پاک تندوری ریسٹورنٹ ایمسٹرڈم کا سب سے اچھا پاکستانی ریسٹورنٹ ہے۔ ریستوران کا ہال پاکستانی کلچر پر مبنی خوبصورت تصاویر سے سجا ہوا ، کشادہ اور انتہائی صاف ستھر ا ہے۔ ہم ہال کے اندر داخل ہوئے تو یکلخت جیسے ایک بالکل نئے ماحول کا حصہ بن گئے ۔ باہر اگر یورپین کلچر تھا تو اندر پوری طرح پاکستانی تہذیب و تمدن جلوہ افروز تھی۔ پٹھانے خان کی موسیقی کی مدھر دھنیں کانوں میں رس گھول رہی تھیں۔ داتا دربار لاہور کی بڑی سی تصویر سامنے والی دیوار پر آویزاں تھی۔ ان کے علاوہ فیصل مسجد اسلام آباد کی تصویر،شمالی علاقہ جات کے قدرتی حسن سے مالا مال مناظر،دیہاتی میلوں کی چند تصاویر اور ایسے ہی کئی اور ہمہ جہت اور ہمہ رنگ مناظر ریستوران کی دیواروں پر خوبصورتی سے آویزاں تھے۔ ان مناظر کے درمیان بیٹھ کر اور پاکستان کی لوک موسیقی کی دُھنیں سن کر انسان خود کو یورپ کی بجائے پاکستان میں محسوس کرنے لگتا ہے۔ پاک تندروی ریسٹورنٹ کے ویٹر تعلیم یافتہ اور انتہائی شائستہ واقع ہوئے تھے۔ وہ اُردو ، ڈچ اور انگریزی روانی سے بولنے پر قادر تھے۔
میں اور اظہر وہاں پہنچے تو گل خان ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے تاخیر پر معذرت کی تو اس نے خوش دلی سے کہا’’ کوئی بات نہیں! آپ زیادہ لیٹ نہیں ہوئے۔ ویسے بھی اس ریستوران کا مالک اور عملہ سب میرے واقف ہیں۔ آپ کے آنے تک میں ان سے گپ شپ کر رہا تھا۔ آپ سنائیں آپ کی سیر کیسی جارہی ہے اور کیسا لگا ہمارا یہ شہر ؟ ‘‘گل خان نے موضوع بدلتے ہوئے کہا
’’ بہت اچھا! بہت پسند آیا۔ جہاں تک سیر کا تعلق ہے اس کی تو کوئی حد نہیں ہوتی۔ اتنے بڑے شہر کے لئے جتنے بھی دن ہوں کم ہیں۔ پھر بھی کچھ خاص خاص مقامات اور علاقے میں نے دیکھے ہیں۔ ایمسٹرڈم میں بھی لندن کی طرح بہت سے تاریخی اور یادگار مقامات ہیں۔ صدیوں پرانے کلچر کو زندہ اور محفوظ رکھا ہوا ہے اس شہر نے ۔یہ یقیناَ ان کی اپنے ماضی اور اپنے گزرے ہوئے تاریخی ورثے سے محبت کا ثبوت ہے۔ اپنی روا یات اور اپنے مشاہیر کو زندہ جاوید رکھنے کی بھرپور اور شعوری کوشش کی ہے ان لوگوں نے۔ یہ کام صرف زندہ قومیں ہی کرتی ہیں۔ خود کو، اپنے ماضی کو، اپنی روایات کو، ماضی کے کارناموں کو اور اپنی صدیوں پرانی تہذیب و تمدن کو محفوظ رکھ کر بجا طور پر یہ قوم فخر کی مستحق ہے‘‘
میری باتیں گل خان غور سے سن رہاتھا۔ میری بات ختم ہوئی تو بولا ’’میں اپنے کاروبار میں ا لجھا رہتا ہوں۔ بڑے دنوں بعد اس قسم کی گفتگو سننے کا موقع مل رہا ہے اور بہت اچھا لگ رہا ہے۔ آپ کی بات بالکل درست ہے۔ آج کے ڈچ کو اپنی قوم کے ماضی پر فخر ہے۔ کیوں نہ ہو۔ یہ ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ ڈرائیو کریں تو چند گھنٹوں میں آدمی پورے ملک میں گھوم لے۔ آبادی بھی اتنی زیادہ نہیں ہے۔ لیکن اس چھوٹے سے ملک نے دنیا کے کئی براعظموں پر اپنی فتح و کامرانی کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ اُس دور کے ذرائع رسل وسائل اورہالینڈ کے سائز کو مد نظر رکھیں تو ان کی کامیابیاں حیرت انگیز ہیں‘‘
گل خان جس کا تعلق پاکستان کے سنگلاخ شمالی پہاڑی علاقے سے ہے۔جس نے بچپن پہاڑوں کی گو دمیں بکریاں چراتے گزارا ہے اور جو آج یورپ کے اس ترقی یافتہ ملک کے مرکز میں بہت بڑے کاروبار کا مالک ہے۔ اس کا شمار نہ صرف ہالینڈ بلکہ یورپ کے چند بڑے بزنس مینوں میں ہو تا۔ایک انتہائی پس ماندہ علاقے اور غریب گھرسے نکل کر اس نے جو حیران کن کامیابی حاصل کی ہے۔ میں اس کا پسِ منظر اور تفصیل جاننا چاہتا تھا۔ اسی لئے میں نے گل خان کی دعوت قبول کی تھی۔ یہ کہانی نہ صرف میرے لئے بلکہ دیگر قارئین کے لئے دلچسبی سے خالی نہیں تھی۔
’’ وہ سب تو دُرست ہے لیکن وہ پچھلی نسلوں کے کارنامے ہیں۔آج کی ڈچ قوم کیا کر رہی ہے اور اقوامِِ عالم میں وہ کہاں کھڑے ہیں؟‘‘ میں نے گل خان سے پوچھا
گل خان کے پاس میرے سوال کا جواب تیار تھا اور یہ جواب گل خان جیسا پڑھا لکھا اور حالاتِ حاضرہ پر عمیق نظریں رکھنے والا شخص ہی دے سکتا تھا ۔اس نے ہالینڈ کے ماضی اور حال کی سیاسی،معاشی اور سماجی تصویر کشی یوں کی ’’ آج کی ڈچ قوم بھی کچھ کم نہیں ہے ۔ آج کل جنگوں اور ملکوں کو فتح کرنے او ر وہاں پر اپنی کالونیاں بنانے کا رواج نہیں ہے۔ لیکن معاشی اور سیاسی طور پر دنیا میں اپنا سکہ جمانے کا رواج آج بھی قائم ہے۔ ڈچ معاشی طور پر مضبوط اور سیاسی طور پر آزاد قوم ہے۔ وہ بغیر کسی دباؤ کے اپنے قومی مفا د کے مطابق فیصلے کر نے میں آزاد ہیں۔ آزادی سے دوسرے ممالک سے تعلقات قائم کرتے ہیں اور جہاں ضرورت پڑے آزادانہ فیصلے کرکے اپنے قومی تشخص اور ایک آزاد اور خود مختار قوم کا کردار ادا کرتے ہیں‘‘ گل خان نے شستہ اور رواں اُردو میں اپنی بات جاری رکھی’’ اگر چہ آج بیسویں صدی کے خاتمے پر یورپ قریب سے قریب تر ہو رہا ہے ۔ لیکن ڈچ اپنی شناخت اور اپنے ثقافتی ورثے کو ہر صورت میں زندہ رکھنا چاہیں گے۔ وہ کسی بڑے سیٹ اپ میں شامل ہو کر بھی اپنی انفرادیت اور اپنی پہچان کو ختم کرنے پر کبھی تیار نہیں ہو ں گے۔
