ظلم کے خلاف لڑنے کی طاقت اور قوت پیدا کرتا ہے دراصل صحافت کا کام انتہائی پیچیدہ ہوتا ہے اس پیشہ میں قدم قدم پر خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایک حق گو اور ایماندار صحافی کے لئے تو یہ کام اور بھی مشکل ہو جاتاہے کیونکہ آج مفاد پرستی کا دور ہے جہاں رشوت دے کر صحافیوں کو خریدا جاتا ہے اور سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کیاجاتاہے جس سے صحافت پر سے لوگوں کا یقین اٹھنے لگا ہے مگر اس کے باوجود آج کے دور میں بھی سچے اور ایماندار صحافی موجود ہیں جو اپنے فرائض کو ادا کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔اسی بات کو ذوقی نے اس افسانے میں موثر طریقے سے پیش کیا ہے کیونکہ وہ خود بھی ایک صحافی ہیں اس لئے انھیں اس پیشے کے خاصے تجربات ہیں ۔زبان کی سادگی اور شائستہ اسلوب اس کہانی میں قاری کی رغبت کا باعث ہے کرداروں میں حقیقی رنگ نظر آتا ہے
اور مکالموں میں بھی کوئی جھول نہیں ہے۔
(iii)’’غلام بخش اور دیگر کہانیاں‘‘
’’بھوکا ایتھوپیا‘‘اور’’منڈی‘‘کے بعد اردو میں ’’غلام بخش اور دیگر کہانیاں‘‘مشرف عالم ذوقی کا تیسرا افسانوی مجموعہ ہے یہ ۳۱۰صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں کل بیس کہانیاں شامل ہیں اس افسانوی مجموعہ کو ذوقی نے نئے اور پرانے عکس کے عنوان سے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے نئے عکس کے تحت ۹ کہانیاں ہیں جبکہ پرانے عکس کے تحت ۱۱کہانیاں شامل کی گئی ہیں۔
زیر نظر مجموعہ ’’منڈی‘‘میں شامل زیادہ تر افسانے ترقی پسند رحجان کی عکاسی کرتے ہیں ویسے بھی ذوقی بنیادی طور پر ترقی پسند ہیں اس مجموعے کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انھیں اپنے وطن عزیز کے شب و روز کی حقیقت سے گہری واقفیت اور دلچسپی ہے اس کے سیاسی،سماجی اور مذہبی حالات و واقعات پر وہ کڑی نظر رکھتے ہیں ۔ایک حساس آدمی خراب حالات میں کیسے زندگی گزارتا ہے اس کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیات کیا رہتی ہیں کیسے کیسے حالات سے اس کا سابقہ پڑتا ہے اس کی جان ومال،عزت وآبرو،شرافت اور وفاداری کا کس طرح خون ہوتا ہے زیر نظر مجموعہ کی بیشتر کہانیوں میں ان ہی تمام حالات و واقعات کو پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے ۔
اس مجموعے کے پہلے حصہ کے زیادہ تر افسانے تقسیم ہند سے پیدا شدہ مسائل پر مبنی ہیں جن سے نہ صرف مسلمان بلکہ ملک کی ہر قوم متاثر ہوئی۔’’غلام بخش‘‘اس مجموعے کا پہلا افسانہ ہے غلام بخش مولا حویلی تاج بخش پرانی دلی میں رہتا تھا وہ مہاتما گاندھی اور ان کی Ideologyسے بہت متاثر تھا اسے اپنے وطن سے والہانہ محبت تھی تقسیم ہند کے موقع پر اس کے بھائی زبردستی اسے پاکستان لے جاتے ہیں وہاں انھیں رہنے کے لئے مکان نہیں ملتا۔آخر کار غلام بخش کی کوششوں سے ایک مکان ملتا ہے اور وہ وہاں اپنے بھائیوں کے ہمراہ رہنے لگتا ہے مگر اس کا بڑا بھائی بیوی کے کہنے پر اسے گھر سے نکال دیتا ہے جبکہ قاعدے سے اس مکان پر غلام بخش کا حق ہونا چاہئے تھا لہٰذا وہ پاکستان چھوڑ کر دلی واپس آجاتا ہے مگر اپنے گھر پر کسی اور کا قبضہ دیکھ کر اداس ہوجاتا ہے وہ اس کرب کو جھیل نہیں پاتا اور اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتا ہے اسے نہ تو پاکستان راس آتا ہے اور نہ ہی ہندوستان۔دراصل وہ طے نہیں کرپاتا کہ اسے کہاں رہنا چاہئے کیوں کہ اسے دونوں ملکوں سے مایوسیاں ہی ملی ہیں اور یہی اس کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ ہے اسی ذہنی کشمکش میں وہ بڑبڑاتا رہتا ہے اپنے مکان کو حاصل کرنے کی تمنا دل میں لئے وہ بار بار اپنے مکان پر جاتا ہے مگر ہر بار وہاں سے نکال دیا جاتا ہے مرنے سے پہلے وہ پاکستان جانے کا ویزا بھی بنواتا ہے مگر وہ وہاں جاتا نہیں کیونکہ شاید وہ اپنی مٹی میں ہی ملنا چاہتا تھا اور اس نے اپنے وطن کو ہی فوقیت دی لہٰذا اپنے پرانے گھر کے صحن میں ہی اس نے موت کو گلے لگایا گویا غلام بخش نے ایسا کرکے یہ ثابت کردیا کہ مسلمان کبھی بھی اپنے گھر سے کٹ نہیں سکتا ۔اس کردار کی خاص بات یہ ہے کہ زمانے کے اتنے سرد گرم سہتے ہوئے بھی وہ کبھی اپنی تہذیبی وراثت کو نہیں بھول پایا ۔ذوقی نے غلام بخش کے ذریعہ پچھلے ۶۸ برسوں سے مسلمانوں پر لگنے والے الزاموں کو آئنہ دکھانے کی سعی کی ہے ۔
اس کہانی کے مطالعے کے بعد منٹو کا ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘یاد آجاتا ہے اور قاری کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کہیں غلام بخش ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ایکسٹینشن تو نہیں ہے اور اگر نہیں تو دونوں کرداروں میں کیا فرق ہے ٹوبہ ٹیک سنگھ سرحد پر ایسے گر کر مرا کہ آدھا دھڑ ہندوستان میں اور آدھا پاکستان میں یعنی منٹو نے واضح طور پر کہہ دیا کہ وہ تقسیم کو نہیں مانتے جبکہ ذوقی کی کہانی تقسیم کے بعد کے المیہ کو سامنے رکھتی ہے گویا جہاں ٹوبہ ٹیک کی کہانی ختم ہوئی وہیں غلام بخش انگڑائیاں لیتا ہوا بیدار ہوتا ہے۔یہ ایک بیانیہ افسانہ ہے اس کا راوی اظہر بائجان ایک با شعور ادیب ہے مگر مصنف نے اس کے تعارف میں ایک صفحہ سے بھی زیادہ خرچ کیا ہے جو غیرضروری لگتا ہے کتابت کی بھی کچھ غلطیاں ہیں پلاٹ کافی گٹھا ہوا ہے اور کہانی میں کوئی جھول نظر نہیں آتاہے مجموعی طور پر یہ ایک بہترین افسانہ ہے جو مسلمانوں کی ذہنی اور نفسیاتی کشمکش کا منعکس ہے ایک طویل عرصہ کے بعد غلام بخش جیسا جاندار کردار اردو ادب کو ملا ہے اور بلا شبہ اس کا سہرا ذوقی کے سر بندھتا ہے ذوقی کا یہ لافانی کردار ٹوبہ ٹیک سنگھ،لاجونتی،سوگندھی،کالو بھنگی وغیرہ کی طرح اردو ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
افسانہ’’جو زندہ نہیں‘‘میں ایک حساس آدمی کی روداد بیان کی گئی ہے بھائیوں کے ستم سے تنگ آکر کرشنا ریڈی گھر چھوڑ دیتا ہے اور دلی کی مہا نگری میں قدم رکھتا ہے وہ محنت اور ایمانداری سے اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے پہلے وہ ناٹک منڈلی میں کام کرتا ہے اس کے بعد ایک ہفتہ وار اخبار ’پنچ تنتر‘ کو جوائن کرتا ہے مگر بے ایمانی اور جھوٹ کے ڈر سے یہ کام بھی چھوڑ دیتا ہے ۔
’’سچ مانو تو بے ایمانی کر رہا ہوں،یہاں بھی۔دغا اور بے ایمانی۔۔۔اس فیلڈ میں اس قدر ضمیر بیچنا ہوگا۔سوچا بھی نہیں۔دوسرے پرچوں سے تصویریں چوری کرتے ہوئے،سنسنی خیز سرخیاں بناتے ہوئے،انگریزی سے ہندی کاپی کرتے ہوئے اندر ایک چوٹ سی پہنچتی ہے ،کہ ریڈی،یہ کیا کر رہے ہو تم ۔کیا یہی کچھ تمہارا خواب ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،غلام بخش اور دیگر کہانیاں،ص۔۳۸)
اسی دوران کرشنا ریڈی کو سڑک کنارے پڑا ہوا ایک بچہ ملتا ہے جو بیمار اور بے سہارا ہے وہ اسے اپنے ساتھ گھر میںلے آتا ہے اور اس کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے پھر وہ ایک ڈھابے میں ویٹر کا کام کرتا ہے ا ورا س بچے کو اپنے ساتھ ہی رکھتا ہے بچے کی وجہ سے ڈھابے کا مالک اسے کام سے نکال دیتا ہے کیونکہ لوگ اس بچے سے چھوت کرنے لگتے ہیں مگر وہ بچے کو خود سے الگ نہیں کرنا چاہتا لہٰذا اسے کوئی کام دھندہ نہیں ملتا اور وہ بے کاری کی وجہ سے کنگال ہوجاتا ہے مجبوری میں دوستوں سے ادھار مانگنے لگتا ہے مگر دوست بھی کب تک اس کا ساتھ دیتے۔با لآخر حالات سے تنگ آکر وہ خود کشی کر لیتا ہے اور اس طرح وہ بچہ پھر سے بے سہارا ہوجاتا ہے۔یہ ایک طویل افسانہ ہے جسے ناولٹ بھی کہا جاسکتا ہے اس میں اصل کہانی کے ساتھ ساتھ متعدد واقعات بھی پیش کئے گئے ہیں جو بوجھل پن کا احساس کرواتے ہیں کردارنگاری کے لحاظ سے بھی یہ ایک کمزور افسانہ ہے کرشنا ریڈی کے علاوہ راوی کا کردار بھی ہے وہ کرشنا ریڈی کا دوست ہے اور اس کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے مگر اسے حالات سے باہر نکالنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھاتا ۔کرشنا ریڈی غریبی سے مقابلہ کرنے کے لئے کافی ہاتھ پیر مارتا ہے وہ کئی جگہوں پر ملازمت کرتا ہے مگر اس کا ضمیر اسے کہیں بھی استقامت نہیں بخشتا۔ وہ اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کرپاتا اور انتہائی جدوجہد کرتا ہے مگر جب وہ ہار جاتا ہے تو موت کو گلے لگا لیتا ہے ایسا لگتا ہے کہ اس نے موت کو ذلت پر فوقیت دی مگر کرشنا کا یہ قدم اس کو بزدل ثابت کرتا ہے لہٰذا ان کرداروں کو مضبوطی دینے میں مصنف کی گرفت کمزور نظر آتی ہے۔
’’یہ کسی تھکی ہوئی رات کی داستان نہیںہے‘‘کے عنوان سے دو افسانے ہیں ۔پہلے حصہ میں ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو آگ اور دھوئیں کو پسند کرتی ہے اور اس کی تصویریں اپنے کیمرہ میں لیتی ہے مسٹر کمال کا پالتو کتا اس سے باتیں کرتا ہے اور اسے تعجب میں ڈال دیتا ہے وہ اس سے انسانیت کی بھیک مانگتا ہے اور مرتی ہوئی انسانیت کو بیدار کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔
’’آپ ہم سے سب کچھ لے چکے ہیں ۔ہماری حیوانیت،درندگی،جبلت۔نہیں اس میں افسوس کرنے جیسی کوئی بات نہیں ہے محترم۔۔۔۔۔اپنی وفاداری اور غلامی،میں نے ٹھیک طرح سے نبھائی ،کیوں ٹھیک ہے نا؟تو جاتے جاتے آپ سے تھوڑی سی انسانیت مانگ رہا ہوں۔اگر آپ کے اندر بچ گئی ہے تو۔۔۔نہیں؟۔۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،غلام بخش اور دیگر کہانیاں،ص۔۷۸)
دوسرے حصہ میں بھی اسی کی مناسبت سے کہانی پیش کی گئی ہے کرفیوزدہ رات میں ایک آدمی کسی بدبودار گلی میں پھنس جاتا ہے اور اسے مجبوراًکھلے سنڈاس میں کتوں کے ساتھ رات گزارنی پڑتی ہے جب وہ صبح نیند سے بیدار ہوتا ہے تو اس کے منہ سے کتے کی آواز آنے لگتی ہے اتنے میں ایک پولیس والا وہاں آتا ہے اور اسے پکڑ کر تھانے لے جاتا ہے وہاں اس سے پوچھ تاچھ کی جاتی ہے وہ پھر سے کتے کی آواز نکالتا ہے ٹھیک اسی وقت دوسرا کانسٹیبل اپنے ساتھ ایک کتے کو لاتا ہے جو انسانوں کی طرح بات کرتا ہے اس پر سینئیر پولیس افسر اپنے تاثرات کا اظہار یوں کرتا ہے ۔
’’سنو۔۔غور سے سنو۔ایسا ہوتا ہے ۔۔ایک خاص مدت میں ۔۔جب ہم ارتقاء پذیر ہوتے ہیں۔۔سمجھ رہے ہو نا۔۔ارتقاء پذیر۔۔تنزلی کے راستے بھی یہیں سے پھوٹتے ہیں ۔۔یعنی اگر کچھ بدل جائے ۔ہم تم ہو جائیں۔تم ہم۔۔فیشن سے لے کر اخلاقیات۔۔یعنی کتا انسان ہو جائے اور انسان۔۔۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،غلام بخش اور دیگر کہانیاں،ص۔۸۹)
دراصل یہ سب انسان کی بد اعمالیوں کا سبب ہے اس نے قدرتی نظام کو بدلنے کی کوشش کی تو قدرت نے بھی اپنے غصے کا اظہار کردیا۔انسان کو کتا اور کتے کو انسان بنانا اس کے لئے کوئی بڑی بات نہیں ۔یہ تو انسانوں کو سمجھانے کی ایک وارننگ ہے تاکہ وہ اخلاق کے دائرے میں رہیں اور فطری نظام کے خلاف بغاوت نہ کریں۔ان دونوں افسانوںمیں راوی گھما پھرا کر اور رک رک کر واقعات کو بیان کرتا ہے جس سے قاری کا دھیان بھٹک جاتا ہے کیونکہ بار بار تسلسل کے ٹوٹنے سے دلچسپی ختم ہونے لگتی ہے دوسری چیز جو ان افسانوں میں کھٹکتی ہے وہ انگریزی الفاظ کی بہتات ہے جن تک عام قاری کی رسائی ممکن نہیں۔
’’اقبالیہ بیان‘‘ایک انتہائی بھیانک افسانہ ہے جس میں مسلمانوں پر پولیس کی زیادتی اور ظلم وجبر کو پیش کیا گیا ہے پولیس بے قصور مسلمانوں کو گرفتار کرتی ہے اور ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بد تر سلوک روا رکھتی ہے رشید انصاری اور اس کے ہنستے کھیلتے پریوار کو ان کے گھر سے زبردستی تھانے میں لایا جاتا ہے اور ان کے ساتھ مار پیٹ کی جاتی ہے یہی نہیں ان کی عزت کے ساتھ جو وحشیانہ کھیل کھیلا جاتا ہے وہ انسانیت کو شرمسار کرنے کے لئے کافی ہے رشیداقبالیہ بیان دینے سے انکار کرتا ہے تو ایس پی بھوانی سنگھ سب کے سامنے رشید کی جوان بیٹی کی عزت کو تار تار کردیتا ہے اسی پر بس نہیں ہوتا بلکہ ان سب کے کپڑے اتروائے جاتے ہیں اور پھر بھوانی رشید کو اپنی بیٹی کے ساتھ اور اس کے باپ کو بہو کے ساتھ زنا کرنے کے لئے کہتا ہے اور آخر کار رشید سائن کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے ۔
’’رشید کانپتا ہوا پاؤں پر گر پڑا۔لاؤ میں سائن کردیتا ہوں۔۔جہاں چاہتے ہو۔۔جتنے کاغذ پر ۔جہاں جہاں اسٹیمپ لگوانا چاہتے ہو ۔۔سب لے آؤ۔مگر اس وقت بخش دو ۔مجھے زندگی بھر کے لئے جیل میں ٹھونس دو۔میرے خاندان والوں پر بھی رحم مت کرو۔۔سب کو جیل میں ڈال دو۔سڑا دو۔۔عمر قید دے دو۔پھانسی دے دو۔۔اس سے بھی کوئی بڑی سزا ہو تو۔۔مگر یہ سب۔۔۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،غلام بخش اور دیگر کہانیاں،ص۔۱۶۔۱۱۵)
یہ کیسا گھناؤنا سچ ہے کہانی پڑھتے ہوئے قاری کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیںیہ اس بھیانک دور کی کہانی ہے جب TADAکے تحت مسلمانوں کو گرفتار کیا جاتا تھا اور ان سے زبردستی بیان لے کر انھیں مجرم قرار دیا جاتا تھا ۔اس افسانے کا پلاٹ کافی گٹھا ہوا ہے مصنف نے اس کو ترتیب دینے میں فنی مہارت کا ثبوت فراہم کیا ہے یہ کہانی پڑھتے ہوئے قاری ایک سیکنڈ کے لئے بھی اپنی توجہ نہیں ہٹاتا۔وہ الفاظ کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے یہی اس کہانی کی سب سے بڑی خوبی ہے۔کردار نگاری بھی کمال کی ہے بھوانی،رتنا گر اور پھٹک چند کے ذریعہ ذوقی نے پولیس کی اصلیت کو سامنے لایا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ نہ صرف متعصبانہ بلکہ حیوانیت جیسا سلوک کرتی ہے وہ معصوم اور بے گناہ مسلمانوں سے زبردستی اقبالیہ بیان لے کر انھیں دہشت گرد قرار دیتے ہیں اور پرموشن حاصل کرتے ہیں تو وہیں رشید جیسے بے بس مسلمانوں کے حالات سے بھی آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
