جہاں ایک دن میں اتنی تیزی سے اتنا سب کچھ ہوگیا تھا وہی ایک ہفتے ایسے لگا جیسے کچھ بھی نہ ہوا ہو وہی روٹین وہی کام دھندا وہی سونا وہی کھانا بس فرق یہ تھا معید کے گھر میں ایک اور فریق آگیا تھا وہ تھی اس کی بیوی زارا جو بالکل گھر میں ایسی تھی جیسے کوئی گھر میں بڑی ائیٹم نا اس دن سے معید نے اس سے بات کی نہ ہی زارا کو کہنے کی ہمت ہوئی وہ کوشش کرتی لیکن معید آفس کے لیے نکل جاتا اور رات کو بہت دیر سے آتا زارا نے رات کو جاگ کر بات کرنی کی کوشش کرتی لیکن معید سرد مہری سے چُپ کروا دیتا کے گھر میں رکھ رہا ہو اتنا کافی ہے اس سے زیادہ مزید توقع مت رکھنا وہ کہتا نہیں تھا اس کی نظریں سب جواب دیں دیتی شروع میں وہ کمرے میں رہتی لیکن سنڈے والے دن اس نے سوچا معید سے اپولجائیز کر لے اور وہ اُٹھ کر اس کے لیے کچھ بنانا کا سوچ رہی تھی کے سامنے اس کی سوکن کرم جلی آگئی زارا کا تو لو کھول اُٹھا یہ معید کو سب سے قمیتی شہہ تھی ہر وقت یا تو اس کے کمرے میں اس کے ساتھ سوتی یا پھر اس کی گود میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھتی اور معید جان بوجھ کر اس کو اپنے ساتھ رکھتا کے زارا اس کے پاس نہ آگئی ابھی وہ زارا کے راستے میں حائل تھی اور زارا کا دل کیا اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں
“اے بھاگو یہاں سے ۔”
بھلا ایبی کو کہاں سمجھ آنی تھی
“میں کہہ رہی ہو نا جاو یہاں سے ۔”
اب وہ دھاڑی ایبی کو کہاں پروا تھی وہ اپنی نیلی آنکھیں دکھا کر اِدھر اُدھر گھوم رہی تھی زارا کو لگا وہ اسے تنگ کررہی ہے وہ بھی جان بوجھ کر زارا نے پیروں سے فٹ بال سمجھ کر اس کو کک ماری اور ایبی صاحبہ تھری سکسٹی سنٹیگریڈ بل کھاتی الماری کو جا کر لگی اور دھڑم کر گری زارا ایک دم شاکڈ ہوگئی ہائے کہی مار تو نہیں دیں معید تو مار دیں گا اسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ڈرتے ڈرتے آگئے آئی کے ابھی جنبش کریں گی لیکن وہ مہنوس ماری نہیں ہلی
“اللّٰلہ اُٹھوں بھئی اُٹھو ۔”
سڑھیوں سے آواز آئی اب کیا کریں معید تو گلا دبا دیں گا پھر ایک دم خیال آیا وہ بیوی ہے جبکہ یہ جنم جلی بلی اس سے زیادہ اہم نہیں اس نے سر جھٹک کر فریج کھولنے لگی اور جوس کا ڈبہ نکالا تو معید سیلیپنگ کپڑوں کے بجائے بلیو سوٹ میں نیوی بلیو شرٹ کے ساتھ گلاسس پہنی تھی اس کی نظر کب کمزور تھی وہ اپنی فائل دیکھ رہا تھا اس لیے بے ہوش یا مری پڑی ایبی نہ دیکھ سکا وہ اتنا ہینڈسم لگ رہا تھا کے بے اختیار زارا کا دل کرا جس طرح سوچا تھا اس سے کہی زیادہ اس کا شوہر پیارا تھا وہ پانی کا گلاس سامنے پڑے جگ میں ڈال رہا تھا جب زارا نے جوس ڈال کر اسے دیا
“اسلام و علیکم !۔”
معید نے سر نہیں اُٹھایا اور واٹس ایپ پہ ڈیزائن ڈسکس کررہا تھا اور ساتھ ساتھ اس کی نظر فائل پر تھی