آج جب یورپ اکھٹا ہو رہا ہے۔ ڈچ بھی باقی اقوامِ یورپ کے شانہ بشانہ کھڑ ے ہیں۔ وہ کبھی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد نہیں بنائیں گے اور نہ ہی ہٹ دھرمی سے خود کو یورپ سے الگ رکھیں گے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی آزاد انہ حیثیت کو ہر صورت میں برقرار رکھیں گے۔ دوسری طرف ہالینڈ معاشی طور پر انتہائی مضبوط ملک ہے۔ اس کی برآمدات کا دائرہ پوری دنیا میں پھیلا ہو اہے۔ زرعی ترقی کے لئے یہ دنیا بھر کے لئے قابلِ تقلید ملک ہے۔ قدرت نے اس ملک کو ہر نعمت سے دل کھول کر نوازا ہے ۔ ان قدرتی نعمتوں اور مضبوط معیشت کا ثمر ہر ڈچ تک پہنچ رہا ہے۔ دولت کی تقسیم منصفانہ ہے۔ یہاں رہنے والے ہر مرد و زن کو ملک کی معیشت سے اتنا حصہ مل رہا ہے کہ وہ بہت اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ ملک کا سیاسی اور حکومتی نظام بھی ایسا ہے کہ ہر فرد کی یہاں اہمیت ہے اور اس کی آواز سنی جاتی ہے۔ یورپ کے دوسرے جمہوری ممالک کی طرح عدلیہ اور پریس مکمل طور پر آزاد ہے۔ سیاست دان عوام کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں اور ا ن کی دسترس میں رہتے ہیں۔ لوگوں کے مسائل بہت کم ہیں اور جو ہیں حکومتی ادارے تن دہی سے انہیں حل کر نے میں لگے رہتے ہیں۔ اس لئے عوام کو شکایت کا زیادہ موقع نہیں ملتا‘‘
گل خان کی بات ختم ہوئی تو میں نے دوسرا سوال داغ دیا ’’ہالینڈ میں آپ جیسے تارکینِ وطن اور ہالینڈ میں آکر بسنے والے نئے شہریوں کے ساتھ کیا رویہ روا رکھا جاتا ہے۔ حکومتی یا انفرادی سطح پر کسی تعصب کا سامنا تو نہیں کرنا پڑتا؟‘‘
’’حکومتی سطح پر تو ہمیں ہالینڈ کے پرانے شہریوں کے مساوی حقوق حاصل ہیں۔ حکومت باہر سے آنے والے ہنر مند اور کاروباری لوگوں کو خو ش آمدید کہتی ہے۔ تا ہم انفرادی سطح یا بعض اداروں کی جانب سے گاہے بگاہے تعصب کا مظاہرہ ہو جاتاہے۔ لیکن مجموعی طور پر ڈچ ایک مہذب قوم ہے۔ ان میں سے کوئی اگر تعصب کا اظہار کرتا بھی ہے تو اس میں شدت پسندی ہر گز نہیں ہوتی۔ عمومی طور پر ان میں برداشت اور خوش اخلاقی پائی جاتی ہے۔ بعض لوگوں کو باہر سے آکر یہاں بڑے بڑے کاروباروں کے مالک بن جانے والے لوگوں سے حسد تو ہوتی ہے لیکن وہ اس کا اظہار کرنے میں احتیاط کرتے ہیں۔ میرے خیال میں اتنی عصبیت نیچرل ہے اور کوئی بھی قوم اس سے مستشنیٰ قرار نہیں دی جا سکتی‘‘
گل خان سے گفتگو کے دوران اس ریستوران کے سمارٹ اور خوش لباس ویٹر ہمارے آگے مختلف ڈشیں سجاتے جا رہے تھے۔ گل خان نے ہمارے آنے سے پہلے ہی آرڈر دے رکھا تھا۔ اس نے ہماری پسند کی ڈشیں معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میز پر ہرڈش آچکی تھی۔ یہ کھانا اتنا زیادہ تھا کہ تین کے بجائے تیرہ ا فراد کے لئے کافی تھا ۔ جب ہم نے کھانا شروع کیا تو پتہ چلا کہ یہ کسی ماہر باورچی کے ہاتھوں کا کمال ہے۔ ہر ڈش لاجواب تھی۔ انتہائی لذیذ اور نفاست پر مبنی تازہ تازہ بنی ڈشیں اشتہا انگیز تھیں۔ لیکن ڈشیں اتنی زیادہ تھیں کہ ہم ان میں سے صرف چند کو چکھ سکے۔ گل خان کا اصرار تھا کہ ہر ڈش کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ ہم اگر ایسا کرتے تو ہمارے پیٹ کے ساتھ بے انصافی ہو جاتی۔ سفر کے دوران طبیعت خراب ہو جائے تو وہ عذاب سے کم نہیں۔ اس لئے احتیاط لازم تھی ۔ پھر بھی اس رات پاک تندوری میں ہم تینوں سے اتنی احتیاط روا نہیں رکھی جاسکی۔
گل خان پیدائشی طور پر قبائلی علاقے سے تعلق رکھتا تھا ۔ مہمان نوازی ان کی روایت کا حصہ ہے ۔اب تو اس پر خدا کا خصوصی فضل بھی تھا ۔لہذا اسے اپنی روایت نبھانے میں کوئی امر مانع نہیں تھا۔ کھانے کے دوران اور اس کے بعد ہمارے درمیان ہالینڈ اور آسٹریلیا کی باتیں چلتی رہیں۔ گل خان اور اظہر مجھے ہالینڈ کے بارے میں بتاتے رہے۔ گل خان کے سوال پر میں نے انہیں آسٹریلیا کے بارے میں کچھ معلومات بہم پہنچانے کی کوشش کی۔ کھانے اور سویٹ ڈش کے بعد پشاوری قہوے کا دور چلا۔ گل خان کے بارے میں کچھ مزید جاننے کے لئے میرے دل میں سوالات کلبلا رہے تھے۔ لیکن اس سنجیدہ مزاج بزنس مین سے میری اتنی بے تکلفی نہیں تھی کہ اس سے نجی نوعیت کے سوال کر سکوں ۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ اظہر نے گل خان سے پوچھ لیا ’’خان صاحب! آپ کے آبائی علاقے کے آج کل کیا حالات ہیں؟ میں نے سنا ہے کہ وہاں لوگ کافی مشکل زندگی گزارتے ہیں۔ اب اس میں کچھ بہتری آرہی ہے یا نہیں؟ ‘‘