’’سب سے اچھا انسان ‘‘بھی ایک عمدہ افسانہ ہے اس میں انسانیت کے تحفظ اور اس کی بقاء پر زور دیا گیا ہے تاجوراس افسانے کا مرکزی کردار ہے اس کے پاس ایک طوطا ہے جو انسانوں کی بولی بولتا ہے اور شاعری بھی کرتا ہے وہ انسان دوستی اور ہمدردی کے نغمے گاتا ہے تاجور ایک سخت دل آدمی ہے وہ اپنے گاؤں کے تمام لوگوں سے نفرت کرتا ہے لیکن مٹھو (طوطا) جب سے اس کی زندگی میں آیا ہے وہ مکمل طور پر بدل چکا ہے دراصل تاجور نے اپنے پاس کئی ہتھیار جمع کر رکھے تھے ایک دن اچانک یہ افواہ پھیل جاتی ہے کہ گاؤں میںکوئی دہشت گرد گھس آیا ہے اور تمام لوگ خوف و ہراس میں مبتلا ہوجاتے ہیں غلطی سے وہ آدمی تاجور کے گھر پہنچ جاتا ہے اور اس کو سچ بتا دیتا ہے گاؤں کے سارے لوگ تاجور کے گھر آتے ہیںاور اس آدمی کے بارے میں پوچھ تاچھ کرتے ہیں وہ اس سے ہتھیار بھی مانگتے ہیں جب تاجور کو پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ اسے مارنا چاہتے ہیں تو وہ اسے وہاں سے بھگا دیتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر وہ بے قصور مارا گیا تو براعظم سے ایک آدمی کم ہوجائے گا اور پھر وہ کوئی بدمعاش یا دھنگائی نہیں تھا بلکہ ایک شریف آدمی تھا جو اپنی جان بچانے کی غرض سے راستہ بھول کر اس انجان قصبے میں پہنچ گیا تھاگاؤں کا سرپنچ اسحٰق میاں جب تاجور سے ہتھیار مانگتا ہے تو وہ انکار کردیتا ہے اس کے بعد وہ اپنے سارے ہتھیار اٹھاتا ہے اور طوطے کو ساتھ لے کر بھاگ جاتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ ہتھیاروں سے کبھی کسی کا بھلا نہیں ہوسکتابلکہ صرف جانی نقصان ہوتا ہے اور وہ ایسا نہیں ہونے دے سکتا۔ اس افسانے میں بھی طوالت سے کام لیا گیا ہے جو کہ ایک خامی ہے ایک پرندے کے توسط سے انسانیت کا درس دیا گیا ہے گویا انسان اخلاقی طور پر اتنا کمزور ہوچکا ہے کہ اسے اپنی پہچان بنائے رکھنے کے لئے دوسری مخلوق کی ضرورت پڑنے لگی ہے آج سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ انسان خود کو پہچان نہیں پارہا ہے وہ اپنے فرائض سے منہ موڑنے لگا ہے اور ہٹ دھرمی پر اتر آیا ہے تاجور کی کوششوں سے ایک بڑی تباہی ہونے سے ٹل گئی ورنہ کتنی ہی جانیں تلف ہوجاتیں ۔سچ میں اگر سب کی یہ سوچ بن جائے تو انسانیت کا تحفظ اور بقاء کوئی بڑی بات نہیں۔
بڑھتی عمر میں سیکس کا تجسس اور رشتوں کی حقیقت کا اظہار ذوقی اکثر کرتے رہتے ہیں ۔’’بوڑھے جاگ سکتے ہیں ‘‘ایک ایسا ہی افسانہ ہے ساٹھ سال کا ایک بوڑھا وپن لال اپنی بیوی کے ساتھ سونا چاہتا ہے مگر ان کے بچوں نے انھیں الگ کردیا ہے وپن لال اپنی زندگی کے ہر لمحہ کو گرم جوشی سے جینا چاہتا ہے عورتوں کے ساتھ گھومنا پھرنا اور ان کے حسن کو دیکھ کر اس کے من کو لذت ملتی ہے جہاں تک کہ اپنی بیٹی کی سہیلی کو دیکھ کر بھی اس کے اندر ہوس جاگ اٹھتی ہے ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی سے پیار نہیں کرتا مگر سچ تو یہ ہے کہ ہر ذہن کا اپنا ایک چور دروازہ ہوتا ہے اور یہ دروازہ عمر کے ہر پڑاؤ پر کھلا رہتا ہے وپن لال قوت باہ کی کمزوری محسوس کرتا ہے تو sexologistکے پاس چیک اپ کرانے بھی جاتا ہے جب اس کے شادی شدہ بیٹوں کو پتہ چلتا ہے کہ ان کا باپ رنگین مزاجی ہے تو وہ اپنے باپ کو حیرت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں مگر وپن لال ان سے صاف طور پر کہہ دیتا ہے کہ آج کے بعد نلنی میرے کمرے میں سوئے گی کیونکہ اس عمر میں ہمیں ایک دوسرے کی اشد ضرورت ہے اس کے بعد وہ نلنی کے ساتھ پھر سے پیار کی پینگیں چڑھاتا ہے اورکہانی ختم ہوجاتی ہے اس افسانے کا آغاز اور اختتام انتہائی خوبصورت ہے فلسفیانہ مکالمے کہانی میں جان ڈال دیتے ہیں جو قاری کے تجسس اور شعور کو بڑھاتے ہیں۔چند مکالمے ملاحظہ ہوں:
’’نلنی آگئی تو سوچا چلو ایک زندہ کتاب آگئی ہے۔کھیلنے،خوش ہونے کو۔بستر سے سانٹھ گانٹھ رکھنے اور دوستی نبھائے جانے والے،بھٹکتے سلسلوں کو ایک منزل ضرور مل گئی۔۔۔مگر منزل کہاں۔۔خیالوں کی حسین آوارگی کی اپنی جنت ہے اور یہ جنت تو عمر کے ہر دور کو ذائقہ دار،لذیذ ترین کھانے کی طرح پسند ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،غلام بخش اور دیگر کہانیاں،ص۔۱۷۰)
’’اچھی بھلی زندگی اور زندگی کی رعنائیاں بچوں کی خوشیوں کے آگے بھینٹ کیوں چڑھائی جاتی ہے؟بچے بڑے ہورہے ہیں ۔یہ مت کرو۔وہ مت کرو۔ساتھ مت سوؤ۔کمرہ مت بند کرو۔۔۔آخر کیوں بھائی۔۔۔بچے آگئے تو کیا ماں باپ کی زندگی کا سارا گلیمر ختم ہوگیا ۔۔۔بڑھتی عمر کا مطلب یہ تو نہیں کہ ان سارے احساسات کو کچل دیا جائے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،غلام بخش اور دیگر کہانیاں،ص۔۱۷۳)
بڑھاپے کی حقیقت اور اس سے جڑے مسائل کو مصنف نے نہایت ہی فنکارانہ انداز میں سامنے لانے کی سعی کی ہے عام طور پر اس عمر کے اکثر جوڑے ایک دوسرے سے الگ کردیے جاتے ہیں جبکہ عمر کے اسی پڑاؤ میں انھیں ساتھ رہنے کی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے انھیں بے کار شے سمجھ کر گھر کے کونے میں رکھ دینا ان کی حق تلفی ہے لہٰذا ان کے جذبات کو سمجھ کر ان کی قدر کرنی چاہئے دوسری طرف سیکس کی بھوک ایسی چیز ہے جو ایک مرد کو تاعمر لگی رہتی ہے وہ چاہ کر بھی اس سے باز نہیں رہ سکتا۔
پرانے عکس کے تحت لکھی گئی کہانیوں ’’اللہ ایک ہے،پاک اور بے عیب ہے‘‘اور’’لاش گھر‘‘میں ایک ہی موضوع کو پیش کیا گیا ہے اپنوں سے بچھڑنے کا غم اور تنہائی کا کرب انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے اپنے والدین،بیوی بچوں اور عزیز واقارب سے جدا ہونے پر جو درد اور کرب محسوس ہوتا ہے اسی کیفیت کی طرف یہ کہانیاں اشارہ کرتی ہیں ۔عالم ایک ادیب ہے مگر اپنے خاندان والوں کی جدائی اور درد وغم کی فضا اس پر اس قدر چھائی ہوئی ہے کہ وہ اپنی ادبی ذمہ داریوں کو یکسر بھول گیا ہے جب وہ جذباتی ہوجاتا ہے تو زیبا اس کو سنبھلنے کی ترغیب دیتی ہے ۔
’’عالم۔۔۔زیبا مجھے جھنجھوڑ دیتی ہے ۔۔۔اپنے ساتھ مجھے بھی پاگل بنائے دے رہے ہو!ہوش میں آؤ۔وحشی دنیا میں انسان بن کر جینا سیکھو۔آج کی صدی میں احساس اور جذبات کے نام پر تم ایک پل بھی جی نہیں سکتے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،غلام بخش اور دیگر کہانیاں،ص۔۱۹۶)
ان دونوںافسانوںمیں اصل کہانی کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر واقعات بھی پیش کئے گئے ہیںجو غیر ضروری لگتے ہیں پلاٹ کو ترتیب دینے میں مصنف نے تاریخی واقعات کا سہارا لیا ہے مگر وہ اس کو جاندار بنانے میں اتنے کامیاب نظر نہیں آتے۔کرداروں کی بات کی جائے تو دونوں کہانیوں میں صرف دو ہی کردار سامنے آتے ہیں عالم ایک ادیب ہونے کے باوجود اس قدر emotionalہوجاتا ہے کہ اس کے اندر کے جذبات اسے کمزور بنا دیتے ہیں اس کے برعکس زیبا کا کردار قدرے متحرک نظر آتا ہے وہ عالم کو وقتاًفوقتاًحرکت میں لانے کی کوشش کرتی رہتی ہے ۔
’’بٹوارہ‘‘اور’’ اکیلے آدمی کی موت‘‘دونوں کہانیاں کم و بیش ایک ہی موضوع سے متعلق ہیں ان کہانیوں میں بڑھاپے کے کرب اور اکیلے پن کو پیش کیا گیا ہے ۔’’بٹوارہ‘‘پنجاب میں دہشت گردی کے ابتدائی ایام پر لکھی گئی ایک ایسی کہانی ہے جو ہندو،مسلمان اور سکھ یعنی رام اوتار شاستری،برہان الدین اور جگجیت سنگھ تینوں کرداروں کے آپسی میل جول اور باہمی اشتراک پر مبنی ہے ۔تینوں دوستوں کے لئے سلگتے ہوئے پنجاب کی صورت حال تشویش کا موضوع بن جاتی ہے انھوں نے اپنی تمام زندگی تقسیم اور فساد کے ماحول میں گزاری ہے کبھی جدائی کا غم تو کبھی موت کا خوف۔یہ تینوں کردارایک دوسرے کے ساتھ اپنے دکھ درد بانٹتے ہیں اس کے ساتھ ہی دہشت گردی اور شدت پسند عناصر پر طنزبھی کرتے ہیں۔یہ ایک طویل افسانہ ہے اور واقعات میں کافی اتار چڑھاؤ ہے اس میں فلیش بیک اور فلیش فارورڈ کی تکنیک استعمال کی گئی ہے اس میں انگریزی کے علاوہ ہندی اور پنجابی کے جملوں کا بھی جا بجا استعمال کیا گیا ہے۔
اس حصے کاسب سے اہم افسانہ ’’چوپال کا قصہ ‘‘ ہے جس میں ایک طرف گاؤں اور شہر کی تہذیب کی عمدہ عکاسی کی گئی ہے تو دوسری طرف آپسی رشتوں کے بکھراؤ اور فرقہ وارانہ عناصر کو بروئے کار لانے کی بھی سعی کی گئی ہے اشرف اپنے والدین اور بھائی کو چھوڑ کر نوکری کے سلسلے میں شہر چلا جاتا ہے اور وہیں رہنے لگتا ہے ماں باپ کے انتقال کے بعد تو جیسے اس نے گاؤں کو چھوڑ ہی دیا اس کا بھائی ابرار ہے اس کی ایک بیٹی ہے ابرار سال میں دو تین بار اشرف کے پاس اناج لے کر آجاتا۔اشرف اپنے بڑے لڑکے کو گاؤں کی باتیں بتاتا ہے کہ وہاں کے لوگ پیار ومحبت سے رہتے ہیں شام کے وقت چوپال لگتی ہے جہاں لوگ آپسی بھائی چارے کے قصے سناتے ہیںاور اپنے گاؤں کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا نمونہ کہتا ہے مگر اچانک ایک دن بری خبر ملتی ہے کہ ابرار کا انتقال ہوگیا اور پورا گاؤں فرقہ پرستی کی آگ میں جل رہا ہے ۔اشرف کا لڑکا جب وہاں جاتا ہے تو اسے اپنے باپ کی سب باتیں جھوٹی لگتی ہیں کیونکہ وہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔پھر وہ اپنی بہن سے ملتا ہے اس کے آنسوؤں کو پونچھتا ہے اور اپنے ساتھ شہر لے آتا ہے اس طرح یہ ایک نہایت ہی جذباتی کہانی بن جاتی ہے ۔افسانہ’’حالات معمول پر ہیں‘‘بھی اسی پس منظر میں لکھا گیا ہے اس میں ایک بیٹا باپ کی جائیداد اور کاروبار کو چھوڑ کر سرکاری نوکری کو ترجیح دیتا ہے اس کا باپ ایک رئیس آدمی ہے مگر وہ اتنا خوددار ہے کہ باپ کی کمائی ہوئی دولت لینے سے انکار کردیتا ہے اور دور شہر میں جاکر تنگدستی کی زندگی گزارنے لگتا ہے فرقہ وارانہ فسادات میں پورا گاؤں جل کر راکھ ہوجاتا ہے یہ سن کر وہ گھبرا جاتا ہے اور اپنے باپ سے ملنے گاؤں چلا جاتا ہے مگر افسوس کہ اسے اپنے باپ کی لاش تک نہیں ملی۔ان دونوں افسانوں میں اپنے والدین کو تنہا چھوڑ دینے کا المیہ سامنے آتا ہے آج کل یہ معمول بن گیا ہے کہ بچے بڑے ہوکر والدین کو بھول جاتے ہیں اور ان سے الگ رہ کر زندگی کے سپنے سجانے کی کوشش کرتے ہیں ایسے میں والدین پر کیا گزرتی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
’’ایک نیا سفر‘‘بالکل اچھوتے موضوع پر لکھا گیا افسانہ ہے انسان جب ایک معمول کی زندگی جیتے جیتے تھک جاتا ہے تو وہ کچھ نیا کرنا چاہتا ہے تاکہ اسے کچھ لمحوں کے لئے فرحت پہنچے۔یہ افسانہ اسی موضوع کا احاطہ کرتا ہے ایک شادی شدہ جوڑا رات کے وقت اپنے بچوں کو سلا کر لانگ ڈرائیو پر نکلتا ہے دراصل وہ یکسانیت سے بور ہوگئے ہیںاس لئے آج کی رات کو خوشگوار بنانا چاہتے ہیں وہ اسی احساس میں کھوئے ہوتے ہیں کہ اچانک راستے کے بیچ پڑے ایک آدمی کو دیکھ کر گاڑی روک لیتے ہیں وہ گھبرا جاتے ہیں انھیں لگتا ہے کہ یہ آدمی مرگیا ہے وہ اسی کشمکش میں ہوتے ہیں کہ سامنے والا آدمی کھڑا ہوجاتا ہے پوچھنے پر وہ بتاتا ہے کہ وہ مرنے کے لئے یہاں لیٹا ہوا تھا مگر افسوس کہ کسی نے بھی اس پر گاڑی نہیں چڑھائی اور وہ زندہ بچ گیا۔ملاحظہ ہو یہ اقتباس:
’’ایک بے رحم موت!۔۔۔یوں بھی زندگی ہے ہی کیا ۔آفس اور آفس سے گھر ۔کھانا کھالیا اور سوگئے۔پھر معمول سے اٹھ گئے اور روزانہ کی وہی ڈیوٹی۔بتائیے۔کیا یہی زندگی ہے۔۔۔دراصل میں ایک طرح کے معمولات اور یکسانیت سے گھبرا گیا تھا اور بس سکون کے اس ابدی لمحے کا منتظر تھا جب چیختی ہوئی کوئی گاڑی مجھے روندتی ہوئی۔۔۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،غلام بخش اور دیگر کہانیاں،ص۔۲۷۷)
اس کے بعد وہ نوجوان آدمی وہاں سے چلا جاتا ہے اور میاں بیوی بھی بچوں کی فکر لئے گھر واپس لوٹتے ہیں ۔یہ ایک انوکھی کہانی ہے جسے مصنف نے نہایت ہی فنکاری سے پیش کیا ہے صرف تین کرداروں کے ذریعہ پوری بات سامنے رکھ دی ہے ایک محدود وقت اور مقام میں کہانی کو سمیٹنا بڑا مشکل کام ہے مگر ذوقی نے یہ کر دکھایا ہے یہ ایک مختصر افسانہ ہے اور اس میں افسانہ نگاری کے تمام لوازم کو ملحوظ رکھنے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔
’’حد‘‘اس مجموعے کاآخری افسانہ ہے اس میں پولیو سے متاثر ایک آدمی کی کہانی بیان کی گئی ہے جو جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارتا ہے ابھئے اپنے ہی گھر میں ذلت کی زندگی جی رہا ہے وہ گھر کی چہار دیواری میں قید ہے اور باہر کی دنیا سے انجان ہے اس کے ساتھ متعصبانہ سلوک کیا جاتا ہے اور گھر کے سارے کام وہی کرتا ہے اس کی حیثیت ایک بے کار شے کی سی ہے جب اس کے چھوٹے بھائی نریمان کی شادی طے ہوتی ہے تو اس میں عجیب وغریب تبدیلی آجاتی ہے وہ کام کرنا بند کردیتا ہے اور چیزوں کو توڑنے لگتا ہے گھر کا کوئی فرد اس کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا وہ بے حد جذباتی ہوجاتا ہے لہٰذا نریمان کی شادی کے دن چھت سے کود کر خودکشی کرلیتا ہے مگر تعجب کی بات یہ ہے کہ اس کو سپرد آتش کرنے کے بعد نریمان کی شادی رسم ورواج کے ساتھ دھوم دھام سے کی جاتی ہے کوئی اس کا ماتم نہیں کرتا گویا وہ کوئی فالتو چیز تھی جو مرنے کے ساتھ ہی بھلا دی گئی۔کہانی کے اختتام پر مصنف سوال اٹھاتا ہے کہ کیا ایک اپاہج اور مفلوج کی زندگی کی یہی حد ہے؟کیا اسے زندہ رہنے اور خوشیاں منانے کا کوئی حق نہیں؟اس افسانے میں مصنف نے ایسے سماج کو طنز کا نشانہ بنایا ہے جس میں اپاہجوں کی قدر اور مدد کرنے کے بجائے ان کا استحصال کیا جاتا ہے زندگی بھر انھیں خوشیوں سے محروم رکھا جاتا ہے اور ان کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے اور جب وہ مرجاتے ہیں تو خوشیاں منائی جاتی ہیں یہ ایک انوکھا موضوع ہے جسے مصنف نے ایک منفرد انداز میں پیش کرنے کی سعی کی ہے اس کہانی کے تمام کردار غیر متحرک ہیں راوی بار بار ابھئے کے گھر جاتا ہے اور اس کی حرکات وسکنات پر نظر رکھتا ہے وہ اس پر ہورہے مظالم سے بخوبی واقف ہے مگر اس نے کبھی کوئی آواز بلند نہیں کی اور نہ ہی ابھئے کے درد کو سمجھنے کی کوشش کی۔ابھئے کا کردار بھی کمزور ہے وہ دو روٹی کے لئے گھر کے برتن مانجھتا ہے اور اندر ہی اندر سسکتا رہتا ہے اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے اور جدوجہد کرنے کے بجائے وہ موت کو گلے لگاتا ہے اور خود کو بزدل ثابت کرتا ہے نریمان بھی اپنے بڑے بھائی کی عزت نہیں کرتا اور اسے گھر کے کاموں کے لئے استعمال کرتا ہے وہ چاہتا تو ابھئے کے حالات سدھر سکتے تھے مگر اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ بھائی کی موت پر وہ شادی کا جشن مناتا ہے۔
