عبدالرب اُستاد(گلبرگہ)
انتظار حسین کا افسانہ
تخلیقی ادب میں اُردو افسانہ بہت ہی کم عمر صنف ہے ۔اس نے اس کم سنی میں ہی کئی دور دیکھے ہیں ۔مختلف تجربوں اور تبدیلیوں سے آشنا ہوا ہے ۔افہام و تفہیم اور ترسیل کے میدان میں بھی بڑے اہم کام انجام دیے ہیں ۔افسانہ،جسے داستان اور ناول کی ارتقائی شکل گردانا گیا ہے ،اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ پڑھنے کی چیز ہے ،کہ کم سے کم وقت اور الفاظ میں دل نشین انداز اختیار کرتے ہوئے پیش کیا جائے تا کہ کسی وقوع کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
فن کی پیش کشی میں فن کاروں نے مختلف طریقوں کو اپنایا اور فن کو نکھار اور سنوار کر بہتر انداز میں قاری کے سامنے پیش کیا۔ہر فن کار کی یہ خوبی رہی ہے کہ اس نے جس طریقۂ کار کو مناسب سمجھا اور جو گرد و پیش کے حالات سے مطابقت رکھ سکتے ہوں ان کو افسانہ کے ذریعہ پیش کیا ۔کسی نے داستانوی انداز اختیار کیا تو کسی نے حکایتی طرز کو اپنایا،کسی نے قصہ گوئی کو ترجیح دی تو کسی نے بیانیہ میں لکھا ،کسی نے علامتی افسانہ تحریر کیا تو کسی نے تجریدی نمونے پیش کیے۔
انتظار حسین،فن افسانہ نگاری میں اپنی ایک شناخت،الگ سی پہچان اور انفرادیت رکھتے ہیں۔اور اس عہد کے ممتاز افسانہ نگار ہیں۔افسانہ کے لیے انھوں نے زیادہ تر داستانی طرز ،قصص قرآنی ،حکایات اور Mythکے طریقہ کار کو اپنایا اور اس میں وہ کایاب افسانے اُردو ادب کو دئیے جن میں بیسویں صدی کا بہترین افسانہ ’زرد کتا‘ بھی شامل ہے۔یہ افسانہ خالص علامتی افسانہ ہے ۔اس میں بھی انھوں نے قصص اور حکایات کے ذریعہ معاشرہ کی چیرہ دستیوں،سماج میں ہونے والی تبدیلیوں اور سوسائٹی کے انحطاط کو پر اثر انداز میں پیش کیا۔
افسانہ کے آغاز میں افسانہ نگار نے لومڑی کے بچہ کا ذکر کیا ہے اور حضرت شیخ سے اس کی تفسیر چاہی اور اس بھید میں پوشیدہ راز کو جاننا چاہاتو حضرت شیخ نے جواباً کہا کہ اس کو نفس امارہ کہتے ہیں۔
نفس امارہ دراصل یہ وہ نفس ہے جو بدی کی ترغیب دلاتا ہے اور ہمشیہ برائی کی جانب کھینچتا رہتا ہے ۔جھوٹ،دغا،دجل،فریب،دھوکہ،قتل وخون،غرض جتنے اور جس قدر غیر انسانی بلکہ شیطانی وساوس ہیں ان کی طرف لے جانے والا یہ نفس ہوتا ہے ۔اس لیے تلقین کی گئی ہے کہ اس نفس کا مقابلہ کرو اور اس کو ختم کر دو۔ذوقؔ دہلوی نے کہا تھا
نہنگ و اژدھا و شیر گر مارا تو کیا مارا
بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا
چنانچہ لومڑی کے بچہ کا ذکر افسانہ کی ابتدا میں ہی ہوا ہے ۔یہ لومڑی کا بچہ دراصل علامت ہے مکاری ،چالاکی اور دھوکہ بازی کی ،یہی لومڑی کا بچہ جو راوی کے حلق سے نکل کر نیچے گرتا ہے اور اسے کچل کر مار دینا چاہتا ہے گر کرجس قدر وہ کچلتا ہے اسی قدر اور اتنا ہی وہ پھول کر موٹا ہوتا جاتا ہے اور بالآخر ایک زرد کتا بن جاتا ہے ۔
