ڈیپ ریڈ کلر کا لہنگا پہنے وہ آئینے کے سامنے اپنا عکس دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔ خوبصورتی سے کیے میک اپ نے اسکو حسین بنادیا تھا
آج اسکی زندگی کا ایک اہم دن تھا۔۔۔۔۔ اسے شدت سے اپنے ماں باپ کی یاد آرہی تھی۔۔۔۔۔ کتنا شوق تھا اسکی ماما کو اسے اپنے ہاتھوں سے سجانے کا، اسکو پاپا کو اسے اپنے ہاتھوں سے رخصت کرنے کا۔۔۔۔۔ ان کے بارے میں سوچتے ہی انا کی آنکھیں بھیگ گئیں
نرمی سے آنکھوں سے آنسوؤں کو صاف کرتے اس نے دروازے کی جانب نظریں اٹھائی جہاں زرقہ کھڑی تھی۔۔۔۔۔
’’اندر آؤں‘‘ انا کا لہجہ نرم تھا
اسکا لہجہ سن کر زرقہ سے قابو نا رہا اور وہ انا کے پاس آتے اسکے گلے سے لگ کر رو دی
’’آئی ایم سوری انا۔۔۔۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ ایسا کچھ بھی ہوں۔۔۔۔۔ مجھے، مجھے نہیں معلوم تھا کہ بھائی کی دماغ میں کیا چل رہا ہے۔۔۔۔۔ انہوں نے مجھ سے تمہارا نمبر صرف اسی لیے مانگا تھا کہ وہ تم سے ایکسکیوز کرنا چاہتے تھے۔۔۔۔۔ انہوں نے، انہوں نے تمہارا ٹائم ٹیبل اسی لیے پوچھا تھا کیونکہ انہوں نے کہاں کہ وہ خود تم سے جاکر معافی مانگے گے کیونکہ تم انکی کالز کاٹ دیتی ہوں۔۔۔۔۔ میں نہیں جانتی تھی کہ ایسا کچھ ہوجائے گا انا۔۔۔۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ بھائی مجھے لندن کیوں بھیجوانا چاہتے ہے۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کہاں کہ تم لندن جارہی ہوں ۔۔۔۔ میں نے بھی کچھ نہیں پوچھا انا بھائی کا کہا کبھی نہیں ٹالا میں نے۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں معلوم تھا کہ یہ سب۔۔۔۔ یہ سب ہوجائے گا‘‘ زرقہ روتے ہوئے بولی تو انا کی آنکھیں پھر سے بھیگ گئیں
’’ششش۔۔۔۔۔ بس زرقہ میں نے تمہیں معاف کیا۔۔۔۔۔۔۔ میں غصہ تھی بس تم پر۔۔۔۔۔ مگر اب وہ بھی ختم ہوگیا۔۔۔۔ میں جانتی ہوں کہ تم میری دوست ہوں اور کبھی بھی میرے ساتھ کچھ غلط نہیں ہونے دوں گی۔۔۔۔۔۔ مجھے سمجھنا چاہیے تھا کہ تم مجھے اس مشکل وقت میں۔۔۔۔۔ اس تکلیف میں چھوڑ نہیں سکتی تھی۔۔۔۔۔۔ اٹس اوکے زرقہ‘‘ انا اسکی کمر تھپتھپاتے بولی تو زرقہ کا رنگ ایک پل کو پھیکا پڑ گیا۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ انا کو بتادیتی کہ اس نے واقعی میں اسکی زندگی برباد کردی ہے تو؟ نہیں وہ ایسا نہیں کرسکتی۔۔۔۔۔۔ چپ رہنا ہی بہتر ہے
’’اور ویسے بھی میں رستم کو معاف کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہوں‘‘ انا سپاٹ لہجے سے بولی
زرقہ اسکی بات سن کر کھل اٹھی۔۔۔۔
’’کیا واقعی میں انا۔۔۔۔۔ تم نے ، تم نے بھائی کو معاف کردیا۔۔۔۔ تم انہیں ایک موقع دینا۔۔۔۔ وہ بہت اچھے ہے۔۔۔۔ تم سے بہت محبت کرتے ہے۔۔۔۔۔۔ دیکھنا بہت جلد تمہیں بھی ان سے محبت۔۔۔۔۔‘‘