(iv)’’صدی کو الوداع کہتے ہوئے‘‘
’’صدی کو الوداع کہتے ہوئے‘‘ذوقی کاچوتھا افسانوی مجموعہ ہے یہ سن ۲۰۰۰ء میں شائع ہوا۔یہ مجموعہ پرانی صدی کو الوداع کہتے ہوئے نئی صدی کا استقبال کرتا ہے اس مجموعے کے ذریعہ ذوقی نے آنے والی صدی اور اس کے مسائل کے لئے خود کو بھی تیار کیا ہے اور قارئین کے اندر بھی ہمت اور حوصلہ جگانے کی سعی کی ہے ۔’’صدی کو الوداع کہتے ہوئے‘‘صارفی کلچر،گلوبلائزیشن اور سائنس و ٹیکنالوجی سے پیدا شدہ اثرات اور مسائل پر مبنی ہے اس مجموعے کے ٹائٹل سے ہی یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس میں شامل کہانیاں نئی صدی کے مسائل اور challengesپر محیط ہیں ان کہانیوں میں ذوقی نے سماج اور معاشرے کو آئندہ پیش آنے والے خطرات سے باخبر کرنے کی پوری کوشش کی ہے یہ افسانوی مجموعہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے اس میں کل تیرہ افسانے شامل ہیں اس کے علاوہ کچھ مضامین بھی ہیں۔
’’صدی کو الوداع کہتے ہوئے‘‘اس مجموعے کی پہلی کہانی ہے اور یہی مجموعے کا عنوان بھی ہے اس افسانے میں ایک ایسے سنگین مسئلہ کو ابھارا گیا ہے جو نئی صدی کے دروازے پر دستک دے چکا ہے اور جس کی گونج آہستہ آہستہ سب کے کانوں تک پہنچ رہی ہے یہ افسانہ پرانی صدی کو الوداع کہتے ہوئے نئی صدی کی آمد اور استقبال کا ایک بھیانک امتزاج ہے جس میں مصنف نے سائنس اور ٹکنالوجی کے توسط سے سلگتے مسائل کے خلاف اپنا احتجاج درج کرایا ہے یہ ایک بے حد نازک سی کہانی ہے جو ۳۱ دسمبر کی رات کو شروع ہوتی ہے جب ایک چودہ سال کی لڑکی یہ انکشاف کرتی ہے کہ وہ ماں بننے جارہی ہے دنیا نئے سال کے جشن میں ڈوبی ہے اور ذوقی صدی کو الوداع کہتے ہوئے زمانے کا وہ ننگا سچ ہمارے سامنے رکھتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔۱۴سالہ لڑکی ریا ایک نئے زمانے کی پیداوار ہے وہ بچپن اور اس کی شرارتوں کے احساس سے دور ہے اور جوانی کا لمس محسوس کرتی ہے یہ سائنس اور ٹکنالوجی کے اثرات کا ہی نتیجہ ہے دراصل اس کی ماں رما دتیہ کار ہارمونس کے انجکشن دے کر اس کو وقت سے پہلے جوان کرنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ وہ اپنی بیٹی کو ایک ماڈل اور سیلی بریٹی بنانے میں کامیاب ہوسکے۔ریا کا باپ ارجن دتیہ کار پہلے تو رمادتیہ کار کو ایسا کرنے سے روکتا ہے مگر جب ایسا نہیں ہوپایا تو اس نے ایک لمبی خاموشی اختیار کر لی۔اس کا دوست نیلامبر اسے گلیمرس دنیا کے خواب دکھاتا ہے اس کردار کے ذریعہ ذوقی اپنے قارئین کو برانڈڈ دنیا کے ایسے کونوں کی سیر کراتا ہے جن کا ذکر اردو ادب کے فن پاروں میں مشکل ہی کیا گیا ہوگا جہاں برانڈڈ سگریٹ،شراب اور دوسری نشیلی چیزوں کا ذکر ہی نہیں بلکہ برانڈڈ جوتے،کپڑے،بیلٹ وغیرہ اتنا ہی نہیں نیویارک اور سوئزرلینڈ کے گلیمرس مقامات سے بھی قارئین کو روشناس کرانے کی کوشش کی گئی ہے نیلامبر کو ریا کی اڑان سے خطرے کی بو آنے لگتی ہے اور وہ ارجن دتیہ کار کو اس سے باخبر کرتا ہے ۔
’’اسے روکو۔۔۔وہ بہت تیز اڑ رہی ہے ۔۔۔لیکن اب۔۔۔شاید دیر ہوچکی ہے۔۔یہ دتیہ کار نہیں ایک لاچار باپ کا لہجہ تھا ۔۔کچھ کرو۔۔نیلامبر کا لہجہ خوف زدہ تھا ۔۔انجانے میں اس لڑکی نے اپنے لیے ایک گیس چیمبر چن لیا ہے ۔تم سمجھ رہے ہونا،اس کا دم گھٹ جائے گا ۔پہلے ڈسکو تھیک،پھر بار،ہارمونز کے انجکشن۔۔۔ریا کا اگلا پڑاؤ،کنڈوم بھی ہوسکتا ہے۔۔۔اسے روکو۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،صدی کو الوداع کہتے ہوئے،ص۔۲۰)
لیکن ارجن اس قدر بے حس اور ساکت ہوگیا ہے کہ ان باتوں کا اس پر یا اس کے دل پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور وہ ریا کو اس چنگل سے باہر نکالنے کے لئے کوئی کوشش نہیں کرتا ۔رما اپنی خواہشات کی تکمیل میں اتنی آگے بڑھ چکی ہے کہ اسے اپنی بیٹی کی عمر کا کوئی لحاظ نہیں رہ جاتا اسی بیچ ریا خودکشی کرنے کی کوشش کرتی ہے مگر وہ بچ جاتی ہے آخر کار بیسویں صدی کے اختتام کے موقع پر ارجن دتیہ کار اور ان کی ماڈرن بیوی کو یہ خبر ملتی ہے کہ ان کی چودہ سالہ لڑکی ریا ایک بچے کی ماں بننے والی ہے اس طرح ان کے سارے خواب اور گلیمرس بننے کی چاہت دھری کی دھری رہ جاتی ہے اور وہ ایک نئے بھنور میں پھنس جاتے ہیں ۔موضوع کے لحاظ سے یہ ایک کامیاب افسانہ ہے اس کے پلاٹ کا تانا بانا ایک ہی گھر کے افراد کے ذریعہ تیار کیا گیا ہے نیلامبر اور گلیمرس دنیا کے نظارے بھی پلاٹ کا حصہ بن کر اس کو مضبوطی عطا کرتے ہیں کردار بھی سچے معلوم ہوتے ہیں ان میں کوئی رنگ روغن نہیں چڑھا گیا ہے یہ نئی صدی کے کردار ہیں جن میں خوبیاں کم خامیاں زیادہ ہیں ماں باپ اپنے خواب پورے کرنے کے لئے بچوں کا استعمال کرتے ہیں وہ نہ صرف ان کا بچپن چھین رہے ہیں بلکہ ان کے مستقبل کو خطرے میں ڈال کر عیش کی زندگی جینا چاہتے ہیں مگر اس دوڑ میں صرف محرومی اور مایوسی ہی ان کے ہاتھ لگتی ہے زبان و بیان کے لحاظ سے یہ افسانہ کمزور نظر آتا ہے کیونکہ اس میں ضرورت سے زیادہ انگریزی الفاظ اور جملے ہیں جو قاری کے لئے دقت پیدا کرتے ہیں ۔
’’باپ اور بیٹا‘‘ایک باپ کی جنسی نا آسودگی اور اس سے پیدا شدہ مسائل پر مبنی افسانہ ہے مرد چاہے کتنا ہی بوڑھا ہوجائے مگر اس کے اندر دبی جنسی خواہش کبھی کسی لمحہ میں جوش مارتی ہی ہے اس عمر میں بھی جنسی آسودگی کے سپنے آتے ہیں اور یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے ایسا ہوتا ہے مگر اس کہانی کا باپ سپنے میں اپنی ہی بیٹی پنکی کے ساتھ زنا کرتا ہے نیند کھلنے پر وہ لرز جاتا ہے اور سوچنے لگتا ہے کہ ایسا کیوں کر ہوا دوسرے ہی لمحے اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کی وجہ جنسی نا آسودگی ہے اس کو ذہنی سکون کے لئے ایک گرم جسم چاہئے مگر اس کی بوڑھی بیوی کا جسم تو ٹھنڈا پڑ چکا ہے وہ اپنے گھر اور بیوی بچوں سے اوب گیا ہے اور اسے اپنی زندگی تنگ لگنے لگتی ہے۔
’’تم ایک باپ ہو۔۔۔ایک شوہر ہو۔۔۔جسم کی مانگ کچھ اور تھی شاید۔مگر نہیں۔۔۔بس۔یہی بچے۔انہی میں سمائی زندگی اور۔۔۔یہی اختتام ہے۔۔فل اسٹاپ؟‘‘(مشرف عالم ذوقی،صدی کو الوداع کہتے ہوئے،ص۔۲۷)
لہٰذا وہ اندرونی کشمکش اور الجھن میں پڑ جاتا ہے اسے لگتا ہے کہ وہ ابھی تک صحت مند ہے ابھی اس میں جوانی باقی ہے اس کا جسم ابھی گرم ہے شاید اس کے جوان بیٹے سے بھی زیادہ گرم گویا اس کے اندر ایک سویا ہوا مرد جاگ اٹھتا ہے بیٹے کو بھی باپ کی اس کیفیت کا اندازہ ہوجاتا ہے اور وہ اس کی نجی زندگی میں تانک جھانک کرنے لگتا ہے باپ اپنی بیٹی پنکی کی عمر کی ایک لڑکی کے ساتھ عشق لڑاتا ہے وہ اس کے ساتھ کافی پیتا ہے گھومتا ہے اور مزے کرتا ہے گویا گھر میں وہ کچھ اور ہے اور باہر کچھ اور۔ایک حسین وجمیل لڑکی کا ساتھ پاکر وہ بہت خوش تھا اور اس کا پورا جسم گنگنا اٹھا تھا وہ عمر کے فاصلوں کو مٹا کر زندگی کے آخری دنوں کو خوبصورت بنانا چاہتا ہے ۔
’’تم نے اپنی عمر دیکھی ہے؟’ہاں‘۔لڑکی ڈھٹائی سے مسکرائی۔’اور تم نے‘؟’ہاں‘۔تمہاری جیسی عمر کو میری ہی عمر کی ضرورت ہے ۔’اور تمہاری عمر کو۔۔؟‘۔۔۔نئے لڑکے نا تجربہ کار ہوتے ہیں مورتی کی تراش خراش سے واقف نہیں ہوتے۔اس عمر کو ایک تجربہ کار مرد کو ہی سوچنا چاہئے ۔جیسے تم۔لڑکی ہنسی تھی۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،صدی کو الوداع کہتے ہوئے،ص۔۳۸)
بیٹا سب جانتا ہے مگر وہ باپ کو اس کے انجام تک دیکھنا چاہتا ہے اس لئے وہ یہ بات کسی کو نہیں بتاتا مگر کہتے ہیں کہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے اور آخر کار سب گھر والوں کو باپ کی حرکتوں کا علم ہوجاتا ہے اور باپ اس لڑکی کو چھوڑ کر دوبارہ اپنی نا آسودہ زندگی میں لوٹ آتا ہے اور ایک توازن بنانے اور خود کو بحال کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔اس افسانے میں ایک طرف بڑھاپے کا کرب ہے تو دوسری طرف اخلاقی قدروں اور انسانی حدود پر سوال اٹھائے گئے ہیں موضوع اور پلاٹ کے لحاظ سے یہ ایک اچھا افسانہ ہے کردار نگاری میں ایک جھول سا نظر آتا ہے کیونکہ اگر دیکھا جائے تو اس افسانے کے دو مرکزی کردار ہیں باپ اور بیٹا ۔باپ کے حالات تفصیل سے بتائے گئے ہیں مگر بیٹے کی زندگی کے اہم واقعات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے اس کے علاوہ ضمنی کردار بھی قاری پر کچھ خاص اثر نہیں چھوڑتے۔
’’دادا اور پوتا‘‘تین نسلوں پر محیط ایک اچھوتا افسانہ ہے جس میں تیز رفتار زندگی کے پس منظر میںا نسانی رشتوں اور زندگی کے تصور اور اس کی بقاء پر سوال اٹھائے گئے ہیں یہ افسانہ ذوقی نے اپنے بیٹے عکاشہ کے نام کیا ہے اس کی کہانی دادا اور پوتے کے مکالموں سے شروع ہوتی ہے اس افسانے میں تین ہی کردار ہیں دادا،بیٹا اور پوتا۔پوری کہانی میں ان تینوں کرداروں کے مابین کشمکش چلتی رہتی ہے دادا اپنا زیادہ تر وقت پوتے کے ساتھ گزارتا ہے جبکہ بیٹا اپنے کاروبار میں مصروف ہے اس کے پاس ان دونوں کے لئے وقت نہیں ہے۔دادا اپنے پوتے کی اڑان سے گھبرا جاتا ہے وہ اپنے وقت کو یاد کرتا ہے اور اس کا موازنہ پوتے کے ساتھ کرتا ہے اسے احساس ہوتا ہے کہ وقت بہت تیزی سے بدل رہا ہے وہ اپنے بیٹے کو پوتے کی حرکتوں سے با خبر کرنا چاہتا ہے مگر بیٹا اس کی باتوں کو ٹالتا رہتا ہے۔
’’بڈھے کو بیٹے کی بات سے کوفت محسوس ہوتی ۔اسے لگتا ،بیٹا درمیان کی اڑان میں کہیں پھنسا رہ گیا ہے۔اور پوتا،اس کی اڑان کا تو نہ کوئی اور ہے نہ چھور۔۔۔۔پوتے کے سامنے ایک کھلا آسمان ہے ۔۔۔بیٹااپنی،اس کی( یعنی بڈھے کی)نسل اوران دونسلوں کی اخلاقیات کے بیچ کہیں الجھ کر رہ گیا ہے ۔۔۔اور پوتا،اس کی نظروں میں ایسا شاطر پرندہ،جو ایسی تمام بندشوں کے پر کترنا جانتا ہو۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،صدی کو الوداع کہتے ہوئے،ص۔۴۴)
پوتا فاسٹ فوڈ کی دنیا میں جوان ہوتا ہے وہ جو شیلا اور تیز طرار ہے وہ کھل کر جیتا ہے فیشن میں اس کی دلچسپی ہے وہ اپنی مرضی کا مالک ہے باپ اس کو نہیں روکتا اور دادا کے اعتراض سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔رنگ برنگے بال،کانوں میں چھلے،پھٹی ہوئی جینس اور کبھی کبھی تیز آواز میں گانے لگتا ہے اتنا ہی نہیں وہ اپنے بدن پر گودنے بھی گدواتا ہے حد تو یہ ہے کہ وہ لڑکیوں سے میل جول بڑھاتا ہے اور انھیں اپنے گھر پر بلاتا ہے ایسا نہیں ہے کہ اسے ان لڑکیوں سے محبت ہے بلکہ وہ تو ریڈی میڈ رومانس کا شیدائی ہے یعنی کچھ دن ہنسے،بولے پھر کپڑے بدل دیے۔دادا پوتے کی ان حرکتوں سے حیران وپریشان ہوجاتا ہے کیونکہ اس کے زمانے میں تو لڑکیوں کے ساتھ بات کرنا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا ہاں بیٹے کی زندگی میں ایک لڑکی آئی تھی لیکن وہ بھی ایک خاموش رومانی کہانی جو شروع ہونے سے پہلے ہی بھیانک طوفان میں بکھر گئی کیو ں کہ وہاں خاندانی عزت کا سوال تھا لیکن پوتا تو وقت سے پہلے ہی سب کچھ کر گزرا ہے اور اب زندگی میں کوئی تجسس باقی نہیں رہا سوائے موت جیسی فنتاسی کے ۔وہ موت کو قریب سے دیکھنا چاہتا ہے اور اس کو enjoyکرنے کے لئے بے قرار ہے لہٰذا ایک دن وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر Adventureکا مزہ لینے کے لئے برف کی اونچی چوٹیوں پر جانے کا فیصلہ کرتا ہے دادا اس کو روکنے کی کوشش کرتا ہے مگر بیٹا اس بار بھی چپ رہا۔آخر کار پوتا پہاڑ کی اونچی چوٹی سے چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کو گہری کھائی میں دھکیل دیتا ہے اور اس طرح یہ کہانی اختتام کو پہنچتی ہے ۔اس افسانے کا آغاز اوراختتام انتہائی دلچسپ ہے موضوع بھی عمدہ ہے پلاٹ اور زبان و بیان میں مصنف نے کمال دکھایا ہے کردار نگاری بھی اچھی ہے مگر بیٹے کے کردار میں جھول ہے وہ بے حس وحرکت کا پیکر معلوم ہوتا ہے اور غیر فعال کردار لگتا ہے کیوں کہ وہ اپنے باپ اور بیٹے میں توازن بنائے رکھنے میں ناکام نظر آتا ہے کہیں بھی وہ اپنے بیٹے کو غلط حرکتوں سے روکنے کی کوشش نہیں کرتا اور نہ ہی ایک ذمہ دار باپ کی طرح اسے سمجھاتا ہے جہاں مصنف نے دوسرے کرداروں کو فعال اور متحرک دکھانے کی کوشش کی ہے اس کردار کی طرف بھی خاص دھیان دینا چاہئے تھا۔
’’کاتیائین بہنیں‘‘عورت کے موضوع پر مشتمل افسانہ ہے اس میں عورت سے منسلک چند حقیقتوں کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے ساتھ ہی مصنف نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ کائنات میں عورت سے زیادہ پراسرار کوئی شے نہیں۔عورت کو مکمل طورسے سمجھنا نا ممکن ہے اور اگر کوئی یہ کہے کہ وہ عورت کو جان گیا ہے تو اس سے زیادہ گھامڑ اور ناسمجھ کوئی نہیں ۔یہ کہانی دو بہنوں کی نجی زندگی کی جھلک پیش کرتی ہے اور ان کے شب و روز کی حرکات و اعمال کو اجاگر کرتی ہے رما کاتیائن اور ریتا کاتیائن دو بہنیں ہیں وہ زندگی بھر کنواری رہتی ہیں اور کسی مرد کی نالین پا نہیں بنتی۔ایک دن اچانک ریتا کاتیائن کو بازار میں بھوپیندر پریہار مل جاتا ہے وہ ۶۱ سال کا ایک بوڑھا مرد ہے اس کو اپنی مردانگی پر فخر ہے اور وہ عورتوں کا شوقین ہے ریتا کاتیائن سے ملنے کے بعد وہ اس میں دلچسپی لینے لگتا ہے اور اس کے گھر آنا جانا شروع کردیتا ہے ریتا کاتیائن اس کے ارادوں سے بے خبر ہے لیکن رما کاتیائن جلد ہی اس کی حرکتوں کو بھانپ لیتی ہے وہ چھوٹی بہن کو اپنے حسن کا دیدار کراتی ہے اور رات بھر اس کے ساتھ موج مستی کرتی ہے اسی طرح یہ بہنیں اپنی جنسی خواہش کو پورا کرتی ہیں زندگی بھر انھوں نے نہ تو کسی مرد کو اپنے خواب وخیال میں لایا ،نہ چھوا اور نہ ہی انھیں اس کی ضرورت محسوس ہوئی لہٰذا رما کاتیائن اپنی چھوٹی بہن کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ عورت اپنے آپ میں مکمل ہے اسے مرد کی ضرورت نہیںبلکہ مرد کو عورت کی ضرورت ہے ۔
