“ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟”
وہ اس کی نظریں خود پر محسوس کرتا ہوا بولا۔
وہ لب کاٹتی الفاظ جمع کرنے لگی۔
“کچھ کہنا چاہتی ہو؟”
وہ آگے ہوتا ہوا بولا۔
“ہاں۔۔۔ ”
وہ اِدھر اُدھر دیکھتی ہوئی بولی۔
“تو بولو۔۔۔ ”
وہ توجہ سے اسے دیکھ رہا تھا۔
“وہ میں۔۔۔ ”
وہ ہچکچا رہی تھی۔
“بولو نہ کیا کہنا ہے؟”
وہ بےچینی سے بولا۔
“میں پریگنیٹ ہوں۔”
وہ چہرہ جھکا کر بولی۔
“کیا کہا تم نے؟”
اس نے جیسے سنا نہیں۔
“تم سن چکے ہو۔”
وہ تیزی سے بولی۔
“ہاں میں سن چکا ہوں اور دوبارہ سننا چاہتا ہوں۔”
وہ اشتیاق سے اسے دیکھ رہا تھا۔
“تمہیں خوشی ہو رہی ہے؟”
اس کی آنکھوں میں حیرت کا عنصر نمایاں تھا۔
“ظاہر ہے خوشی ہو گی۔ کیوں تم خوش نہیں؟”
وہ کھل کر مسکرایا۔
“خوش ہونے کی ہر وجہ تم نے مجھ سے چھین لی ہے۔”
وہ تلخی سے بولی۔
وائز لب بھینچ کر اپنے پاؤں دیکھنے لگا۔
“جانتی ہو دنیا میں بہت سے لوگ ہیں جو اولاد کے لیے ترستے ہیں۔۔۔ ہم تو خوش قسمت ہیں کہ یہ خوشی ہمارا در کھٹکا رہی ہے۔
میرے چاچو اور چاچی کو دیکھ لو آدھی زندگی گزر گئی لیکن آج بھی ان کی کوئی اولاد نہیں۔ میں نے انہیں دیکھا ہے کیسی تڑپ ہوتی ہے۔”
وہ آہستہ آہستہ بول رہا تھا۔
“ہاں سب خوش ہی ہوتے ہیں لیکن سب کے حالات ایسے نہیں ہوتے۔۔۔ وائز نکاح کے باوجود یہ بچہ ہے تو ناجائز ہی۔”
وہ تڑپ کر بولی۔
وہ چہرہ اوپر نہ اٹھا سکا۔
“جو ہو گیا میں اسے بدل نہیں سکتا بٹ آئی پرامس تمہیں بہت خوش رکھوں گا۔”
وہ اس کے قدموں میں بیٹھتا ہوا بولا۔
“وائز تم میرے اور اللہ کے گناہگار ہو۔۔۔ تمہارا وہ گناہ کبھی نہیں مٹے گا نہ ہی مجھ سے توقع رکھنا کوئی بھی۔مجھے نفرت ہے تم سے صرف نفرت۔۔۔ ”
وہ منہ پر ہاتھ رکھتی کمرے میں بھاگ گئی۔
وہ زرش کی آنکھوں میں تیرتے آنسو دیکھ چکا تھا۔
وہ مٹھیاں بھینچے ضبط کر رہا تھا۔
نفی میں سر ہلاتا وہ کھڑا ہوا چابی اٹھائی اور باہر نکل گیا۔
وہ جیب میں ہاتھ ڈالے کلب کے اندر داخل ہو گیا۔
شراب کی بو اس کے نتھنوں سے اندر داخل ہونے لگی۔
وہ بنا کسی پر نظر ڈالے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔
اس کے ہاتھ میں شراب کا گلاس تھا۔
وہ گلاس کو ٹیبل پر رکھ کر گھورنے لگا۔
“میں گناہگار ہوں۔”
وہ شاید اپنے حواس میں نہیں تھا۔
بے ساختہ وہ ہنسنے لگا۔
“لوگ تو قتل بھی معاف کر دیتے ہیں تو وہ کیوں اتنی سنگدل بنی ہوئی ہے؟”
وہ اس مائع کو دیکھتا ہوا بول رہا تھا۔
“کیا میں قابل نفرت ہوں؟ اتنی بے حس کیسے ہو سکتی ہو تم؟”