گل خان یہ سوال سن کر سنجیدہ بلکہ اداس نظر آیا ۔ اس اداسی کی وجہ اس کے جواب میں پنہاں تھی’’ پہلے سے یقیناً بہت بہتر ہے ۔لیکن اب بھی ہمارا علاقہ یورپ کے اس ترقی یافتہ معاشرے کے مقابلے میں پتھر کے دور کی عکاسی کرتا ہے ۔ یورپ کو چھوڑیئے، پاکستان کے میدانی علاقوں کی نسبت بھی یہ علاقہ ترقی کی منزلوں میں بہت ہی پیچھے ہے۔ ابھی تک ہم بہت سی بنیادی سہولتوں سے آشنا تک نہیں ہوئے ۔ بہت سارے گاوٗں تعلیم ، علاج معالجہ، بجلی اور رسل و رسائل کی بنیادی سہولتوں سے مکمل طور پر محروم ہیں ۔ سکول دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے جہالت کا اندھیرا آبادی کے وسیع حصے پر اب بھی سایہ فگن ہے ۔ لوگ بیمار ہوتے ہیں تو دیسی ٹوٹکوں اور دم درود سے ہر مرض کورفع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوائیں ہیں نہ ڈاکٹر ، ہیلتھ سینٹر ہیں اور نہ اسپتال ، سڑکیں ہیں اور نہ موٹر گاڑیا ں ۔ ان حالات میں لوگ کسمپرسی کی حالت میں بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔ غربت اتنی ہے کہ وہاں اکثریت کودو وقت کا کھانا بھی دستیاب نہیں ۔ پینے کے لئے صا ف پانی نہیں۔ سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے گاوٗں سردیوں کے چھ چھ ماہ پوری دنیا سے کٹے رہتے ہیں۔ گویا وہاں بہت سے لوگ ابھی تک صدیوں پرانی سہولتوں پر گزارہ کر رہے ہیں۔ ان تک نئے زمانے کی روشنی پہنچی ہے او ر نہ ہی جدید سہولتوں سے انہیں کوئی چھوٹا سا حصہ ملا ہے‘‘
گل خان نے اسکردو او راس کے نواح میں پھیلے پہاڑی علاقے میں دیہات کے باسیوں کے طرزِ حیات اور مسائل پر جو روشنی ڈالی، اس سے میں اور اظہر بھی اداس ہوگئے ۔اداسی کا یہ ماحول رفع کرنے اور گل خان کے بارے میں مزید جاننے کے لئے میں نے پوچھا’’ گل خان ! جیسا کہ آپ نے بتایا کہ اس علاقے میں تعلیمی سہولیات اور ذرائع رسل و رسائل ناکافی ہیں۔ یہ سہولتیں آج سے بیس پچیس سا ل قبل جب آپ وہاں رہتے تھے تو مزید کم ہوں گی ۔ ان حالت میں ان پہاڑوں کی گود میں پرورش پا کر بھی آپ جدید تعلیم کے حصول کی منزلوں تک کیسے پہنچ پائے اور پھر ان برف سے ڈھکے پہاڑوں سے نکل کر یورپ کے اس انتہائی ترقی یا فتہ شہر میں ایک کامیاب بزنس مین کی منزل تک کیسے پہنچے۔ یہ یقیناً حیرت انگیز اور قابلِ رشک کامیابیاں ہیں۔ ہمیں ان کے بارے میں کچھ بتائیں گے؟ ‘‘
میرا سوال سن کر گل خان کے چہرے سے اُداسی زائل ہو گئی اور وہ مسکرانے لگا ۔ مسکراتے مسکراتے وہ کچھ سوچ بھی رہا تھا۔ شاید یہ سوچ رہا تھا کہ بات کہاں سے شروع کروں۔ اس کے بعد گل خان نے ہمیں اپنی پوری کہانی سنائی۔یہ کہانی قدرے طویل ہے۔اس کے باوجود میں اسے احاطہِ تحریر میں لا رہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گل خان جیسے کردار خال خال ہی ملتے ہیں۔گل خان نے نا مساعد حالات کے باوجود اپنی ہمت، محنت اور جدوجہد سے جو مقام حاصل کیا وہ ہمارے نوجوانوں کے لئے ایک روشن مثال ہے۔جو لوگ شارٹ کٹ کے ذریعے راتوں رات کروڑ پتی بننا چاہتے ہیں، اُن کے کے لئے بھی گل خان کی کہانی سبق آموز ثابت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ شارٹ کٹ کمزوروں اور بزدلوں کا طریقہ ہے ۔ درست راستہ قدرے طویل او ر صبر آزما ہو سکتا ہے لیکن اصل کامیابی اسی راستے سے ملتی ہے۔اس کہانی سے دوسرا سبق یہ ملتا ہے کہ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی ۔ مصمم ارادے اورعملِ پیہم سے مشکل ترین منزل بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔بالآخر گل خان نے اپنی کہانی شروع کی۔
’’ گیارہ سال کی عمر تک میں ضلع لداخ میں واقع اپنے چھوٹے سے گاوٗں سے باہر نہیں نکلا تھا۔ میری دنیا پچیس گھروں پر مشتمل یہ چھوٹا سا گاوٗں ہی تھا۔ اس کے باہر کوئی اور دنیا بھی ہے اس کا مجھے بالکل علم نہیں تھا۔ ہمارا گاوٗں لداخ کے قصبے اور سڑک سے دور پہاڑ پر واقع تھا۔ جدید سہولتوں کا وہاں نام و نشان تک نہیں تھا۔ گاوٗں کے لوگ کھیتی باڑی کرتے اور مویشی پالتے تھے۔ انہی سے جو تھوڑی بہت آمدنی ہوتی تھی، اس سے ان کا گزارہ ہوتا تھا۔ مکئی کی روٹی ،دالیں اور سبزیاں لوگوں کی خوراک تھی۔ لیکن اس کی بھی اتنی قلت تھی کہ بمشکل دو وقت کھا سکیں ۔ حالانکہ ہم لوگ بھیڑ بکریاں پالتے تھے لیکن ان کا گوشت کھانے کی استعداد نہیں رکھتے تھے ۔ کیونکہ وہی ہمارا ذریعہ معاش تھیں۔ ہاں کبھی کبھار کوئی بکری بیمار ہو جاتی یا کوئی جنگلی درندہ اسے زخمی کر دیتا تو اسے ذبح کیا جاتا ۔ اس دن پورا گاوٗں گوشت کی چند بوٹیوں سے ضیافت اڑاتا۔
گرمیاں تو پھر بھی آسانی سے گزر جاتیں ۔لیکن موسم سرما اس علاقے کے باشندوں کے لئے ایک طویل امتحان بن کر آتا۔ سردیوں میں بر ف باری سے راستے بند ہو جاتے ۔ جنگل سے لکڑیاں کاٹنا بھی دو بھر ہو جاتا۔ انسان تو انسان، ہماری بھیڑ بکریاں اور مویشی بھی قید ہو کر رہ جاتے ۔ مہینوں تک ہم گھروں میں بند رہتے۔ گرمیوں میں جو کچھ کمایا ہوتا اور جو غلہ جمع ہوتا، اسی سے گھٹ گھٹ کر سردیوں کا پورا موسم گزارنا پڑتا تھا۔ کچے اور ٹوٹے پھوٹے مکانوں میں سردی عذاب بن کر رگوں میں اترتی رہتی۔ لکڑیاں جلا جلا کر سردی سے بچنے کی کوشش کرتے ۔ پہاڑوں کے باسی ہونے کے باوجود لکڑی بھی وافر مقدار میں ہمیں میسر نہیں تھی۔ اول تو ان سوکھے پہاڑوں پر درخت کچھ زیادہ نہیں تھے ۔ جوتھے وہ کچھ خاندانوں کی ملکیت تھے۔ جن سے لکڑی قیمتاً خریدنی پڑتی تھی۔ غریب لوگوں کے پاس اتنی رقم کہاں تھی کہ اپنی مرضی کی مقدار حاصل کر پائیں۔ اس لئے وہ جلانے کی یہ لکڑی سوچ سمجھ کر اور کفایت شعاری سے خرچ کرتے۔ ورنہ عین سردیوں میں ختم ہونے کا اندیشہ رہتا تھا۔
