زرین کی گمشدگی کی اطلاع سبکو معلوم ہونے لگی ۔ حنا بیگم سرمد آغا دکھ اور غم سے نڈھال ہو چکے تھے ۔ فارم ہاؤس کا چپا چپا چھان مارنے کے باوجود زرین کا پتا نہیں چل سکا ۔
دولہا سمیع اور باراتیوں نے بھی هر جگہ ڈھونڈھنے میں مدد کی ۔ کچھ کا کہنا یہ تھا کہ کہیں خدانخواستہ کوئی جنگلی جانور نا اٹھا کر لے گیا ہو ۔ لہٰذا ارد گرد کے تمام علاقے کو دیکھا گیا ۔سب طرف مایوسی ہوئی ۔
رات گئے سب تھک ہار کر فارم ہاؤس واپس آ گئے ۔
پریشانی اور دکھ سے سرمد آغا کی حالت تشویشناک ہوتی جا رھی تھی ۔ سعد اور رضی نے کچھ لوگوں کو ساتھ لیا اور ملازموں کے اس کمرے میں پہنچ گئے جہاں انسانی ہڈیوں کا انبار لگا ہوا تھا ۔ وہیں انہوں نے ملازمہ کے پھٹے کپڑے دیکھے اور یقین کر لیا کہ اسکی ہڈیاں بھی یہاں سے ہی ملیں گی ۔
رضی کو شک تھا کہ کہیں زرین کے ساتھ بھی ایسا حادثہ نا ہوا ہو ۔ یہ سوچ کر اسے جھر جھری سی آ گئی اور اسکی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ۔
ساری رات کے گزر جانے کا کسی کو احساس تک نا ہوا ۔ صبح کی روشنی میں ایک مرتبہ پھر سے سب زرین کو ڈھونڈنے نکل کھڑے ہوۓ۔ واپسی پر سب نے دیکھا فارم ہاؤس کی روشنیاں قمقمے وہ رونق قیمتی سامان سب ختم ہو چکے تھے ۔ فارم ہاؤس اپنی اسی پرانی اور بوسیدہ حالت میں آ چکا تھا ۔ ارد گرد کچھ گھر بھی دکھائی دیئے گئے ۔ فارم ہاؤس میں ایک ایک لمحہ صدیوں پر محیط دکھائی دینے لگا ۔
سمیع کے دل میں کچھ شک سا انے لگا ۔ وہ اکیلے ارد گرد کے علاقے دیکھنے نکل گیا ۔ چلتے چلتے وہ جنگل کی طرف بڑھنے لگا ۔ جنگل کے بیچ جا کر اسے گھنگروں کی آواز انے لگی ۔ سمیع نے آواز کو سنکر اس سمت چلنے لگا ۔ کافی دور پیچھا کرنے کے بعد وہ آواز کے قریب پہنچا تو دیکھا زرین عروسی لباس میں ملبوس خراماں خراماں چلتی جا رھی تھی ۔ اس سے قبل کہ سمیع اسے آواز دیتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
ظہر کی نماز کا وقت ہو چلا تو مولوی صاحب نے فارم ہاؤس کے لان میں اذان دی اور سبکو نماز کیلیے اکھٹا کیا ۔
تمام لوگوں نےصفیں باندھ لیں ۔
مردوں کی صفوں سے پیچھے خواتین نے بھی اپنی صفوں میں ترتیب دی اور سب نے باجماعت نماز ادا کی ۔
نماز کے بعد مولوی صاحب نے سرمد آغا سے کہا۔ آپ لوگوں کی باتوں سے اور زرین بیٹی کے اس طرح غائب ہو جانے سے صاف ظاہر ھے کہ اس فارم ہاؤس میں جنّات موجود تھے ۔ اور اب اس فارم ہاؤس کی حالت بھی یہی کہہ رھی ھے کہ یہاں ایسی مخلوق آباد تھی ۔
کل فارم ہاؤس ایک خوبصورت محل دکھائی دے رہا تھا اور آج اسکی خستہ حالی یہ بتا رھی ھے جیسے اب وہ مخلوق یہاں سے جا چکی ھے ۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ھے کہ زرین بیٹی کا نکاح کسی جن زاد سے ہوا اور وہ اسے اپنی دنیا میں لے جا چکا ھے ۔ نکاح نامہ پر اسی کے دستخط نمودار ہوتے ہونگے ۔ مولوی صاحب ابھی آن باتوں کا تذکرہ کر رھے تھے کہ انہیں دورسے کوئی سائیکل سوار فارم ہاؤس اتا دکھائی دیا ۔ قریب انے پر اس نے سبکو دیکھا اور ادب سے سلام پیش کیا ۔ سرمد آغا نے پہچاننے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی ۔ اس سے پہلے کہ سرمد آغا کچھ کہتے اس نے کہا ۔ سلام صاحب ۔ آپ سب کس وقت تشریف لائے ۔ مجھے بتاتے میں تھوڑی بہت صفائی کروا دیتا ۔ بس دس منٹ کے لیے بازار سے سودا لینے گیا تھا ۔