مٹھیاں بند کرتا ہوا بولا۔
“پلیز معاف کر دو مجھے۔۔۔تھک گیا ہوں میں ۔ دل چاہتا ہے تمہارے ساتھ گھومنا پھرنا، زندگی کو جینا چاہتا ہوں تمہارے ساتھ اور تم ہو کہ۔۔۔ ”
وہ گلاس کو ہاتھ مارتا ہوا چلایا۔
گلاس زمین بوس ہو کر کرچی کرچی ہو چکا تھا۔
میوزک کے باعث کسی نے نوٹس نہ لیا۔
اس نے سر بار پر گرا لیا۔
“پہلے ہی تم مجھ سے نفرت کرتی ہو اگر تمہیں معلوم ہوا کہ میں شراب پی رہا ہوں تو مسئلہ اور بڑھ جاےُ گا۔”
وہ سامنے دیوار کو دیکھتا ہوا بول رہا تھا۔
“سعد مجھے لینے آ جا میں کلب میں بیٹھا ہوں۔”
میسج بھیج کر اس نے آنکھیں بند کر لیں۔
~~~~~~~~
“آج تم وائز کے ساتھ نہیں آئی؟”
مشل تعجب سے بولی۔
“نہیں وہ گھر پر نہیں تھا۔”
وہ رجسٹر پر جھکی ہوئی تھی۔
“کہاں گیا؟”
وہ اس کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔
“مجھے کیا معلوم؟ گیا ہوگا کسی لڑکی کے پاس اور کیا کام ہے اس کا۔۔۔ ”
وہ سر جھٹک کر اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔
“دائم نظر نہیں آ رہا کافی دنوں سے۔۔۔ خیر ہے؟”
یکدم زرش کو خیال آیا۔
“ہاں میں بھی یہی نوٹ کر رہی تھی۔۔۔ اس لئے کل اسے فون کیا۔”
وہ چپس کھاتی ہوئی بولی۔
“کیا کہا اس نے؟”
وہ سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔
“کہہ رہا تھا یونی چھوڑ دی ہے میں نے۔۔۔”
وہ اداسی سے بولی۔
“کیوں؟”
زرش کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
“وجہ نہیں بتائی۔۔۔ بہت بار پوچھا میں نے۔”
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔
“وائز نے بھی تو اسے تنگ کیا ہوا تھا جب سامنے آ جاےُ وہیں شروع ہو جاتا۔”
وہ نفی میں سر ہلاتی کام کرنے لگی۔
“ہاں صحیح کہہ رہی ہو۔۔۔ ویسے بھی وہ تمہیں پسند کرتا تھا لیکن۔۔ ”
“پرانی باتوں کو مت کریدو۔۔۔ میں جانتی ہوں۔”
وہ رجسٹر بند کر کے کھڑی ہو گئی۔
“کیا ہوا؟”
وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
“کچھ نہیں بس کچھ دیر اکیلی رہنا چاہتی ہوں۔”
وہ بیگ اٹھاتی چل دی۔
~~~~~~~~
وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تو کچن سے کھٹ پٹ کی سنائی دینے لگی۔
“وائز تو گھر پر نہیں تھا پھر یہ کون ہے؟”
وہ بیگ رکھتی آہستہ سے بڑبڑائی۔
اس نے گلدان اٹھایا اور جوتا اتار کر چلنے لگی۔
وائز کی اس کی جانب پشت تھی۔
“تم آ گئی؟”
وہ اس کی جانب رخ موڑتا ہوا بولا۔
اس نے ہاتھ نیچے کر لیا۔
“تم کیا سمجھی کوئی چور ہے؟”
وہ معدوم سا مسکرایا۔
