’’معتسیم۔۔۔۔۔۔معتسیم۔۔۔۔۔‘‘ پرشفقت، نرم آواز پر اس نے دھیرے سے آنکھیں کھول پلکیں جھپکائی تھیں۔
آہستہ آہستہ ذہن کے پردوں پر آج کا واقع در آیا تھا۔
آنکھوں سے اشک رواں ہوئے تھے۔
’’مم۔۔۔۔ماما!!‘‘ وہ سسکا
’’مم۔۔۔۔۔۔۔ میں، میں نے کچھ نہیں کیا!!‘‘ وہ انہیں یقین دلا رہا تھا
’’میں جانتی ہوں میری جان!‘‘ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی وہ نم آنکھوں سے بولی۔
’’با۔۔۔بابا!‘‘ دروازے میں کھڑے جاوید آفندی کو دیکھ اس کی آنکھوں سے پھر سے آنسوؤں نکل آئے تھے۔
’’بس میرے شیر روتے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ تم بچے تھوڑی نہ ہو!‘‘ وہ اس کے پاس بیٹھتے مسکرائے تھے۔
’’مم۔۔۔۔میرا۔۔۔۔۔یی۔۔۔۔۔یقین۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ششش!!! مجھے یقین ہے کہ میرا بیٹا ایسا نہیں ہے۔‘‘ اس کے لبوں پر انگلی رکھے انہوں نے اسے خاموش کروایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’دیکھیے سر جو بھی ہے مگر ہم آپ کے پیشنٹ کو یہاں نہیں رکھ سکتے!!۔۔۔۔۔۔۔ میڈیا پر یہ بات آگ کی طرح پھیل گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔ آپ کا بیٹا ہے آپ کو تو وہ صحیح لگے گا مگر باقی سب کو نہیں۔۔۔۔۔۔ چار چار لڑکیوں کو ہراساں کیا ہے اس نے۔۔۔۔۔۔۔ جانتے بھی ہے کتنا بڑا جرم ہے یہ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ تو خود پولیس میں ہے آپ کو معلوم ہوگا۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ آپ کے بیٹے کی وجہ سے ہمارے ہسپتال کا نام خراب ہو اسے یہاں سے لے جائے!‘‘ ڈاکٹر کی بات باہر ویل چئیر پر بیٹھے معتسیم اور اس کی چئیر کو تھامے کھڑی عظمیٰ بیگم نے برابر سنی تھی۔
تکلیف سے اس نے آنکھیں موند لی تھی۔ عظمیٰ بیگم نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھے اسے تسلی دی تھی۔
جس پر وہ زبردستی کا مسکرایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’مم۔۔۔ماما۔۔۔‘‘ تکلیف برداشت کرتے اس نے عظمیٰ بیگم کو پکارا تھا جو اس کی سیٹ کے پاس اس کی ویل چئیر فولڈ کرکے رکھ رہی تھی۔
’’جی میری جان۔‘‘ پیار سے انہوں نے سوال کیا۔
’’مم۔۔۔۔۔ماورا!!‘‘ ایک امید سے اس نے پوچھا تھا اس کے بارے میں۔
عظمیٰ آفندی آنکھیں چرا گئی تھی۔
کئی آنسو اندر اتارے اس نے آنکھیں موندے سیٹ کے ساتھ سر ٹکا لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’بس کرجاؤ میری بچی کتنا روؤں گی؟‘‘ تائی جان نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے سوال کیا تھا۔
جب سے کمال صاحب نے ٹی۔وی پر چلتی نیوز دیکھی تھی، انہوں نے سر حمدانی کو کال کرکے ان کی خوب تذلیل کی تھی۔
وہ تو اپنے فیصلے پر پچھتا رہے تھے۔ مگر فیصلہ کرچکے تھے کہ وہ ماورا کو اس حیوان سے بچالے گے۔۔۔۔۔۔ جس خاموشی سے یہ رشتہ جڑا تھا اتنی ہی خاموشی سے ٹوڑنے کا بھی ارادہ تھا ان کا۔
ماورا کو اپنی اور زرتاشہ کی آخری ملاقات یاد آئی تھی۔
