بابا سائیں میں آپ کو کتنی بار کہہ چکا ہوں میں زرنین کی رخصتی چاہتا ہوں۔۔۔چچا جان کی وفات کے بعد وہ بہت اکیلی ہو گئی ہے۔۔مجھ سے اُس کا دکھ برداشت نہیں ہوتا۔۔۔حازق پچھلے ایک ہفتے سے اپنے والد(مہر رشید)کو رخصتی کا کہہ رہا لیکن وہ ہر بار ٹال دیتے۔۔۔ آخر آج حازق نے ہمت سے روبرو ہوکر بات کرنے کا فیصلہ کیا
ٹھیک ہے میں رخصتی کیلئے جاؤں گا اماں کے پاس۔۔۔لیکن میری ایک شرط پوری کرنی ہوگی۔۔۔مہر رشید بر آمدے میں بچھی چارپائی بیٹھے اور ٹانگ پر ٹانگ رکھ لی
شرط۔۔کیسی شرط بابا سائیں؟حازق نے سوالیہ نظروں سے باپ کی جانب دیکھا
زرنین کے نام جو زمین ہے اس میں سے آدھا حصہ میرے نام کرنا ہوگا۔۔۔رشید نے اطمینان سے کہا اور سگریٹ سلگانے لگا
لیکن کیوں بابا سائیں۔۔۔حازق کو رشید سے ایسی بات کی توقع نہیں تھی
کیونکہ میں کہہ رہا ہوں۔۔۔رشید سگریٹ کا کش بھرتے ہوئے بولا
وہ زمین چچا جان نے زرنین کے نام کی تھی۔۔وہ زرنین کی ملکیت ہے۔۔اور آپ کیسے زرنین سے اس طرح کا کوئی مطالبہ کر سکتے ہیں۔۔؟وہ دکھ سے باپ کی جانب دیکھ کر بولا
میں کسی کی ملکیت پر قبضہ نہیں کر رہا۔۔۔اُس زمین میں میرا بھی حصہ شامل ہے۔۔۔رشید بولتا بولتا کھڑا ہوگیا تھا۔۔۔مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن جب ابا نے میرے نام ایک اور حمید(زرنین کے والد) کے نام دو زمینیں کر دی تھیں۔۔اُس وقت تو میں خاموش رہا لیکن ابا کی وفات کے بعد میں نے اماں سے بات کی۔۔اماں نے بھی حامی نہیں بھری۔۔اور پھر ایک دن حمید نے دونوں زمینیں زرنین کے نام کر دی۔۔رشید نے اپنے سامنے کھڑے حازق کو دیکھا جو سر جھکا کر بات سن رہا تھا
لیکن ابا جان اب وہ زمینیں زرنین کی ہیں۔۔اور وہ وہاں ایک فلاحی ادارہ کھولنا چاہتی ہے جہاں غریب لوگوں کی مدد کی جائے۔۔اور میں ہرگز اُس کے خوابوں کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں آنے دوں گا۔۔ حازق اپنی جھکی گردن اٹھاتا پر اعتماد لہجے میں بولا
واہ پترا واہ۔۔اِس دن کیلئے بھیجا تھا تجھے شہر۔۔ کہ تو پڑھ لکھ کر باپ کے سامنے گردن اکڑا کر کھڑا ہوجائے۔۔۔رشید نے طنزیہ انداز میں کہا اور سگریٹ کا کش بھرا
حازق نے ایک ناگوار نظر سگریٹ پر ڈالی
اگر تم چاہتے ہو کہ زرنین کی رخصتی ہو۔۔تو زمین میرے نام کرنی ہوگی۔۔۔ ورنہ بھول جاؤ کہ زرنین کبھی دلہن بن کر اِس گھر میں آئے گی۔۔رشید کڑوے تیور لیے حازق کی جانب دیکھتا بولا اور وہاں سے جانے کیلئے قدم بڑھا دیے
حازق نے زور سے اپنی آنکھیں بند کیں۔۔ اس کی آنکھوں کے سامنے زرنین کا معصوم چہرہ آگیا۔۔۔
قبول ہے۔۔زرنین شرماتے ہوئے بولی۔۔
مبارک ہو۔۔ہر طرف مبارک باد کی صدا بلند ہوئی
حازق آہستہ سے اٹھتا زرنین کے ساتھ بیٹھ گیا