’’سنو اور غور سے سنو۔اس لیے کہ عورت اپنے آپ میں مکمل ہوتی ہے ۔ایک مکمل سماج۔مرد کبھی مکمل نہیں ہوتا ۔جو مرد ایسا سمجھتے ہیں وہ غلط فہمی کا شکار ہیں ۔۔۔مرد کو عورت کی ضرورت پڑ سکتی ہے لیکن عورت کو مرد کی نہیں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،صدی کو الوداع کہتے ہوئے،ص۔۷۶)
کاتیائن بہنوں کے اس رشتے کو homosexualityیاgayکا نام دیا جاسکتا ہے وہ اسی میں اپنا سکھ ڈھونڈتی ہیںسچ تو یہ ہے کہ اس طرح کے ناجائز اور غیر فطری رشتے آج ایک عام بات ہے ذوقی نے اس حقیقت سے پردہ اٹھانے کی کامیاب کوشش کی ہے اور قارئین کو اس وبا سے روشناس کرانے کے لئے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا ہے۔موضوع،پلاٹ اور زبان و بیان کے لحاظ سے یہ ایک عمدہ افسانہ ہے طویل افسانہ ہونے کے باوجود فلسفیانہ مکالمے قاری کو اپنی گرفت میں رکھتے ہیں یہ افسانہ فلیش بیک اور فلیش فارورڈ کی تکنیک میں لکھا گیا ہے کردار نگاری بھی کمال کی ہے رما کاتیائن،ریتا کاتیائن اور بھوپیندر پریہار اس افسانے کے اہم کردار ہیں ان ہی کے گرد کہانی کا پلاٹ تیار کیا گیا ہے اس افسانے کو ذوقی کی فنی بصیرت کا نمونہ کہا جا سکتا ہے۔
’’مرد‘‘اور ’’بارش میں ایک لڑکی سے بات چیت‘‘دونوں افسانوں میں مرد کی حیثیت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔’’مرد‘‘میں ایک ایسی عورت کے ذریعہ مرد کی اہمیت و افادیت کو سامنے لایا گیا ہے جو اپنے شوہر کا ہر ظلم سہتی ہے اور اسے برداشت کرتی ہے مسز گروور کی شادی ایک ایسے آدمی کے ساتھ ہوتی ہے جو پتھر کا دل رکھتا ہے وہ اپنی بیوی کو مارتا پیٹتا ہے اس کے جذبات کی قدر نہیں کرتا اور اسے ایک بے کار شے سمجھتا ہے ایک بڑے حادثے کے بعد کسی ایک لمحہ کے لئے وہ اپنی پوتی کو گلے سے لگاتا ہے اور اس کو پیار کرتا ہے مسز گروور کو یہی بات تسلی دے جاتی ہے دراصل عورت کا دل موم کی طرح ہوتا ہے وہ بہت جلد پگھل جاتی ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں میں اپنی خوشی ڈھونڈ لیتی ہے یہی وجہ ہے کہ پیار کی ایک معمولی سی جھلک مسز گروور کو متاثر کرتی ہے لہٰذا ایک طویل عمر گزارنے کے بعد وہ مرد کے بارے میں یہ نظریہ قائم کرتی ہے۔
’’مرد ۔۔مرد ہوتا ہے۔اس کی ہر ادا میں سنگیت ہے ۔ہر سر میں سادھنا ۔۔مرد کو سمجھنے کے لئے تجربہ چاہئے اور تجربے کو عمر۔۔۔مرد کے ہر انداز میں نشہ ہے لیکن یہ بات کتنی دیر بعد سمجھ میں آتی ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،صدی کو الوداع کہتے ہوئے،ص۔۹۴۔۹۳)
’’بارش میں ایک لڑکی سے بات چیت‘‘میں مرد کو کمزور اور معصوم قرار دیا گیا ہے جہاں ’’مرد‘‘میں عورت مرد کے استحصال کا شکار ہوتی ہے وہیں اس افسانے میں مرد عورت کے استحصال کا نشانہ بنتا ہے مصنف خود اس افسانے کا مرکزی کردار ہے وہ کسی سیمینار میں ایک لڑکی سے ملتا ہے وہ لڑکی ایک کھیل کھیلتی ہے جس میں مصنف کو مہرہ بناتی ہے اور بازی اپنے نام کرلیتی ہے وہ یہ ثابت کرتی ہے کہ ایک عورت کچھ بھی کرسکتی ہے اس نئی صدی اور ملینیم میں وہ مرد کا استحصال کرنا جانتی ہے اور مرد محض اس کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن کر رہ گیا ہے۔
’’مجھے مردہمیشہ معصوم لگا ہے عورت کے مقابلے۔اب ہارٹ اٹیک کو ہی لو۔کتنی عورتوں کو ہارٹ اٹیک ہوتا ہے ۔ظاہر ہوا،دل تو صدا سے مردوں کے پاس رہا ہے ۔درد کا احساس ہمیشہ مردوں نے ہی کیا ہے۔وہ سچ مچ معصوم ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،صدی کو الوداع کہتے ہوئے،ص۔۳۷۔۱۳۶)
ان دونوں افسانوںمیں ڈرامائی انداز اپنایا گیا ہے یہ طویل افسانے ہیں اور غیر ضروری بحث کا چربہ لگتے ہیں ان میں محاوروں اور انگریزی الفاظ کی کثرت ہے۔
’’آپ اس شہر کا مزاق نہیں اڑاسکتے‘‘ایک علامتی افسانہ ہے اس میں شہر کو ایک علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو شہر میں نئے آنے والے لوگوں کو متنبہ کرتا رہتا ہے کہ واپس لوٹ جاؤ ورنہ تم اپنی شنا خت کھو دوگے اور پھر پچھتاؤگے۔ایسا ہی ہوتا ہے اس افسانے کے مرکزی کردار کے ساتھ جو اپنی زندگی کو سنوارنے کی غرض سے گاؤں سے شہر میں آتا ہے اس کا ایک جانکار اسے شہر بلاتا ہے مگر وہ اسے رہنے کے لئے جگہ نہیں دیتا اور نہ ہی اس سے بات کرتا ہے اور وہ بے چارہ دھر دھر کی ٹھوکریں کھانے لگتا ہے شہر اسے واپس گاؤں لوٹنے کے لئے کہتا ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرتا ۔پھر ایک سیاسی لیڈر اسے پناہ دیتا ہے اور اس کا استعمال کرتا ہے مگر وہ اس بات سے انجان ہے آخر کار اس کو اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ وہ محض ایک پروڈکٹ بن کر رہ گیا ہے اور سیاستداں اور صنعت کار دوسرے ملکوں تک اس کی بولی لگا رہے ہیں۔
’’ختم ہوتی ملینیم صدی میں صرف دو چیزیں رہ گئی ہیں ۔صارف اور صنعت۔پروڈکٹ اینڈ کنزیومر۔ایک فروخت ہونے والی شے ہے اور ایک بیچنے والا ہے ۔سب برانڈ ہیں یا بن گئے ہیں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،صدی کو الوداع کہتے ہوئے،ص۔۱۱۵)
یہ نئی صدی کا المیہ ہے جس میں انسان کی حیثیت محض ایک سامان یا چیز بن کر رہ گئی ہے جسے صرف استعمال کیا جاتا ہے اور پھر پھینک دیا جاتا ہے مصنف نے اس افسانے کے ذریعہ بھولے بھالے لوگوں کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی ہے۔
افسانہ ’’تم میرے جیسے ہو جمی‘‘میں ایک ایسی عورت کے جذبات کی عکاسی کی گئی ہے جس کا بیٹا اسے اپنے شوہر کی یاد دلا تا ہے کیوں کہ اس کی شکل وصورت،اس کی حرکات،اس کا ہنسنا،بولنا،مسکرانا اور دیکھنا جہاں تک کہ اس کا اٹھنا،بیٹھنا بالکل اس کے باپ کی طرح ہے جب جمی چار سال کا ہوتا ہے تو اس کا باپ ایک حادثے میں مارا جاتا ہے اس کی ماں صرف اس لئے جینے کا حوصلہ کرپاتی ہے کہ جمی کو دیکھ کر اسے اپنے شوہر کی موجودگی کا احساس ہوجائے گا اسی احساس میں جمی بڑا ہوتا ہے مگر اس کی ماں ذہنی کشمکش سے دوچار رہتی ہے وہ خود کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہے کہ جمی اس کا شوہر نہیں بیٹا ہے مصنف نے اسی الجھن اور کشمکش سے کہانی میں جان ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
’’سچ کو جھوٹ سے ضرب دو‘‘ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو ٹرین کا سفر کرتا ہے اور اپنے آباواجداد اور رشتے داروں سے ملنے گاؤں جاتا ہے وہ نہ تو پہلے کبھی ان سے ملا اور نہ ہی اس نے وہ جگہ دیکھی ہے جہاں یہ لوگ رہتے ہیں اس کے مطابق اس نے اس جگہ کا پتہ اور ان لوگوں کے بارے میں اپنے باپ سے سنا ہے باپ کی موت کے بعد وہ ان سے ملنے جاتا ہے ۔پہلے تو اس نے رکشہ والے سے دریافت کرنے کی کوشش کی مگر جلد ہی اسے یہ احساس ہوا کہ کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ سب معلومات تو اس کے ذہن میں محفوظ ہیں پھر وہ ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور ایک آدمی دروازہ کھولتا ہے پھر وہ اسے مامو کہتا ہوا اندر جاتا ہے اس کے ساتھ کھانا کھاتا ہے کچھ باتیں کرتا ہے اور اس کے بعد دوسرے لوگوں سے ملنے دوسرے محلے میں چلا جاتا ہے اس طرح وہ سب لوگوں سے مل کر واپس لوٹ جاتا ہے مصنف نے یہاں یہ بھی اشارہ کیا ہے کہ اس میں شک ہے کہ جن لوگوں سے وہ ملا وہ وہی تھے جن سے وہ ملنا چاہتا تھا یا کوئی اور۔لہٰذایہ کہانی عنوان کی طرح من گھڑت لگتی ہے اور اس میں وہ حقیقی عنصر نہیں ہے جو ایک افسانے میں ہونا چاہئے۔ان دونوں افسانوں کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے نہ موضوع کے لحاظ سے اور نہ ہی مواد کے اعتبار سے ان میں کچھ ایسا ہے جو قاری کو متاثر کرے کردار نگاری بھی برائے نام ہے اور پلاٹ بھی ڈھیلا ڈھالا ہے۔
’’سناٹے میں تارا‘‘اس مجموعے کا پانچواں اور آخری باب ہے اس میں ذوقی نے اپنے کچھ مضامین شامل کئے ہیںجن میں انھوں نے اپنے بچپن،تعلیم،ادب اور زندگی سے جڑی اہم معلومات فراہم کرنے کی کوشش کی ہے بچپن میں وہ طرح طرح کے کھیل کھیلتے تھے مگر ہر کھیل میں ہار جاتے تھے پھر تھک ہار کر قلم سے دوستی کر لی جو ایک بار قلم ہاتھ میں پکڑ لیا تو آج تک اس کا ساتھ نہیں چھوڑا۔کوٹھی،آنگن،امرود کا پیڑ اور گھر کے بزرگوں کو ذوقی کبھی بھول نہیں پائے اپنے شہر آرہ کی یادوں سے بھی وہ آج تک ابھر نہیں سکے ہیں۔انھیں ماضی کی یادیں اچھی لگتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ۱۹۸۵ء تک کی کہانیوں میں آرہ،ان کا گھر،بیوی،بچے اور ان سے متعلق چھوٹی چھوٹی چیزوں کو کثرت سے پیش کیا گیا ہے ان مضامین کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے نہ صرف ترقی پسند رحجان کو قبول کیا بلکہ جدیدیت سے بھی وہ متاثر ہوئے لیکن انھوں نے ان رحجانات کو صرف ایک مخصوص حد تک ہی اپنایا ورنہ ادب سے متعلق ان کے اپنے نظریات ہیں اور اپنے پیش روؤں سے ہٹ کر انھوں نے ایک الگ راہ نکالی جس پر وہ ثابت قدمی کے ساتھ چلتے رہے اور آج بھی اسی راہ پر گامزن ہیں وہ دوسروں کے بنائے اصولوں پر نہیں چلتے اور نہ ہی اپنی بات کو زبردستی کسی پر تھوپتے ہیں وہ اپنے انداز میں لکھتے ہیں اور ان کااپنا اسلوب ہے اسی کی بناء پر انھوں نے ادب میں اپنا ایک مقام بنایا ہے۔
(v)’’لینڈ اسکیپ کے گھوڑے‘‘
’’لینڈ اسکیپ کے گھوڑے‘‘مشرف عالم ذوقی کا پانچواں افسانوی مجموعہ ہے یہ ۲۰۰۳ء میں منظر عام پر آیا ۔اس مجموعے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں شامل بیشتر افسانے نئے موضوعات و نئی کیفیات کو اجاگر کرتے ہیں ۔’’لینڈ اسکیپ کے گھوڑے‘‘کی کہانیوں کو دو حصوں میں بانٹا گیا ہے سرخ حاشیے اور سیاہ حاشیے۔’سرخ حاشیے‘آگ کی علامت کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ’سیاہ حاشیے‘تاریکی کی علامت ہیں جس میں ہماری آج کی دنیا گھری ہوئی ہے اس مجموعے میں کل سترہ افسانے شامل کئے گئے ہیں۔
’’فزکس،کیمسٹری،الجبرا‘‘اس مجموعے کا پہلا افسانہ ہے اس میں انسانی جسم کی اس مانگ کو موضوع بنایا گیا ہے جس سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کرسکتا۔تہذیب ایک ایسی نیو ہے جس پر انسانیت کی بنیاد ٹکی ہوئی ہے مگر آج کے دور میں تہذیبی قدریں پامال ہورہی ہیں نئی تہذیبیں جنم لے رہی ہیں اور پرانی تہذیبیں منہدم ہورہی ہیں تہذیبوں کا انتشار اور بکھراؤ ایک عام بات ہو گئی ہے ایسے میں تہذیبوں کا یہ ٹکراؤ نہایت ہی سلگتا ہوا موضوع ہے اور ذوقی کی نظر ایسے موضوع پر نہ پڑے ایسا ممکن ہی نہیں ہے ۔’’فزکس،کیمسٹری،الجبرا‘‘میں تہذیبی شکست و ریخت کو آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے یہ کہانی سگمنڈ فرائڈ کے فلسفے پر لکھی گئی ہے کہ دنیا کی تمام خوشی اور غم صرف ایک رشتے کے ارد گرد گھومتے ہیں اور وہ رشتہ ہے ایک عورت اور مرد کا جنسی رشتہ۔حقیقت بھی یہی ہے کہ دنیا کی تمام خوشیاں اور غم اسی رشتے کی وجہ سے ہیں مگر جب یہ رشتہ اپنے معنی بدلتا ہے تو اس میں زہرناکی داخل ہوجاتی ہے جس میں سے بدبو آنے لگتی ہے اور تمام خوشیاں مدہم پڑ جاتی ہیں ۔اس کہانی میں ایک باپ ہے جو اپنی بیٹی کے ساتھ رہتا ہے اس کی تربیت وہ خود کرتا ہے اور ایک باپ کی تمام ذمہ داریوں کو بخوبی نبھاتا ہے اس کی بیٹی انجلی کانونٹ اسکول میں پڑھنے والی ایک عام سی لڑکی ہے جو بڑی ہورہی ہے معاملہ یہ ہے کہ انجلی ۱۴سال کی ہوگئی ہے اور باپ کی مشکل یہ ہے کہ اس عمر میں لڑکیوں کے پیریڈ شروع ہوتے ہیں عمر کے اسی پڑاؤ میں لڑکیاں محبت کی کسک محسوس کرنے لگتی ہیں اور وہ اپنے ہم عمر لڑکوں کو لو لیٹر لکھنا پسند کرتی ہیں یہی وہ لمحہ ہے جہاں ایک بیٹی گم ہوجاتی ہے اور بیٹی میں ایک لڑکی کا جسم آجاتا ہے ذوقی نے نہایت ہی فنکاری سے ایک باپ کی کشمکش کا جائزہ لیا ہے وہ باپ جو بار بار اس سوال میں الجھا رہتا ہے کہ بیٹی میں لڑکی کا جسم کیوں آجاتا ہے؟اس افسانے میں تین ہی کردار ہیں ایک پاپا یعنی باپ اور دوسرا کردار انجلی کا ہے ان کے علاوہ مسز ڈھلن کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہے جو انجلی کی بڑھتی عمر کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں اہم معلومات فراہم کرتی ہے ۔باپ کا کردار شروع سے ہی confusedرہتا ہے مصنف نے باپ کے کردار کو فزکس،کیمسٹری اور الجبرا سے باہر نکلنے کا موقع نہیں دیا ۔باپ کا کردار دلچسپ بھی ہے اور مشکل بھی۔وہ ایک ذمہ دار باپ ہونے کے علاوہ ایک پڑھا لکھا انسان بھی ہے مگر وہ ایک مرد بھی ہے اپنی جوان ہوتی بیٹی کے انڈر گارمنٹس کو وہ ایک مرد کی نظر سے دیکھتا ہے مگر اس کے من میں کوئی کھوٹ نہیں ہے وہ اپنی حدود سے واقف ہے اور خود پر قابو رکھنا جانتا ہے کیونکہ وہ حقیقت پسند ہے وہ جو ظاہر میں ہے وہی باطن میں بھی ہے یہ کردار نہ تو گندی ذہنیت کا آدمی ہے اور نہ ہی ان لوگوں میں شامل ہے جو ۴۰ کی عمر پار کرتے ہی خوفناک مرد بن جاتے ہیں ۔
’’میں گندے ذہن کا آدمی نہیں ہوں۔ویسا آدمی،جیسا ہمارے ماحول میں عام طور پر ۴۰ کے بعد کے مرد ہوجاتے ہیں ۔انہیں کہیں بھی دیکھ لیجئے۔بس اسٹاپ سے کلب اور اپنے خوبصورت دفتر کے رعب دار کمرے میں اپنی حسین سیکریٹری کو ڈکٹیشن دیتے ہوئے ۔۔۔۔میں ان ڈھلتی عمر کے بوڑھوں میں سے نہیں ہوں۔۔۔جو اندر کچھ باہر کچھ ہوتے ہیں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،لینڈاسکیپ کے گھوڑے ،۲۰۰۳ء۔ص۔۲۵)
یہ بھی سچ ہے کہ یہاں باپ کے اوپر ایک مرد کی سوچ اور اس کی نفسیات حاوی ہے اس کے اندر منفی سوچ جوش مارتی ہے یہی منفی سوچ انسانی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بنتی ہے ذوقی نے اس منفی سوچ کو ایک الگ انداز میں مثبت بنانے کی بہترین پہل کی ہے ۔
