زارا دیکھ اتنے اچھے لوگ ہیں مان جا ویسے بھی اب قاسم سائیں میں کوئ برائ نہیں ہے.. زارا جی چھوٹی بہن اسے سمجھا رہی تھی
قاسم کے گھر سے رشتہ آچکا تھا زارا نے وقت مانگا تھا سو چھوٹی بہن سمجھانے لگی
مگر میں شادی نہیں کرنا چاہتی تم جاؤ یہاں سے اب مجھے ذیادہ تنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے بچی ہو بچی بن کر رہو .زارا نے غصے سے پہلو بدلہ
حد ہے بھئی بھلائ کا تو زمانہ ہی نہیں ہے. چھوٹی بہن منہ بسور کر نکل گئی
زارا سوچ میں پڑ گئ
بھائ بھی نہیں ہے وہ ہوتا تو کتنی ڈھارس بند جاتی.. زارا نے بھیگی آنکھوں کے گوشے انگلی کے پورو سے صاف کیۓ
………….😍😍
اماں آپ کیوں ایسے لوگوں کو گھر میں گھسنے دیتیں ہیں.. نورین کو پریشان دیکھ کر نیلم نے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس کے باپ نے جو زمین پر قبضہ کیا تھا اس کا اصلی مالک آج پھر دھمکی دے گیا ہے
کیا کروں تمارے ابا کے کارناموں کی وجہ سے سہنا پڑتا ہے.. نورین نے گلوگیر لہجے میں کہا
اچھا آپ اداس نا ہوں پھر آیا تو میں دیکھ لوں گی ویسے اگر ہوسکا تو اس کی زمین کے کاغذات واپس کردوں گی تاکہ واپس نا آۓ
نیلم نے نورین کے گرد بانہیں پھیلا کر لاڈ سے کہا
اچھا چل ٹھیک ہے جا نماز پڑھ.. فجر کا وقت گزرنے والا تھا سو جلدی سے کہا
…………😍😍
میراج بیٹا آج اپنی دلہن کو ہمارے ساتھ ناشتہ کروانے لے کر آنا..
میراج فجر پڑھنے کے بعد دادی سے سلام کرنے آیا جب دادی نے یہ بم میراج کے سر پہ پھوڑا
وہ دادی بہت شرمیلی ہے وہ ہم سب کے ساتھ بیٹھ نہیں پاۓ گی.. میراج نے جلدی سے بہنا گڑھا
بیٹا کچھ نہیں ہوتا آج وہ ہمارے ساتھ ہی ناشتہ کرے گی جاؤ اسے جگا کر لاؤ.. دادی نے تحکمانہ لہجے میں کہا
میراج حد درجہ پریشان ہوا
……………😍😍
کمرے میں کوئ نہیں تھا کمبل میں چھپا وجود بھی نہیں دکھ رہا تھا
دروازہ کھلا اور پھر لاک کرنے کی آواز آئ جس پر کمبل میں ہلکی سی حرکت ہوئ
بھاری قدموں کی آواز چلتے چلتے بیڈ تک آئی
اٹھ جاؤ نا ماۓ بیبی …میراج نے لاڈ سے کمبل میں گھسے ہوئے وجود کو کھنچ کر پاس کیا
سونے دو نا کیا مصیبت ہے.. کمبل کے اندر سے آواز آئ
نہیں سونے نہیں دوں گا اب اٹھنے کا ٹائم ہے.. میراج نے شفا کے برابر بیٹھ کر کمبل کھینچنے کی کوشش کی شفا پہلے سے الرٹ تھی سو کوشش ناکام ہو گئ
شفا آپ سے دادی ملنا چاہ رہیں ہیں.. میراج نے شفا کے پاس لیٹتے ہوۓ بتایا
شفانے پٹ سے آنکھیں کھولیں.. سچی بتاؤ… شفا نے پرجوش انداز میں پوچھا
ہاں جی سچی آپ کو یقین نہیں کیا.. میراج نے حیرت بھرے لہجے میں کہا
اچھا چھوڑیں مجھے یہ حویلی دیکھنی ہے اور آپ کی فیملی سے بھی ملنا ہے اففف آئ أیم سو اکسائٹڈ ..
شفا میراج کی بانہوں میں کسماکانے لگی
میراج نے گالوں کو چوم کر آذادی دے دی
……………….
کھانے کی میز پر کسی نے کوئ بات نا کی جبکہ شفا تو خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھی
کھانے کے بعد میراج نے دادی کے کان میں سرگوشی کی پھر دادی اپنے کمرے میں چلی گئی
میں آتا ہوں تم سب سے باتیں کرو اوکے. .شفا کو دلاسہ دے کر دادی کے کمرے کی جانب بڑھا
……………
دادی آپ حیران نہیں ہوئیں کہ شفا معذور ہے آپ نے اور گھر والوں نے تو کوئ بھی تاثر نہیں دیا کیوں… میراج نے دادی کو عجیب نظروں سے دیکھا
مجھے پہلے سے پتہ تھا کہ وہ لڑکی معذور ہے.. دادی نے دھیرے سے کہا
مگر کیسے آپ کیسے شفا کو جانتی ہیں آپ کو میری قسم سچ بولیں آپ.. میراج نے حیرت اور تکلیف سے بھرے لہجے میں کہا
سنو پھر تحمل سے…..