“اسے چھوڑو اور تم ہاتھ منہ دھو لو پھر کھانا کھا کر تم آرام کرنا۔۔۔ شام میں ہم شاپنگ کرنے چلیں گیں۔
ڈاکٹر کو میں نے فون کر دیا تھا شام میں آ جاےُ گی اور ہاں اب تم کوئی کام نہیں کرو گی جو بھی کام ہو گا میں خود کر لوں گا۔”
وہ پرجوش انداز میں بولتا جا رہا تھا۔
“تم ایسا کیوں کر رہے ہو؟”
وہ جھنجھلا کر بولی۔
“کیا مطلب؟”
وہ الجھ کر اسے دیکھنے لگا۔
“میں جانتی ہوں تم کیسے انسان ہو پھر کیوں اچھا بننے کی کوشش کر رہے ہو میرے سامنے؟”
وہ تنک کر بولی۔
“تم مجھے گھٹیا کہہ سکتی ہو لیکن منافق نہیں۔ میں جو بھی ہوں جیسا بھی ہوں سب کے سامنے ہوں چھپ کر نہیں کرتا کچھ۔ اور سب سے اہم بات تم ہمارے بچے کو لے کر میری خوشی کو بناوٹ نہیں کہہ سکتی۔۔۔”
وہ سلگتی نگاہوں سے دیکھتا ہوا بولا۔
وہ لب بھینچ کر اسے دیکھنے لگی جس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔
“جا کر چینج کر لو تم۔”
وہ رخ موڑتا ہوا بولا۔
خفگی لہجے سے عیاں تھی اسے برا لگا تھا۔
وہ بنا کچھ کہے کمرے میں چلی گئی۔
کچھ دیر بعد وائز دروازے پر دستک دیتا اندر داخل ہوا۔
اسے دیکھ کر وہ دوپٹہ اٹھا کر گلے میں ڈالنے لگی۔
“بہت بار کھانا بنایا ہے لیکن پتہ نہیں تمہیں پسند آےُ گا یا نہیں۔۔۔ ”
وہ ٹرے اس کے سامنے رکھتا ہوا بولا۔
وہ اب بھی خاموش رہی۔
“میں اپنے ہاتھ سے کھلاؤں گا تمہیں۔۔۔ ”
وائز کے چہرے پر ایک نا ختم ہونے والی مسکراہٹ تھی۔
“میرے ہاتھ سلامت ہیں۔۔۔۔ میں خود کھا سکتی ہوں۔”
وہ ٹرے کھسکاتی ہوئی بولی۔
وہ لب دباےُ مسکراتا ہوا اسے دیکھ رہا تھا۔
ریڈ کلر کی ٹی شرٹ پہنے وہ پرکشش دکھائی دے رہا تھا۔
“تم دیکھو گے تو میں کیسے کھاؤں گی؟”
وہ نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھتی ہوئی بولی۔
وہ یک ٹک اس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھنے لگا۔
“وائز؟”
وہ مدھم آواز میں بولی۔
“کتنا اچھا لگتا ہے تمہارے ہونٹوں پر میرا نام؟”
وہ بے خودی میں بولتا جا رہا تھا۔
“میں کھا لوں یا نہیں؟”
اب کہ وہ زور سے بولی۔
“ہا۔۔ ہاں تم کھاؤ میں جاتا ہوں باہر۔”
وہ بیڈ سے اترتا ہوا بولا۔
~~~~~~~~~
“تم یہاں کیوں آئی ہو؟”
وہ نور کی بازو پکڑتا ہوا بولا۔
“یہ میری خالہ کا گھر ہے میں جب چاہوں یہاں آ سکتی ہوں۔”
وہ پیشانی پر بل ڈالتی ہوئی بولی۔
“اچھے سے جانتا ہوں کیوں آئی ہو تم یہاں۔۔”
وہ دانت پیستا ہوا بولا۔
“جانتے ہو تو پھر کیوں پوچھ رہے ہو بازو چھوڑو میری۔”
وہ اس کا ہاتھ ہٹانے کی سعی کر رہی تھی۔
