زرین بیٹا آپ اب کبھی کسی کے بلانے پر نہیں جاؤ گی جب تک آپ مجھے یا صمد چاچو کو بتا نا دو ۔ صرف چار دن آپ نے بہت اختیاط کرنا ہوگی ۔
بابا آپ بالکل پریشان نا ہوں میں بہت آرام سے ہوں ۔ مجھے فارم ہاؤس سے ڈر بھی نہیں لگتا ۔ میں خوش ہوں ۔ آپ بے فکر ہو جائیں ۔ میری بہادر بیٹی ۔ میری بہت فکر ھے تمہاری ۔ اپنا خیال رکھنا ۔ سرمد آغا زرین کا ہاتھ پکڑ کر باہر سبکے درمیان لے آے۔
فنگشن کے دوران صمد آغا اور سرمد آغا نے سلمان آغا کو ایک سائیڈ پر لے جا کر پوچھا ۔ فارم ہاؤس کو اتنا سجانے کیلیے آپ نے کوئی بندہ بھیجا تھا کیا ۔
سلمان آغا نے کہا کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ اتنا وقت گزر جانے کے بعد بھی فارم ہاؤس اسی طرح خوبصورت اور نیا کیوں لگ رہا ھے ۔ اور یہاں سب نیا سامان رکھ کر کافی خرچہ کیا ہوگا آپ لوگوں نے ۔ سلمان آغا کی اس بات پر دونوں کے پسینے چھوٹ گئے ۔ آخر ایسا کون ھے جس نے رات و رات فارم ہاؤس کی حالت بدل دی ۔ دونوں نے سلمان آغا کو تمام ماجرا بتا کر سب پر نظر رکھنے کو بھی کہا ۔
کھانا لگ چکا تھا ۔ ٹھنڈ کی وجہ سے سبکی بھوک زوروں پر تھی۔
کھانا لگتے ہی سب کھانے کی میز پر ٹوٹ پڑے ۔ حنا بیگم کو ملازمہ کی ضرورت پڑی تو آوازیں دینے پر بھی جب نظر نہیں آئی تو پریشان ہو گئی۔ انہوں نے کسی کو کھانا کھانے کے دوران تنگ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور خود اٹھ کر اسے ڈھونڈنے ادھر ادھر دیکھنے لگیں ۔
ملازمہ کو ڈھونڈھتے ہوۓ وہ زرین کے کمرے تک پہنچ گئی تو انکی سانس اوپر کی اوپر رہ گئی اور بھاگم بھاگ لان تک پہنچ گئی ۔ کافی دیر اپنی سانس بحال کرنے کی کوشش کر تی رہیں ۔ انکے چہرے کا رنگ اڑ چکا تھا ۔ چونکہ سعد’ رضی ‘ صمد آغا اور سرمد آغا ہمہ وقت ہوشیار رہتے تھے ۔ انہوں نےحنا بیگم کی بدلتی رنگت کو دیکھ لیا تھا ۔ سرمد آغا نے حنا بیگم سے پوچھنے کی کوشش کی تو انہوں نے انجان بنکر کر کہہ دیا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ۔ مجھے بس نیند اور تھکاوٹ سے چکر ا گئے تھے ۔
سرمد آغا نے کہا ۔ حنا بیگم مجھے کیوں لگ رہا ھے جیسے آپ کچھ چھپا رھی ہیں مجھ سے ۔
نن ۔نہیں تو میں بھلا آپ سے کیا چھپاؤں گی ۔سرمد آغا نے غور سے حنا بیگم کو دیکھا اور کہا۔ اگر آپ میری بیوی نا ہوتی تو اس بدلتی رنگت کو دیکھتے ہوئے کبھی آپ کی بات کا یقین نہیں کرتا ۔ اور اگر مجھ سے کچھ چھپا رھی ہیں تو بہت غلط کر رھی ہیں ۔
کھانا کھانے کے بعد سب خواتین اپنے اپنے کمروں میں آ گئیں فیملی کے باقی لوگ بھی کھانے سے فارغ ہو کر سونے کی خواہش کرنے لگے ۔سفر اور رات کے فنگشن کی تھکن وجہ سے سبھی نڈھال تھے ۔ ۔ باہر ٹھنڈ کا یہ عالِم ہو چکا تھا کہ مزید بیٹھنا دشوار ہو رہا تھا ۔ آہستہ آہستہ سب کے جانے سے لان میں رونق ختم ہونے لگی ۔ کچھ منچلے لڑکوں نے باہر اپنی محفل سجاۓ رکھی ۔ زرین ‘رمشہ’ اویس ‘ علی ‘حمزہ ‘ سعد’ رضی بھی لان میں موجود رھے ۔علی نے کہا کہ اس فارم ہاؤس کے کافی قصے سن رکھے تھے ۔ چلو آؤ دیکھتے ہیں کہ یہاں کسی جن کا سایہ ھے بھی یا نہیں ۔ مجھے جن کو بلانےآتا ھے ۔ سب نے علی کی بات سے اتفاق کیا اور کہا۔ چلو ایسے رات بھی گزر جاۓ گی اور یادگار رھے گی یہ رات ۔ سعد نے رضی کو معنی خیز نظروں سے دیکھا ۔ حمزہ نے علی کا ساتھ دیا اور کہا مجھے طریقہ پتا ھے ۔ میں بتا سکتا ہوں کہ ہاؤس میں جن ہیں یا نہیں ۔