رضی اسکی بات کا مطلب سمجھ کر بولا تو دس منٹ پہلے کہاں تھے آپ ۔
مجھے کہاں جانا ھے بیٹا ۔ جب سے سرمد اور سلمان صاحب یہاں چھوڑ کر گئے ہیں تب سے اب تک چوکیداری کرتا ہوں ۔ آپ لوگ بھی آج برسوں بعد لوٹے ہیں ۔
رضی نے حیرت سے پوچھا اور باقی کے ملازم صابر ‘شوکت اور انکے ساتھی وغیرہ کہاں ہیں ۔
انکو دنیا سے گئے ہووے زمانہ بیت گیا ۔ آپ نے تو برسوں یہاں کا رخ نہیں کیا ۔میں سب بتاتا ہوں آپ آرام کر لیں ابھی ابھی تھکے ہارے تو پہنچے ہیں ۔
لیکن بابا ہم کو آے آج چوتھا دن ھے ۔رضی نے جان بوجھ کر کہا ۔ چوکیدار نے ہنس کر کہا ۔ میں نے برسوں نمک کھایا ھے اپکا ۔ میں نمک حرامی نہیں دکھاؤں گا صاب ۔ میں ابھی دس منٹ پہلے ہی تو گیا تھا ۔ اور آپ لوگ میرے بعد ہی آ گئے ۔ پھر اس نے اپنی بیوی کو آواز لگائی ۔
زلیخا ادھر آؤ دیکھو کون آیا ھے ۔ زلیخا کو دیکھ کر رضی ‘ سعد ‘ سرمد آغا اور صمد آغا کی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی ۔ زلیخا وہی عورت تھی جو انکو راستے میں بار بار ملتی رھی ۔ اس نے اتے ہی سبکو سلام کیا اور خوشدلی سے سبکو باری باری خوش آمدید کہنے لگی اور بھاگ بھاگ کر بیٹھنے کے لیے کرسی موڑھے پیش کرنے لگی جیسے یہ ابھی فارم ہاؤس پہنچے ہوں ۔
یہی تھی وہ جو ہمیں راستے میں ملیں ۔ جنہوں نے کہا تھا کہ شادی تو یہیں ہوگی ۔ سعد نے شور مچا دیا ۔ حنا بیگم نے زلیخا کو پانی کے بہانے یہاں سے بھیج دیا تو رضی نے کہا اس عورت کو جانے مت دیں ۔ یہی ہمیں بتائے گئی اصّل بات ۔
سرمد آغا نے اس کو بتایا کہ ہم پچھلے چار دن سے یہاں ہیں اور ہماری بیٹی زرین یہاں کھو چکی ھے ۔ ملازم رمضان نے بتایا کہ صاب جی آپ نے تو بہت زیادہ دیر کر دی۔ زرین کو دفنائے ایک زمانہ بیت گیا ۔ زرین کی پیدایش کے بعد آپ لوگ یہاں سے چلے گئےتھے ۔ اتنے برس تک کوئی یہاں آیا بھی تو نہیں ۔ اب رمضان کی باتیں سبکو چکرا دینے کیلئے کافی تھیں ۔ حنا بیگم کی حالت بھی خاصی خراب ہونے لگی ۔ انہوں نے رمضان کو اشارے سے چپ رہنے کو کہا ۔ فارم ہاؤس سے زرین کے بغیر میں یہاں سے ہرگز نہیں جاؤں گا ۔ سرمد آغا نے روتے ہوئے کہا ۔ اور انہوں نے رمضان کو مختصرا ساری بات بتا دی ۔ بات سنتے ہی زلیخا اور حنا بیگم کی نظر اپس میں ملی اور دونوں کھسیانی سی نظر انے لگی ۔ جیسے کوئی تو بات ھے ان دونوں میں ۔ مولوی صاحب جو دور بیٹھے تمام ماجرا دیکھ رھے تھے ۔ مولوی صاحب کافی دیر تک سوچتے رھے اور بولے ۔ سرمد صاحب میں آپ کی بیگم سے چند سوالات پوچھنا چاهتا ہوں اگر آپ کی اجازت ہو تو ۔
حنا بیگم نے سرمد آغا کے کہنے سے پہلے ہی بتانا شروع کر دیا ۔
آج سے بیس برس پہلے کی بات ھے ۔ میری شادی کو سات سال گزر چکے تھے اور میرے ہاں اولاد نہیں تھی ۔ سرمد آغا بھی کافی پریشان رہنے لگے تھے ۔ پھر اللہ نے ہم پر مہربانی کی اور زرین کی آمد کی خوشخبری دی ۔ اس وقت میں جو کھانا بناتی غائب ہو جاتا ۔ مجھے یقین ہو گیا کہ یہاں کوئی اور مخلوق بھی آباد ھے ۔ پھر آہستہ آہستہ مجھے اس کی موجودگی کا احساس ہونے لگا ۔ اور وہ مجھے نظر انے لگی ۔ پہلے پہل میں اسے زلیخا سمجھتی تھی ۔ اور وہ بھی امید سے تھی ۔ بعد میں اس نے بتایا کہ وہ زلیخا نہیں ۔ مجھے اعتماد میں لیکر بتایا کہ وہ زلیخا کی شکل میں ایک جن زاد ھے ۔اور اس کے ہاں بچے کی ولادت ہونے والی ھے ۔ اور وہ پچھلے ڈیڑھ سو سال سے اسی جگہ رہ رھی ھے ۔ زلیخا اور میں نے اسکی بہت خدمت کی اور وہ ہم سے کافی خوش تھی ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مردہ بیٹی دی ۔ میں دکھ سے نڈھال تھی ۔ مجھے خود سے زیادہ سرمد آغا کی فکر تھی ۔ میں انھیں دکھی نہیں دیکھ سکتی تھی ۔ پھر اسکے ہاں اسکی بیٹی یعنی جن زادی پیدا ہوئی ۔ اس نے میرے احسان کا بدلا اپنی جن زادی میری گود میں ڈال کر اتار دیا ۔ اور سختی سے منع کیا کہ اس بات کی خبر زلیخا اور میرے علاوہ کسی کو بھی معلوم ہوئی میں اسکی جان لیلونگی اور زرین کو لیجاونگی ۔میں نے ڈر کر سرمد آغا کو بھی نہیں بتایا ۔ مجھے انکی جان کی فکر تھی ۔ رمضان اور زلیخا نے اسی کمرے کے ایک کونے میں ایک قبر کھودی اور ہماری بچی کو دفنا دیا ۔
ہم زرین کو لیکر خوشی خوشی شہر آ گئے ۔ زرین یہ بات جان چکی تھی ۔ وہ ہم دونوں سے بہت محبت کرتی تھی ۔ ایک مرتبہ سرمد آغا پر زرین کے جن باپ نے حملہ کر دیا ۔ زرین نے اس سے مقابلہ کیا اور اس مقابلے میں وہ بیحد زخمی بھی ہوئی۔ اور اپنے باپ کو وہاں سے بھگا دیا ۔ فارم ہاؤس میں اس نے ہم سب کی بہت رکھوالی کی ۔ یہاں تک کہ انکی کھودی ہوئی قبروں میں انہی جنوں کو دفن کردیا ۔ زرین ایک بہت طاقتور جن زاد ھے ۔ اس نے ہم سب سے حقیقی رشتہ نبھایا ۔ اور فارم ہاؤس میں انے والے سب لوگوں کی حفاظت خود کرتی رہی ۔ سوائے اس ملازمہ کے ۔ کیوں کہ اس وقت زرین اپنے باپ کے ساتھ انھیں تسلی دینے میں مصروف تھی ۔ زرین کے لیے سرمد آغا بہت اہم تھے ۔
یہ سب بتا کر حنا بیگم نے رونا شروع کر دیا ۔ سرمد آغا اس بات کو ماننے سے انکار کردیا اور کہنے لگے ۔ میں اب بھی یہی کہونگا ۔ میں زرین کو یہاں چھوڑ کر ہرگز نہیں جاؤنگا ۔
سمیع ہانپتا کانپتا آیا اور کہا کہ اس نے زرین کو بہت عجیب حالت میں دیکھا تھا ۔ وہ چل رہی تھی لیکن اس کے پاؤں زمین پر نہیں تھے ۔ اس نے مجھے مڑ کر دیکھا اور مسکرا کر کہا کہ واپس چلے جاؤ اور واپس میرے پیچھے مت آنا ۔ جل کر بھسم کر دیے جاؤ گے ۔
سرمد آغا نے سمیع کے ہاتھ پکڑتے ہوۓ کہا ۔ مجھے وہاں لے چلو جہاں میری زرین کو دیکھا ۔ میں جل کر بھسم ہو جانا چاهتا ہوں ۔ پر یہاں سے زرین کے بغیر نہیں جا پاؤں گا ۔یہ کہہ کر سرمد آغا نے زارو قطار رونا شروع کر دیا ۔
سرمد آغا اٹھ کر زرین کے کمرے میں آے تو زرین نے مسکرا کر دروازہ کھولا اور بولی ۔ بابا جان میں کب سے آپ کا انتظار کر رھی تھی ۔ سرمد آغا نے زرین کو سینے سے لگا لیا اور بچوں کی طرح رونے لگ پڑے ۔ زرین نے کہا کہ آپ نے تو بیٹی کی شادی کر دی ۔ کیا مجھے رخصت نہیں کرنا ھے آپ نے ۔ پھر اس نے ایک جن زاد سے ملوایا اور کہا ۔ اگر آپ مجھے میرے شوہر کے ساتھ رخصت نہیں کرنا چاہتے تو میں آپ کی بات مانے کو تیار ہوں ۔ میں آپ کی بیٹی ہوں اور رہونگی ۔ اور هر بیٹی کی طرح میں بھی آپ سے ملنے ضرور آیا کرونگی ۔
سرمد آغا زرین کی بات سے بہت خوش ہوۓ ۔ انہوں نے سبکے سامنے اپنی بیٹی زرین کا ہاتھ جن زاد کے ہاتھ میں دے دیا اور خوشی خوشی واپس اپنے گھر واپس چلے آئے
ملتے ہیں ایک اور کہانی کے ساتھ ۔
ختم شد !