“آج سنڈے آپ کہاں جارہے ہے میں آپ کے لئے ناشتہ بنانے لگی ہو ۔”
زارا نے اس کے رولیکس پہنے ہاتھوں کو چھوا معید نے ہاتھ کھینچا نہیں بس مصروف دکھتا رہا
“معید میں آپ سے بات کررہی ہو ۔”
وہ پیار سے بولی رشتے مجبور کرواتے تھے آپ اپنے آپ کو بدلے یہ اسے دو بولوں نے مجبور کیا تھا
“سُن رہا ہوں میں ۔”
“پریشان ہورہی ہوں میں ۔”
وہ گانے کے انداز میں بولی معید نے ایک نظر اسے دیکھا بلیو شلوار قمیض جو معید پرسوں اس کے دیے ہوہے اڈریس سے سامان لیے آیا تھا اس میں قیامت ہی تو ڈھا رہی تھی بال اس کے نہانے کے باعث نم تھے جسے اس نے لپیٹا تھا توبہ ایک تو اس کی بال لپیٹنے سے اسے چڑ تھی نظر گھما کر اس طرف دیکھنے لگا جب زارا نے اس کی ٹائی پکڑ لی اور اسے ٹھیک کرنے لگی
“آپ بہت ہینڈسم لگ رہے ہیں ۔”
وہ زارا کے ایک دم فری ہونے پہ حیران ہوگیا اور پھر اس کے کہنے پہ طنزیا مسکرایا
“فواد خان سے تو کم ہی لگ رہا ہوگا ۔”
زارا مسکرائی اور اس کی شیو کو چھونے لگی
“میرے شوہر سے زیادہ خوبصورت تو نہیں ہوسکتا ۔”
اب معید اور سپرائزڈ ہوگیا لیکن اتنا نہیں اتنا تو وہ جان گیا تھا کے زارا کا دل پگھل گیا ہے لیکن اس کا تنگ کرنا تو حق بنتا ہے ۔”
وہ زارا کو الگ کر کے مڑا
“چلتا ہو۔”
وہ ایک دم رُک گیا گری ہوئی ایبی کو دیکھا زارا کئ تو سانس رُک گئی
“ایبی ڈیڈی ائز ہیر ۔”
ایبی صاحبہ اپنے محبوب کی آواز سُنتے ہی انگڑائی لی اور اپنے آنکھیں کھولی زارا کی جسم میں جان آئی لیکن ساتھ میں اس نیلی آنکھوں والی سوکن پہ تپ بھی آئی
“ارے ایسے کیوں لیٹی ہو کم ہیر ۔”
وہ اُٹھی لیکن پھر گر گئی اب زارا کو لگا اب گئی ٹانگیں تو لازمن ٹوٹ گئی ہوگی معید اس کے پاس جانے لگا تھا جب زارا نے اس کا بازو پکڑا اور اپنی طرف موڑا اور دو بازو اپنے کمر پہ لیے گی
“آپ مجھ سے زیادہ اس بلی کو کیوں توجہ دیتے ہیں پتا بھی ہے آپ بیوی کے حقوق سے نظر چُرا رہے ہیں ۔”
وہ بڑے ناز سے بولی اب بھئی ہزار ناولز اور ڈراموں کو دیکھ جر بھی آپ اپنے میاں کو پیار سے نہ منائے اور ڈائیلوگ نہ مارے تو بھائی اللّٰلہ ہی حافظ ہے پھر آپ کا
معید پہلے اسے دیکھتا رہا پھر ہاتھ ہٹانے لگا زارا نے اس کی گردن پہ اپنے بازو حمائل کیے
“غصے میں کہا تھا اتنا بھی کوئی سریس لیتا ہے بندہ ایسے تو نہ کریں ۔”
“گاڈ زارا تم بہت چیزی ہو ۔”
معید اس کا ہاتھ جھٹک کر چلا گیا
“اُف اور جو آپ اس کرم جلی کو پیار سے بلاتے رہتے ہیں وہ چیزی نہیں ہے توبہ توبہ اللّٰلہ معاف کرے ۔”
“ڈونٹ کال ہر کرم جلی ۔”
وہ غصے سے بولتا ایبی کو اُٹھا چکا تھا اور اسے پیار کرنے لگا پتا نہیں زارا کو کیوں اپنے بے وقتی کا احساس ہوا کے ایک جانور سے بھی کمتر ہے معید کے لیے ہاں معید کی موجود ہر شہے سے بھی وہ کم تر یہ بات مان لو زارا