’’انجلی میری بیٹی ہے۔کتابیں میز پر سجا سکتا ہوں تو بیٹی کے اندر گارمنٹس چھوتے ہوئے بدن میں زلزلہ کیوں آجاتا ہے ۔مقدس باپ کے ذہن میں کہیں کوئی ایک چور دروازہ بھی ہوتا ہے کیا۔؟اس چور دروازہ سے ہوکر بیٹی لڑکی کیوں بن جاتی ہے۔فزکس،کیمسٹری،الجبرا۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،لینڈ اسکیپ کے گھوڑے،۲۰۰۳ء۔ص۔۳۱)
اس کہانی کا کینوس بہت وسیع ہے اس میں وقت اور حالات کے تحت بدلتے ہوئے مناظر،کرداروں کی ذہنی اور نفسیاتی کشمکش اور رشتوں کے کرب کو نہایت ہی فنکارانہ انداز میں پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے ۔ذوقی لفظوں کے جادوگر ہیں ان کو زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے وہ الفاظ کے معنی کے ساتھ ساتھ ان کے مزاج اور استعمال سے بھی واقفیت رکھتے ہیں وہ مشکل سے مشکل بات کو آسان لفظوں میں بیان کرنے کا فن جانتے ہیں کہانی کے مکالمے انتہائی برجستہ اور نپے تلے ہیں ۔’’فزکس،کیمسٹری،الجبرا‘‘کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ با لکل سامنے کی کہانی ہوتے ہوئے بھی کسی اور زبان میں اس موضوع پر آج تک کوئی کہانی وجود میں نہیں آئی اور وجہ اس کی یہ ہے کہ اس طرح کی کہانی کی تخلیق کے لئے جو جگر اور ہمت چاہئے اس کا دوسری زبانوں کے فنکاروں کے یہاں فقدان ہے ۔ذوقی کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ایک بڑے وژن کا سہارا لیتے ہوئے باپ بیٹی کے مقدس رشتے پر بڑی آسانی سے کچھ اتنا انوکھا لکھ دیا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔
’’انکیوبیٹر‘‘،’’لینڈ اسکیپ کے گھوڑے‘‘اور ’’فریج میں عورت‘‘تینوں افسانوں میں عورت کو موضوع بنا کر اس کے مسائل کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔’’انکیوبیٹر‘‘دراصل موجودہ معاشرے کی علامت ہے جس میں عورت کو چیخنے اور تڑپنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے ۔نیل ایک نو مولد بچی ہے جس کو پیدا ہوتے ہی انکیوبیٹر میں رکھ دیا جاتا ہے کیونکہ وہ ابھی مکمل طور پر تیار نہیں ہوئی ہے وہ جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور ہے ایسے بچوں پر ان کی ماؤں کی روز مرہ زندگی کے اثرات براہ راست پڑتے ہیں ۔ترپتی مینن ایک ایسے آدمی سے لو میرج کرتی ہے جو پہلے سے دو بچوں کا باپ ہے شادی کے بعد اس کے بچے ترپتی سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور وہ بھی اس کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے وہ اس کی محبت کو بستر پر روند ھتا ہے اس کو مارتا پیٹتا ہے اور دن رات اپنے کام میں مصروف رہتا ہے وہ ترپتی کو صرف اپنی ہوس مٹانے کے لئے ہی استعمال کرتا ہے۔دراصل مرد پرست معاشرے میں عورت کی حیثیت زیرو ہے وہ عورت کو ایک جسمانی شے سمجھتے ہیں جس سے وہ اپنا دل بہلاتے ہیں ان کے نزدیک عورت ایک کھلونے کی طرح ہے جس کے ساتھ جب چاہا کھیل لیا اور جب جی بھر گیا تو پھینک دیا۔وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی ان کی طرح ایک انسان ہے اس کی بھی اپنی کچھ feelingsہیں مرد اپنے آپ کو عورتوں سے بہتر سمجھتے ہیں لیکن ایسے بے شمار واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مرد عورتوں سے بہتر نہیں کمتر ہیں کسی عورت کو جسمانی اور ذہنی طور پر حراساں کرنا،اس کے جذبات و احساسات کو ٹھیس پہنچانا،اذیت دینا،مارپیٹ کرنا،طعنے دینا،بول چال میں فحش لفظوں کا استعمال کرنا وغیرہ سب گھریلو تشدد کے زمرے میں آتے ہیں عورت کے ان ہی بنیادی مسائل کو ’’انکیوبیٹر‘‘میں پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔
’’لینڈاسکیپ کے گھوڑے‘‘تخلیقی اعتبار سے ایک عمدہ افسانہ ہے اس میں روایتی طور پر تقسیم وطن کے المیہ کو موضوع بنایا گیا ہے لیکن اس کا اسلوب اور طرز بیان مختلف ہے اس کا کینوس عالمی سطح تک پھیلا ہوا ہے اس میں فلسفہ محبت ہے اور قدرت کے حسین شاہکار عورت کا سراپا بھی تو انسانی جسم کی حقیقت بھی۔عمر کی حدوں کو توڑ کر محبت میں ڈوبنے اور ایک دوسرے کو پانے کی جستجو ہی ’’لینڈ اسکیپ کے گھوڑے‘‘کو ایک بڑی کہانی کے طور پر پیش کرتی ہے۔تقسیم کے وقت لکھنئوسے پاکستان جانے والا حسین اس ناول کا مرکزی کردار ہے وہ ایک پینٹر ہے اور پینٹنگ کے سلسلے میں مختلف ممالک کا سفر کرتا ہے دبئی میں اس کی ملاقات فرقان سے ہوتی ہے جو لکھنئو سے فرضی ڈگری لے کر وہاں ڈاکٹری کا پیشہ کرتا ہے فرقان کی ۲۲سالہ بہن حسین کو چاہنے لگتی ہے پچاس کا ہونے کے باوجود حسین بھی اس کے عشق میں جلنے لگتا ہے اور اس طرح ان کی محبت پروان چڑھنے لگتی ہے لیکن حسین واپس اپنے وطن لوٹ جاتا ہے پھر ایک مدت کے بعد پیس مشن کے تحت پاکستان سے پینٹروں کا ایک وفد دہلی آتا ہے جس میں حسین بھی شرکت کرتا ہے اس نے ایک بے حد دلچسپ اور خوبصورت پینٹنگ بنائی ہے۔
’’اس پینٹنگ میں دو گھوڑے ہیں۔دو حسین گھوڑے۔یہ گھوڑے جوناتھن سوئفٹ کے خیالی گھوڑوں کی طرح خوبصورت بھی ہیں اور وجیہہ بھی۔۔۔۔ان کے دو پاؤں دھرتی پر اور دو ہوا میں معلق ہیں ۔۔۔اس طرح جیسے یہ کوئی بہت اہم پیغام لے کر ایک دوسرے کے گلے مل رہے ہوں۔۔۔کیا ان میں سے ایک ہندوستان ہے؟اور دوسرا پاکستان۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،لینڈ اسکیپ کے گھوڑے،۲۰۰۳ء۔ص۶۵)
یہ دو گھوڑے دراصل ہندوستان اور پاکستان کی علامت ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ قدم ملا کر چلنا چاہتے ہیں اور بلندیوں پر پہنچ کر اپنی دوستی کی مثال قائم کرنے کے خواہشمند ہیں مگر اس کے باوجودشر پسند عناصر انھیں لمبی اڑان بھرنے سے روکے ہوئے ہیں اور جب بھی ان کے رشتوں میں سدھار ہوتا ہے کوئی نیا فساد روڑہ بن کر سامنے آجاتا ہے جس کا خمیازہ امن پسند لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے اسی بیچ حسین کو پتہ چلتا ہے کہ فرقان کو فرضی ڈگری کی وجہ سے ہندوستان واپس بھیج دیا گیا ہے لہٰذا وہ اس سے ملنے لکھنئو جاتا ہے اسی بہانے وہ اپنی محبت کوبھی بانہوں میں بھرتا ہے لیکن ویزا کی معیاد ختم ہونے سے پہلے حسین کو پاکستان لوٹنا پڑتا ہے مگر ان کی محبت کمزور نہیں ہے وہ ایک دوسرے کو پانے کا وعدہ کرتے ہیں آخر میں حسین اپنی بارات لے کر ہندوستان آنے کی تیاری کرتاہے مگر حالات خراب ہوجاتے ہیں اور اس طرح ان کا ملن ادھورا رہ جاتا ہے ملن کا یہی ادھورا پن اس کہانی کا مرکزی نکتہ ہے ۔فرضی ڈگری کے معاملے کو بھی اس افسانے میں ابھارا گیا ہے کہ کس طرح پیسوں کے دم پر لوگ فرضی ڈگری یا سند حاصل کرلیتے ہیں اور پھر اسے کمائی کا ذریعہ بنا کر لوگوں کو لوٹتے ہیں ان کا علاج کرتے ہیں ایسے میں تجربے کے بغیر مریضوں کا علاج کرنا ایک وبال بن سکتا ہے ان کی جانیں جاسکتی ہیں مگر جعلسازوں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں اس طرح کی ڈگریوں پر روک لگائی جانی چاہئے اور ان کی جانچ پڑتال کرنے کی ضرور کوشش کی جانی چاہئے۔اس افسانے میں گنے چنے کردار ہیں جو اپنی چھاپ چھوڑنے میں کامیاب نظر آتے ہیں مصنف نے دو بے جان گھوڑوں کو بھی کرداروں کی صورت میں پیش کرنے کی سعی کی ہے جو انتہائی جاندار معلوم ہوتے ہیں کیوں کہ ان کے پس منظر میں ذوقی نے ایک بڑے وژن کو سامنے لایا ہے مصنف کا نقطہ نظر پڑوسی دیشوں میں دوستی کو بڑھاوا دینا ہے اس کے لئے انھوں نے عالمی منظر نامے کا سہارا لیا ہے۔
’’فریج میں عورت‘‘fantasyکا بہترین نمونہ ہے اس کہانی کا اندازو اسلوب نہایت سادہ ہے کہانی اتنی دلچسپ ہے کہ پہلی نظر سے ہی قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور وہ پوری توجہ سے اسے پڑھنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔نربھے چودھری بہار کا ایک نوجوان ہے وہ روزگار کی تلاش میں دلی آتا ہے کافی دوڑ دھوپ کے بعد دوردرشن کا ایک سیریل پروڈیوسر اجے گوسوامی اسے کریٹیو ریلس کے پروڈکشن مینجر کے کام پر رکھ لیتا ہے نربھے ایک کرائے کے کمرے میں رہتا ہے شام کو کام سے جب وہ اپنے کمرے میں آتا ہے تو گرمی اور پیاس کی شدت اسے پریشان کرتی ہے وہ اپنے باس سے کہتا ہے کہ اسے ایک فریج کی ضرورت ہے لہٰذا اجے گوسوامی اپنے کواڑ خانے سے گودریج کمپنی کا ایک پرانا فریج اس کے مکان میں بھجوادیتے ہیں فریج کے آنے سے نربھے چودھری کی زندگی میں ایک عجیب و غریب تبدیلی آجاتی ہے فریج میں ایک عورت ہے جو بے حد حسین اور خوبصورت ہے اس کے آنے سے کمرے میں خوشبو پھیل جاتی ہے اور پورا سماں روشن ہوجاتا ہے وہ اس سے باتیں کرتی ہے اس کا دل بہلاتی ہے اور اس کے پاس آکر اسے لبھاتی ہے جب نربھے کام پر جاتا ہے تو وہ اس کے کمرے کی صفائی کرتی ہے کپڑے استری کرتی ہے اور اس کا اعتبار جیتنے کی کوشش کرتی ہے دراصل وہ نربھے کو ایک اچھی زندگی جینے اور اس کے اسٹائل کو changeکرنے کے لئے اسے motivateکرتی ہے جب نربھے یہ بات اپنے دفتر میں کرتا ہے تو اس کے کلیگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں جب وہ مذاق کی حدوں سے گزرجاتے ہیں تو نربھے کو غصہ آتا ہے اور وہ مار پیٹ پر اتر آتا ہے تبھی وہ ہوتا ہے جس نے کہانی کا رخ موڑ دیا ۔وہ فریج چونکہ اجے گوسوامی نے نربھے کو دیا تھا جس نے نربھے کو احتجاج کے لئے اکسایا۔اس لئے وہ فریج اجے گوسوامی نے واپس منگوا لیا اور اس طرح نربھے کی زندگی پھر سے ویران ہوجاتی ہے اس افسانے میں مصنف نے مافوق الفطری عناصر سے کام لیا ہے جو افسانے کے لئے معیوب سمجھا جاتا ہے اس سے افسانہ نگاری کا فن مجروح ہوتا ہے اور حقیقت کی ترجمانی بھی۔لہٰذا یہ ایک بڑی کمزوری ہے۔
’’بیٹی‘‘بھی ایک اچھا افسانہ ہے اس میں ماں،باپ اور بیٹی کے کردار ہیں ۔ماں اپنی بیٹی کے لئے بہت سوچتی ہے وہ اسے بے حد پیار کرتی ہے اور اسے بڑے لاڈ پیار سے پالتی ہے ہر وقت اس کا خیال رکھتی ہے یہاں تک کہ اسے ڈائٹ بھی اپنی پسند کی دیتی ہے اور ایک خاص دن کے لئے اسے تیار کرنا چاہتی ہے اور وہ دن ہوتا ہے اس کی شادی کا ۔ماں بیٹی کی ہر حرکت پر نظر رکھتی ہے مگر بیٹی کو ماں کی بندشیں ناگوار لگتی ہیں کیونکہ وہ آزادی سے جینا چاہتی ہے بیٹی ماں کو اپنے قریب پاتی ہے اور باپ کو انتہائی دور۔لیکن ایک دن اچانک وہ اپنے باپ کو اپنا دوست سمجھنے لگتی ہے باپ اسے آزادی کا راستہ بتاتا ہے اور اسے جینے کا حق دیتا ہے باپ کی دی ہوئی اڑان سے بیٹی اپنی پرواز تیز کرتی ہے انٹرنیٹ پر chattingکے ذریعہ اسے ایک لڑکا مل جاتا ہے جو اسے کلب میں لے جاتا ہے اور اس کے ساتھ رنگ رلیاں مناتا ہے اس طرح بیٹی نے اپنی مرضی کا آسمان چن لیا اور تمام حدیں پار کرکے جب وہ گھر واپس آتی ہے تو وہ سب کچھ لٹا چکی ہوتی ہے ۔اس افسانے میں ایک بیٹی کی آزادی کے نازک مسئلہ کو پیش کیا گیا ہے دراصل کسی بھی لڑکی کو ضرورت سے زیادہ دی گئی آزادی اسے مصیبت میں ڈال سکتی ہے جس کا انجام صرف پچھتاوا ہوتا ہے ماں باپ کو چاہئے کہ وہ لڑکیوں کی غلط حرکتوں پر روک لگائیں ۔یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کی ہر حرکت پر نظر رکھی جائے بلکہ ضروری یہ ہے کہ ان کی غلطیوں کو دیکھ کر انھیں سمجھانے کی کوشش کی جائے تا کہ وہ وقت رہتے خود کو سنبھال سکے۔آج انٹرنیٹ کے دور میں لڑکیوں کے لئے مشکلیں اور بھی بڑھ گئی ہیں۔chatting,facebookیاwebcamکے استعمال سے لڑکیاں بہت جلد لڑکیوں کے چنگل میں پھنس جاتی ہیں اور پھر وہی انجام ہوتا ہے جو اس کہانی کی ’بیٹی‘کیساتھ ہوا۔موضوع اور پلاٹ کے لحاظ سے یہ ایک عمدہ افسانہ ہے کردار نگاری میں بھی مصنف نے اپنے جوہر دکھانے کی کوشش کی ہے تاہم اس میں کچھ کمزوریاں رہ جاتی ہیں باپ اور بیٹی کے رشتے کو جس طرح پروان چڑھایا گیا ہے وہ بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے ایک باپ کبھی بھی اپنی بیٹی کو غلط راہ پر چلنے کی ترغیب نہیں دے گا ماں کا کردار فطری نظر آتا ہے وہ اپنی بیٹی کو کامیاب اور خوش دیکھنا چاہتی ہے اور اس کو بھٹکنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے ۔
’’بھورے بالوں والی لڑکی‘‘ایک زبردست کہانی ہے اس کا موضوع against natureہے اس میں جنس کا ایک نیا روپ نظر آتا ہے یعنی یہ کہانی گلیمر ورلڈ کی ہے جہاں مرد عورت کا اور عورت مرد کا استعمال کر رہی ہے استعمال بھی اس قدر کہ عورت ایک مشین بن جاتی ہے اور مرد تو مشین سے بھی کھوکھلا ہوجاتا ہے ۔بھورے بالوں والی لڑکی کسی پارٹی میں ایک لڑکے سے ملتی ہے اور اس سے پیار کرنے لگتی ہے وہ ایک شادی شدہ لڑکی ہے اور اپنی ازدواجی زندگی سے خوش نہیں ہے کیونکہ اس کا شوہر عورت کا روپ اختیار کرلیتا ہے وہ عورت کی طرح لباس پہنتا ہے اس کی تمام حرکتیں عورتوں جیسی ہیں عورت کی نقل نے اسے اندر سے با لکل کھوکھلا کردیا ہے وہ مرد انہ جذبات سے خالی ہے اور عورت کی طرح جینا پسند کرتا ہے اس طرح وہ ایک نقلی دنیا آباد کرلیتا ہے دراصل یہ سب کچھ فطرت کے خلاف ہے انسانی جسم قدرت کا ایک حسین تحفہ ہے یہی جسم سیکس کی بھوک میں کبھی Lesbianبن جاتا ہے تو کبھی Gay۔اس طرح Homosexualityیعنی ہم جنسی جیسے رشتے وجود میں آتے ہیں جو قدرتی نظام کے خلاف ہے sexایک قدرتی ایڈونچرہے اور جب انسان قدرت کے بنائے ہوئے اصولوں پر نہیں چلتا تو سب کچھ غیر فطری ہوجاتا ہے یعنیagainst nature۔زبان وبیان اور کرداروں کے لحاظ سے یہ ایک اہم افسانہ ہے۔
’’کاجو‘‘ایک علامتی افسانہ ہے اس میں مڈل کلاس طبقے کی عکاسی کی گئی ہے کہ ایک عام آدمی کس طرح اپنی زندگی کا گزارا کرتا ہے ۔’کاجو‘مہنگائی کا استعارہ ہے اس کہانی کا مرکزی کردار گردھاری لال ہے وہ ایک سرکاری اسکول میں مدرس ہیں مہینہ بھر کا گزاراوہ بڑی مشکل سے کرتا ہے تنخواہ ملنے کے وقت تھوڑی سی خوشی ضرور ہوتی ہے مگر دوسرے ہی لمحے چہرے پر اداسی چھا جاتی ہے مہنگائی نے اسے نڈھال کردیا ہے۔
’’کراسن تیل،کڑوا تیل،دال چینی،تھوڑی کھلی پتی،نہیں نہیں ان پیسوں سے تو اتنا کچھ آ ہی نہیں سکتا۔کچھ کٹوتی کرنی پڑے گی۔آخری مہینہ ہے ۔۔۔۔۔تھوڑے سے پیسے میںتو گذارہ ہی مشکل ہے۔۔۔جوتے کا کیا ہے؟یہ جوتا ابھی کچھ دن اور گھسٹ سکتا ہے ۔اس بار کی برسات بھر تو چل ہی جائے گا ۔۔۔خیر یہ جوتا ہے مگر کاجو۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،لینڈ اسکیپ کے گھوڑے،۲۰۰۳ء۔ص۔۱۲۳)