پورے گاوٗں میں ایک ہی دکان تھی اور وہ ہماری تھی۔ یہ دکان میرے دادا کے زمانے سے چلی آرہی تھی ۔ دادا کے گزرنے کے بعد میرے بابا نے اس کاروبار کو جاری رکھا۔ کاروبا ر کیا تھا بمشکل دال روٹی حاصل کرنے کا ذریعہ تھا۔ کاروبار سے زیادہ بابا گاوٗں کے لوگوں کی خدمت کی نیت سے یہ کام کررہے تھے۔ کیونکہ اگر گاوٗں میں یہ واحد دکان بھی نہ ہوتی تو لوگ اشیائے ضرورت کے لئے کہاں بھٹکتے پھرتے ۔ ہمارے گاوٗں کے لوگ ان پڑھ تو تھے ہی، اس پر مستزاد انتہائی سادہ لوح اور تو ہم پرست بھی تھے۔ دکانداری ان میں سے کسی کے بس میں نہیں تھی۔ نہ اُن کا مزاج اس کے لئے موافق تھا۔ آج بھی جب ہمارے علاقے میں سڑک بن گئی ہے۔ سڑک کے کنارے ہوٹل ، چائے خانے اور دکانیں عام ہو گئی ہیں۔ ان دکانوں کے مالک ہزارہ ، پشاور ، مردان، صوابی اور پنجاب کے لوگ ہیں۔ دکانداری اور کاروبارہمارے علاقے کے لوگوں کے بس کی بات نہیں۔ علاوہ ازیں وہ اسے اتنا اچھا بھی نہیں سمجھتے۔ ان کے خیال میں یہ ہندو بنئے کا کام ہے۔ اسی طرح اس دور میں بھی وہاں اکثریت اپنے بچوں کو تعلیم دلانے اور زمانے کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر چلنے کی قائل نہیں ہے۔ جہالت ، توہم پرستی، دیرینہ دشمنیاں، قتل برائے انتقام ، خواتین کے حقوق کی تلفی ، بچیوں کی کم عمری میں شادی ،بے تحاشا اولاد پیدا کرنا اور کام سے جی چرانا،یہ سب کچھ آج بھی وہاں ہور ہا ہے۔ اگرچہ گاہے گاہے اور کوئی کوئی اس دائرے سے باہر نکل رہا ہے لیکن یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
میں اپنے گاوٗں کے بارے میں بتا رہا تھا۔ جس طرح گاوٗں کی واحد دکان ہماری تھی۔ اسی طرح گاوٗں کا واحد فرد جو اُردو لکھ پڑھ سکتا تھا وہ میرا بابا تھا۔ پورے گاوٗں میں
کسی نے خط لکھوانا یا پڑھوانا ہو یہ کام میرے بابا سے لیا جاتا تھا۔ گویا گاوٗں کے باہر کی دنیا سے رابطے کا ذریعہ میرا بابا تھا ۔ورنہ گاوٗں کے لوگ تو مہینوں اور سالوں تک گاوٗں سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ سال میں صر ف چند مرتبہ گاوٗں کے کچھ لوگ ہمارے نزدیک ترین قصبے (یا نسبتاً بڑے گاوٗں ) میں جاتے تھے۔ یہ قصبہ اگرچہ تقریباِِ سات میل کے فاصلے پر واقع ہے لیکن دشوار گزار راستہ ہونے کی وجہ سے اس سے کہیں دور لگتا ہے۔
گاؤں سے باہر نکلنے کا ایک موقع تو سالانہ میلے کا ہے۔ جو ہر سال جون میں اس قصبے سے ملحق واقع ایک بزرگ کے مزار پر منایا جاتا ہے۔ یہ میلہ ویسے تو تین دن جاری رہتا ہے۔ لیکن اصل اور بڑا میلہ آخری دن ہوتا ہے۔ اس میلے کی خاص بات یہ ہے کہ اس موقع پر نہ صرف اس قصبے کے تمام مر د و زن اور بچے یہاں جمع ہوتے ہیں۔ بلکہ گرد و نواح کے متعدد دیہات کے سیکڑوں لوگ اس میں جوق در جوق شرکت کرتے ہیں ۔ یوں لوگ پہاڑوں میں گھرے اپنے اپنے گاوٗں سے باہر نکل کر سا ل میں ایک مرتبہ دوسرے لوگوں سے مل پاتے ہیں۔
اس میلے میں مختلف کھیلوں کے مقابلے شائقین کی دلچسپی کے مرکز ہوتے ہیں۔ ان میں گھوڑ دوڑ، پولو، کتوں، مرغوں او ر بٹیروں کی لڑائی، تیر اندازی اور اسی طرح کے دوسرے دیہی کھیل لوگوں کو پورے سال کی بوریت اور یکسانیت سے نکال کر تازہ دم کر دیتے ہیں۔ اس میلے میں لو گ خرید و فروخت بھی کرتے ہیں۔ کپڑے، عورتوں کے نقلی زیورات اور چوڑیاں (اصل سونے کے زیورات وہاں شاذو نادر ہی لوگ خریدنے کے متحمل ہو سکتے ہیں) مٹھائیاں ، مسالہ جات ، جوتے، آلاتِ کا شتکاری ، بھیڑوں کی اون کترنے کی قینچیاں اور دیگر متعدد اشیاء اس میلے میں لگے عارضی اسٹالوں پر سجی شائقین کی دلچسپی کا مرکز ہو تی ہیں۔ اس سالانہ میلے میں کاشتکاروں کی دلچسپی کا مرکز مویشیوں کی منڈی بھی ہوتی ہے جہاں لوگ اپنی بھیڑ بکریاں فروخت کرتے ہیں۔ کاروباری لوگ بھیڑ بکریاں خرید کر بڑے شہروں اور پنجاب میں پہنچاتے اور منافع کما تے ہیں۔ اس طرح یہ میلہ اس علاقے کے ہر فرد کے لئے انتہائی دلچسپی اور تفریح کا حامل ہوتا ہے۔ لوگ پورا سال اس کا انتظار کرتے ہیں ۔
اس میلے کے علاوہ ہمارے گاوٗں کے لوگ انتہائی مجبوری کے عالم میں شاذونادر گاوٗں سے باہر اس قصبے تک جاتے ہیں۔ یہ مجبوری عموماََ اس وقت پیش آتی ہے جب شدید بیمار لوگوں کو قصبے میں واقع اس سیکڑوں میل کے دائرے میں واحد ڈسپنسری تک پہنچانا ہوتا ہے۔ یہ مرحلہ انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ اگر مریض قدرے بہتر حالت میں ہوتا ہے تو اسے گدھے پر بٹھا کر وہاں لے جایا جاتا ہے۔ اونچا نیچا اور انتہائی دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہ سفر بہت سست اور مریض کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے ۔ زیادہ تر مریضوں کی اس مشکل سفر سے تکلیف مزید بڑھ جاتی ہے ۔ چھ سات میل کا یہ سفر پورے دن میں بمشکل مکمل ہوتا ہے ۔ جس دن گاوٗں کے کسی فرد یا مریض کو قصبے جانا ہوتا ہے وہ کئی دن پہلے سے تیاری شروع کر دیتا ہے۔