حمزہ کی بات سنکر سب نے قہقہہ لگایا ۔ رضی اور سعد بھی انکی کھیل میں دلچسبی لینے لگے ۔ جبکہ لڑکیوں نے اعتراض کیا کہ اگر سچ مچ میں جن آ گئے تو ہم کیا کرینگی ۔ علی نے کہا ہم تو شغل لگا رہے ہیں ۔ کچھ نہیں ہوتا بس چپ چاپ بیٹھی رہو اور تماشا دیکھو ۔
حمزہ نے زمین سے چند ہموار پتھر اٹھا کر اوپر نیچے رکھے ۔ پتھر ایسے منتخب گئے تھے کہ جو آسانی سے گر نہیں سکتے تھےاور اوپر نیچے بآسانی رکھے جا سکتے تھے ۔ ۔ حمزہ نے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھا اور کہا ۔ اگر یہاں کوئی جن ذات موجود ہے تو وہ ان تمام پتھروں کو گرا دیگا۔ چند لمحے بعد فضا سے ایک پتنگ کٹ کر آئی اور انہی پتھروں سے جا ٹکرائی اور تمام پتھر بکھر گئے ۔ حمزہ کے اس کھیل سے سب نے خوب انجوے کیا ۔ زرین کے قہقہے فضا میں گونج اٹھے ۔ آج سے پہلے زرین کو اتنا ہنستا کبھی نہیں دیکھا گیا تھا ۔ سعد اور رضی پتھروں کے گرنے سے بہت پریشان ہو گئے تھے ۔ حمزہ کا کھیل سب کیلیے مذاق لیکن رضی اور سعد کیلیے انکی پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا تھا ۔
حمزہ نے کہا چلو مذاق ہی سہی پر مزہ تو آیا نا سبکو ۔ رمشہ خوفزدہ ہو گئی اور اپنے بھائی رضی کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑتے ہوۓ کہا ۔
حمزہ یہ سچ بھی تو ہو سکتا ھے نا ورنہ سوچو اتنے ویرانے میں اس وقت جبکہ سردیوں کے ڈیڑھ بج چکے ہیں پتنگ کہاں سے اڑ کر آ سکتی ھے ۔
سعد نے سبکو غصے سے اندر جانے کو کہا کہ کل بارات ھے زرین کی۔ اور سبکو جلد اٹھنا ھے ۔بہت سے کام نبٹانے ہونگے ۔ دونوں نے اپنی موجودگی میں سبکو اندر بھیج کر تمام بیرونی دروازے بند کر دیے ۔
صمد آغا نے سرمد آغا سے کہا کہ شکر آج پہلا دن خیریت سے گزر گیا اور کوئی نا خوشگوار حادثہ رونما نہیں ہوا ۔
سرمد آغا نے کہا کہ ناخوشگوار واقعہ پیش ہو چکا ھے لیکن میں نے کسی کو کان و کان بھی اس بات کی خبر نہیں ہونے دی ۔ صمد آغا کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں اور بولے کہ ایسا کیا ماجرا ہوا ۔
سرمد آغا نے بتایا کہ جب زرین مجھے کہیں نظر نہیں آئی تو میں خوفزدہ ہو گیا تھا ۔ میں بھاگ کر اندر آیا تو دیکھا ہماری ملازمہ زمین پر زخمی حالت میں پڑی تھیں ۔ میں بھاگ کر کمرے میں گیا اور دیکھا زرین اسی کمرے میں لیٹی ہوئی تھی ۔ اسکے جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا ۔ ملازمہ کی حالت تو باہر دیکھ چکا تھا اور اب میں یہی سمجھ رہا تھا کہ زرین خدانخواستہ اب اس دنیا میں نہیں ھے ۔ مجھے حیرت ہوئی یہ دیکھ کر کہ میرے ایک مرتبہ بلانے پر زرین نے فورا آنکھیں کھول دیں ۔ اور اب اس کمرے سے زرین کی تمام تصاویر بھی غائب ہو چکی ہیں ۔ جب میں باہر آیا تو ملازمہ غائب تھی ۔ میں نے چاروں جانب گھوم پھر کر بھی دیکھ لیا لیکن اس کا نام و نشان بھی نا مل سکا ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...