’’زرتاشہ۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔تم یقین سے کہہ سکتی ہو کہ۔یہ۔۔۔۔۔یہ معتسیم نے کیا؟‘‘ اس کی آنکھوں میں دیکھ زرتاشہ ایک پل کو نظریں چرا گیا تھا۔
’’تم کیا کہنا چاہتی ہو ماورا کہ میں جھوٹ بول رہی ہوں؟‘‘ اگلے ہی لمحے ضمیر کی آواز کودباتی وہ غصے سے بولی تھی۔
’’نن۔۔۔۔نہیں ایسا نہیں۔۔۔۔۔مم۔۔۔میرا۔۔۔۔۔مطلب۔۔۔۔۔۔۔ وہ، وہ ایسا نہیں۔۔۔۔۔ نہیں لگتا!‘‘ وہ دھیمی آواز میں بولی تھی۔
’’اوہ تو اب تمہیں مجھ سے زیادہ اس پر یقین ہے؟ اور ہوگا کیوں نہیں ’’شوہر‘‘ جو وہ ہے تمہارا!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری باتوں پر کیوں یقین کرو گی تم؟ ہے نا؟‘‘ زرتاشہ چلائی تھی جس پر ماورا ڈر گئی تھی۔
’’اگر۔۔۔۔اگر ایسا تھا تو پہلے، پہلے کیوں نہیں بتایا۔۔۔ میرے نکاح کا سن کر بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’تمہارے نکاح تک سب کچھ ٹھیک تھا ماورا۔۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے بھی اس نے میسجز کیے تھے مجھے۔۔۔۔۔۔۔مگر میں نے تمہارے حوالے سے کوئی نوٹس نہیں لیا۔۔۔۔۔۔۔ مگر اس کے بعد!!۔۔۔۔۔۔ اس نے، اس نے میسجز کرنا شروع کردیے۔۔۔۔۔ عجیب۔۔۔۔۔۔عجیب وغریب۔۔۔۔۔ میں ڈر گئی کسی کو بتایا نہیں۔۔۔۔۔۔۔ ایک دن صوفیہ میرا موبائل استعمال کررہی تھی جو اس نے پڑھ لیے۔۔۔۔۔۔۔ اور تب معلوم ہوا کہ میں، میں اکیلی ان سب کا شکار نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔ بہت دفع کوشش کی تمہیں بتانے کی۔۔۔۔۔ مگر، مگر تم اس وقت جن حالات سے گزر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ مگر اب بات بڑھ گئی تھی۔۔۔۔۔۔ وہ میسجز میم عظمیٰ (صوفیہ کی ماما) نے پڑھ لیے تھے۔۔۔۔۔۔۔ اور باقی سب تمہارے سامنے ہے۔۔۔۔۔۔۔ میں بہت ڈر گئی تھی، تمہارے لیے سب سے زیادہ!‘‘ بولتے ہی وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔۔۔۔۔ اس کی حالت کے پیش نظر ماورا نے نم آنکھوں سے سختی سےے لب کچلے تھے۔۔۔۔۔
دل و دماغ میں ایک عجیب سی جنگ چھڑ گئی تھی۔
کس پر یقین کرتی اپنی دوست پر یا اس رشتے پر جو سب رشتوں میں مضبوط ترین رشتہ تھا۔
’’وہ۔۔۔۔۔وہ۔۔۔وہ ایسا نہیں لگتا تھا تائی اماں!‘‘ وہ سسکی تھی۔
انہوں نے افسوس سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا۔
’’اچھا ایک بات بتاؤ ماورا کیا تمہیں بھی لگتا ہے کہ معتسیم ایسا کرسکتا ہے؟‘‘ وہ اس سے بس دس منٹ کے لیے ملی تھی مگر ماں تھی وہ۔۔۔۔ انہیں یقین نہیں تھا کہ وہ ایسا بھی کچھ کرسکتا ہے۔
’’زرتاشہ جھوٹ کیوں بولے گی وہ میری بہت اچھی اور پرانی دوست ہے۔۔۔۔۔۔ کالج سے دوست ہیں ہم!‘‘ سوال کے بدلے میں ملنے والے جواب پر وہ گہری سانس بھر کر رہ گئی تھی۔
یہ ان کے سوال کا جواب نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس واقع کو ایک تین گزر چکا تھا۔۔۔۔۔ اسٹک کی مدد سے وہ قریبی پارک میں ایک الگ تھلگ بینچ پر آ بیٹھا تھا اندر کی گھٹن کم کرنے کے لیے۔
اس ایک ہفتے میں اس نے کئی بار ماورا سے کانٹیکٹ کرنے کی کوشش کی تھی مگر آج آنے والی کال نے اسے ہلا کر رکھ دیا تھا۔