گردھاری لال کی مشکل یہ ہے کہ وہ کاجو کو لے کربہت جذباتی ہوجاتے ہیں اور اپنے بچوں کو کاجو کھلانے کے لئے بضد ہیں مگر مہنگائی کے اس دور میں کاجو خریدنا کوئی آسان کام نہیں ۔آخر کار اس کی کوشش کامیاب تو ہوتی ہے مگر وہ اصلی کاجو کے بجائے بھنا ہوا کاجو ہی حاصل کر پائے ۔دراصل آج کے زمانے میں ہر چیز نقلی ہے اصلیت اور حقیقت کہیں گم ہوگئی ہے آج کا انسان نقلی ہوگیا ہے تو چیزوں کی کیا بات ہے کہانی میں مہنگائی کے علاوہ حکومت کو بھی طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے ہے۔ایک ٹیچر جو پوری زندگی بچوں کو تعلیم دینے میں صرف کردیتا ہے حکومت اسے معمولی سی تنخواہ دے کر اپنا پلہ جھاڑ لیتی ہے اساتذہ کو ان کی محنت کا پورا معاوضہ ملنا چاہئے تبھی وہ اپنیDutyکو ایمانداری سے انجام دیں گے۔گردھاری لال کے ذریعہ ذوقی نے پورے ہندوستانی معاشرے کو سامنے رکھ دیا ہے اتنا ہی نہیں پولیس کی حقیقت،کمزور سسٹم اور عام انسانی زندگی کے بہت سے اہم مسائل کی طرف یہ کہانی اشارہ کرتی ہے مصنف کا نقطہ نظر مہنگائی کو پیش کرنا ہے انھوں نے کاجو کی مدد سے اپنی بات قارئین تک پہنچانے کی سعی کی ہے اور اس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔
’’الرجی بنام ہوڑہ کے سوپن رائے‘‘بھی ایک خوبصورت افسانہ ہے اس کا عنوان مختلف ہے کہانی میں ابتداء سے لے کر آخر تک ایک تسلسل برقرار رہتا ہے یہ رشتوں کے انتشار کی کہانی ہے آج ہر گھر کے اندر انتشار ہے اور ایسا نہیں ہے کہ یہ انتشار صرف مرد اور عورت یعنی شوہر بیوی کے رشتے میں ہی ہے بلکہ ماں بیٹی،باپ بیٹا،بھائی بھائی،بھائی بہن،ساس بہو اور دوست وغیرہ سب رشتے انتشار کا شکار ہیں۔یہ کہانی بنگال قحط کے بطن سے پیدا ہوتی ہے کیسے ایک انسان اپنے گھر کی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کرنے کے لئے خود پرست بن جاتا ہے اسے لگتا ہے کہ زندگی کو بہتر طریقے سے جینا اور جیتنا انسان کے خود کے لئے ہے یہ سب قحط کا اثر ہے جس نے جانور اور انسان میں تمیز کرنا مشکل کردیا۔اس کہانی کی کردار کنیکا ایک سلجھی ہوئی اور ذمہ دار لڑکی ہے جو اپنے پروفیشن اور نجی زندگی میں ایک توازن بنائے رکھتی ہے وہ زندگی کی سچائی سے واقف ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے طور پر سوپن رائے کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہے لیکن سوپن رائے کو اپنا شہر ہوڑہ چھوڑ کر دہلی جانا تھا اور وہ گیا کیونکہ وہ اپنی بے روزگار ی سے پریشان تھا لیکن اس ہجرت میں اس نے بہت کچھ کھو دیا ۔ہوڑہ سے سوپن رائے جو الرجی اپنے ساتھ لے کر چلا تھا یہ الرجی دہلی میں اور بھی بڑھ جاتی ہے لیکن وہ الرجی کی پرواہ کئے بغیر ترقی کے زینے طے کرتا ہوا آگے بڑھتا جارہا تھا ترقی کی ہوس میں وہ اپنے گھر اور گاؤں کو بھول جاتا ہے آخر میں پتا جی کے خط کے ذریعہ اسے ہوڑہ یاد آتا ہے وہ بھی اس لئے کہ اس کی جائیداد کا حصہ کسی ٹرسٹ میں نہ چلا جائے ۔اسی لالچ میں وہ نہ جانے کتنے برسوں بعد ہوڑہ واپس لوٹتا ہے کلکتہ شہر کی ترقی کو دیکھ کر وہ حیران رہ جاتا ہے اس عرصہ میں سب کچھ بدل چکا تھا وطن کی پہچان جو اس کے ذہن میں محفوظ تھی سب ختم ہو چکی تھی۔کہانی کا اختتام بہت خوبصورت ہے جو لوگ صرف لالچ میں آکر اپنے گھر،دوست واحباب اور وطن کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور پھر ان کی کوئی خیر خبر نہیں لیتے ایسے لوگوں کو ان کا شہر تو کیا ان کے اپنے بھی بھول جاتے ہیں اور سوپن کے ساتھ بھی یہی ہوا۔کنیکا جو ایک خوددار لڑکی ہے اور سوپن کی دوست اسے چائے پلاتی ہے اور ہمیشہ کی طرح پیسے دینے میں پہل کرتی ہے تو سوپن اسے پہچان لیتا ہے مگر وہ جان بوجھ کر انجان بنی رہتی ہے اور سوپن خود کو کوستا رہتا ہے اس افسانے کے تمام کردار زمینی سطح سے لئے گئے ہیں جن میں مقامی رنگ جھلکتا ہے اس طرح یہ کردار حقیقت سے بہت قریب لگتے ہیں اس کے علاوہ منظر نگاری کے بھی عمدہ نمونے پیش کئے گئے ہیں ۔
’’نور جہاں،پھول جہاں اور کین کا صوفہ‘‘بھی اس مجموعے کا ایک عمدہ افسانہ ہے یہ نور جہاں اور اس کی بارہ سالہ بیٹی پھول جہاں کی کہانی ہے پھول جہاں کے ذریعہ ذوقی نے ایک بچی کی نفسیات کو بہت اچھے انداز میں پیش کیا ہے اس کے دل میں بہت سی خواہشیں ہیں اس کے پرتشویش سوالات اور نئی نئی باتیں جاننے کی جستجو نے اس کی ماں کو پریشان کر رکھا ہے ۔پھول جہاں اپنی ماں کے ساتھ لوگوں کے گھروں میں صاف صفائی کا کام کرتی ہے جب وہ بڑے لوگوں کے ڈسٹ بن میں پھینکا ہوا کھانا دیکھتی ہے تو سوچنے لگتی ہے کہ اگر ایک دانا بھی ہماری پلیٹ میں باقی رہ جاتا ہے تو ماں سے ڈانٹ پڑتی ہے کہ اللہ مارے گا۔کیا ان امیروں کو اللہ نہیں مارتا اسی طرح وہ ماں سے جھگڑا کرتی ہے کہ باپ سارا دن بیکار بیٹھا رہتا ہے اور تم دن بھر کام کرتی رہتی ہو اور جب ذرا سا وقت ملتا ہے تو چائے کی دکان پر بیٹھ جاتی ہو۔پھول جہاں اپنی ماں کے لئے جذباتی ہے اس کی ماں اپارٹمنٹ کے جتنے بھی فلیٹس میں کام کرتی ہے ان میں سب سے اچھا گھر اسے رضوی صاحب کا لگتا ہے رضوی صاحب اور ان کی بیوی ذکیہ اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں وہ دوردرشن کے لئے فلمیں بناتیں ہیںپھول جہاں کو بھی فلم اور ٹی وی دیکھنا پسند ہے پھر بھی وہ اپنی اس خواہش کو کبھی ترجیح نہیں دیتی۔لیکن رضوی صاحب کے کین کے صوفے اس کے تجسس کو بڑھاتے ہیں صوفے کے گدے اور کشن اسے اپنی طرف کھینچتے ہیں ایک دن وہ اس صوفے پر بیٹھ کر گدے کی softnessکو محسوس کرتی ہے اور ایک حسین خواب سجاتی ہے مگر اچانک اس کا خواب چور چور ہوجاتا ہے رضوی صاحب کا بھائی مصباح اسے ڈانٹ کر صوفے سے نیچے اتار دیتا ہے اور وہ سہم جاتی ہے اس حادثے کے بعد وہ اپنی ماں کو رضوی صاحب کے یہاں کام پر جانے سے روک لیتی ہے اور یہی ہے ایک بچی کا احتجاج۔نور جہاں تو رضوی صاحب اور ذکیہ کے لئے ان کا ہاتھ پاؤں تھی اس لئے کئی روز تک جب وہ ان کے یہاں کام پر نہیں گئی تو جیسے ان کی زندگی ہی رک گئی۔آخر میں ذکیہ اور اس کے شوہر کو ان کے جھونپڑے میں آنا پڑتا ہے اس طرح امیر سوالی بنا غریب کے در پر کھڑا ہوجاتا ہے ایسے میں پھول جہاں کو اپنا گھر جنت کی طرح لگ رہا تھا کچھ لمحے کے لئے وہ بھول گئی کہ وہ کہاں ہے اور جب خواب کی لڑیاں ٹوٹیں تو وہ تین پیروں والی چمچماتی ہوئی کرسی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
’’آئیے نا۔اندر آئیے نا۔یہاں۔یہاں بیٹھئے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،لینڈ اسکیپ کے گھوڑے،۲۰۰۳ء۔ص۔۱۷۹)
یہ ہے امیر اور غریب کے اخلاق کا فرق۔امیر لوگ صرف اپنی حیثیت کے لوگوں کے ساتھ اخلاق سے پیش آتے ہیں جبکہ غریبوں کے ساتھ وہ سختی کا رویہ رکھتے ہیں اس کے برعکس غریب آدمی کے پاس پیار اور خلوص بھرے اخلاق کا بڑا خزانہ ہوتا ہے جہاں تک کہ ان کے بچے بھی بڑوں کا ادب و احترام کرتے ہیں اس کی مثال پھول جہاں ہے جو اپنے گھر آئے مہمانوں کی عزت کرتی ہے ۔
اس مجموعے کا سب سے عبرتناک افسانہ’’لیبارٹری‘‘ہے یہ ایک دلسوز افسانہ ہے جس میں انسانی جانوں کے خطرناک تجربے کئے جاتے ہیں اکثریتی فرقے کا ایک شخص اقلیتی طبقہ کے کچھ لوگوں کو اپنے گھر میں پناہ دیتا ہے اکثریت کے چند ظالم افراد اس گھر پر حملہ کرتے ہیں اور اقلیتوں کے ساتھ ساتھ گھر کے لوگوں کو بھی اپنے ظلم کا نشانہ بناتے ہیں انھیں انتہائی بے رحمی سے قتل کیا جاتا ہے قتل کرنے کے بعد وہ ان مردہ جسموں کے تجربے کرتے ہیں۔
’’تو یہ کمرہ اب ایک لیبارٹری تھا ۔تجربے چل رہے تھے۔نئے نئے تجربے۔موت۔عورتیں اور مرد۔جوان بچیاں اور فنتاسی۔زمین پر ایک گھنٹے کی تفریح کے بعد آٹھ لاشیں سجی تھیں۔۔۔۔ابھی آخری فنتاسی باقی ہے ۔یعنی آخری تجربہ۔دونوں مرد کی لاش چھوڑ دو۔باقی گھسیٹ کر اندر لے جاؤ۔ہم ایک نیا تجربہ کریں گے۔ان کے عضو تناصل کاٹ دو۔اور تم۔تم سلائی جانتے ہو نا۔ماڈرن ٹیلرس کے بچے۔حکم۔حکم باس۔ان کے عضو تناصل بدل دو۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،لینڈ اسکیپ کے گھوڑے،۲۰۰۳ء۔ص۔۱۹۷)
یہ دراصل اکثریت کا اقلیت پر ظلم ہے جس کی وجہ سے اقلیت سہمی ہوئی ہے اور تعداد میں کم ہونے کی وجہ سے وہ اس کا مقابلہ کرنے کو تیار نہیں ہے کیونکہ وہ خود کو کمزور سمجھتے ہیں ۔اس افسانے میں ایک بڑے مسئلہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو با لکل سچ ہے اور اس سے منہ نہیں موڑا جاسکتا۔تقسیم ملک سے ہی فرقہ پرست لوگوں کی ایک بڑی جماعت مسلمانوں (اقلیت)پر ظلم ڈھا رہی ہے اور ان کے خلاف نئی نئی سازشیں تیار کر رہی ہے تاکہ وہ ان کا استعمال اور استحصال کرسکیں اور وہ کر رہے ہیں حد تو یہ ہے کہ انھیں روکنے والا کوئی نہیں وہ کھلے عام گھومتے ہیں اور انھیں سزا دینے کے بجائے حکومت کی کرسیوں پر بٹھادیاجاتا ہے وہیں دوسری طرف اکثریت طبقے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اقلیت کا بھلا چاہتے ہیں اور ان کے ساتھ مل کر اپنے ملک کو ترقی کی راہوں پر لے جانا چاہتے ہیں مگر وہ بھی ظلم کا شکار ہوجاتے ہیں اقلیت کی غلطی یہ ہے کہ وہ خود کو بے بس اور لاچار سمجھتی ہے جبکہ وہ اپنے دم پر حکومت بنانے کی طاقت رکھتے ہیں لہٰذا انھیں چاہئے کہ وہ اس ظلم و جبر اور فرقہ پرستی کے خلاف ایک جٹ ہوکر اپنا احتجاج بلند کریں اور اپنی عزت و وقار کو بحال کرنے کی کوشش کریں۔
’’لینڈ اسکیپ کے گھوڑے‘‘کی کہانیاں موضوعات کے حوالے سے اردو کہانیوں سے با لکل الگ نظر آتی ہیں ان افسانوں کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ذوقی اردو افسانہ نگاری کی تجربہ گاہ میں نئے نئے تجربے کر رہے ہیں جس سے اردو افسانے میں نئے نئے امکانات روشن ہو رہے ہیں ۔
(vi)’’ایک انجانے خوف کی ریہرسل‘‘
’’ایک انجانے خوف کی ریہرسل‘‘ذوقی کا چھٹا افسانوی مجموعہ ہے یہ ۲۰۱۱ء میں شائع ہوا۔یہ مجموعہ چوبیس کہانیوں پر مشتمل ہے اس مجموعے میں شامل کہانیوں کے موضوعات زیادہ تر فرقہ وارانہ فسادات،دہشت گردی اور اقلیت کے مسائل کا احاطہ کرتے ہیں اس کے علاوہ ذوقی نے عشقیہ موضوعات پر بھی قلم اٹھایا ہے انھوں نے عشقیہ موضوع کو بڑی سنجیدگی اور فنی مہارت سے صفحہ قرطاس پر بکھیرنے کی کوشش کی ہے زیر بحث مجموعے میں اس موضوع سے متعلق تین افسانے ہیں جن میں’’واپس لوٹتے ہوئے‘‘،’’بے حد نفرتوں کے دنوں میں‘‘اور ’’بارش،جنگل اور وہ‘‘شامل ہیں۔
’’واپس لوٹتے ہوئے‘‘اس مجموعے کا پہلا افسانہ ہے اس میں ایک پاکستانی لڑکی مہک احمد ہے جس کی عمر ۲۲سال ہے وہ ادھیڑ عمر کے ایک ادیب (سانیال)کی کہانیوں کو پسند کرتی ہے اور نیٹ کے ذریعہ مصنف کو اپنا پیغام بھیجتی ہے پھر اس کے ساتھ chattingکرنے لگتی ہے اور اپنی محبت کا اظہار کردیتی ہے سانیال چونکہ زندگی کی تلخ حقیقت سے واقف ہے وہ ایک شادی شدہ مرد ہے اس لئے مہک کے پروپوزل پر لڑکھڑا جاتا ہے۔
’’جیسے اندر،خون کا دوران بڑھ گیا تھا۔۔۔تمہاری عمر اگر ۸۰ سال بھی ہوتی،نظریں بار بار اس کے لکھے جملوں پر دوڑ رہی تھی ۔۔۔اندر کوئی تشنہ خواہشات والا مرد تھا کیا؟یا چالیس کی دہلیز پر کھڑا ایک ادھیڑ جسے اس بات سے سکون ملا ہو کہ کوئی ۲۲۔۲۳سال کی لڑکی بھی اس سے پیار کرسکتی ہے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،ایک انجانے خوف کی ریہرسل،۲۰۱۱ء۔ص۔۱۷)
مہک سانیال کے عشق میں اس قدر آگے بڑھ جاتی ہے کہ اس کے انکار کرنے پر وہ موت کو گلے لگانے کی کوشش کرتی ہے لہٰذا سانیال کشمکش میں پڑ جاتا ہے اس کی بیوی ترانہ اس سے بے حد محبت کرتی ہے وہ ایک کامیاب شریک حیات ہے وہ جانتی ہے کہ اس کا شوہر سانیال کسی الجھن میں پڑا ہے مگر اسے اپنی محبت پر پورا بھروسہ ہے۔
’’نیٹ سارے کرتے ہیں۔کون نہیں کرتا۔لوگ تو ایسی باتیں اپنی بیویوں سے شیئر بھی نہیں کرتے۔۔۔۔میں لوگوں کو نہیں جانتی۔سانیال کو جانتی ہوں ۔۔۔ترانہ کی آواز میں کہیں بھی غصہ کا اظہار نہیں تھا۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،ایک انجانے خوف کی ریہرسل،ص۔۲۵)
پھر ایک دن اچانک مہک کسی وفد کے ساتھ انڈیا چلی آتی ہے اور سانیال سے ملنے اس کے گھر پہنچتی ہے اس کے کمرے میں جاکر اسے اپنی بانہوں میں بھرتی ہے اور اپنے ہونے کا یقین دلاتی ہے پھر سانیال کے ہونٹوں پر اپنے پیار کی مہر لگاکر اس کے اندر اپنے وجود کے احساس کو قائم کرکے ہمیشہ کے لئے چلی جاتی ہے یہ کہانی ابتداء سے لے کر اختتام تک قاری کو اپنے سحر میں رکھتی ہے۔
ذوقی نے ایک بہت ہی چھوٹی مگر اہم بات کو سب کے سامنے لایا ہے یہ ایک ایسا سچ ہے جس کو سب جانتے ہیں مگر جان کر انجانے بن جاتے ہیں ۔انٹرنیٹ پر چیٹنگ کرنا آج ایک عام بات ہوگئی ہے جس سے ازدواجی زندگیاں متاثر ہورہی ہیں ذوقی نے ایک ایسے مرد کو اپنی کہانی کا مہرہ بنایا ہے جو اپنی بیوی سے لومیرج کرتا ہے شاید وہ یہ دکھانا چاہتے ہوں کہ مرد چاہے اپنی محبت کا کتنا ہی دعوہ کرتا ہو مگر اس کی محبت میں purityنہیں ہے اور وہ کبھی بھی اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر کسی اور لڑکی کا ہاتھ تھام سکتا ہے انھوں نے جس طرح سے اس کہانی کو تحریر کیا ہے بہت ممکن ہے کہ یہ ان کی آپ بیتی ہو۔اس افسانے میں انھوں نے نئی اور پرانی تہذیب کا تقابل پیش کیا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ جدید ٹکنالوجی نے جہاں اظہار محبت کو آسان کردیا ہے وہاں بہت سی دشواریوں کو بھی جنم دیا ہے ذوقی نے سماج کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ وہ جدید ٹکنالوجی سے فائدہ ضرور اٹھائیں مگر اس کے نقصانات سے بچنے کی بھی کوشش کریں۔
