ضرُوری خُود کو سمجھو یا نہِیں سمجھو، ضرُوری ہو
بظاہر اِستعارہ قُرب کا، صدیوں کی دُوری ہو
اکڑ کر کہہ تو دیتے ہو کہ ہم ہیں جوہری طاقت
بہے گا خُون اِنساں کا، وہ ہو شاہیں کہ سُوری ہو
لو اب سے توڑ دیتے ہیں، جو محرُومی کے حلقے تھے
مِلائیں ہاں میں ہاں کب تک، کہاں تک جی حضُوری ہو
بڑی معصُوم خواہِش اب تو دِل میں سر اُٹھاتی ہے
کِسی دِن سامنا جو ہو تو دِل کی آس پُوری ہو
جنُوں کا مُعجزہ تھا ہم جو انگاروں پہ چل نِکلے
اداکاری کا وہ عالم کہ جُوں کوشِش شعُوری ہو
ہمیشہ کے لِیئے ہم یہ نگر ہی چھوڑ جائیں گے
مگر اِتنا کرے کوئی ضمانت تو عبُوری ہو
کمی تھوڑی سی رہ جائے تو مُمکِن ہے تدارُک بھی
تلافی ہو نہِیں سکتی کہ جب دِل ہی فتُوری ہو
ہمیں کرنا پڑے گا اِحترامِ آدمی لازِم
سراسر بالا تر ہو کر وہ ناری ہو کہ نُوری ہو
جِدھر دیکھو اُدھر اب موت کا سامان دِکھتا ہے
رشِید اپنی کہانی یہ نہ ہو آدھی ادھُوری ہو