اس کے تایا جان نے طلاق کا مطالبہ کیا تھا جو معتسیم کی جانب سے رد کردیا گیا تھا اور اب وہ خلع کا نوٹس بھجوانے والے تھے۔۔۔۔۔ موبائل فون پر اس کی گرفت سخت ہوگئی تھی۔
حمزہ کا نمبربھی بند جارہا تھا مگر اسے کال کرنے کا کیا فائدہ؟ جب حسان جیسا دوست پیٹھ میں چھرا کھونپ سکتا ہے تو حمزہ پر کیسے بھروسہ کرلیتا۔
ایک آخری بار اس نے واٹس ایپ اون کرکے ایک وائس ناٹ ماورا کو بھیجا تھا۔
’’ماورا۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔۔ ڈونٹ لیوو می۔۔۔۔۔۔ میں نے، میں نے کچھ نہیں کیا ماورا ٹرسٹ می۔۔۔۔۔ پلیز فار وان ٹائم لسن ٹو می۔‘‘ اسے معلوم ہی نہ ہوا کہ کب اس کی آنکھیں لال ہوگئیں تھی۔
’’اوہ میری بال!‘‘ ایک بال اس کی جانب اڑتی ہوئی آئی تھی۔ ساتھ ہی اس کے محلے کی ایک نو سال کی بچی اس کی جانب بھاگ کر آئی مگر پھر رک گئی تھی۔
’’ارے گڑیا رک کیوں گئی۔۔۔۔۔ آؤ بال لے لو۔۔۔۔‘‘ معتسیم اسے دیکھ کر مسکرایا تھا۔
’’مگر ماما نے منع کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔‘‘ اس نے جواب دیا
’’ارے مگر مجھے تو آپ کو آپ کی فیورٹ چاکلیٹ دینی ہے یہ دیکھو!‘‘ ساتھ ہی اس نے ایک ڈیری ملک نکال کر اسے دکھائی تھی۔
’’نو میں نہیں لوں گی۔۔۔۔۔۔ آپ بیڈ انکل ہو۔۔۔۔۔۔۔گندے۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کا ٹچ بیڈ ہے۔۔۔۔۔ گندے ہو آپ۔۔۔۔‘‘ اس کی باتیں معتسیم کا دل چیر رہی تھی۔
’’گڑیا۔۔۔۔۔۔۔ گڑیا!‘‘ تب ہی ایک عورت بھاگتی ہوئی اس کی جانب آئی اور فورا اس کو اپنے پیچھے چھپایا۔
ناگوار نگاہوں سے معتسیم کو دیکھتے نظر اس کے ہاتھ میں موجود چاکلیٹ پر پڑی تھی۔۔۔۔۔۔۔ ان کی آنکھیں ابل پڑی اور ساتھ ہی اس میں حقارت اور نفرت در آئی۔
’’کم از کم بچی کو تو چھوڑ دو۔۔۔۔۔۔ چاکلیٹ دے کر میری بچی کی معصومیت کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہو؟۔۔۔۔۔۔ کس قدر گھٹیا ہو تم؟ کیسے بےضمیر شخص ہو تم۔۔۔۔۔۔۔ حیوان کہی کا!‘‘ گڑیا کا ہاتھ تھامتی وہ وہاں سے چلی گئی تھی۔
’’ماما حیوان کیا ہوتا ہے؟‘‘ ننھی گڑیا کی آواز کانوں سے ٹکڑائی۔۔۔۔ چاکلیٹ ہاتھ سے چھوٹ پر زمین پر گرگئی تھی۔۔۔۔۔ وہ سختی سے آنکھیں بھینچ گیا تھا۔
شام کے سائے چار سو پھیل گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے ایک آخری بار واٹس ایپ کو دیکھا جہاں وائس میسج سین ہوگیا تھا، سن بھی لیا گیا تھا مگر کوئی جواب نہ آیا تھا۔۔۔۔۔
ایک تلخ مسکراہٹ اس کے لبوں پر در آئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسٹک کے سہارے چلتا وہ گھر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔۔۔۔ لوگوں کی حقارت بھری نگاہیں اس کے جسم کے آر پار ہوتی اسے محسوس ہورہی تھی۔
چند دن پہلے جب وہ ہسپتال سے واپس آیا تھا تو وہاں سب موجود پہلے سے ہی تماشہ دیکھنے کو موجود تھے جو گھر کے باہر موجود میڈیا تھوڑی دیر میں لگانے والی تھی۔