زرد کتا بھی ایک علامت ہے ،زرد + کتا =زرد کتا۔
زردی دلالت کرتی ہے ،یرقان زدگی پر،مدقوق زدگی پر اور بیماری پر،اسی طرح کتا بھی دال کرتا ہے ،گرسنگی پر،بے حیائی پر اور مردار خوری پر ۔اس زرد کتا کے حوالے سے انتظار حسین نے آج کے معاشرے کی عکاسی کی ہے ۔جس سے حقیقی انسان کو یہ تلقین ملتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس معاشرے یا معاشرے کی بے حیائیوں اور برائیوں سے بچاتے ہوئے زندگی گذارے۔
راوی نے حضرت شیخ سے مختلف انداز میں کئی تفاسیر اور حکایتوں کے ذریعہ اس افسانہ کو رقم کیا ہے ۔ افسانہ کے آغاز میں کلام اور قلم کے متعلق یہ جملہ ملتا ہے
’’اے ابو قاسم خضری،لفظ،کلمہ اور لکھناعبادت ہے‘‘
یہاں بڑا لطیف پیرایہ افسانہ نگار نے استعمال کیا ہے ،کہ لفظ ،کلام کے ذریعہ بھی پیش کیا جاسکتا ہے اور تحریر کے ذریعہ بھی۔یہ میڈیم بنتا ہے زبان اور ہاتھ کا۔کہ اس کو مطہر ہو کر استعمال کرنے کی تلقین حضرت شیخ نے فرمائی۔حضور اکرم ﷺنے مسلمان کی تعریف ان الفاظ میں بیان فرمائی
المسلم من سلم المسلمون باید یہ و لسانہ
مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ سے اور زبان سے دوسرے مسلمان کو سلامتی ملے۔یعنی وہ امن میں رہے ۔یہاں مسلمان دراصل انسانی معنوں میں لیں تو یہ کل بنی نوع پر صادق آتا ہے ۔اس کے بعد افسانہ میں قرآن پاک کی یہ آیت (ترجمہ) ملتی ہے
’’پس افسوس ہے ان کے لیے بوجہ اس کے جو انھوں نے اپنے ہاتھوں سے لکھا اور افسوس ہے ان کے لیے بوجہ اس کے جو کچھ وہ اس سے کماتے ہیں‘‘
کہ ہاتھ جس سے لکھاجاتا ہے اور کمایا جاتا ہے ،یعنی کام کرنے کے لیے ہاتھ ہی معاون ہوتے ہیں ،یہی وہ ہاتھ ہیں جن سے خیر کا کام بھی لیا جاسکتا ہے اور شر کا بھی۔یہی ہیں جو دوسروں کی مدد بھی کرتے ہیں اور موجب آزار بھی بنتے ہیں ،کہ شیخ اس ہاتھ سے پناہ مانگتے ہیں کیونکہ انجانے میں وہ دشمن سے مل گیا تھا ۔
اب کہاں وہ خود احتسابی ہے جب کہ عامت علیم یہ ہے کہ ہر شخس کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے ۔حلال اور حرام میں تمیز کرنی چاہیے اور حرام کو حرام قرار دے کر حلال کو اپنانا چاہے۔اتنی جراء ت ہر شخص میں ہونی چاہیے۔
چنانچہ معاشرے کا معاشرہ اس دلدل میں دھنسا ہوا ہے اور وہ سچ اور جھوٹ کی تمیز سے عاری ہوگیا ہے اور اگر جانتا بھی ہے تو اقرار کرنے کی ہمت اور جرا ء ت نہیں رہی ۔مشرق جسے روحانیت سے تعبیر کیا جاتا ہے،بلکہ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کلام پاک میں جتنے انبیا کا ذکر آیا ہے وہ تمام کے تمام ایشیا میں یعنی مشرق میں نازل ہوئے ہیں۔اس طرح یہ روحانیت کا منبع ٹھہرتا ہے۔برخلاف اس کے مغرب مادیت سے تعبیر ہے ، یہاں مشرق و مغرب کی جنگ نہیں بلکہ انسانی ضمیر میں جو مشرق و مغرب آباد ہیں اس کی جنگ ہے ۔روحانیت اور مادیت جو ازل سے نبرد آزما رہے ہیں۔انسان مادیت کو کچل کر روحانیت کی طرف آئے تو ہی اس کی تطہیر ممکن ہے اور اس تطہیر کے لیے غیر معمولی مجاہدہ اور مشاہدہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔
معاشرے میں عالم،دانشور،درویش بزرگ اور شاعر کو ایک مقام حاصل ہے ۔معاشرے میں کیا امیر اور کیا غریب ،کیا حاکم اور کیا رعایا،سب ہی ان کے موید اور معتقد ہوتے ہیں،ان کا احترام اور عزت کرتے ہیں اور جب یہ اپنے اپنے منصب سے رو گردانی کرتے ہیں تو معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے ۔
چنانچہ زرد کتے کو علامت بناتے ہوئے انتظار حسین نے پورے معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھا اور حکایتی انداز میں پر تاثیر الفاظ میں بیان کیا مکالمہ دیکھے
یا شیخ زرد کتا کیا ہے؟
فرمایا،زرد کتا تیرا نفس ہے
میں نے پوچھا ،یا شیخ نفس کیا ہے؟
فرمایا،طمع دنیا،پستی ہے
میں نے استفسار کیا،یا شیخ پستی کیا ہے ؟
فرپستی علم کا فقدان ہے
میں ملتجی ہوا ،یا شیخ علم کا فقدان کیا ہے؟ فرمایا دانش مندوں کی بہتات ہے۔
یہاں سے ہر اس کیفیت کو سمجھانے کے لیے افسانہ نگار نے حکایتوں کا سہارا لیا اور بڑے جامع انداز میں ان چیزوں کو اور ان کیفیات کو پیش کر دیا جو آج ہمارے معاشرے کا گویا ناسور بنے ہیں ۔بقول اسدؔ اعجاز
جبکہ ہر فرد بشر کرنے لگے حکمت کی بات
اس میں کوئی شک نہیں اہل نظر خطرے میں ہے
تاریخ شاہد ہے کہ عالم دانش مند،درویش اور شاعر جو اپنے معاشرے کے رہنما ہوتے ہیں جن کے علم اور دانش مندی ،دعاؤں اور بصیرتوں سے اہل معاشرہ طمانیت و سکون محسوس کرتا ہے ۔یہ کبھی بھی اہل زر کے دست نگر نہیں رہے ،بلکہ بادشاہان اور امراء ان سے فیض حاصل کرتے رہے اور جب کبھی کبھی یہ ان امراء اور بادشاہان کے ٹکڑوں پر گرسنہ کتوں کی طرح ٹوٹ پڑنے لگے تو نہ صرف ان کی عزت جاتی رہی بلکہ معاشرہ بھی بے بس ہونے لگا کہ جب اتنی باعزت شخصیتیں ہی دولت و ثروت ،کرسی و عظمت اور شہرت و عزت کے پیچھے پڑجائیں تو عام آدمی کیا کرے،کہ آج ہر بونا بھی خود کو نہ صرف قد آور سمجھ رہا ہے بلکہ باور کرانے میں کوشاں ہے ۔چند سکوں کے عوض یہ عالم فتویٰ دینے پر،دانش مند غلط مشورہ دینے پر ،درویش بے روح دعاؤں پر اور شاعر بلا وجہ قصیدہ خوانی پر مامور نظر آتے ہیں۔اب نہ عالم کا علم رہا اور نہ عمل،نہ دانشمند کی بصیرت رہی نہ دانشوری،نہ درویش میں قناعت رہی نہ شکر گذاری ،اس طرح نہ شاعر کے کلام میں وہ گہرائی و گیرائی رہی نہ حکمت ،بقول جگرؔ
کاریگران شعر سے پوچھے کوئی جگرؔ
سب کچھ تو ہے مگر یہ کمی کیوں اثر میں ہے
قرآن حکیم میں اللہ جل شانہ، فرماتے ہیں
’’ہم نے زمین میں تمہارا ٹھکانہ بنایا اور اس میں سامان معیشت پید ا کیے (مگر)تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو‘‘(۱۰ : ۷)
بقول مختار مسعود