’’ایک منٹ زرقہ میں نے رستم کو موقع اس لیے نہیں دیا کہ مجھے اس سے محبت ہوجائے یا کچھ اور۔۔۔۔۔۔ یہ موقع میں صرف اپنی کوکھ میں پلتی اولاد کی وجہ سے دے رہی ہوں۔۔۔۔۔ میں نہیں چاہتی زرقہ کہ میرا بچہ بھی اپنے باپ جیسا بنے۔۔۔۔۔ یہ صرف میرے بچے کے لیے ہے۔۔۔۔۔۔ میں کبھی بھی نہیں بھول سکتی جو تمہارے بھائی نے میرے ساتھ کیا۔۔۔۔۔ جو زخم اس نے میری ذات کو دیے۔۔۔ میری روح تک کو چیر دیا تمہارے بھائی کی حیوانیت نے زرقہ۔۔۔۔۔۔۔ یہ صرف اس بچے کے لیے ہے زرقہ۔۔۔۔۔۔ اور ایسے شخص سے محبت کبھی بھی نہیں کی جاسکتی زرقہ‘‘ انا زرقہ کی بات کاٹتے بولی
’’انا تم پاگل تو نہیں ہوگئی۔۔۔۔۔ تم جانتی بھی ہوں تم کیا بول رہی ہوں۔۔۔۔ تم زیادتی کررہی ہوں اپنے ساتھ انا۔۔۔۔ تم خود کی زندگی برباد کررہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں بھائی کے ساتھ کمپرومائز کرنے کی ضرورت نہیں انا ۔۔۔ ہم ایسا کرتے ہیں ابھی جاکر مام ڈٰیڈ سے بات کرتے ہیں۔۔۔۔۔ انہیں بتاتے ہیں کہ تم ایسا نہیں چاہتی۔۔۔۔۔ تم ، تم یہ رشتہ نہیں چاہتی ۔۔۔۔ پلیز انا اپنے ساتھ ایسا مت کروں۔۔۔۔۔۔‘‘ زرقہ اس کے دونوں ہاتھ تھامتے بولی
’’تو کیا کروں۔۔۔۔ انکار کردوں اس رشتے سے؟ نکاح ہوگیا ہے زرقہ۔۔۔۔ تمہارے مام ڈیڈ وہ کیا کرلے گے۔۔۔۔۔ کیا رستم ان کے کہنے پر چھوڑ دے گا مجھے؟ نہیں زرقہ وہ کبھی نہیں چھوڑے گا۔۔۔۔۔۔ اور اب جب میں اسکے بچے کی ماں بننے والی ہوں۔۔۔۔۔ وہ رستم ہے زرقہ ظلمت کا دوسرا نام۔۔۔۔۔ وہ مجھے مار ڈالے گا مگر چھوڑے گا نہیں۔۔۔۔۔ تمہی بتاؤں زرقہ کیا کروں میں؟‘‘ انا تکلیف دہ لہجے میں بولی
’’بھاگ جاؤ انا۔۔۔۔۔‘‘ زرقہ سپاٹ لہجے میں بولی
’’ہنہ۔۔۔‘‘ انا نے حیرانگی سے اسے دیکھا
’’ہاں انا بھاگ جاؤ۔۔۔۔ بس یہی ایک راستہ ہےانا۔۔۔۔۔ ورنہ، ورنہ تمہاری پوری زندگی برباد ہوجائے گی۔۔۔۔۔ چلی جاؤ یہاں سے کہی بہت دور۔۔۔۔ اپنی ایک نئی دنیا شروع کروں انا۔۔۔۔ اگر تمہاری کوکھ میں پلتا وجود ایک لڑکا ہوا تو یاد رکھنا انا اسے دوسرا رستم بننے سے تم کبھی بھی نہیں روک سکوں گی۔۔۔۔۔ اسی لیے انا چلی جاؤں یہاں سے ۔۔۔۔۔ بھاگ جاؤ۔۔۔۔۔ خود کو اور اپنے بچے کو ایک نئی زندگی دوں انا۔۔۔۔ پلیز‘‘
’’کہاں بھاگو زرقہ بتاؤ مجھے کہاں چلی جاؤں میں۔۔۔۔۔ وہ رستم ہے زرقہ وہ مجھے زمین کے نیچے سے بھی ڈھونڈ نکالے گا۔۔۔۔۔۔ نہیں میں ایسا نہیں کرسکتی۔۔۔۔ مجھے حالات کے سمجھوتا کرنا ہوگا زرقہ جیسے پہلے کررہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ سب کو دکھانا ہے کہ انا خوش ہے پرسکون ہے۔۔۔۔۔۔ حالانکہ اندر ہی اندر وہ ختم ہورہی ہے زرقہ۔۔۔۔۔۔۔ اور دیکھنا ایک دن ایسے ہی انا کا پورا وجود ختم ہوجائے گا۔۔۔۔۔۔ اسکی ہستی مٹ جائے گی زرقہ‘‘ وہ لہجہ مضبوط بناتے بولی جبکہ زرقہ ضبط کرتے وہاں سے فورا چلی گئی