بڑی مالکن وڈیرے نے تو ایک لڑکی کو معذور کروادیا ہے.. اللہ دتا نے دکھ سے بتایا
اچھا مجھے اس بچی کے بارے میں پوری تفصیل لا کردو.. اور جو کام تمہیں کرنے کو کہا تھا وہ آج ہی پورا کرو… رعب سے کہا
جی مالکن جی …واپس جاتے ہوئے کہا
دو دن بعد…….
مالکن جی سائیں بچ گیا ہے… فون پر دکھ سے کہتے ہوئے اللہ دتا کی آواز لرز گئی
اسے پتہ تھا شاہنواز کا بچنا اس کی ذندگی کے لئے کتنا خطرناک ہو سکتا ہے
تم فکر نا کرو اللہ دتا ہسپتال کا پتہ دو مجھے…
وہ بڑی مالکن بات کاٹ رہا ہوں پر آج ہی شاہنواز سائیں نے اس بچی کے والدین کا ایکسیڈنٹ کروایا ہے دونوں کی وفات ہوگئی ہے…. اللہ دتا نے بوڑھی جھریوں ذدہ آنکھوں کو کندے پہ پڑے رومال سے صاف کرتے ہوئے کہا
………..😞😞
پورے گاؤن میں یہ بات پھیل گئی تھی کہ شاہنواز مر چکا ہے سب دل ہی دل میں بہت خوش تھے مگر کوئ اظہار نہیں کر رہا تھا
یہ گاؤں والوں کو بتا دو شاہنواز ذندہ ہے مگر ہسپتال میں ہے… نورین نے ڈھاڑیں مار کر روتے ہوئے کہا
شاہنواز اور نورین کی لو میرج تھی مگر شاہنواز کی رنگین طبیعت کی وجہ سے اکثر ناراضگی رہتی تھی
………………
آج شاہنواز کوڑ کے مرض میں مبتلا ہوچکا ہے ہم اس کا خیال رکھتے ہیں مگر وہ کوڑ کے مریضوں والے ہسپتال میں ہوتا ہے… آخر میں دادی کی آواز بھرا گئ
آپ کو یہ سب کب سے پتہ تھا.. میراج نے سرد لہجے میں پوچھا
بہت پہلے سے میں تمہیں دکھی نہیں کرنا چاہتی تھی ..دادی نے میراج کے ماتھے کو چوم کر کہا
آپ مجھ سے ایک وعدہ کرو گی.. میراج نے معصوم بچوں کی طرح پوچھا
ہاں میرا بچہ.. دادی نے پیار سے جواب دیا
آپ یہ بات کبھی شفا تک نہیں پہنچنے دیں گی کسی بھی طرح شفا کو پتہ نہیں چلنا چاہئے بعد میں جب بہت سارے سال گزر جائیں گے شفا میچور ہوجاۓ گی میں خود اسے بتاؤں گا
میراج نے دادی کے ہاتھوں میں دبے اپنے ہاتھوں کو دیکھ کر کہا
یہی ہے زندگی انسان کی سوچ سمجھ سے کئ گنا آگے کل تک شاہ نواز خود کو سب کچھ سمجھ رہا تھا اور آج ناجانے کس کس مظلوم کی بدعا کو سہہ رہا تھا
شفا جو خبصورتی کی مورت تھی بے عیب تھی اسے دیکھ کر لوگ رشک کرتے تھے اور آج اس مورت میں عیب تھا وہ خوش تھی میراج کے سنگ مگر معذوری انسان کو کہیں نا کہیں تکلیف ضرور دیتی ہے
……………..😍😍
شفا اور میراج کی شادی کے ساتھ ہی قاسم اور زارا کی بھی تاریخ رکھ دی کچھ دن کے فرق سے دو شادیوں نے حویلی کی کھوئ ہوئ رونق لوٹا دی
شفا آج دلہن بن کر میراج کے دل کے تار چیڑ رہی تھی جبکہ کے میراج کے برعکس شفا کے دل کو آج سکون مل چکا تھا
جب ہسپتال کے ایک کمرے میں اس نے اپنے والدین کے قاتل کو موت کی تکلیف میں دیکھا اور اپنا ایک سالہ آنسوؤں کا سیلاب بہا کر نیلم کا شکریہ ادا کیا
یہی ہے زندگی ہماری سوچ سے کئ آگے شفا نے زیرے لب کہا
کچھ کہا کیا.. میراج نے شفا کو دیکھ کر پوچھا
نہیں تو… شفا نے دھیرے سے اسٹیج پر اپنے پہلوں میں بیٹھے میراج کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا
………………….😍😍
نیلم نے جب زمینوں کے مالک کو دیکھا تو جلدی سے کاغذات لے کر آئ
ناصر نے کاغذات لے کر اس پیاری سی لڑکی کا دل سے شکریہ ادا کیا
اب آگے تو آپ خود سمجھدار ہو میرے کہنے کی کیا ضرورت ہے
…………………
اب چلو شفا میڈم خراٹے لینے میں مصروف ہیں میراج نے کانوں پر ہاتھ رکھے ہوۓ ہیں
😂
ختم شدہ