دل میں آگ لگ چکی تھی اور پورے جسم میں پھیلنے میں زرا بھی دیر نہیں لگی اپنی نم آنکھوں کو چھپاتی وہ تیزی سے بھاگی اور کمرہ زور سے بند کردیا
※※※※※※※※※※※※※※※※
“تم بھی نا زارا ایسے کوئی مناتا ہے بھلا ۔”
مائرہ اس کے ساتھ واک کررہی تھی جب زارا کی بات سُنتے ہوئے بولی
“یار اب ٹائی بھی ٹھیک کی ہاتھ لگایا پیار سے فیس بھی بنایا ڈآئیلوگ بھی مارے لیکن یہ تو سڑا ہوا کریلا
اب امامہ کا طریقہ سمجھ میں آیا زیادہ بھاؤ نہ دو مرد کو تو وہ آپ کے قدموں میں ہوتے ہیں ۔”
“کون امامہ ؟۔”
مائرہ نہیں سمجھی
“میرے تیرویں کرش کی محبت ہائے سلار جیسا شوہر مل جاتا خوبصورت نہ سہی لیکن جان لٹا دینے والا ہوتا ۔”
زارا منہ میں ببل گم ڈالتے ہوئے بولی
“توبہ ہے زارا اب تو ناول کی دُنیا سے باہر آجاو اب تمھارا جو کوئی بھی ہے تو وہ ہے صرف معید ۔”
“جانتی ہو بٹ کیا کرو جو مزا ناولز کے رومینس میں ہے وہ ریل لائف میں نہیں ۔”
“اُف لڑکی ٹاپک پہ آو اب بتاو اپنے ڈکٹیٹر شپ والے ہزبنڈ کا کیا کرنا ہے ۔”
“پہلے تو خدا کا واسطہ ہے میری طرف سے اس کو کوئی کیڈنیپ کردوں یا ماردوں قسم سے ایسی کمینی چیز ہے دل کرتا ہے اس کی نیلی بنٹون جیسی آنکھیں نکال کر گوٹیا کھیلیوں ۔”
“اُف تم تو بہت ہی خطرناک ہو اور بہت ہی پوزیسو ۔”
زارا نے رونی صورت بنا لی پھر آئیسکریم سٹال دیکھا تو بولی
“بھائی ایک آئیسکریم تو دوں لو پوشن دینا اس کرم جلی کو سوچتے ہوئے میرے دل کو آگ لگ گئی ہے شادی مجھ سے کی ہے پر پیار اس اس ڈائن کی اولاد کو ۔”
اُف ناقابلِ برداشت صدمہ زارا اور اس کی سوکن کی کہانی
“کام ڈاون زارا وہ تو ایک پیٹ ہے اور تم زرا اچھے اچھے کپڑے پہنا کرو تیار ہوا کرو اس کے لیے کافی بنایا کرو اس کی گود میں بیٹھ جاو کرو ۔”
“ہاں پھر جاکر وہ بولے ایبی کم ٹو ڈیڈی اور وہ ***** اس کے باہوں میں سما جائے ۔”
مائرہ قہقہ لگا کر ہنس پڑی
“توبہ ہے توبہ آو زرا خریداری کرواتی ہو پھر کچھ ہوگا ۔”
وہ اسے کھینچتی ہوئی سامنے ایک مال میں لیے گی
اِدھر دیکھا معید تھا لیکن معید اکیلا نہیں اس کے ساتھ ایک لڑکی تھی خوبصورت لمبی سی ایک تو معید کی دوستیں لمبے منہ والے کیوں نکلتی ہے وہ اس کے ساتھ کھڑا واچ سلیکٹ کررہا تھا اور وہ بھی لیڈیز یہ مال کے انٹر ہوتی ہی پہلی شاپ تھی جس کا نام زارا اوپر بورڈ پڑھنے کے بعد منہ کھل گیا Dior اُف اسے پتا تھا وہ شخص امیر ہے اور برینڈ سے کم کوئی چیز نہیں لیتا ایک تو وہ تھی ایل مارکٹ سے پہنے والی اور اُدھر سے ڈھیر ساری شاپنگ اماں نے کرا کر اسے یہاں بھیجا تھا آنسو فورن کسی گن سوٹ کی طرف فورن آنکھوں میں شوٹ ہوئے اور نکلنے کے لیے بیتاب تھی وہ مڑی تو مائرہ نے روکا
“کہاں جارہی ہو ؟ زارا ۔”