“مجھے مٹھائی نہیں کھلاؤ گی۔ تمہارا رشتہ پکا ہو گیا ہے؟”
وہ گھورتا ہوا بولا۔
“خاص تمہارے لئے خود آئی ہوں۔”
وہ میز سے مٹھائی کا ڈبہ اٹھاتی ہوئی بولی۔
احسن اس کی بازو آزاد کرتا جیب میں ہاتھ ڈالے اسے دیکھنے لگا۔
“مبارک باد تو دے دو۔۔۔ ”
وہ اسے کھلاتی ہوئی بولی۔
“بہت مبارک ہو۔”
وہ جل کر کہتا چلنے لگا۔
“مجھے گھر چھوڑ آؤ۔”
وہ آنکھوں میں تیرتی نمی صاف کرتی ہوئی بولی۔
وہ وہیں رک گیا۔
“تمہارا منگیتر کہاں ہے؟”
نور کے سامنے اس کی پشت تھی۔
“جہاں بھی ہو۔۔۔ تم مجھے چھوڑ آؤ نہ؟”
وہ اپنی عزت نفس کو روند رہی تھی۔
وہ رخ موڑ کر اسے دیکھنے لگا۔
“مجھ سے کہہ رہی ہو تم؟”
وہ آبرو اچکا کر بولا۔
“تمہارے علاوہ یہاں کوئی ہے؟”
وہ خفگی سے بولی۔
وہ اثبات میں سر ہلانے لگا۔
“تمہارا یہ انداز مجھے بہت برا لگتا ہے۔”
وہ کہے بنا رہ نہ سکی۔
“اب تو تمہاری جان چھوٹ گئی نہ۔۔۔میری بری عادتوں سے۔ حمزہ تو بہترین انسان ہے۔”
وہ طنز کر رہا تھا۔
“کیا ہمیشہ اس کا ذکر لازم ہے؟”
وہ زچ ہو کر بولی۔
“میں کمرے سے چابی لے کر آتا ہوں۔”
وہ ایک نظر اسے دیکھ کر چل دیا۔
وہ اس کی پشت کو دیکھنے لگی۔
“کمبخت دل بھی عجیب چیز ہے۔۔ قابو میں رہتا ہی نہیں۔”
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
~~~~~~~~
“تمہیں کچھ چائیے؟”
وہ دروازہ بند کرتا ہوا بولا۔
“میں خود بنا لوں گی۔”
وہ کچن کی جانب چلتی ہوئی بولی۔
“تم کمرے میں جاؤ تھک گئی ہو گی۔۔۔ میں دودھ گرم کر کے لاتا ہوں۔”
وہ اس کے راستے میں حائل ہوتا ہوا بولا۔
وہ لب کاٹتی اسے دیکھنے لگی۔
“جاؤ بھئ۔۔۔ ”
وہ خفگی سے بولا۔
“ٹھیک ہے۔۔۔ ”
وہ کہتی ہوئی اندر چلی گئی۔
وہ شاپر اٹھا کر اپنے کمرے میں لے آیا۔
“مجھے امید ہے ایک دن تم ٹھیک ہو جاؤ گی میری محبت تمہیں مجبور کر دے گی مجھ سے محبت کرنے پر۔”
وہ آئینے میں اپنا عکس دیکھتا ہوا بولا۔
شیو بڑھی ہوئی تھی۔
“کل اسے بھی سیٹ کروانا پڑے گا۔”
وہ داڑھی پر ہاتھ پھیرتا باہر نکل آیا۔
وہ دودھ گلاس میں ڈال کر مگ میں کافی انڈیل رہا تھا جب بیل سنائی دی۔
“اس ٹائم کون آ سکتا ہے؟”
وہ دروازے کی جانب بڑھتا ہوا بولا۔
“شکر ہے تمہاری شکل تو نظر آئی۔”
جینی اس کے گلے لگتی ہوئی بولی۔
وہ فوراً پیچھے ہو گیا۔
“کیا ہوا؟”
وہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔
“تم کیوں آئی ہو یہاں؟”
وہ فاصلہ بڑھاتا ہوا بولا۔
“کیا میں تم سے ملنے بھی نہیں آ سکتی؟ آج کل تو تمہاری کوئی خبر ہی نہیں ہے۔”