مگر وہ دونوں اس بات سے بےخبر تھی کہ کوئی اور بھی تھا جو یہ سب سن اور دیکھ چکا تھا۔۔۔۔ اب بس انتظار تھا تو بس صحیح وقت کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رستم کے نام کی سیج سجائے وہ پھولوں سے سجے اس بستر پر بیٹھی تھی۔۔۔۔۔ آنے والے وقت کا سوچ کر ہی اس کی ہتھیلیاں بھیگ گئیں تھی۔
آج سے اسکی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہورہا تھا۔۔۔۔۔ پچھلے آدھے گھنٹے سے وہ رستم کا انتظار کررہی تھی۔۔۔۔۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ اس رشتے کو لیکر کسی خوش فہمی میں جی رہی تھی مگر شائد تھوڑی بہت امید تو اسے تھی
دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ اپنے خوابوں کی دنیا سے باہر نکلی اور سیدھی ہوکر بیٹھی۔۔۔۔۔ بھاری بوٹوں کی آواز اب بیڈ کے بلکل قریب تھی
رستم اسکے سامنے بیٹھے اسے یک ٹک دیکھنے لگا۔۔۔۔۔ جیسے وہ یقین کرنا چاہ رہا ہوں
’’یقین نہیں آتا‘‘ رستم انا کو دیکھ کر بولا
’’ہنہ؟‘‘ انا کو اسکی بات سمجھ نہیں آئی
’’مجھے یقین نہیں آتا کہ تم میری ہوچکی ہوں۔۔ میرے قریب ہوں۔۔۔۔ مجھے یقین دلا دوں ۔۔۔۔۔ مجھے یقین دلا دوں انا کہ تم واقعی میں میری ہوچکی ہوں‘‘ اسکا چہرہ دونوں ہاتھوں سے تھامے وہ خمار آلود لہجے میں بولا
’’رر۔۔۔۔رستم‘‘ انا کو وہ کچھ عجیب سا لگا
اس سے پہلے انا کچھ بول پاتی رستم نے ایک جھٹکے سے اسکا دوپٹا سر سے کھینچا جس پر انا چیخ اٹھی
’’رستم!!‘‘ انا زور سے چلائی تو رستم ہوش میں آیا
’’وہ۔۔۔وہ میں ۔۔۔۔کنٹرول نہیں رکھ پایا۔۔۔۔۔۔ یہ تمہاری منہ دکھائی‘‘ اسکے سامنے ایک ڈبہ رکھتے وہ بولا
’’شکریہ‘‘ انا صرف اتنا کہہ سکی
’’کھول کر نہیں دیکھو گی؟‘‘ رستم دوبارہ سے نرمی سے مسکرایا
انا کو وہ کچھ زیادہ ہی عجیب لگ رہا تھا۔۔۔۔ انا نے ناچارا اسے کھولا۔۔۔۔۔ اس میں ڈائمنڈ کا ایک بریسلیٹ موجود تھا۔۔۔۔ جو اصلی ہیروں کا تھا اور اتنا روشن کے انا کی آنکھیں چندھیاں گئی
’’اسکی۔۔۔۔۔ اسکی کیا ضرورت تھی؟‘‘ انا اسے ٹیبل پر رکھتے بولی
’’یہ تحفہ ہے جو ہر شوہر اپنی بیوی کو دیتا ہے‘‘ رستم نے ساتھ ہی بریسلیٹ اٹھایا اور اسکی کلائی میں باندھتے کلائی پر بوسہ دیا
انا نے جھٹکے سے کلائی کھینچی۔۔۔ رستم نے ضبط سے مٹھیاں بھینچی اور ایک جھٹکے سے انا کو اپنی پناہوں میں لیا۔
’’آئیندہ سے مجھے انکار مت کرنا‘‘ یہ کہتے ہی رستم اس پر جھک گیا جبکہ انا خود کو آزاد کروانے کی کوشش کرنے لگی
’’رستم نہیں۔۔۔۔۔ رستم پلیز۔۔۔۔ میں۔۔۔ میں ابھی تیار نہیں ہوں ان سب کے لیے‘‘ مگر رستم کو اس سے سب کچھ لینا دینا نہیں تھا