زرنین نے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا۔۔سب خوش گپیوں میں مصروف تھے
شکریہ زرنین میری زندگی میں آنے کیلئے۔۔حازق نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر زرنین کا ہاتھ تھام لیا
زرنین نے اپنی گردن کو مزید جھکا دیا۔۔۔شرم سے اُس کے گال دہکنے لگے
کچھ تو بولو۔۔وہ التجا کرتے ہوئے بولا
حازق۔۔۔سب دیکھ رہے ہیں۔۔۔زرنین نے اپنا ہاتھ نکالنا چاہا جس پر حازق نے اپنی گرفت اور مضبوط کرلی
کوئی نہیں دیکھ رہا سب باتوں میں مصروف ہیں۔۔۔حازق نے زرنین کی گھبراہٹ کم کرنا چاہی
زرنین خاموشی سے بیٹھ گئی
زرنین۔۔۔حازق نے محبت سے پکارا
زرنین میں وعدہ کرتا ہوں ساری دنیا کی خوشیاں تمہارے قدموں میں رکھ دوں گا۔۔کبھی تمہاری آنکھ میں میری وجہ سے کوئی آنسو نہیں آئے گا۔۔میں تم سے اپنی آخری سانس تک وفا نبھاؤں گا۔۔۔حازق آہستہ آواز میں بول رہا تھا
زرنین خود کو خوش قسمت تصور کر رہی تھی۔۔کب سوچا تھا کہ حازق جیسا مخلص شخص زندگی میں آئے گا
اُس نے نظر اٹھا کر حازق کو دیکھا۔۔۔عزت و احترام,محبت,عقیدت سب کچھ تھا اس کی نگاہ میں
آہ۔۔۔۔ایک چیونٹی نے حازق کے ہاتھ پر کاٹا تھا۔۔۔وہ ماضی کی دنیا سے باہر حال میں آیا۔۔اس نے اپنی جیب سے موبائل نکالا اور نکاح کی تصویریں دیکھنے لگا
#######
وہ کب سے جائے نماز پر بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔۔۔آج حمید کا قتل ہوئے ایک مہینہ ہوچکا تھا۔۔
اللہ جی آپ تو جانتے ہیں نا میرے بابا کتنے اچھے تھے۔۔انہوں نے تو کبھی کسی کے ساتھ برا نہیں کیا۔۔پھر کس کی دشمنی تھی ان سے۔۔۔زرنین کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ رہا تھا
کیوں چھینا میرے بابا کو مجھ سے۔۔اماں کے جانے کے بعد بابا نے مجھے کبھی ان کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔۔آپ نے بابا کو بھی چھین لیا مجھ سے۔۔زرنین شکوہ کر رہی تھی۔۔۔اُس پاک ذات سے جس کی مرضی کے بنا ایک پتا بھی نہیں ہل سکتا۔۔۔روتے روتے اس کی ہچکی بندھ گئی۔۔اس نے بے دم ہو کر اپنا سر سجدے میں گرا دیا
########
مہر جمال اپنی اہلیہ زوجاجہ کے ساتھ گاؤں میں رہتے تھے ان کے دو بیٹے تھے
بڑا بیٹا رشید جو شروع سے ہی کاہل تھا۔۔اور ہر وقت امیر ہونے کے منصوبے بناتا رہتا جبکہ چھوٹا بیٹا حمید بہت محنتی اور ماں باپ سے محبت کرنے والا تھا
جمال نے اپنی زندگی میں ہی زرنین اور حازق کا رشتہ کر دیا تھا۔۔۔جمال کی اچانک موت کے کچھ عرصہ بعد زوجاجہ بیگم کے کہنے پر زرنین اور حازق کا نکاح کروا دیا گیا