وہ خفگی سے دیکھتی شکایت کرنے لگی۔
“دیکھو تم جاؤ یہاں سے۔۔۔ ”
وہ متفکر سا بولا۔
“کیوں جاؤں میں یہاں سے بتاؤ مجھے؟”
وہ تقریباً چلائی۔
زرش کو آواز سنائی دیں تو پیشانی پر بل پڑ گئے۔
“باہر کون ہے؟”
وہ بولتی ہوئی دروازے کے پاس آ گئی۔
“میں اکیلا نہیں رہتا اب۔۔۔ پہلے کی بات اور تھی میری بیوی بھی میرے ساتھ ہے۔”
وہ باور کرا رہا تھا۔
“اس نام نہاد بیوی کی کوئی اہمیت نہیں ہے یہ میں اچھے سے جانتی ہوں۔”
وہ اس کی جانب قدم اٹھاتی ہوئی بولی۔
دروازہ کھلنے کی آواز سنتے ہی وائز گردن موڑ کر زرش کو دیکھنے لگا۔
وہ تاسف سے وائز کو دیکھ رہی تھی۔
“بکواس بند رکھو اور بہتر ہوگا تم جاؤ یہاں سے۔”
وہ جینی کو دیکھتا ہوا غرایا۔”
زرش دروازہ بند کر چکی تھی۔
“تم اس کے لئے مجھ سے ایسے بات کر رہے ہو؟”
وہ گھورتی ہوئی بولی۔
“مہربانی کر کے دوبارہ یہاں مت آنا۔”
وہ اس کی بازو پکڑ کر دروازے سے باہر کرتا ہوا بولا۔
وہ ہکا بکا سی وائز کو دیکھنے لگی۔
اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتی وائز نے دروازہ بند کر دیا۔
“جیسا تم سوچ رہی ہو ایسا کچھ بھی نہیں۔”
وہ اس کے سامنے بیٹھتا ہوا بولا۔
“میں نے کچھ کہا؟”
وہ آبرو اچکا کر بولی۔
“ہاں لیکن تمہاری نظریں سب کہہ رہی ہیں۔”
وہ کھڑکی کو گھورتا ہوا بولا۔
“تم آزاد ہو جو چاہو کر سکتے ہو۔”
وہ شانے اچکاتی ہوئی بولی۔
“کل گاؤں جانا ہے۔۔۔ بابا سائیں بلا رہے تھے۔”
وہ کافی کے سپ لیتا آگاہ کرنے لگا۔
“اچھا۔”
مختصر سا جواب آیا۔
“تم یونی نہیں جاؤ گی اب۔”
وہ تحکم سے بولا۔
“کیوں؟”
وہ متحیر رہ گئی۔
“آرام کرو۔ویسے بھی اچھا نہیں لگتا۔۔۔”
وہ خفگی سے دیکھتا ہوا بولا۔
“لیکن میری سٹڈی؟”
وہ رک کر اسے دیکھنے لگی۔
“فلحال ضرورت نہیں۔۔ بعد میں دیکھ لینا۔”
وہ کہتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
“یہ فیصلہ میں لوں گی۔”
وہ زور دے کر بولی۔
“فیصلہ ہو چکا ہے۔۔۔گڈ نائٹ۔”
وہ مسکرا کر دیکھتا باہر نکل گیا۔
وہ کپ کو گھورنے لگی۔
~~~~~~~~~
وہ کپڑے بدل کر بیڈ پر آ گیا۔
چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
“ابھی تو بہت ٹائم ہے۔”
وہ خود کلامی کر رہا تھا۔
چند پل میں وہ نیند کی وادی میں اتر گیا۔
ہر رات کی مانند آج بھی وہ نیند سے اٹھ بیٹھا۔
“پلیز چپ ہو جاؤ۔۔۔ ”
زرش کی سسکیاں اس کے کانوں میں بازگشت کر رہی تھیں۔
“میں پاگل ہو جاؤں گا پلیز رونا بند کر دو۔”
وہ دونوں کانوں پر ہا
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...