’’تم اب میری بیوی ہوں انا اور اب میں تم پر حق رکھتا ہوں۔۔۔‘‘ اسے جواب دیتے رستم اس پر حاوی ہوگیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح انا کی آنکھ کھلی تو دن کے گیارہ بج رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ کل رات کو یاد کرکے اسکی آنکھیں پھر سے بھیگ گئی۔۔۔۔۔ رستم نے اس سے ایک موقع مانگا تھا اور انا نے اسے دیا۔۔ مگر کل کی رات انا پر یہ ظاہر کرگئی تھی کہ رستم کو صرف اپنے آپ سے محبت ہے۔۔۔۔۔
کل رات رستم کی پیش قدمی پر انا کو پھر سے وہی رات یاد آنے لگ گئی تھی۔۔۔۔ وہ بہت چیخی چلائی۔۔۔۔ اس رشتے کے لیے رستم سے وقت مانگا۔۔۔۔۔ مگر رستم کا صرف ایک جواب تھا وہ شادی سے پہلے ہی انا کو بہت وقت دے چکا تھا۔۔۔۔۔۔ یہ بات انا پر واضع کرگئی تھی کہ رستم کسی کی بھی سننے والوں میں سے نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ انا بس کل رات کے رستم کے بارے میں سوچے جارہی تھی جو ایک پل کو انسان ہوتا تو دوسرے ہی پل ایک وحشی درندہ جو اسے نوچ کھاتا۔۔۔۔۔
انا کو اپنی طبیعت بہت بوجھل محسوس ہورہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ بیڈ سے اترتی جمیلہ دروازہ ناک کرتے اندر داخل ہوا
’’سلام بی بی شکر ہے آپ جاگ گئی۔۔۔۔ میں آئی تھی جی دو تین بار آپ کو جگانے مگر آپ تو شائد مدہوش تھی‘‘ جبکہ انا کی گھوری دیکھ کر اس نے اپنی چلتی زبان پر قابو پایا
’’کیا کام ہے؟‘‘ انا نے بےتاثر لہجے میں پوچھا
’’وہ بی بی جی سوا گیارہ ہورہے ہے۔۔۔۔ اور ایک بجے آپ کے پارلر کا ٹائم ہے تو بس آپ کو اٹھانے آئی تھی کہ آپ ناشتہ کرلے۔۔۔۔۔۔ رستم صاحب نے خاص ہدایت دی ہے جی کہ آپ کو ہیوی ناشتہ کرواؤ بہت تھک گئی تھی آپ‘‘ وہ آخر میں دانتوں کی نمائش کرتے بولی
’’زیادہ زبان مت چلاؤں اور جاؤ باہر میں آرہی ہوں‘‘ انا اسے جھڑکتے بولی اور ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھتے واشروم میں بند ہوگئی
’’سائیں تو سائیں۔۔۔۔۔۔ سائیں کی بیوی بھی۔۔۔۔۔‘‘ کانوں کو ہاتھ لگاتی جمیلہ بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے چلی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیچ کلر کی میکسی جس پر گولڈن کلر کا ہلکا سا کام ہوا تھا زیب تن کیے وہ اپنے ولیمہ کی تقریب کے لیے تیار تھی۔۔۔۔۔۔ اسکی اور رستم کی اینٹری ایک ساتھ ہونی تھی۔۔۔۔۔۔۔ رستم صبح سے غائب تھی جس پر انا بھی سکون میں تھی۔۔۔۔۔۔۔ اب بھی وہ اینٹرینس پر اکیلی کھڑی تھی جب ہال کی لائٹس آف ہوچکی تھی ۔۔۔۔۔۔ تبھی اسکے ایک ہاتھ اپنی کمر پر سرکتا محسوس ہوا۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کے انا چلاتی رستم اس کے کان میں بولا