گہری سانس کھینچتے اس نے گھر کا دروازہ کھولا تھا جب اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں تھی۔
’’ماما پاپا!‘‘ اسکے لب ہلے، نم آنکھوں سے وہ اپنے سامنے جھولتی اپنے ماں باپ کی لاشوں کو دیکھ رہا تھا۔
بس ایک حادثہ، ایک غلطی نے اس سے اسکا سب کچھ چھین لیا، اسکا نام، اسکی پہچان، اسکی عزت، اسکا کیرئیر اور اسکے ماں باپ، سب کچھ۔
وہ گھٹنوں کے بل زمین پر گرا، بالوں کو دونوں ہاتھوں سے دبوچے وہ اونچی اونچی آواز میں رونے لگا، چلانے لگا، اب درد تو وہ کہی دور بھول بھلا گیا تھا۔
یہ کیسا ستم کیا تھا زندگی نے اس پر، بےقصور ہوتے ہوئے بھی وہ قصور وار ٹھہرایا گیا تھا۔
’’اللہ!‘‘ اسکی دل دہلا دینے والی چیخ نے فرش تا عرش ہر شے کو ہلا کر رکھ دیا تھا، مگر ان زمینی خداؤں کہ تو کانوں سے جوں تک نہ رینگی۔
باہر موجود تمام لوگوں نے نفرت اور حقارت سے اسے دیکھا تھا۔
’’تم اسی قابل ہو!‘‘ ان کی آنکھیں بول رہی تھی جبکہ لب جامد تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو ماہ بعد:
’’اس پر سائن کردو!‘‘ اس کے سامنے پیپر پھینکتے وہ بےلچک لہجے میں بولے تھے۔
’’کیا ہے یہ؟‘‘ کھڑکی کے پار ڈھلتے سورج کو دیکھ اس نے سوال کیا تھا۔
’’تحفہ ہے تمہارے لیے خلع نامہ کا!!۔۔۔۔۔ اس نے سائن کرکے بھیجے ہیں۔۔۔۔۔ اب تم بھی کردو۔۔۔۔۔۔۔ اور آزاد کردو اسے بھی اور خود کو بھی اس دوہری تکلیف سے۔‘‘ ان کے الفاظ معتسیم کے کانوں میں پگا ہوا سیسہ انڈیل رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔ اسے لگا اب وہ سانس نہ لے سکے گا۔
آنکھیں بند کیے خود پر ضبط کے کڑے پہرے بٹھائے اس نے بنا اس کاغذ پر نگاہ ڈالے سائن کردیے تھے۔
ارحام شاہ کاغذ کا وہ ٹکڑا اٹھائے وہاں سے جاچکے تھے۔
تو یہ تھا اس کا اختتام، اس کی محبت کا اختتام۔
اس کی آنکھیں بھیگ گئیں تھیں۔
’’ماورا!!‘‘ ہچکی کی صورت یہ نام اس کے لبوں سے ادا ہوا تھا۔
دو ماہ پہلے ہی جاوید آفندی اور عظمیٰ آفندی کو ان کے گھر میں قتل کرکے لاشوں کو پنکھے سے لٹکا دیا گیا تھا۔
اس کی چیخ و پکار سن کر کچھ محلےدار گھر میں دوڑ آئے تھے جہاں ان کی آنکھیں بھی شاک سے پھیل گئیں تھی مگر معتسیم ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگیا تھا۔
آنکھیں کھلنے پر اس نے اپنے آپ ایک الگ ہی کمرے، ایک الگ ہی گھر میں پایا تھا۔ وہ ایک ہفتے سے ہوش و حواس سے بیگانہ رہا تھا اور یہاں بھی سب سے پہلے ملاقات اس کی حنان شاہ سے ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ حنان شاہ مافیا ورلڈ میں ایک کھو چکا نام تھا۔ جس کی دہشت آج بھی چار سو تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوش میں آتے ہی سب سے پہلا سوال اسک اپنے ماں باپ کا تھا مگر انہیں دفنا دیا گیا تھا۔ اس کے ماں باپ کو گھر میں گھس کر بےدردی سے قتل کرکے لاشوں کو پنکھے سے لٹکا دیا گیا تھا۔ اس کی زندگی میں موجود سب سے مخلص رشتے اس سے چھین لیے گئے تھے۔
حنان شاہ جو نا صرف جاوید آفندی کے بچپن کے دوست بلکہ مافیا ورلڈ سے بھی تعلق رکھتے تھے اسے اپنے ساتھ لے آئے تھے۔