’’بے حد نفرتوں کے دنوں میں‘‘بھی ایک عشقیہ افسانہ ہے اس افسانے میں مصنف نے یہ واضح کیا ہے کہ نفرتوں کے خاتمے کے لئے کسی بڑے ہتھیار کی ضرورت نہیں بلکہ نفرت کا خاتمہ صرف اور صرف محبت کے ذریعہ ہی ممکن ہے چاہے وہ نفرت دلی سطح پر ہو یا ملکی سطح پر صرف محبت ہی ایک ایسی دوا ہے جو اسے مٹا سکتی ہے ۔اس افسانے کا آغاز ڈرامائی انداز سے کیا گیا ہے اس میں ایک ہندوستانی ہندو لڑکے راجندر راٹھور اور پاکستانی لڑکی شائستہ فہیم خان کی محبت کو پیش کیا گیا ہے دونوں کا تعارف نیٹ کے ذریعہ ہوتا ہے وہ ایک دوسرے کے دوست بن جاتے ہیں آہستہ آہستہ ان کی یہ دوستی محبت میں بدل جاتی ہے ان کی محبت اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ شادی کرنے کا فیصلہ کرلیتے ہیں لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا اس کے لئے وہ جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں راٹھور خود کو اور اپنے والدین کو مسلمانوں کی شناخت دے کر یہ شادی کرلیتا ہے اور شائستہ کو اپنے گھر لے آتا ہے مگر جب شائستہ کے گھر والوں کے سامنے ان کی حقیقت کھلتی ہے تو وہ اس کو واپس پاکستان لے جاتے ہیں اس موقع پر مصنف نے شائستہ کی زبان سے یہ مکالمہ ادا کروایا ہے۔
’’گھبراؤ مت۔تمہاری بیوی ہوں اب۔کوئی گناہ نہیں کیا میں نے۔اور وقت گواہ ہے ۔دشمنی اور دہشت کے ایسے ماحول میں ۔ہم نے ایک دوسرے کو چنا۔۔۔اور جو کچھ ہم کرسکتے تھے۔۔۔ہم نے کیا۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،ایک انجانے خوف کی ریہرسل،۲۰۱۱ء۔ص۔۱۷۹)
شائستہ کے چلے جانے کے باوجود راٹھور ہمت نہیں ہارتا وہ اپنی محبت کو حاصل کرنے کے لئے جدو جہد کرتا رہتا ہے چنانچہ کچھ عرصہ بعد وہ ہوم منسٹری کے نام ایک خط لکھتا ہے کہ آپ پاکستان سے دہشت گرد مانگتے ہیں اور وہ بھی اسی طرح کی کچھ مانگیں رکھتے ہیں۔کیا ایک بار میری بات پر غور کرتے ہوئے آپ ان سے محبت کی اپیل نہیں کرسکتے؟شاید وہ بھی اس کے بدلے آپ سے محبت ہی مانگ لیں تو یوں محبت کا سلسلہ آگے بڑھنا شروع ہوجائے۔مصنف نے یہاں دو ملکوں کی نفرت کو محبت میں بدلنے کی کوشش کی ہے ان کا نقطہ نظر دونوں ممالک کے درمیان محبت کو پروان چڑھاکر نفرت کی دیواریں گرانا ہے ساتھ ہی نئی نسل کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ نفرتوں کے درمیان بھی محبت کے پھول کھلائے جاسکتے ہیں اور اس طرح یہ افسانہ نئی نسل کے لئے سبق آموز بن جاتا ہے۔
’’بارش،جنگل اور وہ‘‘بھی ایک رومانی کہانی ہے ۱۸سالہ ساکشی شباب کی دہلیز پر کھڑی ایک بوڑھے ہوتے مرد سے لپٹنا چاہتی ہے لیکن آدتیہ اسے خود سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے وہ اس کی آگ کی تپش کو محسوس کرتا ہے کسی کونے میں دبی ہوئی چاہت بار بار بل سے اپنا سر نکالتی ہوئی محسوس ہوتی ہے مگر وہ اس کی محبت کو سینے سے نہیں لگا سکتا کیونکہ وہ ایک مہذب آدمی ہے اسے اپنی عمر اور تہذیب کا لحاظ ہے چنانچہ وہ ساکشی کو تھپڑ لگا دیتا ہے لیکن آدتیہ کے سوا نکار کے بعد بھی ساکشی باز نہیں آتی وہ ہر وقت اس کے بارے میں سوچتی رہتی ہے وہ عمر کی حدوں کو نہیں مانتی وہ بس اس کے پیار کی بھوکی ہے اور اس میں سما کر خود کو مکمل کرلینا چاہتی ہے ۔
’’اس کا جسم جل رہا تھا ۔۔۔آگے بڑھ کر اس نے میرے ہونٹوں پر اپنی آگ رکھ دی۔اس کے جسم سے ’جھاس‘اٹھ رہی تھی۔مجھے مکمل کردو۔ادھورا نہیں رہنا مجھے۔بھگوان کے لئے اپنے اور میرے درمیان آج عمر کے چھلکے کو لے کر مت آنا۔۔۔زندگی دو مجھے۔۔مکمل کردو مجھے۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،ایک انجانے خوف کی ریہرسل،۲۰۱۱ء۔ص۔۴۹۔۲۴۸)
اس افسانے میں بھی ’’واپس لوٹتے ہوئے‘‘کی طرح ایک ایسی محبت کو پروان چڑھایا گیا ہے جس میں عمر کا بہت بڑا فرق ہے دراصل سائنس اور ٹکنالوجی کے اثرات نے لوگوں کو اس طرح مفلوج کردیا ہے کہ ان کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوتی جارہی ہے عہد رواں میں محبت کی مختلف صورتیں نمایاں ہورہی ہیں اور کس طرح معاشرہ ان کی لپیٹ میں آرہا ہے ان ہی نکات کو ذوقی نے اس افسانے میں پیش کرنے کی سعی کی ہے مذکورہ بالا افسانوں کا پلاٹ بننے میں مصنف نے ہر مقام پر یہی کوشش کی ہے کہ ان کا ربط و تسلسل قائم رہے لیکن طویل افسانے ہونے کی وجہ سے ان میں وہ ربط و تسلسل برقرار نہیں رہتا جو افسانے کے لئے لازمی سمجھا جاتا ہے۔
’’شاہی گلدان‘‘،’’وارن ہسٹنگز کی ٹوپی‘‘اور’’امام بخاری کی نیپکن‘‘میں سیاست رچانے والے چہروں کو سامنے لایا گیا ہے یہ کہانیاں مٹتی ہوئی تہذیب اور مسلمانوں کے تاریخی زوال کا نوحہ ہیں ان کہانیوں کے پڑھنے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ جب تک ہم تاریخ کی عظمت سے روشناس نہیں ہوں گے اور اپنے آپ کو نہیں پہچانیں گے تب تک ہمارا استعمال اور استحصال ہوتا رہے گا اور ہم ترقی کرنے کے بجائے اور کمزور اور پست ہوتے جائیں گے۔
اس مجموعہ کی بہترین کہانی’’ڈراکیولا‘‘ہے یہ کہانی قارئین کے ذہنوں میں سوال پیدا کرتی ہے کہ کیا ہم ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے اتنا اوپر آگئے ہیں کہ اخلاقیات اورmoral valuesکو بھول گئے۔ہندوستان میں لڑکیوں کی شادی کا مسئلہ ایک سنگین صورت اختیار کرچکا ہے غریب لڑکیوں کی بات کو چھوڑئیے ہزاروں تعلیم یافتہ اورامیر گھرانوں کی لڑکیاں شریک سفر کی آرزو لئے بیٹھی ہیں اور اسی آرزو میں ان کی عمر نکل جاتی ہے یہ ہمارے ملک کا ایک بڑا المیہ ہے اسی المیے کو مد نظر رکھتے ہوئے ذوقی نے ’’ڈراکیولا‘‘کی تخلیق کی۔کہانی کا مرکزی کردار صوفیہ مشتاق احمد ہے جو اپنی ۲۵سال کی عمر تک نہ جانے کتنے سوکھے ساون دیکھ چکی ہے وہ کئی بار امیدوں کے چراغ روشن کرتی ہے مگر ہر بار اسے Rejectکردیا جاتا ہے اس طرح وہ بے آس ہوکر خود کو گھر والوں پر بوجھ سمجھنے لگتی ہے اسے دلاسے دینے کی کوشش کی جاتی ہے مگر سب بے سود۔آخر ایک رشتہ آتا ہے مگر وہ بھی سمجھوتے والاجو صوفیہ کے گھر والوں کو پسند نہیں کیونکہ لڑکے کی اس عجیب شرط پر سب ناراض اور پریشان ہیں اس کی یہ غیر مہذب شرط انھیں منظور نہیں۔
’’بھاگتی دوڑتی دنیا میں الجبرے کے فارمولے کی طرح میں نے زندگی گذاری ہے۔دو پلس دو برابر چار۔سمجھ گئے نا۔میرا پروپوزل ہوسکتا ہے آپ کو پسند نہیں آئے۔نہیں پسند آئے تو آپ جاسکتے ہیں۔۔۔۔ایک دوسرے کو اچھی طرح سے سمجھنے کے لئے بہتر ہے کہ ہم ایک رات ساتھ ساتھ گذاریں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،ایک انجانے خوف کی ریہرسل،۲۰۱۱ء۔ص۔۱۰۸)
لیکن صوفیہ کے تیار ہوجانے پر سب حیران رہ جاتے ہیں دراصل وقت نے صوفیہ کو ایک نئی لڑکی میں تبدیل کردیا ہے وہ اب اور انتظار نہیں کرسکتی روز روز کی پھس ہوتی آتش بازی سے وہ تنگ آچکی ہے لہٰذا وہ اس آزمائش کے لئے تیار ہوجاتی ہے۔کیا یہی ہے ہمارا مہذب سماج؟یہ کیسا غیر مہذب طریقہ ہے کہ لڑکا شادی سے پہلے لڑکی کو آزمانا چاہتا ہے کیا ہوگیا ہے ہماری تہذیب کو۔مشرق میں تو کبھی ایسی شرطوں پر شادیاں نہیں ہوا کرتی تھیں یہ چلن کب سے شروع ہوگیا یہ ترقی ہے یا تنزلی۔کہانی میں اسی کشمکش کو پیش کیا گیا ہے اس افسانے کا کمال یہ ہے کہ اس کا ہر کردار مرکزی کردار معلوم ہوتا ہے اگر کسی ایک کردار کو نکال دیا جائے تو افسانہ اپنی خوبصورتی کھو دیتا ہے ایک بے جان کردار ’کیڑا‘کہانی کی اصل روح ہے کیڑا تمثیلی کردار ہے اور اپنی وضاحت میں ایک درد کا احساس دلاتا ہے صوفیہ اس کیڑے سے نہایت خوف زدہ ہے وہ اس کا رس چوسنا چاہتا ہے لالچ،ہوس،تکبر اور غرور کا یہ کیڑا کبھی کمزور نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کو موت آتی ہے۔اس افسانے میں مصنف کا نقطہ نظر جوان ہوتی بیٹی کی شادی سے متعلق ہے انسان اس معاملے میں بہت بے بس دکھائی دیتا ہے تمام تر خوبیاں ہونے کے باوجود بہت سی لڑکیاں ناامیدی کی زندگی جی رہی ہیں اور ان کے اپنے بھی اس کرب سے دوچار رہتے ہیں مصنف نے یہ بتانے کی بھی سعی کی ہے کہ ان لوگوں کی چالوں سے باز رہا جائے جو ظاہری طور پر امیری کا دعوٰی کرتے ہیں اور لڑکیوں کو کھلونہ سمجھتے ہیں۔
اقلیت کے مسائل پر بھی ذوقی گہری نظر رکھتے ہیں انھوں نے اس حوالے سے بہت سی کہانیاں تخلیق کی ہیں ’’پیرامڈ‘‘اور’’فیصلہ‘‘اسی نوعیت کے افسانے ہیں ۔’’فیصلہ‘‘میں ایک خاص طبقہ کے لوگوں کو اقلیت قرار دیا گیا ہے کوثر بی افسانے کا مرکزی کردار ہے مصنف نے اس افسانے کے آغاز اسی کردار کے ذہنی اور نفسیاتی انتشار کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا ہے کوثر بی جو خود کو ایک اقلیت پسند رکن کہتی ہے ایک انجانے خوف میں رات کو عجیب وغریب خواب دیکھتی ہے اس کا یہ خواب اسے اردو کے عظیم افسانہ نگار منٹو سے جا ملاتا ہے اور وہ منٹو کے ذریعہ اپنی قوم پر ہونے والی زیادتیوں کا مشاہدہ کرتی ہے اس کو ادب سے گہرا لگاؤ ہے اور یہی لگاؤ اسے منٹو کے قریب لے جاتا ہے ایک دن منٹو کوثر بی کو باہر سیر کرانے کے لئے اپنی گاڑی میں بٹھا کر لے جاتا ہے منٹو اسے اپنی کہانیاں سناتے ہوئے ڈرائیو کرتا ہے اور وہ اقلیتوں کی ایک غریب بستی میں پہنچ جاتے ہیں تبھی اچانک منٹو کی گاڑی کے آگیایک اقلیت کا بچہ اور ایک گائے کا بچھڑا آجاتا ہے اب منٹو کو ان دونوں میں سے کسی ایک کو بچانا ہے اور یہ فیصلہ اسے صرف ایک سیکنڈ میں ہی لینا ہوتا ہے چنانچہ وہ اپنی گاڑی سے بچے کو کچل دیتا ہے ۔یہ ایک ایسا بھیانک حادثہ ہوتا ہے جو کوثر بی کو ہلا کر رکھ دیتا ہے گھر پہنچنے پر وہ منٹو سے سوال کرتی ہے کہ تم نے اس بچے کو کیوں مار دیا ؟منٹو حیرت زدہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک اقلیت بچے کا حاد ثہ دو گھنٹے میں بھلا دیا جائے گا لیکن اس بستی میں گائے کے بچھڑے کا مرنا خطرناک ثابت ہوسکتا تھا یہاں مصنف نے یہ بتانے کی سعی کی ہے کہ اس ملک میں ایک اقلیت بچے کی زندگی گائے کے بچھڑے کے مقابلے میں کوئی معنی نہیں رکھتی ۔انھوں نے پلاٹ کو نہایت ہی عمدہ طریقے سے ترتیب دے کر ایک واقع کو دوسرے واقع میں پیوست کردیا ہے جس سے افسانے کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے کردارنگاری پر مصنف کو دسترس حاصل ہے وہ ایسے ہی کرداروں کا انتخاب کرتے ہیں جو کہانی کے عین مطابق ہوتے ہیں کوثر بی اور منٹو کے ذریعہ اقلیتی طبقہ کی عمدہ عکاسی کی گئی ہے۔
ذوقی نے اپنے افسانوں میںدہشت گردی کے موضوع کو بھی بڑے موثر انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ انھوں نے یہ حالات وواقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور سہے ہیں اس سلسلے میں’’اس بار نہیں‘‘،’’فدائین کی ماں‘‘اور’’ایک انجانے خوف کی ریہرسل‘‘قابل ذکر ہیں ان افسانوں کے ذریعہ ذوقی نے عصر حاضر میں ہورہی دہشت گردی سے متاثر عوام کے خوف وہراس کو سامنے لایا ہے انھوں نے یہ بھی باور کرایا ہے کہ دہشت گردوں کا تعلق کسی قوم یا مذہب سے نہیں ہوتا۔ان کا مقصد صرف فرقہ وارانہ فسادات کو جنم دینا ہوتا ہے وہ اپنا کام کرکے چلے جاتے ہیں اور بہت ساری مشکلات پیچھے چھوڑ جاتے ہیں لہٰذا ان کو کسی مذہب کے ساتھ جوڑ کر نہیں دیکھنا چاہئے۔
’’فدائین کی ماں ‘‘ایک عمدہ کہانی ہے اس میں ایک ماں کو کردار بنایا گیا ہے ایک ہندوستانی ماں جو اپنے ملک کی عظمت کو برقرار رکھتی ہے اس افسانے میں مصنف نے عورت کے ایک ایسے روپ کو پیش کیا ہے جس سے ایک ماں کی عظمت اور اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے فدائین الطاف کی ماں ایک بیوہ عورت ہے مگر محنت پسند اور ایماندار ہے وہ اپنے ہاتھوں سے محنت کرکے الطاف کو پالتی پوستی ہے مصیبتوں اور پریشانیوں کا سامنا کرتی ہے مگر کبھی گھبراتی نہیں ہے وہ اپنی محنت اور لگن سے زندگی کوسنوارتی ہے دراصل زندگی محنت اور لگن کی آگ میں تپ کر ہی خوبصورت بنتی ہے ماں محنت اور مزدوری کرکے اپنا گھر چلاتی ہے وہ اپنے وطن سے بے پناہ محبت کرتی ہے مگر اس کا بیٹا فدائین بن کر اس محبت کو تار تار کردیتا ہے چنانچہ الطاف ایک انکاؤنٹر میں شامل ہوکر اپنی جان گنوادیتا ہے اس کی غداری سے ماں کو گہرا صدمہ لگتا ہے اور وہ غصہ میں آکر کہتی ہے۔
’’تھوکنا چاہتی ہوں میں،الطاف پر۔تھوکنا چاہتی ہوں۔سب کے سامنے۔آپ کے ۔ٹی وی کے،ملک کے،سب کو گواہ بنا کر۔ارے جو میرا نہیں ہوا۔ملک کا نہیں ہوا۔وہ اللہ اور رسول کا کیا ہوگا۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،ایک انجانے خوف کی ریہرسل،۲۰۱۱ء۔ص۔۳۷۲)
کہانی کااختتام انتہائی متاثرکن ہے جسے پڑھ کر آنکھ ہی نہیں دل بھی رونے لگتا ہے بے حد جذباتی لمحوں میں ماں کو ایک کڑے امتحان سے گذرنا پڑتا ہے وہیں الطاف جیسے چند سر پھرے مسلمانوں نے پوری قوم کو بدنام کر رکھا ہے جس کا خمیازہ عام مسلمانوں کو بھگتنا پڑتا ہے اس افسانے میں مصنف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جو شخص دیش کا غدارہوتا ہے اسے دنیا ہی نہیں بلکہ ماں بھی حقارت کی نگاہوں سے دیکھتی ہے۔
’’ایک انجانے خوف کی ریہرسل‘‘میں مسلمانوں کی حالت زار بیان کی گئی ہے کہ کچھ نہ کرنے کے باوجود ان کے نام دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ جوڑ دیے جاتے ہیںجس سے نہ صرف ان کو بلکہ ان کے پورے خاندان کو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ ذہنی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں اتنا ہی نہیں اپنے ہی ملک کے گلی محلوں میں ان کو حقارت کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے اس افسانے میں ہندوستان کی جمہوریت کا بھی پردہ فاش کیا گیا ہے جہاں اقلیتوں کے حقوق پامال ہورہے ہیں اور ان کا استحصال کیا جارہا ہے عالمی دہشت گردی میں ہندوستانی مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے ۔یہ کیسی جمہوریت ہے جس نے اپنے وطن سے محبت کرنے والی اس قوم کے ماتھے پر دہشت گردی کا دھبہ لگا دیا ۔آج ہر مسلمان سوالوں کے گھیرے میں ہے معصوم بچے سہمے ہوئے ہیں اور نوجوان نسل سسٹم سے پریشان ہے کیونکہ اس جمہوری نظام نے مسلمانوں کی نوجوان نسل کو جینے کے مقصد سے ہٹا کر بیکاری کے دلدل میں دھکیل دیا ہے سچ ہے چند مسلمانوں نے پوری دنیا میں دہشت پھیلائی ہوئی ہے ان میں ایک نام اسامہ بن لادن کا بھی تھا جو امریکہ کی نظر میں سب سے بڑا دہشت گرد تھا لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اگر کسی دوسرے مسلمان کا نام بھی اسامہ ہے تو اسے صرف اس نام کی وجہ سے سزا دی جائے اور دہشت گرد کہا جائے ایسا کرنا تو سراسر نا انصافی اور بے وقوفی ہے یہی نہیں جب مسلمان دہشت گرد ی کے خلاف احتجاج کرتے ہیں اور اپنے اوپر لگے اس داغ کو دھونا چاہتے ہیں تو ان کی بلند ہوتی آواز کو گاڑی کے بریک کی طرح دبادیا جاتا ہے مسلمانوں کو توڑنے اور انھیں ملک سے نکالنے کے لئے بی جے پی اور شیو سینا کے بڑے لیڈر کھلے عام چلاتے پھرتے ہیں اور اس برائے نام جمہوریت میں مسلمانوں کے ٹوٹنے کا یہ عمل جاری ہے۔