’’ایزی پرنسز۔۔۔۔۔۔۔ یہ میں ہوں رستم تمہارا شوہر‘‘ انا کو لگا کہ وہ مسکرایا۔۔۔۔ مگر وہ اندھیرے میں دیکھ نا سکی
’’سپاٹ لائٹ ان دونوں پر پڑتے ہی انا نے سر اٹھا کر رستم کو دیکھا جسکا چہرہ بےتاثر تھا۔۔۔۔ ایک دوسرے کی باہوں میں باہیں ڈالے وہ دونوں بادشاہ اور ملکہ کی سی شان، بان اور آن لیے سٹیج کی جانب بڑھ رہے تھے۔۔۔۔۔ وہاں موجود ہر ایک انسان کی آنکھوں میں ان کے لیے ستائش تھی ماسوائے غازان اور اسکی فیملی کے جو آنکھوں میں نفرت لیے انہیں دیکھ رہے تھے
’’مبارک ہوں بڈی‘‘ کاشان نے آگے بڑھ کر اسے مبارک باد دی
’’ابے اب یہ کس بات کی مبارک؟‘‘ وجدان نے اسکے سر پر تھپڑ مارتے پوچھا
’’کیوں بھئی جب نکاح کی مبارک باد ہوں تو ولیمے کی بھی تو دینی چاہیے نا۔۔۔۔ کیوں بھابھی‘‘ کاشان بولا تو وہ دونوں ہنس دیے جبکہ انا جبرا مکسرائی
’’یہ تو تم نے صحیح کہا کاشان مبارک باد تو بنتی ہے۔۔۔۔۔۔ کانگرییچولیشنز بھابھی صاحبہ‘‘ غازان نے اپنا ہاتھ انا کے سامنے کیا جس پر رستم نے اسے سرد نگاہوں سے گھورا
’’میری بیوی غیر مردوں سے ہاتھ نہیں ملاتی‘‘ رستم نے غازان کا ہاتھ سختی سے اپنے ہاتھ میں لیا
’’ہاں مگر شوہر غیر عورتوں کے ساتھ راتیں ضرور گزارتا ہے‘‘ غازان طنزیہ مسکرایا
’’وہ عورتیں خود موقع فراہم کرتی ہے‘‘ رستتم نے بھی حساب برابر کیا
’’اور تم کیا ہوں بچے؟‘‘ غازان کو اسکا جواب زرا پسند نہیں آیا تھا
’’نہیں میں مرد ہوں اور مرد تو پھر بہک جاتا ہے نا۔۔۔۔۔‘‘ رستم طنزیہ مسکرایا تو غازان نے دانت پیسے۔۔۔۔۔ وہ رستم ہی کیا جو کبھی شرمندہ ہوجائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’لیڈیز اینڈ جینٹل مینز آج میرے ولیمہ کی تقریب پر آنے کے لیے میں آپ سب کا بہت گزار ہوں۔۔۔۔۔۔ مگر آج صرف میرا ولیمہ ہی نہیں بلکہ ایک اور بھی خاص موقع ہے۔۔۔۔۔ آج دو خاندان آپس میں جڑنے جارہے ہیں۔۔۔۔۔ میں رستم شیخ آج آپ سب کے ساتھ اپنی اس خوشی کو شیئر کرنے جارہا ہوں۔۔۔۔۔۔ میری بہن زرقہ شیخ کی منگنی وجدان قریشی کے ساتھ طے پائی گئی‘‘ مائیک میں بولتا رستم سب مہمانوں کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں پر بھی بمب گرا گیا تھا
اس حال صرف رستم اور وجدان کے والد تھے جنہیں اس منگنی کا معلوم تھا
’’سو پلیز آپ سب کی دھیڑ ساری تالیوں میں میں زرقہ اور وجدان کو سٹیج پر بلاتا ہوں۔۔۔۔۔ ‘‘ رستم کے بولتے ہی وہ دونوں حیرت کا مجسمہ بنے سٹیج پر آگئے۔۔۔۔۔۔ جب رستم نے ایک ویٹر کو اشارہ کیا تو وہ تھال میں سجی انگوٹھیاں وہاں لے آیا
’’ارے بھئی دیکھ کیا رہے ہوں رسم شروع کروں‘‘ رستم مسکرا کر بولا تو وجدان نے فورا زرقہ کا ہاتھ تھاما اور انگوٹھی پہنا دی۔۔۔۔۔ جبکہ زرقہ ابھی بھی حیرت میں تھی۔۔۔۔۔۔ مگر رستم کی وارننگ زدہ نگاہیں دیکھ کر فورا انگوٹھی پہنا دی