زارا رُکی نہیں بھاگتی چلی گئی پھر رُکی اسے نے دیکھا اس کے ہاتھ میں ائسکریم وہ زارا ہی کیا جو اپنی بڑھاس نہ نکالے وہ مڑی اور تیزی سے چلتے ہوئے ڈائیور کی شاپ کی طرف بڑھئ وہ اس لڑکی کو واچ پہنا کر کر چیک کررہا تھا زارا نے دروازہ کھولا اور چلتے ہوئے معید کا بازو پکڑا معید ایک دم حیرت سے مڑا اس نے دیکھا زارا کھڑی تھی
“تم !۔”
“ہاں میں یاد آگئی ۔”
زارا نے کہتے ہوئے آئیسکریم اس کی منہ پہ ماری
“بڑی بڑی باتیں کے میں ہوس کا مارا نہیں ہو بلا بلا شاہ رخ خان بنے کی بھر پور کوشش کی لیکن سوری میں کوئی ویر زارا والی زارا نہیں ہو جو تمھارے گُڈ لُکس میں مار مٹ کر تمھاری ڈائیلوگ بازی پہ پاگل ہوجاو گئ ۔”
وہ کہتے ہوئے چل پڑی اور معید منہ کھولے اسے دیکھ رہا تھا
“ایک تو میں اس کے لیے بنے سنورنے ،اس کو قائل کرنے کی تیاری کررہی ہو اور یہ چڑیل کو گھڑی پہنا رہے ایک سوکن کم تھی وہ کرم جلی اور یہ دوسری ۔”
***********************
اس طرح یہ بھی ہفتہ زارا کئ بیگانگی میں گزر گیا وہ کمرے سے تب نکلتی جب معید لاونج میں موجود نہ ہوتا کہی ایسا ہی نہ ہو معید گھر سے باہر نکال دیں اتنا تو اسے تھا کے وہ اب معید سے الگ نہیں ہوسکتئ لیکن قسمت کو شاہد نہ منظور تھا وہ اپنی کافی بنا کر کچن سے نکلنے لگی جب اسے معید کی آواز آئی
“پیپرز ریڈی ہوگئے چلو اچھی بات ہے نہیں میں نے بات کی تھی وکیل سے کیوں نہیں ہونے تھے اب بس سارے کام ہوگئے ہے انفورم کردینا انھیں میری بات نہیں ہوتی اس سے ٹھیک ہے اوکے ۔”
وہ انگلش میں تیزی سے کہتا لائونج میں آگیا زارا وہی ٹہر گئے
“پیپرز کہی ڈائیورس کے تو نہیں اللّٰلہ اور وہ کہہ رہا تھا انفورم اسے کردوں کیونکہ اس سے بات نہیں ہورہی یانی مجھ سے بات نہیں ہورہی ۔”
معید کچن میں آیا اور زارا تیزی سے وہاں سے چلی گئی اس نے مڑ کر دیکھا پھر کندھے اچکاتے ہوئے چل پڑی
******************
اس نے ٹرین کا انتظار کیا یہ ٹرین میلبورون سے سڈنی جارہی تھی گو کے وہ ابھی بھی پکڑی جاسکتی لیکن اسے کوئی پروا نہیں تھی معید سے دوری برداشت ہوسکتی تھی لیکن اپنے نام سے اس کے نام سے الگ ہونا ناقابل برادشت تھا اپنے آنسو پونچھتی رات کو ہی فیصلہ کر چکی تھی یہاں سے چلی جائے اور رات کو پیکنگ کرتے ہوئے وہ صبح ہی صبح آٹھ بجے نکل پڑی
اور ابھی بیٹھی ٹرین کا انتظار کررہی تھی جب سوچتے ہوئے پتا چلا کے وقت ہوچکا ہے تو وہ اپنا سامان اُٹھاتی آگئے بڑھی
***********************
معید نے دروازہ کھولا اور بیگ اُٹھایا اور بولا
“آئے انٹی آپ کو دیکھے گی نا تو خوشی سے پاگل ہوجائے گی ۔”
وہ زارا کی ماں کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اندر داخل ہوا
“ماشااللّٰلہ گھر تو بہت خوبصورت بس زارا سے شکوہ ہے کے مجھے بتات دیتی اتنی نصیبوں والی نکلی خدا تمھیں خوش رکھے بیٹا ۔”
وہ بہت مشکور نظروں سے معید کو دیکھ رہی تھی “میں بلاتا ہوں زارا کو زارا زارا ۔”