’’تم ذرا ذرا سی باتوں سے ڈر جاتے ہو۔۔۔تم ڈر جاتے ہو کہ تم اپنے ہی ملک میں بہت سارے لوگوں یا آنکھوں کے درمیان اجنبی بنا دئیے گئے ہو۔تم اپنے پہناوے اپنے لباس سے ڈر رہے ہو۔۔۔تم ڈر رہے ہوکہ تمہارے چہرے پر گھنی ہوتی داڑھی کو کچھ گمنام آنکھیں بغور دیکھ رہی ہیں ۔تم ایک معمولی آتش بازی سے بھی ڈر جاتے ہو۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،ایک انجانے خوف کی ریہرسل،۲۰۱۱ء۔ص۔۲۲۷)
اس افسانے کا مرکزی کردار اوسامہ ہے جو نفسیاتی خوف سے اپنا گھر چھوڑ کر چلا جاتا ہے اس کردار کے ذریعہ مصنف نے مسلم معاشرے کے ماحول کی عکاسی بڑی خوبصورتی سے کی ہے اسامہ کے والد اور ساتھی کے کرداربھی اہم ہیں جو ملک کے اندرونی حالات وواقعات سے واقفیت کرواتے ہیں اس کے علاوہ ایس۔ایچ۔او کا کردار بھی ہے جس کے ذریعہ مصنف نے ملکی سیاست اور پولیس کی حکمرانی کو نشانہ بنایا ہے۔
’’بازار،طوائف اور کنڈوم‘‘میں ایک طوائف کو موضوع بنایا گیا ہے اس افسانے کے ذریعہ ایک بگڑے ہوئے سماج کی تصویر قارئین کے سامنے لائی گئی ہے مصنف کا نقطہ نظر سماج کے اندر پل رہی برائیوں کو واضح کرناہے جو بازاروں میں کھلے عام ہورہی ہیں ان برائیوں کا سامنے لانے کے لئے انھوں نے ایک طوائف کی زندگی کا سہارا لیا ہے اور زمانے کے ساتھ ساتھ بازاروں کے بدلتے مناظر کو بھی بڑی مہارت سے پیش کیا ہے ۔
’’پارکنسن ڈزیز‘‘موضوع کے اعتبار سے ایک عمدہ افسانہ ہے اس افسانے میں مصنف نے پارکنسن ڈزیز کو ایک علامت کے طور پر پیش کیا ہے اور اسے ایک مخصوص بیماری کا نام دے کر انسانی زندگی کی اہمیت سے روشناس کروانے کی سعی کی ہے ۔اس میں ایک ایسے انسان کی زندگی کو پیش کیا گیا ہے جو خود غرضی،لالچ،جھوٹ۔مکروفریب کا سہارا لے کر دولت اور شہرت حاصل کرنا چاہتا ہے آخر کارجب وہ ایک عورت کے ہاتھوں دھوکہ کھاتا ہے تو اس کے سامنے زندگی کی حقیقت کھل جاتی ہے اور اسے اپنے کئے ہوئے کارناموں پر پچھتاوا ہوتا ہے۔
فرقہ وارانہ فسادات پر ذوقی گہری نظر رکھتے ہیں وہ ان کو ہر زاویے سے پرکھتے اور جانچتے ہیں پھر انھیں اپنی کہانیوں میںمختلف انداز میں پیش کرتے ہیں یہ ذوقی کا پسندیدہ موضوع ہے کہیں کوئی فرقہ وارانہ حادثہ ہوا ہو اور ذوقی نے اس کو اپنی تحریر میں نہ لایا ہو ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔’’فساد کے بعد کی ایک لنچ پارٹی‘‘،’’انعمہ اور بیکری‘‘،’’گراؤنڈ زیرو‘‘اور ’’مودی نہیں ہوں میں‘‘اسی نوعیت کے افسانے ہیں۔
’’فساد کے بعد کی ایک لنچ پارٹی‘‘ایک دلچسپ افسانہ ہے اس کا ٹائٹل بہت ہی خوبصورت اور با لکل نیا ہے موضوع کے اعتبار سے بھی یہ ایک اہم کہانی ہے اس میں ایک کرب ہے کہ برائی کی دلدل میں پھنسے ہوئے لوگ باہر نکلنے کے لئے کیسے تڑپتے ہیں مگر وہ کبھی آزاد نہیں ہوپاتے۔اس طرح کے موضوع کو کہانی کا جامعہ پہنانا بڑی بات ہے ۔’ایکیوریم‘ایک ایسی دنیا کا استعارہ ہے جس میں آنے والا کوئی بھی انسان اس دنیا کے ٹھیکیداروں سے بچ نہیں سکتا ۔یہ مذہب کے نام پر فساد کرانے والوں کی دنیا ہے جس میں بھولے بھالے نوجوانوں کو بہکا کر ان سے دھنگے کروائے جاتے ہیں اس دنیا میں آنے کے راستے تو ہیں مگر واپس جانے کے تمام راستے بند ہیں۔نئی نسل کے نادان اور کم عقل نوجوان لالچ میں آکر یا مذہب کے نام پر چل رہے ایسے ہی کسی ایکیوریم میں چلے تو جاتے ہیں لیکن اس سے باہر نکلنا ان کے لئے بڑا مشکل ہوجاتا ہے جب انہیں احساس ہوتا ہے کہ ان کا استعمال کیا جارہا ہے اور وہ اس دلدل میں بری طرح پھنس چکے ہیں تو یہ اس سے باہر نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں پھڑپھڑاتے ہیں مگر ان کی تمام تدبیریں بے سود ثابت ہوتی ہیں کیونکہ ان کے ریموٹ نیتاؤں کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں اور ان کی حیثیت محض روبوٹ کی سی ہے جب ان نیتاؤں کو کہیں فساد کروانا ہوتا ہے تو وہ ریموٹ کا بٹن دبا تے ہیں اور یہ بلوائی اپنا کام انجام دیتے ہیں اس فساد اور دھنگے میں اگر کسی بلوائی کی جان چلی جائے تو اس پر رونے اور افسوس کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نیتا لوگ خود ہی فساد کرواتے ہیں اور پھر موقع پرست بن کر اپنی پرجوش تقریروں سے لوگوں کو ان بلوائیوں کے خلاف بھڑکاتے ہیں اور اپنا ووٹ بینک بڑھاتے ہیں فساد کے بعد بلوائیوں کو انعام و اکرام اور شراب وشباب سے تو نوازا جاتا ہے مگر آزاد نہیں کیا جاتا اور اس طرح مسلسل ان کا استحصال ہوتا رہتا ہے ۔
’’گھر جاؤں گا۔۔۔اس کے ہونٹوں پر طفلانہ مسکراہٹ تھی،آپ جانے دیں گے نا۔۔؟ہاں۔ہاں۔۔کیوں نہیں۔۔۔ہم کہاں روک رہیں ستار۔چلے جانا،مگر ابھی۔۔تم سمجھ رہے ہونا ۔۔۔کسی پاگل بچے کی طرح سنی ان سنی کرتے ہوئے ایک بار پھر وہی پرانا ٹیپ چل گیا تھا ۔۔۔مجھے گھر جانا ہے ،آپ جانے دیں گے نا۔۔۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،ایک انجانے خوف کی ریہرسل،۲۰۱۱ء۔ص۔۳۳۴)
یہ کوئی طویل افسانہ تو نہیں ہے مگر اس میں مصنف نے کئی ایسے واقعات پیش کئے ہیں جن کو ترتیب دینے میں وہ پوری طرح کامیاب نظر نہیں آتے۔کہانی کے بیان میں ایک جھول سا پیدا ہوجاتا ہے جس سے قاری کو بوریت محسوس ہونے لگتی ہے۔
’’انعمہ اور بیکری‘‘گجرات کے فرقہ وارانہ فسادات پر مبنی ہے یہ افسانہ اس دور کی عکاسی کرتا ہے جب گجرات میں مجبور اور بے بس عوام کو آگ کی جلتی ہوئی بھٹی میں زندہ جلایا جارہا تھا ذوقی نے اس ماحول کا منظرنامہ اس طرح پیش کیا ہے کہ یہ کہانی ایک المیہ بن جاتی ہے مصنف نے اس کہانی کے ذریعہ یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ بچے امن پسند ہوتے ہیں اور ظلم وتشدد سے سخت نفرت کرتے ہیں ۔
’’مودی نہیں ہوں میں ‘‘اس مجموعے کا آخری افسانہ ہے یہ مذہبی فرقہ وارانہ فسادات پر مبنی ہے اس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح ایک آدمی کی غلطی سے پورے مذہب کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے جس سے فساد اور قتل و غارت گری کی صورت حال پیدا ہوتی ہے اس افسانے میں صرف تین ہی کردار ہیں ۔مرتضٰی ایک مسلمان ہے وہ اپنے مذہب کا پابند تو ہے ہی ساتھ ہی دوسرے مذاہب کی بھی عزت کرتا ہے اس کا ایک پڑوسی ہے پنڈت جی۔یہ دونوں کردار فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے دلدادہ ہیں ۔گجرات میں جب مودی نے دھنگے اور فساد کروائے تو اس سے دو بڑی قوموں کے درمیان سخت کشیدگی پیدا ہونے لگی اس کا اثر معصوم بچوں پر بھی پڑا۔مرتضٰی کی ننھی سی بیٹی کے دل میں بھی ہندو مذہب سے نفرت پیدا ہونے لگتی ہے ۔ایک دن جب مرتضٰی مسجد سے نماز پڑھ کر گھر واپس آرہا ہوتا ہے تو راستے میں کچھ فرقہ پرست لوگ اسے گھیر لیتے ہیں وہ اس کی داڑھی کو کھینچتے ہیں اور مارپیٹ کرنے لگتے ہیں لیکن محلے کے کچھ لوگ بیچ بچاؤ کرتے ہوئے مرتضٰی کو چھڑا لیتے ہیں اس بے عزتی سے مرتضٰی کو کافی صدمہ پہنچتا ہے اس کا اثر اس کی ننھی سی بیٹی کی نفسیات پر بھی پڑتا ہے اور وہ بیمار ہوجاتی ہے پنڈت جی چونکہ اس بچی سے بہت پیار کرتے ہیں اس لئے وہ اس کی تیمارداری کے لئے جاتے ہیں اور اس کا دل بہلانے کے لئے اس سے بات کرنا چاہتے ہیں مگر وہ خاموش اور سہمی ہوئی ہے پنڈت جی کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہندو مسلمان کے فرق اور فرقہ پرستی کی آگ نے اس لڑکی کو مجھ سے دور کردیا چنانچہ وہ اس سے کہتے ہیں کہ چلو بیٹی اگلے جنم میں مسلمانوں کے گھر جنم لوں گا اور پنڈت جی کے اس مکالمے پر کہانی ختم ہوجاتی ہے۔
’’بولے گی نہیں۔۔۔نہیں بولے گی۔!نہیں بولے گی تو یہ شہر چھوڑ کر چلا جاؤںگا۔میرا جرم تو بتا دے بٹیا۔۔۔اس بار پنڈت جی رونے کو ہوگئے۔ایک دم سے چیخ پڑے۔سن ہندو ہوں ۔مودی نہیں ہوں میں۔‘‘(مشرف عالم ذوقی،ایک انجانے خوف کی ریہرسل،۲۰۱۱ء۔ص۔۳۷۸)
موضوع اور پلاٹ کے اعتبار سے یہ ایک دلچسپ افسانہ ہے واقعات تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں کہیں کوئی جھول یا جھکاؤ نہیں ہے زبان بھی سادہ اور آسان ہے قاری کو پڑھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی ۔کردار نگاری بھی اچھی ہے مرتضٰی،بٹیا اور پنڈت جی تینوں کردار اپنی چھاپ چھوڑنے میں کامیاب نظر آتے ہیں اور اپنے اپنے طبقے کی حقیقی عکاسی کرتے ہیں ۔
مزکورہ بالا چھ افسانوی مجموعوں کے علاوہ ذوقی کا ایک اور مجموعہ ’’نفرت کے دنوں میں ‘‘کے عنوان سے چھپ کر ۲۰۱۴ء میں منظر عام پر آیا ۔یہ ان کا اولین افسانوی انتخاب ہے انھوں نے آصف فرخی کی فرمائش پر اپنی ۵۰۰سے بھی زیادہ کہانیوں میں سے ۲۵کہانیوں کو یکجا کیا اور ایک مجموعے کی صورت میں پیش کردیا۔بقول ذوقی یہ ان کے لئے ایک مشکل کام تھا اور اس انتخاب کے لئے مسلسل سوچتے اور غور کرتے ہوئے انھیں دوسال کا وقت لگا۔۲۵کہانیوں کا یہ مجموعہ ذوقی کے نمائندہ افسانوں پر مشتمل ہے یہ تمام افسانے ان کے مختلف پیشتر افسانوی مجموعوں میں شامل ہیں ان میں سے بیشتر کہانیاں اکیسویں صدی کے سلگتے ہوئے مسائل ومعاملات کا احاطہ کرتی ہیں ۔جنس آج کا ایک پیچیدہ اور الجھا ہوا مسئلہ ہے ذوقی جنس پر گہری نظر رکھتے ہیں وہ اس کو ہر زاویے سے دیکھتے اور پرکھتے ہیں پھر قلمی شکل دے کر قارئین کو اس کے خطرناک نتائج سے با خبر کرتے ہیں مذکورہ مجموعے میں بھی مصنف نے جنس اور اس سے پیدا شدہ مسائل کو ابھارنے کی سعی کی ہے چنانچہ’’اصل واقعہ کی زیراکس کاپی‘‘،’’باپ اور بیٹا‘‘،’’فزکس کیمسٹری الجبرا‘‘،’’کاتیائین بہنیں‘‘،’’صدی کو الوداع کہتے ہوئے‘‘،’’بازار کی ایک عورت‘‘اور’’بوڑھے جاگ سکتے ہیں‘‘وغیرہ افسانوں میں جنسی بے راہ روی،جنس کی مختلف قسمیں،جنسی رشتوں کی کشمکش اور ان سے پیدا ہونے والے سنگین مسائل کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرائی گئی ہے مصنف نے ان افسانوں میں انسانی جنس کے باریک تاروں کو چھیڑ کر قارئین کو حیران کردیا ہے۔
عورت ذوقی کا محبوب ترین موضوع رہا ہے وہ عورت اور اس سے متعلق چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی انتہائی جاذب نظر بنا کر پیش کرتے ہیں انھوں نے عورت کو کبھی کمزور نہیں سمجھا اور نہ ہی وہ اسے مرد کی نالین پا سمجھتے ہیں بلکہ وہ عورت کو ایک مضبوط اور باہمت کردار کے روپ میں دیکھنے کے قائل ہیں ۔’’فریج میں عورت‘‘،’’بارش میں ایک لڑکی سے بات چیت‘‘،’’انکیوبیٹر‘‘،’’بھنور میں ایلس‘‘اور’’بیٹی‘‘عورت کے مسائل پر مبنی افسانے ہیں ان افسانوں کی عورتیں مختلف مسائل سے جھوجھتی ہیں اور زندگی کی کڑواہٹ کا سامنا کرتے ہوئے نہ صرف اپنے اندر ہمت و حوصلہ پیدا کرتی ہیں بلکہ اپنے ارد گرد کے معاشرے کو بھی اپنی خوشبو سے معطر کردیتی ہیں جہاں ذوقی نے عورت کے مسائل سے پردہ اٹھایا ہے وہیں معاشرے میں مرد کی حیثیت اور اہمیت سے بھی روشناس کرایا ہے افسانہ’’مرد‘‘میں انھوں نے ایک عورت کی زبانی اپنے شوہر کی کٹھورتا اور ظلم کے پس پردہ اس کے نفیس جذبات کو نمایاں کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ مرد چاہے کتنا ہی سخت،ظالم اور مارپیٹ کرنے والا ہو وہ بھی اپنے اندر ایک نرم دل رکھتا ہے فطری طور پر وہ بھی ہمدرد اور محسن ہوتا ہے اور اس کا یہ روپ کبھی نہ کبھی ظاہر ہو ہی جاتا ہے ۔سیاست اور تاریخ سے بھی ذوقی گہری واقفیت رکھتے ہیں ان کا سیاسی اور تاریخی شعور کمال کا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے اکثر افسانے سیاسی اور تاریخی بصیرت کا چربہ معلوم ہوتے ہیں ’’لینڈ اسکیپ کے گھوڑے‘‘،’’وارین ہسٹنگز کی ٹوپی‘‘،’’امام بخاری کی نیپکن‘‘،’’شاہی گلدان‘‘اور ’’لیبارٹری‘‘میں انھوں نے مسلمانوں کے سیاسی،سماجی اور تاریخی مسائل اور مدعوں کو چھیڑا ہے اور ہندوستانی سیاست پر بھرپور طنز کیا ہے ساتھ ہی مسلمانوں کی کمزوریوں کو بھی عیاں کرنے کی کوشش کی ہے ۔
ذوقی ہندوستان اور پاکستان کو ایک ملک کی نظر سے دیکھتے ہیں وہ ان میں کسی قسم کی تکرار ،درار،کشمکش اور حد بندی کے خلاف ہیں وہ اپنی تحریروں کے ذریعہ ان دونوں ملکوں کے مابین دوستی اور بھائی چارے کا رشتہ قائم کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ دونوں ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکیں۔’’غلام بخش‘‘،’’واپس لوٹتے ہوئے‘‘اور ’’نفرت کے دنوں میں ‘‘ایسے ہی افسانے ہیں جن میں مصنف نے اپنی تخلیقی ذہانت کے سہارے دونوں ملکوں کو محبت کا پیغام دیا ہے اور تمام قسم کے جھگڑوں کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ برصغیر میں ایک مثالی حکومت کو قائم کیا جاسکے جس سے خطے میں امن وترقی کی راہ ہموار ہوسکے۔
اس مجموعے میں شامل تمام افسانے نہ صرف موضوعی اعتبار سے بلکہ فنی اعتبار سے بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ان افسانوں میں فن کے تمام پہلوؤں کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور مصنف نے نہایت ہی فنی چابکدستی سے کام لیا ہے ذوقی نے کافی سوچ سمجھ کر ان افسانوں کاانتخاب کیا ہے یہ ان کے بڑے مشہور و مقبول افسانے ہیں جو متعدد اخبارات و رسائل میں شائع ہوچکے ہیں اور قارئین سے داد تحسین حاصل کرچکے ہیں اتنا ہی نہیں ان افسانوں پر بے شمار مضامین بھی سامنے آچکے ہیں جو ان کی مقبولیت کا بین ثبوت ہیں۔ذوقی آج بھی اپنے افسانوی سفر پر رواں دواں ہیں اور مسلسل لکھ رہے ہیں اس طرح ابھی ان کے افسانوں کے اور مجموعے منظر عام پر آنے کی کا فی توقع ہے۔