مگر غازان یہ سب کچھ دیکھ کر جل اٹھا۔۔۔۔۔۔۔ اس نے نوید شیخ کو شعلہ برساتی نگاہوں سے دیکھا جو اس پر نظر پڑتے ہی آنکھیں گھما گئے۔
’’یہ تم نے اچھا نہیں کیا نوید شیخ۔۔۔۔۔۔۔ جسٹ ویٹ اینڈ واچ کہ اب غازان انصاری کیا کرے گا تمہارے ساتھ‘‘ غازان غصے سے وہاں سے اپنی فیملی کو لیکر نکلا
’’واہ شہزادے تو بھی بک ہوگیا ۔۔۔۔۔۔ یعنی کے صرف میں رہ گیا۔۔۔۔۔ ہائے میں کنوارا بیچارا‘‘ کاشان دکھ بھری آواز میں بولا تو رستم نے آنکھیں گھمائی
’’یار آج کی رات تو پارٹی بنتی ہے کیا خیال ہے؟‘‘ کاشان ان دونوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھتے بولا
’’میرے خیال تو نیک ہے ان صاحب سے پوچھ لو‘‘ وجدان نے رستم کی جانب اشارہ کیا
’’ارے اس سے کیا پوچھنا بھابھی سے پوچھتے ہیں‘‘ کاشان انا کی جانب بڑھا
’’بھابھی صاحبہ اگر آپ کی اجازت ہوں تو آج رات کے لیے ہم آپ کا شوہر ادھار لے لے؟‘‘ کاشان نے آنکھیں پٹپتائے معصومیت سے پوچھا
’’میری بلا سے تو ہمیشہ کے لیے لیجاؤ اور جہنم میں لیجاؤ‘‘ انا بس سوچ سکی
’’شیور‘‘ وہ زبردستی مسکراہٹ سجائے بولی
’’تو بس ڈن ہوگیا بھائیوں آج کی رات دوستی کے نام۔۔۔۔۔۔ ویسے یہ غازان کہا گیا؟‘‘ کاشان نے حیرت سے آس پاس دیکھا جبکہ رستم مسکرا دیا۔۔۔۔۔ اسے معلوم تھا کہ اس وقت غازان اپنی ناکامی کا سوگ منا رہا ہوگا اور نوید شیخ پر ایک نفرت بھری نگاہ ڈالی
’’بلڈی وومین ہور‘‘ یہ الفاظ تھے ایک بیٹے کے اپنے باپ کے لیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انا ولیمے سے اکیلی واپس آئی تھی۔۔۔۔۔۔ بہادر خان رستم کے ساتھ تھا۔۔۔۔۔۔ اس وقت وہ بہت تھک چکی تھی اور بس چینج کرکے سو جانا چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ واشروم سے فریش ہوکر آتے ہی وہ بیڈ کی جانب بڑھی اور ڈرا میں سے میڈیسن باکس ڈھونڈنے لگی جب اسے اپنا موبائل نظر آیا۔۔۔۔۔۔ شادی کے ہنگاموں میں وہ اسے بلکل بھول گئی تھی۔۔۔۔۔۔ انا کا موبائل آف تھا جب اس نے آن کیا تو حیران رہ گئی کیونکہ عامر کی جانب سے دو سو کالز اور تین سو زائد میسیجز تھے۔۔۔۔ جن میں صرف ایک ہی بات لکھی تھی کہ اسے انا کو ایک ضروری بات بتانی تھی
انا ابھی اسی شش و پنج میں تھی کہ موبائل اٹھائے یا نہیں جب ایک دفع دوبارہ سے اسکا موبائل بجا
’’ہیلو؟‘‘ انا نے موبائل کان کو لگایا
’’ہاں۔۔۔۔۔ ہیلو انا یار کہاں ہوں تم۔۔۔۔۔ میں کب سے۔۔۔۔ کتنے دنوں سے تمہیں کال کررہا ہو۔۔۔ رسیو کیوں نہیں کررہی تھی‘‘ عامر سخت جھنجھلایا ہوا تھا
’’ہاں وہ بس شادی کی مصروفیات اور موبائل بھی کھو گیا تھا‘‘ انا سر دباتے بولی جس میں شدید درد ہورہا تھا۔۔۔۔۔ انا کو اب ہلکا ہلکا سا بخار بھی محسوس ہورہا تھا