یہ سفر ہمیشہ منہ اندھیرے شروع ہوتا ہے اور گرمیوں کے طویل دنوں میں بھی بمشکل سورج ڈوبنے تک قصبے پہنچ پاتے ہیں۔ مناسب جوتے نہ ہونے اور پہاڑی پتھروں پر چلنے سے ان کے پاوٗں زخمی اور جسم تھک کر چور ہو جاتا ہے۔ قصبے میں ایک مسافر خانہ ہے جو دراصل بڑی مسجد کا ہی حصہ ہے۔ اس مسافر خانے میں مسافروں کی مفت رہائش اور طعام کا انتظام ہے۔ اس کا اہتمام علاقے کے امراء اور خانوں نے کیا ہے۔ اس مسافر خانے میں ایک رات قیام کے بعد لوگ قصبے میں درپیش اپنے کام نبٹاتے ہیں۔ خریداری وغیرہ کرتے ہیں۔ دوسری رات بھی مسافرخانے میں گزار کر علیٰ الصبح گاوٗں واپسی کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ قصبے میں واقع واحد سرکاری ڈسپنسری میں کوئی باقاعدہ ڈاکٹر نہیں ہے۔ وہاں صرف ایک کمپونڈر ہے جو اپنی سمجھ کے مطابق اور دستیاب دواوٗں میں سے کچھ دوائیں دے دیتا ہے۔
گاوٗں کے مریضوں کی دوسری قسم کو قصبے لے جانے کا کام اس سے کہیں زیادہ مشکل ، پُر خطر اور بعض اوقات جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ یہ وہ مریض ہوتے ہیں جو زیادہ بیمار ہونے کی وجہ سے گدھے پر بیٹھ کر سفر نہیں کر سکتے۔ ایسے مریضوں کو قصبے لے جانے کا ذریعہ چارپائی ہوتی ہے۔ چارپائی کو اٹھانے کے لئے کم از کم چار صحتمند جوان درکار ہوتے ہیں۔ مریض کی چارپائی کو اٹھا کر پہاڑوں کی چٹانوں ، ڈھلوانوں اور انتہائی دشوار گزار نشیب و فراز پر سفر کرنا دِل گردے کا کام ہے۔ چارپائی اٹھانے والو ں میں سے ایک کا پاوٗں پھسل جائے تو وہ دوسروں کو بھی سیکڑوں فٹ گہری کھائیوں میں دھکیلنے کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ سفر مشکل ، تکلیف دہ اور انتہائی طویل ہوتا ہے۔ خصوصاََ جان بلب مریض کے لئے مزید تکلیف دہ ہوتا ہے۔ لیکن لوگ امید کے سہارے یہ سفر بھی کر گزرتے ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ امید کا یہ چراغ اکثر سحر ہونے سے پہلے ہی گُل ہو جاتا ہے۔
قصبے سے رابطے کے یہ ذرائع بھی گرمیوں کے موسم تک محدود ہیں۔ موسم سرما میں یہ سلسلہ بھی منقطع ہو جاتا ہے۔ خصوصاً برف باری کے مہینوں میں ہمارا رابطہ باقی پوری دنیا سے منقطع ہو جاتا ہے۔ ایسے میں لوگ بیمار ہوتے ہیں تو بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔ گاوٗں میں ٹونے ٹوٹکوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ۔گاوٗں کے لوگ دواوٗں کے نام اور اس کے استعمال سے ناواقف ہیں۔ ایسے میں درد کم کرنے والی دوائی بھی کسی سے نہیں ملتی۔ اس وقت مریضوں اور ان کے لواحقین پر کیا گزرتی ہے۔ یہ وہی لوگ جانتے ہیں ،جوان حالات سے گزرتے ہیں۔
میں نے اپنے گاوٗں اور اس کے حالات پر یہ روشنی اس لئے ڈالی ہے تا کہ آپ کو بتا سکوں کہ میرا بچپن کس ماحول میں گزرا۔ گیارہ سال کی عمر تک میرے لئے کل کائنات یہ گاوٗں ہی تھا۔ گیارہ سال کی عمر میں میں پہلی مرتبہ اپنے بابا کے ساتھ میلے میں گیا تو حیران و پریشان رہ گیا کہ دنیا اس گاوٗں سے باہر بھی واقع ہے۔ اتنے سارے لوگ ایک جگہ اکھٹے دیکھ کر میری عقل دنگ رہ گئی ۔ میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اور تعجب سے میلے اور لوگوں کے جم غفیر کو دیکھتا رہا۔ لوگوں نے اچھے اچھے ملبوسات پہنے ہوئے تھے۔ سجی ہوئی بڑی بڑی دکانیں، رنگ برنگی مٹھائیاں اور کھیل تماشے۔ یہ سب میرے لئے خواب جیسا تھا۔ اس وقت مجھے یہ بالکل معلوم نہیں تھا کہ یہ میلہ اور یہ لوگ اتنی بڑی دنیا اور دنیا کے بڑے بڑے شہروں کے مقابلے میں ایک تنکے کے برابر بھی نہیں ہیں۔
یہ میرے ذہنی اور جسمانی سفر اور مشاہدے کی حیرت انگیز ابتدا تھی ۔ اس کے بعد جو سفر شروع ہو وہ اب تک جاری ہے۔ کچھ دیکھا ہے اور بہت کچھ دیکھنا باقی ہے۔ لیکن میں اس قابل کہاں کہ پوری دنیا دیکھ سکوں ۔ واپس اپنے گاوٗں اور اس کے باسیوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ وہ لوگ اب بھی بقیہ دنیا سے سیکڑوں ہزاروں سال پیچھے ہیں ۔ اگرچہ شاہراہِ ریشم سے ہمارے علاقے میں انقلابی تبدیلی آئی ہے۔ بقیہ دنیا سے رابطہ پہلے کی نسبت کہیں آسان ہو گیا ہے۔ سڑک کے کنارے واقع گاوٗں ، قصبے اور شہر کچھ ترقی کر گئے ہیں۔ لوگ بھی قدرے خوشحال ہو گئے ہیں۔لیکن پہاڑوں پر واقع ہمارا گاوٗں اور اس جیسے بے شمار دوسرے گاوٗں اب بھی دیئے کی روشنی کے سہارے روشن ہیں۔ وہاں نہ برقی روشنی اور نہ ہی علم کی روشنی پہنچی ہے۔ اسپتال ، دوائیں اور ڈاکٹر کچھ بھی نہیں۔ سکول اب بھی بارہ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ لوگوں کا ذریعہ معاش اب بھی وہی،بھیڑ بکریاں اور ٹوٹی پھوٹی کاشتکاری ہے۔ غربت، جہالت ، بیماریاں اور بے روزگاری لوگوں کی زندگی کا جزوِ لا ینفک ہیں ۔ نہ جانے کب ان کی زندگی بدلے گی! بدلے گی بھی یا نہیں‘‘