’’ناشکر گزاری کا نتیجہ بے ہنری کی صورت میں سامنے آتا ہے اور جہاں ناشکر گزاری اور بے ہنر جمع ہوجائیں وہاں منافقت کا دور دورہ رہتا ہے ،جب اشراف کی حاجت ہی نہ رہے تو کوئی ان کی تلاش اور دل جوئی کیوں کرے۔ہنر ور کی قدر ناشناسی سے بے ہنری کو فروغ ملتا ہے ،کم ظرف کو سر آنکھوں پر بٹھایا جائے تو اشراف کی عزت میں کمی ہوجاتی ہے ‘‘
چنانچہ یہی زرد کتا یعنی نفس امارہ ،انسان کی ہر راہ کے ہر موڑ پر سد راہ بنا کھڑا ہوتا ہے اور جب جب اس کی سرکوبی کرنا چاہے وہ اور قوی اور توانا بن کر سامنے آتا ہے اگر انسان عزم محکم اور مصمم ارادے سے اس کا مقابلہ کرے تو کوئی بعید نہیں کہ وہ پیچھا نہ چھوڑ دے۔مگر اس کے لے شرط یہی ہے کہ بقول مختار مسعود
ــ’’ دل تشکر کی طرف آئے ،دماغ ہنر کی طرف اور زبان حق کی طرف مائل ہو‘‘
غرض پورے افسانے میں گویا آج کا انسان ،نفس امارہ میں غلطاں نظر آتا ہے اور اسی میں رُل رہا ہے اگروہ کوشش کرے تو نفس امارہ سے نکل کر نفس لوامہ میں داخل ہوسکتا ہے اور پھر ترقی کرتا ہوا نفس مطمئنہ حاصل کرسکتا ہے جو انسانیت کی معراج ہے ۔
یونس خان (سرگودھا)
قدیم چینی شاعری
قدیم دور سے ہی چین میں شاعری کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ روایتی طور پر اسے سِی، شِی اورکُو میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ جب کہ نثری نظم کو فُو کہا جاتا ہے۔ آج کے جدید دور میں مغربی انداز میں آزاد نظم بھی لکھی جا رہی ہے۔ روایتی طور پر تمام چینی شاعری مقفیٰ ہے، لیکن قدیم دور کے سارے ہم قافیہ متن کا شمار شاعری میں نہیں کیا جاتا۔ مثال کے طور آئی چِنگ جس کے مصرعے ہم قافیہ تو ہیں لیکن انکا شمار شاعری میں نہیں کیا جاتا۔ اس کا موازنہ قدیم یونان کے قبل از سقراط دور کے فلسفے سے کیا جا سکتا ہے جو کہ زیادہ تر شاعری کی صورت میں ہے۔ ( آئی چِنگ کا شمار دنیائے ادب کی چند اہم کتابوں میں ہوتا ہے۔ آئی چنگ یا یِی جنگ کا مطلب ہے ’تبدیلیوں کی کتاب‘ ۔ ہزاروں سالوں پر مشتمل چینی دانائی اس میں شامل ہے۔ یہ چینی فلسفے کے دونوں گروہوں کنفیوشس مت اور تاؤمت کی مشترکہ اساس ہے۔)
شِی کا لفظی مطلب شاعری ہے جسے ہر طرح کی چینی شاعری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اس میں سِی اور کُو بھی شامل ہیں لیکن عام طور پر اسکا اشارہ اس بہترین شاعری کی طرف ہوتا ہے جو تانگ دورمیں اپنی انتہائی عروج پر تھی ۔ بعد ازاں بیسویں صدی میں قدیم اور جدید شاعری میں امتیاز کے لئے قدیم شاعری کو جِی یو شِی اور نئی شاعری کو زِن شی کہا جانے لگا۔ابتدا ئی دور کی بہت ساری گمنام نظموں اور بعد میں آنے والے اُن شاعروں کی نظموں کو جنہیں شِی کے انداز میں لکھا گیا تھا کو گُو شی یعنی قدیم نظمیں کہا جاتا ہے ۔ گُو شِی کے لکھاریوں پر مصرعے کے وزن اور قافیے کی پابندی کے علاوہ کوئی رسمی پابندی نہ تھی اس لئے اسے کہانی بیان کرنے کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔ گُو شِی بے شماربڑے شاعروں نے لکھی ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ نمایاں نام لِی بائی یا لِی پُوکا ہے۔