’’انا مجھے تم سے ملنا ہے ابھی اسی وقت‘‘ عامر تیز لہجے میں بولا
’’عامر دماغ تو نہیں خراب تمہارا؟ اس وقت مگر میں کیسے؟‘‘ انا پریشان ہوئی
’’پلیز انا ضروری ہے یہ‘‘ عامر ٹہلتے بولا
’’پھر بھی۔۔۔۔۔‘‘ انا نے تائم دیکھا رات کے دس بج رہے تھے اور اسے صرف سونا تھا
’’انا یہ انکل اور آنٹی کے ایکسیڈینٹ کے بارے میں ہے۔۔۔ آئی تھنک۔۔۔۔۔ آئی تھنک انکا ایکسیڈینٹ نہیں ہوا تھا انا۔۔۔۔۔ اسے مارا گیا تھا۔۔۔۔۔۔ اٹ واز آ مرڈر‘‘ عامر کی بات سن کر انا کا سارا سر درد، نیند اڑن چھو ہوئی
’’واٹ؟ تم جانتے بھی ہوں تم کیا بول رہے ہوں عامر۔۔۔۔۔ دیکھو اگر یہ فضول کا مزاق ہوا نا تو۔۔۔۔‘‘
’’نہیں انا یہ مزاق نہیں ہے تم جانتی ہوں میں ایسا گھٹیا مزاق نہیں کرتا یہ سچ ہے انا اور مجھے ڈر ہے کہ تمم قاتل کو جانتی ہوں‘‘
’’کیا؟ کون ہے وہ؟‘‘ انا نے بیتابی سے پوچھا
’’نہیں انا فون پر نہیں بتاسکتا۔۔۔۔ شائد تم یقین نہیں کروں اسی لیے پلیز میں تمہیں اڈریس بھیج رہا ہوں وہاں آجاؤں‘‘ عامر بولا تو انا نے فورا کال کاٹی اور جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی
عامر کی جانب سے اڈریس ملتے ہی وہ فورا باہر کی جانب بڑھی۔۔۔۔۔۔ گھر کے باہر سے گزرتی ٹیکسی کو اس نے رکوایا اور اس میں بیٹھ گئی۔۔۔۔۔ ڈروائیور اور وہ گارڈز جنہیں رستم نے انا کے لیے رکھا تھا انا نے انہیں سختی سے منع کردیا تھا۔۔۔۔ اسے عامر کے پاس پہنچنا تھا جلد از جلد ۔۔۔۔۔۔ بات اسکے ماں باپ کی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عامر کے دیے گئے اڈریس پر پہنچتے ہی انا نے جلدی ٹیکسی ڈرائیور کو کرایہ ادا کیا اور وہ اس بلنڈنگ میں داخل ہوئی جہاں ایک فلیٹ میں عامر رہتا تھا
عامر اسے اپنے اپارٹمنٹ کے باہر ہی مل گیا
’’عامر!!‘‘ انا جلدی سے اسکی جانب بھاگی
’’عامر بتاؤ مجھے وہ کون ہے؟‘‘ انا نے بھیگی آنکھوں سے پوچھا
’’انا وہ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ عامر کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دے
’’انا وہ کیا عامر بتاؤ مجھے۔۔۔۔۔۔۔ جواب دوں‘‘ انا عامر کو جھنجھوڑتے اس پر چلائی۔۔۔۔۔۔ بات اسکے جان سے بھی زیادہ عزیز مرے ہوئے ماں باپ کی تھی
’’رستم۔۔۔۔رستم شیخ انا۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہے قاتل تمہارے ماں باپ کا۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی بےدرد موت کا‘‘ عامر نے نظریں نیچی کیے جواب دیا جبکہ انا کے ہاتھ جو عامر کے گریبان پر تھے وہ نیچے گرگئے
’’رر۔۔۔۔رستم۔۔۔۔۔۔۔ رستم شیخ‘‘ انا کی آواز سروگوشی سے زیادہ نہیں تھی
’’کیوں؟‘‘ آنسوؤں گالوں پر پھیل گئے تھے