گل خان اپنی کہانی بیان کرتے کرتے جذباتی ہو گیا۔ اس کی آواز بھرا گئی۔ آنکھیں نم ہو گئیں۔ اس نے رومال سے اپنی آنکھیں صاف کیں۔ میز پر رکھے پانی کے گلاس سے چند گھونٹ لئے اور اپنی کہانی کو جاری رکھا’’ معاف کرنا!میں جذبات کی رو میں بہہ گیا ۔دراصل انسان چاہے ترقی کے جتنے زینے طے کر لے، کہاں سے کہاں پہنچ جائے، وہ اپنی اصل سے کبھی منہ نہیں موڑ سکتا ۔ اپنی جائے پیدائش ، اپنی زمین اور اپنے لوگوں کو کبھی نہیں بھلا سکتا۔میں نے آج کی ترقی یا فتہ دنیا دیکھی ہے اور اپنے لوگوں کی کسمپرسی کو بھی اپنے آنکھوں سے دیکھا ہے۔ان کی بے بسی ، مجبوری اور لاچاری سے اچھی طرح واقف ہوں۔ ان کا خیال آتا تو میری طبیعت میں ایک اُ بال سا آجاتا ہے۔ کاش کہ وہ بھی باقی دنیا کی مانند ایک اچھی، خوشحال اور پرسکون زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔‘‘
میں نے اسی گاوٗں میں آنکھ کھولی۔ بچپن اس کی گلیوں میں کھیلتے گزرا ۔ گیارہ سال کی عمر تک میرے مشاغل میں بکریاں چرانا، ایندھن کی لکڑیاں جمع کرنا اور دکان میں اپنے بابا کی مدد کرنا شامل تھا۔ اس دوران بابا نے مجھے قرآن پاک پڑھنا سکھادیا تھا۔ علاوہ ازیں گنتی اور پہاڑے بھی یاد کروا د یئے۔ تھوڑی بہت اُردو بھی سکھا دی۔مجھے تھوڑا تھوڑا اُردو پڑھنا آیا تو میں نے بابا سے مزید کتابیں منگوالیں۔ یہ ابتدائی جماعتوں کی اور آسان کتابیں تھیں۔ جو میں نے اپنی کوششوں سے پڑھنا سیکھ لیں ۔ بابا کی اُردو اور دوسری تعلیم محدود تھی۔ جہاں مجھے دقت پیش آتیکبھی تو وہ مجھے سمجھا دیتے اور کبھی ان کے لئے بھی یہ مشکل مسئلہ بن جاتا۔ دراصل بابا نے اسکردو کے ایک دینی تعلیم کے ادارے میں تین سال گزارے تھے۔ ان تین سالوں میں انہوں نے قرآن پاک کے ساتھ ساتھ ابتدائی اُردو بھی سیکھ لی تھی ۔لیکن بعد میں گاوٗں کے ماحول میں ان کی اُردو بہتر ہونے کی بجائے مزید کمزور ہو گئی۔
بابانے جب دیکھا کہ مجھے پڑھنے لکھنے کا بہت شوق ہے تو انہوں نے مجھے لداخ کے ایک اسکول میں داخل کروانے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ فیصلہ اتنا آسان نہیں تھا ۔سب سے بڑی مشکل اور رکاوٹ ہماری روایتیں تھیں۔ گاوٗں کے اکثر لوگ اسے غیر ضروری قرار دیتے تھے ۔ دوسری مشکل معاشی تھی ۔دکان سے اور کاشتکاری سے ہماری آمدنی اتنی ہی ہوتی تھی کہ بمشکل دو وقت کا کھانا مہیا ہو سکتا تھا۔ ایسے میں دوسرے قصبے میں مجھے ٹھہرانے اور سکول کے اخراجات کہاں سے آتے۔ اللہ بھلا کرے یہ مسئلہ بابا کے ایک دوست خان محمد نے حل کردیا۔ چاچا خان محمدلداخ میں رہتے تھے۔ بابا دکان کے لئے سودا سلف لانے جاتے تو چاچا خان محمد سے ملاقات ہوتی۔ یہ ملاقاتیں دوستی میں تبدیل ہو گئیں۔ ان کی یہ دوستی میرے لئے نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوئی۔چا چا خان محمد نے نہ صرف مجھے اسکول میں داخل کروا یا بلکہ اپنے گھر میں رکھا۔
سکول کے ہیڈ ماسٹرنے میر ی عمر اور ابتدائی علم دیکھ کر مجھے براہِ راست پانچویں میں داخل کر لیا۔ اگلے چھ سال میں نے لداخ میں چاچا خان محمد کے گھر میں گزارے اورمیڑک پاس کر لیا۔ چا چا خان محمد کا ایک بیٹا جہانداد خان تقریباً میرا ہم عمر ہی تھا۔ اس نے میرے ساتھ آٹھویں تک پڑھا اور پھر اسکول چھوڑ دیا۔ چا چا خان محمد کی بھی میرے بابا کی طرح دکان تھی ۔لیکن یہ خاصی بڑی تھی۔ پرچون خریدنے والے گاہکوں کے علاوہ چھوٹے دکاندار بھی چا چا سے مال خرید کر لے جاتے تھے۔ چا چا روز مرہ ضرورت کی اشیاء کے علاوہ کپڑے اور جوتے بھی فروخت کرتا تھا۔ یہ اشیاء وہ اسکردو اور دوسرے مقامی علاقوں سے ہی لاتا تھا۔ کبھی کبھار وہ راولپنڈی سے بھی مال لاتا تھا۔ میں اور جہانداد اسکول کے بعد دکان میں چاچا خان محمد کی مدد کرتے تھے۔ اس کا کام اچھا چل رہا تھا۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ میں دکانداری کے امور سے بھی آشنا ہوتا چلاگیا۔ میڑک کرنے کے بعد بھی میری
حصولِ تعلیم کی پیاس نہیں بجھی تھی۔ لیکن مسئلہ یہ آڑے آگیا کہ لداخ میں ان دنوں کالج نہیں تھا۔
ایک مرتبہ چاچا خان محمدکپڑا خریدنے پنڈی جانے والا تھا۔ میں نے اس کے ساتھ جانے کی خواہش ظاہر کی۔ اس نے کہا’’ بیٹا! یہ طویل اور دشوار گزارسفر ہے۔ جیپ اور پھر ٹرک کے ذریعے کئی دن کے سفر کے بعد پنڈی پہنچا جاتا ہے۔ یہ سفر مشکل اور تمھارے لئے غیر ضروری ہے‘‘
اس وقت میں نے اپنے دل میں چھپی خواہش چاچا پرظاہر کر دی ’’چاچا! اگر آپ اجازت دیں تو میں پنڈی جا کر نوکری کے لئے قسمت آزمائی کرنا چاہتا ہوں۔ اگر موقع ملا تو وہیں مزید پڑھائی بھی جاری رکھوں گا‘‘
چا چا نے میری طرف دیکھا اور کہا ’’لیکن بیٹا! اس کی اجازت تو تمھیں اپنے بابا سے لینی چاہیے‘‘