پانچویں صدی عیسوی میں پابند نظم بھی کہی جانے لگی جسے تانگ دور میں انتہائی ترقی دی گئی اسے جِن تِی شِی یعنی شاعری کا جدید روپ کہا جانے لگا۔ اس میں آٹھ مصرعوں کی نظم کو لُو شِی، رباعی کو جواِی جو اور اُن نظموں کو جن میں مصرعوں کی تعداد آٹھ سے بڑھ جائے کو پائی لُو کہا جانے لگا۔ وانگ وُوئی اور کوُئی ہاؤ اس نظم کے اولین معمار تھے جبکہ ڈُوفُو نے اسے انتہا پر پہنچا دیا۔ جِن تِی شِی کا ہر مصر ع پانچ یا سات الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ کبھی کبھی اسے چھ الفاظ میں بھی لکھا جاتا ہے۔
ہان دور ( ۲۰۶ ق م تا ۲۲۰ء) میں شِی جِنگ نے ترقی کی اور شاعری فُو کی صورت متشکل ہوئی۔ فُو ایک نظم ہے جو عام طور پر مقفیٰ ہوتی ہے لیکن اس میں نہ تو تعارفی کلمات ہوتے ہیں اور نہ ہی اختتامیہ جیسا کہ نثر میں ہوتا ہے۔ فُو عام طور پر سوال اور جواب کی صورت میں ہوتی ہے۔ ہان دور میں چینی ماہر فلکیات، حساب داں اور موجد ژانگ ہنگ (۱۳۹ء تا ۱۷۸ء) کا شِی کی ترقی میں بہت زیادہ ہاتھ تھا۔ ہان دور کے بعد لاوحدانیت کے دور میں رومانوی طرز کی شاعری جو کہ تاؤ ازم کے اثرات لئے ہوئے تھی نمودار ہوئی ۔ فُو کے مصرعوں کی طوالت مختلف ہوتی ہے۔ اسے عام طور پر پانچ یا پھر سات الفاظ میں لکھا جاتا ہے۔
تانگ دور (۶۱۸ء تا۹۰۷ء) میں کلاسیکل شاعری اپنے نقطہ عروج پر تھی۔ ابتدائی تانگ دور لُو شِی (پابند شعر) ،آٹھ سطری نظم جس کی ہر سطر میں پانچ یا سات الفاظ ہوں، زِی ( علم عروض کی سخت پابندی میں لکھا گیاشعر) ،اور جُو اِی جو ( تراشی ہوئی مقطوع نظم) ،چہار سطری نظم جس کی ہر سطر میں پانچ یا سات الفاظ ہوں، کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ اس دور کے دو ممتاز شاعر ’ لِی بائی‘ یا ’لِی پُو‘ (۷۰۱ء تا ۷۶۲ء) اور ڈو فُو (۷۱۲ء تا ۷۷۰ء) ہیں۔ لِی بائی اپنی شاعری کی تخیل پرستی (romanticism) کے حوالے سے ایک بڑا نام ہے جبکہ دُو فُو کی شاعری میں معاشرے کے لیے کنفیوشس کی اخلاقیات کا سخت قسم کے فرض کا احساس پایا جاتا ہے۔ بعد کے تانگ شاعروں نے بہت زیادہ حقیقت پسندی اور سماجی تنقید کو ترقی دی اور فنِ بیان کو شاندار بنا دیا۔ بعد کے تانگ دور کا ایک مشہور شاعر بائی جووِی (۷۲۴ی تا ۸۴۶ء) ہے جس کی شاعری اپنے دور میں سانس ہی نہیں لیتی ہوئی محسوس ہوتی بلکہ معاشرے پر تنقیدی رائے زنی کرتی ہوئی بھی محسوس ہوتی ہے۔(یہی وہ دور ہے جب مشہور صحابی حضرت سعد ابنِ وقاص نے چین کا دورہ کیا اور سمجھا جاتا ہے کہ آپ کے دورے کے بعد یہاں اسلام کا آغاز ہوا)