’’کیونکہ تمہارے ماں باپ نے کچھ ایسا دیکھ اور جان لیا تھا رستم کے بارے میں جو اسے برباد کرسکتا تھا۔۔۔۔۔ اسی لیے انا۔۔۔۔۔۔ اسی لیے مار دیا انہیں۔۔۔۔۔ اور موت کو حادثے کی شکل دے دی گئی‘‘ عامر نے انا کو جواب دیا تو انا کو اپنا سر چکراتا محسوس ہوا
’’رستم شیخ صرف ایک بزنس مین نہیں انا بلکہ ایک مافیا مین بھی ہے۔۔۔۔۔۔ وہ ، وہ ڈرگز سپلائی کرتا ہے مختلف ملکوں میں ، نا صرف ڈرگز بلکے کبھی کبھار لڑکیاں بھی فروخت کرتا ہے وہ۔۔۔۔ تمہیں یاد ہوگا جس دن انکل آنٹی اپنی اینیورسری پر کپل ڈنر کنے گئے تھے ہوٹل ۔۔۔۔۔۔ انکی گاڑی بیک پر تھی ۔۔۔۔۔۔ جب وہ لوگ وہاں گئے تو انہوں نے رستم اور اسکے آدمیوں کو ڈرگز کی ڈیلنگ کرتے دیکھا تھا انا۔۔۔۔۔۔۔ مگر وہ دونوں پکڑے گئے۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں ایکسیڈینٹ کی وجہ سے نہیں مرے تھے انا۔۔۔۔۔۔ رستم پہلے ہی انکا گلا دبا کر انہیں مار چکا تھا، ایکسیڈینٹ تو بس ایک بہانہ تھا انا۔۔۔۔۔۔ مجھے بھی یہ سب باتیں اصلیت ۔۔۔۔۔ کچھ دن پہلے پتا چلی انا۔۔۔۔۔۔۔ میرے پاس۔۔۔۔۔۔۔ میرے پاس ثبوت ہے انا۔۔۔۔۔۔ وہ ویڈیو۔۔۔۔ وہ ویڈیو جس میں رستم نے بڑی بےرحمی سے انکل آنٹی دونوں کا قتل کیا تھا۔۔۔۔۔ رستم اپنی تئی سب ثبوت مٹاچکا تھا مگر اس کے ایک بندے نے وہ ویڈیو اپنے پاس رکھ لی تاکہ اگر اسے کبھی زندگی میں رستم کو بلیک میل کرنا پڑا تو وہ اسے استعمال کرے گا۔۔۔۔۔ مگر اس سے پہلے ایسا موقع آتا وہ میرے ہاتھ لگ گیا۔۔۔۔ اور اب وہ ویڈیو میرے پاس ہے‘‘ عامر ایک ایک کرکے سارے راز افشاں کرتا گیا اور انا اسے اپنے پیروں پر کھڑے ہونا محال ہوگیا
شائد یہ اسکی خودغرضی کی سزا تھی۔۔۔۔۔ ہاں یہ اسکی خود غرضی ہی تو تھی۔۔۔۔ جو وہ شہلا کا قتل بھول گئی۔۔۔۔۔۔ جو وہ ڈاکٹر کنول کا برباد ہونا بھول گئی۔۔۔۔۔۔ وہ خود غرض ہوگئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اسے صرف اپنی اور اپنے بچے کی فکر تھی اسی لیے رستم کو اپنا لیا مگر اب اسے سزا ملی تھی اس خود غرضی کی۔۔۔۔۔۔۔ شہلا سے اسکا کوئی لینا دینا نہیں تھا مگر ڈاکٹر کنول۔۔۔۔۔ ڈاکٹر کنول تو اسکی وجہ سے اپنی زنگی ہاری تھی۔۔۔۔۔ اسکی وجہ سے انہوں نے اپنی عزت، اپنی عصمت، اپنی آبرو کھوئی تھی
’’آاااااااااااااا‘‘ انا دونوں ہاتھوں سے بالوں کو جکڑے چلا اٹھی
’’مجھے تم سے نفرت ہے رستم شیخ ۔۔۔۔۔۔ شدید نفرت‘‘ عامر کے کندھے لگے وہ بری طرح رو دی
’’ایسا کیوں کیا رستم کیوں کیا تم نے ایسا‘‘ وہ ہچکیوں میں روتے بڑبڑائی
’’ اس نے ایسا کیوں کیا عامر۔۔۔۔۔۔ مجھ سے سب کچھ چھین لیا اس شخص نے۔۔۔۔۔۔۔ میرے ماں باپ۔۔۔۔۔۔۔ میری عزت۔۔۔۔۔ میری زندگی۔۔۔۔۔۔۔ بس اب سانسیں چھیننا باقی ہے ۔۔۔۔۔ کیوں کیا؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...