دو ماہ سے اس کمرے میں موجود وہ سسک رہا تھا۔۔۔۔۔نجانے کس گناہ کی اتنی بڑی سزا ملی تھی اسے؟
اور آج آخری رشتہ بھی اس سے چھینا جاچکا تھا۔۔۔۔ اس کی ماورا!! اس کی محبت اب اس کی نہ رہی تھی۔
’’کب تک ماضی میں رہو گے؟ ماضی بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔۔۔۔ اس سے نکل کر حال اور مستقبل کا سوچو!!۔۔۔۔۔۔ ان لوگوں سے بدلا لینے کے بارے میں سوچو جنہوں نے تم سے تمہارے ماں باپ کو چھین لیاا۔۔۔۔۔۔۔ کیا انہیں یونہی جانے دو گے؟۔۔۔۔۔۔‘‘ حنان شاہ کی بات پر اس نے سرخ آنکھیں اٹھائے انہیں دیکھا تھا جو گہرا سانس بھرتے اس کا کندھا تھپتھپائے کمرے سے جاچکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اسے ڈھونڈے بھائی۔۔۔۔۔۔ مجھے وہ چاہیے ہر قیمت پر۔۔۔۔۔۔۔ اب،۔ اب تو وہ ماورا بھی بیچ میں نہیں آئے گی۔۔۔۔۔۔۔ اسے ڈھونڈے بھائی ورنہ میں خود کو ختم کرلوں گی!‘‘ وہ ایک بار پھر سے پورے گھر کو سر پر اٹھا چکی تھی۔
ڈھائی ماہ سے وہ غائب تھا یوں جیسے ہوں ہی نا!
’’اوکے۔۔۔۔۔ اوکے میں پتہ کرتا ہوں۔۔۔۔ بس تم خود کو تکلیف نہ دو میری جان!‘‘ حسان نے اس کے آگے ہتھیار ٹال دیے تھے۔۔۔۔۔ اب اسے ہر قیمت، ہر صورت پر معتسیم آفندی کو ڈھونڈنا تھا۔
دو ماہ پہلے جب اسے معتسیم کے ماں باپ کی خودکشی کی علم ہوا تو وہ شاک ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ شاک تو حمزہ بھی ہوگیا تھا۔۔۔۔۔ ان دونوں نے ہر جگہ معتسیم کو ڈھونڈا تھا مگر اسے نہیں ملنا تھا اور نہ وہ ملا۔
دنیا کی نظر میں معتسیم جیسے بیٹے کی حرکت کی وجہ سے اس کے ماں باپ نے خودکشی کرلی تھی، ان کے قتل سے تمام لوگ انجان تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ائیرپورٹ پر کھڑے اس نے اپنے ہاتھ میں موجود ٹکٹ کو غور سے دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔ وہ پاکستان چھوڑ کر جارہا تھا اٹلی۔۔۔۔۔۔ شائد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔۔۔۔۔۔۔
’’معتسیم!‘‘ یہ آواز!! معتسیم فورا پلٹا تھا
سامنے ہی وہ لبوں پر مسکراہٹ سجائے اسے دیکھ رہی تھی۔
’’تو آخر کار میں نے تمہیں ڈھونڈ ہی لیا!‘‘ وہ مسکراتی اس کی جانب بڑھی تھی۔
’’میں نے تمہیں کتنا تلاش کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنا ڈھونڈا۔۔۔۔۔۔ تم کہاں چلے گئے تھے معتسیم؟‘‘ آگے بڑھتی وہ اس کا ہاتھ تھام چکی تھی
معتسیم نے ایک جھٹکے سے اس سے اپنا بازو چھڑوایا اور غصے سے اسے گھورا تھا
’’اوہ تم۔۔۔۔۔۔۔ تم تو ناراض ہو نا۔۔۔۔۔۔ کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔ تم ایسا کرو میرے ساتھ چلو واپس۔۔۔۔۔۔ میں، میں سب کو بتادوں گی کہ جو بھی ہوا وہ ایک غلط فہمی تھی۔۔۔۔۔۔۔ کسی نے تمہاری فیک آئی۔ڈی بنا کر مجھے اور باقی سب کو میسجز کیے تھے۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر سب کچھ۔۔۔۔۔۔ سب کچھ بالکل ٹھیک ہوجائے گا معتسیم۔۔۔۔۔۔ اور اس کے بعد صرف میں اور تم ہوگے میری جان!‘‘ اس کے گال پر ہاتھ رکھتی وہ مسکرائی تھی جسے معتسیم نے زور سے جھٹکا تھا۔