بعدا زاں کلاسیکل شاعری عظیم تانگ پیش روؤں کے زیر سایہ خوب پروان چڑھی بعد کے دور میں بہت اچھے شاعر موجود تو رہے لیکن کوئی بھی شاعر بھی اس دور کی گرد تک بھی نہ پہنچ پایا اس طرح کلاسیکل شاعری کا طرز بیان بے معنی ہوتا چلا گیا۔ اس دور میں شاعری کا ایک زیادہ لچک دار ذریعہ منظر عام پر آیا جسے سِی کہا جاتا ہے۔ سِی ہر دل عزیز نغمات کی دھنوں پر لکھی گئی شاعری کی ایک شکل ہے۔ جن میں کچھ کا آغاز وسطی ایشیا سے ہوتا ہے۔ جسے سونگ دور ( ۱۲۷۹ ق م تا ۹۶۰ ق م) میں بھر پور طریقے سے ترقی دی گئی۔ سونگ دور کا شاعر سُو شِی (۱۱۹۱ ق م تا ۱۰۳۷ ق م ) نا صرف سِی بلکہ شِی اور فُو جیسی شاعری میں بھی خوب مہارت رکھتا تھا بلکہ نثر، خطاطی اور نقش کاری میں بھی خوب ماہر تھا۔سُونگ دور کے بعد سِی زیادہ ادبی اور بناوٹی ہوتی چلی گئی اور آزاد نظم کی ایک نئی شکل کُو جس کی بنیاد ہر دل عزیز گیتوں پر رکھی گئی تھی ترقی پاتی چلی گئی۔ کُو سونگ دور میں خوب پروان چڑھی اور اپنی مقبولیت کی انتہاؤں کو چھونے لگی۔ کیونکہ اس نے یوآن دور میں ترقی پائی تھی اس لئے اسے یو آن کو بھی کہاجاتا ہے۔ کُو کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ایک حصے کو سان کُوکہا جاتا ہے اس کا تعلق شاعری سے ہے جبکہ دوسرے حصے کو ذَا کُو کہا جاتا ہے جس کا تعلق چینی غنائیہ یعنی اُوپیرا سے ہے۔ سان کُو اور سِی کا شمار غنائیہ شاعری میں ہوتا ہے جسے کسی مخصوس دھن کو موزوں کرنے کے لئے لکھا جاتا ہے لیکن سان کُو سِی سے اس حوالے سے مختلف ہے کہ یہ عام بول چال کے زیادہ قریب ہے۔ دھن کو مکمل کرنے کے لئے اس میں بہت سارے محمل الفاظ بھی شامل کر دئے جاتے ہیں۔ سِی کے ہر مصرعے میں الفاظ کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔
شِی جِنگ
چینی شاعری کا قدیم ترین دستیاب مجموعہ شِی جِنگ ہے۔ شِی کا مطلب ہے شاعری یا گیت اور جِنگ کا مطلب ہے تحریر یا کلاسک ۔ اس طرح شِی جِنگ کا مطلب ہے’ شاعری کی کتاب ‘ اسے گیتوں، غزلوں، نظموں یا حمدوں کی بیاض بھی کہا جا سکتا ہے ۔ اس میں ۳۰۵ نظمیں ہیں جن میں کچھ ۱۰۰۰ ق م سے پہلے کی بھی ہیں ۔ چینی متن میں ہر نظم کے لئے اس کے شارح ماؤ نے ہر نظم کے لئے ایک نمبر مقرر کیا جسے آج بھی بنیادی حوالے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں شامل بہت ساری نظموں کو شاید صدیوں میں اکٹھا کیا گیا لیکن زیادہ تر کام چُو کے دور تقریباََ۶۰۰ ق م میں ہوا۔ بعد کے ادوار میں شِی چنگ کی بہت ساری تفسیریں اور توضیحات کی گئیں لیکن چینی ادب میں اسکا بہت زیادہ اور ناقابل تردید اثر رہا۔ شِی جنگ نے کلاسیکل شاعری کے لئے اصول و ضوابط اور طرزِ بیان کی حدیں مقرر کیں۔ اس بیاض کی تمام نظمیں چینی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہیں۔ کچھ نظمیں تومعاشرے کے مختلف طبقوں کے لوگوں کے جذبات اور احساسات کو بیان کرتی ہیں جبکہ کچھ ریاست کے معاملات اور واقعات کو بیان کرتی ہیں جبکہ کچھ نظمیں قدرت کے اصولوں کی تشریح کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس میں ایک سو کے قریب درختوں اور پودوں، نوے قسم کے جانوروں اور حشرات الارض، مختلف طرح کے آلات موسیقی، اسلحہ اور بارود عمارتوں، پوشاکوں اور خوراک وغیرہ کا ذکر موجود ہے۔