نکاح کے تین سال بعد حمید کا قتل ہوگیا۔۔ اور کوئی نہیں جان سکا کہ قتل کس نے کیا ہے۔۔۔زرنین بیمار رہنے لگی تھی۔۔۔ زوجاجہ بیگم کا حال بھی کچھ ٹھیک نہ تھا۔۔۔پہلے شوہر کی موت کا صدمہ اور اب جوان بیٹے کی موت نے کلیجے کو چیڑ کر رکھ دیا تھا
وہ چاہتی تھیں کہ جلد از جلد زرنین کی رخصتی کر دی جائے تاکہ وہ اس غم سے نکل جائے
########
اماں جان میں زرنین کی رخصتی چاہتا ہوں۔۔۔حازق زوجاجہ بیگم سے ملاقات کرنے آیا تھا
زوجاجہ بیگم نے حازق کو محبت بھری نظروں سے دیکھا۔۔وہ کہیں سے بھی رشید کی اولاد نہیں لگتا تھا
اماں جان۔۔۔میں کچھ کہہ رہا ہوں آپ سے۔۔اُس نے لاڈ سے اپنا سر زوجاجہ کی گود میں رکھ دیا
ہاں میری جان میں سن رہی ہوں۔۔میں بھی یہی چاہتی ہوں۔۔حمید کے موت کے بعد زرنین پہلے سے زیادہ خود میں سمٹ گئی ہے۔۔وہ حمید کو اپنا دوست مانتی تھی۔۔زہرہ (زرنین کی ماں)کی وفات کے وقت زرنین بہت چھوٹی تھی۔۔تب سے اب تک حمید نے اسے کبھی ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔۔اور اب حمید کے بعد اس نے خود کو کمرے تک محدود کر دیا ہے۔۔۔زوجاجہ بیگم کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب امنڈ آیا تھا
حازق نے اپنا سر گود سے اٹھایا
زوجاجہ کے لب کانپ رہے تھے
اماں جان۔۔۔حازق نے آگے بڑھ کر زوجاجہ کو اپنے سینے سے لگا لیا
اماں جان سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔میں زرنین کو بہت خوش رکھوں گا انشاءاللہ۔۔۔ حازق نے زوجاجہ کے آنسو صاف کیے
ہاں میرے بچے میں جانتی ہوں۔۔تبھی تو تمہارے دادا جان یہ فیصلہ کیا تھا کہ تم دونوں کو جیون ساتھی بنادیا جائے۔۔۔ زوجاجہ نے مسکرا کر کہا
اماں جان مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی۔۔حازق کو صبح والی بات یاد آگئی تھی۔۔وہ زوجاجہ بیگم سے پوچھنا چاہتا تھا کہ دادا جان نے اس کے والد کو ایک زمین جبکہ حمید چچا کو دو زمینیں کیوں دیں
کیا بات کرنی تھی۔۔۔زوجاجہ بیساکھی کا سہارا لے کر کھڑی ہوئی
اماں جان وہ آج صبح میں نے بابا سائیں سے بات کی تھی رخصتی کے بارے۔۔
اماں جان۔۔۔زرنین بی بی کو کچھ ہوگیا ہے۔۔۔حازق کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی گھر کی ملازمہ گھبرائی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی
کیا ہوا ہے زرنین کو۔۔۔ حازق نے پریشانی سے پوچھا اور اماں جان کو بازو سے تھام کر کمرے سے باہر نکالا
وہ۔۔۔ صاحب جی میں ان کے کمرے میں کھانا لے کر گئی تھی۔۔وہ جائے نماز پر بیہوش پڑئ تھی۔۔۔ملازمہ نے گھبراتے ہوئے جواب دیا
حازق میرے بچے مجھے زرنین کے پاس لے چل۔۔زوجاجہ مدھم آواز میں بولی
جی اماں جان۔۔۔حازق زوجاجہ کو سہارا دیتا زرنین کے کمرے کی جانب چل دیا
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...