وہ اندر کمرے میں ناک کرنے لگا اور کھولا تو دروازہ کھل گیا “زارا زارا !۔”
وہ مڑنے لگا جب اس نے ٹی وی پر سٹکی نوٹ دیکھا
اور تیزی سے اُٹھایا
“میں واقی آپ کے قابل نہیں ہو معید میں آپ کی زندگی سے جارہی ہو آپ بیشک دوسری شادی کر لے لیکن مجھے ڈائیورس نہ دیں ۔”
اتنے یہ تین جمعلے تھے جبکہ معید کا دماغ بھگ سے اُڑھ گیا زارا چلی گئی
****************
وہ سیٹ پہ سر ٹکا کر آنکھیں موند چکی تھی کہہ تو دیا تھا کے معید سے الگ رہ پائے گی لیکن اس دل کا کیا کریں جو معید کی محبت میں ایک دریا بن گیا تھا اور یہ دریا تو بڑھتے بڑھتے انسان محبت سے عشق کی سٹیج پہ چلا جاتا ہے ناکہ وہ محبت کا خاتمہ ہوتا محبت کے خاتمے سے مراد دل کا ہی خاتمہ ہے کیونکہ یہ دل جتنی طاقت رکھتا ہے اتنی ہی کمزور ہے جو ٹوٹنے سے بکھر جاتا ہے ۔
زارا شیشے کے پاڑ دیکھنے لگی اب وہ معید سے دور ہوجائے گی بہت دور
“ٹکٹ میڈیم ۔”
زارا آواز سے چونکی او ہاں اس نے ٹکٹ دینا تھا بیگ سے ٹکٹ نکال کر اس نے بغیر دیکھے دیں دیا
“ٹکٹ میڈیم ۔”
وہ لیتے ہوئے پھر بولا
“او ہو دیں دیا ہے میں نے ۔”
وہ چڑ کر بولی
“دل کا تو ٹکٹ رہتا ہے میڈیم ۔”
وہ اس آواز پڑ چونکی اس نے معید کو دیکھا جو مسکراتے ہوئے کھڑا ٹوپی اُتار رہا تھا
“م مم معید ۔”
“ز زارا ۔”
وہ اب گھٹنے کے بل بیٹھ گیا
“تم نا بیوقوف تو تھی اور سدا کی جزباتی لیکن حد درجے کی پاگل یہ میں نے آج جانا سٹوپڈ لڑکی تم سمجھی میں تمھیں ڈائیورس دیں رہا تھا ۔”
وہ اس کا ہاتھ پکڑنے لگا تو زارا نے جھٹکا
“تم وکیل سے بات کررہے تھے اور کہہ رہے تھے پیپرز تیار ہیں وہ کیا تھا ۔”
“میری گل بیگم آپ کو پہلے بھی کہا تھا اب جزباتی اور بیوقوف کے ساتھ پاگل بھی ہے تو وہ پیپرز آپ کی مدر کے تیار کیے تھے وہ یہاں آجائے اور آپ کی امی کو لینے گیا تھا گھر میں موجود آپ کا انتظار کررہی تھی لیکن ان کی بیٹی تو اپنے شوہر کو ہی چھوڑ کر جارہی تھی ۔”
زارا کا منہ کھل گیا تھا جب معید نے ٹھوڑی سے اس کا منہ بند کیا
“ا اا می ۔”
“ایک تو یہ ہکلاتے کیوں ہو ااا اامئ ممم معید ۔”
وہ اس کا مزاق اُڑانے لگا
“زارا نے منہ بنایا ۔”
“جائے یہاں سے ایک تو مجھے دو ہفتے سے اگنور کیا اوپر سے اس لڑکی کو گھڑی لیکر دیں رہے تھے اور ہر وقت اس کرم جلی کو اپنے باہوں میں لٹائے توبہ مجھے نہیں چاہئے ایسا بٹا ہوا شوہر ۔”
معید اس کی بات سُنتے ہی قہقہہ لگا کر ہنس پڑا لوگ اس کے قہقہے سے متوجہ ہوئے
“توبہ ایک بلی سے جیلسی وہ تمھاری رقیب نہیں ہے زارا وہ ایک بلی ہے میری اکیلے پن کی ساتھی میرا کوئی نہیں تھا میری ممی نے دوسری شادی کر لی تھی جب میں ٹین ایج تھا اس وقت تو کوئی نہیں تھا جب پانج سال بعد ایبی مجھے سڑک میں ملی وہ اس وقت زخمی تھی اور تمھیں تو پتا ہے کتنا میں ہمدرد انسان ہو بس پھر اس کو ساتھ لیے آیا اب چار سال سے میرے ساتھ ہے اس وقت اتنے سے تھے اب دیکھو میری محبت میں کیسی ہے اور اپنے آپ کو دیکھ لو ۔”