’’ ان سے میں نے اجازت لے لی ہے۔ بابانے کہہ دیا ہے کہ مزید تعلیم اور اپنے بہتر مستقبل کے لئے تم جو کچھ بھی کرنا چاہو کر سکتے ہو۔ ویسے بھی چا چا! میٹرک کرنے کے بعد میں اپنے گاوٗں یا یہاں لداخ میں کیا کروں گا ۔میں اسی لئے یہاں رُکا ہوا ہوں کہ موقع ملے تو کہیں اور جا کر کوشش کر سکوں‘‘
چا چا خان محمد جو مجھے اپنے بیٹے کی طرح پیار کرتا تھا، کہنے لگا’’ اگر یہ بات ہے تو میں تمھیں پنڈی ضرور لے کر جاوٗں گا۔ لیکن بیٹا پنڈی مہنگا شہر ہے او روہاں میری جان پہچان بھی کچھ زیادہ نہیں ہے ۔ تم وہاں جا کر رہوگے کہاں؟ اور نوکری نہ ملی تو خرچہ کہاں سے پورا کرو گے؟ ‘‘
میں نے کہا ’’چاچا! اللہ مالک ہے۔ اللہ نے اگر آپ کو وسیلہ بنایا ہے تو وہ آگے بھی کوئی وسیلہ ضرور بنائے گا‘‘
چاچا خان محمد میرے نزدیک آیا۔ میرے سر پر ہاتھ رکھا اور بولا’’ بیٹا! اگر تمھارا ارادہ اتنا پختہ اور خدا پر یقین اتنا کامل ہے تو میں کون ہوتا ہوں تمھیں روکنے والا۔ تم گاوٗں جا کر اپنے بابا اور ماں سے مل آؤ۔ اس کے بعد میں تمھیں پنڈی ضرور لے کر جاوٗں گا‘‘
چا چا کی ہدایت کے مطابق میں گاوٗں گیا۔ بابا اور ماں سے ملا اور ان کی اجازت لے کر واپس لداخ آگیا۔
چاچا پنڈی جانے کی اس طرح تیاری کر رہا تھا جیسے کوئی دوسرے دیس جاتا ہے۔ ان دنوں مخصوص قسم کی جیپیں اس راستے پر چل سکتی تھیں لیکن ان کا کرایہ ہمارے بس سے باہر تھا۔ اس لئے زیادہ تر سفر ہم نے گھوڑوں پر کیا۔ اس کے بعد مجبوراً جیپ اور آخر میں بس کا سہارا لینا پڑا ۔ جس نے تیسرے دن ہمیں پنڈی پہنچایا۔ پنڈی اور راستے میں آنے والے بڑے بڑے شہر دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ اچھے اچھے گھر، رنگ برنگی موٹر گاڑیاں ، چمکتی سڑکیں، بڑی بڑی دکانیں اور بے شمار لوگ دیکھ کر مجھے ایسے لگا کہ میں کسی نئی دنیا میں آگیا ہوں۔ پنڈی میں چاچا خان محمد راجہ بازار کی کچھ مخصوص دکانوں سے مال خریدتا تھا۔ ان میں سے کپڑے کی ایک بڑی دکان کے مالک صلاح الدین صاحب سے چا چا کی اچھی علیک سلیک تھی۔ چا چا نے صلاح الدین صاحب سے میرے متعلق بات کی۔ میری کہانی سن کر صلاح الدین صاحب خاصے متاثر ہوئے۔ دراصل وہ بہت خدا ترس انسان تھے۔ صلاح الدین صاحب نے مجھے اپنی دکان میں ملازمت دے دی اور اپنے ہی چند دوسرے ملازموں کے ساتھ رہائش کا بندوبست بھی کر دیا۔
پنڈی کے علاقے ٹنچ بھاٹہ میں دو کمرے کے چھوٹے سے مکان میں شفٹ ہونے کے بعد میرے نئے سفر کا آغاز ہو گیا۔ پہلی تنخواہ ملتے ہی میں نے ایف اے کی کتابیں خرید لیں ۔ اگلے ہی مہینے میں نے گورڈن کالج میں داخلہ بھی لے لیا۔ صلاح الدین نے کمال شفقت سے میری ڈیوٹی کے اوقات اس طرح مقرر کئے کہ میں روزانہ کالج جانے کے قابل ہو گیا۔ کالج کے بعد دکان پر جاتا۔ رات گئے تک دکان پر کام کرتا۔ رات گھر جا کر پہلے کھانا کھاتا اور دیر تک پڑھائی کر تا رہتا۔ اس طرح زندگی کے شب و روز ماہ و سال میں تبدیل ہوتے چلے گئے ۔ چند سالوں میں میں نے بی اے اور پھر اکنامکس میں ایم اے کر لیا۔ اس دوران صلاح الدین صاحب میرے اوپر اتنا اعتماد کرنے لگے تھے کہ دکان میرے حوالے کر کے کہیں بھی چلے جاتے۔ میں نے نہ صرف دکانداری کے امور سیکھ لئے تھے بلکہ کاروبار کے باقی گر بھی جان گیا تھا۔ اب میر رول اس دکان کے عام ملازم کا نہیں بلکہ مینجر کا تھا۔
صلا ح الدین صاحب کی ایک ہی اولاد ان کی بیٹی تھی جو شادی کر کے اپنے میاں کے ساتھ سعودی عرب چلی گئی۔ صلاح الدین نے اب تک جو کچھ کمایا تھا وہ ان کی بقیہ زندگی کے لئے کافی تھا۔ اس لئے وہ دکان ختم کر کے ریٹائر منٹ کی زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ ان کی صحت بھی اب جواب دیتی جا رہی تھی۔ ان حالات میں کاروبار کو سنبھالنا ان کے لئے مشکل ہوتا جا رہا تھا ۔ انہوں نے دکان بیچنے کا فیصلہ کیا تو سب سے بڑا دھچکا مجھے لگا ۔ اکنامکس میں ایم اے کرنے کے بعد بھی میں نے کسی اور نوکری کے لئے کبھی نہیں سوچا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ صلاح الدین صاحب کو میری ضرورت تھی اور میں انہیں اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی میرا رجحان ہمیشہ بزنس کی طرف ہی رہا ۔میں نے جب بھی اپنے مستقبل کے بارے میں سوچا تو اپنے کاروبار کے بارے میں ہی سوچا۔ شاید اس وجہ سے کہ کاروبار میرے خون میں شامل تھا اور میری پرورش کا حصہ تھا۔
صلاح الدین صاحب کی نوکری چھوڑنے کے بعد میں نے اپنی دکان کھولنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے راجہ بازار میں ہی دکان کرائے پر لینے کی تگ و دو شروع کر دی۔ اس کے لئے
میں نے کچھ بچت بھی کر رکھی تھی۔ لیکن جب وقت آیا تو معلوم ہوا ہے کہ یہ رقم اس مقصد کے لئے ناکافی ہے۔ جتنی رقم میرے پاس تھی اس سے مضافاتی علاقوں میں تو کوئی دکان لی جا سکتی تھی۔ لیکن راجہ بازار جیسے مہنگے کاروباری علاقے میں ایسا ممکن نہیں تھا۔ صلاح الدین صاحب میرے ارادے اور میری تگ و دو سے واقف تھے۔ ایک دن کہنے لگے’’ گل خان! تم دکان لینا چاہتے ہو اور میں بیچنا چاہتا ہوں۔ ادھر اُدھر جانے کی بجائے تم یہی دکان کیوں نہیں لے لیتے‘‘