’’میری بات مان لو معتسیم۔۔۔۔۔۔ اپنالو مجھے نہیں تو میں تمہاری سانسیں بھی تم پر حرام کردوں گی۔‘‘ ایک پل کا لگا تھا اسے بدلنے میں۔
“میں نے تم جیسی گھٹیا لڑکی اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھی صوفیہ رحمان۔۔۔۔۔۔۔اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی تم میں اتنی ہمت ہے کہ تم میرا سامنے آسکو؟اپنا یہ گھٹیا چہرہ میرے سامنے لاسکو۔۔۔۔ تف ہے تم پر!!!! ایک بات یاد رکھنا تم سونے کی بھی بن کر آجاؤ نا تو معتسیم آفندی تم سے نفرت ہی کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔میں نفرت کرتا ہوں تم سے۔۔۔ شدید نفرت” ایک ایک لفظ چبا کر بولتا وہ مڑ گیا تھا
اس کی بات سن کر صوفیہ کی آنکھوں میں مرچی سی چبھنے لگ گئی تھی۔
“مجھ سے نفرت کرتے ہو؟؟۔۔۔۔ہممم ٹھیک ہے!!!! تو محبت کس سے کرتے ہو؟ اس ماورا سے جس کی بدولت تم آج اس حال میں پہنچے ہو؟ جو ہے تمہاری بربادی کی اصل وجہ؟” وہ اونچی آوازبمیں چلائی تھی۔۔۔۔معتسیم کے بڑھتے قدم ٹھٹھک کر رکے تھے۔
صوفیہ مسکراتی اس کے سامنے آکھڑی ہوئی تھی۔
“اس نے تمہیں کہا تھا کہ وہ تمہیں برباد کردے گی۔۔۔ تم اسے پاکر بھی نہ پاسکو گے۔۔۔۔ وہ نفرت کرتی ہے تم سے اور بدلہ ضرور لے گی!!!!۔۔۔۔۔دیکھو بدلا لے لیا اس نے۔۔۔۔کردیا برباد تمہیں۔۔۔۔اس کی نفرت تمہاری خوشیاں, تمہارا سب کچھ کھا گئی۔۔۔۔۔۔تم برباد ہوگئے معتسیم برباد!!!!” ہونٹوں پر جلا دینے والی مسکراہٹ لیے وہ مسلسل اس کے دل پر تیز خنجر سے وار کیے جارہی تھی۔
“گیٹ لاسٹ!!!” وہ دھیمے لہجے میں غرای
“واٹ؟” صوفیہ چونکی
“اس سے پہلے کہ میں تمہاری جان لے لوں اور تمہارا حشر بگاڑ دوں یہاں سے دفع ہوجاؤ۔۔” اسے بازو سے پکڑتے پیچھے کو دھکیلے وہ سنان شاہ کی جانب بڑھ گیا تھا جو بےتاثر چہرہ لیے اس کے انتظار میں تھا
“اسے چھوڑ دو معتسیم۔۔۔۔۔اور اپنا لو مجھے وہ تمہیں کچھ نہیں دے سکتی سوائے دکھ کے” صوفیہ پوری آواز میں چلائی تھی۔
“میں اسے چھوڑ چکا ہوں!!!!” وہ چلانا چاہتا تھا مگر لب ساکت تھے۔
لب بھینچے وہ سرخ آنکھوں پر چشمہ لگائے اس کی نظروں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اوجھل ہوگیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچن سے آتی کھٹ پٹ کی آواز پر اس کی آنکھیں فورا کھلی تھی۔۔۔۔۔ آنکھیں مسلتے اس نے وال کلاک کی جانب دیکھا تھا جہاں صبح کے گیارہ بج رہے تھے۔۔۔۔۔۔
وہ رات کو ایزی چئیر پر جھولتا وہی سو گیا تھا۔۔۔۔۔
آنکھیں ملتا وہ کمرے سے باہر نکل کر کچن پار کرکے ٹی۔وی لاؤنج میں آیا تھا جہاں سامنے ہی وہ اپنے بےپرواہ حلیے میں جاہلوں اور ندیدوں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اس کا پورا چہرہ کھانے سے گندہ ہونا مزید خوفناک ہوگیا تھا جب اچانک اس نے نطریں اٹھائے معتسیم کو دیکھا اور چونک اٹھی تھی۔
………
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...