زارا نے اپنے اتنے خوبصورت دل کے مالک کی شوہر کو دیکھا سارے گلے شکوے ایک منٹ وہ گھڑی وہ کچھ بولنے لگی کے معید نے خوبصورت گولڈ کی گھڑی ڈائیور کی اس پہنائی
“لوگ عموماً انگھوٹی پہناتے ہیں لیکن میں چاہتا ہوں جب تم گھڑی میں وقت دیکھو تو ہر پل ہر سکینڈ ہر منٹ میرا ہی خیال ہے ۔”
اس نے زارا کے ہاتھ چوم لیے زارا بے ہوش ہونے کو تھی
“اب چلے آپ کی امی پریشان ہورہی ہوگی ۔”
“نہیں !۔”
زارا نے پھر انکار کیا اب معید نے گھورا
“اب کیا ہے محترمہ !۔”
“تم نے فلمی سٹائل میں میرے لیے گانا نہیں گایا اور پروپوز بھی نہیں کیا ۔”
معید پہلے اسے دیکھتا رہا پھر اِدھر اُدھر دیکھا ایک لڑکی کے ہاتھ میں گیٹار تھا وہ چلتے ہوئے بڑھا
“اکسکیوزمی کین آئی ہیو اٹ فور ا منٹ ۔”
لڑکی نے سر اُٹھایا اور معید کا خوبصورت چہرہ دیکھا ہائے وہ بھلا کیوں نہ دیتی
“یا شیور ۔”
“تھینک یو ۔”
“فور یو زارا ۔”
معید نے گیٹار لیکر زارا کی طرف اشارہ کیا زارا حیران ہوگئی وہ اتنا سریس ہوجائے گا
ایڈ شیرن کا پرفیکٹ کے گانے میں وہ اپنی خوبصورت آواز بکھیرنے لگا
I found a love for me
Darling just dive right in
And follow my lead
Well I found a girl beautiful and sweet
I never knew you were the someone waiting for me
‘Cause we were just kids when we fell in love
Not knowing what it was
I will not give you up this time
And in your eyes you’re holding mine
Baby, I’m dancing in the dark with you between my arms
Barefoot on the grass, listening to our favorite song
When you said you looked a mess, I whispered underneath my breath
But you heard it, darling, you look perfect tonight
Well I found a woman, stronger than anyone I know
She shares my dreams, I hope that someday I’ll share her home
I found a love, to carry more than just my secrets
To carry love, to carry children of our own
We are still kids, but we’re so in love
Fighting against all odds
I know we’ll be alright this time
Darling, just hold my hand
Be my girl, I’ll be your man
I see my future in your eyes
تالیوں کی آواز گونجی اور کچھ کی آنکھوں میں آشک آگئے
معید نے گیٹار واپس کیا
”کوئ اور ڈیمانڈ زارا
وہ دور کھڑا اس سے پوچھ رہا تھا زارا نے منہ پہ ہاتھ رکھا اور اپنی آنسو بھری آنکھوں سے بھاگتے ہوئے معید کے پاس بھاگی اور اس کے گلے لگ گئی تالیوں کی اواز مزید ٹرین میں گونجی اور زارا اور معید کی لو سٹوری کا ہپی اینڈ ہوگیا۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...