میں نے کہا’’ میاں صاحب! یہ دکان لینا میرے بس سے باہر ہے ۔ میرے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہے۔ میں چھوٹی اور نئی دکان ڈھونڈ رہا ہوں ۔ آ پ کی دکان بڑی اور چلتی ہوئی ہے۔ اس کی قیمت اورگُڈوِل کا مجھے اندازہ ہے۔ اس لئے میں نے اس کے بارے میں کبھی نہیں سوچا‘‘
میاں صاحب نے کہا ’’گل خان! تم جانتے ہو کہ اس دکان کو نقد فروخت کرنا میرے لئے مشکل نہیں ہے۔لیکن اگر تم خرید و گے تو مجھے ایسا لگے گا کہ دکان میرے ہی پاس ہے۔ اس لئے میں نے سوچ لیا ہے کہ دکان تمھارے حوالے کر دوں گا۔ یہ چلتا ہوا منافع بخش کاروبار ہے۔ چند سالوں میں تھوڑی تھوڑی کر کے تم اس کی قیمت ادا کر دینا‘‘
صلاح الدین صاحب ایک نیک اور محبت کرنے والے انسان تھے اس کا تو مجھے پہلے سے علم تھا ۔لیکن کاروباری آدمی ہونے کے باوجود اتنی دریا دلی کا مظاہرہ کریں گے یہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آج کے نفسا نفسی والے دور میں جہاں ایک بھائی دوسرے بھائی پر اعتماد نہیں کرتا ۔ اکثر ہم ایک دوسرے کے اعتبار پر پورے بھی نہیں اترتے ۔ اس دو ر میں ایسے انسان کم ہی ملیں گے ۔میں اس مہربان ا نسان اور ان کے اہل خانہ کے دل میں اپنے بارے میں بدگمانی کا شائبہ تک آنے نہیں دینا چاہتا تھا۔ اس لئے میں نے انہیں تجویز پیش کی’’ میاں صاحب ! آپ میرے اوپر اتنا بڑا احسان کر رہے ہیں کہ میں ساری زندگی اس کا بدلہ نہیں چکا سکتا۔ میں جانتا ہوں کہ یہ کاروباری اصولوں سے ہٹ کر میرے ساتھ آپ کی خصوصی شفقت ہے۔ میں آپ کی پیشکش میں تھوڑی سی ترمیم کرنا چاہوں گا۔ ہم اس دکان کا آج کا مارکیٹ ریٹ طے کر لیتے ہیں۔ میں یہ رقم آپ کی آفر کے مطابق تھوڑی تھوڑی کر کے ادا کر دوں گا۔ جب تک یہ رقم مکمل طور پر ادا نہیں ہوتی اس وقت تک میں اس کاروبار کے نصف کا مالک ہوں گا۔بقیہ نصف آپ کے نام پر رہے گا ۔ کاروبار کا پچاس فیصد منافع میںآپ کو ادا کرتا رہوں گا ۔ میرے قیمت ادا کرنے کے بعد آپ دکان میرے نام کر سکتے ہیں‘‘
صلاح الدین صاحب نے احتجاج کیا’’ لیکن بیٹا! میں پچا س فیصد منا فع کا حقدار نہیں ہوں ۔کیونکہ دکان تو اب تم چلاوٗ گے‘‘
’’ میاں صاحب! یہ میر ی شرط ہے۔ اگر آپ کو منظور ہے تو میں دکان لوں گا ورنہ نہیں‘‘
بالآخر صلاح الدین صاحب کو میری شرط ماننی پڑی۔ اگلے تین سال میں میں نے صلاح الدین صاحب کو دکان کی پوری قیمت بمع پچاس فیصد منافع کے ادا کر دی۔ انہوں نے دکان میرے نام کردی۔ میں نے اس دکان کے اوپر دو منزلیں اور تعمیر کروائیں۔ ایک فلور پر مردانہ، دوسرے پر زنانہ اور تیسرے پر بچوں کے ملبوسات سجائے گئے۔ پاکستانی کپڑے کے علاوہ میں نے درآمد شدہ ملبوسات بھی بیچنے شروع کر دیئے۔ میرے اسٹور پر آنے والے ہر فرد کے لئے اتنی ورائٹی موجود ہوتی کہ کوئی شخص خالی ہاتھ نہ لوٹتا۔ ہر قیمت اور ہر کوالٹی کا لباس وہاں موجود تھا۔ آہستہ آہستہ یہ دکان مشہور ہوتی چلی گئی ۔صبح سے لے کر رات گئے تک لوگوں کا تانتا بندھا رہتا۔ میر اکام دکان کے ملازمین کو کنڑول کرنا اور اشیائے فروخت کا مناسب اسٹاک جمع رکھنا تھا۔ اس سلسلے میں میں کراچی اور لاہور تو اکثر جاتا ہی رہتا تھا ، گاہے گاہے یورپ بھی جانا شروع کر دیا۔ وہاں سے جدید ترین فیشن کے ملبوسات خرید کر نہ صرف میں اپنے اسٹور پر رکھتابلکہ شہر کے دیگر کئی دکانداروں کو بھی سپلائی کرتا ۔
اب میں نہ صرف یورپ سے ملبوسات درآمد کرتا تھا بلکہ پاکستانی ملبوسات کو ان ممالک میں برآمد بھی کرنے لگا۔میں جب بھی یورپ جاتا تو یہ محسوس کرتا کہ وہاں کاروبار کی بہت گنجائش ہے۔ یورپ کے لوگوں کا طرزِ زندگی اس طرح کا ہے کہ وہ کاروبار کے لئے زیادہ وقت نہیں نکال پاتے۔ ایمسٹرڈم میں پنڈی کے ہی میرے چند دوست موجود تھے۔ شروع میں ان کی وجہ سے میں نے یہاں کا رخ کیا۔ پھر جب درآمد برآمد کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا تو میں نے یہاں اپنا آفس ، اپنا ویئر ہا وٗس اور اپنے نمائندے مقرر کر دیئے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ میں خود یہاں شفٹ ہو گیا ۔ شروع میں چند سال ملبوسات کی درآمد اور برآمد کا کاروبار جاری رکھا ۔پھر ایک بڑے شاپنگ چین میں پارٹنر شپ کر لی۔ اب یہ شاپنگ چین سو فیصد میرے پاس ہے ۔ اس کا سلسلہ نہ صرف پورے ہالینڈ میں بلکہ جرمنی، فرانس اور سوئٹزر لینڈ تک پھیلا ہواہے۔ یہ سب ا للہ کا کرم اور والدین کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ میں اپنے گاؤں کے لئے جو کچھ کر سکتا تھا ،وہ کیا ہے۔ میرے گاؤں میں ایک ڈسپنسری اور سکول میرے خرچ پر چل رہا ہے۔ لیکن یہ ناکافی ہے۔ ابھی تک وہاں کوئی سڑک نہیں بنی۔ علاوہ ازیں یہ صرف میرے گاؤں کے مسائل نہیں ہیں۔ اس علاقے میں ایسے بے شمار گاؤں ہیں جو ہماری توجہ کے مستحق ہیں ‘‘
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...