شِی چنگ کی ہر نظم کے مصرعے چار الفاظ پر مشتمل ہوتے ہیں۔ عام طور پر انکا اختتامیہ ہم قافیہ ہوتا ہے۔ اکثر یہ چار الفاظ چار تصویری خاکے ہوتے ہیں۔ محبت اور شادی کے نغمے عام طور پر تین مصرعوں پر مشتمل ہوتے ہیں ۔
عام طور پر یہ نظمیں زرعی معاشرے کے پس منظر میں لکھی گئی ہیں، محبت، شادی اور شاہی سلسلوں کے متعلق امور پر بحث کرتی ہیں۔ چُو دور چونکہ بنیادی طور پر زراعتی تھا اس لئے ان لوگوں کی خوبصورتی کا تصور زرعی پیداوار کے اضافے سے متعلق تھا۔ اس لئے نظمیں محبت کے غموں اور خوشیوں کے گرد گھومتی ہیں یا پھر بادشاہوں کی بہادری کے کارناموں کی داستان بیان کرتی ہیں۔ جبکہ باقی نظمیں جن کی ابتدا شاید لوک گیتوں سے ہوتی ہے روزمرہ کی آزمائشوں اور محبت، زندگی اور خاندان کے دکھوں اور تکلیفوں کے متعلق ہیں۔
بالعموم چینی شاعری سطحی طور پر بڑی سادہ ہے۔ مغربی تمدن پر شیکسپئر، ملٹن اور دیگر رومانوی شاعروں کی مرصع، مفصل اور ،مسجع شاعری کا اثر ہے۔ یہ تمدن بیانیہ طور پر اس سوچ کی طرف رغبت رکھتا ہے کہ ان کی شاعری کو چند غیر معمولی طور پر ذہین لوگوں نے تخلیق کیا ہے جبکہ چینی تمدن شِی چِنگ کی گمنامی کے زیر اثر ہے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ نظمیں عام انسانوں نے دوسرے عام انسانوں کے لئے لکھیں۔روایتی شاعری کے اس مجموعے کا شمار دنیائے ادب کے قدیم ترین خزانے میں ہوتا ہے۔ شِی چنگ کنفیوشس کے پیروکاروں کی مرتب کردہ پانچ کلاسیکل کتابوں میں سے ایک ہے۔ اسے بہت سارے نامور مصنفین نے اٹھارویں صدی سے اب تک انگریزی زبان میں ترجمہ کیا ہے جن میں سے ایک ایزراپاؤنڈ بھی ہے جس نے اسے’دی کلاسک انتھالوجی ڈیفاینڈ بائی کنفیو شس ‘کے نام سے مرتب کیا۔
چُوسِی
چینی شاعری کا دوسرا قدیم ترین مجموعہ ’چُو سِی‘ یا ’چُو کے نغمے‘ ہے ۔یہ شاعری کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس کا شمار قدیم دور کی پُر اثر شاعری میں ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر اس میں نظمیں ہیں جن کو نیم افسانوی کردار کُو یو آن (۲۷۸ ق م تا ۳۴۰ ء) اور اس کے جانشین سُونگ یو (۴۰۰ ق م) کے نام منسوب کیا گیا ہے۔ اس مجموعے میں نغمے قدیم دور کے شِی جِنگ سے مختلف روایت کو ظاہر کرتے ہیں یہ زیادہ رومانوی اور غنائیت سے بھرپور ہیں۔چُو سِی اٹھاون مختصر اور چھ طویل نظموں پر مشتمل ہے۔شِی کے ہر مصرعے میں الفاظ کی تعدادچار ہوتی ہے جبکہ سِی کے ہر مصرعے میں الفاظ کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